Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

19۔ 1 یعنی اس عقیدے پر ثابت اور قائم رہیں کیونکہ یہی توحید اور اطاعت الہی مدار خیر ہے اور اس سے انحراف یعنی شرک اور معصیت مدار شر ہے۔ 19۔ 2 اس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو استغفار کا حکم دیا گیا ہے، اپنے لئے بھی اور مومنین کے لئے بھی استغفار کی بڑی اہمیت اور فضیلت ہے۔ احادیث میں بھی اس پر بڑا زور دیا گیا ہے۔ ایک حدیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یَا اّیُّھَا النَّاسُ تُوْبُوْا اِلٰی رَبِّکُمْ فَاِنِّی اَسْتَغْعِرُ اللّٰہَ وَ اَتُوْبُ اِلَیہِ فِی الیَوْمِ اَکْثَرَ مِنْ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً (صحیح بخا ری) لوگو استغفار کیا کرو، میں بھی اللہ کے حضور روزانہ ستر مرتبہ سے زیادہ توبہ استغفار کرتا ہوں۔ بارگاہ الٰہی میں توبہ واستغفار کرتا ہوں۔ 19۔ 3 یعنی دن کو تم جہاں پھرتے اور جو کچھ کرتے ہو اور رات کو جہاں آرام کرتے اور استقرار پکڑتے ہو اللہ تعالیٰ جانتا ہے مطلب ہے شب وروز کی کوئی سرگرمی اللہ سے مخفی نہیں ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٢] کوئی مومن جس درجے کا بھی وہ مومن ہو اسے اللہ کے حضور اپنے عجزو قصور کا اعتراف کرتے رہنا چاہئے۔ قصور کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی جس قدر عبادت اور اطاعت کا ہم پر حق تھا وہ ہم پوری طرح نبھا نہیں سکے۔ اور ایسا اعتراف تمام انبیاء بھی کرتے آئے ہیں۔ حالانکہ انبیاء سے گناہ کا اور بالخصوص دیدہ دانستہ گناہ کا سرزد ہونا محالات سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اسی ارشاد کے مطابق آپ ایک دن میں سو سے زیادہ مرتبہ استغفار فرمایا کرتے تھے۔ اور تمام مسلمان بھی اپنی نمازوں کے دوران اور نمازوں کے بعد بہ تکرار استغفار کرتے رہتے ہیں۔ اس آیت میں رسول اللہ کو اپنے اور تمام مومن مردوں اور عورتوں کے لیے استغفار کرنے کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ آپ کی دعا اللہ کی بارگاہ میں دوسروں کی نسبت بہت زیادہ مستجاب ہے۔- [٢٣] یعنی اللہ تعالیٰ تم سے ہر ایک شخص کی، خواہ وہ مومن ہے یا کافر، نقل و حرکت کو اور اس کی سرگرمیوں کو خوب جانتا ہے کہ وہ کس راہ میں صرف ہو رہی ہیں۔ پھر وہ یہ بھی جانتا ہے کہ وہ کس جگہ مر کر دفن ہوگا اور مَثْوٰکُمْ کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تم میں سے ہر شخص کو مرنے کے بعد جنت یا دوزخ میں جو ٹھکانا ملے گا۔ اللہ اسے بھی خوب جانتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) فاعلم انہ لا الہ الا اللہ : اس فائک و فصیحہ (اظہار کرنے والی) کہتے ہیں، یعنی اس سے اس شرط کا اظہار ہوتا ہے جو گزشتہ کلام سے معلوم ہوتی ہے، اس آیت کا تعلق سورت کی گزشتہ تمام آیات کے ساتھ ہے، یعنی جب تم کفار اور ایمان والوں کا حال جان چکے اور یہ بھی کہ بھلائی اور کامیابی کا دار و مدار توحید اور اطاعت پر ہے اور برائی اور ناکامی کا دار و مدار شرک اور نافرمانی پر ہے تو یہ بات بھی جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ (ابو السعود) ابو العالیہ اور ابن عینیہ نے فرمایا کہ اس کا تعلق اس سے پہلی آیت کے ساتھ ہے، یعنی جب ان کے پاس قیامت آگئی تو جان لو کہ اس کے قائم ہونے پر اللہ کے سوا بھاگنے یا پناہ حاصل کرنے کی کوئی جگہ نہیں (کیونکہ معبود برحق وہی ہے۔ ) (بغوی)- (٢) یہاں ایک سوال ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو اس حقیقت کو پہلے ہی جانتے تھے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ جیسا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(ان اتفاکم واعلمکم باللہ انا) (بخاری، الایمان، باب قول النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) “ انا علمکم باللہ …٢٠)” یقیناً میں تم سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا اور تم سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا علم رکھنے والا ہوں۔ “ پھر یہ کہنے کا کیا مطلب ہے کہ ” جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی م عبود نہیں۔ “ اہل علم نے اس کے متعدد جوابات دیئے ہیں اور وہ سب درست ہیں۔ ایک یہ کہ ” فاعلم “ کے مخاطب اگرچہ بظاہر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں مگر خطاب امت کے ہر فرد کو ہے۔ دلیل اس کی آیت کے آخری الفاظ ہیں جن میں صراحتاً سب کو مخاطب فرمایا ہے :(واللہ یعلم متقلبکم ومثولکم)” اور اللہ تمہارے چلنے پھرنے کو اور تمہارے ٹھہرنے کو جانتا ہے۔ “ جیسا کہ طورہ طلاق کے شروع میں فرمایا :(یایھا النبی اذا طلقتم النسآء فطلقوھن لعدتھن و احصوا العذۃ و اتقوا اللہ ربکم لاتخرجوھن من بیوتھن ولا یخرجن الا ان یاتین بفاحشۃ مبینۃ (الطلاق : ١)” اے نبی جب تم عورتوں کو طلاق دو تو انہیں ان کی عدت کے وقت طلاق دو اور عدت کو گنوا اور اللہ سے ڈرو جو تمہارا رب ہے، نہ تم انہیں ان کے گھروں سے نکالو اور نہ وہ نکلیں مگر یہ ہ کوئی کھلی بےحیائی میں ) لائیں۔ “- دوسرا جواب یہ ہے کہ ” فاعلم “ کا معنی یہ ہے کہ ” لا الہ الا اللہ “ کے علم پر ثابت اور قائم رہو، جیسا کہ فرمایا : یایھا الذین امنوا امنوا باللہ ورسولہ، والکتب الذی نزل علی رسولہ و الکتب الذی انزل من قبل (النبیائ : ١٣٦)” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول پر نازل کی اور اس کتاب پر جو اس نے اس سے پہلے نازل کی۔ “ اکثر مفسرین نے یہاں ” فاعلم “ کا یہی معنی بیان فرمایا ہے۔ تیسرا جواب یہ ہے کہ کسی حقیقت کے علم کی ابتداء اس کی معرفت سے ہوتی ہے کہ دل اسے جان لے، پھر اس کے یقین کا مرتبہ آتا ہے اور اس علم کی تکمیل اس سے ہوتی ہے کہ اس کے تقاضے کے مطابق عمل کرے۔ مطلب یہ ہے کہ ” لا الہ الا اللہ “ کی معرفت اور اس کا یقین حاصل کرو اور اس کے تقاضوں پر عمل کرو۔ ظاہر ہے کہ علم اور بقین کے بیشمار درجے ہیں اور عمل کے لحاظ سے درجنوں کا بھی کوئی شمار نہیں۔ ابراہیم کا قول :(ولکن لیطبین قلبی) (البقرہ : ٢٦٠) ” وقل رب زدنی علماً ) (طہ : ١١٣)” اور تو کہہ اے میرے رب مجھے علم میں زیادہ کر۔ “ اور کہنے والے نے کیا خوب کہا ہے۔- چوں می گویم مسلمانم بلرزم کہ دانم مشکلات لا الہ الہ را - ” جب میں کہتا ہوں کہ میں مسلمان ہوں تو لرز جاتا ہوں، کیونکہ میں ” لا الہ ‘ ‘ کی مشکلات کو جانتا ہوں۔ “- سورة نساء کی آیت (١٣٦) (یایھا الذین امنوا امنوا و رسولہ) کا ایک معنی یعہ بھی کیا گیا ہے کہ اپنے ایمان کے تاقضے کے مطابق عمل کرو۔ خلاصہ یہ ہے کہ ہر لمحے ” لا الہ الا اللہ “ کی معفرت، اس کے معرفت، اس کے یقین اور اس پر عمل میں اضافے کی کوشش کرتے رہو۔ چوتھا یہ کہ ہر وقت اس حقیقت کو یاد اور نظر کے سامنے رکھو کہ اللہ کے سوا کوئی عبارت کے لائق نہیں گویا ” اعلم “ بمعنی ” ادکر “ ہے۔- (ہ) اس اس آیت سے علم کی فضیلت ثابت ہوتی ہے، کیونکہ ہر قول اور عمل سے پہلے علم کا حصول لازم ہے، جیسا کہ فرمایا (اعلموا لما الحیوۃ) الدنیا العب و لھم) (الحمد : ٢٠)” جان لو کہ دنیا کی زندگی اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک کھیل ہے۔ “ اس کے بعد فرمایا :(سابقوا الی مغفرۃ من ر ربکم وجنۃ عرضھا کعرض السمآء والارض) (الحدید : ٢١)” اپنے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف ایک دوسرے سے آگے بڑھو جس کی چوڑائی آسمان اور زمین کی چوڑائی کی طرح ہے۔ “ اور امام بخاری رحمتہ اللہ نے صحیح بخاری میں فرمایا : ” باب العلم قبل القول والعمل لقول اللہ تعالیٰ : فاملم انہ لا الہ الا اللہ) (فبداء بالعلم “ (بخاری ، العلیہ ، قبلہ ح : ٦٨)” علم مقدم ہے قول اور عمل پر ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ( سورة محمد میں) فرمایا :” پس تو جان لے کہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ “ اس آیت میں اللہ نے علم کو پہلے بیان کیا ہے۔ “- (٤) واستغفر لدنبک : قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ نے استغفار کا حکم دیا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر عمل کرتے رہے اور امت کو بھی اس کی تاکید فرماتے رہے۔ چناچہ اس سے متعلق یہاں وہ احادیث نقل کی جاتی ہیں، ابو موسیٰ اشعری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ دعا کیا کرتے تھے :(اللھم اغفرلی خطیتنی وجھلن و اسرافی فی امری وما انت اعلم بہ منی، اللھم اغفر لی جدی وھزلی وخطئی، وعمدی و کل ذلک عندی، اللھم اغفرلی ماقدمت وما اخرت وما اسررت وما اعلنت وما انت اعلم بہ منی، انت المقدم وانت الموخر وانت علی کل شیء قدیر) (مسلم، الذکر والدعا، باب فی الادعیۃ :2819)” اے اللہ میری خطا کو میرے جہل کو، میرے کام میں میری زیادتی کو اور ان تمام گناہوں کو میرے لئے بخش دے جنہیں تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے۔ اے اللہ میرے سنجیدگی سے کئے ہوئے کاموں کو، میرے مذاق سے کئے ہوئے کاموں کو میرے بھول کر کئے ہوئے اور جان بوجھ کر کئے ہوئے گناہوں کو میرے لئے بخش دے اور یہ سب میرے پاس موجود ہیں۔ اے اللہ تو مجھے وہ سب گناہ بخش دے جو میں نے پہلے کئے اور جو میں نے بعد میں کئے اور جو چھپا کر کئے اور جو چھپا کر کئے اور جو علانیہ کئے اور جنہیں تو مجھ سے زیادہ جاننے والا ہے۔ تو ہی آگے کرنے والا ہے اور توہ ہی پیچھے کرنے والا ہے اور تو ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔ “ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ کہتے ہوئے سنا :(واللہ انی لاستغفر اللہ واتوب الیہ فی الیوم اکنز من سبعین مرۃ) (بخاری، الدعوات، باب استغفار النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فی الیوم واللیلۃ 6308)” اللہ کی قسم میں دن میں ستر (٧٠) بار سے زیادہ اللہ سے استغفار کرتا ہوں اور اس کی طرف توبہ کرتا ہوں۔ ‘- (٥) وللمومنین والمومنت : یہ حکم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی ہے اور امت کے تمام افراد کو بھی کہ وہ اپنے علاوہ دوسرے تمام ممون مردوں اور عورتوں کے لئے بھی استغفار کریں۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایمان والوں پر اپنے مومن بھائیوں کے لئے استغفار واجب ہے۔ پہلے جلیل القدر انبیاء (علیہ السلام) کا بھی یہی عمل رہا ہے، جیسا کہ نوح (علیہ السلام) نے دعا کی :(رب اغفرلی ولوالدی ولمن دخل بیتی مومنا وللمومنین و المومنت ، ولا تزد الظلمین الاتباراً ) (نوح :28)” اے میرے رب مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو اور اس کو جو مومن بن کر میرے گھر میں داخل ہو اور ایمان والے مردوں اور ایمان والی عورتوں کو اور ظالموں کو ہلاکت کے سوا کسی چیز میں نہ بڑھا۔ “ اور ابراہیم (علیہ السلام) نے دعا کی :(ربنا اغفرلی ولوالدی واللمومنین یوم یقوم الحساب) (ابراہیم :31)” اے ہمارے رب مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو اور ایمان والوں کو، جس دن حساب قائم ہوگا۔ “- (٦) اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور تمام ایمان والوں کو مومن مردوں اور عورتوں کے لئے استغفار کا جب خود حکم دیا تو یہ دلیل ہے کہ وہ اسے قبول بھی فرمائے گا۔ ظاہر ہے کہ ہر مومن، مرد ہو یا عورت، زندہ ہو یا فوت شدہ، استغفار کی ان دعاؤں میں شامل ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لے کر امت کے آخری آدمی نے ایمان والوں کے حق میں کی ہیں اور جس کے حق میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اللہ تعالیٰ کے بیشمار مقبول بندوں کی مغفرت کی دعائیں ہوتی ہوں اس کی مغفرت سے ناامید ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ اس لئے کسی بھی مومن کے متعق یہ کہنا درست نہیں کہ وہ جہنمی ہے، یا اللہ تعالیٰ اسے معاف نہیں کرے گا، خواہ وہ کتنا زیادہ گناہگار ہو۔ شرط یہ ہے کہ وہ ایمان کی دولت اپنے دامن میں رکھتا ہو اور شرک کی نجاست سے آلودہ نہ ہو۔- (٧) واللہ یعلم متقلبکم مثولکم :” متقلب “ اور مثوی “ ” تقلب یتقلب “ (تفعل) اور ” توی یثوی “ (ض) سے مصدر میمی بھی ہوسکتے ہیں اور ظرف مکان بھی۔ پہلی صورت میں معنی ہے تمہارا چلنا پھرنا اور تمہارا ٹھہرنا اور دوسری صورت میں معنی ہے ” تمہارے چلنے پھرنے کی جگہ اور تمہارے ٹھہرے کے مقامات کو خوب جانتا ہے۔ اس میں کفار اور نافرمانوں کے لئے وعید ہے اور اللہ کے فرماں بردار بندوں کے لئے بشارت ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری جائز یا ناجائز ہر حرکت و سکون سے واقف ہے اور واقف ہونے کا مطلب ہی یہ ہے کہ وہ فرماں بر داروں کو انعام دے گا اور نافرمانوں کو سزا دے گا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - (جب آپ خدا تعالیٰ کے مطیع و فرمانبردار بندوں اور سرکشوں دونوں کا حال و مآل سن چکے) تو آپ اس کا ( اکمل طریقہ پر) یقین رکھئے کہ اللہ تعالیٰ کے اور کوئی قابل عبادت نہیں (اس میں دین کے تمام اصول و فروع آگئے، کیونکہ علم سے مراد علم کامل اکمل ہے اور علم کامل کے لئے لازم ہے کہ تمام احکام الٰہیہ پر پورا عمل ہو۔ حاصل یہ ہے کہ تمام احکام الٰہیہ پر مداومت رکھو) اور (اگر کبھی کوئی خطا سرزد ہوجائے جو آپ کی عصمت نبوت کی بناء پر درحقیقت گناہ نہیں بلکہ صرف ترک افضل ہی ہوگا مگر آپ کی شان ارفع کے اعتبار سے صورة خطا ہے اس لئے) آپ اپنی (اس ظاہری) خطا کی معافی مانگتے رہئے اور سب مسلمان مردوں اور سب مسلمان عورتوں کے لئے بھی (بخشش کی دعا مانگے رہئے) اور (یہ بھی یاد رہے کہ) اللہ تعالیٰ تمہارے چلنے پھرنے اور رہنے سہنے کی (یعنی سب اعمال و احوال کی) خبر رکھتا ہے۔- معارف و مسائل - اس آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے فرمایا کہ آپ سمجھ لیجئے کہ اللہ کے سوا اور کوئی قابل عبادت نہیں، اور ظاہر ہے کہ یہ علم تو ہر مومن مسلمان کو بھی حاصل ہے سید الانبیاء کو کیوں حاصل نہ ہوتا پھر اس علم کے حاصل کرنے کا حکم دینا یا تو اس پر ثابت قدم رہنے کے معنی میں ہے اور یا اس کے مقتضیات پر عمل کرنا مراد ہے جیسا کہ قرطبی نے نقل کیا ہے کہ سفیان بن عیینہ سے کسی نے علم کی فضیلت کا سوال کیا تو انہوں نے فرمایا کیا تم نے قرآن کا ارشاد نہیں سنا ، (آیت) فَاعْلَمْ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْۢبِكَ ، کہ اس میں علم کے بعد علم کا حکم دیا ہے اسی طرح دوسری جگہ فرمایا، (آیت) اعلموا انما الحیوة الدنیا لعب ولھو، اور پھر فرمایا، (آیت) سابقوا الی مغفرة من ربکم، اسی طرح انفال میں فرمایا، (آیت) واعلموا انما اموالکم و اولادکم فتنة اور تغابن میں فرمایا، فاحذروہم، ان سب مقامات میں اول علم پھر اس کے مقتضا پر عمل کی تلقین فرمائی گئی ہے یہاں آیت مذکورہ میں بھی اگرچہ یہ علم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہلے سے حاصل تھا مگر مقصود اس سے اس کے مقتضیٰ پر عمل ہے اسی لئے اس کے بعد، واستغفر، کا حکم دیا