Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

2۔ 1 ایمان میں اگرچہ وحی محمدی یعنی قرآن پاک پر ایمان لانا بھی شامل ہے لیکن اس کی اہمیت اور شرف کو مزید واضح اور نمایاں کرنے کے لئے اس کا علیحدہ ذکر فرمایا۔ 2۔ 2 یعنی ایمان لانے سے قبل کی غلطیاں اور کو تاہیاں معاف فرما دیں جیسا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بھی فرمان ہے کہ اسلام ماقبل کے سارے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔ (صحیح الجامع الصغیر الالبانی) 2۔ 3 بالھم کے معنی امرھم شانھم حالھم یہ سب متقارب المعنی ہیں مطلب ہے کہ انہیں معاصی سے بچا کر رشد و خیر کی راہ پر لگا دیا ایک مومن کے لیے اصلاح حال کی یہی سب سے بہتر صورت ہے یہ مطلب نہیں ہے کہ مال و دولت کے ذریعے سے ان کی حالت درست کردی کیونکہ ہر مومن کو مال ملتا بھی نہیں علاوہ ازیں محض دنیاوی مال اصلاح احوال کا یقینی ذریعہ بھی نہیں بلکہ اس سے فساد احوال کا زیادہ امکان ہے اسی لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کثرت مال کو پسند نہیں فرمایا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢۔ الف ] آپ کی بعثت کے بعد سب کو آپ کی نبوت پر ایمان لانا ضروری ہے :۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اور قرآن پر ایمان لانے کا خصوصی طور پر ذکر فرمایا۔ وجہ یہ ہے کہ مدینہ میں کچھ ایسے یہود موجود تھے جو ایمان بالغیب کی جملہ جزئیات پر ایمان رکھتے تھے اور نیک اعمال بھی بجا لاتے تھے۔ انہیں متنبہ کیا گیا ہے کہ اب سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) پر اور تورات پر ایمان لانا سود مند نہ ہوگا۔ وجہ یہ ہے کہ سابقہ تمام انبیاء کی شریعت علاقائی یا قومی بھی تھی اور عارضی بھی۔ جبکہ رسول اللہ سارے جہاں کے لیے اور تاقیام قیامت رسول ہیں۔ اسی طرح قرآن بھی جملہ اہل عالم کے لیے ایک تاقیام قیامت ہدایت کا ذریعہ ہے۔ لہذا اب ایسے یہود کو بھی سیدنا محمد قرآن پر ایمان لانا ہوگا۔ - خ سیدنا عمر کا تورات کے اوراق پڑھنا :۔ اس مفہوم کی وضاحت اس حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ ایک دفعہ سیدنا عمر تورات کے چند اوراق لائے اور رسول اللہ کے سامنے بیٹھ کر پڑھنے لگے جوں جوں سیدنا عمر پڑھتے جاتے آپ کا چہرہ متغیر ہوتا جاتا تھا۔ سیدنا ابوبکر صدیق (رض) نے سیدنا عمر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا : تمہیں گم کرنے والیاں گم پائیں کیا تم رسول اللہ کے چہرہ کو نہیں دیکھتے ؟ سیدناعمر نے جب آپ کے چہرہ کی طرف دیکھا تو کہنے لگے کہ میں اللہ سے اور اس کے رسول کے غضب سے پناہ پکڑتا ہوں۔ ہم اللہ کے پروردگار ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نبی ہونے پر راضی ہیں اس پر رسول اللہ نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے۔ اگر آج خود موسیٰ ظاہر ہوجائیں اور تم مجھ کو چھوڑ کر اس کی پیروی کرو تو سیدھی راہ سے گمراہ ہوجاؤ گے اور اگر سیدنا موسیٰ آج زندہ ہوتے اور میری نبوت کا زمانہ پاتے تو انہیں میری اتباع کے سوا کوئی چارہ کار نہ ہوتا (دارمی بحوالہ مشکوٰۃ۔ کتاب الاعتصام بالکتاب والسنتہ۔ فصل ثالث)- [٣] یعنی کافروں اور ان کی معاندانہ سرگرمیوں کے مقابلہ میں اللہ پر، سیدنا محمد پر اور قرآن پر ایمان لائے۔ اور نیک اعمال بجا لاتے رہے۔ کافروں کا ظلم و ستم سہتے رہے، صبر اور برداشت سے کام لیتے رہے۔ اللہ ان کی سابقہ کو تاہیاں اور قصور معاف فرمادے گا اور جن مشکلات سے اس وہ وقت دوچار ہیں ان سے انہیں نکال کر ان کے حالات کو بہتر بنا دے گا اور ان کی کوششیں بار آور ثابت ہوں گی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) والذین امنوا وعملوا الصلحت …:” امنوا “ میں اگرچہ عمل صالح بھی شامل ہے، کیونکہ عمل بھی ایمان کا جزو ہے، مگر اس کی اہیمت کا احساس دلانے کے لئے اسے علیحدہ بھی ذکر فرمایا۔ دیکھیے سورة عصر کی تفسیر۔ اسی طرح ” امنوا “ میں اگرچہ دوسری ایمانیات کے ساتھ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ پر نازل شدہ وحی پر ایمان بھی شامل ہے مگر اس کا شرف نمایاں کرنے کے لئے اس کا الگ بھی ذکر فرمایا۔ خصوصاً اس لئے کہ مدینہ میں کچھ ایسے یہود موجود تھے جو ایمان بالغیب کی تمام جزئیات ایمان رکھتے تھے اور نیک اعمال بھی بجا لاتے تھے مگر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبی ماننے کے باوجود یہ کہہ کر ایمان لانے سے انکار کردیتے تھے کہ آپ امیوں کے نبی ہیں۔ اب بھی کئی لوگ کہتے ہیں کہ کوئی یہودی رہے یا نصرانی یا مسلمان، اگر اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور اچھے عمل کرتے ہیں تو سب ٹھیک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اب ایمان وہی معتبر ہوگا جس میں ہمارے نبی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان اور آپ کی اطاعت کا عہد شامل ہو۔ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(والذین محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان اور آپ کی اطاعت کا عہد شامل ہو۔ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(والذی نفس محمد بیدہ لایسمع بی احد من ھذہ الامۃ یھودی ولا نصرانی ثم یموت ولم یومن بالذی ارسلنک بہ الا کان من اصحاب النار) ( (مسلم، الایمان، باب و جوب الایمان برسالۃ نبینا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) :153)” قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد (ﷺ) کی جان ہے اس امت میں سے کوئی بھی شخص، یہودی ہو یا نصرانی جو میرے بارے میں سنخ، پھر اس حال میں فوت ہو کہ مجھے جو کچھ دے کر بھیجا گیا ہے اس پر ایمان نہ لایا ہو تو وہ آگ والوں میں سے ہوگا۔ “ مزید دیکھیے سورة سبا (٢٨) ۔- (٢) وھو الحق من ربھم :” الحق “ جو واقع میں ثابت ہوا اور کسی چیز کے اصل کے عین مطابق ہو۔” الحق “ خبر پر اف لام لانے سے حصر پیدا ہوگیا ۔” والذین امنوا وعملوا الصلحت و امنوا بما نزل علی محمد “ مبتدا ہے اور ” کفر عنھم سیاتھم واصلح بالھم “ اس کی خبر ہے اور ” وھو الحق من ربھم “ درمیان میں جملہ معترضہ ہے جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل شدہ وحی پر ایمان کی مزید تاکید کے لئے لایا گیا ہے۔ یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نالز کردہ وحی ہی کامل حق ہے جو رب تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے۔- (٣) کفر عنھم سیاتھم : ایمان اور عمل صالح کی بدولت اللہ تعالیٰ پہلے تمام گناہ معاف فرما دیتا ہے۔ عمرو بن عاص (رض) بیان کرتے ہیں :(فلما جعل اللہ الاسلام فی قلبی اتیت النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فقلت ابسط یمینک فلا بابع قسط بمنہ قال فقیصت بدی ، قال مالک یا عمروا ؟ قال فلت اردت ان اشترط قال تشترط بمادا ؟ قلت ان یغفرلی قال اما علمت ان الاسلام یھدم ماکان قبلہ ؟ وان الھجرۃ تھدم ماکان قبلھا ؟ وان الحج یھدم مان کان قبلہ ؟ ) (مسلم، الایمان، باب کون السلام یھدم ماقبلہ…:121)” جب اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اسلام کا خیال ڈالا تو میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور میں نے کہا :” اپنا دائیاں ہاتھ آگے بڑھئایں تاکہ میں آپ سے بیعت کروں۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا دایاں ہاتھ آگے بڑھیا ا تو میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” یہ کہ مجھے بخش دیا جائے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” کیا تمہیں معلمو نہیں کہ اسلام اسے مٹا دیتا ہے جو اس سے پہلے ہو اور ہجرت اسے مٹا دیتی ہے جو اس سے پہلے ہو اور حج اسے مٹا دیتا ہے جو اسے پہلے ہو۔ “- (٤) واصلح بالھم : طبری نے فرمایا :” بال “ مصدر کی طرح ہے، جیسا کہ ” شان “ ہے، اس سے کوئی فعل نہیں بنایا جاتا۔ ضرورت شعری کے بغیر عرب اس کی جمع استعمال نہیں کرتے، اگر جمع بنائیں تو ” بالات “ بناتے ہیں۔ “ شہاب نے فرمایا :(بال) حال اور شان کے معنی میں ہوتا ہے بعض اوقات کسی عظیم معاملے کے ساتھ خاص ہوتا ہے، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(کل امر ذی بال) (ابن ماجہ :1893)” ہر بڑی شان والا کام۔ “ اور کبھی دلی خیال کے لئے آتا ہے۔ مجاز اول کو بھی کہہ لیاج اتا ہے۔ “ اگر یہاں اس کی یہ تفسیر کی جائے تو یہ بھی اچھی تفسیر ہے۔ سفاقسمی نے اس کی تفسیر فکر (سوچ) کے ساتھ کی ہے، کیونکہ جب دل اور سوچ درست ہوجائیں تو عقیدہ اور عمل سب درست ہوجاتے ہیں۔ “ (تفسیری قاسمی)- مطلب یہ ہے کہ کفار کے اعمال کو اللہ تعالیٰ ضائع اور برباد کردیتا ہے، اس کے برعکس ایمان اور عمل صالح والوں کے گناہ معاف کردیتا ہے۔ ان کا حال درست کردیتا ہے اور ان کے دل اور سوچ کی اصلاح کردیتا ہے اور انہیں شرک کے بجائے توحید کی، نافرمانی کے بجائے اتباع سنت کی اور گناہوں کے بجائے اعمال صالحہ کی توفیق سے نوازتا ہے، حتیٰ ہ ان کے گزشتہ گناہوں کو بھی نیکیوں میں بدل دیتا ہے۔ دیکھیے سورة فرقان (٧٠) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) وَاٰمَنُوْا بِمَا نُزِّلَ عَلٰي مُحَمَّدٍ ، اگر پہلے جملے میں ایمان اور عمل صالح کا ذکر آ چکا ہے جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت اور آپ پر نازل ہونے والی وحی بھی شامل ہے مگر اس دوسرے جملے میں اس کو بالتصریح ذکر کرنے میں یہ بتلانا منظور ہے کہ ایمان کی اصل بنیاد اس پر ہے کہ خاتم النبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تمام تعلیمات کو صدق دل سے قبول کیا جائے۔- (آیت) وَاَصْلَحَ بَالَهُمْ ، لفظ بال کبھی شان اور حال کے معنی میں آتا ہے اور کبھی قلب کے معنی میں یہاں دونوں معنے لئے جاسکتے ہیں، پہلے معنی لئے جاویں تو مطلب آیت کا یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے حال کو یعنی دنیا و آخرت کے تمام کاموں کو درست کردیا اور دوسری صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے قلوب کو درست کردیا حاصل اس کا بھی وہی ہوگا کہ تمام کام درست کردیئے کیونکہ کاموں کی درستگی قلب کی درستگی کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَاٰمَنُوْا بِمَا نُزِّلَ عَلٰي مُحَمَّدٍ وَّہُوَالْحَقُّ مِنْ رَّبِّہِمْ۝ ٠ ۙ كَفَّرَ عَنْہُمْ سَـيِّاٰتِہِمْ وَاَصْلَحَ بَالَہُمْ۝ ٢- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] .- وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - صالح - الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] - ( ص ل ح ) الصالح - ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ - نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - حمد - الحَمْدُ لله تعالی: الثناء عليه بالفضیلة، وهو أخصّ من المدح وأعمّ من الشکر، فإنّ المدح يقال فيما يكون من الإنسان باختیاره، ومما يقال منه وفيه بالتسخیر، فقد يمدح الإنسان بطول قامته وصباحة وجهه، كما يمدح ببذل ماله وسخائه وعلمه، والحمد يكون في الثاني دون الأول، والشّكر لا يقال إلا في مقابلة نعمة، فكلّ شکر حمد، ولیس کل حمد شکرا، وکل حمد مدح ولیس کل مدح حمدا، ويقال : فلان محمود :- إذا حُمِدَ ، ومُحَمَّد : إذا کثرت خصاله المحمودة، ومحمد : إذا وجد محمودا «2» ، وقوله عزّ وجلّ :إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] ، يصحّ أن يكون في معنی المحمود، وأن يكون في معنی الحامد، وحُمَادَاكَ أن تفعل کذا «3» ، أي : غایتک المحمودة، وقوله عزّ وجل : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف 6] ، فأحمد إشارة إلى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم باسمه وفعله، تنبيها أنه كما وجد اسمه أحمد يوجد وهو محمود في أخلاقه وأحواله، وخصّ لفظة أحمد فيما بشّر به عيسى صلّى اللہ عليه وسلم تنبيها أنه أحمد منه ومن الذین قبله، وقوله تعالی: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ- [ الفتح 29] ، فمحمد هاهنا وإن کان من وجه اسما له علما۔ ففيه إشارة إلى وصفه بذلک وتخصیصه بمعناه كما مضی ذلک في قوله تعالی: إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم 7] ، أنه علی معنی الحیاة كما بيّن في بابه «4» إن شاء اللہ .- ( ح م د ) الحمدللہ - ( تعالیٰ ) کے معنی اللہ تعالے کی فضیلت کے ساتھ اس کی ثنا بیان کرنے کے ہیں ۔ یہ مدح سے خاص اور شکر سے عام ہے کیونکہ مدح ان افعال پر بھی ہوتی ہے جو انسان سے اختیاری طور پر سرزد ہوتے ہیں اور ان اوصاف پر بھی جو پیدا کشی طور پر اس میں پائے جاتے ہیں چناچہ جس طرح خرچ کرنے اور علم وسخا پر انسان کی مدح ہوتی ہے اس طرح اسکی درازی قدو قامت اور چہرہ کی خوبصورتی پر بھی تعریف کی جاتی ہے ۔ لیکن حمد صرف افعال اختیار یہ پر ہوتی ہے ۔ نہ کہ اوصاف اضطرار ہپ پر اور شکر تو صرف کسی کے احسان کی وجہ سے اس کی تعریف کو کہتے ہیں ۔ لہذا ہر شکر حمد ہے ۔ مگر ہر شکر نہیں ہے اور ہر حمد مدح ہے مگر ہر مدح حمد نہیں ہے ۔ اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت قابل ستائش خصلتیں رکھتا ہو نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے ۔ میں حمید بمعنی محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی حماد اک ان تفعل کذا یعنی ایسا کرنے میں تمہارا انجام بخیر ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف 6] اور ایک پیغمبر جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمد ہوگا ان کی بشارت سناتاہوں ۔ میں لفظ احمد سے آنحضرت کی ذات کی طرف اشارہ ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ جس طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام احمد ہوگا اسی طرح آپ اپنے اخلاق واطوار کے اعتبار سے بھی محمود ہوں گے اور عیٰسی (علیہ السلام) کا اپنی بشارت میں لفظ احمد ( صیغہ تفضیل ) بولنے سے اس بات پر تنبیہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت مسیح (علیہ السلام) اور ان کے بیشتر وجملہ انبیاء سے افضل ہیں اور آیت کریمہ : مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح 29] محمد خدا کے پیغمبر ہیں ۔ میں لفظ محمد گومن وجہ آنحضرت کا نام ہے لیکن اس میں آنجناب کے اوصاف حمیدہ کی طرف بھی اشاره پایا جاتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم 7] میں بیان ہوچکا ہے کہ ان کا یہ نام معنی حیات پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ اس کے مقام پرند کو ہے ۔- حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- كَفَّارَة ( گناهوں کا چهپانا)- والْكَفَّارَةُ : ما يغطّي الإثم، ومنه : كَفَّارَةُ الیمین نحو قوله : ذلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمانِكُمْ إِذا حَلَفْتُمْ [ المائدة 89] وکذلك كفّارة غيره من الآثام ککفارة القتل والظّهار . قال : فَكَفَّارَتُهُ إِطْعامُ عَشَرَةِ مَساكِينَ [ المائدة 89] - والتَّكْفِيرُ- : ستره وتغطیته حتی يصير بمنزلة ما لم يعمل، ويصحّ أن يكون أصله إزالة الکفر والکفران، نحو : التّمریض في كونه إزالة للمرض، وتقذية العین في إزالة القذی عنه، قال : وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْكِتابِ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنا عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ [ المائدة 65] ، نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئاتِكُمْ [ النساء 31] وإلى هذا المعنی أشار بقوله : إِنَّ الْحَسَناتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئاتِ [هود 114] وقیل : صغار الحسنات لا تكفّر کبار السّيّئات، وقال : لَأُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ [ آل عمران 195] ، لِيُكَفِّرَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَسْوَأَ الَّذِي عَمِلُوا [ الزمر 35] ويقال : كَفَرَتِ الشمس النّجومَ : سترتها، ويقال الْكَافِرُ للسّحاب الذي يغطّي الشمس واللیل، قال الشاعر : ألقت ذکاء يمينها في کافر - «1» وتَكَفَّرَ في السّلاح . أي : تغطّى فيه، والْكَافُورُ : أکمام الثمرة . أي : التي تكفُرُ الثّمرةَ ، قال الشاعر : كالکرم إذ نادی من الکافوروالْكَافُورُ الذي هو من الطّيب . قال تعالی:- كانَ مِزاجُها كافُوراً [ الإنسان 5] .- الکفا رۃ جو چیز گناہ دور کردے اور اسے ڈھانپ لے اسے کفارہ کہا جاتا ہے اسی سے کفارۃ الیمین ہے چناچہ اس کا ذکر کرتی ہوئے فرمایا : ۔ ذلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمانِكُمْ إِذا حَلَفْتُمْ [ المائدة 89] یہ تمہاری قسموں کا کفارۃ ہے جب تم قسمیں کھالو ۔ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعامُ عَشَرَةِ مَساكِينَ [ المائدة 89] تو اس کا کفارہ دس محتاجوں کو کھانا کھلانا ہے ۔ اسی طرح دوسرے گناہ جیسے قتل اظہار وغیرہ کے تادان پر بھی کفارہ کا لفظ استعمال ہوا ہے : - التکفیرۃ - اس کے معنی بھی گناہ کو چھپانے اور اسے اس طرح مٹا دینے کے ہیں جسے اس کا ارتکاب ہی نہیں کیا اور ہوسکتا ہے کہ یہ اصل میں ازالۃ کفر یا کفران سے ہو جیسے تم یض اصل میں ازالہ مرض کے آتے ہیں اور تقد یۃ کے معنی ازالہ قذی تنکا دور کرنے کے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْكِتابِ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنا عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ [ المائدة 65] اور اگر اہل کتاب ایمان لاتے اور پرہیز گاری کرتے تو ہم ان سے ان کے گناہ محو کردیتے ۔ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئاتِكُمْ [ النساء 31] تو ہم تمہارے ( چھوٹے چھوٹے ) گناہ معاف کر دینگے چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ الْحَسَناتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئاتِ [هود 114] کچھ شک نہیں نیکیاں گناہوں کو دور کردیتی ہیں میں بھی اسی معنی کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے مگر بعض نے کہا ہے کہ چھوٹی چھوٹی نیکیاں بڑے گناہوں کا کفارہ نہیں بن سکتیں ۔ لَأُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ [ آل عمران 195] میں ان کے گناہ دور کردوں گا ۔ لِيُكَفِّرَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَسْوَأَ الَّذِي عَمِلُوا [ الزمر 35] تاکہ خدا ان سے برایئوں کو جو انہوں نے کیں دور کر دے ۔ محاورہ ہے : ۔ کفرت الشمس النجوم سورج نے ستاروں کو چھپادیا اور اس بادل کو بھی کافر کہا جاتا ہے جو سورج کو چھپا لیتا ہے : ۔ تکفر فی السلاح اس نے ہتھیار پہن لئے ۔ الکافو ر اصل میں پھلوں کے خلاف کو کہتے ہیں جو ان کو اپنے اندر چھپائے رکھتا ہے شاعر نے کہا ہے ( 375 ) کا لکریم اذ نادی من لکافور جیسے انگور شگوفے کے غلاف سے ظاہر ہوتے ہیں۔ لیکن کافور ایک مشہور خوشبو کلمہ بھی نام ہے چناچہ فرمایا : ۔ كانَ مِزاجُها كافُوراً [ الإنسان 5] جس میں کافور کی آمیزش ہوگی ۔- سَّيِّئَةُ :- الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] - سَّيِّئَةُ :- اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :،- ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] جو برے کام کرے - صلح - والصُّلْحُ يختصّ بإزالة النّفار بين الناس، يقال منه : اصْطَلَحُوا وتَصَالَحُوا، قال : أَنْ يُصْلِحا بَيْنَهُما صُلْحاً وَالصُّلْحُ خَيْرٌ [ النساء 128] - ( ص ل ح ) الصلاح - اور الصلح کا لفظ خاص کر لوگوں سے باہمی نفرت کو دورکر کے ( امن و سلامتی پیدا کرنے پر بولا جاتا ہے ) چناچہ اصطلحوا وتصالحوا کے معنی باہم امن و سلامتی سے رہنے کے ہیں قرآن میں ہے : أَنْ يُصْلِحا بَيْنَهُما صُلْحاً وَالصُّلْحُ خَيْرٌ [ النساء 128] کہ آپس میں کسی قرار داد پر صلح کرلیں اور صلح ہی بہتر ہے ۔- بال - البَال : الحال التي يکترث بها، ولذلک يقال :- قال : كَفَّرَ عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ وَأَصْلَحَ بالَهُمْ [ محمد 2] [ طه 51] ، أي : فما حالهم وخبرهم .- ويعبّر بالبال عن الحال الذي ينطوي عليه الإنسان، فيقال : خطر کذا ببالي .- ( ب ی ل ) البال - اصل میں اس حالت کو کہتے ہیں جس کی فکر یا پرواہ کی جائے ۔ قرآن میں ہے ۔ كَفَّرَ عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ وَأَصْلَحَ بالَهُمْ [ محمد 2] ان سے ان کے گناہ دور کردیئے اور ان کی حالت سنواردی ۔ - فَما بالُ الْقُرُونِ الْأُولی[ طه 51] تو پہلی جماعتوں کا کیا حال اور انسان کے دل میں گذرنے والے خیال کو بھی بال کہا جاتا ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ میرے دل میں یہ بات کھٹکی ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور جو لوگ حق تعالیٰ اور رسول اکرم اور قرآن کریم پر ایمان لائے یعنی صحابہ کرام اور انہوں نے اچھے کام کیے اور بالخصوص وہ سب اس قرآن کریم پر ایمان لائے جو بذریعہ جبریل امین رسول اکرم پر نازل کیا گیا۔- تو حق تعالیٰ بذریعہ جہاد ان کے گناہوں کو معاف کردے گا اور دنیا میں ان کی حالت اور نیت و اعمال درست کردے گا یا یہ کہ اسلام میں ان کو غلبہ دے گا۔