18۔ 1 یعنی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت بجائے خود قرب قیامت کی ایک علامت ہے جیسا کہ آپ نے بھی فرمایا بعثت انا والساعۃ کھاتین۔ صحیح بخاری۔ میری بعثت اور قیامت ان دو انگلیوں کی طرح ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اشارہ کر کے واضح فرمایا کہ جس طرح یہ دونوں انگلیاں باہم ملی ہوئی ہیں اسی طرح قیامت میرے ذرا سا بعد ہے۔ 18۔ 2 یعنی جب قیامت اچانک آجائے گی تو کافر کس طرح نصیحت حاصل کرسکیں گے ؟ مطلب ہے اس وقت اگر وہ توبہ کریں گے بھی تو مقبول نہیں ہوگی اس لئے اگر توبہ کرنی ہے تو یہی وقت ہے ورنہ وہ وقت بھی آسکتا ہے کہ ان کی توبہ بھی غیر مفید ہوگی۔
[٢١] علامات قیامت :۔ قیامت کی سب سے بڑی نشانی تو آپ کی بعثت ہے کیونکہ آپ خاتم النبیین ہیں۔ علاوہ ازیں آپ کا یہ ارشاد بھی قیامت کی نزدیکی پر دلالت کرتا ہے۔ آپ نے اپنی شہادت کی انگلی اور وسطی انگلی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : بعثت انا والساعۃ کھا تین (بخاری۔ کتاب الرقاق۔ عنوان باب) اس حدیث کے بھی دو مطلب ہیں ایک یہ کہ جیسے ان دو انگلیوں کے درمیان تیسری کوئی انگلی یا کوئی چیز نہیں اسی طرح میرے اور قیامت کے درمیان کوئی نبی نہیں آئے گا۔ اور اس مطلب کی طرف لفظ بعثت سے واضح اشارہ ملتا ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ وسطی انگلی جتنی شہادت کی انگلی سے آگے نکل ہوئی ہے۔ اتنی ہی دنیا کی عمر باقی رہ گئی ہے۔ پھر قیامت آجائے گی۔ علاوہ ازیں قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی چاند کا پھٹنا بھی تھا جو دور نبوی میں واقع ہوچکا۔ نیز آپ نے اپنے بہت سے ارشادات میں قیامت کی نشانیاں بیان فرمائیں جن میں سے چند احادیث درج ذیل ہیں :- سیدنا حذیفہ بن اسید کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم آپس میں مذاکرہ کر رہے تھے کہ آپ نے ہماری طرف جھانکا اور پوچھا : کس چیز کا ذکر کر رہے ہو ہم نے کہا : قیامت کا آپ نے فرمایا : وہ اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک کہ اس سے پہلے تم دس نشانیاں نہ دیکھ لو۔ دخان، دجال، دابۃ الارض، سورج کا مغرب سے طلوع ہونا، عیسیٰ بن مریم کا نزول، یاجوج ماجوج اور تین (جگہ) زمین کا دھنس جانا۔ مشرق میں، مغرب میں اور جزیرۃ العرب اور آخری نشانی آگ ہے جو یمن سے نکلے گی اور لوگوں کو ہنکا کر ان کے جمع ہونے کی جگہ پر لے جائے گی (مسلم۔ کتاب الفتن۔ باب فی الآیات تکون قبل الساعۃ)- سیدنا انس فرماتے ہیں کہ میں نے آپ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ قیامت کی کچھ نشانیاں یہ ہیں۔ علم گھٹ جائے گا، جہالت پھیل جائے گی، شراب کثرت سے پی جائے گی، زنا عام ہوگا عورتیں زیادہ ہوں گی اور مرد کم حتی کہ پچاس عورتوں کا کفیل ایک مرد ہوگا (بخاری۔ کتاب العلم۔ باب رفع العلم وظھور الجھل)- سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : دین کا علم اٹھ جائے گا۔ جہالت اور فتنے پھیل جائیں گے اور حرج بکثرت ہوگا۔ صحابہ نے عرض کیا : یارسول اللہ حرج کیا ہے ؟ آپ نے ہاتھ کو ترچھا ہلا کر بتایا جس سے آپ نے قتل مراد لیا۔ (بخاری۔ کتاب العلم۔ باب الفتیا باشارۃ الید والراس)- اور یہ بھی قرآنی تصریحات سے ثابت ہے کہ جب موت کا وقت آجائے یا ایسی واضح علامت جو قیامت کا پیش خیمہ ہوں جیسے سورج کا مغرب سے طلوع ہونا یا قیامت کے آنے پر کسی شخص کا ایمان لانا اسے کچھ فائدہ نہیں دے سکتا۔
