Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

12۔ 1 یعنی جس طرح جانور کو پیٹ اور جنس کے تقاضے پورے کرنے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں ہوتا۔ یہی حال کافروں کا ہے، ان کا مقصد زندگی بھی کھانے کے علاوہ کچھ نہیں، آخرت سے وہ بالکل غافل ہیں۔ اس ضمن میں کھڑے کھڑے کھانے کی ممانعت کا بھی اثبات ہوتا ہے، جس کا آجکل دعوتوں میں عام رواج ہے کیونکہ اس میں بھی جانوروں سے مشابہت ہے جسے کافروں کا شیوا بتلایا گیا ہے احادیث میں کھڑے کھڑے پانی پینے سے نہایت سختی سے منع فرمایا گیا، جس سے کھڑے کھڑے کھانے کی ممانعت بطریق اولیٰ ثابت ہوتی ہے اس لئے جانوروں کی طرح کھڑے ہو کر کھانے سے اجتناب کرنا نہایت ضروری ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٣] کافروں کا کھانا پینا حیوانوں کی طرح ہے :۔ اس جملہ کے دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ جس طرح چوپایوں کو یہ تمیز نہیں کہ ان کا کھانا حلال ذرائع سے آیا ہے یا حرام ذرائع سے اسی طرح کافروں کو بھی یہ تمیز گوارا نہیں ہوتی۔ چوپائے جہاں سے بھی ملے کھالیتے ہیں انہیں اپنے بیگانے کی تمیز نہیں نیز کمزور جانور کو مار دھاڑ کر طاقتور جانور کمزوروں کا کھانا بھی خود کھا جاتے ہیں۔ یہی حال کافروں کا ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ جانوروں یا چوپایوں کا کھانا کھانے کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں ہوتا کہ وہ اپنی بھوک دور کریں اور اپنی زندگی کو باقی رکھیں۔ کافروں کا بھی کھانے سے اتنا ہی مقصد ہوتا ہے۔ اس سے آگے وہ یہ نہیں سوچتے کہ اللہ نے ہمیں جو عقل اور تمیز چوپایوں کے مقابلہ میں بہت زیادہ دی ہے آخر یہ کیوں دی گئی ہے ؟

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) ان اللہ یدخل الذین اناللہ یدخل الذین امنوا…: دنیا میں پہلی قوموں پر آنے والے عذابوں کا اور ایمان والوں کی نصرت کا ذکر فرمانے کے بعد آخرت میں دونوں کا انجام ذکر فرمایا۔ چونکہ مومن اپنے ایمان اور عمل صالح کے تقاضوں کے پابند رہے، انہوں نے دنیا کی نعمتوں اور لذتوں سے فائدہ اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے احکام کا پابند رہ کر اٹھایا۔ وہی کھایا اور پہنا جو ان کے رب نے ان کے لئے حلال فرمایا، وہ تمام حرام کردہ اشیاء سے بچے۔ شراب ، ریشم اور سونے کے استعمال سے پرہیز کرتے رہے۔ زنا، چوری، دوسرے کا حق کھانے، غرض ہر معصیت سے اجتناب کیا۔ ان کی لذتیں اٹھانے کی بیشمار حسرتیں ان کے دل میں رہ گئیں اور انہوں نے یہاں ایک قیدی کی سی زندگی گزاری، جو صرف انہی سہولتوں سے فائدہ اٹھا سکتا ہے جو انہیں قید کرنے والا مہیا کرے۔ اس کے صلے میں اللہ تعالیٰ انہیں عظیم الشان باغات میں داخل کرے گا جن کے تلے نہریں بہتی ہیں اور فرمائے گا کہ یہاں تمہارے دل کی ہر خواہش اور ہر طلب پوری ہوگی، بلکہ وہ کچھ ملے گا جو نہ تمہاری آنکھوں نے دیکھا نہ کانوں نے سنا اور نہ ہی کسی انسان کے دل میں اس کا خیال ہی آیا۔ یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں اور اکثر جگہ باغات اور نہروں ہی کا ذکر فرمایا ہے، اسلئے کہ دنیا کے مکانوں اور کوٹھیوں کا ایک حصہ گھر کے چمن پر مشتمل ہوتا ہے، اس لئے کہ پودوں، چشموں اور نہروں سے انسان کو فطری طور پر محبت ہے، مگر اصل مکان ان سے کہیں وسیع، خوبصورت اور قیمتی ہوتا ہے۔ طملب یہ ہے کہ ان مکانات اور ان میں موجود رہنے سہنے، کھانے پینے، بیوی بچوں اور دوسری بیشمار اشیاء کی عظمت و شوکت کا اندازہ ان باغوں اور نہروں سے لگا لو جو بطور چمن ان مکانوں کے ساتھ ہیں۔- (٢) والذین کفروا یتمتعون ویاکلون کما تاکل الانعام : ایمان والوں کے برعکس کفار کھانے پینے اور دنیا کی لذتیں اٹھانے میں کسی پابندی کی پرواہ نہیں کرتے، انہیں حلال و حرام اپنے یا دوسرے کے حق سے کوئی غرض نہیں، وہ خنزیر، مرد اور ہر حرام چیز کھاتے، شراب پیتے، زنا کرتے، غرض دل کا ہرارمان پورا کرتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ مہیا نہ ہوسکنے کی وجہ سے وہ کسی لذت سے فائدہ نہ اٹھا سکیں ، کیونکہ دنیا میں ہر شخص کو اتنا ہی ملتا ہے جو مالک نے لکھ دیا ہے، مگر اپنی حسرتیں پوری کرنے میں وہ کوئی کسر باقی نہیں رہنے دیتے۔ دنیا ان کے لئے جنت ہے جہاں وہ ہر قید اور پابندی سے آزاد زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کا حال ہو بہو جانوروں جیسا ہے جو کھانے پینے، رہنے سہنے اور اپنی جنش خواہش کی تکمیل میں کسی قید کے پابند نہیں ہیں، ان میں سے ہر طاقتور کمزور سے اس کا حق بھی چھین لیتا ہے۔ انہیں نہ عاقبت یاد ہے نہ باز پرس کی کوئی فکر ہے۔- (٣) والنار شوی لھم : چونکہ انہوں نے اپنے رب سے کفر کیا نہ ایمان لائے نہ عمل صالح کیا، نہ اس کے احاکم کی پابندی کی، اس لئے ان کا مستقل ٹھکانا آگ ہے ۔- (٤) بعض لوگ اس آیت کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ جانرو کھڑے ہو کر کھاتے پیتے ہیں، اس لئے کھڑے ہو کر کھانا پینا منع ہے، مگر اس مقصد کے لئے اس آیت کے بجائے احادیث سے استدلال کرنا چاہئیا ور اس مسئلے میں اتنی ہی سختی کرنی چاہیے جتنی احادیث سے ثابت ہے، کیونکہ ضرورت کے وقت سنت سے اس کی اجازت بھی ثابت ہے۔- (٥) چونکہ جانوروں کی ساری جدوجہد ہی کھانیپ ینے کے لئے ہوتی ہے اس لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی مشابہت سے بچنے کے لئے کم کھانے پر زور دیا ہے۔ عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(المومن باکل فی معی واحد والکافر یا کل فی سبعۃ امعار) (بخاری، الاطمعۃ، باب المومن باکل فی معی واحد …: ٥٣٩٣)” مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے۔ “ اور مقدام بن معدیکرب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(ماملاً ادمی وعاء شراً من بطن، بحسب ابن ادم اکلاث یقمن صلبہ ، فان کان لا محالۃ فثلث لطعامہ وثلث لشرابہ وثلث لنفسہ) (ترمذی، الزھد، باب ما جاء فی کراھیۃ کترۃ الاکل :2380، وقال الالبانی صحیح)” کسی آدمی نے پیٹ سے برا برتن نہیں بھرا۔ ابن آدم کو چند لقمے کافی ہیں جو اس کی پیٹھ کو سیدھا رکھیں۔ سو اگر کوئی چارہ نہیں تو تیسرا حصہ اس کے کھانے کے لئے، تیسرا اس کے پینے کے لئے اور تیسرا سانس کے لئے ہے۔ “ جس طرح شریعت نے ہر بات میں انسانی فطرت کا خیال رکھا ہے اسی طرح یہاں بھی اگر کبھی پیٹ بھر کر کھالے تو اس کی گنجائش ہے، جیسا کہ ابوہریرہ (رض) کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بار بار اصرار پر دودھ پینا ہے، حتیٰ کہ انہیں کہنا پڑا کہ اب میرے پیٹ میں اس کی گنجائش نہیں ۔ (دیکھیے بخاری، الرقاق، باب کیف کان عیش النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) …:6352)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - بیشک اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کئے (جنت کے) ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں گی اور جو لوگ کافر ہیں وہ (دنیا میں) عیش کر رہے ہیں اور اس طرح (آخرت سے بےفکر ہو کر) کھاتے (پیتے) ہیں جس طرح چوپائے کھاتے ہیں (کہ وہ نہیں سوچتے کہ ہم کو کیوں کھلایا پلایا جاتا ہے اور ہمارے ذمہ اس کا کیا حق واجب ہے) اور جہنم ان لوگوں کا ٹھکانا ہے (اور اوپر جو کفار کے دنیا میں عیش کرنے کا ذکر ہوا اس سے آپ کے مخالفین کو دھوکہ نہ کھانا چاہئے، اور نہ آپ کو ان کی اس غفلت پر کچھ حزن و ملال ہونا چاہئے، جو ان کی مخالفت کا سبب بنی ہوئی ہے یہاں تک کہ انہوں نے آپ کو تنگ کر کے مکہ میں بھی نہیں رہنے دیا کیونکہ) بہت سی بستیاں ایسی تھیں جو قوت (جسم اور قوت مال وجاہ) میں آپ کی اس بستی سے بڑھی ہوئی تھیں جس کے رہنے والوں نے آپ کو گھر سے بےگھر کردیا کہ ہم نے ان کو (عذاب سے) ہلاک کردیا سو ان کا کوئی مددگار نہ ہوا (تو یہ بیچارے کیا چیز ہیں ان کو مغرور نہ ہونا چاہئے، کیونکہ جب اللہ تعالیٰ چاہیں ان کی صفائی کرسکتے ہیں اور آپ ان کے چند روزہ عیش سے معمول نہ ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے مقرر وقت پر ان کو بھی سزا دینے والے ہیں) تو جو لوگ اپنے پروردگار کے واضح (ثابت بالدلیل) راستہ پر ہوں کیا وہ ان شخصوں کی طرح ہو سکتے ہیں جن کی بدعملی ان کو بھلی معلوم ہوتی ہو اور جو اپنی نفسانی خواہشوں پر چلتے ہوں (یعنی جب ان دونوں فریق کے اعمال میں تفاوت ہے تو ان کے مال اور انجام میں بھی تفاوت ضروری ہے، اہل حق ثواب کے اور اہل باطل عقاب و عذاب کے مستحق ہیں جس کا بیان یہ ہے) جس جنت کا متقیوں سے وعدہ کیا جاتا ہے اس کی کیفیت یہ ہے کہ اس میں بہت سی نہریں تو ایسے پانی کی ہیں جس میں ذرا تغیر نہیں ہوگا (نہ بو میں نہ رنگ میں نہ مزے میں) اور بہت سی نہریں دودھ کی ہیں جن کا ذائقہ ذرا بدلا ہوا نہ ہوگا، اور بہت سی نہریں ہیں شراب کی جو پینے والوں کو بہت لذیذ معلوم ہوں گی اور بہت سی نہریں ہیں شہد کی جو بالکل (میل کچیل سے پاک) صاف ہوگا اور ان کے لئے وہاں ہر قسم کے پھل ہوں گے اور (اس میں داخل ہونے سے پہلے) ان کے رب کی طرف سے (گنا ہونے کی) بخشش ہوگی کیا ایسے لوگ ان جیسے ہو سکتے ہیں جو ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے، اور کھولتا ہوا پانی ان کو پینے کو دیا جاوے گا تو وہ ان کی انتڑیوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے گا۔- معارف و مسائل - چونکہ دنیا کا پانی کبھی رنگ میں، کبھی بو میں کبھی ذائقہ میں متغیر ہوجاتا ہے اسی طرح دنیا کا دودھ بگڑ جاتا ہے اسی طرح دنیا کی شراب بد مزہ و تلخ ہوتی ہے صرف بعض منافع کی خاطر پی جاتی ہے جیسے تمباکو کڑوا ہونے کے باوجود کھایا جاتا ہے پھر عادت پڑجاتی ہے۔ جنت کے پانی اور دودھ اور شراب کے بارے میں بتلا دیا گیا کہ وہ سب ان تغیرات اور بدمزدگی کی آفات سے خالی ہیں اور جنت کا دوسری مضرتوں اور مفاسد سے خالی ہونا سورة صافات کی آیت میں آیا ہے (آیت) لا ینھا غول ولاھم عنھا ینزفون، اسی طرح دنیا کے شہد میں موم اور میل کچیل ملا ہوتا ہے جنت کی نہر میں شہد کا پاک صاف ہونا بتلایا گیا۔ صحیح بات یہ ہے کہ انہار جنت کی چاروں قسمیں، پانی، دودھ، شراب، شہد اپنے حقیقی معنی میں ہیں بلاوجہ مجازی معنے لینے کی ضرورت نہیں، البتہ یہ بات کھلی ہوئی ہے کہ جنت کی چیزوں کو دنیا کی چیزوں پر قیاس نہیں کیا جاسکتا وہاں کی ہر چیز کی لذت و کیفیت کچھ اور ہی ہوگی جس کی دنیا میں کوئی نظیر نہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّ اللہَ يُدْخِلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ۝ ٠ ۭ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا يَتَمَتَّعُوْنَ وَيَاْكُلُوْنَ كَـمَا تَاْكُلُ الْاَنْعَامُ وَالنَّارُ مَثْوًى لَّہُمْ۝ ١٢- دخل - الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58]- ( دخ ل ) الدخول - ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔- عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - جَنَّةُ :- كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]- الجنۃ - ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ - حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔- جری - الجَرْي : المرّ السریع، وأصله كمرّ الماء، ولما يجري بجريه . يقال : جَرَى يَجْرِي جِرْيَة وجَرَيَاناً. قال عزّ وجل : وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف 51]- وقال تعالی:- جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهارُ [ الكهف 31] ، وقال : وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ [ الروم 46] ، وقال تعالی: فِيها عَيْنٌ جارِيَةٌ [ الغاشية 12] ، وقال : إِنَّا لَمَّا طَغَى الْماءُ حَمَلْناكُمْ فِي الْجارِيَةِ- [ الحاقة 11] ، أي : السفینة التي تجري في البحر، وجمعها :- جَوَارٍ ، قال عزّ وجلّ : وَلَهُ الْجَوارِ الْمُنْشَآتُ [ الرحمن 24] ، وقال تعالی: وَمِنْ آياتِهِ الْجَوارِ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلامِ [ الشوری 32] ، ويقال للحوصلة : جِرِّيَّة «2» ، إمّا لانتهاء الطعام إليها في جريه، أو لأنها مجری الطعام .- والإِجْرِيَّا : العادة التي يجري عليها الإنسان، والجَرِيُّ : الوکيل والرسول الجاري في الأمر، وهو أخصّ من لفظ الرسول والوکيل، وقد جَرَيْتُ جَرْياً. وقوله عليه السلام : «لا يستجرینّكم الشّيطان» يصح أن يدّعى فيه معنی الأصل . أي : لا يحملنّكم أن تجروا في ائتماره وطاعته، ويصح أن تجعله من الجري، أي : الرسول والوکيل ومعناه : لا تتولوا وکالة الشیطان ورسالته، وذلک إشارة إلى نحو قوله عزّ وجل : فَقاتِلُوا أَوْلِياءَ الشَّيْطانِ [ النساء 76] ، وقال عزّ وجل : إِنَّما ذلِكُمُ الشَّيْطانُ يُخَوِّفُ أَوْلِياءَهُ [ آل عمران 175] .- ( ج ر ی ) جریٰ ( ض)- جریۃ وجریا وجریا نا کے معنی تیزی سے چلنے کے ہیں ۔ اصل میں یہ لفظ پانی اور پانی کی طرح چلنے والی چیزوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف 51] اور یہ نہریں جو میرے ( محلوں کے ) نیچے بہ رہی ہیں ۔ میری نہیں ہیں ۔ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهارُ [ الكهف 31] باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ۔ وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ [ الروم 46] اور تاکہ کشتیاں چلیں فِيها عَيْنٌ جارِيَةٌ [ الغاشية 12] اس میں چشمے بہ رہے ہوں گے اور آیت کریمہ ؛ إِنَّا لَمَّا طَغَى الْماءُ حَمَلْناكُمْ فِي الْجارِيَةِ [ الحاقة 11] جب پانی طغیانی پر آیا تو ہم نے تم لو گوں کو کشتی میں سوار کرلیا ۔ - میں جاریۃ سے مراد کشتی ہے اس کی جمع جوار آتی ہے جیسے فرمایا ؛۔ وَلَهُ الْجَوارِ الْمُنْشَآتُ [ الرحمن 24] اور جہاز جو اونچے کھڑے ہوتے ہیں ۔ وَمِنْ آياتِهِ الْجَوارِ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلامِ [ الشوری 32] اور اسی کی نشانیوں میں سے سمندر کے جہاز ہیں ( جو ) گویا یا پہاڑ ہیں ۔ اور پرند کے سنکدانہ کو جریۃ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ کھانا چل کر وہاں پہنچتا ہے اور یا اس لئے کہ وہ طعام کا مجریٰ بنتا ہے ۔ الاجریات عاوت جس پر انسان چلتا ہے ۔ الجری وکیل ۔ یہ لفظ رسول اور وکیل سے اخص ہی ۔ اور جرمت جریا کے معنی وکیل بنا کر بھینے کے ہیں اور حدیث میں ہے :۔ یہاں یہ لفظ اپنے اصل معنی پر بھی محمول ہوسکتا ہے یعنی شیطان اپنے حکم کی بجا آوری اور اطاعت میں بہ جانے پر تمہیں بر انگیختہ نہ کرے اور یہ بھی ہوسکتا ہے ۔ کہ جری بمعنی رسول یا وکیل سے مشتق ہو اور معنی یہ ہونگے کہ شیطان کی وکالت اور رسالت کے سرپر ست مت بنو گویا یہ آیت کریمہ ؛ فَقاتِلُوا أَوْلِياءَ الشَّيْطانِ [ النساء 76] شیطان کے مددگاروں سے لڑو ۔ کے مضمون کی طرف اشارہ ہے اور فرمایا :إِنَّما ذلِكُمُ الشَّيْطانُ يُخَوِّفُ أَوْلِياءَهُ [ آل عمران 175] یہ ( خوف دلانے والا ) تو شیطان ہے جو اپنے دوستوں سے ڈرتا ہے ۔- تحت - تَحْت مقابل لفوق، قال تعالی: لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ المائدة 66] ، وقوله تعالی: جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ [ الحج 23] ، تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمْ [يونس 9] ، فَناداها مِنْ تَحْتِها [ مریم 24] ، يَوْمَ يَغْشاهُمُ الْعَذابُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ العنکبوت 55] . و «تحت» : يستعمل في المنفصل، و «أسفل» في المتصل، يقال : المال تحته، وأسفله أغلظ من أعلاه، وفي الحدیث : «لا تقوم الساعة حتی يظهر التُّحُوت» «4» أي : الأراذل من الناس . وقیل : بل ذلک إشارة إلى ما قال سبحانه : وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ وَأَلْقَتْ ما فِيها وَتَخَلَّتْ [ الانشقاق 3- 4] .- ( ت ح ت) تحت - ( اسم ظرف ) یہ فوق کی ضد ہے قرآن میں ہے :۔ لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ المائدة 66] تو ( ان پر رزق مینہ کی طرح برستا کہ اپنے اوپر سے اور پاؤں کے نیچے سے کھاتے ۔ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ [ الحج 23] ( نعمت کے ) باغ میں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ۔ فَناداها مِنْ تَحْتِها [ مریم 24] اس وقت ان کے نیچے کی جانب سے آواز دی ۔ تحت اور اسفل میں فرق یہ ہے کہ تحت اس چیز کو کہتے ہیں جو دوسری کے نیچے ہو مگر اسفل کسی چیز کے نچلا حصہ کو جیسے ۔ المال تحتہ ( مال اس کے نیچے ہے ) اس کا نچلا حصہ اعلیٰ حصہ سے سخت ہے ) حدیث میں ہے (48) لاتقوم الساعۃ حتیٰ یظھر النحوت کہ قیامت قائم نہیں ہوگی ۔ تا وقی کہ کمینے لوگ غلبہ حاصل نہ کرلیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حدیث میں آیت کریمہ ؛۔ وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ وَأَلْقَتْ ما فِيها وَتَخَلَّتْ [ الانشقاق 3- 4] اور جب یہ زمین ہموار کردی جائے گی اور جو کچھ اس میں سے اسے نکلا کر باہر ڈال دے گی ۔ کے مضمون کی طرف اشارہ ہے ۔- نهار - والنهارُ : الوقت الذي ينتشر فيه الضّوء، وهو في الشرع : ما بين طلوع الفجر إلى وقت غروب الشمس، وفي الأصل ما بين طلوع الشمس إلى غروبها . قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان 62]- ( ن ھ ر ) النھر - النھار ( ن ) شرعا طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب کے وقت گو نھار کہاجاتا ہے ۔ لیکن لغوی لحاظ سے اس کی حد طلوع شمس سے لیکر غروب آفتاب تک ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان 62] اور وہی تو ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بیانا ۔- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- متع - الْمُتُوعُ : الامتداد والارتفاع . يقال : مَتَعَ النهار ومَتَعَ النّبات : إذا ارتفع في أول النّبات، والْمَتَاعُ : انتفاعٌ ممتدُّ الوقت، يقال : مَتَّعَهُ اللهُ بکذا، وأَمْتَعَهُ ، وتَمَتَّعَ به . قال تعالی:- وَمَتَّعْناهُمْ إِلى حِينٍ [يونس 98] ،- ( م ت ع ) المتوع - کے معنی کیس چیز کا بڑھنا اور بلند ہونا کے ہیں جیسے متع النھار دن بلند ہوگیا ۔ متع النسبات ( پو دا بڑھ کر بلند ہوگیا المتاع عرصہ دراز تک فائدہ اٹھانا محاورہ ہے : ۔ متعہ اللہ بکذا وامتعہ اللہ اسے دیر تک فائدہ اٹھانے کا موقع دے تمتع بہ اس نے عرصہ دراز تک اس سے فائدہ اٹھایا قران میں ہے : ۔ وَمَتَّعْناهُمْ إِلى حِينٍ [يونس 98] اور ایک مدت تک ( فوائد دینوی سے ) ان کو بہرہ مندر کھا ۔- أكل - الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد 35] - ( ا ک ل ) الاکل - کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے أُكُلُهَا دَائِمٌ ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔- نعم ( جانور)- [ والنَّعَمُ مختصٌّ بالإبل ] ، وجمْعُه : أَنْعَامٌ ، [ وتسمیتُهُ بذلک لکون الإبل عندهم أَعْظَمَ نِعْمةٍ ، لكِنِ الأَنْعَامُ تقال للإبل والبقر والغنم، ولا يقال لها أَنْعَامٌ حتی يكون في جملتها الإبل ] «1» . قال : وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف 12] ، وَمِنَ الْأَنْعامِ حَمُولَةً وَفَرْشاً [ الأنعام 142] ، وقوله : فَاخْتَلَطَ بِهِ نَباتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعامُ [يونس 24] فَالْأَنْعَامُ هاهنا عامٌّ في الإبل وغیرها . - ( ن ع م ) نعام - النعم کا لفظ خاص کر اونٹوں پر بولا جاتا ہے اور اونٹوں کو نعم اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ عرب کے لئے سب سے بڑی نعمت تھے اس کی جمع انعام آتی ہے لیکن انعام کا لفظ بھیڑ بکری اونٹ اور گائے سب پر بولا جاتا ہے مگر ان جانوروں پر انعام کا لفظ اس وقت بولا جاتا ہے ۔ جب اونٹ بھی ان میں شامل ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف 12] اور تمہارے لئے کشتیاں اور چار پائے بنائے ۔ وَمِنَ الْأَنْعامِ حَمُولَةً وَفَرْشاً [ الأنعام 142] اور چار پایوں میں بوجھ اٹھا نے والے ( یعنی بڑے بڑے بھی ) پیدا کئے اور زمین سے لگے ہوئے ( یعنی چھوٹے چھوٹے بھی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَباتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعامُ [يونس 24] پھر اس کے ساتھ سبزہ جسے آدمی اور جانور کھاتے ہیں ۔ مل کر نکلا ۔ میں انعام کا لفظ عام ہے جو تمام جانوروں کو شامل ہے ۔- نار - والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] ، - ( ن و ر ) نار - اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ - ثوی - الثَّوَاء : الإقامة مع الاستقرار، يقال : ثَوَى يَثْوِي ثَوَاءً ، قال عزّ وجلّ : وَما كُنْتَ ثاوِياً فِي أَهْلِ مَدْيَنَ [ القصص 45] ، وقال : أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوىً لِلْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر 60] ، قال اللہ تعالی: فَالنَّارُ مَثْوىً لَهُمْ [ فصلت 24] ، ادْخُلُوا أَبْوابَ جَهَنَّمَ خالِدِينَ فِيها فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر 72] ، وقال : النَّارُ مَثْواكُمْ [ الأنعام 128] ، وقیل : من أمّ مثواک «3» ؟ كناية عمّن نزل به ضيف، والثَّوِيَّة : مأوى الغنم،- ( ث و ی )- الثواء ( ص) کے اصل معنی کسی جگہ پر مستقل طور پر اقامت کرنا کے ہیں کہا جاتا ہے ثویٰ یثویٰ ثواء وہ اقامت پذیر ہوگیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَما كُنْتَ ثاوِياً فِي أَهْلِ مَدْيَنَ [ القصص 45] اور نہ تم مدین والوں میں رہ رہے تھے ۔ أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوىً لِلْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر 60] کیا غرور والوں کا ٹھکانا دوزخ میں نہیں ہے ۔ فَالنَّارُ مَثْوىً لَهُمْ [ فصلت 24] اور انکا ٹھکانا دوزخ ہے ۔ ادْخُلُوا أَبْوابَ جَهَنَّمَ خالِدِينَ فِيها فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر 72]( اب ) جہنم کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ ۔ ہمیشہ اسی میں رہو گے ۔ متکبروں کا کیسا برا ٹھکانا ہے ۔ النَّارُ مَثْواكُمْ [ الأنعام 128] خدا فرمائے گا ( اب ) تمہارا ٹھکانا درزخ ہے ۔ من ام مثواک ( کنایہ ) تمہارا میز بان کو ن ہے ۔ الثویۃ بھیڑ بکریوں کے باڑہ کو کہتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کیے حق تعالیٰ ان کو جنت کے ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے درختوں اور محلات کے نیچے سے دودھ شہد پانی اور شراب کی نہریں بہتی ہوں گی۔- اور جو لوگ کافر ہیں وہ دنیا میں عیش کر رہے ہیں اور اپنی نفسانی خواہشات کو بغیر کل کی فکر کیے ہوئے پورا کر رہے ہیں جیسا کہ چوپائے کھایا کرتے ہیں اور آخرت میں دوزخ ہی ان کا ٹھکانا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٢ اِنَّ اللّٰہَ یُدْخِلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ ” یقینا اللہ داخل کرے گا ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک اعمال کیے ان باغات میں جن کے دامن میں نہریں بہتی ہوں گی۔ “- وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا یَتَمَتَّعُوْنَ وَیَاْکُلُوْنَ کَمَا تَاْکُلُ الْاَنْعَامُ وَالنَّارُ مَثْوًی لَّہُمْ ” اور جو کافر ہیں وہ (دنیا میں) عیش کر رہے ہیں اور ایسے کھا رہے ہیں جیسے حیوانات کھاتے ہیں اور ان کا ٹھکانہ آگ ہے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :17 یعنی جس طرح جانور کھاتا ہے اور کچھ نہیں سوچتا کہ یہ رزق کہاں سے آیا ہے ، کس کا پیدا کیا ہوا ہے ، اور اس رزق کے ساتھ میرے اوپر رازق کے کیا حقوق عائد ہوتے ہیں ، اسی طرح یہ لوگ بھی کھائے جا رہے ہیں ، چرنے چگنے سے آگے کسی چیز کی انہیں کوئی فکر نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani