35۔ 1 مطلب یہ ہے کہ جب تم تعداد اور قوت وطاقت کے اعتبار سے دشمن پر غالب اور فائق تر ہو تو ایسی صورت میں کفار کے ساتھ صلح اور کمزوری کا مظاہرہ مت کرو بلکہ کفر پر ایسی کاری ضرب لگاؤ کہ اللہ کا دین سر بلند ہوجائے غالب و برتر ہوتے ہوئے کفر کے ساتھ مصالحت کا مطلب کفر کے اثر ونفوذ کے بڑھانے میں مدد دینا ہے یہ ایک بڑا جرم ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کافروں کے ساتھ صلح کرنے کی اجازت نہیں ہے یہ اجازت یقینا ہے لیکن ہر وقت نہیں صرف اس وقت ہے جب مسلمان تعداد میں کم اور وسائل کے لحاظ سے فروتر ہوں ایسے حالات میں لڑائی کی بہ نسبت صلح میں زیادہ فائدہ ہے تاکہ مسلمان اس موقعے سے فائدہ اٹھا کر بھرپور تیاری کرلیں جیسے خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کفار مکہ سے جنگ نہ کرنے کا دس سالہ معاہدہ کیا تھا۔ 35۔ 2 اس میں مسلمانوں کے لئے دشمن پر فتح و نصرت کی عظیم بشارت ہے۔ جس کے ساتھ اللہ ہو، اس کو کون شکست دے سکتا ہے۔ 35۔ 2 بلکہ وہ اس پر پورا اجر دے گا اور اس میں کوئی کمی نہیں کرے گا۔
[٣٩] دشمن سے صلح یا سمجھوتہ کی درخواست نہ کی جائے :۔ یعنی جب تم دشمن سے بھڑ جاؤ تو پھر سستی کا ہرگز مظاہرہ نہ کرو بلکہ سر دھڑ کی بازی لگادو۔ اور نہ ہی کافروں سے صلح اور سمجھوتہ کی درخواست کرو جس سے تمہاری کمزوری ان پر عیاں ہوجائے اور وہ تو تمہیں مزید دباتے چلے جائیں گے۔ واضح رہے کہ یہ آیات اس وقت نازل ہوئیں۔ جب مدینہ کی ریاست نئی نئی وجود میں آئی تھی۔ ایک سو کے لگ بھگ مہاجر اور کچھ انصار تھے اور ان کے جنگی جوانوں کی تعداد ایک ہزار تک بھی بمشکل پہنچی تھی۔ سامان جنگ کی فراوانی تو درکنار ان کی معاشی حالت بھی کچھ اچھی نہ تھی۔ دوسری طرف صرف قریش مکہ ہی نہیں سارا عرب ہی مسلمانوں کی مخالفت پر اتر آیا تھا اور اس ریاست کو اور مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے نیست و نابود کردینا چاہتا تھا۔ ان حالات میں یہ ہدایت دی گئی کہ میدان جنگ میں نہ اپنی کمزوری دکھاؤ اور نہ ہی اپنے آپ کو کمزور سمجھتے ہوئے دشمن سے صلح کی درخواست کرو۔ ہاں اگر دشمن سے اپنی طاقت کا لوہا منوا لو تو وہ خود مسلمانوں سے صلح کی درخواست کریں تو اس صورت میں آپ ان کی صلح کی درخواست کو قبول فرما لیجئے۔ جیسا کہ سورة انفال کی آیت نمبر ٦١ میں اس کی صراحت موجود ہے۔- [٤٠] غلبہ سے مراد سیاسی غلبہ ہی نہیں بلکہ دلیل وحجت کا غلبہ بھی ہے :۔ اگر تم سستی نہ دکھاؤ گے اور پامردی اور استقلال سے جہاد کرو گے تو یقیناً تم ہی غالب رہو گے کیونکہ اس صورت میں اللہ تمہاری مدد پر موجود ہے۔ تم نے جہاد کے سلسلہ میں جو خرچ کیا ہوگا یا جو محنت و مشقت اٹھائی ہوگی اللہ اس کا تمہیں پورا پورا اجر عطا کر دے گا۔ اور یہ جو فرمایا کہ تم ہی غالب رہو گے اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم ہر جنگ میں اور ہر حال میں غالب ہی رہو گے۔ جیسا کہ مسلمانوں کو جنگ احد میں اور جنگ حنین میں ان کی اپنی ہی غلطی کی وجہ سے عارضی طور پر شکست سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ بالآخر تم ہی غالب رہو گے۔ چناچہ اللہ نے مسلمانوں سے اپنا یہ وعدہ پورا کردیا اور آپ کی زندگی میں ہی سارے عرب میں کفر و شرک کا زور ختم ہوگیا اور مسلمان اور اسلام ہی غالب آئے اور بعض علماء کہتے ہیں کہ غلبہ سے مراد ضروری نہیں کہ سیاسی غلبہ ہی لیا جائے۔ علمی غلبہ بھی مراد لیا جاسکتا ہے۔ یعنی دلیل و حجت کے لحاظ سے کفر کے تمام مذاہب پر غالب رہو گے اور مسلمان اللہ کے فضل سے آج تک دلیل و حجت کے میدان میں کسی دوسرے مذہب والے سے مغلوب نہیں ہوئے۔ تاہم پہلا مطلب ہی ربط مضمون سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔
(١) فلاتھنوا :” فلاتھوا “ کی فاء فصیحہ کہلاتی ہے۔ دیکھیے اسی سورت کی آیت (١٩) :(فاعلم انہ لا الہ الا اللہ) کی تفسیر۔ یعنی جب تم منافقین کا جہاد سے فرار اختیار کرنا اور دوسروں کو بھی اسے روکنا، کفار کے ساتھ دوستی اور اسلام اور مسلمانوں سے بےوفائی کرنا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کرنا، اس کے نتیجے میں ان پر لعنت ہونا اور ان کے اعمال برباد ہونا جان چکے تو تم وہ کام نہ کرنا جن کے نتیجے میں ان کا یہ انجام ہوا۔- (٢) فلا تھوا وتدعوا الی السلم : منافقین چونکہ بزدلی اور موت کے خوف کی وجہ سے جنگ کا حوصلہ نہیں رکھتے تھے، اس لئے صلح اور سمجھوتے کی باتیں بہت کرتے تھے، وہ مسلمانوں کو بھی مشورہ دیتے رہتے تھے کہ جنگ کے بجائے صلح سے معاملات طے کرنے چاہئیں۔ حالانکہ ان کی صلح جوئی کے پیچھے ان کی بےہمتی، بزدلی اور کمزوری کے سوا کچھ نہیں تھا، اس لئے اس لئے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ان کی راہ اختیار کرنے سے منع فرما دیا۔ یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ یہ آیات اس زمانے میں نازل ہوئیں جب مدینہ ایک چھوٹی سی بستی تھی، جس میں مہاجرین و انصار کی مٹھی بھر جماعت اسلام کا جھنڈا اٹھائے ہوئے تھی اور اس کا مقابلہ صرف عرب کے سب سے طاقتور قبیلے قریش کے ساتھ نہیں تھا بلکہ سر دھڑ کی بازی لگا دینے کے لئے تیار ہوجاؤ۔ چناچہ تاریخ گواہ ہے کہ بدر واحد اور خندق میں تعداد کی کمی، بےحد کمزوری اور بےسروسامانی کے باوجود مسلمانوں نے ہمت ہاری، نہ کمزوری دکھائی، نہ صلح کی پیشکش کی، بلکہ ڈٹ کر لڑے، یہاں تک کہ جب جنگ خندق کی گرد چھٹی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(الان نعزوھم ولا یعزوننا، نحن نسیر الیھم) (بخاری، المغازی، باب غروۃ الخندق و ھی الاحزاب : ٣١٠٠)” اب ہم ان پر حملے کے لئے جائیں گے، وہ ہم پر حملے کے لئے نہیں آئیں گے، ہم ہی ان پر فوج کشی کیا کریں گے۔ “ طالوت و جلاوت کی جنگ بھی اس کی واضح مثال ہے۔- (٣) ” فلاتھنوا “ کے بعد ” تدعوآ “ بھی نہی کے اس ” لا “ کی وجہ سے مجزوم ہے جو ” تھوا “ پر آیا ہے اور اسی کی وجہ سے اس سے نون اعرابی گرا ہے، کیونکہ یہ اصل میں ” تدعون “ تھا، لائے نہی کی وجہ سے نون گرگیا تو ” تدعوا “ رہ گیا۔ گویا اصل کلام ” فلاتھنوا ولا تدعوا الی السلم “ ہے، واؤ عطف کی وجہ سے ” لا “ کو دوبارہ لانے کی ضرورت نہ رہی، اس لئے ترجمہ ہوگا :” پس تم نہ کمزور بنو (نہ ہمت ہ اور) اور نہ صلح کی طرف دعوت دو ۔ “ اس کی ایک مثال یہ آیت ہے :(ولا تلبسوا الحق بالباطل و تکتموا الحق وانتم تعلمون) (البقرۃ :32)” اور حق کو باطل کے ساتھ خلط ملط نہ کرو اور نہ حق کو چھپاؤ ، جب کہ تم جانتے ہے۔ “ مطلب یہ ہے کہ دشمن سے جنگ میں ہمت نہ ہ اور اور نہ ان کا خوف تم پر مسلط ہو بلکہ صبر کرو، ثابت قدم رہو، اپنے آپ کو لڑائی اور مقابلے پر جمائے رکھو اور صلح اور جنگ بندی کے سمجھوتے کی دعوت مت دو ۔- (٤) وانتم الاعلون واللہ معکم …:” لن یترکم “” وتریثر “ (وعد یعد) وترا وترہ “ کسی کا حق مارنا، اس میں کمی کرنا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمت نہ ہارنے اور دشمن کو صلح کی دعوت نہ دینے کی تین وجہیں بیان فرمائی ہیں، جن میں سے پہلی وجہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اگر تم نے ہمت نہ ہاری تو تم ہی غالب رہو گے، جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا :(ولا تھنوا ولا تحزنوا وانتم الاعلون ان کنتم مومنین) (آل عمران : ١٣٩)” اور نہ کمزور بنو اور نہ غم کرو اور تم ہی غالب ہو، اگر تم مومن ہو۔ “ دوسری وجہ ” واللہ معکم “ ہے کہ اللہ تمہارے ساتھ ہے اور جس کے ساتھ اللہ ہو کوئی وجہ نہیں کہ وہ ہمت ہارے اور صلح کی پیشکش کرے۔ اسی حوصلے پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کفار مکہ کے مقابلے میں اس وقت بھی ہمت نہیں ہاری جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دو میں سے دوسرے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(الا تنصروہ فقد نصرہ اللہ اذا اخرجہ الذین کفروا ثانی اثنین اذھما فی الغار اذیقول لصاحبہ لاتحزن ان اللہ معنا، فانزل اللہ سکینت ہ علیہ وایدہ بجنود لم تروھا و جعل کلمۃ الذین کفروا السفلی ، وکلمۃ اللہ ہی العلیا، واللہ عزیز حکیم) (التوب ١:30) ” اگر تم اس کی مدد نہ کرو تو بلا شبہ اللہ نے اس کی مدد کی، جب اسے ان لوگوں نے نکال دیا جنہوں نے کفر کیا، جب کہ وہ دو میں دوسرا تھا جب وہ دونوں غار میں تھے، جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا غم نہ کر، بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ تو اللہ نے اپنی سکینت اس پر اتار دی اور اسے ان لشکروں کے ساتھ قوت دی جو تم نے نہیں دیکھے اور ان لوگوں کی بات نیچی کردی جنہوں نے کفر کیا اور اللہ کی بات ہی سب سے اونچی ہے اور اللہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔ “ تیسری وجہ ” ولن یترکم اعمالکم “ ہے کہ وہ ہرگز تم سے تمہارے اعمال کم نہیں کرے گا۔ مطلب یہ ہے کہ جہاد میں تم جو عمل بھی سر انجام دو گے تمہیں اس کا پورا پورا اجر ملے گا، اس میں کسی قسم کی کمی نہیں کی جائے گی۔ تمہارے اور تمہارے دشمن کے درمیان یہ بنیادی فرق ہے کہ تمہیں اس پر اللہ تعالیٰ سے اجر و ثواب ، شہادت اور جنت کی امید ہے جب کہ کفار اس سے محروم ہیں۔ پھر ہمت ہارنے یا صلح کی پیشکش کا کیا مطلب ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(ولا تھنوا فی ابتغآء القوم ان تکونوا تالمون فانھم یالمون کما تالمون و ترجون من اللہ مالا یرجون) (النسائ :103)” اور اس قوم کا پیچھا کرنے میں ہمت نہ ہ اور، اگر تم تکلیف اٹھاتے ہو تو یقیناً وہ بھی تکلیف اٹھاتے ہیں، جیسے تم تکلیف اٹھاتے ہو اور تم اللہ سے وہ امید رکھتے ہو جو وہ امید نہیں رکھتے۔ “ اور فرمایا : (ما کان لاھل المدینۃ ومن حولھم من الاعراب ان یتخلفوا عن رسول اللہ ولا یرعبوا بانفسھم عن نفسہ ذلک بانھم لایصیبھم ظما ولا نصب ولا محمصۃ فی سبیل اللہ ولا یطنون موطنا یغظ الکفار ولا ینالون من عدو میلاً الا کتب لھم بہ عمل صالح، ان اللہ لا یصیع اجر المحسنین ولا ینفقون نفقۃ صغیرۃ ولا کبیرۃ ولا یقطعون وادیا الا کتب لھم لیجزیھم اللہ احسن ماکانوا یعملون ) (التوبۃ : ١٢، ١٢١)” مدینہ والوں کا اور ان کے اردگرد جو بدوی ہیں، ان کا حق نہ تھا کہ وہ رسول اللہ سے پیھے رہتے اور نہ یہ کہ اپنی جانوں کو اس جان سے زیادہ عزیز رکھتے۔ یہ اس لئے کہ وہ، اللہ کے راستے میں انہیں نہ کوئی پیاس پہنچتی ہے اور نہ کوی تکان اور نہ کوئی بھوک اور نہ کسی ایسی جگہ پر قدم رکھتے ہیں جو کافروں کو غصہ دلائے اور نہ کسی دشمن سے کوئی کامیابی حاصل کرتے ہیں، مگر اس کے بدلے ان کے لئے ایک نیک عمل لکھ دیا جاتا ہے۔ یقینا اللہ نیکی کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا اور نہ وہ خرچ کرتے ہیں کوئی چھوٹا خرچ اور نہ کوئی بڑا اور نہ کوئی وادی طے کرتے ہیں، مگر وہ ان کے لئے لکھ لیا جاتا ہے تاکہ اللہ انہیں اس عمل کی بہترین جزا دے جو وہ کیا ک رتے تھے۔ “- (٥) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے دشمن کو صلح کی دعوت دینے سے منع فرمایا ہے، جبکہ دوسری جگہ فرمایا :(وان جنجوا للساء فاجنح لھا و توکل علی اللہ) (الانفال : ٦١)” اور اگر وہ صلح کی طرف مائل ہوں تو تو بھی اس کی طرف مائل ہوجاؤ اور اللہ پر بھروسہ کر۔ “ ان دونوں آیات میں کوئی تعارض نہیں، اللہ تعالیٰ نے ہمت ہار کر دشمن کو صلح کی پیشکش کرنے سے منع فرمایا ہے اور اگر دشمن کی طرف مائل ہوں تو اس کی طرف مائل ہوجانے کا حکم دیا ہے، کیونکہ یہ پیشکش دشمن کی طرف سے ہے۔- (٦) ابن کثیر (رح) نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے :” پھر اللہ تعالیٰ ن اپنے مومن بندوں کو حکم دیا۔ (فلا تھنوا) یعنی دشمن کے مقبالے میں کمزور مت بنو اور :” وتدعوا الی السلم) یعنی کفار کو صلح کی اور ایک دوسرے سے جنگ ترک کرنے کی دعوت مت بنو اور :(وتد عوا الی السلم) یعنی کفار کو صلح کی اور ایک دوسرے سے جنگ ترک کرنے کی دعوت مت دو ، اس حال میں کہ تمہاری قوت، تعداد اور تیاری دشمن سے زیادہ ہو۔ اسی لئے فرمایا :(فلا تھنوا وتدعوا الی السلم وانتم الاعلون) یعنی دشمن پر تمہارے غلبے کی حالت میں انہیں صلح کی دعوت مت دو ۔ لیکن جب کفار تمام مسلمانوں کے مقابلے میں قوت و کثرت میں زیادہ ہوں اور امام صلح اور جنگ بندی میں مصلحت دیکھے تو وہ ایسا کرسکتا ہے، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس وقت کیا جب کفار قریش نے آپ کو مکہ جانے سے روک دیا اور انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صلح کی اور آپس میں دس سال تک جنگ ختم کرنے کی دعوت دی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی دعوت قبول فرمائی۔ “ (ابن کثیر) مفسر شنقیطی نے اضواء البیان میں وہ تفسیر جو پہلے ذکر ہوئی ہے، بیان کرنے کے بعد فرمایا :” یہ معنی جو ہم نے اس آیت کا بیان کیا ہے اس تفسیر سے بہتر اور زیادہ دسرت ہے جو ابن کثیر نے کی ہے کہ اس وقت صلح اور سمجھوتے کی دعوت مت دو جب تم غالب ہو یعنی تم جہاد کی قوت و طاقت رکھتے ہو۔ یعنی اگر تم کمزور ہو اور طاقت نہیں رکھتے تو اس بات سے کوئی مانع نہیں کہ تم صلح اور سمجھوتے کی دعوت دو ۔ “- شنقیطی کے ابن کثیر سے اتفاق نہ کرنے کی کئی وجہیں ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ ابن کثیر نے صرف ” وانتم الاعلون کو حال بنایا ہے، حالانکہ یہاں تین چیزیں بیان ہوئی ہیں :(وانتم الاعلون ، واللہ معکم ولن یترکم اعمالکم) دوسری یہ ہے کہ حدیبہ کے زمانے میں مسلمان قوت میں کفار پر غالب تھے، جیسا کہ پیچھے صحیح بخاری کی حدیث ” الان نخروھم۔ “ گزری۔ آپ نے انہیں صلح کی پیشکش اپنے کمزور ہونے کی وجہ سے نہیں کی تھی، ورنہ آپ اس سے بہت پہلے بدر و احد اور خندق میں صلح کی پیشکش کرتے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انہیں صلح کی پیشکش کا مطلب یہ تھا کہ آپس کے میل جول سے اسلام کی تعلیم پھیلے گی تو یہ لوگ اسلام لے آئیں گے۔ کفار پہلے لڑائی پر آمادہ تھے مگر جب انہوں نے بیعت رضوان کے متعلق سنا تو ڈر گئیا ور صلح پر آمادہ ہوگئے، جیساک ہ صحیح بخاری کی مفصل حدیث میں ہے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ ابن کثیر نے فرمایا کہ صلح کی دعوت کفار کی طرف سے تھی جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبول فرمائی۔ اگر ایسا ہو تو پھر یہو اقعہ اس مقصد کی دلیل کے طور پر پیش نہیں کیا جاسکتا کہ مسلمان کمزور ہوں تو ان کا امام صلح کی دعوت دے سکتا ہے، کیونکہ ابن کثیر کے اس وقل کے مطابق تو صلح کی دعوت کفار کی طرف سے تھی، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صرف اسے قبول فرمایا تھا، حالانکہ حقیقت یہی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود صلح کا پیغام بھیجا تھا۔ تفصیل کے لئے دیکھیے صیحیح بخاری کی ” کتاب الشروط، یاب الشروط فی الجھاد والمصالحۃ مع اھل المحرب و کتابۃ الشروط “ کی حدیث (٢٧٣١، ٢٧٣٢)- (٧) یہاں ایک سوال ہے کہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ ” تم صلح کے لئے دعوت مت دو “ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حدیبیہ کے موقع پر صلح کی دعوت کیوں دی ؟ جو اب اس کا یہ ہے کہ صلح کی دعوت دینے کی ممانعت اس وقت ہے جب مسلمان ہمت ہارتے ہوئے اور بزدلی اور ذلت اختیار کرتے ہوئے صلح کی دعوت دیں، جیسا کہ ” فلا تھنوا وتدعوا الی السلم “ (پس ہمت نہ ہ اور اور نہ صلح کی طرف دعوت دو ) کے الفاظ سے ظاہر ہے۔ حدیبیہ کی صلح کی دعوت دشمن کی طاقت توڑنے کے بعد اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کی خاطر دی گئی اور اللہ تعالیٰ نے اسے فتح مبین قرار دیا، جیسا کہ آگے سورة فتح میں آرہا ہے۔ بھلا جو صلح دشمن کے غالب اور مسلمانوں کے مغلوب ہونے کی صورت میں کی جائے اسے فتح مبین کہا جاسکتا ہے ؟ اگر ایسا کرنا فتح مبین ہوتا تو یہ کام رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بدر و احد سے بہت پہلے کرلیتے۔ پھر نہ ہجرت کی نوبت آتی، نہ جنگیں لڑنا پڑتیں اور نہ ہی اتنی شہادتیں ہوتیں، مگر یاد رکھیں پھر مشرق سے مغرب تک اسلام کا پھر یرا بھی نہیں لہرا سکتا تھا۔- (٨) ان آیات میں ان مسلمانوں کا ذکر ہے جو میدان قتال میں اتر چکے ہیں، جو مسلمان کفار کے نرغے سے نکل ہی نہ سکیں کہ ہجرت کے بعد جہاد کرسکیں ، اللہ تعالیٰ نے انہیں مستصنعفین کہہ کر معذور قرار دیا ہے۔ (دیکھیے نساء :97 تا 99) اور ایسے مستصعفین کو آزادی دلانے کے لئے تمام مسلمانوں کو لڑنے کا حکم دیا ہے۔ دیکھیے سورة نسائ (٧٥) ۔
(آیت) فَلَا تَهِنُوْا وَتَدْعُوْٓا اِلَى السَّلْمِ ، اس آیت میں کفار کو صلح کی دعوت دینے کی ممانعت کی گئی ہے اور قرآن کریم میں دوسری جگہ ارشاد ہے (آیت) وان جنحواللسلم فاجنح لھا یعنی اگر کفار صلح کی طرف مائل ہوں تو آپ بھی مائل ہو جایئے جس سے صلح کی اجازت معلوم ہوتی ہے اس لئے بعض حضرات نے فرمایا کہ اجازت والی آیت اس شرط کے ساتھ ہے کہ کفار کی طرف سے صلح جوئی کی ابتدا ہو اور اس آیت میں جس کو منع کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی طرف سے صلح کی درخواست کی جائے اس لئے دونوں آیتوں میں کوئی تعارض نہیں مگر صحیح یہ ہے کہ مسلمانوں کے لئے ابتداً صلح کرلینا بھی جائز ہے جبکہ مصلحت مسلمانوں کی اس میں دیکھی جائے۔ محض بزدلی اور عیش کوشی اس کا سبب نہ ہو اور اس آیت نے شروع میں فلا تھنوا کہہ کر اس طرف اشارہ کردیا کہ ممنوع وہ صلح ہے جس کا منشاء بزدلی اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے سے فرار ہو اس لئے اس میں بھی کوئی تعارض نہیں کہ وان جنحو اللسلم کی آیت کے حکم کو اس صورت کے ساتھ مقید کیا جائے جس میں صلح جوئی کا سبب وہن اور سستی بزدلی نہ ہو بلکہ خود مسلمانوں کی مصلحت کا تقاضا ہو۔ واللہ اعلم - (آیت) وَلَنْ يَّتِرَكُمْ اَعْمَالَكُمْ ، یعنی اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی جزاء میں کوئی کمی نہیں کرے گا، اشارہ اس طرف ہے کہ دنیا میں کوئی تکلیف بھی پہنچ گئی تو اس کا اجر عظیم آخرت میں ملنے والا ہے اس مومن تکلیف کی حالت میں بھی ناکام نہیں۔
فَلَا تَہِنُوْا وَتَدْعُوْٓا اِلَى السَّلْمِ ٠ ۤۖ وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ ٠ ۤۖ وَاللہُ مَعَكُمْ وَلَنْ يَّتِرَكُمْ اَعْمَالَكُمْ ٣٥- لا - «لَا» يستعمل للعدم المحض . نحو : زيد لا عالم، وذلک يدلّ علی كونه جاهلا، وذلک يكون للنّفي، ويستعمل في الأزمنة الثّلاثة، ومع الاسم والفعل غير أنه إذا نفي به الماضي، فإمّا أن لا يؤتی بعده بالفعل، نحو أن يقال لك : هل خرجت ؟ فتقول : لَا، وتقدیره : لا خرجت .- ويكون قلّما يذكر بعده الفعل الماضي إلا إذا فصل بينهما بشیء . نحو : لا رجلا ضربت ولا امرأة، أو يكون عطفا . نحو : لا خرجت ولَا رکبت، أو عند تكريره . نحو : فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة 31] أو عند الدّعاء . نحو قولهم : لا کان، ولا أفلح، ونحو ذلك . فممّا نفي به المستقبل قوله : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ 3] وفي أخری: وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس 61] وقد يجيء «لَا» داخلا علی کلام مثبت، ويكون هو نافیا لکلام محذوف وقد حمل علی ذلک قوله : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة 1] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج 40] ، فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة 75] ، فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء 65] لا وأبيك ابنة العامريّ- «1» وقد حمل علی ذلک قول عمر رضي اللہ عنه۔ وقد أفطر يوما في رمضان فظنّ أنّ الشمس قد غربت ثم طلعت۔: لا، نقضيه ما تجانفنا لإثم فيه، وذلک أنّ قائلا قال له قد أثمنا فقال لا، نقضيه . فقوله : «لَا» ردّ لکلامه قد أثمنا، ثم استأنف فقال : نقضيه «2» . وقد يكون لَا للنّهي نحو : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات 11] ، وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات 11] ، وعلی هذا النّحو : يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] ، وعلی ذلك : لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل 18] ، وقوله : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة 83] فنفي قيل تقدیره : إنهم لا يعبدون، وعلی هذا : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة 84] وقوله :- ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء 75] يصحّ أن يكون «لا تقاتلون» في موضع الحال «3» : ما لکم غير مقاتلین . ويجعل «لَا» مبنيّا مع النّكرة بعده فيقصد به النّفي . نحو : فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة 197] ، [ وقد يكرّر الکلام في المتضادّين ويراد إثبات الأمر فيهما جمیعا . نحو أن يقال : ليس زيد بمقیم ولا ظاعن . أي : يكون تارة كذا وتارة كذا، وقد يقال ذلک ويراد إثبات حالة بينهما . نحو أن يقال : ليس بأبيض ولا أسود ] «4» ، وإنما يراد إثبات حالة أخری له، وقوله : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] .