Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

30۔ 1 یعنی ایک ایک شخص کی اس طرح نشان دہی کردیتے ہیں کہ ہر منافق کو پہچان لیا جاتا۔ لیکن تمام منافقین کے لئے اللہ نے ایسا اس لئے نہیں کیا کہ یہ اللہ کی صفت ستاری کے خلاف ہے، وہ بالعموم پردہ پوشی فرماتا ہے، پردہ دری نہیں۔ دوسرا اس نے انسانوں کو ظاہر پر فیصلہ کرنے کا اور باطن کا معاملہ اللہ کے سپرد کرنے کا حکم دیا ہے۔ 30۔ 2 البتہ ان کا لہجہ اور انداز گفتگو ہی ایسا ہوتا ہے جو ان کے باطن کا غماز ہوتا ہے وہ اسے لاکھ چھپائے لیکن انسان کی گفتگو حرکات و سکنات اور بعض مخصوص کیفیات اس کے دل کے راز کو آشکار کردیتی ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٤] منافقوں کو برسرعام ننگا کرنا اللہ کی حکمت کے خلاف ہے :۔ یعنی ایسے منافقوں کو برسرعام ننگا کردینا بھی اللہ کی حکمت کے خلاف ہے۔ ورنہ ہم آپ کو سب کچھ بتا دیتے۔ جس سے دوسرے مسلمانوں کو بھی ٹھیک ٹھیک پتا چل جاتا کہ ہم میں فلاں فلاں منافق گھسا ہوا ہے۔- خ نور فراست سے منافق پہچانے جاسکتے ہیں :۔ تاہم آپ کو ہم نے اتنا نور فراست ضرور دے دیا ہے کہ آپ ان کے لب و لہجہ اور انداز گفتگو سے ہی یہ معلوم کرسکیں گے کہ فلاں شخص منافق ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک سیدھے سادے اور صاف دل پکے مومن کی گفتگو میں ایسی پختگی اور سنجیدگی پائی جاتی ہے جو دل میں کھوٹ رکھنے والے شخص کے انداز گفتگو میں پائی ہی نہیں جاسکتی۔ چناچہ آپ اسی نور فراست سے اپنی زندگی کے آخری حصہ میں تمام منافقوں کو نام بہ نام جانتے تھے۔- خ سیدنا حذیفہ بن یمان رازدان رسول :۔ جب غزوہ تبوک سے واپسی پر منافقوں نے آپ کو ایک گھاٹی کی راہ پر ڈال کر ہلاک کرنے کی کوشش کی تھی تو اس وقت سیدنا حذیفہ بن یمان رسول اللہ کے ساتھ تھے۔ اور آپ کے کہنے پر ان منافقوں کی سواریوں کے چہروں پر اپنی ڈھال سے پے در پے وار کر رہے تھے۔ بعد میں یہی منافق اہل عقبہ کے نام سے مشہور ہوئے۔ رسول اللہ نے ان چودہ یا پندرہ منافقوں کے نام اور ان کے باپوں تک کے نام بھی بتا دیئے تھے۔ تاہم آپ نے سیدنا حذیفہ کو یہ تاکید بھی کردی تھی کہ ان ناموں کو دوسروں پر ہرگز ظاہر نہ کرنا۔ اسی لیے سیدنا حذیفہ بن یمان کو راز دان رسول بھی کہا جاتا ہے۔ اس واقعہ کا مجملاً ذکر مسلم۔ کتاب صفات المنافقین میں موجود ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) ولو شآء لارینکھم فلعوفتھم بسیمھم :” سیما “ علامت۔ پچھلی آیت سے ظاہر ہوتا تھا کہ اللہ تعالیٰ منافقین کی دلی عداتوں اور ان کے نفاق کو ظاہر کر دے گا۔ اس پر سوال پیدا ہوا کہ پھر اس نے منافقین کا نا م لے کر یا ان کا کوئی علامت لگا کر انہیں کیوں ظاہر نہیں کیا ؟ اس کے جواب میں فرمایا کہ اس کی وجہ منافین کا خوف یا کوئی اور خطرہ نہیں بلکہ محض ہماری مشیت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بات لفظ ” لو “ کے ساتھ بیان فرمائی ہے، جس کا استعمال ایسی شرط کے لئے ہوتا ہے جو واقع نیں ہوتی، اس لئے اس کی جزا بھی واقع نہیں ہوتی۔ یعنی اگر ہم چاہتے تو ہر منافق کا نام لے کر یا اس پر خاص نشانی لگا کر اسے شخصی طور پر آپ کو دکھا دیتے ، جس کے ساتھ آپ ان سب کو صاف پہچان لیتے، مگر ہم نے یہ چاہا نہ کوئی ایسی علامت مقرر کر کے شخصی طور پر آپ کو ان کی پہچان کروائی، کیونکہ ہماری مصلحت و حکمت اور ہمارے ستر و حلم کا تقاضا یہی تھا کہ ان کو اس طرح رسوا نہ کیا جائے کہ کوئی توبہ کرنا چاہے تو نہ کرسکے، کیونکہ ہمارے ہاں منافقین کے لئے بھی توبہ کا دروازہ کھلا ہے ۔ جیسا کہ فرمایا :(لیجزی اللہ الصدقین بصدقھم ویعذب المنفقین ان شآء او یتوب علیھم ، ان اللہ کان غفور رحیماً ) الاحزاب : ٢٣)” تاکہ اللہ سچوں کو ان کے سچ کا بدلا دے اور منافقوں کو عذاب دے اگر چاہے، یا ان کی توبہ قبول فرمائے۔ بلا شبہ اللہ ہمیشے سے بےحد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔ “ اور اس میں اللہ تعالیٰ کی یہ بھی حکمت تھی کہ لوگ ظاہر کے مطابق فیصلہ کریں اور باطن کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیں۔- (٢) ولتغرفنھم فی الحن القول :” ولتعرفنھم “ تاکید کا لام اور نون ثقیلہ قسم کے جواب میں آتا ہے، یعنی اگرچہ اللہ تعالیٰ - نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو منافقین کا نام لے کر یا ان کے چہروں پر کوئی نشانی لگا کر ان کی اطلاع نہیں دی مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ انہیں بالکل نہیں پہچانتے تھے، اللہ تعالیٰ نے قسم کھا کر فرمایا کہ آپ ان کی بات کے لہجے اور انداز سے یقینا انہیں پہچان لیں گے۔ سورة توبہ میں منافقین کے بہت سے اقوال و احوال اور افعال ذکر فرماتے ہیں جن سے ان کی شناخت میں کچھ مشکل پیش نہیں آتی ۔ ایسی ہی باتوں کا حوالہ دے کر عمر بن خطاب (رض) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عبداللہ بن ابی کا جنازہ پڑھنے سے روکنے کی کوشش کی تھی، جس کے بعد اللہ تعالیٰ نے منافقین کا جنازہ پڑھنے یا ان کی قبر پر کھڑے ہونے سے صراحت کے ساتھ منع فرما دیا۔ منافقین کی یہ پہچان بھی اللہ تعالیٰ نے ان کا نام لے کر یا ان پر نشانی لگا کر نہیں کروائی بلکہ بلا عذر جنگ تبوک سے پیچھے رہنے کو ان کی شناخت بنادیا۔ چناچہ جہاں ان پر جنازہ پڑھنے یا ان کی قبر پر کھڑا ہونے سے منع فرمایا ہے اس سے پہلے ان کا جرم بیان فرمایا ہے :(فرح المخلفون بمقعدھم خلاف رسول اللہ وکرھوا ان یجاھدوا باموالھم وانفسم فی سبیل اللہ وقالوا لاتنفروا فی الحر) (التوب ١: ٨١)” وہ لوگ جو پیچھے چھوڑ دیئے گئے وہ اللہ کے رسول کے پیچھے اپنے بیٹھ رہنے پر خوش ہوئے اور انہوں نے ناپسند کیا کہ اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کے راستے میں جہاد کریں اور انہوں نے کہا اس گرمی میں مت نکلو۔ “ پھر فرمایا :(فان رجعک اللہ الی طآئفۃ منھم فاستاذنوک للخروج فقل لن تنخرجوا معی ابداً ولن تقاتلوا، معی عدواً ط انکم رضیتم بالقعود اول مرۃ فاقعدوامع الخلفین ولاتصل علی احد منھم مات ابداً ولا تقم علی قبرہ انھم کفروا باللہ و رسولہ وما توا وھم فسقون (التوبہ : ٨٣، ٨٣)” پس اگر اللہ تجھے ان میں سے کسی گروہ کی طرف واپس لے آئے، پھر وہ تجھ سے (جنگ کے لئے ) نکلنے کی اجازت طلب کریں تو کہہ دے تم میرے ساتھ کبھی نہیں ن کلو گے اور میرے ساتھ مل کر کبھی کسی دشمن سے نہیں لڑو گے۔ بیشک تم پہلی مرتبہ بیٹھ رہنے پر خوش ہوئے، سو پیچھے رہنے والوں کے ساتھ بیٹھے رہو اور ان میں سے جو کوئی مرجائے اس کا کبھی جنازہ نہپ ڑھنا اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہونا، بیشک انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا اور اس حال میں مرے کہ وہ نافرمان تھے۔ “ منافقین کی ایسی ہی حرکتوں اور باتوں سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کی پہچان ہوجاتی تھی اور کئی مواقع پر آپ نے صحابہ کرام (رض) کو بعض منافقین کے بارے میں آگاہ بھی فرمایا۔ صحیح مسلم کی ” کتاب صفات المنافقین و احکامھم “ میں مذکور احادیث میں ایسے کئی منافقین کا ذکر ہے۔