- شان نزول : وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ (الخ)- ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس سے اَلَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ (الخ) کے بارے میں روایت کیا ہے کہ یہ مکہ والے ہیں ان ہی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی اور والَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ان اوصاف کے مالک انصار ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَاٰمَنُوْا بِمَا نُزِّلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّہُوَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّہِمْ ” اور جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک اعمال کیے اور جو ایمان لائے اس شے پر جو نازل کی گئی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اور وہ حق ہے ان کے رب کی طرف سے “- کَفَّرَ عَنْہُمْ سَیِّاٰتِہِمْ وَاَصْلَحَ بَالَہُمْ ” اللہ نے دور کردیں ان سے ان کی خطائیں اور ان کے حال کو سنوار دیا ۔ “- اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام (رض) کو مسلسل آزمائشوں کی بھٹیوں میں سے گزار کر ان کی شخصیات کو ُ کندن بنا دیا۔ اس کی نظر ِرحمت سے ان کی سیرتیں ایمان و یقین کے نور سے جگمگانے لگیں اور ان کے کردار ‘ اخلاق و عمل کی خوشبو سے مہک اٹھے ۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :4 4 ۔ اگرچہ اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کہنے کے بعد اٰمَنُوْا بِمَا نُزِّ لَ عَلیٰ مُحَمَّدٍ کہنے کی حاجت باقی نہیں رہتی ۔ کیونکہ ایمان لانے میں محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی تعلیمات پر ایمان لانا آپ سے آپ شامل ہے ، لیکن اس کا الگ ذکر خاص طور پر یہ جتانے کے لیے کیا گیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے مبعوث ہو جانے کے بعد کسی شخص کا خدا اور آخرت اور پچھلے رسولوں اور پچھلی کتابوں کا ماننا بھی اس وقت تک نافع نہیں ہے جب تک کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیمات کو نہ مان لے ۔ یہ تصریح اس لیے ضروری تھی ہجرت کے بعد اب مدینہ طیبہ میں ان لوگوں سے بھی سابقہ در پیش تھا جو ایمان کے دوسرے تمام لوازم کو تو مانتے تھے مگر محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت کو ماننے سے انکار کر رہے تھے ۔ سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :5 5 ۔ اس کے دو مطلب ہیں ۔ ایک یہ کہ جاہلیت کے زمانے میں جو گناہ ان سے سرزد ہوئے تھے ، اللہ تعالی نے وہ سب ان کے حساب سے ساقط کر دیے ۔ اب ان گناہوں پر کوئی باز پرس ان سے نہ ہو گی ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ عقائد اور خیالات اور اخلاق اور اعمال کی جن خرابیوں میں وہ مبتلا تھے ، اللہ تعالی نے وہ ان سے دور کر دیں ۔ ان کے ذہن بدل گیے ۔ ان کے عقائد اور خیالات بدل گیے ۔ ان کی عادتیں اور خصلتیں بدل گئیں ۔ ان کی سیرتیں اور ان کے کردار بدل گئے ۔ اب ان کے اندر جاہلیت کی جگہ ایمان ہے اور بد کرداریوں کی جگہ عمل صالح ۔ سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :6 اس کے بھی دو مطلب ہیں ۔ ایک یہ کہ پچھلی حالت کو بدل کر آئندہ کے لیے اللہ نے ان کو صحیح راستے پر ڈال دیا اور ان کی زندگیاں سنوار دیں ۔ اور دوسرا مطلب یہ کہ جس کمزوری و بے بسی اور مظلومی کی حالت میں وہ اب تک مبتلا تھے ، اللہ تعالی نے ان کو اس سے نکال دیا ہے ۔ اب اس نے ایسے حالات ان کے لیے پیدا کر دیے ہیں جن میں وہ ظلم سہنے کے بجائے ظالموں کا مقابلہ کریں گے ، محکوم ہو کر رہنے کے بجائے اپنی زندگی کا نظام خود آزادی کے ساتھ چلائیں گے ، اور مغلوب ہونے کے بجائے غالب ہو کر رہیں گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani