Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

منافق کو اس کے چہرے کی زبان سے پہچانو یعنی کیا منافقوں کا خیال ہے کہ ان کی مکاری اور عیاری کا اظہار اللہ مسلمانوں پر کرے گا ہی نہیں ؟ یہ بالکل غلط خیال ہے اللہ تعالیٰ ان کا مکر اس طرح واضح کر دے گا کہ ہر عقلمند انہیں پہچان لے اور ان کی بد باطنی سے بچ سکے ۔ ان کے بہت سے احوال سورہ براۃ میں بیان کئے گئے اور ان کے نفاق کی بہت سی خصلتوں کا ذکر وہاں کیا گیا ۔ یہاں تک کہ اس سورت کا دوسرا نام ہی فاضحہ رکھ دیا گیا یعنی منافقوں کو فضیحت کرنے والی ۔ ( اضغان ) جمے ہے ( ضغن ) کی ضغن کہتے ہیں دلی حسد و بغض کو ۔ اس کے بعد اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ اے نبی اگر ہم چاہیں تو ان کے وجود تمہیں دکھا دیں پس تم انہیں کھلم کھلا جان جاؤ ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسا نہیں کیا ان تمام منافقوں کو بتا نہیں دیا تاکہ اس کی مخلوق پر پردہ پڑا رہے ان کے عیوب پوشیدہ رہیں ، اور باطنی حساب اسی ظاہر و باطن جاننے والے کے ہاتھ رہے لیکن ہاں تم ان کی بات چیت کے طرز اور کلام کے ڈھنگ سے ہی انہیں پہچان لو گے ۔ امیر المومنین حضرت عثمان بن عفان فرماتے ہیں جو شخص کسی پوشیدگی کو چھپاتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اس کے چہرے پر اور اس کی زبان پر ظاہر کر دیتا ہے ۔ حدیث شریف میں ہے جو شخص کسی راز کو پردہ میں رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اس پر عیاں کر دیتا ہے وہ بہتر ہے تو اور بدتر ہے تو ۔ ہم نے شرح صحیح بخاری کے شروع میں عملی اور اعتقادی نفاق کا بیان پوری طرح کر دیا ہے جس کے دوہرانے کی یہاں ضرورت نہیں ۔ حدیث میں منافقوں کی ایک جماعت کی ( تعیین ) آچکی ہے ۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک خطبے میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا تم میں بعض لوگ منافق ہیں پس جس کا میں نام لوں وہ کھڑا ہو جائے ۔ اے فلاں کھڑا ہو جا ، یہاں تک کہ چھتیس اشخاص کے نام لئے ۔ پھر فرمایا تم میں یا تم میں سے منافق ہیں ، پس اللہ سے ڈرو ۔ اس کے بعد ان لوگوں میں سے ایک کے سامنے حضرت عمر گذرے وہ اس وقت کپڑے میں اپنا منہ لپیٹے ہوا تھا ۔ آپ اسے خوب جانتے تھے پوچھا کہ کیا ہے ؟ اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اوپر والی حدیث بیان کی تو آپ نے فرمایا اللہ تجھے غارت کرے ۔ پھر فرمایا ہے ہم حکم احکام دے کر روک ٹوک کر کے تمہیں خود آزما کر معلوم کرلیں گے کہ تم میں سے مجاہد کون ہیں ؟ اور صبر کرنیوالے کون ہیں ؟ اور ہم تمہارے احوال آزمائیں گے ۔ یہ تو ہر مسلمان جانتا ہے کہ ظاہر ہونے سے پہلے ہی اس علام الغیوب کو ہر چیز ، ہر شخص اور اس کے اعمال معلوم ہیں تو یہاں مطلب یہ ہے کہ دنیا کے سامنے کھول دے اور اس حال کو دیکھ لے اور دکھا دے اسی لئے حضرت ابن عباس اس جیسے مواقع پر ( لنعلم ) کے معنی کرتے تھے ( لنری ) یعنی تاکہ ہم دیکھ لیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

29۔ 1 منافقین کے دلوں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بغض وعناد تھا، اس کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ کیا یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اسے ظاہر کرنے پر قادر نہیں ہے ؟

