سخاوت کے فائدے اور بخل کے نقصانات دنیا کی حقارت اور اس کی قلت و ذلت بیان ہو رہی ہے کہ اس سے سوائے کھیل تماشے کے اور کچھ حاصل نہیں ہاں جو کام اللہ کے لئے کئے جائیں وہ باقی رہ جاتے ہیں پھر فرماتا ہے کہ اللہ کی ذات بےپرواہ ہے تمہارے بھلے کام تمہارے ہی نفع کیلئے ہیں وہ تمہارے مالوں کا بھوکا نہیں اس نے تمہیں جو خیرات کا حکم دیا ہے وہ صرف اس لئے کہ تمہارے ہی غرباء ، فقراء کی پرورش ہو اور پھر تم دار آخرت میں مستحق ثواب بنو ۔ پھر انسان کے بخل اور بخل کے بعد دلی کینے کے ظاہر ہونے کا حال بیان فرمایا فال کے نکالنے میں یہ تو ہوتا ہی ہے کہ مال انسان کو محبوب ہوتا ہے اور اس کا نکالنا اس پر گراں گذرتا ہے ۔ پھر بخیلوں کی بخیلی کے وبال کا ذکر ہو رہا ہے کہ فی سبیل اللہ خرچ کرنے سے مال کو روکنا دراصل اپنا ہی نقصان کرنا ہے کیونکہ بخیلی کا وبال اسی پر پڑے گا ۔ صدقے کی فضیلت اور اسکے اجر سے محروم بھی رہے گا ۔ اللہ سب سے غنی ہے اور سب اس کے در کے بھکاری ہیں ۔ غناء اللہ تعالیٰ کا وصف لازم ہے اور احتیاج مخلوق کا وصف لازم ہے ۔ نہ یہ اس سے کبھی الگ ہوں نہ وہ اس سے پھر فرماتا ہے اگر تم اس کی اطاعت سے روگرداں ہوگئے اس کی شریعت کی تابعداری چھوڑ دی تو وہ تمہارے بدلے تمہارے سوا اور قوم لائے گا جو تم جیسی نہ ہوگی بلکہ وہ سننے اور ماننے والے حکم بردار ، نافرمانیوں سے بیزار ہوں گے ۔ ابن ابی حاتم اور ابن جریر میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ آیت تلاوت فرمائی تو صحابہ نے پوچھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہ کون لوگ ہیں جو ہمارے بدلے لائے جاتے اور ہم جیسے نہ ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ حضرت سلمان فارسی کے شانے پر رکھ کر فرمایا یہ اور ان کی قوم اگر دین ثریا کے پاس بھی ہوتا تو اسے فارس کے لوگ لے آتے ، اس کے ایک راوی مسلم بن خالد زنجی کے بارے میں بعض ائمہ جرح تعدیل نے کچھ کلام کیا ہے واللہ اعلم ۔ الحمد للہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے سورہ قتال کی تفسیر ختم ہوئی ۔
36۔ 1 یعنی ایک فریب اور دھوکا ہے، اس کی کسی چیز کی بنیاد ہے نہ اس کو ثبات اور نہ اس کا اعتبار۔ 36۔ 2 یعنی وہ تمہارے مالوں سے بےنیاز ہے۔ اسی لئے اس نے تم سے زکوٰۃ میں کل مال کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ اس کے ایک نہایت قلیل حصے صرف ڈھائی فیصد کا اور وہ بھی ایک سال کے بعد اپنی ضرورت سے زیادہ ہونے پر، علاوہ ازیں اس کا مقصد بھی تمہارے اپنے ہی بھائی بندوں کی مدد اور خیر خواہی ہے نہ کہ اللہ اس مال سے اپنی حکومت کے اخراجات پورے کرتا ہے۔
[٤١] دنیا دار کے لئے دنیوی زندگی کھیل تماشا ہے :۔ یعنی یہ دنیا بس دلفریبیوں کا مجموعہ ہے۔ جس میں انسان زیادہ سے زیادہ مال و دولت اکٹھی کرنے کی ہوس رکھتا ہے اور مرتے دم ہی سب کچھ یہیں چھوڑ جاتا ہے۔ لہذا تمہیں آخرت کی کمائی کی فکر کرنی چاہئے جو دائمی اور پائیدار ہے۔ اور اس کے مقصد کے حصول کے لئے وہ تم سے تمہارے سارے اموال کا مطالبہ نہیں کرتا۔ وہ تو خود غنی ہے اور ساری مخلوق پر خرچ کرتا ہے اسے تمہارے اموال کی کیا پروا یا ضرورت ہے۔ اگر کچھ تھوڑا سا مال تمہیں جہاد کی خاطر خرچ کرنے کو کہتا ہے تو اس میں تمہارا اپنا ہی فائدہ ہے۔ چناچہ مسلمانوں کو تھوڑے ہی دن اپنی گرہ سے پیسہ خرچ کرنا پڑا۔ اللہ تعالیٰ نے کئی ملک فتح کرادیئے۔ اور جتنا مسلمانوں نے خرچ کیا تھا اس سے سو سو گناہ زیادہ اموال غنیمت کی صورت میں ہاتھ لگ گیا۔ اموال غنیمت نے مسلمانوں کی معاشی تنگدستی کو آسودگی میں تبدیل کردیا۔ چناچہ فتح خیبر کے بعد مہاجرین نے انصار کو کھجوروں کے وہ درخت واپس کردیئے جو انہوں نے مدینہ آنے پر شراکت کے طور پر انصار سے لئے تھے۔ پھر اس کے بعد مسلمانوں کی معاشی آسودگی بڑھتی ہی گئی۔
