[٣٨] یعنی ان کا جرم صرف یہی نہیں کہ انہوں نے خود اسلام کی دعوت قبول کرنے سے انکار کردیا۔ بلکہ ان کے اصل جرائم تو ان کے وہ اعمال ہیں جو وہ اسلام کی راہ روکنے، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنے اور انہیں ایذائیں اور دکھ پہنچانے کے لیے سرانجام دیتے رہے۔ کفر و شرک جس پر وہ تادم مرگ اڑے رہے بذات خود ایسا جرم ہے جس کی معافی نہیں ہوسکتی۔ اور ان کے جرائم کی فہرست تو بڑی طویل ہے پھر ان کی معافی کی کیا صورت ہوسکتی ہے ؟ بعض علماء کی رائے کے مطابق اس سے مراد وہ کافر ہیں جو بدر کے میدان میں قتل ہوئے اور بدر کے کنوئیں میں پھینکے گئے۔ تاہم اس آیت کے عموم کو صرف انہیں کافروں سے مختص نہیں کیا جاسکتا۔ ہر دور میں ایسی صفات رکھنے والے کافر موجود رہے ہیں اور آئندہ بھی موجود رہیں گے۔ وہ سب اس عموم میں داخل ہیں۔
ان الذین کفروا و صدوا عن سبیل اللہ …: اس آیت میں کافر و منافقین کیلئے ترغیب ہے کہ کفر و نفاق اور اسلام کی مخالفت سے مرنے سے پہلے پہلے توبہ کرلو تو اللہ تعالیٰ تمہارے گزشتہ گناہ معاف کر دے گا۔ ورنہ اگر اسی حالت میں موت آگئی تو تمہاری بخشش کی کوئی صورت نہیں۔ یہ بات اللہ تعالیٰ نے متعدد آیات میں دہرائی ہے۔ دیکھیے سورة آل عمران (٩١) ، بقرہ (١٦١، ١٦٢، ٢١٧) اور سورة نساء (١٨)
(آیت) اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ثُمَّ مَاتُوْا وَهُمْ كُفَّارٌ، انہیں الفاظ کے ساتھ ایک حکم ابھی پہلے آیا ہے، مکرر ذکر یا تو اس لئے ہے کہ پہلی آیت میں کفار کے خسارہ دنیوی کا بیان ہوا ہے اور اس آیت میں ان کا اخروی نقصان بتلانا منظور ہے جیسا کہ خلاصہ تفسیر میں نقل کیا گیا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پہلی آیت میں تو عام کفار کا ذکر تھا جن میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو بعد میں مسلمان ہوگئے ان کا حکم تو یہ آیا کہ جو اعمال صالحہ انہوں نے بحالت کفر کئے تھے وہ سب اکارت گئے اسلام لانے کے بعد بھی ان کا ثواب نہیں ملے گا اور اس آیت میں ایسے کفار کا خاص ذکر ہے جو مرتے دم تک کفر و شرک ہی پر جمے رہے کہ ان کا حکم یہ ہے کہ آخرت میں ان کی ہرگز مغفرت نہیں ہوگی واللہ اعلم۔
اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِيْلِ اللہِ ثُمَّ مَاتُوْا وَہُمْ كُفَّارٌ فَلَنْ يَّغْفِرَ اللہُ لَہُمْ ٣٤- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- صدد - الصُّدُودُ والصَّدُّ قد يكون انصرافا عن الشّيء وامتناعا، نحو : يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً- ، [ النساء 61] ، وقد يكون صرفا ومنعا نحو : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل 24] - ( ص د د ) الصدود والصد - ۔ کبھی لازم ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے رو گردانی اور اعراض برتنے کے ہیں جیسے فرمایا ؛يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً ، [ النساء 61] کہ تم سے اعراض کرتے اور کے جاتے ہیں ۔ اور کبھی متعدی ہوتا ہے یعنی روکنے اور منع کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل 24] اور شیطان نے ان کے اعمال ان کو آراستہ کردکھائے اور ان کو سیدھے راستے سے روک دیا ۔ - سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔- موت - أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة :- فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات - . نحو قوله تعالی:- يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] .- الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا - [ مریم 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] .- الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة .- نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] .- الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة،- وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ- بِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] .- الخامس : المنامُ ،- فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] - ( م و ت ) الموت - یہ حیات کی ضد ہے - لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں - ۔ اول قوت نامیہ - ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔- دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں - ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ - سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے - چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔- چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے - چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔- پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے - اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے - غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔
جو لوگ کافر ہوئے یعنی بدر کے دن لڑنے والے اور انہوں نے دوسرے لوگوں کو بھی اللہ تعالیٰ کے دین اور اس کی پیروی سے روکا پھر وہ کفر ہی کی حالت میں مرگئے یا مار دیے گئے سو اللہ تعالیٰ ان کو کبھی نہیں بخشے گا، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے منکر تھے۔
آیت ٣٤ اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ثُمَّ مَاتُوْا وَہُمْ کُفَّارٌ فَلَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَہُمْ ” یقینا وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا اور وہ اللہ کے راستے سے رکے رہے (اور دوسروں کو بھی روکتے رہے) پھر وہ مرگئے اس حالت میں کہ کافر ہی رہے تو ایسے لوگوں کو اللہ ہرگز نہیں بخشے گا۔ “