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٣] یعنی جو کچھ بھی وہ اندر ہی اندر کافروں سے گٹھ جوڑ کر رہے ہیں اور انہیں اپنی ہمدردیاں جتا رہے ہیں اور اسلام کے خلاف اپنی وفاداریاں انہیں پیش کر رہے ہیں اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جو کینہ وہ رکھتے اور زہر اگلتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی ایسی سب باتوں سے مسلمانوں کو خبردار کر دے گا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ام حسب الذین فی قلوبھم مرض …:” اضغان “ ” ضغن “ کی جمع ہے، شدید کینہ، مراد اس سے وہ شدید حسد اور عداوت ہے جو منافقین رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کے خلاف دلوں میں رکھتے تھے۔ یعنی کیا ان منافقین نے گمان کر رکھا ہے کہ انہوں نے اپنے دل میں مسلمانوں کے خلاف جو شدید حسد اور بغض کی بیشمار باتیں چ ھپا رکھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں ظاہر نہیں کرے گا اور ان پر پردہ ہی پڑا رہے گا ؟ نہیں، ایسا نہیں ہوگا، بلکہ اللہ تعالیٰ ان کے خبث باطن کو ضرور ظاہر کرے گا۔ چناچہ سورة توبہ میں م نافقین کی سازشوں، عداوتوں اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ان کی زہریلی باتوں کو ” ومنھم “ ” ومنھم “ کہہ کر اس طرح کھول کر رکھ دیا کہ ان کی پہچان میں کوئی مشکل باقی نہ رہی۔ اس لئے سورة توبہ کا نام سورة فاضحہ یعنی منافقین کو رسوا کرنے والی سورت بھی ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) اَمْ حَسِبَ الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ اَنْ لَّنْ يُّخْرِجَ اللّٰهُ اَضْغَانَهُمْ ، اضغان جمع ضغن کی ہے جس کے معنی مخفی عداوت اور حسد و کینہ کے ہیں۔ منافقین جو اسلام کا دعویٰ اور ظاہر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے محبت کا اظہار اور باطن میں عداوت و کینہ رکھتے تھے ان کے بارے میں نازل ہوا کہ یہ لوگ اللہ رب العالمین کو عالم الغیب جانتے ہوئے اس بات سے کیوں بےفکر ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے باطنی راز اور مخفی عداوت کو لوگوں پر ظاہر کردیں۔ ابن کثیر نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے سورة برات میں ان کے ایسے اعمال و افعال اور حرکتوں کا پتہ دے دیا جن سے منافقین کے نفاق کا پتہ چل جائے اور وہ پہچانے جائیں، اسی لئے سورة برات کو فاضحہ بھی کہا جاتا ہے یعنی رسوا کرنے والی کیونکہ اس نے منافقین کی خاص خاص علامتیں ظاہر کردی ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَمْ حَسِبَ الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ اَنْ لَّنْ يُّخْرِجَ اللہُ اَضْغَانَہُمْ۝ ٢٩- أَمْ»حرف - إذا قوبل به ألف الاستفهام فمعناه :- أي نحو : أزيد أم عمرو، أي : أيّهما، وإذا جرّد عن ذلک يقتضي معنی ألف الاستفهام مع بل، نحو : أَمْ زاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصارُ [ ص 63] أي : بل زاغت . ( ا م حرف ) ام ۔ جب یہ ہمزہ استفہام کے بالمقابل استعمال ہو تو بمعنی اور ہوتا ہے جیسے ازید فی الدار ام عمرو ۔ یعنی ان دونوں میں سے کون ہے ؟ اور اگر ہمزہ استفہام کے بعد نہ آئے تو بمعنیٰ بل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصَارُ ( سورة ص 63) ( یا) ہماری آنکھیں ان ( کی طرف ) سے پھر گئی ہیں ۔- حسب ( گمان)- والحِسبةُ : فعل ما يحتسب به عند اللہ تعالی. الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت 1- 2] ، أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ [ العنکبوت 4] ، وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم 42] ، فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم 47] ، أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة 214] - ( ح س ب ) الحساب - اور الحسبة جس کا معنی ہے گمان یا خیال کرنا اور آیات : ۔ الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت 1- 2] کیا لوگ یہ خیال کئے ہوئے ہیں ۔ کیا وہ لوگ جو بڑے کام کرتے ہیں یہ سمجھے ہوئے ہیں : وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم 42] اور ( مومنو ) مت خیال کرنا کہ یہ ظالم جو عمل کررہے ہیں خدا ان سے بیخبر ہے ۔ فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم 47] تو ایسا خیال نہ کرنا کہ خدا نے جو اپنے پیغمبروں سے وعدہ کیا ہے اس کے خلاف کرے گا : أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة 214] کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ( یوں ہی ) جنت میں داخل ہوجاؤ گے ۔ - قلب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] .- ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ - خرج - خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] ،- ( خ رج ) خرج ۔ ( ن)- خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ - ضغن - الضِّغْنُ والضَّغْنُ : الحِقْدُ الشّديدُ ، وجمعه : أَضْغَانٌ. قال تعالی: أَنْ لَنْ يُخْرِجَ اللَّهُ أَضْغانَهُمْ- [ محمد 29] ، وبه شبّه الناقة، فقالوا : ذاتُ ضِغْنٍ وقناةٌ ضَغِنَةٌ: عوجاءُ والإِضْغَانُ : الاشتمالُ بالثّوب وبالسّلاح ونحوهما . ( ض غ ن ) الضغن والضغن ۔ سخت کینہ اور انتہائی بعض ۔ اس کی جمع اضغاث آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : أَنْ لَنْ يُخْرِجَ اللَّهُ أَضْغانَهُمْ [ محمد 29] کہ خدا ان کے کینوں کو ظاہر نہیں کریگا ۔ پھر بطور تشبیہ اس اونٹنی کو جو بدوں مار پٹائی کے صحیح چال نہ چلے اسے ناقۃ ذات ضغن کہاجاتا ہے ۔ اسی طرح ٹیڑے نیزے کو قنادۃ ذات ضغن کہہ دیتے ہیں ۔ الاضغان ( افعال ) کپڑا یا اسلحہ وغیرہ پہن کر اس میں مستور ہوجانا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور کہا گیا کہ یہ آیت یعنی جو لوگ پشت پھیر کر ہٹ گئے یہاں تک کہ منافقین کے بارے میں نازل ہوئی جو دین سے مرتد ہو کر مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ آگئے تھے اور کہا گیا ہے کہ یہ حکم بن ابی العاص منافق اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوا جو کہ جمعہ کے دن جبکہ رسول اکرم خطبہ دے رہے تھے اور یہ لوگ خطبہ نہیں سن رہے تھے بلکہ حضور کے بعد خلافت کے بارے میں باہم مشورہ کر رہے تھے کہ اگر ہم اس امت کے خلیفہ ہوگئے تو ایسا ایسا کریں گے پھر بعد میں بطور تعریض کے حضرت عبداللہ بن مسعود سے کہنے لگے کہ ابھی رسول اکرم نے منبر پر کیا کہا ہے کیا یہ لوگ جن کے دلوں میں شک و نفاق ہے یہ خیال کرتے ہیں یہ خیال کرتے ہیں کہ ان کو جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے بغض و عداوت ہے یا یہ کہ مومنین سے جو نفاق اور دشمنی ہے اللہ تعالیٰ اسے کبھی ظاہر نہیں کرے گا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٩ اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ اَنْ لَّنْ یُّخْرِجَ اللّٰہُ اَضْغَانَہُمْ ” کیا سمجھ رکھا تھا ان لوگوں نے جن کے دلوں میں روگ ہے کہ اللہ ان کے کھوٹ کو ظاہر نہیں کرے گا ؟ “- ان کا تو یہی خیال تھا کہ ان کے دوغلے پن کے بارے میں کسی کو خبر نہیں ہوگی اور ان کے سینوں کے کھوٹ بےنقاب نہیں ہوں گے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے تو ان کے نفاق کو ظاہر کرنا ہی تھا۔ سورة العنکبوت میں اللہ تعالیٰ نے دو ٹوک الفاظ میں فرمادیا تھا : وَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَیَعْلَمَنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ ” اور یقینا اللہ ظاہر کر کے رہے گا سچے اہل ایمان کو ‘ اور ظاہر کر کے رہے گا منافقین کو بھی۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani