26۔ 1 یہ سے مراد ان کا مرتد ہونا ہے۔ 26۔ 2 یعنی منافقین نے مشرکین سے یا یہود سے کہا۔ 26۔ 3 یعنی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لائے ہوئے دین کی مخالفت میں۔ 2 6 ۔ 4 جیسے دوسرے مقام پر فرمایا۔ ( ۭ وَاللّٰهُ يَكْتُبُ مَا يُبَيِّتُوْنَ ) 4 ۔ النساء :81) ۔
[٣٠] منافقین کا یہود سے درپردہ معاہدہ :۔ شیطان کی انہیں ایسی پٹی پڑھانے کی ایک وجہ یہ بھی بن گئی کہ ان بدبخت منافقوں نے اندر ہی اندر یہود سے ساز باز کر رکھی تھی اور ان منافقوں نے یہود سے ان کے مطالبہ پر کچھ ایسے دعوے بھی کر رکھے تھے کہ وہ انہیں مسلمانوں کی نقل و حرکت اور ان کی جنگی سرگرمیوں سے مطلع کرتے رہیں گے۔ اور اگر جنگ ہوئی تو ہم تم سے لڑیں گے نہیں بلکہ مسلمانوں کو چکمہ ہی دیتے رہیں گے۔ اور جنگ کے دوران منافقوں نے ایسا ہی کردار ادا کیا تھا اور اس کے عوض یہود نے بھی ان سے کچھ وعدے کر رکھے تھے۔ گویا منافق یہودیوں کے لیے تو گھر کا بھیدی اور مسلمانوں کے حق میں مار آستین بنے ہوئے تھے۔ مگر اللہ تو ہر شخص کے دلوں کے بھید تک جانتا ہے۔ وہ مسلمانوں کو ان منافقوں کی کرتوتوں سے وقتاً فوقتاً مطلع کردیتا تھا تو یہ ذلیل اور ننگے ہوجاتے تھے۔
(١) ذلک بانھم قالوا اللذین کرھوا مانزل اللہ :” للذین کرھوا مانزل اللہ “ سے مراد کفار ہیں، جیسا کہ اسی سورت کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے کفار کے متعلق فرمایا :(ذلک بانھم کرھوا ما انزل اللہ فاحبط اعمالھم) (محمد : ٩)” یہ اس لئے کہ انہوں نے اس چیز کو ناپسند کیا جو اللہ نے نازل کی تو اس نے ان کے اعمال ضائع کردیئے۔ “- (٢) سنطیعکم فی بعض الامر : بعض کاموں سے مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفتا ور عداوت ہے اور یہ کہ جب جنگ کا موقع آئے مسلمانوں کو دھوکا دیا جائے اور ہر طریقے سے ان کے دشمنوں کی مدد کی جائے۔ یعنی ان کے ایمان قبول کرنے کے بعد کفر و ارتداد کی طرف پلٹنے، جہاد سے فرار اور منافقت اختیار کرنے کی وجہ یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ دوسرے مخلص مسلمانوں کی طرح وہ تمام کاموں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرتے، انہوں نے اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ دین کو نپاسناد کرنے والے کفار سے کہا کہ ہم اسلام قبول کرنے اور مسلمانوں میں رہنے کی وجہ سیت مہاری ہر بات نہیں مان سکتے، نہ کھلم کھلا اپنے کفر کا اظہار کرسکتے ہیں، مگر ہم کچھ کاموں میں تمہاری اطاعت ضرور کریں گے۔ وہ اس طرح کہ جنگ کے موقع پر تمہاری مدد کریں گے، جیسا کہ رئیس المنافین عبداللہ بن ابی احد کے موقع پر عین میدان جنگ سے تین سو آدمیوں کو واپس لے گیا اور جس طرح منافقین نے بنو نضیر کے یہودیوں کو ہلا شیری دی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف ڈٹے رہو، اگر تمہیں نکالا گیا تو ہم تمہارے ساتھ نکلیں گے اور اگر تم سے جنگ کی گئی تو ہم تمہارے ساتھ مل کر لڑیں گے۔ دیکھیے سورة حشر (١١) ۔- (٣) واللہ یعلم اسرارھم : اور اللہ تعالیٰ ان کی سرگوشیوں اور سازشوں کو جو وہ چھپ کر کرتے ہیں خوب جانتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ انہیں اس کی سزا ضرور دے گا۔ اس آیت کا مضمون سورة نساء کی آیت (٨١) میں بھی بیان ہوا ہے۔
