Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

ایمان کی دلیل حکم جہاد کی تعمیل ہے اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ مومن تو جہاد کے حکم کی تمنا کرتے ہیں پھر جب اللہ تعالیٰ جہاد کو فرض کر دیتا ہے اور اس کا حکم نازل فرما دیتا ہے تو اس سے اکثر لوگ ہٹ جاتے ہیں ، جیسے اور آیت میں ہے آیت ( اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ قِيْلَ لَھُمْ كُفُّوْٓا اَيْدِيَكُمْ وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ 77؀ ) 4- النسآء:77 ) یعنی کیا تو نے انہیں نہیں دیکھا جن لوگوں سے کہا گیا کہ تم اپنے ہاتھوں کو روک لو اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ ادا کرتے رہو پھر جب ان پر جہاد فرض کیا گیا تو ان میں سے ایک فریق لوگوں سے اس طرح ڈرنے لگا جیسے اللہ کا ڈر ہو بلکہ اس سے بھی زیادہ ۔ اور کہنے لگے اے ہمارے رب ہم پر تو نے جہاد کیوں فرض کر دیا تو نے ہم کو قریب کی مدت تک ڈھیل کیوں نہ دی ؟ تو کہہ کہ دنیا کی متاع بہت ہی کم ہے اور پرہیز گاروں کے لئے آخرت بہت ہی بہتر ہے اور تم پر بالکل ذرا سا بھی ظلم نہ کیا جائے گا ۔ پس یہاں بھی فرماتا ہے کہ ایمان والے تو جہاد کے حکموں کی آیتوں کے نازل ہونے کی تمنا کرتے ہیں لیکن منافق لوگ جب آن آیتوں کو سنتے ہیں تو بوجہ اپنی گبھراہٹ بوکھلاہٹ اور نامردی کے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اس طرح تجھے دیکھنے لگتے ہیں جیسے موت کی غشی والا ۔ پھر انہیں مرد میدان بننے کی رغبت دلاتے ہوئے فرماتا ہے کہ ان کے حق میں بہتر تو یہ ہوتا کہ یہ سنتے مانتے اور جب موقعہ آجاتا معرکہ کارزار گرم ہوتا تو نیک نیتی کے ساتھ جہاد کر کے اپنے خلوص کا ثبوت دیتے پھر فرمایا قریب ہے کہ تم جہاد سے رک جاؤ اور اس سے بچنے لگو تو زمین میں فساد کرنے لگو اور صلہ رحمی توڑنے لگو یعنی زمانہ جاہلیت میں جو حالت تمہاری تھی وہی تم میں لوٹ آئے پس فرمایا ایسے لوگوں پر اللہ کی پھٹکار ہے اور یہ رب کی طرف سے بہرے اندھے ہیں ۔ اس میں زمین میں فساد کرنے کی عموما اور قطع رحمی کی خصوصا ممانعت ہے ۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے زمین میں اصلاح اور صلہ رحمی کرنے کی ہدایت کی ہے اور ان کا حکم فرمایا ہے ، صلہ رحمی کے معنی ہیں قرابت داروں سے بات چیت میں کام کاج میں ، سلوک و احسان کرنا اور ان کی مالی مشکلات میں ان کے کام آنا ۔ اس بارے میں بہت سی صحیح اور حسن حدیثیں مروی ہیں ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو پیدا کر چکا تو رحم کھڑا ہوا اور رحمن سے چمٹ گیا اس سے پوچھا گیا کیا بات ہے ؟ اس نے کہا یہ مقام ہے ٹوٹنے سے تیری پناہ میں آنے کا اس پر اللہ عزوجل نے فرمایا کیا تو اس سے راضی نہیں ؟ کہ تیرے ملانے والے کو میں ملاؤں اور تیرے کاٹنے والے کو میں کاٹ دوں ؟ اس نے کہا ہاں اس پر میں بہت خوش ہوں اس حدیث کو بیان فرما کر پھر راوی حدیث حضرت ابو ہریرہ نے فرمایا اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو ( فَهَلْ عَسَيْتُمْ اِنْ تَوَلَّيْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ وَتُـقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَكُمْ 22؀ ) 47-محمد:22 ) ، اور سند سے ہے کہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ ابو داؤد ترمذی ابن ماجہ وغیرہ میں ہے کوئی گناہ اتنا بڑا اور اتنا برا نہیں جس کی بہت جلدی سزا دنیا میں اور پھر اس کی برائی آخرت میں بہت بری پہنچتی ہو بہ نسبت سرکشی بغاوت اور قطع رحمی کے ۔ مسند احمد میں ہے جو شخص چاہے کہ اس کی عمر بڑی ہو اور روزی کشادہ وہ وہ صلہ رحمی کرے ۔ اور حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا میرے نزدیکی قرابت دار مجھ سے تعلق توڑتے رہتے ہیں اور میں انہیں معاف کرتا رہتا ہوں وہ مجھ پر ظلم کرتے ہیں اور میں ان کے ساتھ احسان کرتا ہوں اور وہ میرے ساتھ برائیاں کرتے رہتے ہیں تو کیا میں ان سے بدلہ نہ لوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں اگر ایسا کرو گے تو تم سب کے سب چھوڑ دئیے جاؤ گے ، تو صلہ رحمی پر ہی رہ اور یاد رکھ کہ جب تک تو اس پر باقی رہے گا اللہ کی طرف سے تیرے ساتھ ہر وقت معاونت کرنے والا رہے گا ۔ بخاری وغیرہ میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صلہ رحمی عرش کے ساتھ لٹکی ہوئی ہے حقیقتًا صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو کسی احسان کے بدلے احسان کرے بلکہ صحیح معنی میں رشتے ناطے ملانے والا وہ ہے کہ گو تو اسے کاٹتا جائے وہ تجھ سے جوڑتا جائے ۔ مسند احمد میں ہے کہ صلہ رحمی قیامت کے دن رکھی جائے گی اس کی رانیں ہوں مثل ہرن کی رانوں کے وہ بہت صاف اور تیز زبان سے بولے گی پس وہ کاٹ دیا جائے گا جو اسے کاٹتا تھا اور وہ ملایا جائے گا جو اسے ملاتا تھا ۔ مسند کی ایک اور حدیث میں ہے رحم کرنے والوں پر رحمن بھی رحم کرتا ہے ۔ تم زمین والوں پر رحم کرو آسمانوں والا تم پر رحم کرے گا ۔ رحم رحمان کی طرف سے ہے اس کے ملانے والے کو اللہ ملاتا ہے اور اس کے توڑنے والے کو اللہ تعالیٰ خود توڑ دیتا ہے ۔ یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے اور امام ترمذی اسے حسن صحیح کہتے ہیں ۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف کی بیمار پرسی کے لئے لوگ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے تم نے صلہ رحمی کی ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ عزوجل نے فرمایا ہے میں رحمن ہوں اور رحم کا نام میں نے اپنے نام پر رکھا ہے اسے جوڑنے والے کو میں جوڑوں گا اور اس کے توڑنے والے کو میں توڑ دوں گا اور حدیث میں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں روحیں ملی جلی ہیں جو روز ازل میں میل کر چکی ہیں وہ یہاں یگانگت برتتی ہیں اور جن میں وہاں نفرت رہی ہے یہاں بھی دوری رہتی ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب زبانی دعوے بڑھ جائیں عملی کام گھٹ جائیں ، زبانی میل جول ہو ، دلی بغض و عداوت ہو ، رشتے دار رشتے دار سے بدسلوکی کرے اس وقت ایسے لوگوں پر لعنت اللہ نازل ہوتی ہے اور ان کے کان بہرے اور آنکھیں اندھی کر دی جاتی ہیں ۔ اس بارے میں اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں ۔ واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

20۔ 1 جب جہاد کا حکم نازل نہیں ہوا تھا تو مومنین جو جذبہ جہاد سے سرشار تھے جہاد کی اجازت کے خواہش مند تھے اور کہتے تھے کہ اس بارے میں کوئی سورت نازل کیوں نہیں کی جاتی یعنی جس میں جہاد کا حکم ہو۔ 20۔ 2 یعنی ایسی سورت جو غیر منسوح ہو۔ 20۔ 3 یہ ان منافقین کا ذکر ہے جن پر جہاد کا حکم نہایت گراں گزرتا تھا، ان میں بعض کمزور ایمان والے بھی بعض دفعہ شامل ہوجاتے تھے سورة نساء آیت 77 میں بھی یہ مضمون بیان کیا گیا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٤] جہاد کے حکم پر منافقوں کی حا لت زار :۔ مکہ میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کی انتہا ہوچکی تھی۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہی حکم تھا کہ سب کچھ صبر کے ساتھ برداشت کرتے جاؤ۔ اور اپنی تمام تر توجہ نمازوں کے قیام، زکوٰۃ کی ادائیگی اور اس کے ذکر کی طرف مبذول کئے رہو۔ اس وقت کئی جرأت مند مسلمان یہ آرزو کیا کرتے تھے کہ کاش انہیں کافروں سے لڑنے کی اجازت مل جائے۔ اور ہم بھی ان سے ان کے مظالم کا بدلہ لے سکیں۔ مدینہ میں پہنچنے کے ایک سال بعد مسلمانوں کو جنگ کی اجازت تو مل گئی۔ لیکن ابھی کوئی صریح حکم نازل نہیں ہوا تھا اور وہ چاہتے تھے کہ جہاد کے متعلق صریح احکام و ہدایات نازل ہوں پھر جب ایسی ہدایات بھی نازل ہوگئیں تو اس وقت بہت سے منافق بھی مسلمانوں کی جماعت میں شامل ہوچکے تھے علاوہ ازیں کچھ ضعیف الاعتقاد اور کمزور مسلمان بھی تھے۔ جب جہاد کے احکام نازل ہوئے تو یک لخت ان پر موت کا خوف طاری ہوگیا۔ اور رسول اللہ کی طرف یوں دیکھنے لگے جیسے موت انہیں سامنے کھڑی نظر آرہی ہے۔ منافقوں کو تو بس ٹھنڈا ٹھنڈا اسلام قبول تھا۔ وہ مسلمانوں کے ساتھ نمازیں پڑھ لیتے تھے اور روزے بھی رکھ لیتے تھے مگر جب جان کی بازی لگانے کا وقت آیا تو فوراً ہمت ہار بیٹھے۔ اور ہر شخص کو یہ معلوم ہوگیا کہ کون شخص ایمان کے حق میں کس قدر مخلص ہے ؟

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) ویقول الذین امنوا لو لانزلت سورة : اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے منافقوں اور ایمان والوں کا حال ان آیات کو سننے کے وقت فرمایا جو توحید، قیامت اور دوسرے اعتقادی معاملات سے تعلق رکھتی ہیں۔ چناچہ ” ومنھم من یستمع الیک “ میں منافقین کا حال بیان فرمایا اور ” والذین اھتدوا زادھم ھدی “ میں ایمان والوں کا حال بیان فرمایا۔ اب عمل سے تعلق رکھنے والی آیات مثلاً جہاد، نماز اور زکوۃ وغیرہ کے متعلق ان کا طرز عمل بیان فرمایا۔ وہ یہ کہ مخلص مومن ہمیشہ ایسے کاموں کے بارے میں وحی کے نزول کے منتظر اور امیدوار رہتے، تاکہ ان پر عمل کر کے زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرسکوں، جب اس کے نزول میں تاخیر ہوتی تو کہتے کہ ایسی کوئی آیت یا سورت کیوں نازل نہیں کی گئی اور منافقین کا یہ حال تھا کہ جب مشقت والی ایسی کوئی سورت یا آیت اترتی تو ان پر بہت شاق گزرتی، خصوصاً جہاد کا ذکر آنے پر تو خوف اور دہشت کے مارے ان کی آنکھیں کھلی رہ جاتیں۔- (٢) ویقول الذین امنوا لولا نزلت سورة : ہجرت کے بعد اگرچہ سورة حج کی آیت (٣٩) (اذن للذین یفتلون بانھم ظلموا) ان لوگوں کو جن سے لڑائی کی جاتی ہے، اجازت دے دی گئی ہے، اس لئے کہ ان پر ظلم کیا گیا ) کے ساتھ کفار سے قتال کی اجازت ہوچکی تھی، مگر اس کی فرضیت کا واضح حکم ابھی نہیں آیا تھا۔ مخلص مومن جو کفار کے ظلم و ستم سے شدید تنگ دل تھے اور فتح یا شہادت کے متمنی تھے، کہتے رہتے تھے کہ جہاد کے حکم والی کوئی سورت کیوں نازل نہیں کرگئی۔- (٣) فاذا انزلت سورة محکمۃ وذکر فیھا القتال : محکم سورت سے مراد ایسی سورت ہے جس میں دیا جانے والا حکم واضح ہو، جس میں کوئی تاویل نہ کی جاسکے اور نہ وہ منسوخ ہو۔ مراد اس سے یہی سورة محمد (ﷺ) ہے جس کا نام سورة قتال بھی ہے۔ کیونکہ اس میں ” جاھدوا “ (جہاد کرو) یا ” قاتلوا “ (لڑو) کے بجائے قتال کا حکم ” فضرب الرقاب “ کے بالکل صریح الفاظ کے ساتھ دیا گیا کہ کفار سے مڈ بھیڑ ہو تو ان کی گردنیں اڑا دو اور خوب خون ریزی کے بعد انہیں قیدی بناؤ وغیرہ۔- (٤) رایت الذین فی قلوبھم مرض …: یعنی جب قتال کے واضح حکم والی سورت نازل کی گئی تو منافقین کا یہ حال ہوا۔ شاہ عبدالقادر لکھتے ہیں :” مسلمان سورت مانگتے تھے، یعنی کافروں کی ایذا سے عاجز ہو کر آرزو کرتے کہ اللہ جہاد کا حکم دے تو جو ہم سے ہو سکے کر گزیرں۔ جب جہاد کا حکم آیا تو منافقا ور کچے لوگوں پر بھای روہا، خوف زدہ اور بےرونق آنکھوں سے پیغمبر کی طرف دیکھنے لگے کہ کاش ہم کو اس حکم سے معاف رکھیں۔ بےحد خوف میں بھی آنکھ کی رونق نہیں رہتی، جیسے مرتے وقت آنکھوں کا نور جاتا رہتا ہے۔ “ (موضح) اس مضمون کی آیات کے لئے دیکھیے سورة نسائ (٧٧) اور سورة احزاب (١٩) ۔- (٥) فاولی لھم : مفسرین نے اس لفظ کی مختلف تفسریں کی ہیں جن میں سب سے وضاح اور تکلف سے خالی یہ ہے کہ یہ ” ولی یلی ولیا “ (س) سے اسم تفصیل ہے، جس کا معنی ہے زیادہ لائق ، زیادہ قریب، بہتر ہے۔ اب اس کی ترکیب دو طرح سے ہوسکتی ہے، ایک یہ کہ یہ مبتدا محذوف کی خبر ہے جو اس سے پہلے جملے سے معلوم ہو رہا ہے، یعنی ” فالموت اولی لھم “ ” پس موت ہی ان کے لئے بہتر ہے، یا موت ہی ان کے لائق ہے۔ “ دوسری تفسیر حافظ ابن کثیر نے فرمائی ہے کہ ” فاولی لھم “ خیر مقدم ہے اور اگلی آیت میں ” طاعۃ وقول معروف “ مبتداء موخر ہے۔ ان کے الفاظ میں عبارت یوں ہے :” طاعۃ و قول معروف اولی لھم ، ای و کان الاولی لھم ان یسمعوا ویطیعوا “ یعنی ان کے لئے بہتر تھا کہ وہ سنتے اور طا اعت کرتے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور جو لوگ ایمان والے ہیں وہ (تو ہمیشہ اس بات کے مشتاق رہتے ہیں کہ کلام الٰہی اور نازل ہو تاکہ ایمان تازہ ہو اور احکام جدید آویں تو ان کا ثواب بھی حاصل کریں اور اگر احکام سابقہ کی تاکید ہو تو اور زیادہ ثبات حاصل ہو اور اس اشتیاق میں) کہتے رہتے ہیں کہ کوئی (نئی) سورت کیوں نہ نازل ہوئی (اگر نازل ہو تو تمنا پوری ہو) سو جس وقت کوئی صاف صاف (مضمون کی) سورت نازل ہوتی ہے اور (اتفاق سے) اس میں جہاد کا بھی (صاف صاف) ذکر ہوتا ہے تو جن لوگوں کے دلوں میں (نفاق کی) بیماری ہے آپ ان لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ آپ کی طرف اس طرح (بھیانک نگاہوں سے) دیکھتے ہیں جیسے کسی پر موت کی بیہوشی طاری ہو (اس طرح دیکھنے کا سبب خوف اور بزدلی ہے کہ اب اپنے دعوائی ایمان کو نبھانے کے لئے جہاد میں جانا پڑا اور مصیبت آئی اور وہ جو اس طرح خدا کے حکم سے جی چراتے ہیں) سو (اصل یہ ہے کہ) عنقریب ان کی کم