(١) انما الحیوۃ الدنیا لعب و لھو …: اس کی تفصیل کیلئے دیکھیے سورة عنکبوت کی آیت (٦٤) کی تفسیر۔- جہاد سے روکنے والی سب سے بڑی چیز دنیا کی زندگی ، اس کے مال و دولت اور اس کی دل فریبیوں سے محبت ہے، کیونکہ جہاد میں جان و مال دونوں کی قربانی دینا پڑتی ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آخرت کے مقابیل میں دنیا کی حقیقت اس سے زیادہ نہیں کہ یہ چند دن کا کھیل اور دل لگی ہے، اس کی محبت میں پھنس کر اللہ کی راہ میں جان و مال کی قربانی سے دریغ نہ کرو اور یقین رکھو کہ اگر تم ایمان اور تقویٰ اختیار کرو گے، جس میں جان و مال پیش کردینا بھی شامل ہے تو اللہ تعالیٰ تمہیں تمہارے اجر پورے پورے دے گا اور تم سے تمہارے سارے اموال کا مطالبہ نہیں کرے گا بلکہ ان میں سے معمولی حصے پر اکتفا کرے گا، مثلاً سال کے بعد اموال میں سے چالیسواں حصہ، کھیتی میں سے بیسواں یا دسواں حصہ، جنگ کے بعد غنیمت میں سے پانچواں حصہ اور دوسرے پیش آنے والے مواقع پر ضرورت کے مطابق مال کا کچھ حصہ۔ لیکن اگر تم نے ایمان و تقویٰ کے بجائے کفر و عناد پر اصرار کیا تو وہ اپنے مجاہد بندوں کے ذریعے سے تم سے تمہارے سارے اموال چھین لے گا۔ ایمان و تقویٰ کے تقاضے کے مطابق وہ معلولی حصہ جو تم نے خرچ کیا ہے اس کا بھی پورا پورا بدلا وہ تمہیں دنیا اور آخرت میں دے دے گا۔ شاہ عبدالقادر کے مطابق وہ معلولی حصہ جو تم نے خرچ کیا ہے اس کا بھی پورا پورا بدلا وہ تمہیں دنیا اور آخرت میں دے دے گا۔ شاہ عبدالقادر لکھتے ہیں :” حق تعالیٰ نے ملک فتح کردیے، مسلمانوں کو تھوڑے ہی دن مال خرچ کرنا پڑا، سو جتنا خرچ کیا تھا اس سے سو سو گنا لکھتے ہیں :” حق تعالیٰ نے ملک فتح کردیئے، مسلمانوں کو تھوڑے ہی دن مال خرچ کرنا پڑا، سو جتنا خرچ کیا تھا اس سے سو سو گنا ہاتھ لگا۔ اسی لئے (قرآن کریم میں کئی جگہ) فرمایا ہے کہ اللہ کو قرض دو ۔ “- (٢) ولا یسئلکم اموالکم :” اور تم سے تمہارے اموال نہیں مانگے گا “ کا مطلب یہ ہے کہ وہ تم سے تمہارے اموال پر وے کے پورے نہیں مانگے گا۔ ہاں، وہ تمہارے اموال میں سے ایک حصہ خرچ کرنے کی دعوت ضرور دیتا ہے۔ اس مطلب کے کئی قرینے ان آیات میں موجود ہیں جن میں سے ایک قرینہ ” اموال “ کی اضافت ضمیر ” کم “ کی طرف ہے۔ ظاہر ہے ” تمہارے اموال “ میں وہ تمام اموال آجاتے ہیں جو تمہارے ملکیت ہیں۔ دوسرا قرینہ ” یوتکم اجورکم ‘ ہے، کیونکہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ تمہیں تمہارے اجر پورے پورے دے گا۔ تو جس طرح ” اجورکم “ سے پر وے اجر مراد ہیں اسی طرح ” اموالکم “ سے بھی پورے اموال مراد ہیں۔ تیسرا قرینہ اس آیت سے اگلی آیت میں لفظ ” فیحفکم “ ہے، جس سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں سے ان کے اموال کا ” احفائ “ نہیں چاہتا، یعنی پر وے نہیں مانگنا، ان تمام قرائن کی وجہ سے ” لا یسلکم اموالکم “ کا واضح مطلب ہے کہ وہ تم سے تمہارے سارے اموال نہیں مانگے گا۔
(آیت) اِنَّمَا الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَّلَهْوٌ ۭ چونکہ جہاد سے روکنے والی چیز انسان کے لئے دنیا کی محبت ہی ہو سکتی ہے جس میں اپنی جان کی محبت، اہل و عیال کی محبت مال و دولت کی محبت سب داخل ہیں اس آیت میں یہ بتلا دیا گیا ہے کہ یہ سب چیزیں بہرحال ختم اور فنا ہونے والی ہیں اس وقت ان کو بچا بھی لیا تو پھر کیا، دوسرے وقت یہ چیزیں ہاتھ سے نکلیں گی اس لئے ان فانی اور ناپائیدار چیزوں کی محبت کو آخرت کی دائمی پائیدار نعمتوں کی محبت پر غالب نہ آنے دو ۔- وَلَا يَسْـَٔــلْكُمْ اَمْوَالَكُمْ ، اس آیت کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تم سے تمہارے مال طلب نہیں کرتا مگر پورے قرآن میں زکوٰة و صدقات کے احکام اور اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کے بیشمار مواقع آئے ہیں اور خود اس کے بعد ہی دوسری آیت میں انفاق فی سبیل اللہ کی تاکید آ رہی ہے اس لئے بظاہر ان دونوں میں تعارض معلوم ہوتا ہے اس لئے بعض حضرات نے لا یسئلکم کا یہ مفہوم قرار دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اموال تم سے کسی اپنے نفع کے لئے نہیں مانگتا بلکہ تمہارے ہی فائدہ کے لئے مانگتا ہے جس کا ذکر اسی آیت میں بھی يُؤْتِكُمْ اُجُوْرَكُمْ کے الفاظ سے کردیا گیا ہے کہ تم سے جو کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کیلئے کہا گیا وہ اس لئے ہے کہ آخرت میں جہاں تمہیں سب سے زیادہ ضرورت نیکیوں کی ہوگی اس وقت یہ خرچ کرنا تمہارے کام آئے وہاں تمہیں اس کا اجر ملے، مذکور الصدر خلاصہ تفسیر میں اسی مفہوم کو اختیار کیا گیا ہے، اس کی نظیر یہ (آیت) ما ارید منھم من رزق ہے یعنی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم تم سے اپنے لئے کوئی رزق نہیں لیتے نہ اس کی ہمیں حاجت ہے اور بعض حضرات نے اس آیت کا مفہوم یہ قرار دیا ہے کہ لایسئلکم سے مراد پورا مال طلب کرلینا ہے (وہو قول ابن عیینہ قرطبی) اس کا قرینہ اگلی آیت ہے جس میں فرمایا ہے اِنْ يَّسْـَٔــلْكُمُوْهَا فَيُحْفِكُمْ کیونکہ یحف احفاء سے مشتق ہے جس کے معنی مبالغہ اور کسی کام میں آخر تک پہنچ جانے کے ہیں اس دوسری آیت کا مفہوم سب کے نزدیک یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ تم سے تمہارے اموال پورے طلب کرتا تو تم بخل کرنے لگتے اور اس حکم کی تعمیل تمہیں ناگوار ہوتی یہاں تک کہ ادائیگی کے وقت تمہاری یہ ناگواری ظاہر ہوجاتی۔ خلاصہ یہ ہے کہ پہلی آیت میں لایسئلکم سے مراد یہی ہے جو دوسری آیت میں فیحفکم کی قید کے ساتھ آیا ہے تو مطلب ان دونوں آیتوں کا یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ مالی فرائض زکوٰة وغیرہ تم پر عائد کئے ہیں اول تو وہ خود تمہارے ہی فائدہ کیلئے ہیں اللہ تعالیٰ کا کوئی اپنا فائدہ نہیں، دوسرے پھر ان فرائض میں اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے تمہارے مال کا اتنا تھوڑا سا جزو فرض کیا ہے جو کسی طرح بار خاطر نہ ہونا چاہئے زکوٰة میں چالیسواں حصہ زمین کی پیداوار میں دسواں یا بیسواں حصہ، سو بکریوں میں سے ایک بکری، تو معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے پورے اموال تو طلب نہیں کئے جن کا دینا ناگوار اور بار خاطر طبعاً ہوتا بلکہ اس کا قدر قلیل طلب فرمایا ہے اس لئے تمہارا فرض ہے کہ اس کو خوشدلی کے ساتھ ادا کیا کرو، اور اس دوسری آیت میں جو ارشاد ہے وَيُخْرِجْ اَضْغَانَكُمْ اس میں اضغان جمع ضغن کی ہے جس کے معنی مخفی کینہ اور مخفی کراہت کے ہیں اس جگہ بھی مخفی کراہت و ناگواری مراد ہے یعنی طبعی طور پر انسان کو اپنا پورا مال بخشش کردینا ناگوار ہوتا ہے جس کو وہ ظاہر بھی نہ کرنا چاہئے تو ادائیگی کے وقت ٹال مٹول وغیرہ سے یہ ناگواری کھل ہی جاتی ہے تو حاصل ارشاد کا یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ تم سے پورے اموال کا مطالبہ کرلیتا تو تم بخل کرنے لگتے اور بخل کی وجہ سے جو ناگواری اور کراہت تمہارے دلوں میں ہوتی وہ لا محالہ ظاہر ہوجاتی۔ اس لئے اس نے تمہارے اموال میں سے ایک حقیر اور قلیل حصہ تم پر فرض کیا ہے تم اس میں بھی بخل کرنے لگے اسی کا بیان آخری آیت میں اس طرح فرمایا ہے کہ - تدعون لتنفقوا فی سبیل اللہ فمنکم من یبخل، یعنی تم کو تمہارے اموال کا کچھ حصہ فی سبیل اللہ خرچ کرنے کی طرف دعوت دی جاتی ہے تو تم میں سے بعض اس میں بھی بخل کرنے لگتے ہیں اس کے بعد فرمایا کہ ومن یبخل فانمایبخل عن نفسہ، یعنی جو شخص اس میں بھی بخل کرتا ہے وہ کچھ اللہ کا نقصان نہیں کرتا بلکہ خود اپنی جان کا نقصان اس بخل کے ذریعہ کرتا ہے کہ آخرت کے ثواب سے محرومی اور ترک فرض کا وبال ہے۔ پھر اسی بات کو زیادہ وضاحت سے فرما دیا واللہ الغنی و انتم الفقرآء یعنی اللہ تو غنی ہے تم ہی حاجت مند ہو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا خود تمہاری حاجت کا پورا کرنا ہے۔
اِنَّمَا الْحَيٰوۃُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَّلَہْوٌ ٠ ۭ وَاِنْ تُؤْمِنُوْا وَتَتَّقُوْا يُؤْتِكُمْ اُجُوْرَكُمْ وَلَا يَسْـَٔــلْكُمْ اَمْوَالَكُمْ ٣٦- حيى- الحیاة تستعمل علی أوجه :- الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] ، - الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا،- قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] ،- الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی:- أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] - والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ،- وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء - والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة،- وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] - والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري،- فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ.- ( ح ی ی ) الحیاۃ )- زندگی ، جینا یہ اصل میں - حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔- ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے - ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ - ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں - اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ - ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے - چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔- ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے - ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ - ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے - ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔- ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے - ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔- دنا - الدّنوّ : القرب بالذّات، أو بالحکم، ويستعمل في المکان والزّمان والمنزلة . قال تعالی: وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام 99] ، وقال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم 8] ، هذا بالحکم . ويعبّر بالأدنی تارة عن الأصغر، فيقابل بالأكبر نحو : وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ «1» ، وتارة عن الأرذل فيقابل بالخیر، نحو : أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة 61] ،- دنا - اور یہ قرب ذاتی ، حکمی ، مکانی ، زمانی اور قرب بلحاظ مرتبہ سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام 99] اور کھجور کے گابھے میں سے قریب جھکے ہوئے خوشے کو ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔ میں قرب حکمی مراد ہے ۔ اور لفظ ادنیٰ کبھی معنی اصغر ( آنا ہے۔ اس صورت میں اکبر کے بالمقابل استعمال ہوتا ہ ۔ جیسے فرمایا :۔ وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَاور نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی ( ارذل استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ خبر کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة 61] بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو۔- لعب - أصل الکلمة اللُّعَابُ ، وهو البزاق السائل، وقد لَعَبَ يَلْعَبُ لَعْباً «1» : سال لُعَابُهُ ، ولَعِبَ فلان : إذا کان فعله غير قاصد به مقصدا صحیحا، يَلْعَبُ لَعِباً. قال : وَما هذِهِ الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ [ العنکبوت 64] ،- ( ل ع ب ) اللعب - ۔ اس مادہ کی اصل لعاب ہے جس کے معنی منہ سے بہنے والی رال کے ہیں اور ننعب ( ف) یلعب لعبا کے معنی لعاب بہنے کے ہیں لیکن لعب ( س ) فلان یلعب لعبا کے معنی بغیر صحیح مقصد کے کوئی کام کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَما هذِهِ الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ [ العنکبوت 64]- لهو - [ اللَّهْوُ : ما يشغل الإنسان عمّا يعنيه ويهمّه . يقال : لَهَوْتُ بکذا، ولهيت عن کذا : اشتغلت عنه بِلَهْوٍ ] «5» . قال تعالی: إِنَّمَا الْحَياةُ الدُّنْيا لَعِبٌ وَلَهْوٌ [ محمد 36] ، وَما هذِهِ الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ [ العنکبوت 64] ، ويعبّر عن کلّ ما به استمتاع باللهو . قال تعالی: لَوْ أَرَدْنا أَنْ نَتَّخِذَ لَهْواً [ الأنبیاء 17] ومن قال : أراد باللهو المرأة والولد «6» فتخصیص لبعض ما هو من زينة الحیاة الدّنيا التي جعل لهوا ولعبا .- ويقال : أَلْهاهُ كذا . أي : شغله عمّا هو أهمّ إليه . قال تعالی: أَلْهاكُمُ التَّكاثُرُ [ التکاثر 1] ، رِجالٌ لا تُلْهِيهِمْ تِجارَةٌ وَلا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ [ النور 37] ولیس ذلک نهيا عن التّجارة وکراهية لها، بل هو نهي عن التّهافت فيها والاشتغال عن الصّلوات والعبادات بها . ألا تری إلى قوله : لِيَشْهَدُوا مَنافِعَ لَهُمْ [ الحج 28] ، لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُناحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ البقرة 198] ، وقوله تعالی: لاهِيَةً قُلُوبُهُمْ [ الأنبیاء 3] أي : ساهية مشتغلة بما لا يعنيها، واللَّهْوَةُ : ما يشغل به الرّحى ممّا يطرح فيه، وجمعها : لُهًا، وسمّيت العطيّة لُهْوَةً تشبيها بها، واللَّهَاةُ : اللّحمة المشرفة علی الحلق، وقیل : بل هو أقصی الفم .