Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٤] ہجرت کے وقت آپ کے الوداعی کلمات :۔ بظاہر کافروں نے آپ کو مکہ سے نکالا تھا۔ بلکہ انہوں نے تو سو اونٹ انعام بھی مقرر کیا تھا کہ جو شخص محمد کو پکڑ کرلے آئے اسے سو اونٹ انعام دیا جائے گا۔ لیکن چونکہ ان کافروں نے آپ کو ایذائیں اور دکھ پہنچا پہنچا کر وہاں سے ہجرت کرنے پر مجبور کردیا تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے نکالنے کے اصل سبب کی طرف نسبت فرمائی۔ جیسا کہ خود بھی رسول اللہ جب مکہ سے نکلنے لگے تو نہایت حسرت سے مکہ کو مخاطب کرتے ہوئے یہ الفاظ کہے : مکہ تو اللہ کے نزدیک بڑی عزت والا اور محبوب ہے اور مجھے بھی بہت محبوب ہے اگر تیرے باشندے مجھے یہاں سے نکل جانے پر مجبور نہ کردیتے تو میں تجھے کبھی نہ چھوڑتا (ترمذی۔ ابو اب المناقب۔ باب فی فضل مکۃ)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) وکاین من قریۃھی اشد قوۃ…: اس کا عطف ” افلم یسیروا فی الارض فینظروا “ پر ہے، دریمان میں بات سے بات نکلتی گئی ہے، دوبارہ پھر وہی سلسلہ کلام شروع فرمایا ہے۔ اس میں کفار مکہ کے لئے وعید اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے تسلی ہے کہ اہل مکہ جنہوں نے آپ کو اپنی بستی سے نکلنے پر مجبور کردیا، اپنی قوت و شوکت پر مغرور نہ ہوں اور آپ ان کی قوت دیکھ کر دل برداشتہ نہ ہوں، ان بےچ اورں کی کیا حیثیت ہے۔ ان سے پہلے کتنی ہی بستیاں تھیں جو قوت میں ان سے کہیں زیادہ تھیں، ہم نے انہیں ہلاک کردیا، پھر ان کی مدد کرنے والا کوئی نہ تھا۔ دیکھیے سورة روم (٩، ١٠) اور سورة مومن (٢١) ۔- (٢) ” قریہ “ سے مراد قریہ والے ہیں، جیسا کہ یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے اپنے والد ماجد سے کہا :(وسئل القریۃ التی کنا فیھا والعیر التی اقبلنا فیھا) (یوسف : ٨٢)” اور اس بستی سے پوچھ لے جس میں ہم تھے اور اس قافلے سے بھی جس میں ہم آئے ہیں۔ “ اس لئے آگے ” اھلکنا ھا “ کے بجائے ” اھلکنھم “ (ہم نے انہیں ہلاک کردیا) فرمایا یعنی اس بستی والوں کو ہلاک کردیا۔ پوری بستی کو نکالنے والا قرار دینے میں ناراضی کا اظہار ہے، کیونکہ کچھ نکالنے والے تھے اور کچھ خاموش رہ کر ان کا ساتھ دینے والے ، جیسا کہ قوم عاد کے متعلق فرمایا :(فکذبوہ فعقروھا) (الشمس :13)” تو انہوں نے اسے جھٹلا دیا، پس اس (اونٹنی) کی کونچیں کاٹ دیں۔ “ حالانکہ اونٹنی کو کاٹنے والا تو ایک ہی شخص تھا۔- (٣) اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ تسلی اس لئے بھی دی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہ مکہ سے نکلنے کا شدید رنج اور صدمہ تھا۔ عبداللہ بن عدی بن حمراء الزہری (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ” حزورہ “ مقام پر کھڑے ہوئے دیکھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(واللہ انک لخیر ارض اللہ واحب ارض اللہ الی اللہ ولو لا انی اخر جت منک ماخر جث) (ترمذی، المناقب، باب فی فضل مکۃ :3925، وقال الالبانی صحیح، )” اللہ کی قسم تو اللہ کی زمین میں سب سے بہتر ہے اور اللہ کی زمین میں سے اللہ کی ہاں سب سے زیادہ محبوب ہے اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ مجھے تجھ سے نکال دیا گیا تو میں نہ نکلتا۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَكَاَيِّنْ مِّنْ قَرْيَۃٍ ہِىَ اَشَدُّ قُوَّۃً مِّنْ قَرْيَتِكَ الَّتِيْٓ اَخْرَجَتْكَ۝ ٠ ۚ اَہْلَكْنٰہُمْ فَلَا نَاصِرَ لَہُمْ۝ ١٣- قرية- الْقَرْيَةُ : اسم للموضع الذي يجتمع فيه الناس، وللناس جمیعا، ويستعمل في كلّ واحد منهما . قال تعالی: وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف 82] قال کثير من المفسّرين معناه : أهل القرية .- ( ق ر ی ) القریۃ - وہ جگہ جہاں لوگ جمع ہو کر آباد ہوجائیں تو بحیثیت مجموعی ان دونوں کو قریہ کہتے ہیں اور جمع ہونے والے لوگوں اور جگہ انفراد بھی قریہ بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف 82] بستی سے دریافت کرلیجئے ۔ میں اکثر مفسرین نے اہل کا لفظ محزوف مان کر قریہ سے وہاں کے با شندے مرے لئے ہیں - شد - الشَّدُّ : العقد القويّ. يقال : شَدَدْتُ الشّيء :- قوّيت عقده، قال اللہ : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان 28] ،- ( ش دد ) الشد - یہ شدد ت الشئی ( ن ) کا مصدر ہے جس کے معنی مضبوط گرہ لگانے کے ہیں ۔ قرآں میں ہے - : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان 28] اور ان کے مفاصل کو مضبوط بنایا ۔ - قوی - القُوَّةُ تستعمل تارة في معنی القدرة نحو قوله تعالی: خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة 63] - ( ق وو ) القوۃ - یہ کبھی قدرت کے معنی میں اسرعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة 63] اور حکم دیا کہ جو کتاب ہم نے تم کو دی اس کو زور سے پکڑے رہو ۔ - خرج - خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] ،- ( خ رج ) خرج ۔ ( ن)- خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ - هلك - الْهَلَاكُ علی ثلاثة أوجه :- افتقاد الشیء عنك، وهو عند غيرک موجود کقوله تعالی: هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة 29] - وهَلَاكِ الشیء باستحالة و فساد کقوله :- وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] ويقال : هَلَكَ الطعام .- والثالث :- الموت کقوله : إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء 176] وقال تعالیٰ مخبرا عن الکفّار :- وَما يُهْلِكُنا إِلَّا الدَّهْرُ [ الجاثية 24] .- ( ھ ل ک ) الھلاک - یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ایک یہ کہ - کسی چیز کا اپنے پاس سے جاتے رہنا خواہ وہ دوسرے کے پاس موجود ہو جیسے فرمایا : هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة 29] ہائے میری سلطنت خاک میں مل گئی ۔- دوسرے یہ کہ - کسی چیز میں خرابی اور تغیر پیدا ہوجانا جیسا کہ طعام ( کھانا ) کے خراب ہونے پر ھلک الطعام بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] اور کھیتی کو بر باد اور انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کردی ۔ - موت کے معنی میں - جیسے فرمایا : ۔ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء 176] اگر کوئی ایسا مرد جائے ۔- لا - «لَا» يستعمل للعدم المحض . نحو : زيد لا عالم، وذلک يدلّ علی كونه جاهلا، وذلک يكون للنّفي، ويستعمل في الأزمنة الثّلاثة، ومع الاسم والفعل غير أنه إذا نفي به الماضي، فإمّا أن لا يؤتی بعده بالفعل، نحو أن يقال لك : هل خرجت ؟ فتقول : لَا، وتقدیره : لا خرجت .- ويكون قلّما يذكر بعده الفعل الماضي إلا إذا فصل بينهما بشیء . نحو : لا رجلا ضربت ولا امرأة، أو يكون عطفا . نحو : لا خرجت ولَا رکبت، أو عند تكريره . نحو : فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة 31] أو عند الدّعاء . نحو قولهم : لا کان، ولا أفلح، ونحو ذلك . فممّا نفي به المستقبل قوله : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ 3] وفي أخری: وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس 61] وقد يجيء «لَا» داخلا علی کلام مثبت، ويكون هو نافیا لکلام محذوف وقد حمل علی ذلک قوله : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة 1] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج 40] ، فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة 75] ، فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء 65] لا وأبيك ابنة العامريّ- «1» وقد حمل علی ذلک قول عمر رضي اللہ عنه۔ وقد أفطر يوما في رمضان فظنّ أنّ الشمس قد غربت ثم طلعت۔: لا، نقضيه ما تجانفنا لإثم فيه، وذلک أنّ قائلا قال له قد أثمنا فقال لا، نقضيه . فقوله : «لَا» ردّ لکلامه قد أثمنا، ثم استأنف فقال : نقضيه «2» . وقد يكون لَا للنّهي نحو : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات 11] ، وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات 11] ، وعلی هذا النّحو : يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] ، وعلی ذلك : لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل 18] ، وقوله : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة 83] فنفي قيل تقدیره : إنهم لا يعبدون، وعلی هذا : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة 84] وقوله :- ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء 75] يصحّ أن يكون «لا تقاتلون» في موضع الحال «3» : ما لکم غير مقاتلین . ويجعل «لَا» مبنيّا مع النّكرة بعده فيقصد به النّفي . نحو : فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة 197] ، [ وقد يكرّر الکلام في المتضادّين ويراد إثبات الأمر فيهما جمیعا . نحو أن يقال : ليس زيد بمقیم ولا ظاعن . أي : يكون تارة كذا وتارة كذا، وقد يقال ذلک ويراد إثبات حالة بينهما . نحو أن يقال : ليس بأبيض ولا أسود ] «4» ، وإنما يراد إثبات حالة أخری له، وقوله : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] .- فقد قيل معناه : إنها شرقيّة وغربيّة «5» . وقیل معناه :- مصونة عن الإفراط والتّفریط . وقد يذكر «لَا» ويراد به سلب المعنی دون إثبات شيء، ويقال له الاسم غير المحصّل . نحو : لا إنسان، إذا قصدت سلب الإنسانيّة، وعلی هذا قول العامّة :- لا حدّ. أي : لا أحد .- ( لا ) حرف ) لا ۔ یہ کبھی عدم محض کے لئے آتا ہے ۔ جیسے : زید عالم یعنی جاہل ہے اور کبھی نفی کے لئے ہوتا ہے ۔ اور اسم و فعل دونوں کے ساتھ ازمنہ ثلاثہ میں نفی کے معنی دیتا ہے لیکن جب زمانہ ماضی میں نفی کے لئے ہو تو یا تو اس کے بعد فعل کو ذکر ہی نہیں کیا جاتا مثلا اگر کوئی ھل خرجت کہے تو اس کے جواب میں صرف ، ، لا ، ، کہ دنیا کافی ہے یعنی لاخرجت اور اگر نفی فعل مذکور بھی ہوتا ہے تو شاذو نا در اور وہ بھی اس وقت (11) جب لا اور فعل کے درمیان کوئی فاعل آجائے ۔ جیسے لارجل ضربت ولا امرءۃ (2) جب اس پر دوسرے فعل کا عطف ہو جیسے ۔ لا خرجت ولاضربت اور یا (3) لا مکرر ہو جیسے ؛فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة 31] اس ناعاقبت اندیش نے نہ تو کلام خدا کی نعمتوں کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی ۔ اور یا (4) جملہ دعائیہ میں جیسے لا کان ( خدا کرے ایسا نہ ہو ) لا افلح ( وہ کامیاب نہ ہوا وغیرہ ۔ اور زمانہ مستقبل میں نفی کے متعلق فرمایا : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ 3] ذرہ پھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں ۔ اور کبھی ، ، لا ، ، کلام مثبت پر داخل ہوتا ہے اور کلام محذوف کی نفی کے لئے آتا ہے ۔ جسیے فرمایا : وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس 61] اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ آسمان میں ۔۔۔ اور مندرجہ ذیل آیات میں بھی بعض نے لا کو اسی معنی پر حمل کیا ہے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة 1] ہم کو روز قیامت کی قسم ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج 40] میں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم کھاتا ہوں ۔ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء 65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ مومن نہیں ہوں گے ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ اور اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( المتقارب ) (388) لاوابیک ابتہ العامری نہیں تیرے باپ کی قسم اسے عامری کی بیٹی ۔ اور مروی ہے (105) کہ ا یک مرتبہ حضرت عمر نے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا ہے روزہ افطار کردیا اس کے بعد سورج نکل آیا تو آپ نے فرمایا : لانقضیہ ماتجالفنا الاثم فیہ اس میں بھی لا کلام محذوف کی نفی کے لئے ہے یعنی اس غلطی پر جب لوگوں نے کہا کہ آپ نے گناہ کا ارتکاب کیا تو اس کی نفی کے لئے انہوں نے لا فرمایا ۔ یعنی ہم گنہگار نہیں ہیں ۔ اس کے بعد تفضیہ سے از سر نو جملہ شروع کیا ہے ۔ اور کبھی یہ لا نہی کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات 11] کوئی قوم کسی قوم سے تمسخرنہ کرے ولا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات 11] اور نہ ایک دوسرے کا برنام رکھو ۔ اور آیت ؛ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکادے ۔ اور نیزلا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل 18] ایسانہ ہو ک سلمان اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں ۔۔۔ میں بھی لا نہی کے لئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة 83] اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سو اکسی کی عبادت نہ کرنا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لانا فیہ یعنی خبر ہے یعنی وہ اللہ کے سو ا کسی کی عبادت نہیں کریں گے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة 84] اور جب ہم نے تم سے عہد لیا ک تم آپس میں کشت وخون نہیں کروگے ۔ میں بھی لانفی پر محمول ہے اور فرمان باری تعالیٰ ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء 75] تمہیں کیا ہوا کہ خدا کی راہ میں نہیں لڑتے ۔ میں ہوسکتا ہے کہ لاتقاتلو ن موضع حال میں ہو ۔ اور معنی ی ہو مالکم غیر مقاتلین یعنی تمہیں کیا ہوا اور آنحالیکہ لڑنے والے نہیں ہو ۔ اور لا کے بعد اسم نکرہ آجائے تو وہ مبنی بر فتحہ ہوتا ہے اور لا لفی کے مبنی دیتا ہے جیسے فرمایا : نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے ۔ فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة 197] اور کبھی دو متضادمعنوں کے درمیان لا مکرر آجاتا ہے ۔ اور دونوں کا اثبات مقصود ہوتا ہے جیسے : لا زید بمقیم ولا ظاعن نہ زید مقیم ہے اور نہ ہی مسافر یعن کبھی مقیم ہے اور کبھی سفر پر اور کبھی متضاد مقصود ہوتا ہے جیسے ۔ لیس ابیض ولااسود سے مراد ہے کہ وہ ان دونوں رنگوں کے درمیان ہے یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے ہے کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا رنگ ہو چناچہ آیت کریمہ : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] یعنی زیتون کی نہ مشرق کی طرف منسوب اور نہ مغرب کیطر کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ بیک وقت مشرقی بھی ہے اور غربی بھی ۔ اور بعض نے اس کا افراط اور تفریط سے محفوظ ہونا مراد لیا ہے ۔ کبھی لا محض سلب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس سے ایک شے کی نفی کرکے دوسری کا اثبات مقصود نہیں ہوتا مثلا لا انسان کہہ کہ صرف انسانیت کی نفی کا قصد کیا جائے اور عامی محاورہ لاحد بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔- نصر - النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ- [ الصف 13] وَما لَهُمْ فِي الْأَرْضِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ- [ التوبة 74] ، وَكَفى بِاللَّهِ وَلِيًّا وَكَفى بِاللَّهِ نَصِيراً- [ النساء 45] ، ما لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ [ التوبة 116]- ( ن ص ر ) النصر والنصر - کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی - إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور بہت سی بسیتوں والے جو طاقت و شوکت میں اس بستی یعنی مکہ والوں سے زیادہ تھے نہوں نے آپ کو مدینہ منورہ کی طرف نکال دیا سو ہم نے تکذیب کے وقت ان کو ہلاک کردیا، پھر عذاب الہی کے مقابلہ میں کوئی ان کا مددگار نہ ہوا۔- شان نزول : وَكَاَيِّنْ مِّنْ قَرْيَةٍ (الخ)- ابو یعلے نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم ہجرت کے وقت غار کی جانب روانہ ہوئے تو مکہ مکرمہ کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ تو تمام شہروں میں مجھے سب سے زیادہ پیارا ہے۔ اور اگر تیرے رہنے والے مجھے نہ نکالتے تو میں نہ نکلتا۔ اس پر حق تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی یعنی بہت سی بستیاں ایسی ہیں جو قوت میں آپ کی اس بستی سے زیادہ تھیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٣ وَکَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَۃٍ ہِیَ اَشَدُّ قُوَّۃً مِّنْ قَرْیَتِکَ الَّتِیْٓ اَخْرَجَتْکَ ” اور (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) کتنی ہی ایسی بستیاں تھیں جو کہیں زیادہ قوت کی حامل تھیں آپ کی اس بستی سے جس نے آپ کو نکالا ہے۔ “- قریش نے اپنی طاقت کے زعم میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکہ سے نکل جانے پر مجبور تو کردیا ہے ‘ لیکن انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ان سے پہلے دنیا میں ان کے شہر سے کہیں بڑے بڑے شہر آباد تھے اور ان شہروں کے باسی ان سے کہیں بڑھ کر طاقت و شوکت کے حامل تھے مگر :- اَہْلَکْنٰہُمْ فَلَا نَاصِرَ لَہُمْ ” انہیں ہم نے ہلاک کردیا ‘ پس ان کا کوئی مد دگارنہ ہوا۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :18 رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو مکہ سے نکلنے کا رنج تھا ۔ جب آپ ہجرت پر مجبور ہوئے تو شہر سے باہر نکل کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف رخ کر کے فرمایا تھا مکہ ، تو دنیا کے تمام شہروں میں خدا کو سب سے زیادہ محبوب ہے ، اور خدا کے تمام شہروں میں مجھے سب سے بڑھ کر تجھ سے محبت ہے ۔ اگر مشرکوں نے مجھے نہ نکالا تو میں تجھے چھوڑ کر کبھی نہ نکلتا ۔ اسی پر ارشاد ہوا ہے کہ اہل مکہ تمہیں نکال کر اپنی جگہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ انہوں نے کوئی بڑی کامیابی حاصل کی ہے ۔ حالانکہ درحقیقت یہ حرکت کر کے انہوں نے اپنی شامت بلائی ہے ۔ آیت کا انداز کلام صاف بتا رہا ہے کہ یہ ضرور ہجرت سے متصل ہی نازل ہوئی ہوگی ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

7: مکہ مکرمہ کے کافروں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنا گھر بار چھوڑ کر مکہ مکرمہ سے نکلنے پر جو مجبور کیا تھا، اس کی طرف اشارہ ہے، اور فرمایا جا رہا ہے کہ ان کی اس کارروائی سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ وہ لوگ طاقتور ہونے کی وجہ سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر غالب آگئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے زیادہ طاقت ور قوموں کو ہلاک کرچکا ہے، ان کی تو ان کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں ہے، اس لیے آخر کار غلبہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کو حاصل ہوگا۔