گیا، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بوجہ عصمت نبوت کے اس کے خلاف کرنے کا اگرچہ احتمال نہیں تھا مگر انبیاء (علیہم السلام) سے معصوم ہونے کے باوجود بعض اوقات اجتہاد میں خطا ہوجاتی ہے اور اجتہادی خطا قانون شرع میں گناہ نہیں بلکہ اس پر بھی اجر ملتا ہے مگر انبیاء (علیہم السلام) کو اس خطا پر متنبہ ضرور کردیا جاتا ہے اور ان کی شان عالی کے اعتبار سے اس کو لفظ ذنب سے بھی تعبیر کردیا جاتا ہے جیسا کہ سورة عبس میں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایک قسم کا عتاب نازل ہوا وہ بھی اسی خطاء اجتہادی کی ایک مثال تھی جس کی تفصیل سورة عبس میں آئے گی کہ وہ اجتہادی خطا اگرچہ کوئی گناہ نہ تھا بلکہ ایک اجر اس پر بھی ملنے کا وعدہ تھا مگر آپ کی شان عالی کے لئے اس کو پسند نہیں کیا گیا اور ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا۔ آیت مذکورہ میں اسی طرح کا ذنب مراد ہوسکتا ہے۔- فائدہ :- حضرت صدیق اکبر کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لا الہ الا اللہ اور استغفار کی کثرت کیا کرو کیونکہ ابلیس کہتا ہے کہ میں نے لوگوں کو گناہوں میں مبتلا کر کے ہلاک کیا تو انہوں نے مجھے کلمہ لا الہ الا اللہ کہہ کر ہلاک کردیا، جب میں نے یہ دیکھا تو میں نے ان کو ایسے خیالات باطلہ کے پیچھے لگا دیا جن کو وہ نیکی سمجھ کر کرتے ہیں جیسے عام بدعات کا یہی حال ہے۔ اس سے ان کو توبہ کی بھی توفیق نہیں ہوتی۔- (آیت) مُتَقَلَّبَكُمْ وَمَثْوٰىكُمْ ، متقلب کے لفظی معنی لوٹ پوٹ ہونے یا الٹ پلٹ ہونے کے اور مثویٰ کے معنی جائے قرار کے ہیں، اس کے مراد میں مختلف احتمالات ہو سکتے ہیں اسی لئے حضرات مفسیرین نے مختلف معنی بیان کئے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ وہ سب ہی مراد ہیں کیونکہ ہر انسان پر دو قسم کے حالات آتے ہیں، ایک وہ جن میں عارضی اور وقتی طور پر اشتغال ہوتا ہے دوسرے وہ جن کو وہ مستقل اپنا مشغلہ سمجھتا ہے، اسی طرح بعض مکانات میں انسان کا قیام عارضی ہوتا ہے بعض میں مستقل، تو آیت میں عارضی کو متقلب کے لفظ سے اور مستقل کو مثویٰ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے اس طرح تمام احوال کا اللہ تعالیٰ کے علم میں ہونا اس آیت کا مفہوم ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَاعْلَمْ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْۢبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ۝ ٠ ۭ وَاللہُ يَعْلَمُ مُتَقَلَّبَكُمْ وَمَثْوٰىكُمْ۝ ١٩ ۧ- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا - لا - «لَا» يستعمل للعدم المحض . نحو : زيد لا عالم، وذلک يدلّ علی كونه جاهلا، وذلک يكون للنّفي، ويستعمل في الأزمنة الثّلاثة، ومع الاسم والفعل غير أنه إذا نفي به الماضي، فإمّا أن لا يؤتی بعده بالفعل، نحو أن يقال لك : هل خرجت ؟ فتقول : لَا، وتقدیره : لا خرجت .- ويكون قلّما يذكر بعده الفعل الماضي إلا إذا فصل بينهما بشیء . نحو : لا رجلا ضربت ولا امرأة، أو يكون عطفا . نحو : لا خرجت ولَا رکبت، أو عند تكريره . نحو : فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة 31] أو عند الدّعاء . نحو قولهم : لا کان، ولا أفلح، ونحو ذلك . فممّا نفي به المستقبل قوله : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ 3] وفي أخری: وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس 61] وقد يجيء «لَا» داخلا علی کلام مثبت، ويكون هو نافیا لکلام محذوف وقد حمل علی ذلک قوله : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة 1] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج 40] ، فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة 75] ، فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء 65] لا وأبيك ابنة العامريّ- «1» وقد حمل علی ذلک قول عمر رضي اللہ عنه۔ وقد أفطر يوما في رمضان فظنّ أنّ الشمس قد غربت ثم طلعت۔: لا، نقضيه ما تجانفنا لإثم فيه، وذلک أنّ قائلا قال له قد أثمنا فقال لا، نقضيه . فقوله : «لَا» ردّ لکلامه قد أثمنا، ثم استأنف فقال : نقضيه «2» . وقد يكون لَا للنّهي نحو : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات 11] ، وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات 11] ، وعلی هذا النّحو : يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] ، وعلی ذلك : لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل 18] ، وقوله : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة 83] فنفي قيل تقدیره : إنهم لا يعبدون، وعلی هذا : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة 84] وقوله :- ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء 75] يصحّ أن يكون «لا تقاتلون» في موضع الحال «3» : ما لکم غير مقاتلین . ويجعل «لَا» مبنيّا مع النّكرة بعده فيقصد به النّفي . نحو : فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة 197] ، [ وقد يكرّر الکلام في المتضادّين ويراد إثبات الأمر فيهما جمیعا . نحو أن يقال : ليس زيد بمقیم ولا ظاعن . أي : يكون تارة كذا وتارة كذا، وقد يقال ذلک ويراد إثبات حالة بينهما . نحو أن يقال : ليس بأبيض ولا أسود ] «4» ، وإنما يراد إثبات حالة أخری له، وقوله : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] .