- ( ل ھ و ) اللھو ۔ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو انسان کو اہم کاموں سے ہتائے اور بازر کھے یہ لھوت بکذا ولھیت عن کذا سے اسم ہے جس کے معنی کسی مقصد سے ہٹ کر بےسود کام میں لگ جانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : إِنَّمَا الْحَياةُ الدُّنْيا لَعِبٌ وَلَهْوٌ [ محمد 36] جان رکھو کہ دنیا کی زندگی تو صرف کھیل اور تماشا ہے ۔ پھر ہر وہ چیز جس سے کچھ لذت اور فائدہ حاصل ہو اسے بھی لھو کہہ دیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لَوْ أَرَدْنا أَنْ نَتَّخِذَ لَهْواً [ الأنبیاء 17] اگر ہم چاہتے کہ کھیل بنائیں تو ہم اپنے پاس سے بنا لیتے ۔ اور جن مفسرین نے یہاں لھو سے مراد عورت یا اولادلی ہے انہوں نے دنیاوی آرائش کی بعض چیزوں کی تخصیص کی ہے جو لہو ولعب بنالی گئیں ہیں ۔ محاورہ ہے : الھاۃ کذا ۔ یعنی اسے فلاں چیز نے اہم کام سے مشغول کردیا ۔ قرآن میں ہے : أَلْهاكُمُ التَّكاثُرُ [ التکاثر 1] لوگوتم کو کثرت مال وجاہ واولاد کی خواہش نے غافل کردیا ۔ رِجالٌ لا تُلْهِيهِمْ تِجارَةٌ وَلا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ [ النور 37] یعنی ایسے لوگ جن کو خدا کے ذکر سے نہ سود اگر ی غافل کرتی ہے اور نہ خرید وفروخت ۔ اس آیت سے تجارت کی ممانعت یا کر اہتبیان کرنا مقصود نہیں ہے ۔ بلکہ اس میں پروانہ دار مشغول ہو کر نماز اور دیگر عبادات سے غافل ہونے کی مذمت کی طرف اشارہ ہے نفس تجارت کو قرآن نے فائدہ مند اور فضل الہی سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : لِيَشْهَدُوا مَنافِعَ لَهُمْ [ الحج 28] تاکہ اپنے فائدے کے کاموں کے لئے حاضر ہوں ۔ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُناحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ البقرة 198] اس کا تمہیں کچھ گناہ نہیں کہ ( حج کے دنوں میں بذریعہ تجارت ) اپنے پروردگار سے روزی طلب کرو ۔ اور آیت کریمہ : لاهِيَةً قُلُوبُهُمْ [ الأنبیاء 3] ان کے دل غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں کہ ان کے دل غافل ہو کر بیکار کاموں میں مشغول ہیں ۔ اللھوۃ ۔ آٹا پیستے وقت چکی میں ایک مرتبہ جتنی مقدار میں غلہ ڈالا جائے ۔ اس لھوۃ کہا جاتا ہے اس کی جمع لھاء آتی ہے ۔ پھر تشبیہ کے طور پر عطیہ کو بھی لھوۃ کہدیتے ہیں ۔ اللھاۃ ( حلق کا کوا ) وہ گوشت جو حلق میں لٹکا ہوا نظر آتا ہے ۔ بعض نے اس کے معنی منہ کا آخری سرا بھی کئے ہیں ۔- تَّقْوَى- والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، ثمّ يسمّى الخوف تارة تَقْوًى، والتَّقْوَى خوفاً حسب تسمية مقتضی الشیء بمقتضيه والمقتضي بمقتضاه، وصار التَّقْوَى في تعارف الشّرع حفظ النّفس عمّا يؤثم، وذلک بترک المحظور، ويتمّ ذلک بترک بعض المباحات لما روي : «الحلال بيّن، والحرام بيّن، ومن رتع حول الحمی فحقیق أن يقع فيه» قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] ، إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا - [ النحل 128] ، وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر 73] ولجعل التَّقْوَى منازل قال : وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة 281] ، واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء 1] ، وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ [ النور 52] ، وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسائَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحامَ [ النساء 1] ، اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران 102] . و تخصیص کلّ واحد من هذه الألفاظ له ما بعد هذا الکتاب . ويقال : اتَّقَى فلانٌ بکذا : إذا جعله وِقَايَةً لنفسه، وقوله : أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر 24] تنبيه علی شدّة ما ينالهم، وأنّ أجدر شيء يَتَّقُونَ به من العذاب يوم القیامة هو وجوههم، فصار ذلک کقوله : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم 50] ، يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر 48] . التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز سے بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ جس طرح کہ سبب بول کر مسبب اور مسبب بولکر سبب مراد لیا جاتا ہے اور اصطلاح شریعت میں نفس کو ہر اس چیز سے بچا نیکا نام تقوی ہے جو گناہوں کا موجب ہو ۔ اور یہ بات محظو رات شرعیہ کے ترک کرنے سے حاصل ہوجاتی ہے مگر اس میں درجہ کمال حاصل کرنے کے لئے بعض مباحات کو بھی ترک کرنا پڑتا ہے ۔ چناچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے ۔ ( 149 ) الحلال بین واحرام بین ومن وقع حول الحمی فحقیق ان یقع فیہ کہ حلال بھی بین ہے اور حرام بھی بین ہے اور جو شخص چراگاہ کے اردگرد چرائے گا تو ہوسکتا ہے کہ وہ اس میں داخل ہوجائے ( یعنی مشتبہ چیزیں اگرچہ درجہ اباحت میں ہوتی ہیں لیکن ورع کا تقاضا یہ ہے کہ انہیں بھی چھوڑ دایا جائے ) قرآن پاک میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا[ النحل 128] کچھ شک نہیں کہ جو پرہیز گار ہیں اللہ ان کا مدد گار ہے ۔ وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر 73] اور جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کو گروہ بناکر بہشت کی طرف لے جائیں گے ۔ پھر تقویٰ کے چونکہ بہت سے مدارج ہیں اس لئے آیات وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة 281] اور اس دن سے ڈرو جب کہ تم خدا کے حضور میں لوٹ کر جاؤ گے ۔ واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء 1] اپنے پروردگار سے ڈرو ۔ اور اس سے ڈرے گا ۔ اور خدا سے جس کا نام کو تم اپنی حاجت برآری کا ذریعہ بناتے ہو ڈرو ۔ اور قطع مودت ارجام سے ۔ اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران 102] خدا سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے ۔ میں ہر جگہ تقویٰ کا ایک خاص معنی مراد ہے جس کی تفصیل اس کتاب کے اور بعد بیان ہوگی ۔ اتقٰی فلان بکذا کے معنی کسی چیز کے ذریعہ بچاؤ حاصل کرنے کے ہیں ۔ اور آیت : ۔ أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر 24] بھلا جو شخص قیامت کے دن اپنے منہ سے برے عذاب کو روکتا ہوا ۔ میں اس عذاب شدید پر تنبیہ کی ہے جو قیامت کے دن ان پر نازل ہوگا اور یہ کہ سب سے بڑی چیز جس کے ذریعہ وہ و عذاب سے بچنے کی کوشش کریں گے وہ ان کے چہرے ہی ہوں گے تو یہ ایسے ہی ہے جیسے دوسری جگہ فرمایا : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم 50] اور ان کے مونہوں کو آگ لپٹ رہی ہوگی ۔ يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر 48] اس روز منہ کے بل دوزخ میں گھسٹیے جائیں گے ۔- إِيتاء - : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة 247]- الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی - أجر - الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس 72] ، وَآتَيْناهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت 27] ، وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف 57] .- والأُجرة في الثواب الدنیوي، وجمع الأجر أجور، وقوله تعالی: وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء 25] كناية عن المهور، والأجر والأجرة يقال فيما کان عن عقد وما يجري مجری العقد، ولا يقال إلا في النفع دون الضر، نحو قوله تعالی: لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 199] ، وقوله تعالی: فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ [ الشوری 40] . والجزاء يقال فيما کان عن عقدٍ وغیر عقد، ويقال في النافع والضار، نحو قوله تعالی: وَجَزاهُمْ بِما صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيراً [ الإنسان 12] ، وقوله تعالی: فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ [ النساء 93] .- يقال : أَجَر زيد عمراً يأجره أجراً : أعطاه الشیء بأجرة، وآجَرَ عمرو زيداً : أعطاه الأجرة، قال تعالی: عَلى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمانِيَ حِجَجٍ [ القصص 27] ، وآجر کذلک، والفرق بينهما أنّ أجرته يقال إذا اعتبر فعل أحدهما، وآجرته يقال إذا اعتبر فعلاهما «1» ، وکلاهما يرجعان إلى معنی واحدٍ ، ويقال : آجره اللہ وأجره اللہ .- والأجير : فعیل بمعنی فاعل أو مفاعل، والاستئجارُ : طلب الشیء بالأجرة، ثم يعبّر به عن تناوله بالأجرة، نحو : الاستیجاب في استعارته الإيجاب، وعلی هذا قوله تعالی:- اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص 26] .- ( ا ج ر ) الاجر والاجرۃ کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دنیوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [هود : 29] میرا اجر تو خدا کے ذمے ہے ۔ وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت : 27] اور ان کو دنیا میں بھی ان کا صلہ عنایت کیا اور وہ آخرت میں بھی نیک لوگوں میں سے ہوں گے ۔ وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف : 57] اور جو لوگ ایمان لائے ۔ ۔۔۔ ان کے لئے آخرت کا اجر بہت بہتر ہے ۔ الاجرۃ ( مزدوری ) یہ لفظ خاص کر دنیوی بدلہ پر بولا جاتا ہے اجر کی جمع اجور ہے اور آیت کریمہ : وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء : 25] اور ان کے مہر بھی انہیں ادا کردو میں کنایہ عورتوں کے مہر کو اجور کہا گیا ہے پھر اجر اور اجرۃ کا لفظ ہر اس بدلہ پر بولاجاتا ہے جو کسی عہد و پیمان یا تقریبا اسی قسم کے عقد کی وجہ سے دیا جائے ۔ اور یہ ہمیشہ نفع مند بدلہ پر بولا جاتا ہے ۔ ضرر رساں اور نقصان دہ بدلہ کو اجر نہیں کہتے جیسے فرمایا لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ البقرة : 277] ان کو ان کے کاموں کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا ۔ فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ ( سورة الشوری 40) تو اس کا بدلہ خدا کے ذمے ہے الجزاء ہر بدلہ کو کہتے ہیں خواہ وہ کسی عہد کی وجہ سے ہو یا بغیر عہد کے اچھا ہو یا برا دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ وَجَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا [ الإنسان : 12] اور ان کے صبر کے بدلے ان کو بہشت کے باغات اور ریشم ( کے ملبوسات) عطا کریں گے ۔ فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ ( سورة النساء 93) اس کی سزا دوزخ ہے ۔ محاورہ میں ہے اجر ( ن ) زید عمرا یا جرہ اجرا کے معنی میں زید نے عمر کو اجرت پر کوئی چیز دی اور اجر عمر زیدا کے معنی ہوں گے عمرو نے زید کو اجرت دی قرآن میں ہے :۔ عَلَى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ [ القصص : 27] کہ تم اس کے عوض آٹھ برس میری خدمت کرو ۔ اور یہی معنی اجر ( مفاعلہ ) کے ہیں لیکن اس میں معنی مشارکت کا اعتبار ہوتا ہے اور مجرد ( اجرتہ ) میں مشارکت کے معنی ملحوظ نہیں ہوتے ہاں مال کے لحاظ سے دونوں ایک ہی ہیں ۔ محاورہ ہی ۔ اجرہ اللہ واجرہ دونوں طرح بولا جاتا ہے یعنی خدا اسے بدلہ دے ۔ الاجیرہ بروزن فعیل بمعنی فاعل یا مفاعل ہے یعنی معاوضہ یا اجرت کا پر کام کرنے والا ۔ الاستیجار کے اصل معنی کسی چیز کو اجرت پر طلب کرنا پھر یہ اجرت پر رکھ لینے کے معنی میں بولا جاتا ہے جس طرح کہ استیجاب ( استفعال ) بمعنی اجاب آجاتا ہے چناچہ آیت کریمہ : اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص : 26] اسے اجرت پر ملازم رکھ لیجئے کیونکہ بہتر ملازم جو آپ رکھیں وہ ہے جو توانا اور امانت دار ہو میں ( استئجار کا لفظ ) ملازم رکھنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔- سأل - السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. - ( س ء ل ) السؤال - ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔- ميل - المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین،- والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا،- ( م ی ل ) المیل - اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں - اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔
جو کچھ اس دنیوی زندگی میں ہے وہ سب لغو اور فانی خوشی ہے اور اگر تم اپنے ایمان پر ثابت قدم رہو اور کفر و شرک اور برائیوں سے بچتے رہو تو وہ تمہیں تمہارے اعمال کا ثواب عطا کرے گا اور تم سے صدقہ و خیرات میں تمہارے سارے مال بھی طلب نہیں کرے گا۔
آیت ٣٦ اِنَّمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّلَہْوٌ ” یہ دنیا کی زندگی تو محض کھیل ہے اور کچھ جی کا بہلانا ہے۔ “- آخرت کی زندگی کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کی حیثیت لہو و لعب سے زیادہ کچھ نہیں۔ اسی حقیقت کو سورة آلِ عمران میں اس طرح واضح کیا گیا ہے : وَما الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلاَّ مَتَاعُ الْغُرُوْرِ ۔ ” اور یہ دنیا کی زندگی تو اس کے سوا کچھ نہیں کہ صرف دھوکے کا سامان ہے۔ “- وَاِنْ تُؤْمِنُوْا وَتَتَّقُوْا یُؤْتِکُمْ اُجُوْرَکُمْ ” اور اگر تم لوگ ایمان لائو اور تقویٰ اختیار کیے رہو تو وہ تمہیں تمہارے اجر عطا کرے گا “- وَلَا یَسْئَلْکُمْ اَمْوَالَکُمْ ” اور تم سے تمہارے اموال نہیں مانگے گا۔ “- قرآن میں ” ‘ انفاق فی سبیل اللہ “ کے بارے میں بہت تلقین اور تاکید آئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان سے بار بار ان کے اموال کا براہ راست مطالبہ بھی کیا ہے : مَنْ ذَاالَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا … (البقرۃ : ٢٤٥) ” کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے… “ اور انفاق سے گریز کی روش کی سخت الفاظ میں مذمت بھی کی ہے : وَاَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلاَ تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّہْلُکَۃِج (البقرۃ : ١٩٥) ” خرچ کرو اللہ کی راہ میں اور مت ڈالو اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں۔ “- بہر حال قرآن میں اس موضوع پر جتنا بھی اصرار و تکرار ہے وہ ترغیب و تشویق کے انداز میں ہے ‘ اس میں جبر اور زبردستی کا پہلو بالکل نہیں ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظیم الشان انقلابی جدوجہد کا یوں تو ہر انداز ہی مثالی اور قابل تعریف ہے ‘ لیکن زیر بحث موضوع کے حوالے سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس تحریک کا جو پہلو خصوصی طور پر لائق توجہ ہے وہ یہ ہے کہ اس میں کہیں ” ایمرجنسی “ کی صورت حال نظر نہیں آتی ہے۔ کسی بھی مرحلے میں کسی کا مال ” بحق سرکار “ ضبط نہیں کیا گیا ‘ اور نہ ہی کسی معرکے کے لیے لوگوں کی پکڑ دھکڑ ہوئی۔ ” نفیر عام “ بھی پوری تحریک کے دوران صرف ایک موقع (غزوئہ تبوک) پر ہوئی ‘ ورنہ لوگوں کو متحرک کرنے کے لیے ہمیشہ ترغیب و تشویق کا ہی انداز اپنایا گیا : یٰٓــاَیُّہَا النَّبِیُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلَی الْقِتَالِط (الانفال : ٦٥) ” اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ترغیب دلائیے اہل ایمان کو قتال کی “۔ بہر حال ترغیب کے لیے اہل ایمان کو اجر وثواب کا وعدہ دیا گیا اور انہیں ” شہادت ہے مقصود و مطلوب مومن “ کا سبق پڑھایا گیا ‘ لیکن کبھی زور زبردستی نہیں کی گئی۔ اس سیاق وسباق میں آیت زیر مطالعہ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تم سے زبردستی تمہارے اموال نہیں مانگتا یا تم سے سارے کا سارا مال دے ڈالنے کا مطالبہ نہیں کرتا۔
سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :42 یعنی آخرت کے مقابلے میں اس دنیا کی حیثیت اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ چند روز کا دل بہلاوا ہے ۔ یہاں کی کامرانی و ناکامی کوئی حقیقی اور پائیدار چیز نہیں ہے جسے کوئی اہمیت حاصل ہو ۔ اصل زندگی آخرت کی ہے جس کی کامیابی کے لیے انسان کو فکر کرنی چاہیے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، تفسیر سورہ عنکبوت ، حاشیہ 102 ) ۔ سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :43 یعنی وہ غنی ہے ، اسے اپنی ذات کے لیے تم سے لینے کی کچھ ضرورت نہیں ہے ۔ اگر وہ اپنی راہ میں تم سے کچھ خرچ کرنے کے لیے کہتا ہے تو وہ اپنے لیے نہیں بلکہ تمہاری ہی بھلائی کے لیے کہتا ہے ۔