- (٣) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کو بعض منافقوں کے بارے میں جو آگاہ فرمایا مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمتہ اللہ نے اس کی اور توجیہ فرمائی ہے، وہ لکھتے ہیں :” اس آیت کے نزول تک آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو منافقین کی تشخیص کا علم نہ تھا، بعد اس کے کرایا گیا، جیسا کہ حدیثوں سے ثابت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حذیفہ صحابی کو بتادیا تھا۔ “ (تفسیر ثنائی)- (٤) واللہ یعلم اعمالکم : یعنی ممکن ہے بندوں کو کسی کے نفاق کا علم نہ ہو سکے مگر اللہ تعالیٰ تمہارے سب کام جانتا ہے اس سے کوئی بات مخفی نہیں رہ سکتی۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) وَلَوْ نَشَاۗءُ لَاَرَيْنٰكَهُمْ فَلَعَرَفْتَهُمْ بِسِيْمٰهُمْ ، یعنی اگر ہم چاہیں تو آپ کو بالتعیین منافقین کو دکھلا دیں اور ان کا ایسا حلیہ بتلا دیں جس سے آپ ہر ایک منافق کو شخصی طور پر پہچان لیں، قرآن نے اس مضمون کو بحرف لو بیان کیا ہے جس کا استعمال ایسی شرط کے لئے ہوتا ہے جس کا وقوع نہ ہوا ہو، اس لئے معنے آیت کے یہ ہوتے ہیں کہ اگر ہم چاہتے تو ہر منافق کو آپ کو شخصی طور پر متعین کر کے بتلا دیتے مگر ہم نے بحکمت و مصلحت اپنے حلم و بردباری سے ان کو اس طرح رسوا کرنا پسند نہیں کیا تاکہ ضابطہ یہ قائم رہے کہ تمام امور کو ان کے ظاہر پر محمول کیا جائے اور باطنی حالات اور قلبی مضمرات کو صرف علیم وخبیر اللہ تعالیٰ کے سپرد کیا جائے، البتہ آپ کو ایسی بصیرت ہم نے دے دی ہے کہ آپ منافق کو خود انہیں کے کلام سے پہچان لیں، (آیت) وَلَتَعْرِفَنَّهُمْ فِيْ لَحْنِ الْـقَوْلِ کا یہی مفہوم ہے (ابن کثیر)- حضرت عثمان بن عفان نے فرمایا کہ جو شخص کوئی چیز اپنے دل میں چھپاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو اس کے چہرے سے اور سبقت لسانی سے ظاہر کردیتے ہیں یعنی دوران گفتگو اس سے کچھ ایسے کلمات نکل جاتے ہیں جس سے اس کا دلی راز ظاہر ہوجائے۔ ایسی ہی ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ جو شخص اپنے دل میں کوئی بات چھپاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے وجود پر اس چیز کی چادر اڑھا دیتے ہیں۔ اگر وہ چیز کوئی اچھی بھلی ہے تو وہ ظاہر ہو کر رہتی ہے اور بری ہے تو وہ ظاہر ہو کر رہتی ہے اور بعض روایات حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ منافقین کی ایک جماعت کا آپ کو شخصی طور پر بھی علم دے دیا گیا تھا جیسا کہ مسند احمد میں عقبہ ابن عمرو کی حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک خطبہ میں خاص خاص منافقین کے نام لے کر ان کو مجلس سے اٹھا دیا اس میں چھتیس آدمیوں کے نام شمار کئے گئے ہیں (ابن کثیر)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَوْ نَشَاۗءُ لَاَرَيْنٰكَہُمْ فَلَعَرَفْتَہُمْ بِسِيْمٰہُمْ۝ ٠ ۭ وَلَتَعْرِفَنَّہُمْ فِيْ لَحْنِ الْـقَوْلِ۝ ٠ ۭ وَاللہُ يَعْلَمُ اَعْمَالَكُمْ۝ ٣٠- لو - لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] .- ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ - شاء - والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] ، قال الکفّار : الأمر إلينا إن شئنا استقمنا، وإن شئنا لم نستقم، فأنزل اللہ تعالیٰ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ وقال بعضهم : لولا أن الأمور کلّها موقوفة علی مشيئة اللہ تعالی، وأنّ أفعالنا معلّقة بها وموقوفة عليها لما أجمع الناس علی تعلیق الاستثناء به في جمیع أفعالنا نحو : سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات 102] ، سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف 69] ، يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود 33] ، ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف 69] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف 188] ، وَما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ رَبُّنا [ الأعراف 89] ، وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف 24] .- ( ش ی ء ) الشیئ - المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق سے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ نازل ہوئی تو کفار نے کہا ہے یہ معاملہ تو ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم چاہیں تو استقامت اختیار کریں اور چاہیں تو انکار کردیں اس پر آیت کریمہ ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» نازل ہوئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ اگر تمام امور اللہ تعالیٰ کی مشیئت پر موقوف نہ ہوتے اور ہمارے افعال اس پر معلق اور منحصر نہ ہوتے تو لوگ تمام افعال انسانیہ میں انشاء اللہ کے ذریعہ اشتشناء کی تعلیق پر متفق نہیں ہوسکتے تھے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّه مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات 102] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائے گا ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف 69] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے ۔ يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود 33] اگر اس کو خدا چاہے گا تو نازل کریگا ۔ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف 69] مصر میں داخل ہوجائیے خدا نے چاہا تو ۔۔۔۔۔۔۔ قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف 188] کہدو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو خدا چاہے وما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّہُ رَبُّنا [ الأعراف 89] ہمیں شایان نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں ہاں خدا جو ہمارا پروردگار ہے وہ چاہے تو ( ہم مجبور ہیں ) ۔ وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف 24] اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا مگر ان شاء اللہ کہہ کر یعنی اگر خدا چاہے ۔- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - عرف - المَعْرِفَةُ والعِرْفَانُ : إدراک الشیء بتفکّر وتدبّر لأثره، وهو أخصّ من العلم، ويضادّه الإنكار، - قال تعالی: فَلَمَّا جاءَهُمْ ما عَرَفُوا[ البقرة 89] ، فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ- [يوسف 58] - ( ع رف ) المعرفۃ والعرفان - کے معنی ہیں کسی چیز کی علامات وآثار پر غوروفکر کرکے اس کا ادراک کرلینا یہ علم سے اخص یعنی کم درجہ رکھتا ہے اور یہ الانکار کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے قرآن میں ہے ؛- فَلَمَّا جاءَهُمْ ما عَرَفُوا[ البقرة 89] پھر جس کو وہ خوب پہنچانتے تھے جب ان کے پاس آپہنچی تو اس کافر ہوگئے ۔ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف 58] تو یوسف نے ان کو پہچان لیا اور وہ ان کو نہ پہچان سکے ۔