- فقد قيل معناه : إنها شرقيّة وغربيّة «5» . وقیل معناه :- مصونة عن الإفراط والتّفریط . وقد يذكر «لَا» ويراد به سلب المعنی دون إثبات شيء، ويقال له الاسم غير المحصّل . نحو : لا إنسان، إذا قصدت سلب الإنسانيّة، وعلی هذا قول العامّة :- لا حدّ. أي : لا أحد .- ( لا ) حرف ) لا ۔ یہ کبھی عدم محض کے لئے آتا ہے ۔ جیسے : زید عالم یعنی جاہل ہے اور کبھی نفی کے لئے ہوتا ہے ۔ اور اسم و فعل دونوں کے ساتھ ازمنہ ثلاثہ میں نفی کے معنی دیتا ہے لیکن جب زمانہ ماضی میں نفی کے لئے ہو تو یا تو اس کے بعد فعل کو ذکر ہی نہیں کیا جاتا مثلا اگر کوئی ھل خرجت کہے تو اس کے جواب میں صرف ، ، لا ، ، کہ دنیا کافی ہے یعنی لاخرجت اور اگر نفی فعل مذکور بھی ہوتا ہے تو شاذو نا در اور وہ بھی اس وقت (11) جب لا اور فعل کے درمیان کوئی فاعل آجائے ۔ جیسے لارجل ضربت ولا امرءۃ (2) جب اس پر دوسرے فعل کا عطف ہو جیسے ۔ لا خرجت ولاضربت اور یا (3) لا مکرر ہو جیسے ؛فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة 31] اس ناعاقبت اندیش نے نہ تو کلام خدا کی نعمتوں کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی ۔ اور یا (4) جملہ دعائیہ میں جیسے لا کان ( خدا کرے ایسا نہ ہو ) لا افلح ( وہ کامیاب نہ ہوا وغیرہ ۔ اور زمانہ مستقبل میں نفی کے متعلق فرمایا : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ 3] ذرہ پھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں ۔ اور کبھی ، ، لا ، ، کلام مثبت پر داخل ہوتا ہے اور کلام محذوف کی نفی کے لئے آتا ہے ۔ جسیے فرمایا : وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس 61] اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ آسمان میں ۔۔۔ اور مندرجہ ذیل آیات میں بھی بعض نے لا کو اسی معنی پر حمل کیا ہے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة 1] ہم کو روز قیامت کی قسم ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج 40] میں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم کھاتا ہوں ۔ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء 65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ مومن نہیں ہوں گے ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ اور اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( المتقارب ) (388) لاوابیک ابتہ العامری نہیں تیرے باپ کی قسم اسے عامری کی بیٹی ۔ اور مروی ہے (105) کہ ا یک مرتبہ حضرت عمر نے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا ہے روزہ افطار کردیا اس کے بعد سورج نکل آیا تو آپ نے فرمایا : لانقضیہ ماتجالفنا الاثم فیہ اس میں بھی لا کلام محذوف کی نفی کے لئے ہے یعنی اس غلطی پر جب لوگوں نے کہا کہ آپ نے گناہ کا ارتکاب کیا تو اس کی نفی کے لئے انہوں نے لا فرمایا ۔ یعنی ہم گنہگار نہیں ہیں ۔ اس کے بعد تفضیہ سے از سر نو جملہ شروع کیا ہے ۔ اور کبھی یہ لا نہی کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات 11] کوئی قوم کسی قوم سے تمسخرنہ کرے ولا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات 11] اور نہ ایک دوسرے کا برنام رکھو ۔ اور آیت ؛ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکادے ۔ اور نیزلا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل 18] ایسانہ ہو ک سلمان اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں ۔۔۔ میں بھی لا نہی کے لئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة 83] اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سو اکسی کی عبادت نہ کرنا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لانا فیہ یعنی خبر ہے یعنی وہ اللہ کے سو ا کسی کی عبادت نہیں کریں گے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة 84] اور جب ہم نے تم سے عہد لیا ک تم آپس میں کشت وخون نہیں کروگے ۔ میں بھی لانفی پر محمول ہے اور فرمان باری تعالیٰ ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء 75] تمہیں کیا ہوا کہ خدا کی راہ میں نہیں لڑتے ۔ میں ہوسکتا ہے کہ لاتقاتلو ن موضع حال میں ہو ۔ اور معنی ی ہو مالکم غیر مقاتلین یعنی تمہیں کیا ہوا اور آنحالیکہ لڑنے والے نہیں ہو ۔ اور لا کے بعد اسم نکرہ آجائے تو وہ مبنی بر فتحہ ہوتا ہے اور لا لفی کے مبنی دیتا ہے جیسے فرمایا : نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے ۔ فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة 197] اور کبھی دو متضادمعنوں کے درمیان لا مکرر آجاتا ہے ۔ اور دونوں کا اثبات مقصود ہوتا ہے جیسے : لا زید بمقیم ولا ظاعن نہ زید مقیم ہے اور نہ ہی مسافر یعن کبھی مقیم ہے اور کبھی سفر پر اور کبھی متضاد مقصود ہوتا ہے جیسے ۔ لیس ابیض ولااسود سے مراد ہے کہ وہ ان دونوں رنگوں کے درمیان ہے یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے ہے کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا رنگ ہو چناچہ آیت کریمہ : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] یعنی زیتون کی نہ مشرق کی طرف منسوب اور نہ مغرب کیطر کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ بیک وقت مشرقی بھی ہے اور غربی بھی ۔ اور بعض نے اس کا افراط اور تفریط سے محفوظ ہونا مراد لیا ہے ۔ کبھی لا محض سلب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس سے ایک شے کی نفی کرکے دوسری کا اثبات مقصود نہیں ہوتا مثلا لا انسان کہہ کہ صرف انسانیت کی نفی کا قصد کیا جائے اور عامی محاورہ لاحد بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة «3» لاتخاذهم إياها معبودا .- وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ.- فالإله علی هذا هو المعبود «4» . وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»- وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها «2» ، وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] وقرئ :- ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر «5» ، مركّب تركيب حيّهلا .- ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم )- استغفار - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس،- والاسْتِغْفَارُ : طلب ذلک بالمقال والفعال، وقوله : اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح 10] - ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے - اور استغفار کے معنی قول اور عمل سے مغفرت طلب کرنے کے ہیں لہذا آیت کریمہ : ۔ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح 10] اپنے پروردگار سے معافی مانگو کہ بڑا معاف کر نیوالا ہے ۔ - ذنب - والذَّنْبُ في الأصل : الأخذ بذنب الشیء، يقال : ذَنَبْتُهُ : أصبت ذنبه، ويستعمل في كلّ فعل يستوخم عقباه اعتبارا بذنب الشیء، ولهذا يسمّى الذَّنْبُ تبعة، اعتبارا لما يحصل من عاقبته، وجمع الذّنب ذُنُوب، قال تعالی: فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ [ آل عمران 11] ،- الذنب ( ض )- کے اصل معنی کسی چیز کی دم پکڑنا کے ہیں کہا جاتا ہے ذنبتہ میں نے اس کی دم پر مارا دم کے اعتبار ست ہر اس فعل کو جس کا انجام برا ہوا سے ذنب کہہ دیتے ہیں اسی بناء پر انجام کے اعتباڑ سے گناہ کو تبعتہ بھی کہا جاتا ہے ۔ ذنب کی جمع ذنوب ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ [ آل عمران 11] تو خدا نے ان کو ان کے گناہوں کے سبب ( عذاب میں ) پکڑلیا تھا۔- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] .- وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - تَقْلِيبُ- الشیء : تغييره من حال إلى حال نحو : يَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوهُهُمْ فِي النَّارِ [ الأحزاب 66] وتَقْلِيبُ الأمور : تدبیرها والنّظر فيها، قال : وَقَلَّبُوا لَكَ الْأُمُورَ [ التوبة 48] . وتَقْلِيبُ اللہ القلوب والبصائر : صرفها من رأي إلى رأي، قال : وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ وَأَبْصارَهُمْ [ الأنعام 110] ، وتَقْلِيبُ الید : عبارة عن النّدم ذکرا لحال ما يوجد عليه النادم . قال : فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ [ الكهف 42] أي : يصفّق ندامة .- قال الشاعر کمغبون يعضّ علی يديه ... تبيّن غبنه بعد البیاع - والتَّقَلُّبُ : التّصرّف، قال تعالی: وَتَقَلُّبَكَ فِي السَّاجِدِينَ [ الشعراء 219] ، وقال : أَوْ يَأْخُذَهُمْ فِي تَقَلُّبِهِمْ فَما هُمْ بِمُعْجِزِينَ [ النحل 46] . ورجل قُلَّبٌ حُوَّلٌ: كثير التّقلّب والحیلة «2» ، والْقُلَابُ : داء يصيب القلب، وما به قَلَبَةٌ «3» : علّة يُقَلِّبُ لأجلها، والْقَلِيبُ. البئر التي لم تطو، والقُلْبُ : الْمَقْلُوبُ من الأسورة .- تقلیب الشئی کے معنی کسی چیز کسی چیز کو متغیر کردینے کے ہیں جیسے فرمایا : يَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوهُهُمْ فِي النَّارِ [ الأحزاب 66] جس دن ان کے منہ آگ میں الٹائیں جائیں گے۔ اور تقلیب الامور کے معنی کسی کام کی تدبیر اور اس میں غوروفکر کرنے کے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : وَقَلَّبُوا لَكَ الْأُمُورَ [ التوبة 48] اور بہت سی باتوں میں تمہارے لئے الٹ پھیر کرتے رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے دلوں اور بصیرتوں کی پھیر دینے سے ان کے آراء کو تبدیل کردینا مراد ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ وَأَبْصارَهُمْ [ الأنعام 110] اور ہم ان کے دلوں اور آنکھوں کو الٹ دیں گے ۔ اور تقلیب الید پشیمانی سے کنایہ ہوتا ہے ۔ کیونکہ عام طور پر نادم آدمی کا یہی حال ہوتا ہے ( کہ وہ اظہار ندامت کے لئے اپنے ہاتھ ملنے لگ جاتا ہے ) قرآن پاک میں ہے : فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ [ الكهف 42] تو ۔۔۔۔۔ و حسرت سے ) ہاتھ ملنے لگا ۔ شاعر نے کہا ہے ( 358) کمغبون یعض علی یدیہ تبین غبتہ بعدالبیاع جیسے خسارہ اٹھانے والا آدمی تجارت میں خسارہ معلوم کرلینے کے بعد اپنے ہاتھ کاٹنے لگتا ہے ۔ اور تقلب ( تفعل ) کے معنی پھرنے کے ہیں ۔ ارشاد ہے : وَتَقَلُّبَكَ فِي السَّاجِدِينَ [ الشعراء 219] اور نمازیوں میں تمہارے پھرنے کو بھی ۔ أَوْ يَأْخُذَهُمْ فِي تَقَلُّبِهِمْ فَما هُمْ بِمُعْجِزِينَ [ النحل 46] یان کو چلتے پھرتے پکڑلے وہ ( خدا کو ) عاجز نہیں کرسکتے۔ رجل قلب بہت زیادہ حیلہ گر اور ہوشیار آدمی جو معاملات میں الٹ پھیر کرنے کا ماہر ہو ۔ القلاب دل کی ایک بیماری ( جو اونٹ کو لگ جاتی ہے) مابہ قلبہ : یعنی وہ تندرست ہے اسے کسی قسم کا عارضہ نہیں ہے جو پریشانی کا موجب ہو القلیب۔ پراناکنواں جو صاف نہ کیا گیا ہو ۔ القلب ایک خاص قسم کا کنگن ۔- ثوی - الثَّوَاء : الإقامة مع الاستقرار، يقال : ثَوَى يَثْوِي ثَوَاءً ، قال عزّ وجلّ : وَما كُنْتَ ثاوِياً فِي أَهْلِ مَدْيَنَ [ القصص 45] ، وقال : أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوىً لِلْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر 60] ، قال اللہ تعالی: فَالنَّارُ مَثْوىً لَهُمْ [ فصلت 24] ، ادْخُلُوا أَبْوابَ جَهَنَّمَ خالِدِينَ فِيها فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر 72] ، وقال : النَّارُ مَثْواكُمْ [ الأنعام 128] ، وقیل : من أمّ مثواک «3» ؟ كناية عمّن نزل به ضيف، والثَّوِيَّة : مأوى الغنم،- ( ث و ی )- الثواء ( ص) کے اصل معنی کسی جگہ پر مستقل طور پر اقامت کرنا کے ہیں کہا جاتا ہے ثویٰ یثویٰ ثواء وہ اقامت پذیر ہوگیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَما كُنْتَ ثاوِياً فِي أَهْلِ مَدْيَنَ [ القصص 45] اور نہ تم مدین والوں میں رہ رہے تھے ۔ أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوىً لِلْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر 60] کیا غرور والوں کا ٹھکانا دوزخ میں نہیں ہے ۔ فَالنَّارُ مَثْوىً لَهُمْ [ فصلت 24] اور انکا ٹھکانا دوزخ ہے ۔ ادْخُلُوا أَبْوابَ جَهَنَّمَ خالِدِينَ فِيها فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر 72]( اب ) جہنم کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ ۔ ہمیشہ اسی میں رہو گے ۔ متکبروں کا کیسا برا ٹھکانا ہے ۔ النَّارُ مَثْواكُمْ [ الأنعام 128] خدا فرمائے گا ( اب ) تمہارا ٹھکانا درزخ ہے ۔ من ام مثواک ( کنایہ ) تمہارا میز بان کو ن ہے ۔ الثویۃ بھیڑ بکریوں کے باڑہ کو کہتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

آپ تو اس کا یقین رکھیے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی نفع و نقصان پہنچانے والا اور دینے اور روکنے والا عزت اور ذلت دینے والا اور کوئی نہیں یا یہ مطلب ہے کہ آپ جان لیجیے کہ کلمہ لا الہ الا اللہ کے برابر اور کسی چیز کو فضیلت حاصل نہیں۔ اور آپ اپنی خطاء صوری کی معافی مانگتے رہیے (تاکہ امت کے لیے یہ طریقہ مسنون ہوجائے) اور مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کے گناہوں کی مغفرت کی بھی دعا کرتے رہیے اور حق تعالیٰ دنیا میں تمہارے چلنے پھرنے اور اعمال کرنے اور آخرت میں آنے اور آخرت میں تمہارے ٹھکانے کی پوری خبر رکھتا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٩ فَاعْلَمْ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَ ” بس جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اپنی خطائوں کے لیے (اللہ سے) استغفار کرو “- وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَ کی ایک تاویل تو یہ ہے کہ یہ خطاب اگرچہ صیغہ واحد میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے لیکن حقیقت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وساطت سے یہ ہدایت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کے لیے ہے۔ البتہ بعض علماء نے اس اسلوب کی وضاحت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ” تعلق مع اللہ “ کے حوالے سے بھی کی ہے۔ اگر کسی عام بندہ مومن کو اللہ تعالیٰ کی خصوصی عنایت سے چند لمحات کے لیے تعلق مع اللہ میں انشراح کی کیفیت نصیب ہوجائے تو اس کے لیے یہ کیفیت اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ لیکن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تو ظاہر ہے ہر وقت ہی انشراح کی کیفیت رہتی تھی اور اس کیفیت کی شدت ( ) میں کسی ایک لمحے کے لیے ذرا سی بھی کمی کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بہت بڑی کوتاہی سمجھتے تھے۔ چناچہ یہاں لفظ ” ذنب “ کے حوالے سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اسی احساس کی طرف اشارہ ہے۔ گویا یہ ” حَسَنَاتُ الاَبْرَار سَیِّئاتُ المُقَرّبِین “ والا معاملہ ہے۔ یعنی بعض اوقات ایک عام مسلمان کے معیار کی نیکی کسی مقرب بارگاہ کے معیارِ عمل کے سامنے کوتاہی یا گناہ کے درجے میں شمار ہوتی ہے۔ بہر حال نہ تو مقربین بارگاہ کے تعلق مع اللہ کا معاملہ عام مسلمانوں کا سا ہے اور نہ ہی ان کے معاملے میں لفظ ” ذنب “ کی تعریف ( ) کا وہ مفہوم درست ہے جس سے عام طور پر ہم لوگ واقف ہیں۔ - اس معاملے میں میری ایک ذاتی رائے بھی ہے جس کا ذکراگلی سورت یعنی سورة الفتح کی آیت ٢ کے ضمن میں بھی آئے گا۔ میری رائے میں یہاں پر لفظ ” ذنب “ کا تعلق اس ” اجتماعیت “ سے ہے جس کے سربراہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھے۔ پچھلے کئی برسوں سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے اہل ایمان ساتھیوں کے ساتھ غلبہ دین کے لیے جدوجہد میں مصروف تھے۔ ظاہر ہے اس اجتماعی جدوجہد میں شریک افراد سے کہیں کوئی غلطی بھی سرزد ہوجاتی ہوگی اور کسی معاملے میں کبھی کوئی کوتاہی بھی رہ جاتی ہوگی۔ اگرچہ ایسی غلطیاں اور کوتاہیاں دوسروں سے ہوتی ہوں گی مگر تحریک اور جدوجہد کے قائد چونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھے اس لیے ان کا ذکر یہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے سے کیا گیا ہے۔ جیسے جنگ میں پوری فوج حصہ لیتی ہے ‘ ایک ایک سپاہی لڑتا ہے لیکن فتح کا سہرا سپہ سالار کے سر بندھتا ہے ‘ اسی طرح اگر کسی فوج کو شکست سے دوچار ہونا پڑے تو بھی اس فوج کے کمانڈر ہی کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔- وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ ” اور اہل ِایمان مردوں اور عورتوں کے لیے بھی (استغفار کریں) ۔ “- وَاللّٰہُ یَعْلَمُ مُتَقَلَّبَکُمْ وَمَثْوٰکُمْ ” اور اللہ خوب جانتا ہے تمہارے لوٹنے کی جگہ کو اور تمہارے مستقل ٹھکانے کو۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :31 اسلام نے جو اخلاق انسان کو سکھائے ہیں ، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بندہ اپنے رب کی بندگی و عبادت بجا لانے میں ، اور اسے دین کی خاطر جان لڑانے میں ، خواہ اپنی ہی کوشش کرتا رہا ہو ، اس کو کبھی اس زعم میں مبتلا نہ ہونا چاہیے کہ جو کچھ مجھے کرنا چاہیے تھا وہ میں نے کر دیا ہے ، بلکہ اسے ہمیشہ یہی سمجھتے رہنا چاہیے کہ میرے مالک کا مجھ پر جو حق تھا وہ میں ادا نہیں کر سکا ہوں ، اور ہر وقت اپنے قصور کا اعتراف کر کے اللہ سے یہی دعا کرتے رہنا چاہیے کہ تیری خدمت میں جو کچھ بھی کوتاہی مجھ سے ہوئی ہے اس سے درگزر فرما ۔ یہی اصل روح ہے اللہ تعالی کے اس ارشاد کی کہ اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنے قصور کی معافی مانگو ۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ معاذاللہ ، نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فی الواقع جان بوجھ کر کوئی قصور کیا تھا ۔ بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ تمام بندگان خدا سے بڑھ کر جو بندہ اپنے رب کی بندگی بجا لانے والا تھا ، اس کا منصب بھی یہ نہ تھا کہ اپنے کار نامے کے فخر کا کوئی شائبہ تک اس کے دل میں راہ پائے ، بلکہ اس کا مقام بھی یہ تھا کہ اپنے ساری عظیم القدر خدمات کے باوجود اپنے رب کے حضور اعتراف قصور ہی کرتا رہے ۔ اسی کیفیت کا اثر تھا جس کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہمیشہ بکثرت استغفار فرماتے رہتے تھے ۔ ابوداؤد ، نسائی اور مسند احمد کی روایت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد منقول ہوا ہے کہ میں ہر روز سو بار اللہ سے استغفار کرتا ہوں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

9: حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گناہوں سے معصوم تھے، آپ سے گناہ کا کوئی کام ہو ہی نہیں سکتا تھا، لیکن آپ کی کسی کسی رائے کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ وہ آپ کے مقام بلند کے مناسب نہیں تھی (مثلاً جنگ بدر کے قیدیوں کے بارے میں آپ کا فیصلہ جس کا ذکر سورۃ انفال : 22، 23 میں گذرا ہے، نیز بشری تقاضے سے کبھی کبھی آپ سے نماز کی رکعتوں وغیرہ میں بھول بھی ہوئی۔ اسی قسم کی باتوں کو یہاں قصور سے تعبیر فرمایا گیا ہے، اور در حقیقت اس میں آپ کی امت کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی جو گناہ نہیں ہیں، استغفار فرماتے ہیں تو امت کے لوگوں کو اپنے ہر چھوٹے بڑے گناہ پر اور زیادہ اہتمام کے ساتھ استغفار کرنا چاہئے۔