بختی آنے والی ہے (خواہ دنیا میں بھی کسی وبال میں گرفتار ہوں ورنہ بعد موت کے تو ضروری ہی ہے اور گو فرصت میں یہ بہت باتیں اطاعت اور خوشامد کی بنا پر کرتے ہیں لیکن) ان کی اطاعت اور بات چیت (کی حقیقت) معلوم ہے (جس کا اب نزول حکم قتال کے وقت ان کی حالت سے سب ہی پر ظہور ہوگیا) پھر (بعد نزول حکم جہاد کے) جب سارا کام (اور سامان لڑائی کا) تیار ہو ہی جاتا ہے تو (اس وقت بھی) اگر یہ لوگ (دعویٰ ایمان باللہ میں) اللہ سے سچے رہتے (یعنی دعویٰ ایمان کے مقتضا پر عمل کرتے جس میں تمام احکام شرعیہ عموماً اور حکم جہاد خصوصاً شامل ہے اور صدق دل سے جہاد کرتے) تو ان کے لئے بہت ہی بہتر ہوتا (یعنی ابتداء میں اگر منافق تھے تو اخیر ہی میں نفاق سے تاثب ہوجاتے تب بھی ایمان مقبول ہوجاتا اور انتہاء کو اس میں منحصر نہ سمجھا جاوے کیونکہ وقت موت تک صدق دل سے توبہ مقبول ہے، آگے جہاد کی تاکید اور اس سے پیچھے رہنے والوں کو خطاب کر کے ترک جہاد پر بیان فرماتے ہیں کہ تم لوگ جو جہاد سے کراہت کرتے ہو سو ( اس میں ایک دنیوی مضرت بھی ہے چنانچہ) اگر تم ( اور اسی طرح سب جہاد سے) کنارہ کش رہو تو آیا تم کو یہ احتمال بھی ہے (یعنی ہونا چاہئے) کہ تم (یعنی تمام آدمی) دنیا میں فساد مچا دو اور آپس میں قطع قرابت کردو (یعنی جہاد سے بڑا فائدہ اقامت عدل و اصلاح و امن کا ہے اگر اس کو چھوڑ دیا جاوے تو مفسدین کا غلبہ ہوجاوے اور کوئی انتظام جس میں تمام لوگوں کے مصالح کی حفاظت ہو نہ رہے اور ایسے انتظام نہ ہونے کے لئے فساد عام اور اضاعة حقوق لازم ہے پس جس جہاد میں دنیوی منفعت بھی ہو اس سے پیچھے ہٹنا اور بھی عجیب ہے، آگے ان منافقین مذکورین کی تقبیح ہے کہ) یہ وہ لوگ ہیں جن کو خدا نے اپنی رحمت سے دور کردیا (اس لئے اس کے احکام پر عمل کی توفیق نہ رہی) پھر (رحمت سے بعید کرنے پر یہ امر مرتب ہوا کہ) ان کو (بگوش قبول احکام الٰہیہ سننے سے) بہرا کردیا اور (راہ حق کے دیکھنے سے) ان کی (باطنی) آنکھوں کو اندھا کردیا (آگے ان پر توبیخ ہے کہ باوجودیکہ قرآن میں جہاد اور دیگر احکام کا وجوب مع دلائل حقانیت قرآن کے اور ان احکام کے مصالح و منافع اخرویہ لازماً اور دنیویہ بھی احیاناً اور ان احکام کی مخالفت پر وعیدیں مذکور ہیں پھر جو یہ لوگ اس طرف التفات نہیں کرتے) تو کیا یہ لوگ قرآن (کے اعجاز اور مضامین) میں غور نہیں کرتے (اس لئے ان کو انکشاف نہیں ہوتا) یا (غور کرتے ہیں مگر) دلوں پر (غیبی) قفل لگ رہے ہیں ، (یہ منع الخلو ہے، یعنی ان دونوں میں سے ایک بات کا ہونا ضروری ہے اور دونوں جمع ہوں یہ بھی ہوسکتا ہے، اور واقع میں یہاں دونوں باتیں مجتمع ہیں، اول ان کی طرف سے ایک فعل ہوا یعنی انکار کی وجہ سے قرآن میں غور نہ کرنا پھر اس کے وبال میں قفل لگ گیا جس کو طبع اور ختم (یعنی مہر لگا دینا) بھی کہا گیا ہے اور دلیل اس ترتیب کی یہ آیت ہے، (آیت) ذلک بانہم امنوا ثم کفروا فطبع علی قلوبہم، اور اس مجموعہ پر فہم لا یفقھون مرتب ہے، آگے اس عدم تدبر کی وجہ فرماتے ہیں کہ) جو لوگ (حق سے) پشت پھیر کر ہٹ گئے بعد اس کے سیدھا راستہ ان کو (دلائل عقلیہ مثل اعجاز قرآن اور دلائل نقلیہ مثل پیشین گوئی کتب سابقہ سے) صاف معلوم ہوگیا شیطان نے ان کو چقمہ دیا ہے اور ان کو دور دور کی سوجھائی ہے (کہ ایمان لانے سے فلاں فلاں مصلحتیں موجودہ یا جو آئندہ متوقع ہیں فوت ہوجاویں گی، حاصل یہ ہوا کہ اس عدم تدبر کی وجہ عناد ہے کہ ہدایت کے واضح ثبوت کے بعد پھر یہ الٹے پاؤں لوٹے جا رہنے اور اس عناد کے بعد تسویل شیطانی ہوئی، یعنی شیطان نے ان کی نظروں میں اس غلط اور مہلک عمل کو مزین کر کے دکھلایا اور اس تسویل سے عدم تدبر ہوا اور عدم تدبر سے ختم اور طبع یعنی دلوں پر مہر ہوئی پھر) یہ (ہدایت سامنے آجانے کے باوجود اس سے لوٹنا اور دور ہونا) اس سبب سے ہوا کہ ان لوگوں نے ایسے لوگوں سے جو کہ خدا کے اتارے ہوئے احکام کو (حسداً ) ناپسند کرتے ہیں (مراد اس سے رؤسائے یہود ہیں، جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حسد کرتے تھے اور باوجود معرفت حق کے اتباع سے عار کرتے تھے، حاصل یہ کہ ان منافقین نے رؤسائے یہود سے) یہ کہا بعضی باتوں میں ہم تمہارا کہنا مان لیں گے (یعنی تم جو ہم کو اتباع محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منع کرتے ہو اس کے دو جز ہیں ایک عدم اتباع ظاہراً دوسرا عدم اتباع باطناً سو جزو اول میں تو ہم بمصلحت تمہارا کہنا نہیں مان سکتے لیکن جزو ثانی میں مان لیں گے کیونکہ عقائد میں ہم تمہارے ساتھ ہیں، کما قال انا معکم، مطلب یہ ہوا کہ حق سے پھرنے کا سبب قومی تعصب اور کو رانہ تقلید ہے، غرض ابتداء سلسلہ کی اس سے ہے اور انتہا ختم و طبع پر) اور (گو اس قسم کی باتیں یہ منافقین خفیہ کرتے ہیں مگر) اللہ تعالیٰ ان کی خفیہ باتیں کرنے کو (خوب) جانتا ہے (اور بعض امور پر وحی سے آپ کو مطلع کردیتا ہے، آگے و عید ہے جو کہ اولیٰ لہم کی تفسیر کے طور پر ہو سکتی ہے یعنی یہ جو ایسی حرکتیں کر رہے ہیں) سو ان کا کیا حال ہوگا جبکہ فرشتے ان کی جان قبض کرتے ہوں گے اور ان کے مونہوں پر اور رپشتوں پر مارتے جاتے ہوں گے (اور) یہ (سزا) اس سبب سے (ہوگی) کہ جو طریقہ خدا کی ناراضی کا موجب تھا یہ اسی پر چلے اور اس کی رضا (یعنی اعمال موجبہ رضا) سے نفرت کیا کئے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے سب اعمال (نیک ابتداء ہی سے) کالعدم کردیئے (پس اس سزا کے مستحق ہوگئے اور کسی کے پاس کوئی عمل مقبول ہو تو اس کی برکت سے عقوبت میں کچھ تو کمی ہوجاتی ہے آگے (آیت) واللہ یعلم اسرار ہم کے مضمون کی طرح کے طور پر ہے کہ) جن لوگوں کے دلوں میں مرض (نفاق) ہے ( اور وہ اس کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں) کیا یہ لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کبھی ان کی دلی عداوتوں کو ظاہر نہ کرے گا (یعنی یہ ان کو کیسے اطمینان ہوگیا جبکہ حق تعالیٰ کا عالم الغیب ہونا ثابت اور مسلم ہے) اور ہم (تو) اگر چاہتے تو آپ کو ان کا پورا پتہ بتلا دیتے سو آپ ان کو ان کے حلیہ سے پہچان لیتے (پورے پتہ کا مطلب یہی ہے کہ ہر ایک کا پورا حلیہ بتا دیتے) اور (گو بمصلحت ہم نے اس طرح نہیں بتلایا لیکن) آپ ان کو طرز کلام سے (اب بھی) ضرور پہچان لیں گے (کیونکہ ان کا کلام صدق پر مبنی نہیں اور آپ کو نور فراست سے اللہ تعالیٰ نے صدق و کذب کی پہچان دی تھی کہ صدق کا اثر قلب پر اور ہوتا تھا اور کذب کا اور جیسا کہ حدیث میں ہے کہ صدق اطمینان بخش ہوتا ہے اور جھوٹ دل میں شک پیدا کرتا ہے) اور (آگے مومنین و منافقین سب کو خطاب میں جمع کر کے بطور ترغیب و ترہیب کے فرماتے ہیں کہ) اللہ تعالیٰ تم سب کے اعمال کو جانتا ہے (پس مسلمانوں کو ان کے اخلاص پر جزا اور منافقین کو ان کے نفاق اور دھوکہ پر سزا دے گا) اور (آگے احکام شاقہ مثل جہاد وغیرہ کی ایک حکیمانہ حکمت ارشاد ہے جیسا اوپر فہل عسیتم الخ میں ایک حکیمانہ حکمت ارشاد فرمائی تھی یعنی) ہم (ایسے امور شاقہ کا حکم دے کر) ضرور تمہاری سب کی آزمائش کریں گے تاکہ ہم (ظاہری طور پر بھی) ان لوگوں کو معلوم (اور ممیز) کرلیں جو تم میں جہاد کرنے والے ہیں اور جو (جہاد میں) ثابت قدم رہنے والے ہیں اور تاکہ تمہاری حالتوں کی جانچ کرلیں ( یہ اس لئے بڑھا دیا کہ علاوہ حکم جہاد کے اور احکام بھی داخل ہوجاویں اور علاوہ حالت مجاہدہ و صبر کے دوسرے حالات بھی داخل ہوجاویں )- معارف و مسائل - سورة محکمة، محکمہ کے لفظی معنی مضبوط و مستحکم کے ہیں اس لغوی معنی کے اعتبار سے تو قرآن کی ہر سورت محکمہ ہے لیکن اصطلاح شرع میں محکم بمقابلہ منسوخ استعمال ہوتا ہے، یہاں سورة کے ساتھ محکمہ کی قید کا اضافہ اس لئے ہے کہ عمل کا شوق تو جبھی پورا ہوسکتا ہے جبکہ وہ سورت منسوخ نہ ہو، اور قتادہ نے فرمایا کہ جتنی سورتوں میں قتال و جہاد کے احکام آئے ہیں وہ سب محکمہ ہیں، یہاں چونکہ اصل مقصود حکم جہاد اور اس پر عمل ہے اس لئے سورت کے ساتھ محکمہ کا لفظ بڑھا کر ذکر جہاد کی طرف اشارہ کردیا جس کی آگے تصریح آ رہی ہے۔ (قرطبی)- فَاَوْلٰى لَهُمْ کے معنی اصمعی کے قول کے مطابق یہ ہیں قاربہ ما یھلکہ یعنی اس کی ہلاکت کے اسباب قریب آ چکے ہیں (قرطبی)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَوْلَا نُزِّلَتْ سُوْرَۃٌ۝ ٠ ۚ فَاِذَآ اُنْزِلَتْ سُوْرَۃٌ مُّحْكَمَۃٌ وَّذُكِرَ فِيْہَا الْقِتَالُ۝ ٠ ۙ رَاَيْتَ الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ يَّنْظُرُوْنَ اِلَيْكَ نَظَرَ الْمَغْشِيِّ عَلَيْہِ مِنَ الْمَوْتِ۝ ٠ ۭ فَاَوْلٰى لَہُمْ۝ ٢٠ ۚ- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] .- وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - «لَوْلَا»- يجيء علی وجهين :- أحدهما : بمعنی امتناع الشیء لوقوع غيره، ويلزم خبره الحذف، ويستغنی بجوابه عن الخبر . نحو : لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ 31] .- والثاني : بمعنی هلّا، ويتعقّبه الفعل نحو : لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه 134] أي : هلّا . وأمثلتهما تکثر في القرآن .- ( لولا ) لو لا ( حرف ) اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے ایک شے کے پائے جانے سے دوسری شے کا ممتنع ہونا اس کی خبر ہمیشہ محذوف رہتی ہے ۔ اور لولا کا جواب قائم مقام خبر کے ہوتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ 31] اگر تم نہ ہوتے تو ہمضرور مومن ہوجاتے ۔ دو م بمعنی ھلا کے آتا ہے ۔ اور اس کے بعد متصلا فعل کا آنا ضروری ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه 134] تو نے ہماری طرف کوئی پیغمبر کیوں نہیں بھیجا ۔ وغیرہ ذالک من الا مثلۃ - سُّورَةُ- المنزلة الرفیعة، وسُورُ المدینة : حائطها المشتمل عليها، وسُورَةُ القرآن تشبيها بها لکونه محاطا بها إحاطة السّور بالمدینة، أو لکونها منزلة کمنازل القمر، ومن قال : سؤرة فمن أسأرت، أي : أبقیت منها بقيّة، كأنها قطعة مفردة من جملة القرآن وقوله : سُورَةٌ أَنْزَلْناها - [ النور 1] ، - السورۃ - کے معنی بلند مرتبہ کے ہیں ۔ اور سورة المدینۃ کے معنی شہر پناہ کے ہیں اور سورة القرآن ( قرآن کی سورت ) یا تو سور المدینۃ سے ماخوذ ہے کیونکہ سورة بھی شہر پناہ کی طرح قرآن کا احاطہ کئے ہوئے ہیں اس لئے انہیں سورة القرآن کہا جاتا ہے اور یا سورة بمعنی مرتبہ سے مشتق ہے ، اور سورة بھی مناز ل قمر کی طرح ایک منزلۃ ہے اس لئے اسے سورة کہا جاتا ہے اور یہ دونوں اشتقاق اس وقت ہوسکتے ہیں جب اس میں واؤ کو اصلی مانا جائے لیکن اگر اسے اصل میں سورة مہموز مانا جائے تو یہ اسارت سے مشتق ہوگا جس کے معنی کچھ باقی چھوڑ دینے کے ہیں اور سورة بھی چونکہ قرآن ن کا ایک ٹکڑا اور حصہ ہوتی ہے ۔ اس لئے اسے سورة کہا جاتا ہے اور آیت : ۔ سُورَةٌ أَنْزَلْناها[ النور 1] یہ ایک ) سورة ہے جسے ہم نے نازل کیا میں سورة سے مراد احکام وحکم ہیں۔- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو : 11-إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- محكم - : ما لا يعرض فيه شبهة من حيث اللفظ، ولا من حيث المعنی. والمتشابه علی أضرب تذکر في بابه إن شاء اللہ وفي الحدیث : «إنّ الجنّة للمُحَكِّمِين»قيل : هم قوم خيّروا بين أن يقتلوا مسلمین وبین أن يرتدّوا فاختاروا القتل وقیل : عنی المتخصّصين بالحکمة .- اور آیت کریمہ : ۔ آياتٌ مُحْكَماتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتابِ وَأُخَرُ مُتَشابِهاتٌ [ آل عمران 7] جس کی بعض آیتیں محکم ہیں اور وہی اصل کتاب میں اور بعض متشابہ ہیں ۔ میں محکمات سے وہ آیات مراد ہیں جن میں لفظی اور معنوی اعتبار سے کسی قسم کا اشتباہ نہ پایا جاتا ہو اور متشابہ کی چند قسمیں ہیں جنہیں ان کے باب ( ش ب ہ ) میں بیان کیا جائیگا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ حدیث میں ہے کہ جنت محکمین کے لئے ہے بعض نے کہا ہے کہ محکمین سے مراد وہ لوگ ہیں جنہیں کہا جائے کہ یا تو مرتد ۔ ہوجاؤ ورنہ قتل کردیئے جاؤ گے تو وہ قتل ہونا پسند کرین اور بعض نے کہا ہے کہ محکمین سے مراد وہ لوگ ہیں جو حکمت کے ساتھ متخصص ہیں ۔- ذكر - الذِّكْرُ : تارة يقال ويراد به هيئة للنّفس بها يمكن للإنسان أن يحفظ ما يقتنيه من المعرفة، وهو کالحفظ إلّا أنّ الحفظ يقال اعتبارا بإحرازه، والذِّكْرُ يقال اعتبارا باستحضاره، وتارة يقال لحضور الشیء القلب أو القول، ولذلک قيل :- الذّكر ذکران :- ذكر بالقلب .- وذکر باللّسان .- وكلّ واحد منهما ضربان :- ذكر عن نسیان .- وذکر لا عن نسیان بل عن إدامة الحفظ . وكلّ قول يقال له ذكر، فمن الذّكر باللّسان قوله تعالی: لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء 10] ، وقوله تعالی: وَهذا ذِكْرٌ مُبارَكٌ أَنْزَلْناهُ [ الأنبیاء 50] ، وقوله :- هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِي [ الأنبیاء 24] ، وقوله : أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص 8] ، أي : القرآن، وقوله تعالی: ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ [ ص 1] ، وقوله : وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ [ الزخرف 44] ، أي :- شرف لک ولقومک، وقوله : فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ [ النحل 43] ، أي : الکتب المتقدّمة .