ذٰلِكَ بِاَنَّہُمْ قَالُوْا لِلَّذِيْنَ كَرِہُوْا مَا نَزَّلَ اللہُ سَنُطِيْعُكُمْ فِيْ بَعْضِ الْاَمْرِ ٠ ۚ ۖ وَاللہُ يَعْلَمُ اِسْرَارَہُمْ ٢٦- هذا ( ذَاكَ ذلك)- وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال :- هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام 131] ، إلى غير ذلك .- ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔- كره - قيل : الْكَرْهُ والْكُرْهُ واحد، نحو : الضّعف والضّعف، وقیل : الكَرْهُ : المشقّة التي تنال الإنسان من خارج فيما يحمل عليه بِإِكْرَاهٍ ، والکُرْهُ :- ما يناله من ذاته وهو يعافه، وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة 33] - ( ک ر ہ ) الکرہ - ( سخت ناپسند یدگی ) ہم معنی ہیں جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے کہ کرۃ ( بفتح الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو انسان کو خارج سے پہنچے اور اس پر زبر دستی ڈالی جائے ۔ اور کرہ ( بضم الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو اسے نا خواستہ طور پر خود اپنے آپ سے پہنچتی ہے۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة 33] اور اگر چہ کافر ناخوش ہی ہوں ۔ - نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - طوع - الطَّوْعُ : الانقیادُ ، ويضادّه الكره قال عزّ وجلّ : ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت 11] ، وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران 83] ، والطَّاعَةُ مثله لکن أكثر ما تقال في الائتمار لما أمر، والارتسام فيما رسم . قال تعالی: وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء 81] ، طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد 21] ، أي : أَطِيعُوا، وقد طَاعَ له يَطُوعُ ، وأَطَاعَهُ يُطِيعُهُ «5» .- قال تعالی: وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن 12] ، مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء 80] ، وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب 48] ، وقوله في صفة جبریل عليه السلام : مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير 21] ، والتَّطَوُّعُ في الأصل : تكلُّفُ الطَّاعَةِ ، وهو في التّعارف التّبرّع بما لا يلزم کالتّنفّل، قال : فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة 184] ، وقرئ :( ومن يَطَّوَّعْ خيراً )- ( ط و ع ) الطوع - کے معنی ( بطیب خاطر ) تابعدار ہوجانا کے ہیں اس کے بالمقابل کرھ ہے جس کے منعی ہیں کسی کام کو ناگواری اور دل کی کراہت سے سر انجام دینا ۔ قرآن میں ہے : ۔ ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت 11] آسمان و زمین سے فرمایا دونوں آؤ دل کی خوشی سے یا ناگواري سے - وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران 83] حالانکہ سب اہل آسمان و زمین بطبیب خاطر یا دل کے جبر سے خدا کے فرمانبردار ہیں ۔ یہی معنی الطاعۃ کے ہیں لیکن عام طور طاعۃ - کا لفظ کسی حکم کے بجا لانے پر آجاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء 81] اور یہ لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم دل سے آپ کے فرمانبردار ہیں ۔ طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد 21]( خوب بات ) فرمانبردار ی اور پسندیدہ بات کہنا ہے ۔ کسی کی فرمانبرداری کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن 12] اور اس کے رسول کی فر مانبردار ی کرو ۔ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء 80] جو شخص رسول کی فرمانبردار ی کرے گا بیشک اس نے خدا کی فرمانبرداری کی ۔ وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب 48] اور کافروں کا کہا نہ مانو ۔ اور حضرت جبریل (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير 21] سردار اور امانتدار ہے ۔ التوطوع ( تفعل اس کے اصل معنی تو تکلیف اٹھاکر حکم بجالا نا کے ہیں ۔ مگر عرف میں نوافل کے بجا لانے کو تطوع کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة 184] اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے ۔ ایک قرات میں ومن یطوع خیرا ہے - بعض - بَعْضُ الشیء : جزء منه، ويقال ذلک بمراعاة كلّ ، ولذلک يقابل به كلّ ، فيقال : بعضه وكلّه، وجمعه أَبْعَاض . قال عزّ وجلّ : بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] - ( ب ع ض ) بعض - الشئی ہر چیز کے کچھ حصہ کو کہتے ہیں اور یہ کل کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اسلئے کل کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے : بعضہ وکلہ اس کی جمع ابعاض آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ - أمر - الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :- إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود 123] - ( ا م ر ) الامر - ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔- وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے - علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا - سرر (كتم)- والسِّرُّ هو الحدیث المکتم في النّفس . قال تعالی: يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه 7] ، وقال تعالی: أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ سِرَّهُمْ وَنَجْواهُمْ [ التوبة 78] - ( س ر ر ) الاسرار - السر ۔ اس بات کو کہتے ہیں جو دل میں پوشیدہ ہو ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه 7] وہ چھپے بھید اور نہایت پوشیدہ بات تک کو جانتا ہے ۔
یہ ارتداد اس وجہ سے ہوا کہ ان یہودیوں نے منافقین سے جو ان احکام کو جو کہ بذریعہ جبریل امین نازل ہوئے ناپسند کرتے ہیں۔ کہا ہے کہ اے گروہ منافقین ہم رسول اکرم کے بعض احکامات میں یعنی زبانی کلمہ گو ہونے میں اگر یہ ہم پر غالب آگئے تمہارا کہنا مان لیں گے اور یہود جو منافقین سے خفیہ باتیں کرتے ہیں حق تعالیٰ ان کی خفیہ باتوں کو خوب جانتا ہے۔
آیت ٢٦ ذٰلِکَ بِاَنَّـہُمْ قَالُوْا لِلَّذِیْنَ کَرِہُوْا مَا نَزَّلَ اللّٰہُ سَنُطِیْعُکُمْ فِیْ بَعْضِ الْاَمْرِج وَاللّٰہُ یَعْلَمُ اِسْرَارَہُمْ ” یہ اس لیے ہوا کہ انہوں نے ان لوگوں سے جنہیں اللہ کا نازل کیا ہوا (قرآن) ناپسند ہے ‘ کہا کہ ہم بعض امور میں تمہاری اطاعت جاری رکھیں گے۔ اور اللہ کو ان کی خفیہ باتوں کا خوب علم ہے۔ “- اللہ کے نازل کردہ قرآن کو ناپسند کرنے والے مشرکین اور یہود تھے ‘ جنہیں منافقین مسلسل اپنی وفاداریوں کا یقین دلاتے رہتے تھے کہ ہم بظاہر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لا کر مسلمانوں میں شامل تو ہوگئے ہیں مگر آپ لوگوں سے ہمارا رشتہ بدستور قائم رہے گا اور تمام اہم معاملات میں صلاح مشورہ ہم آئندہ بھی آپ لوگوں سے ہی کیا کریں گے۔ منافق تو کہتے ہی اس شخص کو ہیں جو اپنا رشتہ دونوں طرف جوڑنے کی کوشش میں رہے۔ سورة النساء میں منافقین کی اس کیفیت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا گیا ہے : مُّذَبْذَبِیْنَ بَیْنَ ذٰلِکَق لآَ اِلٰی ہٰٓؤُلَآئِ وَلآَ اِلٰی ہٰٓؤُلَآئِط (آیت ١٤٣) ” یہ اس کے مابین مذبذب ہو کر رہ گئے ہیں ‘ نہ تو یہ ان کی جانب ہیں اور نہ ہی ان کی جانب ہیں “۔ جبکہ سورة البقرۃ میں ان کے دوغلے پن کا پردہ ان الفاظ میں چاک کیا گیا ہے : وَاِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْٓا اٰمَنَّا وَاِذَا خَلَوْا اِلٰی شَیٰطِیْنِہِمْ قَالُوْٓا اِنَّا مَعَکُمْ اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَہْزِئُ وْنَ ” اور جب یہ اہل ِایمان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم بھی ایمان رکھتے ہیں ‘ اور جب یہ خلوت میں ہوتے ہیں اپنے شیطانوں کے پاس تو کہتے ہیں کہ ہم تو آپ کے ساتھ ہیں اور ان لوگوں سے تو ہم محض مذاق کر رہے ہیں۔ “
سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :36 یعنی ایمان کا اقرار کرنے اور مسلمانوں کے گروہ میں شامل ہو جانے کے باوجود وہ اندر ہی اندر دشمنان اسلام سے ساز باز کرتے رہے اور ان سے وعدے کرتے رہے کہ بعض معاملات میں ہم تمہارا ساتھ دیں گے ۔