- لحن - اللَّحْنُ : صرف الکلام عن سننه الجاري عليه، إما بإزالة الإعراب، أو التّصحیف، وهو المذموم، وذلک أكثر استعمالا، وإمّا بإزالته عن التّصریح وصرفه بمعناه إلى تعریض وفحوی، وهو محمود عند أكثر الأدباء من حيث البلاغة، وإيّاه قصد الشاعر بقوله : وخیر الحدیث ما کان لحنا وإيّاه قصد بقوله تعالی: وَلَتَعْرِفَنَّهُمْ فِي لَحْنِ الْقَوْلِ [ محمد 30] ومنه قيل للفطن بما يقتضي فحوی الکلام : لحن، وفي الحدیث :«لعلّ بعضکم ألحن بحجّته من بعض» أي :- ألسن وأفصح، وأبين کلاما وأقدر علی الحجّة .- ( ل ح ن ) اللحن ( ف ) کے معنی ہیں بات کو اس کے مستعمل طریقہ اور اسلوب سے پھیر دینا ۔ اگر یہ لفظ کے اعراب یا ہیبت تبدیل کردینے سے ہو جو کہ لحن ، ، کا عام مفہوم ہے تو یہ قابل مذمت ہے اور اگر تصریح چھوڑ کر بطور تعریض کلام کرنے سے ہو تو اکثر ادباء کے نزدیک فن بلاغت کے لحاظ سے یہ مستحن اور کلام کی خوبیوں میں شمار ہوتا ہے شاعر نے کہا ہے ( الخفیف ) (393) وخیر الحدیث ماکان لحنا بہتر کلام وہ ہے جو تعریض میں ہو ۔ اور آیت کریمہ : وَلَتَعْرِفَنَّهُمْ فِي لَحْنِ الْقَوْلِ [ محمد 30] اور تم انہیں ان کے انداز گفتگو سے پہچان لوگے ۔ میں بھی یہی مراد ہے ۔ اور اسی سے ذہین آدمی کو جو کلام کے صحیح مقصد کو خوب سمجھ لیتا ہو ۔ لحن کہاجاتا ہے ۔ حدیث میں ہے :(109) لعل بعضکم الحن بحجتہ من بعض شاید تم میں سے بعض آدمی دوسرے کی نسبت دلیل پر زیادہ قدرت رکھتے ہوں تو الحن کے معنی زبان آور اور فصیح شخص کے ہیں جو اپنے مانی الضمیر کو وضاحب اور استدلال سے بیان کرسکتا ہو ۔- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة «3» لاتخاذهم إياها معبودا .- وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ.- فالإله علی هذا هو المعبود «4» . وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»- وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها «2» ، وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] وقرئ :- ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر «5» ، مركّب تركيب حيّهلا .- ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم )- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور اے نبی کریم اگر ہم چاہتے تو ان کی بدترین نشانی سے ان کا پورا پتہ بتا دیتے تو اس کے بعد آپ ان کی بدترین صورت سے ہی پہچان لیتے لیکن آپ ان کے کلام سے بھی یہ جو منافقین عذر وغیرہ پیش کرتے ہیں ضرور پہچان لیں گے اور اللہ تعالیٰ تمہاری خفیہ باتوں اور تمہارے بغض و عداوت کو جو تمہیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے ہے خوب جانتا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٠ وَلَوْ نَشَآئُ لَاَرَیْنٰکَہُمْ فَلَعَرَفْتَہُمْ بِسِیْمٰٹہُمْ ” اور اگر ہم چاہیں تو آپ کو یہ لوگ دکھا دیں اس طرح کہ آپ ان کے چہروں سے انہیں پہچان لیں گے۔ “- انگریزی کی مشہور کہاوت ہے یعنی انسان کے دل کی کیفیت کا عکس اس کے چہرے پر عیاں ہوتا ہے۔ چناچہ ایک صادق الایمان شخص کے چہرے اور ایک منافق کے چہرے کی شناخت چھپ تو نہیں سکتی۔- وَلَتَعْرِفَنَّہُمْ فِیْ لَحْنِ الْقَوْلِ ” اور آپ انہیں لازماً پہچان لیں گے (ان کی) گفتگو کے انداز سے۔ “- چہرے کی طرح انسان کی گفتگو کا انداز بھی اس کے دل کی کیفیت کی غمازی کرتا ہے۔ ایک سچے اور کھرے انسان کی گفتگو اور ایک منافق شخص کی گفتگو کے اطوار و انداز میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔- وَاللّٰہُ یَعْلَمُ اَعْمَالَکُمْ ” اور اللہ تمہارے اعمال کو خوب جانتا ہے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani