Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

37۔ 1 یعنی ضرورت سے زائد کل مال کا مطالبہ کرے وہ بھی اصرار کے ساتھ اور زور دے کر تو یہ انسانی فطرت ہے کہ تم بخل بھی کرو گے اور اسلام کے خلاف اپنے بغض وعناد کا اظہار بھی اور اس صورت میں خود اسلام کے خلاف بھی تمہارے دلوں میں عناد پیدا ہوجاتا کہ یہ اچھا دین ہے جو ہماری محنت کی ساری کمائی اپنے دامن میں سمیٹ لینا چاہتا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٢] یَحْفِکُمْ : حفا کا لغوی معنی کسی چیز کی طلب میں مبالغہ اور اصرار ہے پھر اسی مبالغہ اور اصرار سے بعض دفعہ تنگ کرنے کے معنی بھی پیدا ہوجاتے ہیں اور آیت کا مطلب یہ ہے کہ اگر اللہ تم سے سارے ہی مال کا مطالبہ کرلیتا کیونکہ یہ مال اسی کا دیا ہوا تھا تو کتنے لوگ ایسے ہوسکتے ہیں جو فراخ دلی اور خندہ پیشانی سے اس حکم پر لبیک کہیں گے۔ اکثر ایسے ہی لوگ ہوں گے جو بخل اور تنگ دلی کا ثبوت دیں گے اور مال خرچ کرتے وقت ان کے دل کی کبیدگی اور گھٹن از خود ظاہر ہوجائے گی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ان یسئلکموھا فیحفکم تبغلوا…:” فیحفکم “” اخفی یحفی احفاء “ (افعال) کا معنی کسی چیز کو سمیٹ کر پوری کی پوری لے لینا، یا کسی چیز کا اصرار کے ساتھ مطالبہ کرنا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ تم سے تمہارے سارے اموال مانگ لے تو یہ اس کا حق ہے، کیونکہ وہ سب اسی کے دیے ہوئے ہیں مگر یہ اس کا کرم ہے کہ وہ تم سے تمہارے اموال پورے کے پر وے نہیں مانگتا ، کیونکہ اگر وہ سب کے سب اصرار کے ساتھ مانگ لے تو بخل کرو گے اور تمہارا بخل تمہارے دل میں پیدا ہونے والے تمام تمام کینے ظاہر کر دے گا۔ جو سارا مال ماگننے کی وجہ سے تمہارے دل میں پیدا ہوں گے، کیونکہ مال تمہارا محبوب ہے اور جس کے محبوب کو اس سے مانگا جائے اس کے دل میں مانگنے والے کے خلاف کینہ پید ا ہوجاتا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے تم سے مطالبہ ہی اتنا کیا ہے جس سے تم اتنی سخت آزمائش میں نہ پڑو اور اگر کسی دل میں نفاق یا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کینے کی کوئی بات ہو بھی تو اس پر پردہ پڑا رہے۔ آیات کا مقصد اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب اور یہ حوصلہ دلانا ہے کہ تم سے کوئی مشکل مطالبہ نہیں کیا جا رہا جو تم پورا نہ کرسکو، اس لئے خوش دلی کے ساتھ جہاد میں اپنے اموال خرچ کرو۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنْ يَّسْـَٔــلْكُمُوْہَا فَيُحْفِكُمْ تَبْخَلُوْا وَيُخْرِجْ اَضْغَانَكُمْ۝ ٣٧- حفی - الإحفاء في السؤال : التّترّع في الإلحاح في المطالبة، أو في البحث عن تعرّف الحال، وعلی الوجه الأول يقال : أَحْفَيْتُ السؤال، وأَحْفَيْتُ فلانا في السؤال، قال اللہ تعالی: إِنْ يَسْئَلْكُمُوها فَيُحْفِكُمْ تَبْخَلُوا [ محمد 37] ، وأصل ذلک من : أَحْفَيْتُ الدابة : جعلتها حافیا، أي : منسحج الحافر، والبعیر : جعلته منسحج الخفّ من المشي حتی يرقّ ، وقد حَفِيَ حَفاً وحَفْوَة، ومنه : أَحْفَيْتُ الشّارب : أخذته أخذا متناهيا، والحَفِيُّ : البرّ اللطیف في قوله عزّ وجلّ : إِنَّهُ كانَ بِي حَفِيًّا [ مریم 47] ، ويقال : حَفَيْتُ بفلان وتَحَفَّيْتُ به : إذا عنیت بإکرامه، والحَفِيّ : العالم بالشیء .- ( ح ف و ) الاحفاٰء - کے معنی کسی چیز کے مانگنے میں اصرار کرنے یا کسی کی حالت دریافت کرنے لئے بحث اور کاوش میں لگے رہنے کے ہیں پہلے معنی کے لحاظ سے احفیت السوال واحفیت فلانا فی السوال دونوں طرح کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ إِنْ يَسْئَلْكُمُوها فَيُحْفِكُمْ تَبْخَلُوا [ محمد 37] اگر وہ تم سے مال طلب کرے اور تمہیں تنگ کرے تو تم بخل کرنے لگو ۔ اصل میں یہ احفیت الدابۃ ( اسے سادہ گردانیدم پائے ستور را ) سے ہے ۔ جس کے معنی گھوڑے یا اونٹ کو زیادہ چلا کر اس کے سم یا پاؤں کو گھسا ہوا کردینے کے ہیں اور حفی حفا وحفوۃ کے معنی زیادہ چلنے سے پاؤں گے چھل جانے کے ہیں ۔ اسی سے احفیت الشارب ( نیک برید بروت را) ہے جس کے مونچھوں کو اچھی طرح کاٹ کر صاف کردینے کے ہیں ۔ الحفی ۔ نکیو کار اور نہایت مہربان ۔ قرآن میں ہے ۔ إِنَّهُ كانَ بِي حَفِيًّا [ مریم 47] بیشک وہ مجھ پر نہایت مہربان ہے ۔ کہا جاتا ہے احفیت بفلان وتحفیت بہ میں نے اس کے اعزاز رکرام کے بجا لانے میں کوئی وقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا ۔ الحفی ( ایضا) کسی چیز کا اچھی طرح جاننے والا ۔- بخل - البُخْلُ : إمساک المقتنیات عمّا لا يحق حبسها عنه، ويقابله الجود، يقال : بَخِلَ فهو بَاخِلٌ ، وأمّا البَخِيل فالذي يكثر منه البخل، کالرحیم من الراحم .- والبُخْلُ ضربان : بخل بقنیات نفسه، وبخل بقنیات غيره، وهو أكثرها ذمّا، دلیلنا علی ذلک قوله تعالی: الَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ [ النساء 37] .- ( ب خ ل ) البخل ( دس ) اپنے جمع کردہ ذخائر کو ان جگہوں سے روک لینا جہاں پر خرچ کرنے سے اسے روکنا نہیں چاہیئے ۔ اس کے بالمقابل الجواد ہے بخل اس نے بخیل کیا باخل ۔ بخل کرنے والا ۔ البخیل ( صیغہ مبالغہ ) جو بہت زیادہ بخل سے کام لیتا ہو جیسا کہ الراحم ( مہربان ) سے الرحیم مبالغہ کے لئے آتا جاتا ہے ۔ البخیل ۔ دو قسم پر ہے ایک یہ ہے کہ انسان اپنی چیزوں کو خرچ کرنے سے روک لے اور دوم یہ کہ دوسروں کو بھی خرچ کرنے سے منع کرے یہ پہلی قسم سے بدتر ہے جیسے فرمایا : الَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ ( سورة النساء 37) یعنی جو خود بھی بخل کریں اور لوگوں کو بھی بخل کی تعلیم دیں ۔- ضغن - الضِّغْنُ والضَّغْنُ : الحِقْدُ الشّديدُ ، وجمعه : أَضْغَانٌ. قال تعالی: أَنْ لَنْ يُخْرِجَ اللَّهُ أَضْغانَهُمْ- [ محمد 29] ، وبه شبّه الناقة، فقالوا : ذاتُ ضِغْنٍ وقناةٌ ضَغِنَةٌ: عوجاءُ والإِضْغَانُ : الاشتمالُ بالثّوب وبالسّلاح ونحوهما . ( ض غ ن ) الضغن والضغن ۔ سخت کینہ اور انتہائی بعض ۔ اس کی جمع اضغاث آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : أَنْ لَنْ يُخْرِجَ اللَّهُ أَضْغانَهُمْ [ محمد 29] کہ خدا ان کے کینوں کو ظاہر نہیں کریگا ۔ پھر بطور تشبیہ اس اونٹنی کو جو بدوں مار پٹائی کے صحیح چال نہ چلے اسے ناقۃ ذات ضغن کہاجاتا ہے ۔ اسی طرح ٹیڑے نیزے کو قنادۃ ذات ضغن کہہ دیتے ہیں ۔ الاضغان ( افعال ) کپڑا یا اسلحہ وغیرہ پہن کر اس میں مستور ہوجانا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

کیونکہ اگر وہ صدقہ میں تم سے انتہا درجہ تک تمہارے سب مال طلب کرنے لگے تو تم اللہ تعالیٰ کے راستہ میں صدقہ و خیرات کرنے سے کنجوسی کرنے لگو اور اس وقت حق تعالیٰ تمہارا بخل ظاہر کردے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٧ اِنْ یَّسْئَلْکُمُوْہَا فَیُحْفِکُمْ تَـبْخَلُوْا وَیُخْرِجْ اَضْغَانَـکُمْ ” اگر وہ تم سے ان (اموال) کے بارے میں مطالبہ کرے اور اس معاملے میں تم پر تنگی کرے تو تم بخل سے کام لو گے اور وہ ظاہر کر دے گا تمہارے (دلوں کے) کھوٹ کو۔ “- منافقین کے ساتھ عملی طور پر ایسا ہوتا بھی رہا کہ جب بھی کبھی مشکل حالات سے سابقہ پڑا ‘ ان کے دلوں کا کھوٹ فوراً ان کی زبانوں پر آگیا۔ جیسے غزوئہ احزاب کے موقع پر منافقین کے اندر کی خباثت ان الفاظ کے ساتھ ان کی زبانوں پر آگئی تھی : مَّا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اِلَّا غُرُوْرًا۔ (الاحزاب : ١٢) کہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تو ہمیں دھوکہ دیا ہے اور مستقبل کے بارے میں اب تک ہمیں سبز باغ ہی دکھائے جاتے رہے ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :44 یعنی اتنی بڑی آزمائش میں وہ تمہیں نہیں ڈالتا جس سے تمہاری کمزوریاں ابھر آئیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

15: اطاعت کا اصل تقاضا تو یہ تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ تمہیں یہ حکم دیں کہ اپنا سارا مال اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کردو تو تم اس پر بھی خوشی سے راضی رہو، لیکن اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ تم اس حکم کو برداشت نہیں کرسکو گے۔ اور اس سے تمہارے دلوں میں ناپسندیدگی پیدا ہوگی، اس لیے اللہ تعالیٰ ایسا حکم نہیں دیتے۔ البتہ تمہارے مال کا کچھ حصہ وہ خود تمہارے فائدے کے لیے جہاد میں خرچ کرنے کو کہہ رہا ہے، اپنے فائدے کے لیے نہیں۔ چنانچہ اس سے تمہیں بخل نہیں کرنا چاہئے۔