- فقد قيل معناه : إنها شرقيّة وغربيّة «5» . وقیل معناه :- مصونة عن الإفراط والتّفریط . وقد يذكر «لَا» ويراد به سلب المعنی دون إثبات شيء، ويقال له الاسم غير المحصّل . نحو : لا إنسان، إذا قصدت سلب الإنسانيّة، وعلی هذا قول العامّة :- لا حدّ. أي : لا أحد .- ( لا ) حرف ) لا ۔ یہ کبھی عدم محض کے لئے آتا ہے ۔ جیسے : زید عالم یعنی جاہل ہے اور کبھی نفی کے لئے ہوتا ہے ۔ اور اسم و فعل دونوں کے ساتھ ازمنہ ثلاثہ میں نفی کے معنی دیتا ہے لیکن جب زمانہ ماضی میں نفی کے لئے ہو تو یا تو اس کے بعد فعل کو ذکر ہی نہیں کیا جاتا مثلا اگر کوئی ھل خرجت کہے تو اس کے جواب میں صرف ، ، لا ، ، کہ دنیا کافی ہے یعنی لاخرجت اور اگر نفی فعل مذکور بھی ہوتا ہے تو شاذو نا در اور وہ بھی اس وقت (11) جب لا اور فعل کے درمیان کوئی فاعل آجائے ۔ جیسے لارجل ضربت ولا امرءۃ (2) جب اس پر دوسرے فعل کا عطف ہو جیسے ۔ لا خرجت ولاضربت اور یا (3) لا مکرر ہو جیسے ؛فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة 31] اس ناعاقبت اندیش نے نہ تو کلام خدا کی نعمتوں کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی ۔ اور یا (4) جملہ دعائیہ میں جیسے لا کان ( خدا کرے ایسا نہ ہو ) لا افلح ( وہ کامیاب نہ ہوا وغیرہ ۔ اور زمانہ مستقبل میں نفی کے متعلق فرمایا : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ 3] ذرہ پھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں ۔ اور کبھی ، ، لا ، ، کلام مثبت پر داخل ہوتا ہے اور کلام محذوف کی نفی کے لئے آتا ہے ۔ جسیے فرمایا : وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس 61] اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ آسمان میں ۔۔۔ اور مندرجہ ذیل آیات میں بھی بعض نے لا کو اسی معنی پر حمل کیا ہے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة 1] ہم کو روز قیامت کی قسم ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج 40] میں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم کھاتا ہوں ۔ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء 65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ مومن نہیں ہوں گے ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ اور اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( المتقارب ) (388) لاوابیک ابتہ العامری نہیں تیرے باپ کی قسم اسے عامری کی بیٹی ۔ اور مروی ہے (105) کہ ا یک مرتبہ حضرت عمر نے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا ہے روزہ افطار کردیا اس کے بعد سورج نکل آیا تو آپ نے فرمایا : لانقضیہ ماتجالفنا الاثم فیہ اس میں بھی لا کلام محذوف کی نفی کے لئے ہے یعنی اس غلطی پر جب لوگوں نے کہا کہ آپ نے گناہ کا ارتکاب کیا تو اس کی نفی کے لئے انہوں نے لا فرمایا ۔ یعنی ہم گنہگار نہیں ہیں ۔ اس کے بعد تفضیہ سے از سر نو جملہ شروع کیا ہے ۔ اور کبھی یہ لا نہی کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات 11] کوئی قوم کسی قوم سے تمسخرنہ کرے ولا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات 11] اور نہ ایک دوسرے کا برنام رکھو ۔ اور آیت ؛ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکادے ۔ اور نیزلا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل 18] ایسانہ ہو ک سلمان اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں ۔۔۔ میں بھی لا نہی کے لئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة 83] اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سو اکسی کی عبادت نہ کرنا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لانا فیہ یعنی خبر ہے یعنی وہ اللہ کے سو ا کسی کی عبادت نہیں کریں گے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة 84] اور جب ہم نے تم سے عہد لیا ک تم آپس میں کشت وخون نہیں کروگے ۔ میں بھی لانفی پر محمول ہے اور فرمان باری تعالیٰ ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء 75] تمہیں کیا ہوا کہ خدا کی راہ میں نہیں لڑتے ۔ میں ہوسکتا ہے کہ لاتقاتلو ن موضع حال میں ہو ۔ اور معنی ی ہو مالکم غیر مقاتلین یعنی تمہیں کیا ہوا اور آنحالیکہ لڑنے والے نہیں ہو ۔ اور لا کے بعد اسم نکرہ آجائے تو وہ مبنی بر فتحہ ہوتا ہے اور لا لفی کے مبنی دیتا ہے جیسے فرمایا : نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے ۔ فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة 197] اور کبھی دو متضادمعنوں کے درمیان لا مکرر آجاتا ہے ۔ اور دونوں کا اثبات مقصود ہوتا ہے جیسے : لا زید بمقیم ولا ظاعن نہ زید مقیم ہے اور نہ ہی مسافر یعن کبھی مقیم ہے اور کبھی سفر پر اور کبھی متضاد مقصود ہوتا ہے جیسے ۔ لیس ابیض ولااسود سے مراد ہے کہ وہ ان دونوں رنگوں کے درمیان ہے یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے ہے کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا رنگ ہو چناچہ آیت کریمہ : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] یعنی زیتون کی نہ مشرق کی طرف منسوب اور نہ مغرب کیطر کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ بیک وقت مشرقی بھی ہے اور غربی بھی ۔ اور بعض نے اس کا افراط اور تفریط سے محفوظ ہونا مراد لیا ہے ۔ کبھی لا محض سلب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس سے ایک شے کی نفی کرکے دوسری کا اثبات مقصود نہیں ہوتا مثلا لا انسان کہہ کہ صرف انسانیت کی نفی کا قصد کیا جائے اور عامی محاورہ لاحد بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔- هان - الْهَوَانُ علی وجهين :- أحدهما : تذلّل الإنسان في نفسه لما لا يلحق به غضاضة، فيمدح به نحو قوله : وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] ونحو ما روي عن النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم :«المؤمن هَيِّنٌ ليّن»- الثاني : أن يكون من جهة متسلّط مستخفّ به - فيذمّ به . وعلی الثاني قوله تعالی: الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذابَ الْهُونِ [ الأنعام 93] ، فَأَخَذَتْهُمْ صاعِقَةُ الْعَذابِ الْهُونِ [ فصلت 17] ، وَلِلْكافِرِينَ عَذابٌ مُهِينٌ [ البقرة 90] ، وَلَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ آل عمران 178] ، فَأُولئِكَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ الحج 57] ، وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَما لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ [ الحج 18] ويقال : هانَ الأمْرُ علی فلان : سهل . قال اللہ تعالی: هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ [ مریم 21] ، وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ [ الروم 27] ، وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّناً [ النور 15] والْهَاوُونَ : فاعول من الهون، ولا يقال هارون، لأنه ليس في کلامهم فاعل .- ( ھ و ن ) الھوان - اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے انسان کا کسی ایسے موقعہ پر نر می کا اظہار کرتا جس میں اس کی سبکی نہ ہو قابل ستائش ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر متواضع ہوکر چلتے ہیں ۔ اور آنحضرت سے مروی ہے کہ مومن متواضع اور نرم مزاج ہوتا ہے - دوم ھان بمعنی ذلت - اور رسوائی کے آتا ہے یعنی دوسرا انسان اس پر متسلط ہو کت اسے سبکسار کرے تو یہ قابل مذمت ہے چناچہ اس معنی میں فرمایا : ۔ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذابَ الْهُونِ [ الأنعام 93] سو آج تم کو ذلت کا عذاب ہے ۔ فَأَخَذَتْهُمْ صاعِقَةُ الْعَذابِ الْهُونِ [ فصلت 17] تو کڑک نے ان کو آپکڑا اور وہ ذلت کا عذاب تھا وَلِلْكافِرِينَ عَذابٌ مُهِينٌ [ البقرة 90] اور کافروں کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہے ۔ وَلَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ آل عمران 178] اور آخر کار ان کو ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا ۔ فَأُولئِكَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ الحج 57] انکے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا ۔ وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَما لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ [ الحج 18] اور جس کو خدا ذلیل کرے اس کو کوئی عزت دینے والا نہیں ۔ علی کے ساتھ کے معنی کسی معاملہ کے آسان ہو نیکے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ [ مریم 21] کہ بی مجھے آسان ہے ۔ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ [ الروم 27] اور یہ اس پر بہت آسان ہے ۔ وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّناً [ النور 15] اور تم اسے ایک ہل کہ بات سمجھتے ہو ۔ ھاودن کمزور یہ ھون سے ہے اور چونکہ فاعل کا وزن کلام عرب میں نہیں پایا اسلئے ھاون کی بجائے ہارون بروزن فا عول کہا جاتا ہے ۔- دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ - سِّلْمُ- والسَّلَامُ والسِّلْمُ والسَّلَمُ : الصّلح قال : وَلا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقى إِلَيْكُمُ السَّلامَ لَسْتَ مُؤْمِناً- [ النساء 94] ، وقیل : نزلت فيمن قتل بعد إقراره بالإسلام ومطالبته بالصّلح وقوله تعالی: يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً [ البقرة 208] ، وَإِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ- [ الأنفال 61] ، وقرئ لِلسَّلْمِ بالفتح، وقرئ : وَأَلْقَوْا إِلَى اللَّهِ يَوْمَئِذٍ السَّلَمَ وقال : يُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ وَهُمْ سالِمُونَ [ القلم 43] ، أي : مُسْتَسْلِمُونَ ، وقوله : ورجلا سالما لرجل وقرئ سلما و ( سَلَماً ) وهما مصدران، ولیسا بوصفین کحسن ونکد . يقول : سَلِمَ سَلَماً وسِلْماً ، وربح ربحا وربحا . وقیل : السِّلْمُ اسم بإزاء حرب،- السلام والسلم والسلم کے معنی صلح کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا ۔ وَلا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقى إِلَيْكُمُ السَّلامَ لَسْتَ مُؤْمِناً«1» [ النساء 94] جو شخص تم سے سلام علیک کہے اس سے یہ نہ کہو کہ تم مومن نہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ آیت اس شخص کے حق میں نازل ہوئی ہے جسے باوجود اظہار اسلام اور طلب صلح کے قتل کردیا گیا تھا اور فرمایا : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً [ البقرة 208] مؤمنوں اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ ۔ وَإِنْ جَنَحُوا لِلسِّلْمِ [ الأنفال 61] اور اگر یہ لوگ صلح کی طرف مائل ہوں ۔ اس میں ایک قرآت سلم ( بفتحہ سین ) بھی ہے ۔ وَأَلْقَوْا إِلَى اللَّهِ يَوْمَئِذٍ السَّلَمَ «4»اور اس دن خدا کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گے ۔ يُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ وَهُمْ سالِمُونَ [ القلم 43] ( اس وقت ) سجدے کے لئے بلائے جاتے تھے ۔ جب صحیح وسالم تھے ۔ اور آیت کریمہ :۔ ورجلا سالما لرجل «5»اور ایک آدمی خاص ایک شخص کا ( غلام ) ہے ۔ میں ایک قراءت سلما وسلم ا بھی ہے اور یہ دونوں مصدر ہیں اور حسن و نکد کی طرح صفت کے صیغے نہیں ہیں کہا جاتا ہے ۔ سلم سلما و سلما جیسے ربح ربحا و ربحا اور بعض نے کہا ہے کہ سلم اسم ہے اور اس کی ضد حرب ہے ۔- علا - العُلْوُ : ضدّ السُّفْل، والعُلْوِيُّ والسُّفْليُّ المنسوب إليهما، والعُلُوُّ : الارتفاعُ ، وقد عَلَا يَعْلُو عُلُوّاً وهو عَالٍ وعَلِيَ يَعْلَى عَلَاءً فهو عَلِيٌّ فَعَلَا بالفتح في الأمكنة والأجسام أكثر . قال تعالی:- عالِيَهُمْ ثِيابُ سُندُسٍ [ الإنسان 21] . وقیل : إنّ ( عَلَا) يقال في المحمود والمذموم، و ( عَلِيَ ) لا يقال إلّا في المحمود، قال : إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلا فِي الْأَرْضِ [ القصص 4] - ( ع ل و ) العلو - کسی چیز کا بلند ترین حصہ یہ سفل کی ضد ہے ان کی طرف نسبت کے وقت علوی اسفلی کہا جاتا ہے اور العوا بلند ہونا عال صفت فاعلی بلند علی علی مگر علا ( فعل ) کا استعمال زیادہ تر کسی جگہ کے یا جسم کے بلند ہونے پر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ عالِيَهُمْ ثِيابُ سُندُسٍ [ الإنسان 21] ان کے بدنوں پر دیبا کے کپڑے ہوں گے ۔ بعض نے علا اور علی میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ علان ( ن ) محمود اور مذموم دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے لیکن علی ( س ) صرف مستحن معنوں میں بولا جاتا ہے : ۔ قرآن میں ہے : ۔- إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلا فِي الْأَرْضِ [ القصص 4] فرعون نے ملک میں سر اٹھا رکھا تھا ۔- وتر - الوَتْرُ في العدد خلاف الشّفع، وقد تقدّم الکلام فيه في قوله : وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ [ الفجر 3] «1» وأَوْتَرَ في الصلاة . والوِتْرُ والوَتَرُ ، والتِّرَةُ : الذّحل، وقد وَتَرْتُهُ : إذا أصبته بمکروه .- قال تعالی: وَلَنْ يَتِرَكُمْ أَعْمالَكُمْ [ محمد 35] . والتَّواتُرُ : تتابع الشیء وترا وفرادی، وجاء وا تَتْرَى قال تعالی: ثُمَّ أَرْسَلْنا رُسُلَنا تَتْرا [ المؤمنون 44] ولا وتیرة في كذا، ولا غمیزة، ولا غير، والوَتِيرَة : السّجيّة من التّواتر، وقیل للحلقة التي يتعلم عليها الرّمي : الوَتِيرَة، وکذلک للأرض المنقادة، والوَتِيرَة : الحاجز بين المنخرین .- ( و ت ر ) الواتر ( طاق ) یہ اعداد میں شفیع کی ضد ہے جس کی بحث آیت ۔ وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ [ الفجر 3] اور جفت اور طاق کی ( قسم ) کے تحت گزرچکی ہے ۔ اوتر ۔ وتر نماز پڑھنا ۔ الوتر والوتر والترۃ کے معنی کینہ کے ہیں اور اسی سے وترتہ ( ض ) ہے جس کے معنی کسی کو تکلیف پہنچانے یا اس کا حق کم کرنے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے ۔ : ۔ وَلَنْ يَتِرَكُمْ أَعْمالَكُمْ [ محمد 35] وہ ہر گز تمہارے اعمال کو کم ( اور کم ) ) نہیں کرے گا ۔ التواتر کسی چیز کا یکے بعد دیگرے آنا محاورہ ہے جاؤ تترٰی ( وہ یکے دیگرے کچھ وقفہ کے بعد آئے ) قرآن میں ہے : ثُمَّ أَرْسَلْنا رُسُلَنا تَتْرا [ المؤمنون 44] پھر ہم پے درپے اپنے پیغمبر بھیجتے رہے ۔ لاوتیرۃ فی کذ ولا عمیزۃ ولاغیر اس میں عقلی کمزوری یا کوئی دوسرا عیب نہیں ہے اور تواتر سے وتیرۃ ہے جس کے معنی سجیتہ ( طبعی عادت کے ) بھی آتے ہیں ۔ نیز وتیرۃ کا لفظ ذیل معانی میں استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1 ) وہ حلقہ جس پر بچے تیر اندازی کی مشق کرتے ہیں ۔ ( 2) نرم زمین ( 3 ) ناک کے نتھنوں کا درمیان پردہ ۔- عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے
مشرکین سے صلح کی درخواست کرنا منع ہے - قول باری ہے (فلا تھنوا وتدعوا الی السلم وانتم الاعلون واللہ معکم سو تم ہمت نہ ہارو، اور انہیں صلح کی طرف مت بلائو اور تم ہی غالب رہو گے اور اللہ تمہارے ساتھ ہے) مجاہد سے مروی ہے کہ ” قتال سے کمزور مت پڑو اور دشمنوں کو صلح کی طرف مت بلائو۔ “- ہمیں عبداللہ بن محمد نے رویات بیان کی، انہیں حسن جرجانی نے، انہیں عبدالرزاق نے معمر سے ، انہوں نے قتادہ سے اس آیت کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ صلح کی درخواست میں تم پہل نہ کرو۔ قول باری (و انتم الاعلون) کی تفسیر میں قتادہ کا قول ہے۔” تم اس کے مقابلہ میں اللہ سے زیادہ قریب ہو۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ آیت میں یہ دلالت موجود ہے کہ مشرکین سے صلح کی درخواست کرنا جائز نہیں بلکہ ممتنع ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مشرکین عرب سے ان کے مسلمان ہونے تک قتال کے حکم کو موکد فرمایا تھا۔ آیت میں اس موکد حکم کا بیان ہے۔- نیز یہ بھی بیان ہے کہ اہل کتاب اور مشرکین عجم سے اس وقت تک جنگ جاری رکھی جائے جب تک وہ مسلمان نہیں ہوجاتے اور جزیہ ادا کرنے پر رضا مند نہیں ہوجاتے۔ جزیہ ادا کرنے کی رضامندی کے بغیر صلح کرنے کی بات ان آیات کے مقتضیٰ سے خارج ہے جو ہماری بیان کردہ امور کی موجب ہیں۔- اس آیت میں صلح کی نہی کا نصاً ذکر کرکے اللہ تعالیٰ نے اس نہی کو موکد کردیا۔ اس میں یہ دلالت بھی موجود ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں ازروئے صلح داخل نہیں ہوئے تھے بلکہ اسے بزور شمشیر فتح کیا تھا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں حضور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مشرکین کے ساتھ صلح کرنے سے روک دیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ مسلمان ہی غالب رہنے والے ہیں۔- اگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں اہل مکہ کی رضامندی سے صلح کے تحت داخل ہوتے تو اس صورت میں مسلمان ان کے مساوی قرار پاتے کیونکہ جو صلح فریقین کی باہمی رضامندی سے عمل میں آتی ہے اس کا یہی حکم ہوتا ہے اور دونوں فریق اس میں یکساں حیثیت کے مالک ہوتے ہیں کسی فریق کو دوسرے فریق کی بہ نسبت غلبہ حاصل کرنے کا بڑھ کر استحقاق نہیں ہوتا۔
تو اے گروہ مومنین کفار کے ساتھ لڑنے میں ہمت مت ہارو اور ان کو صلح کی طرف مت بلاؤ یا یہ کہ قتال سے پہلے ہمت ہار کر اسلام کی طرف مت بلاؤ تم ہی غالب رہو گے انجام کار تمہارے ہی ہاتھ میں رہے گا اور اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہے تمہارے دشمن کے مقابلہ میں تمہاری مدد فرمائے گا اور جہاد میں تمہارے اعمال میں کچھ کمی نہیں کرے گا۔
آیت ٣٥ فَلَا تَہِنُوْا وَتَدْعُوْٓا اِلَی السَّلْمِ ” تو (اے مسلمانو ) تم لوگ ڈھیلے نہ پڑو اور صلح و سلامتی کی دعوت مت دو “- یاد رکھو غلبہ دین کی جدوجہد کا یہ مرحلہ تم سے سرفروشی کا تقاضا کرتا ہے۔ اس مرحلے میں اب تمہیں دشمنوں سے صلح و سلامتی کے لیے مذکرات کرنے اور جنگ سے بچنے کی حکمت عملی اپنانے کی باتیں زیب نہیں دیتیں۔ تمہاری تحریک اب جس مرحلے میں داخل ہوچکی ہے اس مرحلے پر اب صلح و سلامتی کے پرچار کا موقع نہیں ‘ بلکہ جانیں قربان کرنے کا وقت ہے۔- وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ وَاللّٰہُ مَعَکُمْ وَلَنْ یَّتِرَکُمْ اَعْمَالَکُمْ ” اور تم لوگ ہی غالب ہو گے ‘ اللہ تمہارے ساتھ ہے اور وہ تمہارے اعمال کو ہرگز ضائع نہیں کرے گا۔ “
سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :41 یہاں یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ یہ ارشاد اس زمانے میں فرمایا گیا ہے جب صرف مدینے کی چھوٹی سی بستی میں چند سو مہاجرین و انصار کی ایک مٹھی بھر جمیعت اسلام کی علمبرداری کر رہی تھی اور اس کا مقابلہ محض قریش کے طاقتور قبیلے ہی سے نہیں بلکہ پورے ملک عرب کے کفار و مشرکین سے تھا ۔ اس حالت میں فرمایا جا رہا ہے کہ ہمت ہار کر ان دشمنوں سے صلح کی درخواست نہ کرنے لگو ، بلکہ سر دھڑ کی بازی لگا دینے کے لیے تیار ہو جاؤ ۔ اس ارشاد کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مسلمانوں کو کبھی صلح کی بات چیت کرنی ہی نہ چاہیے ۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی حالت میں صلح کی سلسلہ جنبانی کرنا درست نہیں ہے جب اس کے معنی اپنی کمزوری کے اظہار کے ہوں اور اس سے دشمن اور زیادہ دلیر ہو جائیں ۔ مسلمانوں کو پہلے اپنی طاقت کا لوہا منوا لینا چاہیے ، اس کے بعد وہ صلح کی بات چیت کریں تو مضائقہ نہیں ۔
13: مطلب یہ ہے کہ بزدلی کی وجہ سے دشمن کو صلح کی دعوت نہ دو، ورنہ قرآن کریم نے خود سورۃ انفال : 61 میں فرمایا ہے کہ اور اگر وہ لوگ صلح کی طرف جھکیں تو تم بھی اس کی طرف جھک جاؤ۔ یعنی جب یہ صلح کسی بزدلی کی وجہ سے نہ ہو بلکہ مصلحت کا تقاضا ہو تو صلح جائز ہے۔ 14: اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دین کی سربلندی کے لیے تم جو کوشش بھی جہاد وغیرہ کے ذریعے کروگے، اسے اللہ تعالیٰ رائیگاں نہیں جانے دے گا، اور تمہیں سربلندی حاصل ہوگی، اور یہ بھی کہ تم جو کوئی نیک کام کرو گے جس میں جہاد بھی داخل ہے، چاہے دنیا میں فتح کی صورت میں اس کا نتیجہ نہ نکلے، لیکن اللہ تعالیٰ تمہیں اس کا پورا پورا ثواب عطا فرمائے گا، اور اس ثواب میں صرف اس وجہ سے کوئی کمی نہیں ہوگی کہ تمہاری جد و جہد بظاہر کامیاب نہیں ہوئی۔