(١) فھل ینظرون الا الساعۃ ان تاتیھم بغتتہ : یعنی کون سی نصیحت اور کون سی وعید ہے جو انہیں نہیں سنائی گئی اور کون سی دلیل ہے جو ان کے سامنے پیش نہیں کی گئی، مگر وہ اتنے بدبخت ہیں کہ جب تک قیامت کو پانی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں ایمان لانے کے لئے تیار نہیں۔ اس لئے گویا اسی کا انتظار کر رہے ہیں کہ وہ اچانک ان کے سامنے آکھڑی ہو، نہ پہلے علم ہونے کی وجہ سے اس پر ایمان لاسکیں نہ اس کی تیاری کرسکیں ۔- (٢) فقد جآء اشراطھا : یعنی جس قیامت کا اتنظار کر رہے ہیں اس کے آنے میں دیر بھی کیا رہ گئی ہے، اس کی نشانیاں تو آہی چکی ہیں، اب اس کے آنے میں کیا شبہ باقی ہے ؟ شاہ عبدالقادر لکھتے ہیں :” بڑی نشانی قیامت کی ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پیدا ہوتا ہے۔ سب نبی خاتم النبین کی راہ دیکھتے تھے، جب وہ آچکے تو قیامت ہی آنی رہ گئی ہے۔ “ (موضح) ابوہریرہ (رض) بیان کتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(بعثت انا والساعۃ کھاتین) (بخاری، الرقاق، باب قول النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ” بعث انا والساعۃ کھاتیں…“: ٦٠٥٦)” میں اور قیامت اس طرح بھیجے گئے ہیں جس طرح یہ دو انگلیاں ہیں۔ “ یعنی جس طرح شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی ایک دوسری سے ملی ہوئی ہیں اسی طرح قیامت میرے بعد متصل آرہی ہے۔ قیامت کی بڑی نشانیوں میں سے شق قمر کی نشانی بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں ظاہر ہوچکی تھی، جیسا کہ فرمایا :(اقتربت الساعۃ وانشق القمر) (القمر : ١)” قیامت بہت قیرب آگئیا ور چاد پھٹ گیا۔ “ آلوسی نے فرمایا :” ظاہر یہ ہے کہ ان نشانیوں سے وہی نشانیاں مراد ہیں جو اس آیت کے نزول کے وقت نمودار ہوچکی تھیں۔ “- (٣) فانی لہم اذا جآئتھم ذکرتھم :” ذکرتھم ” مبتدا ہے اور ” فانی لہم “ اس استفہام خبر مقدم ہے۔” فانی لہم اذا جائتھم ذکرتھم “ (پھر جب وہ ان کے پاس آگئی تو ان کے لئے ان کی نصیحت کیسے ممکن ہوگی) ،” اذا جآء تھم “ میں ” جاء ت کا فاعل ” الساعۃ “ کی ضمیر ہے۔ (التسہیل) یعنی جب ان کے پاس قیامت آگئی تو نصیحت قبول کرنے یا مان لینے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ یہی بات اس آیت میں بیان ہوئی ہے :(یومئذ یتذکر الانسان وانی لہ الذکری) (الفجر : ٢٣) ” اس دن انسانیت نصیحت حاصل کرے گا اور (اس وقت) اس کے لئے نصیحت کہاں۔ “ مزید دیکھیے سورة سبا (٥١، ٥٢) اور سورة مومن (٨٤، ٨٥) ۔
فَہَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّا السَّاعَۃَ اَنْ تَاْتِيَہُمْ بَغْتَۃً ٠ ۚ فَقَدْ جَاۗءَ اَشْرَاطُہَا ٠ ۚ فَاَنّٰى لَہُمْ اِذَا جَاۗءَتْہُمْ ذِكْرٰىہُمْ ١٨- نظر - النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] ، وقال : إِلى طَعامٍ غَيْرَ ناظِرِينَ إِناهُ [ الأحزاب 53] أي :- منتظرین،- ( ن ظ ر ) النظر - کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔- اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں - «أَلَا»«إِلَّا»هؤلاء - «أَلَا» للاستفتاح، و «إِلَّا» للاستثناء، وأُولَاءِ في قوله تعالی: ها أَنْتُمْ أُولاءِ تُحِبُّونَهُمْ [ آل عمران 119] وقوله : أولئك : اسم مبهم موضوع للإشارة إلى جمع المذکر والمؤنث، ولا واحد له من لفظه، وقد يقصر نحو قول الأعشی: هؤلا ثم هؤلا کلّا أع طيت نوالا محذوّة بمثال - الا) الا یہ حرف استفتاح ہے ( یعنی کلام کے ابتداء میں تنبیہ کے لئے آتا ہے ) ( الا) الا یہ حرف استثناء ہے اولاء ( اولا) یہ اسم مبہم ہے جو جمع مذکر و مؤنث کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے اس کا مفرد من لفظہ نہیں آتا ( کبھی اس کے شروع ۔ میں ھا تنبیہ بھی آجاتا ہے ) قرآن میں ہے :۔ هَا أَنْتُمْ أُولَاءِ تُحِبُّونَهُمْ ( سورة آل عمران 119) دیکھو تم ایسے لوگ ہو کچھ ان سے دوستی رکھتے ہواولائک علیٰ ھدی (2 ۔ 5) یہی لوگ ہدایت پر ہیں اور کبھی اس میں تصرف ( یعنی بحذف ہمزہ آخر ) بھی کرلیا جاتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع (22) ھؤلا ثم ھؤلاء کلا اعطیتہ ت نوالا محذوۃ بمشال ( ان سب لوگوں کو میں نے بڑے بڑے گرانقدر عطیئے دیئے ہیں - ساعة- السَّاعَةُ : جزء من أجزاء الزّمان، ويعبّر به عن القیامة، قال : اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر 1] ، يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف 187]- ( س و ع ) الساعۃ - ( وقت ) اجزاء زمانہ میں سے ایک جزء کا نام ہے اور الساعۃ بول کر قیامت بھی مراد جاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر 1] قیامت قریب آکر پہنچی ۔ يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف 187] اے پیغمبر لوگ ) تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ «5» ، وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ «6» .- والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل 1] ، وقوله :- فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعر :- 5-- أتيت المروءة من بابها - «7» فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) «1» فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم 27] . يقال : أتيته وأتوته - الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو أَتَى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت وَجَاءَ رَبُّكَ [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) " اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔- بغت - البَغْت : مفاجأة الشیء من حيث لا يحتسب . قال تعالی: لا تَأْتِيكُمْ إِلَّا بَغْتَةً [ الأعراف 187] ، وقال : بَلْ تَأْتِيهِمْ بَغْتَةً [ الأنبیاء 40] ، وقال : تَأْتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً [يوسف 107]- ( ب غ ت) البغت - ( ف) کے معنی کسی چیز کا یکبارگی ایسی جگہ سے ظاہر ہوجانا کے ہیں ۔ جہاں سے اس کے ظہور کا گمان تک بھی نہ ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ لا تَأْتِيكُمْ إِلَّا بَغْتَةً [ الأعراف 187 اور ناگہاں تم پر آجائے گی ۔- تَأْتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً [يوسف 107] یا ان پر ناگہاں قیامت آجائے ۔ - ( قَدْ )- : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] ، قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران 13] ، قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة 1] ، لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ، لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة 117] ، وغیر ذلك، ولما قلت لا يصحّ أن يستعمل في أوصاف اللہ تعالیٰ الذّاتيّة، فيقال : قد کان اللہ علیما حكيما، وأما قوله : عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل 20] ، فإنّ ذلک متناول للمرض في المعنی، كما أنّ النّفي في قولک :- ما علم اللہ زيدا يخرج، هو للخروج، وتقدیر ذلک : قد يمرضون فيما علم الله، وما يخرج زيد فيما علم الله، وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة .- نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ .- و ( قَدْ ) و ( قط) «2» يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر .- ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے ۔ قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران 13] تمہارے لئے دوگرہوں میں ۔۔۔۔ ( قدرت خدا کی عظیم الشان ) نشانی تھی ۔ قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة 1] خدا نے ۔۔ سن لی ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ( اے پیغمبر ) ۔۔۔۔۔ تو خدا ان سے خوش ہوا ۔ لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة 117] بیشک خدا نے پیغمبر پر مہربانی کی ۔ اور چونکہ یہ فعل ماضی پر تجدد کے لئے آتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے اوصاف ذاتیہ کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا ۔ لہذا عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل 20] کہنا صحیح نہیں ہے اور آیت : اس نے جانا کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوتے ہیں ۔ میں قد لفظا اگر چہ علم پر داخل ہوا ہے لیکن معنوی طور پر اس کا تعلق مرض کے ساتھ ہے جیسا کہ ، ، میں نفی کا تعلق خروج کے ساتھ ہے ۔ اور اس کی تقدریروں ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔- جاء - جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، - ( ج ی ء ) جاء ( ض )- جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔- شرط - الشَّرْطُ : كلّ حکم معلوم متعلّق بأمر يقع بوقوعه، وذلک الأمر کالعلامة له، وشَرِيطٌ وشَرَائِطُ ، وقد اشْتَرَطْتُ كذا، ومنه قيل : للعلامة : الشَّرَطُ ، وأَشْرَاطُ السّاعة علاماتها، قال تعالی: فَقَدْ جاءَ أَشْراطُها [ محمد 18] ، والشُّرَطُ قيل : سمّوا بذلک لکونهم ذوي علامة يعرفون بهاوقیل : لکونهم أرذال الناس، فَأَشْرَاطُ الإبل : أرذالها . وأَشْرَطَ نفسه للهلكة :- إذا عمل عملا يكون علامة للهلاك، أو يكون فيه شرط الهلاك .- ( ش ر ط ) الشرط وہ معین حکم جس کا وقوع کسی دوسرے امر پر معلق ہو اسے شرط کہتے ہیں اور دوسرا امر اس کے لیے بمنزلہ علامت کے ہوتا ہے اور شریط بمعنی شرط آتا ہے اس کی جمع شرائط ہے ۔ اشترطت کذا کوئی شرط لگانا ۔ اور اسی سے شرط بمعنی علامت ہے ۔ اور اشراط الساعۃ کے معنی علامات قیامت کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَقَدْ جاءَ أَشْراطُها [ محمد 18] سو اس کی نشانیاں ( وقوع میں ) آچکی ہیں ۔ اور پولیس کو شرط کہا جاتا ہے اس لئے کہ وہ بھی ایسی علامت لگا لیتے ہیں ۔ جس سے ان کی پہچان ہوسکتی ہو ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ یہ اشراط الابل سے مشتق ہے جس کے معنی رذیل اونٹوں کے ہیں ۔ اور پولیس میں بھی چونکہ ( عام طور پر ) رذیل لوگ ہوتے تھے اس لئے انہیں شرط کہہ دیا گیا ہے ۔ اشرط نفسہ للھلکۃ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا یا کسی کام میں ہلاکت کی بازی لگانا ۔- أنى- أَنَّى للبحث عن الحال والمکان، ولذلک قيل : هو بمعنی كيف وأين «4» ، لتضمنه معناهما، قال اللہ عزّ وجل : أَنَّى لَكِ هذا [ آل عمران 37] ، أي : من أين، وكيف .- ( انیٰ ) انی۔ یہ حالت اور جگہ دونوں کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اس لئے بعض نے کہا ہے کہ یہ بمعنیٰ این اور کیف ۔ کے آتا ہے پس آیت کریمہ ؛۔ أَنَّى لَكِ هَذَا ( سورة آل عمران 37) کے معنی یہ ہیں کہ کھانا تجھے کہاں سے ملتا ہے ۔- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو : 11-إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔
یہ کفار مکہ جبکہ آپ کو جھٹلا رہے ہیں تو کیا یہ قیامت کے ہی منتظر ہی کہ وہ ان پر اچانک آپڑے حالانک اس کی متعدد نشانیاں تو آچکی ہیں۔- یعنی انشقاق قمر رسول اکرم کی نزول قرآن کریم کے ساتھ بعثت وغیرہ تو جب قیامت ان کے سامنے آکھڑی ہوگی تو پھر انہیں توبہ کی کہاں توفیق ہوگی۔
آیت ١٨ فَہَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا السَّاعَۃَ اَنْ تَاْتِیَہُمْ بَغْتَۃً فَقَدْ جَآئَ اَشْرَاطُہَا ” تو یہ لوگ اب کس چیز کے منتظر ہیں سوائے قیامت کے کہ وہ آدھمکے ان پر اچانک ؟ پس اس کی علامات تو ظاہر ہو ہی چکی ہیں۔ “- قیامت کی سب سے بڑی نشانی تو خود محمد عربی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آخری رسول ہیں۔ ایک موقع پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی دو انگلیوں کو آپس میں ملا کر فرمایا : (بُعِثْتُ اَنَا وَالسَّاعَۃُ کَھَاتَیْنِ ) (١) ” میں اور قیامت ان دو انگلیوں کی مانند (جڑے ہوئے) بھیجے گئے ہیں “۔ ظاہر ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آخری نبی ہیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعداب قیامت ہی کو آنا ہے۔ حضرت ابوامامہ باہلی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : (اَنَا آخِرُ الْاَنْبِیَائِ وَاَنْتُمْ آخِرُ الْاُمَمِ ) (٢) ” میں آخری نبی ہوں اور تم آخری امت ہو۔ “- فَاَنّٰی لَہُمْ اِذَا جَآئَ تْہُمْ ذِکْرٰٹہُمْ ” تو جب وہ ان پر آدھمکے گی تو اس وقت ان کا نصیحت حاصل کرنا کس کام کا ہوگا ؟ “
سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :29 یعنی جہاں تک حق واضح کرنے کا تعلق ہے وہ تو دلائل سے ، قرآن کے معجزانہ بیان سے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت پاک سے ، اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کی زندگیوں کے انقلاب سے ، انتہائی روشن طریقے پر واضح کیا جا چکا ہے ۔ اب ایمان لانے کے لیے یہ لوگ اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ قیامت ان کے سامنے آ کھڑی ہو؟ سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :30 قیامت کی علامات سے مراد وہ علامات ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی آمد کا وقت اب قریب آ لگا ہے ان میں سے ایک اہم علامت خدا کے آخری نبی کا آ جانا ہے جس کے بعد پھر قیامت تک کوئی اور نبی آنے والا نہیں ہے ۔ بخاری ، مسلم ، ترمذی اور مسند احمد میں حضرت انس ، حضرت سہل بن سعد ساعدی ، اور حضرت بریدہ رضی اللہ عنہم کی روایات منقول ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگشت شہادت اور بیچ کی انگلی کھڑی کر کے فرمایا: بُعثتُ انا و السّاعۃ کھَاتین ۔ میری بعثت اور قیامت ان دو انگلیوں کی طرح ہیں ۔ یعنی جس طرح ان دو انگلیوں کے درمیان کوئی اور انگلی نہیں ہے ، اسی طرح میرے اور قیامت کے درمیان کوئی اور نبی بھی مبعوث ہونے والا نہیں ہے ۔ میرے بعد اب بس قیامت ہی آنے والی ہے ۔