- وقوله قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْراً رَسُولًا [ الطلاق 10- 11] ، فقد قيل : الذکر هاهنا وصف للنبيّ صلّى اللہ عليه وسلم «2» ، كما أنّ الکلمة وصف لعیسی عليه السلام من حيث إنه بشّر به في الکتب المتقدّمة، فيكون قوله : ( رسولا) بدلا منه .- وقیل : ( رسولا) منتصب بقوله ( ذکرا) «3» كأنه قال : قد أنزلنا إليكم کتابا ذکرا رسولا يتلو، نحو قوله : أَوْ إِطْعامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ يَتِيماً [ البلد 14- 15] ، ف (يتيما) نصب بقوله (إطعام) .- ومن الذّكر عن النسیان قوله : فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ أَنْ أَذْكُرَهُ- [ الكهف 63] ، ومن الذّكر بالقلب واللّسان معا قوله تعالی: فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آباءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْراً [ البقرة 200] ، وقوله :- فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ وَاذْكُرُوهُ كَما هَداكُمْ [ البقرة 198] ، وقوله : وَلَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء 105] ، أي : من بعد الکتاب المتقدم . وقوله هَلْ أَتى عَلَى الْإِنْسانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئاً مَذْكُوراً [ الدهر 1] ، أي : لم يكن شيئا موجودا بذاته،- ( ذک ر ) الذکر - ۔ یہ کبھی تو اس ہیت نفسانیہ پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ سے انسان اپنے علم کو محفوظ رکھتا ہے ۔ یہ قریبا حفظ کے ہم معنی ہے مگر حفظ کا لفظ احراز کے لحاظ سے بولا جاتا ہے اور ذکر کا لفظ استحضار کے لحاظ سے اور کبھی ، ، ذکر، ، کا لفظ دل یاز بان پر کسی چیز کے حاضر ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس بنا پر بعض نے کہا ہے کہ ، ، ذکر ، ، دو قسم پر ہے ۔ ذکر قلبی اور ذکر لسانی ۔ پھر ان میں کسے ہر ایک دو قسم پر ہے لسیان کے بعد کسی چیز کو یاد کرنا یا بغیر نسیان کے کسی کو ہمیشہ یاد رکھنا اور ہر قول کو ذکر کر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ ذکر لسانی کے بارے میں فرمایا۔ لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء 10] ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے ۔ وَهذا ذِكْرٌ مُبارَكٌ أَنْزَلْناهُ [ الأنبیاء 50] اور یہ مبارک نصیحت ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے ؛هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِي [ الأنبیاء 24] یہ میری اور میرے ساتھ والوں کی کتاب ہے اور مجھ سے پہلے ( پیغمبر ) ہوئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص 8] کیا ہم سب میں سے اسی پر نصیحت ( کی کتاب ) اتری ہے ۔ میں ذکر سے مراد قرآن پاک ہے ۔ نیز فرمایا :۔ ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ [ ص 1] اور ایت کریمہ :۔ وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ [ الزخرف 44] اور یہ ( قرآن ) تمہارے لئے اور تمہاری قوم کے لئے نصیحت ہے ۔ میں ذکر بمعنی شرف ہے یعنی یہ قرآن تیرے اور تیرے قوم کیلئے باعث شرف ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ [ النحل 43] تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ میں اہل ذکر سے اہل کتاب مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْراً رَسُولًا [ الطلاق 10- 11] خدا نے تمہارے پاس نصیحت ( کی کتاب ) اور اپنے پیغمبر ( بھی بھیجے ) ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں الذکر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وصف ہے ۔ جیسا کہ عیسیٰ کی وصف میں کلمۃ قسم ہے اس قرآن کی جو نصیحت دینے والا ہے ۔ کا لفظ وارد ہوا ہے ۔ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو الذکر اس لحاظ سے کہا گیا ہے ۔ کہ کتب سابقہ میں آپ کے متعلق خوش خبردی پائی جاتی تھی ۔ اس قول کی بنا پر رسولا ذکرا سے بدل واقع ہوگا ۔ بعض کے نزدیک رسولا پر نصب ذکر کی وجہ سے ہے گویا آیت یوں ہے ۔ قد أنزلنا إليكم کتابا ذکرا رسولا يتلوجیسا کہ آیت کریمہ ؛ أَوْ إِطْعامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ يَتِيماً [ البلد 14- 15] میں کی وجہ سے منصوب ہے اور نسیان کے بعد ذکر کے متعلق فرمایا :َفَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ أَنْ أَذْكُرَهُ [ الكهف 63] قو میں مچھلی ( وہیں ) بھول گیا اور مجھے ( آپ سے ) اس کا ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا ۔ اور ذکر قلبی اور لسانی دونوں کے متعلق فرمایا :۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آباءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْراً [ البقرة 200] تو ( مبی میں ) خدا کو یاد کرو جسطرح اپنے پاب دادا کیا کرتے تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ ۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ وَاذْكُرُوهُ كَما هَداكُمْ [ البقرة 198] تو مشعر حرام ( یعنی مزدلفہ ) میں خدا کا ذکر کرو اور اسطرح ذکر کرو جس طرح تم کو سکھایا ۔ اور آیت کریمہ :۔ لَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء 105] اور ہم نے نصیحت ( کی کتاب یعنی تورات ) کے بعد زبور میں لکھ دیا تھا ۔ میں الذکر سے کتب سابقہ مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛هَلْ أَتى عَلَى الْإِنْسانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئاً مَذْكُوراً [ الدهر 1] انسان پر زمانے میں ایک ایسا وقت بھی آچکا ہے کہ وہ کوئی چیز قابل ذکر نہ تھی ۔- مُقاتَلَةُ- والمُقاتَلَةُ : المحاربة وتحرّي القتل . قال : وَقاتِلُوهُمْ حَتَّى لا تَكُونَ فِتْنَةٌ- [ البقرة 193] ، وَلَئِنْ قُوتِلُوا[ الحشر 12] ، قاتِلُوا الَّذِينَ يَلُونَكُمْ [ التوبة 123] ، وَمَنْ يُقاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيُقْتَلْ [ النساء 74] ، وقیل : القِتْلُ : العدوّ والقرن وأصله الْمُقَاتِلُ ، وقوله : قاتَلَهُمُ اللَّهُ [ التوبة 30] ، قيل : معناه لعنهم الله، وقیل : معناه قَتَلَهُمْ ، والصحیح أنّ ذلك هو المفاعلة، والمعنی: صار بحیث يتصدّى لمحاربة الله، فإنّ من قَاتَلَ اللہ فَمَقْتُولٌ ، ومن غالبه فهو مغلوب، كما قال :إِنَّ جُنْدَنا لَهُمُ الْغالِبُونَ [ الصافات 173]- المقاتلۃ کے معنی جنگ کرنے اور کسی کے درپے قتل ہونے کے ہیں قرآن میں ہے ۔ وَقاتِلُوهُمْ حَتَّى لا تَكُونَ فِتْنَةٌ [ البقرة 193] اور ان سے اس وقت تک لڑتے رہنا کہ فساد نا بودہو جائے ۔۔ وَلَئِنْ قُوتِلُوا[ الحشر 12] اور اگر ان سے جنگ ہوئی قاتِلُوا الَّذِينَ يَلُونَكُمْ [ التوبة 123] اپنے نزدیک کے رہنے والے ) کافر دں سے جنگ کرو ۔ وَمَنْ يُقاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيُقْتَلْ [ النساء 74] اور جو شخص خدا کی راہ میں جنگ کرے پھر شہید ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ قتل کے منعی دشمن اور ہمسر کے ہیں مگر اس کے اصل معنی مقاتل یعنی لڑنے والا کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ قاتَلَهُمُ اللَّهُ [ التوبة 30] خدا ان کو ہلاک کرے ۔ بعض کے نزدیک جملہ دعائیہ ہے کہ اللہ ان پر لعنت کرے اور بعض نے اس کے معنی قتل کردینا کے لکھے ہیں ۔ لیکن اصل میں یہ باب مفاعلۃ سے ہے اور معنی یہ ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ سے لڑائی کے در پے ہورہے ہیں اور جو اللہ سے جنگ کرے گا وہ مغلوب ہوگا جیسے فرمایا : ۔ إِنَّ جُنْدَنا لَهُمُ الْغالِبُونَ [ الصافات 173] اور ہمارا لشکر غالب رہے گا ۔- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - قلب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] .- ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ - مرض - الْمَرَضُ : الخروج عن الاعتدال الخاصّ بالإنسان، وذلک ضربان :- الأوّل : مَرَضٌ جسميٌّ ، وهو المذکور في قوله تعالی: وَلا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ- [ النور 61] ، وَلا عَلَى الْمَرْضى[ التوبة 91] .- والثاني : عبارة عن الرّذائل کالجهل، والجبن، والبخل، والنّفاق، وغیرها من الرّذائل الخلقيّة .- نحو قوله : فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً [ البقرة 10] ، أَفِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ أَمِ ارْتابُوا [ النور 50] ، وَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَتْهُمْ رِجْساً إِلَى رِجْسِهِمْ [ التوبة 125] . وذلک نحو قوله : وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً مِنْهُمْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ طُغْياناً وَكُفْراً [ المائدة 64] ويشبّه النّفاق والکفر ونحوهما من الرذائل بالمرض، إما لکونها مانعة عن إدراک الفضائل کالمرض المانع للبدن عن التصرف الکامل، وإما لکونها مانعة عن تحصیل الحیاة الأخرويّة المذکورة في قوله : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ لَوْ كانُوا يَعْلَمُونَ [ العنکبوت 64] ، وإمّا لمیل النّفس بها إلى الاعتقادات الرّديئة ميل البدن المریض إلى الأشياء المضرّة، ولکون هذه الأشياء متصوّرة بصورة المرض قيل : دوي صدر فلان، ونغل قلبه . وقال عليه الصلاة والسلام :- «وأيّ داء أدوأ من البخل ؟» «4» ، ويقال : شمسٌ مریضةٌ: إذا لم تکن مضيئة لعارض عرض لها، وأمرض فلان في قوله : إذا عرّض، والتّمریض القیام علی المریض، وتحقیقه : إزالة المرض عن المریض کالتّقذية في إزالة القذی عن العین .- ( م ر ض ) المرض کے معنی ہیں انسان کے مزاج خصوصی کا اعتدال اور توازن کی حد سے نکل جانا اور یہ دوقسم پر ہے ۔ مرض جسمانی جیسے فرمایا : وَلا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ [ النور 61] اور نہ بیمار پر کچھ گناہ ہے ۔ وَلا عَلَى الْمَرْضى[ التوبة 91] اور نہ بیماروں پر ۔ دوم مرض کا لفظ اخلاق کے بگڑنے پر بولا جاتا ہے اور اس سے جہالت بزدلی ۔ بخل ، نفاق وغیرہ جیسے اخلاق رزیلہ مراد ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً [ البقرة 10] ان کے دلوں میں کفر کا مرض تھا ۔ خدا نے ان کا مرض اور زیادہ کردیا ۔ أَفِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ أَمِ ارْتابُوا [ النور 50] گناہ ان کے دلوں میں بیماری ہے یا یہ شک میں ہیں ۔ وَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَتْهُمْ رِجْساً إِلَى رِجْسِهِمْ [ التوبة 125] اور جن کے دلوں میں مرض ہے ۔ ان کے حق میں خبث پر خبث زیادہ کیا ۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا : وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً مِنْهُمْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ طُغْياناً وَكُفْراً [ المائدة 64] اور یہ ( قرآن پاک) جو تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے اس سے ان میں سے اکثر کی سرکشی اور کفر بڑھے گا ۔ اور نفاق ، کفر وغیرہ اخلاق رذیلہ کی ( مجاز ) بطور تشبیہ مرض کہاجاتا ہے ۔ یا تو اس لئے کہ اس قسم کے اخلاق کسب فضائل سے مائع بن جاتے ہیں ۔ جیسا کہ بیماری جسم کو کامل تصرف سے روک دیتی ہے ۔ اور یا اس لئے اخروی زندگی سے محرومی کا سبب بنتے ہیں ۔ جس قسم کی زندگی کا کہ آیت کریمہ : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ لَوْ كانُوا يَعْلَمُونَ [ العنکبوت 64] اور ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے کاش کہ یہ لوگ سمجھتے ۔ میں ذکر پایا جاتا ہے ۔ اور یا رذائل کو اس چونکہ ایسے اخلاق بھی ایک طرح کا مرض ہی ہیں اس لئے قلب وصدر میں کینہ و کدورت پیدا ہونے کے لئے دوی صدر فلان وبخل قلبہ وغیر محاورات استعمال ہوتے ہیں ایک حدیث میں ہے : وای داء ادوء من ا لبخل اور بخل سے بڑھ کر کونسی بیماری ہوسکتی ہے ۔ اور شمس مریضۃ اس وقت کہتے ہیں جب گردہ غبار یا کسی اور عاضہ سے اس کی روشنی ماند پڑجائے ۔ امرض فلان فی قولہ کے معنی تعریض اور کنایہ سے بات کرنے کے ہیں ۔ المتریض تیمار داری کرنا ۔ اصل میں تمریض کے معنی مرض کو زائل کرنے کے ہیں اور یہ ۔ تقذبۃ کی طرح سے جس کے معنی آنکھ سے خاشاگ دور کرنا کے ہیں ۔- نظر - النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] ، وقال : إِلى طَعامٍ غَيْرَ ناظِرِينَ إِناهُ [ الأحزاب 53] أي :- منتظرین،- ( ن ظ ر ) النظر - کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔- اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں - غشي - غَشِيَهُ غِشَاوَةً وغِشَاءً : أتاه إتيان ما قد غَشِيَهُ ، أي : ستره . والْغِشَاوَةُ : ما يغطّى به الشیء، قال : وَجَعَلَ عَلى بَصَرِهِ غِشاوَةً [ الجاثية 23] - ( غ ش و ) غشیۃ غشاوۃ وغشاء - اس کے پاس اس چیز کی طرح آیا جو اسے چھپائے غشاوۃ ( اسم ) پر دہ جس سے کوئی چیز ڈھانپ دی جائے قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ عَلى بَصَرِهِ غِشاوَةً [ الجاثية 23] اور اس کی آنکھوں پر پر دہ ڈال دیا ۔ - موت - أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة :- فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات - . نحو قوله تعالی:- يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] .- الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا - [ مریم 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] .- الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة .- نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] .- الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة،- وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ- بِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] .- الخامس : المنامُ ،- فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] - ( م و ت ) الموت - یہ حیات کی ضد ہے - لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں - ۔ اول قوت نامیہ - ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔- دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں - ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ - سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے - چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔- چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے - چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔- پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے - اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے - أَوْلَى- ويقال : فلان أَوْلَى بکذا . أي أحری، قال تعالی:- النَّبِيُّ أَوْلى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ [ الأحزاب 6] ، إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْراهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ [ آل عمران 68] ، فَاللَّهُ أَوْلى بِهِما [ النساء 135] ، وَأُولُوا الْأَرْحامِ بَعْضُهُمْ أَوْلى بِبَعْضٍ [ الأنفال 75] وقیل : أَوْلى لَكَ فَأَوْلى[ القیامة 34] من هذا، معناه : العقاب أَوْلَى لک وبك، وقیل : هذا فعل المتعدّي بمعنی القرب، وقیل : معناه انزجر . ويقال : وَلِيَ الشیءُ الشیءَ ، وأَوْلَيْتُ الشیءَ شيئا آخرَ أي : جعلته يَلِيهِ ، والوَلَاءُ في العتق : هو ما يورث به، و «نهي عن بيع الوَلَاءِ وعن هبته» »، والمُوَالاةُ بين الشيئين : المتابعة .- ۔ فلان اولیٰ بکذا فلاں اس کا زیادہ حق دار ہے قرآن میں ہے : ۔ النَّبِيُّ أَوْلى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ [ الأحزاب 6] پیغمبروں مومنوں پر ان کی جانوں سے زیادہ حق رکھتے ہیں إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْراهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ [ آل عمران 68] ابراہیم (علیہ السلام) سے قرب رکھنے والے تو وہ لوگ ہیں جو ان کی پیروی کرتے ہیں ۔ فَاللَّهُ أَوْلى بِهِما [ النساء 135] تو خدا انکا خیر خواہی وَأُولُوا الْأَرْحامِ بَعْضُهُمْ أَوْلى بِبَعْضٍ [ الأنفال 75] اور رشتہ دار آپس میں زیادہ حق دار ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ آیت : ۔ أَوْلى لَكَ فَأَوْلى[ القیامة 34] افسوس تم پر پھر افسوس ہے ۔ میں بھی اولٰی اسی محاورہ سے ماخوذ ہے اور اولیٰ لک وبک دونوں طرح بولا جاتا ہے ۔ اور معنی یہ ہیں کہ عذاب تیرے لئے اولی ہے یعنی تو عذاب کا زیادہ سزا وار ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے فعل متعدی بمعنی قرب کے ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اولیٰ بمعنی انزجر سے یعنی اب بھی باز آجا ۔ ولی الشئیء دوسری چیز کا پہلی چیز کے بعد بلا فصل ہونا ۔ اولیت الشئیء الشئیء دوسری چیز کو پہلی چیز کے ساتھ ملا نا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

جو لوگ مخلص ایمان والے ہیں وہ ذکر الہی کے شوق اور اس کی اطاعت کی خواہش میں ہمیشہ اس بات کے شائق رہتے ہیں کہ کوئی نئی سورت کیوں نہ نازل ہوئی پھر جس وقت کوئی سورت حلال و حرام اور اوامرو نواہی کو بیان کرنے والی نازل ہوتی ہے اور اس میں جہاد کا بھی حکم ہوتا ہے تو جن کے دلوں میں شک و نفاق کی بیماری ہے اور جہاد کا ذکر کرنے کے وقت آپ کو اس طرح دیکھتے ہیں جیسا کسی پر موت کی بیہوشی طاری ہو کیونکہ وہ جہاد کو پسند نہیں کرتے عنقریب ان کی کمبختی آنے والی ہے تو مسلمان حق تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت و فرمانبرداری کے لیے تیار ہیں اور اچھی بات کہتے ہیں۔- یا یہ مطلب ہے کہ حق تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنا اور حضور کے سامنے اچھی بات کہنا یہ منافقین کے حق میں انکار اور گناہ اور ناگواری کا اظہار کرنے سے زیادہ بہتر ہے یا یہ مطلب ہے کہ حق تعالیٰ کی پیروی کرو اور رسول اکرم کے سامنے اچھی بات کہو پھر جب سارا کام تیار ہی ہوجاتا ہے اور اسلام کی شان و شوکت اور مسلمانوں کی کثرت ظاہر ہوجاتی ہے تب بھی اگر یہ منافقین اپنے ایمان اور جہاد میں سچائی کا معاملہ کرتے تو یہ چیز ان کے حق میں نافرمانی سے بہت بہتر ہوتی ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٠ وَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَوْلَا نُزِّلَتْ سُوْرَۃٌ ” اور یہ لوگ جو ایمان کے دعویدار ہیں ‘ کہتے ہیں کہ (قتال کے بارے میں) کوئی سورت کیوں نازل نہیں ہوئی ؟ “- زیر مطالعہ مضمون کے حوالے سے اس سورت کی یہ آیت خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ ہجرت کے فوراً بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ سے باہر قریش مکہ کے خلاف مہمات بھیجنا شروع کردیں۔ غزوہ بدر سے پہلے ایسی آٹھ مہمات کا بھیجا جانا تاریخ سے ثابت ہے۔ ان میں سے چار مہمات کا شمار تو غزوات میں ہوتا ہے کہ ان میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود بھی تشریف لے گئے تھے۔ ان مہمات کے ذریعے سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خصوصی طور پر مندرجہ ذیل دو مقاصد حاصل کیے : - الف : مکہ کی تجارتی شاہراہ سے ملحقہ علاقوں میں مسلح دستوں کی نقل و حرکت سے قریش مکہ کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک موثر پیغام پہنچا دیا کہ تمہاری شہ رگ ( ) اب ہر طرح سے ہمارے قبضہ میں ہے اور ہم جب چاہیں تمہاری مکمل معاشی ناکہ بندی کرسکتے ہیں۔- ب : جن علاقوں میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مہمات بھیجیں یا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود تشریف لے گئے وہاں کے اکثر قبائل کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا حلیف بنا لیا ‘ اور جو قبائل آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حلیف نہ بھی بنے انہوں نے قریش مکہ اور مسلمانوں کے تنازعہ میں غیر جانبدار رہنے کے معاہدے کرلیے۔ یوں اس پورے علاقے سے قریش مکہ کا اثر و رسوخ روز بروز کم ہونا شروع ہوگیا اور انہیں جزیرہ نمائے عرب میں صدیوں سے قائم اپنی سیاسی اجارہ داری کی بساط لپٹتی ہوئی محسوس ہونے لگی۔- اس حوالے سے یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے مذکورہ مہمات کی منصوبہ بندی ابتدائی اقدام ( ) کی نئی حکمت عملی کے تحت کی جا رہی تھی۔ قریش مکہ کی طرف سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قیام مکہ کے دور کی زیادتیاں اپنی جگہ ‘ لیکن ہجرت کے بعد سے اب تک انہوں نے کوئی بھی جارحانہ اقدام نہیں کیا تھا۔ اس وقت تک جارحانہ اقدام سے متعلق قرآن میں بھی کوئی واضح ہدایت نہیں آئی تھی۔ سورة الحج کی آیت ٣٩ میں جو حکم تھا وہ اذن اور اجازت کے درجے میں تھا ‘ اس حکم میں بھی جارحانہ اقدام کا کوئی اشارہ نہیں ملتا۔ بلکہ ایک رائے کے مطابق تو اس وقت تک یہ حکم نازل بھی نہیں ہوا تھا ‘ کیونکہ سورة الحج کو بعض لوگ مدنی سورت مانتے ہیں ‘ اور اگر یہ رائے درست ہو تو پھر یہ بھی امکان ہے کہ سورة الحج واقعتا اس دور کے بعد نازل ہوئی ہو۔ دوسری طرف سورة البقرۃ اس وقت تک مکمل نازل ہوچکی تھی اور اس میں قتال کے بارے میں احکام بھی موجود ہیں ‘ مگر وہ احکام زیادہ سے زیادہ اس نوعیت کے ہیں : وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ (البقرۃ : ١٩٠) کہ جو لوگ آپ سے لڑتے ہیں آپ لوگ ان کے خلاف لڑو - اس پس منظر میں منافقین کی طرف سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مذکورہ اقدامات کے خلاف ” لَوْلَا نُزِّلَتْ سُوْرَۃٌ“ کے اعتراض کا مفہوم بخوبی واضح ہوجاتا ہے۔ ان کا موقف تھا کہ جب قریش کی طرف سے کوئی حریفانہ اقدام نہیں ہو رہا تو ہماری طرف سے ان کی تجارتی شاہراہ پر چھاپے مار کر اور ان کے قافلوں کا تعاقب کر کے خواہ مخواہ جنگی ماحول پیدا کرنے کا کوئی جواز نہیں ‘ اور اگر یہ اقدامات ایسے ہی ضروری تھے تو ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کوئی واضح حکم کیوں نازل نہیں کیا ؟ اور اگر قرآن میں ایسا کوئی حکم نازل نہیں ہوا تو یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود اپنی مرضی سے یہ مہم جوئی کر رہے ہیں۔- فَاِذَآ اُنْزِلَتْ سُوْرَۃٌ مُّحْکَمَۃٌ وَّذُکِرَ فِیْہَا الْقِتَالُ ” پھر جب ایک محکم سورت نازل کردی گئی اور اس میں قتال کا حکم آگیا “- اس سے مراد زیر مطالعہ سورت یعنی سورة محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے اور اس سورت کا دوسرا نام ” سورة القتال “ اسی آیت سے ماخوذ ہے۔- رَاَیْتَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ یَّـنْظُرُوْنَ اِلَـیْکَ نَظَرَ الْمَغْشِیِّ عَلَیْہِ مِنَ الْمَوْتِ ” تو اب آپ دیکھیں گے ان لوگوں کو جن کے دلوں میں روگ ہے کہ یہ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ایسے دیکھیں گے جیسے وہ شخص دیکھتا ہے جس پر موت کی غشی طاری ہو رہی ہوتی ہے۔ “- فَاَوْلٰی لَہُمْ ” تو بربادی ہے ان کے لیے “- دراصل یہ لوگ قتال سے جی چراتے ہیں۔ قبل ازیں اپنے بچائو کے لیے ان کی دلیل یہ تھی کہ اس بارے میں اللہ کا کوئی واضح حکم نازل نہیں ہوا۔ اب جبکہ اللہ نے قتال کے بارے میں واضح حکم نازل کردیا ہے تو ان کی یہ دلیل ختم ہوگئی ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :32 مطلب یہ ہے کہ جن حالات سے اس وقت مسلمان گزر رہے تھے اور کفار کا جو رویہ اس وقت اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ تھا ، اس کی بنا پر جنگ کا حکم آنے سے پہلے ہی اہل ایمان کی عام رائے یہ تھی کہ اب ہمیں جنگ کی اجازت مل جانی چاہیے ۔ بلکہ وہ بے چینی کے ساتھ اللہ کے فرمان کا انتظار کر رہے تھے اور بار بار پوچھتے تھے کہ ہمیں ان ظالموں سے لڑنے کا حکم کیوں نہیں دیا جاتا ؟ مگر جو لوگ منافقت کے ساتھ مسلمانوں کے گروہ میں شامل ہو گئے تھے ان کا حال مومنوں کے حال سے بالکل مختلف تھا ۔ وہ اپنی جان و مال کو خدا اور اس کے دین سے عزیز تر رکھتے تھے اور اس کے لیے کوئی خطرہ مول لینے کو تیار نہ تھے ۔ جنگ کے حکم نے آتے ہی ان کو اور سچے اہل ایمان کو ایک دوسرے سے چھانٹ کر الگ کر دیا ۔ جب تک یہ حکم نہ آیا تھا ، ان میں اور عام اہل ایمان میں بظاہر کوئی فرق و امتیاز نہ پایا جاتا تھا ۔ نماز وہ بھی پڑھتے تھے اور یہ بھی ۔ روزے رکھنے میں بھی انہیں تامل نہ تھا ۔ ٹھنڈا ٹھنڈا اسلام انہیں قبول تھا ۔ مگر جب اسلام کے لیے جان کی بازی لگانے کا وقت آیا تو ان کے نفاق کا حال کھل گیا اور نمائشی ایمان کا وہ لبادہ اتر گیا جو انہوں نے اوپر سے اوڑھ رکھا تھا ۔ سورہ نساء میں ان کی اس کیفیت کو یوں بیان کی گیا ہے: تم نے دیکھا ان لوگوں کو جن سے کہا گیا تھا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو؟ اب جو انہیں لڑائی کا حکم دیا گیا تو ان میں سے ایک گروہ کا حال یہ ہے کہ انسانوں سے اس طرح ڈر رہے ہیں جیسے خد اسے ڈرنا چاہیے ۔ بلکہ کچھ اس سے بھی زیادہ ۔ کہتے ہیں ، خدایا ، یہ لڑائی کا حکم ہمیں کیوں دے دیا ؟ ہمیں ابھی اور کچھ مہلت کیوں نہ دی؟ ( آیت 77 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

10: صحابہ کرام (رض) کو قرآن کریم سے عشق تھا، اس لیے انہیں ہمیشہ یہ اشتیاق رہتا تھا کہ کوئی نئی سورت نازل ہو، خاص طور پر جو حضرات جہاد کے مشتاق تھے، انہیں یہ انتظار تھا کہ کسی نئی سورت کے ذریعے انہیں جہاد کی اجازت ملے۔ منافق لوگ بھی ان کی دیکھا دیکھی کبھی اس خواہش کا اظہار کردیتے ہوں گے، لیکن جب جہاد کی آیتیں آئیں تو ان کے سارے اشتیاق کی قلعی کھل گئی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ زبانی شوق ظاہر کرنے کا کیا فائدہ؟ جب وقت آئے، اس وقت اگر اللہ تعالیٰ کے ساتھ کئے ہوئے وعدے کو سچا کر دکھائیں تو ان کے حق میں بہتر ہو۔