Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

جب کفار سے میدان جہاد میں آمنا سامنا ہو جائے یہاں ایمان داروں کو جنگی احکام دئیے جاتے ہیں کہ جب کافروں سے مڈبھیڑ ہو جائے دستی لڑائی شروع ہو جائے تو ان کی گردنیں اڑاؤ ، تلواریں چلا کر گردن دھڑ سے اڑا دو ۔ پھر جب دیکھو کہ دشمن ہارا اس کے آدمی کافی کٹ چکے تو باقی ماندہ کو مضبوط قیدوبند کے ساتھ مقید کر لو جب لڑائی ختم ہو چکے معرکہ پورا ہو جائے تو پھر تمہیں اختیار ہے کہ قیدیوں کو بطور احسان بغیر کچھ لئے ہی چھوڑ دو اور یہ بھی اختیار ہے کہ ان سے تاوان جنگ وصول کرو پھر چھوڑو ۔ بہ ظاہر معلوم ہوتا ہے کہ بدر کے غزوے کے بعد یہ آیت اتری ہے کیونکہ بدر کے معرکہ میں زیادہ تر مخالفین کو قید کرنے اور قید کرنے کی کمی کرنے میں مسلمانوں پر عتاب کیا گیا تھا اور فرمایا تھا آیت ( مَا كَانَ لِنَبِيٍّ اَنْ يَّكُوْنَ لَهٗٓ اَسْرٰي حَتّٰي يُثْخِنَ فِي الْاَرْضِ ۭتُرِيْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْيَا ڰ وَاللّٰهُ يُرِيْدُ الْاٰخِرَةَ ۭوَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ 67؀ ) 8- الانفال:67 ) ، نبی کو لائق نہ تھا کہ اس کے پاس قیدی ہوں جب تک کہ ایک مرتبہ جی کھول کر مخالفین میں موت کی گرم بازاری نہ ہو لے کیا تم دنیوی اسباب کی چاہت میں ہو ؟ اللہ کا ارادہ تو آخرت کا ہے اور اللہ عزیز و حکیم ہے ۔ اگر پہلے ہی سے اللہ کا لکھا ہوا نہ ہوتا تو جو تم نے لیا اس کی بابت تمہیں بڑا عذاب ہوتا ۔ بعض علماء کا قول ہے کہ یہ اختیار منسوخ ہے اور یہ آیت ناسخ ہے آیت ( فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّمُــوْهُمْ وَخُذُوْهُمْ وَاحْصُرُوْهُمْ وَاقْعُدُوْا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ ۚ فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَخَــلُّوْا سَـبِيْلَهُمْ ۭاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ Ĉ۝ ) 9- التوبہ:5 ) ، یعنی حرمت والے مہینے جب گذر جائیں تو مشرکوں کو جہاں پاؤ وہیں قتل کرو ۔ لیکن اکثر علماء کا فرمان ہے کہ منسوخ نہیں ۔ اب بعض تو کہتے ہیں قتل کر ڈالنے کا بھی اختیار ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ بدر کے قیدیوں میں سے نضر بن حارث اور عقبہ بن ابو معیط کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قتل کرا دیا تھا اور یہ بھی اس کی دلیل ہے کہ ثمامہ بن اثال نے جب کہ وہ اسیری حالت میں تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا تھا کہ کہو ثمامہ کیا خیال ہے ؟ تو انہوں نے کہا اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم قتل کریں گے تو ایک خون والے کو قتل کریں گے اور اگر آپ احسان رکھیں گے تو ایک شکر گذار پر احسان رکھیں گے اور اگر مال طلب کرتے ہیں تو جو آپ مانگیں گے مل جائے گا ۔ حضرت امام شافعی ایک چوتھی بات کا بھی اختیار بتاتے ہیں یعنی قتل ، احسان ، بدلے کا اور غلام بنا کر رکھ لینے کا ۔ اس مسئلے کی تفصیل کی جگہ فروعی مسائل کی کتابیں ہیں ۔ اور ہم نے بھی اللہ کے فضل و کرم سے کتاب الاحکام میں اس کے دلائل بیان کر دئیے ہیں ۔ پھر فرماتا ہے یہاں تک کہ لڑائی اپنے ہتھیار رکھ دے یعنی بقول مجاہد حضرت عیسیٰ نازل ہو جائیں ۔ ممکن ہے حضرت مجاہد کی نظریں اس حدیث پر ہوں جس میں ہے میری امت ہمیشہ حق کے ساتھ ظاہر رہے گی یہاں تک کہ ان کا آخری شخص دجال سے لڑے گا ۔ مسند احمد اور نسائی میں ہے کہ حضرت سلمہ بن نفیل خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے میں نے گھوڑوں کو چھوڑ دیا اور ہتھیار الگ کر دئیے اور لڑائی نے اپنے ہتھیار رکھ دئیے اور میں نے کہہ دیا کہ اب لڑائی ہے ہی نہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب لڑائی آگئی ، میری امت میں سے ایک جماعت ہمیشہ لوگوں پر ظاہر رہے گی جن لوگوں کے دل ٹیڑھے ہو جائیں گے یہ ان سے لڑیں گے اور اللہ تعالیٰ انہیں ان سے روزیاں دے گا یہاں تک کہ اللہ کا امر آجائے اور وہ اسی حالت پر ہوں گے مومنوں کی زمین شام میں ہے ۔ گھوڑوں کی ایال میں قیامت تک کے لئے اللہ نے خیر رکھ دی ہے یہ حدیث امام بغوی نے بھی وارد کی ہے اور حافظ ابو یعلی موصلی نے بھی ، اس سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ جو لوگ اس آیت کو منسوخ نہیں بتاتے گویا کہ یہ حکم مشروع ہے جب تک لڑائی باقی رہے اور اس حدیث نے بتایا کہ لڑائی قیامت تک باقی رہے گی یہ آیت مثل اس آیت کے ہے آیت ( وَقَاتِلُوْهُمْ حَتّٰي لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ كُلُّهٗ لِلّٰهِ ۚ فَاِنِ انْتَهَـوْا فَاِنَّ اللّٰهَ بِمَا يَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ 39؀ ) 8- الانفال:39 ) ، یعنی ان سے لڑتے رہو جب تک کہ فتنہ باقی ہے اور جب تک کہ دین اللہ ہی کیلئے نہ ہو جائے ۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں لڑائی کے ہتھیار رکھ دینے سے مراد شرک کا باقی نہ رہنا ہے اور بعض سے مروی ہے کہ مراد یہ ہے کہ مشرکین اپنے شرک سے توبہ کرلیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ اپنی کوششیں اللہ کی اطاعت میں صرف کرنے لگ جائیں پھر فرماتا ہے کہ اگر اللہ چاہتا تو آپ ہی کفار کو برباد کر دیتا اپنے پاس سے ان پر عذاب بھیج دیتا لیکن وہ تو یہ چاہتا ہے کہ تمہیں آزما لے اسی لئے جہاد کے احکام جاری فرمائے ہیں سورہ آل عمران اور برات میں بھی اسی مضمون کو بیان کیا ہے ۔ آل عمران میں ہے آیت ( اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللّٰهُ الَّذِيْنَ جٰهَدُوْا مِنْكُمْ وَيَعْلَمَ الصّٰبِرِيْنَ ١٤٢؁ ) 3-آل عمران:142 ) ، کیا تمہارا یہ گمان ہے کہ بغیر اس بات کے کہ اللہ جان لے کہ تم میں سے مجاہد کون ہیں اور تم میں سے صبر کرنے والے کون ہیں تم جنت میں چلے جاؤ گے ؟ سورہ براۃ میں ہے آیت ( قَاتِلُوْهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَيْدِيْكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِيْنَ 14۝ۙ ) 9- التوبہ:14 ) ان سے جہاد کرو اللہ تمہارے ہاتھوں انہیں عذاب کرے گا اور تمہیں ان پر نصرت عطا فرمائے گا اور ایمان والوں کے سینے شفا والے کر دے گا اور اپنے دلوں کے ولولے نکالنے کا انہیں موقعہ دے گا اور جس کی چاہے گا توبہ قبول فرمائے گا اللہ بڑا علیم و حکیم ہے اب چونکہ یہ بھی تھا کہ جہاد میں مومن بھی شہید ہوں اس لئے فرماتا ہے کہ شہیدوں کے اعمال اکارت نہیں جائیں گے بلکہ بہت بڑھا چڑھا کر ثواب انہیں دئیے جائیں گے ۔ بعض کو تو قیامت تک کے ثواب ملیں گے ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ شہید کو چھ انعامات حاصل ہوتے ہیں اس کے خون کا پہلا قطرہ زمین پر گرتے ہی اس کے کل گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔ اسے اس کا جنت کا مکان دکھا دیا جاتا ہے اور نہایت خوبصورت بڑی بڑی آنکھوں والی حوروں سے اس کا نکاح کرا دیا جاتا ہے وہ بڑی گھبراہٹ سے امن میں رہتا ہے وہ عذاب قبر سے بچا لیا جاتا ہے اسے ایمان کے زیور سے آراستہ کر دیا جاتا ہے ۔ ایک اور حدیث میں یہ بھی ہے کہ اس کے سر پر وقار کا تاج رکھا جاتا ہے ۔ جو درو یاقوت کا جڑاؤ ہوتا ہے جس میں کا ایک یاقوت تمام دنیا اور اس کی تمام چیزوں سے گراں بہا ہے ۔ اسے بہتر حور عین ملتی ہیں اور اپنے خاندان کے ستر شخصوں کے بارے میں اس کی شفاعت قبول کی جاتی ہے ۔ یہ حدیث ترمذی اور ابن ماجہ میں بھی ہے صحیح مسلم شریف میں ہے سوائے قرض کے شہیدوں کے سب گناہ بخش دئیے جاتے ہیں شہیدوں کے فضائل کی اور بھی بہت حدیثیں ہیں پھر فرماتا ہے انہیں اللہ جنت کی راہ سمجھا دے گا ۔ جیسے یہ آیت ( اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ يَهْدِيْهِمْ رَبُّھُمْ بِاِيْمَانِهِمْ ۚ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهِمُ الْاَنْهٰرُ فِيْ جَنّٰتِ النَّعِيْمِ Ḍ۝ ) 10- یونس:9 ) ، یعنی جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک کام کئے ان کے ایمان کے باعث ان کا رب انہیں ان جنتوں کی طرف رہبری کرے گا جو نعمتوں سے پر ہیں اور جن کے چپے چپے میں چشمے بہہ رہے ہیں اللہ ان کے حال اور ان کے کام سنوار دے گا اور جن جنتوں سے انہیں پہلے ہی آگاہ کر چکا ہے اور جن کی طرف ان کی رہبری کر چکا ہے آخر انہی میں انہیں پہنچائے گا ۔ یعنی ہر شخص اپنے مکان اور پانی جگہ کو جنت میں اس طرح پہچان لے گا جیسے دنیا میں پہچان لیا کرتا تھا ۔ انہیں کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہ پڑے گی یہ معلوم ہوگا گویا شروع پیدائش سے یہیں مقیم ہیں ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ جس انسان کے ساتھ اس کے اعمال کا محافظ جو فرشتہ تھا وہی اس کے آگے آگے چلے گا جب یہ اپنی جگہ پہنچے گا تو ازخود پہچان لے گا کہ میری جگہ یہی ہے ۔ یونہی پھر اپنی زمین میں سیر کرتا ہوا جب سب دیکھ چکے گا تب فرشتہ ہٹ جائے گا اور یہ اپنی لذتوں میں مشغول ہو جائے گا ۔ صحیح بخاری کی مرفوع حدیث میں ہے جب مومن آگ سے چھوٹ جائیں گے تو جنت ، دوزخ کے درمیان ایک پل پر روک لئے جائیں گے اور آپس میں ایک دوسرے پر جو مظالم تھے ان کے بدلے اتار لئے جائیں گے جب بالکل پاک صاف ہو جائیں گے تو جنت میں جانے کی اجازت مل جائے گی قسم اللہ کی جس طرح تم میں سے ہر ایک شخص اپنے دنیوی گھر کی راہ جانتا ہے اور گھر کو پہچانتا ہے اس سے بہت زیادہ وہ لوگ اپنی منزل اور اپنی جگہ سے واقف ہوں گے پھر فرماتا ہے ایمان والو اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم مضبوط کر دے گا ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَلَيَنْصُرَنَّ اللّٰهُ مَنْ يَّنْصُرُهٗ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَقَوِيٌّ عَزِيْزٌ 40؀ ) 22- الحج:40 ) اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا جو اللہ کی مدد کرے گا اس لئے کہ جیسا عمل ہوتا ہے اسی جنس کی جزا ہوتی ہے اور وہ تمہارے قدم بھی مضبوط کر دے گا حدیث میں ہے جو شخص کسی اختیار والے کے سامنے ایک ایسے حاجت مند کی حاجت پہنچائے جو خود وہاں نہ پہنچ سکتا ہو تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ پل صراط پر اس کے قدم مضبوطی سے جما دے گا پھر فرماتا ہے کافروں کا حال بالکل برعکس ہے یہ قدم قدم پر ٹھوکریں کھائیں گے حدیث میں ہے دینار درہم اور کپڑے لتے کا بندہ ٹھوکر کھا گیا وہ برباد ہوا اور ہلاک ہوا وہ اگر بیمار پڑ جائے تو اللہ کرے اسے شفا بھی نہ ہو ایسے لوگوں کے نیک اعمال بھی اکارت ہیں اس لئے کہ یہ قرآن و حدیث سے ناخوش ہیں نہ اس کی عزت و عظمت ان کے دل میں نہ ان کا قصد و تسلیم کا ارادہ ۔ پس انکے جو کچھ اچھے کام تھے اللہ نے انہیں بھی غارت کر دیا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

4۔ 1 جب دونوں فریقوں کا ذکر کردیا تو اب کافروں اور غیر معاہد اہل کتاب سے جہاد کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے قتل کرنے کے بجائے گردنیں مارنے کا حکم دیا کہ اس تعبیر میں کفار کے ساتھ غلظت وشدت کا زیادہ اظہار ہے۔ (فتح القدیر) 4۔ 2 یعنی زور دار معرکہ آرائی اور زیادہ سے زیادہ ان کو قتل کرنے کے بعد ان کے جو آدمی قابو میں آجائیں انہیں قیدی بنا لو اور مضبوطی سے انہیں جکڑ کر رکھو تاکہ وہ بھاگ نہ سکیں۔ 4۔ 3 من کا مطلب ہے بغیر فدیہ لیے بطور احسان چھوڑ دینا اور فداء کا مطلب کچھ معاوضہ لے کر چھوڑنا ہے قیدیوں کے بارے میں اختیار دے دیا گیا جو صورت حالات کے اعتبار سے اسلام اور مسلمانوں کے حق میں زیادہ بہتر ہو وہ اختیار کرلی جائے۔ 4۔ 4 یعنی کافروں کے ساتھ جنگ ختم ہوجائے یا مراد ہے کہ محارب دشمن شکست کھا کر یا صلح کر کے ہتھیار رکھ دے یا تمہاری معرکہ آرائی جاری رہے گی جس میں تم انہیں قتل بھی کرو گے قیدیوں میں تمہیں مذکورہ دونوں باتوں کا اختیار ہے بعض کہتے ہیں یہ آیت منسوخ ہے اور سوائے قتل کے کوئی صورت باقی نہیں ہے لیکن صحیح بات یہی ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں محکم ہے اور امام وقت کو چاروں باتوں کا اختیار ہے کافروں کو قتل کرے یا قیدی بنائے قیدیوں میں سے جس کو یا سب کو چاہے بطور احسان چھوڑ دے یا معاوضہ لے کر چھوڑ دے۔ (فتح القدیر) 4۔ 5 یا تم اسی طرح کرو افعلوا ذلک یا ذلک حکم الکفار۔ 4۔ 6  مطلب کافروں کو ہلاک کر کے یا انہیں عذاب میں مبتلا کر کے۔ یعنی تمہیں ان سے لڑنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ 4۔ 7 یعنی ان کا اجر وثواب ضائع نہیں فرمائے گا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥] دو سابقہ تمہیدی آیات کے بعد اب مسلمانوں کو جنگ سے متعلق ہدایات دی جارہی ہیں اور ان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس سورة کے نزول سے بیشتر مسلمانوں کو جنگ کرنے کی اجازت تو مل چکی تھی مگر تاحال کوئی معرکہ پیش نہیں آیا تھا۔ مسلمانوں کو جنگ کی اجازت کے سلسلہ میں جو پہلی آیت نازل ہوئی وہ سورة الحج کی آیت نمبر ٣٩ ہے پھر اس سلسلہ میں سورة البقرۃ کی آیات نمبر ١٩٠ تا ١٩٣ ہیں۔ اور یہ ہدایات حسب ذیل ہیں۔- ١۔ جب معرکہ کارزار پیش آئے تو پورے جوش و خروش اور جرأت ایمانی سے ڈٹ کر کافروں کا مقابلہ کرو اور رسول اللہ نے فرمایا : لوگو دشمن سے بھڑنے کی آرزو مت کرو اور اللہ سے عافیت مانگو لیکن اگر بھڑ جاؤ تو پھر ثابت قدم رہو اور جان لو کہ بہشت تلواروں کے سائے تلے ہے (بخاری۔ کتاب الجہاد۔ باب لاتتمنّوا لقاء العدو) - ٢۔ جنگ کے متعلق عام ہدایات :۔ تمہارا اصل ہدف یہ ہونا چاہئے کہ دشمن کی جنگی طاقت اور کفر کی کمر توڑ دی جائے۔ اس لیے زیادہ سے زیادہ توجہ کافروں کے قتل کی طرف رکھو۔ ہاں جب لڑائی کا زور ٹوٹ جائے اور دشمن ہتھیار رکھ دے تو اس وقت ان کے بچے کھچے آدمیوں کو قید کرو۔ اس سے پہلے قید نہ کرنے لگ جاؤ۔- ٣۔ جنگی قیدیوں کے متعلق ہدایات :۔ جو قیدی تمہارے ہاتھ لگ جائیں ان سے متعلق دو صورتوں میں سے کوئی ایک صوت اختیار کی جائے یا تو انہیں احسان رکھ کر چھوڑ دیا جائے یا ان کا فدیہ لے لیا جائے اس سے معلوم ہوا کہ قیدیوں کو قتل کرنا عام قاعدہ نہیں۔ تاہم قتل کی ممانعت بھی نہیں کی گئی۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ائمہ کفر کے قیدیوں کو قتل بھی کیا جاسکتا ہے۔ جن کا جرم صرف یہی نہیں ہوتا کہ وہ جنگ میں شامل ہوئے تھے۔ بلکہ ان کے اور بھی کئی سخت قسم کے جرائم ہوتے ہیں جن کی وجہ سے وہ قتل کے مستحق ہوتے ہیں۔ چناچہ فتح مکہ کے بعد قیدیوں کے عفو عام کے باوجود چار شخصوں کے متعلق رسول اللہ نے حکم دیا تھا کہ انہیں قتل کردیا جائے۔ جنگ بنو قریظہ کے بعد محصور یہود نے سیدنا سعد بن معاذ کو ثالث تسلیم کرتے ہوئے ہتھیار ڈالے۔ تو سیدنا سعد نے ان کے حق میں یہ فیصلہ دیا کہ ان کے نوجوانوں کو قتل کردیا جائے۔ بچوں اور عورتوں کو لونڈی غلام بنا لیا جائے۔ اور ان کے اموال کو مجاہدین میں تقسیم کردیا جائے تو رسول اللہ نے سیدنا سعد کے اس فیصلہ کو بالکل درست قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ان کا یہ فیصلہ آسمانوں والے پروردگار کے فیصلہ کے مطابق ہے چناچہ انہیں قتل کردیا گیا ان کا جرم صرف یہ نہ تھا کہ وہ جنگی قیدی تھے بلکہ اصل جرائم یہ تھے وہ کئی بار سمجھوتہ کے معاہدہ کی عہد شکنی کرچکے تھے اور جنگ احزاب میں عین جنگ کے درمیان دشمن کی اتحادی فوجوں سے مل کر مسلمانوں کو سخت مشکل حالات سے دوچار کردیا تھا۔- اسارٰی بدر کے متعلق مشورہ اور فدیہ :۔ اسارٰی بدر کے متعلق آپ نے صحابہ سے مشورہ کیا۔ سیدنا عمر نے یہ مشورہ دیا کہ یہ قیدی چونکہ صنادید کفر ہیں۔ لہذا انہیں قتل کردینا ضروری ہے۔ مگر آپ نے اس آیت کے عام قاعدہ اور سیدنا ابوبکر (رض) کی رائے کے مطابق فدیہ لے کر چھوڑ دینے کا فیصلہ کیا اس پر مسلمانوں پر عتاب نازل ہوا۔ اللہ تعالیٰ کی منشا سیدنا عمر کے فیصلہ کے مطابق تھی۔ اس لیے کہ بدر کے قیدی محض جنگی قیدی نہ تھے۔ بلکہ اسلام اور مسلمانوں کے بدترین دشمن اور مسلمانوں اور پیغمبر اسلام کے خلاف بہت سی معاندانہ سرگرمیوں میں مصروف رہتے تھے۔ ان تصریحات سے معلوم ہوا کہ امام وقت کو اس عام قاعدہ کے استثناء کا اس وقت حق حاصل ہوتا ہے جبکہ جنگی قیدی اور بھی کئی جرائم میں ملوث ہوں اور امام وقت کو انہیں نہ احسان رکھ کر چھوڑنا چاہئے نہ فدیہ لے کر بلکہ انہیں قتل کردینا چاہئے کیونکہ قتال فی سبیل اللہ کا سب سے اہم مقصد کفر کی کمر توڑنا ہے۔- خ قیدیوں پر احسان کی مختلف صورتیں :۔ پھر احسان رکھ کر چھوڑنے کی کئی صورتیں ہیں۔ مثلاً ایک یہ کہ ان سے کسی طرح کی کوئی خدمت نہ لی جائے اور اگر حالات اجازت دیں تو محض اللہ کی رضا اور اسلام کی اخلاقی برتری قائم کرنے کے لیے انہیں چھوڑ دیا جائے۔ جیسا کہ فتح مکہ کے دن آپ نے عفو عام کا اعلان کردیا تھا۔ یا جنگ حنین کے بعد جنگی قیدیوں کی تقسیم کے بعد آپ نے اہل ہوازن کی ایما پر انہیں آزاد کردیا تھا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ان کی جان بخشی اس صورت میں کی جائے کہ انہیں مسلمانوں میں تقسیم کردیا جائے اور مسلمانوں کو تلقین کی جائے کہ ان سے بہتر سے بہتر سلوک کیا جائے۔ جیسا کہ جنگ حنین کے بعد پہلے آپ نے ایسے قیدیوں کو مسلمانوں میں تقسیم کردیا تھا۔ علاوہ ازیں اور بھی کئی مواقع پر آپ نے جنگی قیدیوں کو مجاہدین میں تقسیم فرمایا تھا۔ تیسری یہ کہ اگر انہیں قید کرنا ہی پڑے تو ان سے بہتر سلوک کیا جائے اور یہ قید دائمی اور مستقل نہ ہونی چاہئے۔ اور چوتھی یہ کہ ان سے جزیہ لے کر ذمی بنا لیا جائے اور انہیں اسلامی مملکت میں آزادانہ رہنے کا حق دیا جائے۔ جیسا کہ اہل نجران سے معاملہ کیا گیا تھا۔ - خ فدیہ کی مختلف صورتیں :۔ اور فدیہ کی بھی کئی صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ ان سے زر فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے۔ جیسا کہ اساری بدر سے لیا گیا تھا اور یہ زر فدیہ ہر شخص سے اس کی حیثیت کے مطابق لیا جائے گا۔ دوسری یہ کہ ان قیدیوں سے پیسہ کی بجائے کوئی اور خدمت لے کر انہیں چھوڑ دیا جائے جیسا کہ اسی اساری بدر کے موقعہ پر جن لوگوں کے پاس زر فدیہ کی رقم نہیں تھی۔ ان سے یہ خدمت لی گئی کہ ایسا ہر قیدی مسلمانوں کے دس دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دے اور تیسری یہ کہ جنگی قیدیوں کا آپس میں تبادلہ کرلیا۔ اس کے لیے یہ ضروری نہیں ایک مسلمان کے بدلے ایک کافر چھوڑا جائے بلکہ ایک دفعہ آپ نے دو مسلمانوں کے بدلہ میں ایک کافر چھوڑا تھا۔ یہ ہیں وہ مختلف صورتیں جو اس آیت کے اس مختصر سے جملہ میں داخل ہیں۔ ان تمام صورتوں میں سے جو صورت بھی حالات کے مطابق اور مسلمانوں اور اسلام کے حق میں بہتر ہو، امام وقت وہی صورت اختیار کرسکتا ہے۔- [٦] یعنی اللہ تعالیٰ یہ کرسکتا تھا کہ باطل پرستوں اور اسلام دشمنوں پر بجلی کی کڑک یا زلزلہ بھیج کر یا سیلاب کا پانی چھوڑ کر انہیں تباہ و برباد کر دے۔ جیسا کہ وہ پہلی سرکش اقوام پر ایسے عذاب بھیج چکا ہے اور اس طرح وہ ان سے تمہارا بدلہ لے لے۔ لیکن جب تک معرکہ حق و باطل قائم نہ ہو اور میدان کارزار گرم نہ ہو تب تک بندوں کا امتحان نہیں ہوسکتا کہ کون کس درجہ میں اسلام سے مخلص اور جرأت ایمانی رکھتا ہے۔ نیز کافروں میں سے کتنے لوگ ان تنبیہی کاروائیوں سے سبق حاصل کرتے ہیں اور اس مہلت سے فائدہ اٹھاتے ہیں جو اللہ نے انہیں دے رکھی ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) فاذا لقیتم الذین کفروا فضرب الرقاب :” فاذا “ میں فاء کا تعلق پہلے کلام سے ہے کہ جب کفار باطل کے پیرو کار اور مومن حق کے پیروکار ہیں تو اس کا تقاضا یہ ہے کہ حق کے پیروکار باطل کے پیرو کار کو یہ موقع نہ دیں کہ وہ زمین میں فساد پھیلاتے پھریں، لہٰذا جب تم (میدان جنگ میں) ان لوگوں سے ملو جنہوں نے کفر کیا تو ان کی گردنیں خوب اڑاؤ۔- (٢) فاذا لقیتم “ کا لفظی معنی اگرچہ ” جب تم ملو “ ہے، مگر اس سے مراد یہ ہے کہ جب تمہارا ان سے مقابلہ ہو۔ یہ مطلب نہیں کہ جب کوئی کافر سامنے آجائے تو اسے قتل کر دو ، کیونکہ قرآن مجید اور کلام عرب میں ” لقاء عدو “ سے مراد دشمن سے مقابلہ لیا جاتا ہے، جیسا کہ فرمایا :(یایھا الذین امنوآ اذا لقیتم فئۃ فاثبتوا و اذاکرو اللہ کثیرا لعلکم تفلحون) (الانفال : ٣٥)” اے لوگو جو ایمان لائے ہو جب تم کسی گروہ کے مقابل ہو تو جمے رہو اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرو، تاکہ تم فلاح پاؤ۔ “ - (٣) ” فضرب الرقاب “ اصل میں ” فاضربوا الرقاب ضرباً “ ہے، فعل امر ” فاضربوا “ کو حذف کر کے مفعول مطلق ” ضرباً کو اس کے قائم مقام کردیا اور اسے مفعول بہ ” الرقاب “ کی طرف مضاف کردیا۔ اس سے اختصار کے علاوہ وہ کلام میں ہیبت اور زور بھی پیدا ہوگیا کہ کفار سے مقابلے یک صورت میں بس ایک ہی کام ہے اور وہ ہے گردنیں مارنا۔” ضرب “ کا میں ہیبت اور زور بھی پیدا ہوگیا کہ کفار سے مقابلے کی صورت میں بس ایک ہی کام ہے اور وہ ہے گردنیں مارنا۔” ضرب “ کا لفظ عربی زبان میں تلوار کی کاٹ کے لئے استعمال ہوتا ہے، نیزے کے لئے ” طعن “ اور تیر کے لئے ” رمی کا لفظ آتا ہے۔ ان میں سب سے زیادہ قوت و شجاعت اور ہیبت کا مظاہرہ آمنے سامنے تیغ زنی میں ہے، خصوصاً جب تلوار گردن پر پڑے ، اس لئے ” فضرب الرقاب “ فرمایا، کیونکہ جو زور بیان اس لفظ میں ہے کسی اور میں نہیں۔ ورنہ مراد کسی بھی طریقے سے قتل کرنا ہے، تلوار سے ہو یا تیرے یا نیزے سے یا کسی جدید اسلحہ سے اور اس اسلحے کی چوٹ خواہ گردن پر پڑے یا جسم کے کسی اور حصے پر۔ یا بلا اسلحہ یہ دشمن کو قتل کردیا جائے، خواہ گلا گھونٹ کر، مکا مار کر یا جسم کے کسی نازک حصے پر چوٹ مار کر، غرض مقصد دشمن کو کسی یا بلا اسلحہ ہی دشمن کو قتل کردیا جائے، خواہ گلا گھونٹ کر، مکا مار کر یا جسم کے کسی نازک حصے پر چوٹ مار کر، غرض مقصد ، دشمن کو کسی بھی طریقے سے قتل کر نا ہے۔- (٤) حتی اذا اثخنتموھم فشدوالوثاق :” اثخن یثخن اثخاناً “ (افعال) قتل اور خون ریزی میں مبالغہ کرنا۔ ” شد یشد شداً “ (ن) ” الشیئ “ کسی چیز کو بانادھنا ” شد العقدہ او الوثاق “ گرہ یا رسی کو مضبوطی سے باندھنا۔ - ” الوثاق “ رسی وغیرہ جس کے ساتھ باندھا جائے۔ یعنی جنگ کا اصل ہدف دشمن کی جنگی قوت کو توڑنا ہے، اس لئے جنگ کی ابتدا ہی میں دشمن کے آدمیوں کو گرفتار کرنے میں نہیں لگ جانا چاہیے، بلکہ زیادہ سے زیادہ خونریزی اور قتل کے بعد جب ان اکا اچھی طرح قلع قمع ہو اجئے اور لڑائی اختتام کو پہنچ چکی ہو تو پھر بچے کھچے لوگوں کو قیدی بنانا چاہیے، تاکہ ان میں دوبارہ مقابلے کی سکت باقی نہ رہے۔ جنگ بدر میں مسلمانوں نے دشمن کو اچھی طرح تہ تیغ کرنے سے پہلے ہی اس کے آدمیوں کو قیدی بنایا تو اللہ تعالیٰ نے اس پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا :(ماکان لنبی ان یکون لہ اسری حتی یثخن فی الارض تریدون عرض الدنیا واللہ یرید الاخرۃ واللہ عزیز حکیم) (الانفال :68)” کبھی کسی نبی کے لائق نہیں کہ اس کے ہاں قیدی ہوں، یہاں تک کہ وہ زمین میں خوب خون بہا لے، تم دنیا کا سامان چاہتے ہو اور اللہ آخرت کو چاہتا ہے اور اللہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔ “- (٥) فاما منا بعدواما فدآء :” منا ‘ اور ” فدآئ “ مفعول مطلق ہیں جن کا فعل حذف کردیا گیا ہے اور تنوین تنکیر کے لئے ہے۔” ای اما تمنون علیھم منا بعد ذلک و اما تفادونھم فدائ “ ” یعنی اس کے بعد یا تو ان پر احسان کر دو ، کسی طرح احسان کرنا یا ان سے فدیہ لے لو، کسی طرح فدیہ لینا۔ “- کسی طرح احسان کرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ انہیں ق تل نہ کیا جائے، بلکہ ان کی جان بخشی کر کے انہیں لونڈی وغ لام بنا کر مسلمان افراد کے حوالے کردیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ دائمی قید یا قتل کے مقابل ی میں غلام بنا لینا کوئی کم احسان نہیں، خصوصاً اسلام میں لونڈی و غلام سے جس حسن سلوک کی تاکید کی گئی ہے اس کے ہوتے ہوئے دائمی قید یا قتل کے مقابلے میں یہ بہت بڑی نعمت ہے، کیونکہ بہت سے کاموں کے کفارے کی صورت میں اور مکاتبت یعنی کمائی کر کے اپنی قیمت ادا کرنے کی صورت میں ان کی آزادی کے مواقع موجود ہیں ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور خلفائے راشدین (رض) سے مفتوح لوگوں کو لونڈی و غلام بنانا تو اتر سے ثابت ہے اور قرآن مجید میں متعدد مقامات پر لونڈیوں اور غلاموں کا ذکر موجود ہے۔ دیکھیے سورة نسائ (٣، ٢٤، ٣٦) ، مومنون (٥، ٦) ، احزاب (٥٠) ، نحل (٧١) ، روم (٢٨) ، نور (٣١ تا ٣٣، ٥٨) اور دوسری متعدد آیات۔ ان آیات و احادیث اور خلفائے راشدین کے عمل کے ہوتے ہوئے اسلام میں غلامی سے انکار کوئی ملحد ہی کرسکتا ہے، یا کوئی جاہل جسے کتاب اللہ اور سنت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا علم نہ ہو۔- قیدیوں پر کسی طرح احسان کرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ انہیں بلا معاوضہ رہا کردیا جائے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب ایسا کرنا مصلحت کا تقاضا ہو، مثلاً امید ہو کہ وہ مسلمان ہوجائیں گے، یا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سرگرمیوں سے باز آجائیں گے۔ جیسا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نجد کے سردار ثمامہ بن اثال (رض) کو بلا معاوضہ رہا کردیا۔ (دیکھیے بخاری : ٤٣٧٢)- جنگ حنین کے کئی ہزارق یدیوں کو احسان فرما کر رہا کردیا۔ (دیکھیے بخاری : ٤٣١٨، ٤٣١٩) صلح حدیبیہ کے موقع پر اسی (٨٠) آدمی تنعیم کی طرف سے آئے اور فجر کی نماز کے قریب انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر شب خون مارنے کا ارادہ کیا، مگر وہ سب کے سب پکڑ لئے گئے، پھر آپ نے سب کو چھوڑ دیا، تاکہ یہ معاملہ لڑائی کا باعث نہ بن جائے۔ اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی :(وھو الذی کف ایدیھم عنکم و ایدیکم عنھم ببطن مکۃ من بعد ان اظفرکم علیم) (الفتح : ٢٧)” اور وہی ہے جس نے مکہ کی وادی میں ان کے ہاتھ تم سے اور تمہارے ہاتھ ان سے روک دیے، اس کے بعد کہ تمہیں ان پر فتح دے دی۔ “ (دیکھیے مسلم، الجھاد، باب قول اللہ تعالیٰ :(وھو الذی کف ایدیھم عنکم) (١٨٠٨) فتح مکہ کے موقع پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چند آدمیوں کو مستثنیٰ کر کے تمام اہل مکہ کو بطور احسان معاف فرما دیا۔ غزوہ بنی مصطلق کے بعد جب اس قبیلے کے قیدی لائے گئے اور لوگوں میں تقسیم کردیئے گئے، تو اس وقت جویریہ (رض) جس شخص کے حصے میں آئی تھیں اسے ان کا معاوضہ ادا کر کے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خریدا اور آزاد کر کے ان سے نکاح کرلیا۔ اس پر تمام مسلمانوں نے اپنے حصے کے قیدی یہ کہہ کر رہا کردیئے کہ یہ اب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سسرالی رشتہ دار بن چکے ہیں۔ (دیکھیے مسند احمد :288 6، ح 26319)- قیدیوں کے ساتھ احسان کی ایک صورت یہ ہے کہ ان پر جزیہ لگا کر انھیں مسلمانوں کا ذمی بنا لیا جائے، جیسا کہ فرمایا (حتی یعطوا الجزیۃ عن یدوھم صغرون) (التوبۃ : ٢٩)” یہاں تک کہ وہ ہاتھ سے جزیہ دیں اور وہ حقیر ہوں۔ “- قیدیوں پر احسان میں یہ بھی شامل ہے کہ جب تک وہ قید میں رہیں ان سے اچھا سلوک کیا جائے، ان کے کھانے پینے لباس اور صحت وغیرہ کا خیال رکھا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی بہت تاکید فرمائی ہے۔ دیکھیے سورة دہر کی آیت (٨) (و یطمعون الطعام علی حبہ مکسی ناً و یتیماً و اسیراً ) کی تفسیر۔- ” واما فدآء “ فدیہ لینے کی ایک صورت یہ ہے کہ ان سے کچھ مال لے کر انہیں آزاد کردیا جائے، جیسا کہ بدر کے قیدیوں سے فدیہ لیا گیا۔ تفصیل کے لئے دیکھیے سورة انفال (٧٠) کی تفسیر اور فدیے کی ایک صورت یہ ہے کہ رہائی کی شرط کے طور پر کوئی خاص خدمت لینے کے بعد ہی انہیں رہا کیا جائے، مثلاً وہ ان لوگوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں جو ان کے سپرد کئے جائیں اور فدیے کی ایک صورت یہ ہے کہ کفار کے ہاتھوں گرفتار کسی مسلم قیدی کی رہائی کے بدلے میں انہیں رہا کردیا جائے جائیں۔ اور فدیے کی ایک صورت یہ ہے کہ کفار کے ہاتھوں گرفتار کسی مسلم قیدی کی رہائی کے بدلے میں انہیں رہا کردیا جائے جائیں اور فدیے کی ایک صورت یہ ہے کہ کفار کے ہاتھوں گرفتار کسی مسلم قیدی کی رہائی کے بدلے میں انہیں رہا کردیا جائے جیسا کہ سلمہ بن اکوع (رض) نے بیان فرمایا کہ بنو فزارہ پر حلمے میں جو یدی آئے امیر لشکر ابوبکر (رض) نے ان میں سے ایک نہایت حسین لونڈی انھیں زائد عطیہ کے طور پر دی، جب وہ مدینہ آئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے و لونڈی اصرار کے ساتھ ہبہ کے طور پر مانگ لی، انہوں نے وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دے دی، تو (فبعث بھا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الی اھل مکہ فقدی بھا ناسا من المسلمین کانوا اسروا بمکۃ) (مسلم ، الجھاد والسیر، باب التفیل و فداء السلمین بالا ساری :1855)” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس لونڈی کو کچھ مسلمانوں کے فدیے کے طور پر اہل مکہ کی طرف بھیج دیا، جو مکہ میں قید کئے ہوئے تھے۔ “- (٦) اس آیت کے الفاظ سے ظاہر یہی ہوتا ہے کہ کفار کو قیدی بنا لینے کے بعد احسان یا فدیہ ہی میں سے کوئی ایک صورت اختیار کی جائے گی، انہیں قتل نہیں کیا جائے گا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کے امیر کو انہیں قتل کرنے کا بھی اختیار ہے، جیسا کہ حدیث اور سیرت کی کتابوں میں مذکور ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر کے قیدیوں میں سے نضر بن حارث اور عقبہ بن ابی معیط کو قتل کیا۔ بنو قریظہ کے قیدیوں کو، جو سعد بن معاذ (رض) کے فیصلے پر اپنے قلعوں سے نیچے اترے انہیں ق تل کیا۔ فتح مکہ کے دن ابن خطل اور مقیس بن صبابہ کو قتل کیا اور احد کے بعد ابو عزہ شاعر کو قتل کیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت شدہ عمل کے بعد کسی کو یہ کہنے کا اختیار نہیں کہ کافر کو قید کرنے کے بعد کسی صورت قتل نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ آپ سے بڑھ کر کوئی شخص قرآن مجید کا مطلب نہیں سمجھ سکتا۔ اگر کوئی شخص آیت کے الفاظ پر غور کرے تو خود اس میں قیدیوں کو قتل کرنے کا اختیار موجود ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قیدیوں کو مضبوطی سے باندھنے کے حکم کے بعد فرمایا :(فاما منا بعد و اما فدآء )” منا “ کا معنی انعام و احسان ہے ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ایک ” المنان “ بھی ہے اور یہ سب جانتے ہیں کہ انعام کرنے والے پر لازم نہیں ہوتا کہ وہ انعام کرے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر جو انعام کئے ہیں وہ نہ اللہ پر واجب تھے نہ بندوں کا حق تھے، جسے ادا کرنا اللہ کے ذمے لازم ہ۔ اس لفظ ” منا “ (انعام و احسان) سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مسلمانوں کا قیدیوں کو زندہ رکھنا ان کی طرف سے قیدیوں کے لئے انعام ہے۔ اگر انہیں قتل کرنے کا اختیار ہی نہ ہو بلکہ انہیں ہر حال میں زندہ رکھنا ان پر واجب ہو تو انہیں چھوڑ دینا ان پر کوئی احسان و انعام نہیں ہوگا، بلکہ انہیں چھوڑ کر ان کا حق ادا کیا جائے گا جو مسلمانوں کے ذمے واجب تھا۔ اس لئے ” منا “ اور ” فادآئ “ کے دو الفاظ میں وہ چ اورں صورتیں آجاتی ہیں جن کا مسلمانوں کے امیر کو اختیار ہے اور وہ ہے قتل کرنا یا غلام بنانا یا بلا معاوضہ چھوڑنا یا فدیہ لے کر چھوڑنا (بقاعی) صحیح بخاری میں ثمامہ بن اثال (رض) کے قول سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ قیدی کو چھوڑنا اس کا استحقاق نہیں، اس پر انعام ہے۔ چناچہ اس نے کہا :(ان تقتلنی تقنل ذا دم، وان تنعم تنعم علی شاکر، وان کنت ترید المال فسل منہ ماشئت ) (بخاری، المغازی ، باب وفد بنی حنیفۃ…: ٨٣٨٢۔ مسلم : ١٨٦٣)”(اے محمد ) اگر تم مجھے قتل کرو تو ایک خون والے کو قتل کرو گے اور اگر انعام کرو تو ایک شکر گزار پر انعام کرو گے اور اگر مال چاہتے ہو تو مانگو جتنا چاہتے ہو۔ “- (٧) حق تصع الحرب اوزاھا :” اوزارھا “” وزر “ کی جم ہے جس کا معنی بوجھ ہے، مراد اس سے لڑائی کے ہتھیار ہیں، کیونکہ جب تک لڑائی باقی رہے ہتھیار اٹھانا پڑتے ہیں جو اٹھانے والوں کے لئے بوجھ ہوتے ہیں، یعنی کفار کی گردنیں مارتے رہو اور ان سے لڑائی جاری رکھو ، حتیٰ کہ لڑائی ختم ہوجائے اور کسی کافر میں مسلمانں کے ساتھ لڑنے کی جرأت اور طاقت نہ رہے۔ یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب مسلمان پوری زمین پر غالب ہوں اور کفار میں ان کے مقابل آنے کی اور ان کے حکم سر پھیرنے کی جرأت و ہمت باقی نہ رہے، جیسا کہ فرمایا :(وقاتلوھم حتی لاتکون فتنہ ویکون الذین کلمہ للہ) (الانفال : ٣٩)” اور ان سے لڑو، یہاں تک کہ کوئی فتنہ نہ رہے اور دین سب کا سب اللہ کے لئے ہوجائے۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کے مطابق کفر و اسلام کا یہ معرکہ قیامت تک جاری رہے گا۔ جابر بن سمرہ ری اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(لن یبرح ھذا الذین قائما، یقاتل علیہ عصابۃ من المسلمین حتی تقوم الساعۃ) (مسلم، الامارۃ، باب قولہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ” لانزال طائفۃ من امتی ظاھرین علی الحق …“: ١٩٢٢)” یہ دین ہمیشہ قائم رہے گا، مسلمانوں کی ایک جماعت اس پر لڑتی رہے گی، یہاں تک کہ قیامت قائم ہو۔ “ - (٨) ذلک : یہ مبتدا محذوف کی خبر ہے :” ای الامر ذلک “ یعنی بات یہی ہے وجہ گردنیں مارنے، قید کرنے، احسان کرنے اور فدیہ لینے کی تفصیل کے ساتھ بیان ہوئی، یا یہ فعل محذوف کا مفعول بہ ہے :” ای افعلوا ذلک “ یعنی یہ کام کرو۔ یہ مختصر لفظ گزشتہ پوری تفصیل کو ذہن میں پختہ کرنے اور اس کی تاکید کے لئے لایا گیا ہے۔- (٩) ولو یشآء اللہ لانتصر منھم : یہ اس سوال کا جواب ہے کہ اگر کفار اتنے ہی برے ہیں تو اللہ تعالیٰ خود انہیں سزا کیوں نہیں دیتا ؟ یعنی اللہ تعالیٰ نے گردنیں مارنے اور دوسری باتوں کا حکم تمہیں دیا ہے، حالانکہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو وہ خود کفار سے انتقام لے سکتا ہے۔ اس کے لئے اس کی طرف سے زلزلے کا ایک جھٹکا، بجلی کی ایک کڑک، سیلاب کا ایک ریلا یا آندھی کا ایک جھونکا کافی ہے، جیسا کہ اس نے گزشتہ کئی کافر اقوام کے ساتھ کیا۔ (دیکھیے عنکبوت : ٤٠) لیکن اگر وہ ایسا کرتا تو سب لوگ ہلاکت سے بچنے کے لئے ایمان لے آتے جو جبری اور اضطراری ہوتا، اپنی مرضی اور اختیار سے نہ ہوتا، اس طرح آزمائش اور امتحان کا مقصد فوت ہوجاتا۔- (١٠) ولکن لیبلوا بعضکم ببعض :” لیبلوا “ فعل محذوف کے متعلق ہے :” ای ولکنہ امرکم بالجھاد لیبلو بعضکم ببعض “ ” یعنی لیکن اس نے تمہیں جہاد کا حکم اس لئے دیا ہے کہ تمہارے بعض کو بعض کے ساتھ آزمائے اور ظاہر ہوجائے کہ کون مخلص مومن ہے اور کون منافق جیسا کہ فرمایا :(ام حسبتم ان تدخلوا الجنۃ ولما یعلم اللہ الذین جھدوا منکم ویعلم الصبرین) (آل عمران :132)” یا تم نے گمان کرلیا کہ تم جنت میں داخل ہوجاؤ گے، حالانکہ ابھی تک اللہ نے ان لوگوں کو نہیں جانا جنہوں نے تم میں سے جہاد کیا اور تاکہ وہ صبر کرنے والوں ک جان لے۔ “ ایمان والوں کو جہاد کا حکم دینے میں اللہ تعالیٰ کی بیشمار حکمتوں میں سے چند حکمتیں اس آیت میں بیان ہوئی ہیں، فرمایا :(قاتلوھم یعذبھم اللہ بایدیکم ویخزھم وینصرکم علیھم ویشف صدور قوم مومنین ویذھب غیظ قلوبھم ، ویتوب اللہ علی من یشآئ، واللہ علیم حکیم) (التوبۃ :15 13)” ان سے لڑو، اللہ انہیں تمہارے ہاتھوں سے عذاب دے گا اور انہیں رسوا کرے گا اور ان کے خلاف تمہاری مدد کرے گا اور مومن لوگوں کے سینوں کو شفا دے گا اور ان کے دلوں کا غصہ دور کرے گا اور اللہ توبہ کی توفیق دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔ “ اس کی تفصیل سورة توبہ کی مذکورہ بالا آیات میں ملاحظہ فرمائیں۔- (١١) والذین قتلوا فی سبیل اللہ فلن یضل اعمالھم : یعنی شہداء کے اللہ کی راہ میں قتل کئے جانے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اپنی جان سے گئے، انہیں کچھ بھی نہ ملا اور ان کی قربانی سے فائدہ ان لوگوں نے اٹھایا جو اس دنیا میں زندہ رہے۔ فرمایا ایسا ہرگز نہیں، اللہ تعالیٰ ان کے اعمال ہرگز ضائع نہیں کرے گا، بلکہ اس سودے کا اصل نفع خود انھی کو حاصل ہوگا۔ مزید دیکھیے سورة توبہ (١١١) کی تفسیر۔ شہداء کو ملنے والے چند نعمتوں کا ذکر اس آیت کے بعد متصل آیات میں بھی آرہا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - (اوپر کی آیات میں اہل ایمان کا مصلح ہونا اور کفار کا مفسد ہونا بیان ہوا ہے اس کی مناسبت سے کفر و کفار کا فساد رفع کرنے کے لئے اس آیت میں احکام جہاد کا ذکر ہے) سو جب تمہارا کفار سے مقابلہ ہوجائے تو ان کی گردنیں مارو، یہاں تک کہ جب تم ان کی خوب خونریزی کر چکو ( جس کی حد یہ ہے کہ کفار کی شوکت و قوت ٹوٹ جائے اور قتال بند کرنے سے مسلمانوں کی مضرت یا کفار کے غلبہ کا خوف نہ رہے) تو (اس وقت کفار کو قید کر کے) خوب مضبوط باندھ لو پھر اس کے بعد (تم کو دو باتوں کا اختیار ہے) یا تو بلا معاوضہ چھوڑ دینا اور یا معاوضہ لے کر چھوڑ دینا (اور یہ قید اور قتل کا حکم اس وقت تک ہے) جب تک کہ لڑنے والے (دشمن) اپنے ہتھیار نہ رکھ دیں (مراد اس سے اسلام یا استسلام ہے) یعنی یا تو اسلام قبول کرلیں یا مسلمانوں کا ذمی ہو کر رہنا قبول کرلیں تو پھر نہ قتل جائز ہے نہ قید۔- معارف و مسائل - اس آیت سے دو باتیں ثابت ہوئیں، اول یہ کہ جب قتال کے ذریعہ کفار کی شوکت و قوت ٹوٹ جائے تو اب بجائے قتل کرنے کے ان کو قید کرلیا جائے پھر ان جنگی قیدیوں کے متعلق مسلمانوں کو دو اختیار دیئے گئے، ایک یہ کہ ان پر احسان کیا جائے بغیر کسی فدیہ اور معاوضہ کے چھوڑ دیا جائے دوسرے یہ کہ ان سے کوئی فدیہ لے کر چھوڑا جائے۔ فدیہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہمارے کچھ مسلمان ان کے ہاتھ میں قید ہوں تو ان سے تبادلہ کرلیا جائے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کچھ مال کا فدیہ لے کر چھوڑا جائے۔ یہ حکم بظاہر اس حکم کے خلاف ہے جو سورة انفال کی آیت میں گزر چکا ہے جس میں غزوہ بدر کے قیدیوں کو معاوضہ لے کر چھوڑ دینے کی رائے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عتاب ہوا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ہمارے اس عمل پر اللہ تعالیٰ کا عذاب قریب آ گیا تھا اگر یہ عذاب آتا تو اس سے بجز عمر بن خطاب اور سعد بن معاذ کے کوئی نہ بچتا کیونکہ انہوں نے فدیہ لے کر چھوڑنے کی رائے سے اختلاف کیا تھا جس کی پوری تفصیل معارف القرآن جلدچہارم میں صفحہ 282 سے 288 تک لکھی گئی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ آیت انفال نے بدر کے قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑنا بھی ممنوع کردیا تو بلا معاوضہ چھوڑنا بدرجہ اولیٰ ممنوع ہوگا۔ اور سورة محمد کی آیت مذکورہ نے ان دونوں چیزوں کو جائز قرار دیا ہے اس لئے اکثر صحابہ اور ائمہ فقہاء نے فرمایا کہ سورة محمد کی اس آیت نے سورة انفال کی آیت کو منسوخ کردیا تفسیر مظہری میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر اور حسن اور عطاء اور اکثر صحابہ و جمہور فقہاء کا یہی قول ہے اور ائمہ فقہاء میں سے ثوری، شافعی، احمد، اسحاق رحمہم اللہ کا بھی یہی مذہب ہے اور ابن عباس نے فرمایا کہ غزوہ بدر کے موقع پر مسلمانوں کی قلت تھی اس وقت من وفداء کی ممانعت آئی اور پھر جب مسلمانوں کی شوکت و تعداد بڑھ گئی تو سورة محمد میں من وفداء کی اجازت دے دیگئی۔ تفسیر مظہری میں حضرت قاضی ثناء اللہ نے اس کو نقل کر کے فرمایا کہ یہی قول صحیح اور مختار ہے کیونکہ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پر عمل فرمایا اور آپ کے بعد خلفائے راشدین نے اس پر عمل فرمایا اس لئے یہ آیت سورة انفال کی آیت کے لئے ناسخ ہے۔ وجہ یہ ہے کہ سورة انفال کی آیت غزوہ بدر کے وقت نازل ہوئی جو ہجرت کے دوسرے سال میں ہوا ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے 6 ہجری غزوہ حدیبیہ میں جن قیدیوں کو بلا معاوضہ آزاد فرمایا ہے وہ سورة محمد کی اس آیت مذکورہ کے مطابق ہے۔- صحیح مسلم میں حضرت انس سے روایت ہے کہ اہل مکہ میں سے اسی آدمی اچانک جبل تغیم سے اترے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بیخبر پا کر قتل کرنے کا ارادہ کر رہے تھے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو زندہ گرفتار کرلیا پھر بلا معاوضہ آزاد کردیا۔ اسی پر سورة فتح کی یہ آیت نازل ہوئی (آیت) وہوالذی کف ایدیہم عنکم و ایدیکم عنہم ببطن مکة من بعد ان اظفرکم علیہم، امام اعظم ابوحنیفہ کا مشہور مذہب ان کی ایک روایت کے مطابق یہ ہے کہ جنگی قیدیوں کو بلا معاوضہ یا معاوضہ لے کر آزاد کرنا جائز نہیں اسی لئے علماء حنفیہ نے سورة محمد کی آیت مذکورہ کو امام اعظم کے نزدیک منسوخ اور سورة انفال کی آیت کو ناسخ قرار دیا ہے مگر تفسیر مظہری نے یہ واضح کردیا کہ سورة انفال کی آیت پہلے اور سورة محمد کی آیت بعد میں نازل ہوئی ہے اس لئے وہی ناسخ اور انفال کی آیت منسوخ ہے اور امام اعظم کا مختار مذہب بھی جمہور صحابہ و فقہاء کے مطابق آزاد کردینے کے جواز کا نقل کیا ہے جبکہ مسلمانوں کی مصلحت اس میں ہو، اور فرمایا کہ یہی اصح اور مختار ہے، علماء حنفیہ میں سے علامہ ابن ہمام فتح القدیر میں اسی طرف مائل ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ قدوری اور ہدایہ کی روایت کے مطابق امام اعظم کے نزدیک قیدیوں کو فدیہ لے کر آزاد نہیں کیا جاسکتا اور یہ ایک روایت ہے، امام اعظم ابوحنیفہ سے مگر انہی سے دوسری روایت سیر کبیر میں جمہور کے قول کے مطابق جواز کی منقول ہے اور یہی ان دونوں روایتوں میں اظہر ہے اور امام طحاوی نے معانی الآثار میں اسی کو ابوحنیفہ کا مذہب قرار دیا ہے۔- خلاصہ یہ ہے کہ سورة محمد اور سورة انفال کی دونوں آیتیں جمہور صحابہ دائمہ کے نزدیک منسوخ نہیں، مسلمانوں کے حالات اور ضرورت کے تابع امام المسلمین کو اختیار ہے کہ ان میں جس صورت کو مناسب سمجھے اختیار کرلے۔ قرطبی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور خلفائے راشدین کے عمل سے یہ ثابت کیا ہے کہ جنگی قیدیوں کو کبھی قتل کیا گیا ہے اور کبھی غلام بنایا گیا اور کبھی فدیہ لے کر چھوڑا گیا اور کبھی بغیر فدیہ کے آزاد کردیا گیا۔ فدیہ لینے میں یہ بھی داخل ہے کہ ان کے بدلے میں مسلمان قیدی آزاد کرا لئے جائیں اور یہ بھی کہ ان سے کچھ مال لے کر چھوڑا جائے، دونوں قسم کی صورتیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور خلفائے راشدین کے عمل سے ثابت ہیں اس تفصیل کو نقل کرنے کے بعد انہوں نے فرمایا کہ اس سے معلوم ہوا کہ اس معاملہ میں جن آیتوں کو ناسخ منسوخ کہا گیا درحقیقت وہ سب محکم ہیں ان میں سے کوئی منسوخ نہیں، اس لئے کہ جب کفار قید ہو کر ہمارے قبضے میں آئیں تو امام المسلمین کو چار چیزوں کا اختیار ہے کہ مناسب سمجھے تو قتل کر دے اور مصلحت مسلمانوں کی سمجھے تو ان کو غلام اور لونڈی بنا لے، اور فدیہ لے کر چھوڑنے میں مصلحت ہو تو فدیہ مال کا یا مسلمان قیدیوں کا لے کر چھوڑ دے یا بغیر کسی معاوضہ کے آزاد کر دے۔ قرطبی نے یہ تفصیل نقل کر کے لکھا ہے وہذا القول یرویٰ من اہل المدینتہ و الشافعی و ابی عبیدہ وحکاہ الطحاوی مذھبا عن ابی حنیفتہ و المشھود ما قدمناہ، یعنی علمائے مدینہ کا یہی قول ہے اور یہی قول امام شافعی اور ابوعبید کا ہے اور امام طحاوی نے ابوحنیفہ کا بھی یہی قول نقل کیا ہے اگرچہ مشہور مذہب ان کا اس کے خلاف ہے (قرطبی ص 228 ج 16 )- جنگی قیدیوں کے متعلق امام المسلمین کو چار اختیار :- مذکور الصدر تقریر سے واضح ہوگیا کہ جنگی قیدیوں کے قتل اور استرقاق یعنی غلام بنا لینے کا جو امام المسلمین کو اختیار ہے اس پر تو تمام امت کا اجماع ہے اور فدیہ لے کر یا بلا معاوضہ آزاد کرنے میں اگرچہ کچھ اختلافات ہیں مگر جمہور کے نزدیک یہ دونوں صورتیں بھی جائز ہیں۔- اسلام میں غلامی کی بحث :- یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جنگی قیدیوں کو آزاد چھوڑ دینے میں تو فقہاء کا کچھ اختلاف ہے بھی، قتل کرنے اور غلام بنانے کی اجازت میں کوئی اختلاف نہیں سب کا اجماع ہے کہ یہ دونوں صورتیں جائز ہیں، پھر قرآن کریم میں ان دو صورتوں کا ذکر کیوں نہیں کیا گیا ؟ اور صرف آزاد چھوڑنے کی دو صورتوں ہی کا بیان کیوں کیا گیا ہے ؟ اس سوال کا جواب امام رازی نے تفسیر کبیر میں یہ دیا ہے کہ یہاں صرف ان دو صورتوں کا ذکر کیا گیا ہے جو ہر جگہ اور ہر وقت جائز ہوں، غلام بنانے کا ذکر اس لئے نہیں کیا گیا کہ عرب کے جنگی قیدیوں کو غلام بنانے کی اجازت نہیں ہے، اور قتل بھی اپاہجوں وغیرہ کا جائز نہیں اس کے علاوہ قتل کا ذکر اوپر آ بھی چکا ہے (تفسیر کبیر ص 508 ج 7 )- دوسری بات یہ ہے کہ جہاں تک قتل کرنے اور غلام بنانے کا تعلق ہے اس کا جواز بہت معروف و مشہور تھا، سب کو معلوم تھا کہ یہ دونوں صورتیں جائز ہیں اس کے برخلاف آزاد چھوڑ دینے کو غزوہ بدر کے موقع پر ممنوع کردیا گیا تھا، اب اس مقام پر آزاد چھوڑنے کی اجازت دینا ہی مقصود تھا اس لئے اسی کی دو صورتوں یعنی من اور فداء کا ذکر کردیا گیا، اور جو صورتیں پہلے سے جائز تھیں انہیں اس موقع پر بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی، اس لئے ان آیات میں ان سے سکوت اختیار کیا گیا، لہٰذا ان آیات سے یہ نتیجہ نکالنا کسی طرح درست نہیں ہے کہ ان آیات کے نزول کے بعد قتل یا غلام بنانے کی اجازت منسوخ کردی گئی ہے، ورنہ اگر غلام بنانے کا حکم منسوخ ہوگیا ہوتا تو قرآن و حدیث میں کسی ایک جگہ تو اس کی ممانعت مذکور ہوتی، اور اگر یہ آیت ہی ممانعت کے قائم مقام تھی تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے بعد قرآن و حدیث پر جان دینے والے صحابہ کرام نے بیشمار غزوات میں جنگی قیدیوں کو غلام کیوں بنایا ؟ روایات حدیث و تاریخ میں غلام بنانے کا ذکر اس کثرت اور معنوی تواتر کے ساتھ آیا ہے کہ اس کا انکار مکابرہ کے سوا کچھ نہیں۔- رہا یہ اشکال کہ اسلام، جو حقوق انسانیت کا سب سے بڑا محافظ ہے، اس نے غلامی کی اجازت کیوں دی ؟ سو درحقیقت یہ اشکال اس وجہ سے پیدا ہوتا ہے کہ اسلام کی جائز کی ہوئی غلامی کو دیگر مذاہب و اقوام کی غلامی پر قیاس کرلیا گیا ہے حالانکہ اسلام نے غلاموں کو جو حقوق عطا کئے اور معاشرے میں ان کو جو مقام دیا اس کے بعد وہ صرف نام کی غلامی رہ گئی ورنہ حقیقت میں وہ بھائی چارہ بن گیا ہے، اور اگر اس کی حقیقت اور روح پر نظر کی جائے تو بہت سی صورتوں میں جنگی قیدیوں کے ساتھ اس سے بہتر سلوک ممکن نہیں، مشہور مستشرق موسیو گستاؤلیبان اپنی کتاب تمدن عرب میں لکھتا ہے :- ” غلام کا لفظ جب کسی ایسے یوروپین شخص کے سامنے بولا جاتا ہے جو تیس سال کے دوران لکھی ہوئی امریکی روایتوں کو پڑھنے کا عادی ہے تو اس کے دل میں ان مسکینوں کا تصور آجاتا ہے جو زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں، ان کے گلوں میں طوق پڑے ہیں اور انہیں کوڑے مار مار کر ہنکایا جا رہا ہے، ان کی غذا ان کی سدرمق کے لئے بھی کافی نہیں اور انہیں رہنے کے لئے تاریک کوٹھڑیوں کے سوا کچھ میسر نہیں، مجھے یہاں اس سے بحث نہیں کہ یہ تصویر کس حد تک درست ہے اور انگریزوں نے چند سالوں سے امریکہ میں جو کچھ کیا ہے یہ باتیں اس پر صادق آتی ہیں یا نہیں ؟.... لیکن یہ بالکل یقینی بات ہے کہ اہل اسلام کے یہاں غلام کا تصور نصاریٰ کے یہاں غلام کے تصور سے بالکلیہ مختلف ہے “۔- (منقول از دائرة المعارف القرآن العشرین الفرید وجدی، ص 279 ج 4 مادہ ” استرقاق “ )- حقیقت یہ ہے کہ بہت سی صورتیں ایسی ہوتی ہیں جن میں قیدیوں کو غلام بنانے سے بہتر کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا، کیونکہ اگر غلام نہ بنایا جائے تو تین ہی صورتیں عقلاً ممکن ہیں، یا قتل کردیا جائے، یا آزاد چھوڑ دیا جائے یا دائمی قیدی بنا کر رکھا جائے، اور بسا اوقات یہ تینوں صورتیں مصلحت کے خلاف ہوتی ہیں، قتل کرنا اس لئے مناسب نہیں ہوتا کہ قیدی اچھی صلاحیتوں کا مالک ہوتا ہے۔ آزاد چھوڑ دینے میں بعض مرتبہ یہ خطرہ ہوتا ہے کہ دارالحرب میں پہنچ کر وہ مسلمانوں کے لئے دوبارہ عظیم خطرہ بن جائے، اب دو ہی صورتیں رہ جاتی ہیں، یا تو اسے دائمی قیدی بنا کر آج کل کی طرح کسی الگ تھلگ جزیرے میں ڈال دیا جائے یا پھر غلام بنا کر اس کی صلاحیتوں سے کام لیا جائے اور اس کے حقوق انسانی کی پوری نگہداشت کی جائے، ہر شخص سوچ سکتا ہے کہ ان میں سے بہتر صورت کونسی ہے ؟ بالخصوص جبکہ غلاموں کے بارے میں اسلام کا نقطہ نظر وہ ہے جو ایک معروف حدیث میں سرکار دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بالفاظ ذیل بیان فرمایا ہے۔- اخوانکم جعلہم اللہ تحت ایدیکم فمن کان اخوہ تحتیدیہ فلیطعمہ مما یا کل ولیلبسہ مما یلبس و لا یکلفہ ما یغلبہ فان کلفہ، مایغلبہ فلیعنہ،- (بخاری، مسلم، ابوداؤد وغیرہ)- تمہارے غلام تمہارے بھائی ہیں جنہیں اللہ نے تمہارے زیردست کردیا ہے، پس جس کا بھائی اس کے زیردست ہو اسے چاہئے کہ اس کو بھی اسی میں سے کھلائے جو وہ خود کھاتا ہے اور اسی میں سے پہنائے جسے وہ خود پہنتا ہے اور اس کو ایسے کام کی زحمت نہ دے جو اس کے لئے ناقابل برداشت ہو، اور اگر اسے ایسے کام کی تکلیف دے تو خود بھی اس کی مدد کرے۔- معاشرتی اور تمدنی حقوق کے اعتبار سے اسلام نے غلاموں کو جو مرتبہ عطا کیا وہ آزاد افراد کے قریب قریب مساوی ہے، چناچہ دوسری اقوام کے برخلاف اسلام نے غلاموں کو نکاح کی نہ صرف اجازت دی بلکہ آقاؤں کو (آیت) انکحوا الایامی منکم۔ والی آیت کے ذریعہ اس کی تاکید کی گئی ہے۔ یہاں تک کہ وہ آزاد عورتوں سے بھی نکاح کرسکتا ہے، مال غنیمت میں اس کا حصہ آزاد مجاہدین کے برابر ہے اور دشمن کو امان دینے میں اس کا قول اسی طرح معتبر ہے جس طرح آزاد افراد کا، قرآن و حدیث میں ان کے ساتھ حسن سلوک کے اتنے احکام آئے ہیں کہ ان کو جمع کرنے سے ایک مستقل کتاب بن سکتی ہے، یہاں تک کہ حضرت علی کا رشاد ہے کہ سرکار دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جو الفاظ آخری وقت تک زبان مبارک پر جاری تھے اور جس کے بعد آپ خالق حقیقی سے جا ملے، وہ یہ الفاظ تھے : الصلوٰة الصلوٰة : اتقوا اللہ فیما ملکت ایمانکم۔ ترجمہ : نماز کا خیال رکھو، نماز کا خیال رکھو، اپنے زیر دست غلاموں کے بارے میں اللہ سے ڈرو (ابو داؤد۔ باب فی حق المملوک)- غلاموں کے تعلیم و تربیت کے جو مواقع اسلام نے فراہم کئے ہیں ان کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ عبدالملک بن مروان کے زمانہ میں اسلامی سلطنت کے تقریباً تمام صوبوں میں علم و فضل کے مرجع اعلیٰ سب کے سب غلاموں میں سے تھے جس کا واقعہ متعدد کتب تاریخ میں مذکور ہے، پھر اس نام کی غلامی کو بھی رفتہ رفتہ ختم یا کم کرنے کے لئے غلاموں کو آزاد کرنے کے اتنے فضائل قرآن و حدیث میں وارد ہوئے ہیں کہ شاید ہی کوئی نیکی اس کی ہمسری کرسکے، مختلف فقہی احکام میں غلاموں کو آزاد کرنے کے لئے بہانے ڈھونڈے گئے ہیں۔ کفارہ صوم، کفارہ قتل، کفارہ ظہار، کفارہ یمین ان تمام صورتوں میں سب سے پہلا حکم یہ مذکور ہے کہ کوئی غلام آزاد کیا جائے یہاں تک کہ حدیث میں یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ اگر کسی نے غلام کو ناحق تھپڑ مار دیا تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ اسے آزاد کردیا جائے (صحیح مسلم۔ باب صحبة الممالیک) چناچہ صحابہ کرام جس کثرت کے ساتھ غلام آزاد کیا کرتے تھے اس کا اندازہ اس بات سے ہوسکتا ہے کہ صاحب النجم الوہاج نے بعض صحابہ کے آزاد کردہ غلاموں کی یہ تعداد نقل کی ہے۔- حضرت عائشہ 69 حضرت عباس 70 - حضرت حکیم بن حزام 100 حضرت عبداللہ بن عمر 1000 - حضرت عثمان غنی 20 حضرت ذوالکلاع حمیری 8000 (صرف ایک دن میں)- حضرت عبدالرحمن بن عوف 30000 (فتح العلام شرح بلوغ المرام از نواب صدیق حسن خان صاحب ص 232 کتاب العتق) - جس سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف سات صحابہ نے انتالیس ہزار دو سو انسٹھ غلام آزاد کئے، اور ظاہر ہے کہ دوسرے ہزاروں صحابہ کے آزاد کردہ غلاموں کی تعداد اس سے کہیں زائد ہوگی۔ غرض اسلام نے غلامی کے نظام میں جو ہمہ گیر اصلاحات کیں جو شخص بھی انہیں بنظر انصاف دیکھے گا وہ اس نتیجہ پر پہنچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اسے دوسری اقوام کے احکام غلامی پر قیاس کرنا بالکل غلط ہے اور ان اصلاحات کے بعد جنگی قیدیوں کو غلام بنانے کی اجازت ان پر ایک عظیم احسان بن گئی ہے۔- یہاں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ جنگی قیدیوں کو غلام بنانے کا حکم صرف اباحت اور جواز کی حد تک ہے یعنی اگر اسلامی حکومت مصالح کے مطابق سمجھے تو انہیں غلام بنا سکتی ہے ایسا کرنا مستحب یا واجب فعل نہیں ہے بلکہ قرآن و حدیث کے مجموعی ارشادات سے آزاد کرنے کا افضل ہونا سمجھ میں آتا ہے اور یہ اجازت بھی اس وقت تک کے لئے ہے جب تک اس کے خلاف دشمن سے کوئی معاہدہ نہ ہو اور اگر دشمن سے یہ معاہدہ ہوجائے کہ نہ وہ ہمارے قیدیوں کو غلام بنائیں گے نہ ہم ان کے قیدیوں کو، تو پھر اس معاہدہ کی پابندی لازم ہوگی، ہمارے زمانے میں دنیا کے بہت سے ملکوں نے ایسا معاہدہ کیا ہوا ہے، لہٰذا جو اسلامی ممالک اس معاہدے میں شریک ہیں ان کے لئے غلام بنانا اس وقت تک جائز نہیں جب تک یہ معاہدہ قائم ہے۔- خلاصہ تفسیر - یہ حکم (جہاد کا جو مذکور ہوا) بجا لانا اور (جو بعض صورتوں میں کفار سے انتقام لینے کیلئے طریقہ جہاد کا مقرر کیا، یہ خاص حکمت کی وجہ سے ہے ورنہ) اگر اللہ چاہتا تو ان سے (خود ہی آسمانی اور زمینی عذابوں کے ذریعہ) انتقام لے لیتا (جیسے پچھلی امتوں سے اسی طرح انتقام لیا، کسی پر پتھر برسے کسی پر ہوا کا طوفان آیا، کسی کو غرق کیا گیا، اگر ایسا ہوتا تو تم کو جہاد نہ کرنا پڑتا) لیکن (تم کو جہاد کرنے کا حکم اس لئے دیا) تاکہ تمہارا ایک دوسرے کے ذریعہ امتحان کرے (مسلمانوں کا امتحان یہ کہ کون حکم الٰہی پر اپنی جان کو ترجیح دیتا ہے، اور کفار کا امتحان یہ کہ قتال و جہاد کی تکلیف سے متنبہ ہو کر کون حق کو قبول کرتا ہے) اور (جہاد میں جیسے کفار کا قاتل ہونا کامیابی ہے اسی طرح مقتول ہونا بھی ناکامی نہیں کیونکہ) جو لوگ اللہ کی راہ (یعنی جہاد) میں مارے جاتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کو (جن میں یہ عمل جہاد بھی داخل ہے) ہرگز ضائع نہ کرے گا (جیسا کہ ظاہر میں سمجھا جاسکتا ہے کہ جب وہ کافروں پر غالب نہ آسکا یہ خود مقتول ہوگیا تو گویا اس کا عمل بیکار گیا مگر واقعہ یوں نہیں کیونکہ اس کے اس عمل پر دوسرا نتیجہ جو ظاہری کامیابی سے بدرجہا بڑھا ہوا ہے اس کو حاصل ہوگیا وہ یہ کہ) اللہ تعالیٰ ان کو (منزل) مقصود تک (جس کا بیان آگے آتا ہے) پہنچا دے گا اور ان کی حالت (قبر اور حشر اور پل صراط اور تمام مواقع آخرت میں) درست رکھے گا (کہیں کوئی خرابی اور مضرت ان کو نہ پہنچے گی) اور (اس منزل مقصود تک پہنچنے کا بیان یہ ہے کہ) ان کو جنت میں داخل کرے گا جس کی ان کو پہچان کرا دے گا (کہ ہر جنتی اپنے اپنے مقررہ مکان پر بغیر کسی تلاش تفتیش کے بےتکلف جا پہنچے گا، اس سے ثابت ہوا کہ جہاد میں ظاہری ناکامی یعنی خود مقتول ہوجانا بھی بڑی کامیابی ہے، آگے جہاد کے دنیوی فوائد و فضائل کا ذکر کر کے اس کی ترغیب ہے کہ) اے ایمان والو اگر تم اللہ (کے دین) کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا (جس کا نتیجہ دنیا میں بھی دشمنوں پر غالب آنا ہے خواہ ابتداً ہی یا کچھ عرصہ کے بعد انجام کار میں اور بعض مومنین کا مقتول ہوجانا یا کسی معرکہ میں وقتی طور پر مغلوب ہوجانا اس کے منافی نہیں) اور (اسی طرح دشمنوں کے مقابلہ میں) تمہارے قدم جما دے گا ( اسی طرح کا مطلب یہ ہے خواہ ابتداء ہی سے یا وقتی پسپائی کے بعد انتہا میں ثابت قدم رکھ کر کفار پر غالب کرے گا جیسا کہ بار بار اس کا مشاہدہ دنیا میں ہوچکا ہے یہ تو مسلمانوں کا حال بیان کیا گیا) اور جو لوگ کافر ہیں ان کے لئے (دنیا میں جبکہ مومنین سے مقابلہ کریں) تباہی (اور مغلوبیت) ہے اور (آخرت میں) ان کے اعمال کو خدا تعالیٰ کالعدم کر دے گا (جیسا کہ شروع سورت میں بیان ہوا۔ غرض کفار دونوں جہان میں خسارے میں رہے اور) یہ (کفار کا خسارہ اور اعمال کی بربادی) اس سبب سے ہوئی کہ انہوں نے اللہ کے اتارے ہوئے احکام کو ناپسند کیا (عقیدة بھی اور عملاً بھی) سو اللہ نے ان کے اعمال کو (اول ہی سے) اکارت کردیا (کیونکہ کفر کا جو اعلیٰ درجہ کی بغاوت ہے یہی اثر ہے اور یہ لوگ جو عذاب الٰہی سے نہیں ڈرتے) کیا یہ لوگ ملک میں چلے پھرے نہیں اور انہوں نے دیکھا نہیں کہ جو لوگ ان سے پہلے ہو گزرے ہیں ان کا انجام کیسا ہوا کہ خدا تعالیٰ نے ان پر کیسی تباہی ڈالی (جو ان کے اجڑے ہوئے محلات و مکانات سے ظاہر ہے تو ان کو بھی اس سے بےفکر نہ ہونا چاہئے کہ اپنے کفر سے باز نہ آئے تو) ان کافروں کے لئے بھی اسی قسم کے معاملات ہونے کو ہیں (آگے فریقین کے حال کا اجمالی ذکر ہے کہ) یہ (مسلمانوں کی کامیابی اور کافروں کی تباہی) اس سبب سے ہے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کا کارساز ہے اور کافروں کا کوئی (ایسا) کارساز نہیں (کہ خدا کے مقابلہ میں ان کے کام بنا سکے اس لئے وہ دونوں جہان میں ناکام رہتے ہیں اور مسلمانوں کو اگر کبھی دنیا میں وقتی ناکامی بھی ہوجائے تو انجام کار کامیابی ہوگی، اور آخرت کی فلاح تو ظاہر ہی ہے اس لئے مسلمان ہمیشہ کامیاب اور کافر ناکام رہتا ہے )- معارف و مسائل - مشرعیت جہاد کی ایک حکمت :- (آیت) وَلَوْ يَشَاۗءُ اللّٰهُ لَانْتَـصَرَ مِنْهُمْ ، اس آیت میں حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اس امت میں کفار سے جہاد و قتال کی مشروعیت در حقیقت ایک رحمت ہے، کیونکہ وہ آسمانی عذابوں کے قائم مقام ہے کیونکہ کفر و شرک اور اللہ سے بغاوت کی سزا پچھلی قوموں کو آسمانی اور زمینی عذابوں کے ذریعہ دی گئی ہے امت محمدیہ میں ایسا ہوسکتا تھا مگر رحمتہ للعالمین کی برکت سے اس امت کو ایسے عام عذابوں سے بچا لیا گیا، اس کے قائم مقام جہاد شرعی کو کردیا گیا جس میں یہ نسبت عذاب عام کے بڑی سہولتیں اور مصلحتیں ہیں۔ اول تو یہ کہ عذاب عام میں پوری قومیں مرد، عورت، بچے سبھی تباہ ہوتے ہیں اور جہاد میں عورتیں بچے تو مامون ہیں ہی، مرد بھی صرف وہی اس کی زد میں آتے ہیں جو اللہ کے دین کی حفاظت کرنے والوں کے مقابلہ پر قتال کے لئے آ کھڑے ہوں، پھر اس میں بھی سب مقتول نہیں ہوتے، ان میں بہت سے لوگوں کو اسلام و ایمان کی توفیق نصیب ہوجاتی ہے نیز جہاد کی مشروعیت کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعہ جہاد و قتال کے دونوں فریق، مسلمان اور کافر کا امتحان ہوجاتا ہے کہ کون اللہ کے حکم پر اپنی جان و مال نثار کرنے کو تیار ہوجاتا ہے اور کون سرکشی اور کفر پر جما رہتا ہے یا اسلام کے روشن دلائل کو دیکھ کر اسلام قبول کرلیتا ہے۔- (آیت) والذین قتلوا فی سبیل اللہ فلن یضل اعمالھم، شروع سورت میں ذکر تھا کہ جو لوگ کفر و شرک پر جمع ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی اسلام سے روکتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کے نیک اعمال کو بھی اکارت اور ضائع کردیا یعنی صدقہ خیرات اور رفاہ عام کے نیک کام جو وہ کرتے ہیں کفر و شرک کی وجہ سے اللہ کے نزدیک آخرت میں ان کا کوئی ثواب نہیں، اس کے بالمقابل اس آیت میں فرمایا کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید ہوتے ہیں ان کے اعمال ضائع نہیں ہوتے یعنی اگر انہوں نے کچھ گناہ بھی کئے ہوں تو ان کے گناہوں کی وجہ سے ان کے نیک اعمال پر کوئی اثر نہیں پڑتا بلکہ بسا اوقات ان کے نیک اعمال ان کے گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَاِذَا لَقِيْتُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَضَرْبَ الرِّقَابِ۝ ٠ ۭ حَتّٰٓي اِذَآ اَثْخَنْتُمُوْہُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ۝ ٠ ۤۙ فَاِمَّا مَنًّۢا بَعْدُ وَاِمَّا فِدَاۗءً حَتّٰى تَضَعَ الْحَرْبُ اَوْزَارَہَا۝ ٠ ۚ ۣۛذٰلِكَ۝ ٠ ۭ ۛ وَلَوْ يَشَاۗءُ اللہُ لَانْتَصَرَ مِنْہُمْ وَلٰكِنْ لِّيَبْلُوَا۟ بَعْضَكُمْ بِبَعْـضٍ۝ ٠ ۭ وَالَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ فَلَنْ يُّضِلَّ اَعْمَالَہُمْ۝ ٤- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو : 11-إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- لقی - اللِّقَاءُ : مقابلة الشیء ومصادفته معا، وقد يعبّر به عن کلّ واحد منهما، يقال : لَقِيَهُ يَلْقَاهُ لِقَاءً ولُقِيّاً ولُقْيَةً ، ويقال ذلک في الإدراک بالحسّ ، وبالبصر، وبالبصیرة . قال : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران 143] ، وقال : لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف 62] . ومُلَاقَاةُ اللہ عز وجل عبارة عن القیامة، وعن المصیر إليه . قال تعالی:- وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة 223] - ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- یلقاہ لقاء کے معنی کسی کے سامنے آنے اور اسے پالینے کے ہیں اور ان دونوں معنی میں سے ہر ایک الگ الگ بھی بولاجاتا ہے اور کسی چیز کا حس اور بصیرت سے ادراک کرلینے کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران 143] اور تم موت ( شہادت ) آنے سے پہلے اس کی تمنا کیا کرتے تھے اور ملاقات الہی سے مراد قیامت کا بپا ہونا اور اللہ تعالیٰ کے پاس چلے جانا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة 223] اور جان رکھو کہ ایک دن تمہیں اس کے دوبرو حاضر ہونا ہے ۔- ضرب - الضَّرْبُ : إيقاعُ شيءٍ علی شيء، ولتصوّر اختلاف الضّرب خولف بين تفاسیرها، كَضَرْبِ الشیءِ بالید، والعصا، والسّيف ونحوها، قال : فَاضْرِبُوا فَوْقَ الْأَعْناقِ وَاضْرِبُوا مِنْهُمْ كُلَّ بَنانٍ- [ الأنفال 12] ، فَضَرْبَ الرِّقابِ [ محمد 4] ، فَقُلْنا اضْرِبُوهُ بِبَعْضِها[ البقرة 73] ، أَنِ اضْرِبْ بِعَصاكَ الْحَجَرَ [ الأعراف 160] ، فَراغَ عَلَيْهِمْ ضَرْباً بِالْيَمِينِ [ الصافات 93] ، يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ [ محمد 27] ، وضَرْبُ الأرضِ بالمطر، وضَرْبُ الدّراهمِ ، اعتبارا بِضَرْبِ المطرقةِ ، وقیل له : الطّبع، اعتبارا بتأثير السّمة فيه، وبذلک شبّه السّجيّة، وقیل لها : الضَّرِيبَةُ والطَّبِيعَةُ. والضَّرْبُ في الأَرْضِ : الذّهاب فيها وضَرْبُهَا بالأرجلِ. قال تعالی: وَإِذا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ [ النساء 101] ، وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ إِذا ضَرَبُوا فِي الْأَرْضِ [ آل عمران 156] ، وقال : لا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْباً فِي الْأَرْضِ [ البقرة 273] ، ومنه : فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيقاً فِي الْبَحْرِ- [ طه 77] ، وضَرَبَ الفحلُ الناقةَ تشبيها بالضَّرْبِ بالمطرقة، کقولک : طَرَقَهَا، تشبيها بالطّرق بالمطرقة، وضَرَبَ الخیمةَ بضرب أوتادها بالمطرقة، وتشبيها بالخیمة قال : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ [ آل عمران 112] ، أي : التحفتهم الذّلّة التحاف الخیمة بمن ضُرِبَتْ عليه، وعلی هذا : وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الْمَسْكَنَةُ [ آل عمران 112] ، ومنه استعیر : فَضَرَبْنا عَلَى آذانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَداً [ الكهف 11] ، وقوله : فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ [ الحدید 13] ، وضَرْبُ العودِ ، والناي، والبوق يكون بالأنفاس، وضَرْبُ اللَّبِنِ بعضِهِ علی بعض بالخلط، وضَرْبُ المَثلِ هو من ضَرْبِ الدّراهمِ ، وهو ذکر شيء أثره يظهر في غيره . قال تعالی: ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر 29] ، وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف 32] ، ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ [ الروم 28] ، وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم 58] ، وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا - [ الزخرف 57] ، ما ضَرَبُوهُ لَكَ إِلَّا جَدَلًا[ الزخرف 58] ، وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلَ الْحَياةِ الدُّنْيا - [ الكهف 45] ، أَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحاً [ الزخرف 5] .- والمُضَارَبَةُ : ضَرْبٌ من الشَّرِكَةِ. والمُضَرَّبَةُ :- ما أُكْثِرَ ضربُهُ بالخیاطة . والتَّضْرِيبُ : التّحریضُ ، كأنه حثّ علی الضَّرْبِ الذي هو بعد في الأرض، والاضْطِرَابُ : كثرةُ الذّهاب في الجهات من الضّرب في الأرض، واسْتِضَرابُ الناقةِ : استدعاء ضرب الفحل إيّاها .- ( ض ر ب ) الضرب - کے معنی ایک چیز کو دوسری چیز پر واقع کرنا یعنی مارنا کے ہیں اور مختلف اعتبارات سے یہ لفظ بہت سے معانی میں استعمال ہوتا ہے (1) ہاتھ لاٹھی تلوار وغیرہ سے مارنا ۔ قرآن میں ہے : فَاضْرِبُوا فَوْقَ الْأَعْناقِ وَاضْرِبُوا مِنْهُمْ كُلَّ بَنانٍ [ الأنفال 12] ان کے سر مارکراڑا دو اور ان کا پور پور مارکر توڑدو ۔ فَضَرْبَ الرِّقابِ [ محمد 4] تو انکی گردنین اڑا دو ۔ فَقُلْنا اضْرِبُوهُ بِبَعْضِها[ البقرة 73] تو ہم نے کہا کہ اس بیل کا سا ٹکڑا مقتول کو مارو أَنِ اضْرِبْ بِعَصاكَ الْحَجَرَ [ الأعراف 160] اپنی لاٹھی پتھر پر مارو ۔ فَراغَ عَلَيْهِمْ ضَرْباً بِالْيَمِينِ [ الصافات 93] پھر ان کو داہنے ہاتھ سے مارنا اور توڑنا شروع کیا ۔ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ [ محمد 27] ان کے مونہوں ۔۔۔۔ پر مارتے ہیں ۔ اور ضرب الارض بالمطر کے معنی بارش پر سنے کے ہیں ۔ اور ضرب الدراھم ( دراہم کو ڈھالنا ) کا محاورہ الضرب بالمطرقۃ کی مناسبت سے استعمال ہوتا ہے ۔ اور نکسال کے سکہ میں اثر کرنے کے مناسبت سے طبع الدرھم کہاجاتا ہے اور تشبیہ کے طور پر انسان کی عادت کو ضریبۃ اور طبیعۃ بھی کہہ دیتے ہیں ۔ ضرب فی الارض کے معنی سفر کرنے کے ہیں ۔ کیونکہ انسان پیدل چلتے وقت زمین پر پاؤں رکھتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَإِذا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ [ النساء 101] اور جب سفر کو جاؤ ۔ وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ إِذا ضَرَبُوا فِي الْأَرْضِ [ آل عمران 156] اور ان کے مسلمان بھائی جب خدا کی راہ میں سفر کریں ۔۔۔۔ تو ان کی نسبت کہتے ہیں ۔ لا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْباً فِي الْأَرْضِ [ البقرة 273] اور ملک میں کسی طرف جانے کی طاقت نہیں رکھتے ۔ اور یہی معنی آیت : فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيقاً فِي الْبَحْرِ [ طه 77] کے ہیں یعنی انہیں سمندر میں ( خشک راستے سے لے جاؤ ۔ ضرب الفحل ناقۃ ( نرکا مادہ سے جفتی کرنا ) یہ محاورہ ضرب بالمطرقۃ ( ہتھوڑے سے کوٹنا) کی مناسبت سے طرق الفحل الناقۃ کا محاورہ بولا جاتا ہے ۔ ضرب الخیمۃ خیمہ لگانا کیونکہ خیمہ لگانے کیلئے میخوں کو زمین میں ہتھوڑے سے ٹھونکاجاتا ہے اور خیمہ کی مناسبت سے آیت : ۔ ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ [ آل عمران 112] اور آخر کار ذلت ۔۔۔۔۔۔ ان سے چمٹا دی گئی۔ میں ذلۃ کے متعلق ضرب کا لفظاستعمال ہوا ہے جس کے معنی کہ ذلت نے انہیں اس طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا جیسا کہ کیس شخص پر خیمہ لگا ہوا ہوتا ہے اور یہی معنی آیت : ۔ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الْمَسْكَنَةُ [ آل عمران 112] اور ناداری ان سے لپٹ رہی ہے ۔ کے ہیں اور آیت : ۔ فَضَرَبْنا عَلَى آذانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَداً [ الكهف 11] تو ہم نے غارکئی سال تک ان کے کانوں پر نیند کا پردہ ڈالے ( یعنی ان کو سلائے ) رکھا ۔ نیز آیت کر یمہ : ۔ فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ [ الحدید 13] پھر ان کے بیچ میں ایک دیوار کھڑی کردی جائیگی ۔ میں ضرب کا لفظ ضرب الخیمۃ کے محاورہ سے مستعار ہے ۔ ضرب العود والنای والبوق عود اور نے بجان یا نر سنگھے میں پھونکنا ۔ ضرب اللبن : اینٹیں چننا، ایک اینٹ کو دوسری پر لگانا ضرب المثل کا محاورہ ضرب الدراھم ماخوذ ہے اور اس کے معنی ہیں : کسی بات کو اس طرح بیان کرنا کہ اس سے دوسری بات کی وضاحت ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر 29] خدا ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف 32] اور ان سے ۔۔۔۔۔۔۔ قصہ بیان کرو ۔ ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ [ الروم 28] وہ تمہارے لئے تمہارے ہی حال کی ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم 58] اور ہم نے ۔۔۔۔۔۔۔ ہر طرح مثال بیان کردی ہے ۔ وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا[ الزخرف 57] اور جب مریم (علیہ السلام) کے بیٹے ( عیسٰی کا حال بیان کیا گیا ۔ ما ضَرَبُوهُ لَكَ إِلَّا جَدَلًا[ الزخرف 58] انہوں نے عیسٰی کی جو مثال بیان کی ہے تو صرف جھگڑنے کو وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلَ الْحَياةِ الدُّنْيا[ الكهف 45] اور ان سے دنیا کی زندگی کی مثال بھی بیان کردو ۔ أَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحاً [ الزخرف 5] بھلا ( اس لئے کہ تم حد سے نکلے ہوے لوگ ہو ) ہم تم کو نصیحت کرنے سے باز رہیں گے ۔ المضاربۃ ایک قسم کی تجارتی شرکت ( جس میں ایک شخص کا سرمایہ اور دوسرے کی محنت ہوتی ہے اور نفع میں دونوں شریک ہوتے ہیں ) المضربۃ ( دلائی رضائی ) جس پر بہت سی سلائی کی گئی ہو ۔ التضریب اکسانا گویا اسے زمین میں سفر کی ترغیب دی جاتی ہے ۔ الا ضطراب کثرت سے آنا جانا حرکت کرنا یہ معنی ضرب الارض سے ماخوذ ہیں ۔ استضرب الناقۃ سانڈھے نے ناقہ پر جفتی کھانے کی خواہش کی ۔- رقب - الرَّقَبَةُ : اسم للعضو المعروف، ثمّ يعبّر بها عن الجملة، وجعل في التّعارف اسما للمماليك، كما عبّر بالرّأس وبالظّهر عنالمرکوب ، فقیل : فلان يربط کذا رأسا، وکذا ظهرا، قال تعالی: وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِناً خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ [ النساء 92] ، وقال : وَفِي الرِّقابِ- [ البقرة 177] ، أي : المکاتبین منهم، فهم الذین تصرف إليهم الزکاة . ورَقَبْتُهُ :- أصبت رقبته، ورَقَبْتُهُ : حفظته . - ( ر ق ب ) الرقبۃ - اصل میں گردن کو کہتے ہیں پھر رقبۃ کا لفظ بول کر مجازا انسان مراد لیا جاتا ہے اور عرف عام میں الرقبۃ غلام کے معنوں میں استعمال ہونے لگا ہے جیسا کہ لفظ راس اور ظھر بول کر مجازا سواری مراد لی جاتی ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے :۔ یعنی فلاں کے پاس اتنی سواریاں میں ۔ قرآن ہیں ہے : وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِناً خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ [ النساء 92] کہ جو مسلمان کو غلطی سے ( بھی ) مار ڈالے تو ایک مسلمان بردہ آزاد کرائے۔ اور رقبۃ کی جمع رقاب آتی ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ وَفِي الرِّقابِ [ البقرة 177] اور غلام کو آزاد کرنے میں ۔ مراد مکاتب غلام ہیں ۔ کیونکہ مال زکوۃ کے وہی مستحق ہوتے ہیں اور رقبتہ ( ن ) کے معنی گردن پر مارنے یا کسی کی حفاظت کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : لا يَرْقُبُونَ فِي مُؤْمِنٍ إِلًّا وَلا ذِمَّةً [ التوبة 10] کسی مسلمان کے بارے میں نہ تو قرابت کا پاس ملحوظ رکھتے ہیں اور نہ ہی عہد و پیمان کا ۔- حَتَّى- حَتَّى حرف يجرّ به تارة كإلى، لکن يدخل الحدّ المذکور بعده في حکم ما قبله، ويعطف به تارة، ويستأنف به تارة، نحو : أكلت السمکة حتی رأسها، ورأسها، ورأسها، قال تعالی: لَيَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف 35] ، وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر 5] .- ويدخل علی الفعل المضارع فينصب ويرفع،- وفي كلّ واحد وجهان :- فأحد وجهي النصب : إلى أن .- والثاني : كي .- وأحد وجهي الرفع أن يكون الفعل قبله ماضیا، نحو : مشیت حتی أدخل البصرة، أي :- مشیت فدخلت البصرة .- والثاني : يكون ما بعده حالا، نحو : مرض حتی لا يرجونه، وقد قرئ : حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة 214] ، بالنصب والرفع «1» ، وحمل في كلّ واحدة من القراء تین علی الوجهين . وقیل : إنّ ما بعد «حتی» يقتضي أن يكون بخلاف ما قبله، نحو قوله تعالی: وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء 43] ، وقد يجيء ولا يكون کذلک نحو ما روي :- «إنّ اللہ تعالیٰ لا يملّ حتی تملّوا» «2» لم يقصد أن يثبت ملالا لله تعالیٰ بعد ملالهم - حتی ٰ ( حرف ) کبھی تو الیٰ کی طرح یہ حرف جر کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے مابعد غایت ماقبل کے حکم میں داخل ہوتا ہے اور کبھی عاطفہ ہوتا ہے اور کبھی استیناف کا فائدہ دیتا ہے ۔ جیسے اکلت السملۃ حتی ٰ راسھا ( عاطفہ ) راسھا ( جارہ ) راسھا ( مستانفہ قرآن میں ہے ليَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف 35] کچھ عرصہ کے لئے نہیں قید ہی کردیں ۔ وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر 5] طلوع صبح تک ۔۔۔۔ جب یہ فعل مضارع پر داخل ہو تو اس پر رفع اور نصب دونوں جائز ہوتے ہیں اور ان میں ہر ایک کی دو وجہ ہوسکتی ہیں نصب کی صورت میں حتی بمعنی (1) الی آن یا (2) گی ہوتا ہے اور مضارع کے مرفوع ہونے ایک صورت تو یہ ہے کہ حتی سے پہلے فعل ماضی آجائے جیسے ؛۔ مشیت حتی ادخل ۔ البصرۃ ( یعنی میں چلا حتی کہ بصرہ میں داخل ہوا ) دوسری صورت یہ ہے کہ حتیٰ کا مابعد حال واقع ہو جیسے مرض حتی لایرجون و دو بیمار ہوا اس حال میں کہ سب اس سے ناامید ہوگئے ) اور آیت کریمۃ ؛۔ حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة 214] یہاں تک کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پکار اٹھے ۔ میں یقول پر رفع اور نصب دونوں منقول ہیں اور ان ہر دو قرآت میں دونوں معنی بیان کئے گئے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حتیٰ کا مابعد اس کے ماقبل کے خلاف ہوتا ہے ۔ جیسا ک قرآن میں ہے : وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء 43] ۔ اور جنابت کی حالت میں بھی نماز کے پاس نہ جاؤ ) جب تک کہ غسل ( نہ ) کرو ۔ ہاں اگر بحالت سفر رستے چلے جارہے ہو اور غسل نہ کرسکو تو تیمم سے نماز پڑھ لو ۔ مگر کبھی اس طرح نہیں بھی ہوتا جیسے مروی ہے ۔ اللہ تعالیٰ لاتمل حتی تملو ا ۔ پس اس حدیث کے یہ معنی نہیں ہیں کہ تمہارے تھک جانے کے بعد ذات باری تعالیٰ بھی تھک جاتی ہے ۔ بلکہ معنی یہ ہیں کہ ذات باری تعالیٰ کو کبھی ملال لاحق نہیں ہوتا ۔- ثخن - يقال ثَخُنَ الشیء فهو ثَخِين : إذا غلظ فلم يسل، ولم يستمر في ذهابه، ومنه استعیر قولهم :- أَثْخَنْتُهُ ضربا واستخفافا . قال اللہ تعالی: ما کان لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ [ الأنفال 67] ، حَتَّى إِذا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثاقَ [ محمد 4] .- ( ث خ ن ) ثخن ( ک ) الشیئء کے معنی ہیں کسی چیز کا گاڑھا ہوجانا اس طرح کہ بہنے سے رک جائے اسی سے بطور استعارہ کہا جاتا ہے ۔ میں نے اسے اتنا پیٹا کہ وہ اپنے مقام سے حرکت نہ کرسکا قرآن میں ہے : ۔ ما کان لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ [ الأنفال 67] پیغمبر کو شایاں نہیں کہ اس کے قبضے میں قیدی رہیں جب تک ( کافروں کو قتل کرکے ) زمین میں کثرت سے خون ( نہ ) بہا دے ۔ حَتَّى إِذا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثاقَ [ محمد 4] جب ان کو خوب قتل کرچکو تو ( جو زندہ پکڑلئے جائیں ان کو ) مضبوطی سے قید کرلو ۔- شد - الشَّدُّ : العقد القويّ. يقال : شَدَدْتُ الشّيء :- قوّيت عقده، قال اللہ : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان 28] ،- ( ش دد ) الشد - یہ شدد ت الشئی ( ن ) کا مصدر ہے جس کے معنی مضبوط گرہ لگانے کے ہیں ۔ قرآں میں ہے - : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان 28] اور ان کے مفاصل کو مضبوط بنایا ۔ - وثق - وَثِقْتُ به أَثِقُ ثِقَةً : سکنت إليه واعتمدت عليه، وأَوْثَقْتُهُ : شددته، والوَثَاقُ والوِثَاقُ : اسمان لما يُوثَقُ به الشیء، والوُثْقَى: تأنيث الأَوْثَق . قال تعالی: وَلا يُوثِقُ وَثاقَهُ أَحَدٌ [ الفجر 26] ، حَتَّى إِذا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثاقَ [ محمد 4] - والمِيثاقُ :- عقد مؤكّد بيمين وعهد، قال : وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثاقَ النَّبِيِّينَ [ آل عمران 81] ، وَإِذْ أَخَذْنا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثاقَهُمْ [ الأحزاب 7] ، وَأَخَذْنا مِنْهُمْ مِيثاقاً غَلِيظاً [ النساء 154] - والمَوْثِقُ الاسم منه . قال : حَتَّى تُؤْتُونِ مَوْثِقاً مِنَ اللَّهِ إلى قوله : مَوْثِقَهُمْ [يوسف 66] - ( و ث ق )- وثقت بہ اثق ثقتہ ۔ کسی پر اعتماد کرنا اور مطمئن ہونا ۔ اوثقتہ ) افعال ) زنجیر میں جکڑنا رسی سے کس کر باندھنا ۔ اولوثاق والوثاق اس زنجیر یارسی کو کہتے ہیں جس سے کسی چیز کو کس کو باندھ دیا جائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا يُوثِقُ وَثاقَهُ أَحَدٌ [ الفجر 26] اور نہ کوئی ایسا جکڑنا چکڑے گا ۔- حَتَّى إِذا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثاقَ [ محمد 4] یہ ان تک کہ جب ان کو خوب قتل کرچکو تو ( جو زندہ پکڑے جائیں ان کو قید کرلو ۔- المیثاق - کے معنی پختہ عہدو پیمان کے ہیں جو قسموں کے ساتھ موکد کیا گیا ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثاقَ النَّبِيِّينَ [ آل عمران 81] اور جب ہم نے پیغمبروں سے عہد لیا ۔ وَأَخَذْنا مِنْهُمْ مِيثاقاً غَلِيظاً [ النساء 154] اور عہد بھی ان سے پکالیا ۔- الموثق - ( اسم ) پختہ عہد و پیمان کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى تُؤْتُونِ مَوْثِقاً مِنَ اللَّهِ إلى قوله : مَوْثِقَهُمْ [يوسف 66] کہ جب تک تم خدا کا عہد نہ دو ۔- منن - والمِنَّةُ : النّعمة الثّقيلة، ويقال ذلک علی وجهين : أحدهما : أن يكون ذلک بالفعل، فيقال : منَّ فلان علی فلان : إذا أثقله بالنّعمة، وعلی ذلک قوله : لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران 164]- والثاني : أن يكون ذلک بالقول،- وذلک مستقبح فيما بين الناس إلّا عند کفران النّعمة، ولقبح ذلک قيل : المِنَّةُ تهدم الصّنيعة «4» ، ولحسن ذكرها عند الکفران قيل : إذا کفرت النّعمة حسنت المنّة . وقوله : يَمُنُّونَ عَلَيْكَ أَنْ أَسْلَمُوا قُلْ لا تَمُنُّوا عَلَيَّ إِسْلامَكُمْ [ الحجرات 17] فالمنّة منهم بالقول، ومنّة اللہ عليهم بالفعل، وهو هدایته إيّاهم كما ذكر، - ( م ن ن ) المن - المن کے معنی بھاری احسان کے ہیں اور یہ دوطرح پر ہوتا ہے ۔ ایک منت بالفعل جیسے من فلان علیٰ فلان یعنی فلاں نے اس پر گرا انبار احسان کیا ۔ اسی معنی میں فرمایا : ۔ لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران 164] خدا نے مومنوں پر بڑا احسان گیا ہے ۔- اور دوسرے معنی منۃ بالقول - یعنی احسان جتلانا گو انسانی معاشرہ میں معیوب سمجھا جاتا ہے مگر جب کفران نعمت ہو رہا ہو تو اس کے اظہار میں کچھ قباحت نہیں ہے اور چونکہ ( بلاوجہ اس کا اظہار معیوب ہے اس لئے مشہور ہے ، المنۃ تھدم الصنیعۃ منت یعنی احسان رکھنا احسان کو بر باد کردیتا ہے اور کفران نعمت کے وقت چونکہ اس کا تذکرہ مستحن ہوتا ہے اس لئے کسی نے کہا ہے : جب نعمت کی ناشکری ہو تو احسان رکھنا ہیں مستحن ہے اور آیت کریمہ : ۔ يَمُنُّونَ عَلَيْكَ أَنْ أَسْلَمُوا قُلْ لا تَمُنُّوا عَلَيَّ إِسْلامَكُمْ [ الحجرات 17] یہ لوگ تم احسان رکھتے ہیں ۔ کہ مسلمان ہوگئے ہیں ، کہدو کہ اپنے مسلمان ہونے کا مجھ پر احسان نہ رکھو ۔ بلکہ خدا تم پر احسان رکھتا ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کا رستہ دکھایا ۔ میں ان کی طرف سے منت بالقوم یعنی احسان جتلانا مراد ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے منت بالفعل یعنی انہیں ایمان کی نعمت سے نواز نامراد ہے۔- فدی - الفِدَى والفِدَاءُ : حفظ الإنسان عن النّائبة بما يبذله عنه، قال تعالی: فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِداءً- [ محمد 4] ، يقال : فَدَيْتُهُ بمال، وفدیته بنفسي، وفَادَيْتُهُ بکذا، قال تعالی: إِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ [ البقرة 85] ، وتَفَادَى فلان من فلان، أي : تحامی من شيء بذله . وقال :- وَفَدَيْناهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ [ الصافات 107] ، وافْتَدى: إذا بذل ذلک عن نفسه، قال تعالی:- فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ [ البقرة 229] ، وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ [ البقرة 85] ، والمُفَادَاةُ : هو أن يردّ أسر العدی ويسترجع منهم من في أيديهم، قال : وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْا بِهِ [ الرعد 18] ، لَافْتَدَتْ بِهِ [يونس 54] ، ولِيَفْتَدُوا بِهِ [ المائدة 36] ، وَلَوِ افْتَدى بِهِ [ آل عمران 91] ، لَوْ يَفْتَدِي مِنْ عَذابِ يَوْمِئِذٍ بِبَنِيهِ [ المعارج 11] ، وما يقي به الإنسان نفسه من مال يبذله في عبادة قصّر فيها يقال له : فِدْيَةٌ ، ككفّارة الیمین، وكفّارة الصّوم .- نحو قوله : فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيامٍ أَوْ صَدَقَةٍ [ البقرة 196] ، فِدْيَةٌ طَعامُ مِسْكِينٍ [ البقرة 184]- ( ف د ی ) الفدٰی والفداء - کے معنی کسی کی جانب سے کچھ دیگر اسے مصیبت سے بچالینا کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِداءً [ محمد 4] پھر اس کے بعد یا تو احسان رکھ کر چھوڑ دینا چاہئے ۔ یا کچھ مال لے لر ۔ چناچہ محاورہ فدیتہ بمال میں نے کچھ خرچ کر کے اسے مصیبت سے بچالیا فدیتہ منفسی میں نے اپنی جان کے عوض اسے چھڑالیا فاواہُ بکذا ۔ اس نے کچھ دے کت اسے چھڑا لیا قرآن میں ہے ۔ إِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ [ البقرة 85] اور اگر وہ تمہارے پاس قید ہوکر آئیں تو بدلہ دے کر انہیں چھڑا بھی لیتے ہو ۔ تفادیٰ فلان من فلان کسی کا فدیہ دے کر اس کو چھڑالینا ۔ وَفَدَيْناهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ [ الصافات 107] اور ہم نے ایک بڑی قربانی کو ان کا فدیہ دیا ۔ افتدیٰ کے معنی خواہ اپنے کو مال کے عوض چھڑانے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ [ البقرة 229] رہائی پانے کے بدلے میں وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْا بِهِ [ الرعد 18]( تو وہ سب کے سب ) اور ان کے ساتھ ہی اتنے اور ( نجات کے ) بدلے میں صرف کر ڈالیں ۔ لَافْتَدَتْ بِهِ [يونس 54] تو ( عذاب سے بچنے کے لئے ( سب ) دے ڈالے ۔ ولِيَفْتَدُوا بِهِ [ المائدة 36] تاکہ بدلہ دیں۔ وَلَوِ افْتَدى بِهِ [ آل عمران 91] اگر بدلے میں دیں لَوْ يَفْتَدِي مِنْ عَذابِ يَوْمِئِذٍ بِبَنِيهِ [ المعارج 11] کہ کسی طرح اس دن کے عذاب کے بدلے میں ( سب کچھادے ڈالے یعنی بیٹے اور جو مال کسی عبادت میں کوتاہی کرنے کی وجہ سے - خرچ کر کے انسان خود اپنے کو گناہ سے بچاتا ہے اسے بھی فدیتہ کہا جاتا ہے جیسا کہ کفار یمین اور صوم کے متعلق فرمایا ۔ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيامٍ أَوْ صَدَقَةٍ [ البقرة 196] تو اس کے بدلے روزے رکھے یا صدقے دے یا قربانی کرے ۔ فِدْيَةٌ طَعامُ مِسْكِينٍ [ البقرة 184] روزے کے بدلے محتاج کو کھانا کھلادیں ۔- وضع - الوَضْعُ أعمّ من الحطّ ، ومنه : المَوْضِعُ. قال تعالی: يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ- [ النساء 46] ويقال ذلک في الحمل والحمل، ويقال : وَضَعَتِ الحملَ فهو مَوْضُوعٌ. قال تعالی: وَأَكْوابٌ مَوْضُوعَةٌ [ الغاشية 14] ، وَالْأَرْضَ وَضَعَها لِلْأَنامِ [ الرحمن 10] فهذا الوَضْعُ عبارة عن الإيجاد والخلق، ووَضَعَتِ المرأةُ الحمل وَضْعاً. قال تعالی: فَلَمَّا وَضَعَتْها قالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُها أُنْثى وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِما وَضَعَتْ [ آل عمران 36] فأما الوُضْعُ والتُّضْعُ فأن تحمل في آخر طهرها في مقبل الحیض . ووَضْعُ البیتِ : بناؤُهُ. قال اللہ تعالی:- إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ [ آل عمران 96] ، وَوُضِعَ الْكِتابُ [ الكهف 49] هو إبراز أعمال العباد نحو قوله : وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ كِتاباً يَلْقاهُ مَنْشُوراً [ الإسراء 13] ووَضَعَتِ الدابَّةُ تَضَعُ في سيرها وَضْعاً : أسرعت، ودابّة حسنةُ المَوْضُوعِ ، وأَوْضَعْتُهَا : حملتها علی الإسراع . قال اللہ عزّ وجلّ : وَلَأَوْضَعُوا خِلالَكُمْ [ التوبة 47] والوَضْعُ في السیر استعارة کقولهم : ألقی باعه وثقله، ونحو ذلك، والوَضِيعَةُ : الحطیطةُ من رأس المال، وقد وُضِعَ الرّجلُ في تجارته يُوضَعُ : إذا خسر، ورجل وَضِيعٌ بيّن الضعَةِ في مقابلة رفیع بيّن الرّفعة .- ( و ض ع ) الواضع - ( نیچے رکھ دینا ) یہ حطه سے عام ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَأَكْوابٌ مَوْضُوعَةٌ [ الغاشية 14] اور آبخورے ( قرینے سے ) رکھے ہوئے ۔ اور اسی سے موضع ہے جس کی جمع مواضع آتی - ہے جس کے معنی ہیں جگہیں یا موقعے جیسے فرمایا : ۔ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ [ النساء 46] یہ لوگ کلمات ( کتاب ) کو ان کے مقامات سے بدل دیتے ۔ اور وضع کا لفظ وضع حمل اور بوجھ اتارنے کے معنی میں آتا ہے چناچہ محاورہ ہے وضعت لمرءۃ الحمل وضعا عورت نے بچہ جنا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَلَمَّا وَضَعَتْها قالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُها أُنْثى وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِما وَضَعَتْ [ آل عمران 36] جب ان کے ہاں بچہ پیدا ہوا اور جو کچھ ان کے ہاں پیدا ہوا تھا خدا کو خوب معلوم تھا تو کہنے لگیں کہ پروردگار میرے تو لڑکی ہوئی ہے ۔ لیکن الوضع والتضع کے معنی عورت کے آخر طہر میں حاملہ ہونے کے ہیں ۔ وضعت الحمل میں نے بوجھ اتار دیا اور اتارے ہوئے بوجھ کو موضوع کہا جاتا ہے اور آیت : ۔ وَالْأَرْضَ وَضَعَها لِلْأَنامِ [ الرحمن 10] اور اسی نے خلقت کے لئے زمین بچھائی ۔ میں وضع سے مراد خلق وایجا د ( یعنی پیدا کرنا ) ہے اور وضع البیت کے معنی مکان بنانے کے آتے ہیں چناچہ قرآن پا ک میں ہے : ۔ إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ [ آل عمران 96] پہلا گھر جو لوگوں کے عبادت کرنے کیلئے بنایا کیا گیا تھا ۔ اور آیت کریمہ : وَوُضِعَ الْكِتابُ [ الكهف 49] اور عملوں کی کتاب کھول کر رکھی جائے گی ۔ میں وضع کتاب سے قیامت کے دن اعمال کے دفتر کھولنا اور ان کی جزا دینا مراد ہے ۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ كِتاباً يَلْقاهُ مَنْشُوراً [ الإسراء 13] اور قیامت کے دن وہ کتاب اسے نکال دکھائیں گے جسے وہ کھلا ہوا دیکھے گا ۔ وضعت ( ف ) الدابۃ فی سیر ھا : سواری تیز رفتاری سے چلی اور تیز رفتار سواری کو حسنتہ المواضع ( وحسن المواضع کہا جاتا ہے ۔ اوضع تھا میں نے اسے دوڑایا قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلَأَوْضَعُوا خِلالَكُمْ [ التوبة 47] اور تم میں ( فساد دلوانے کی غرض ) سے دوڑے دوڑے پھرتے ۔ اور وضع کا لفظ سیر یعنی چلنے کے معنی میں بطور استعارہ استعمال ہوتا ہے جیسا کہ القی باعہ وثقلہ : میں قیام کرنے سے کنایہ ہوتا ہے ۔ الوضیعۃ :( رعایت ) کمی جو اصل قمیت میں کی جائے اس نے تجارت میں نقصان اٹھایا رجل وضیع : نہایت خسیس آدمی ( باب کرم ) یہ رفیع کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے جس کے معنی بلند قدر کے ہیں ۔ - حرب - الحَرْبُ معروف، والحَرَب : السّلب في الحرب ثم قد سمّي كل سلب حربا، قال :- والحرب فيه الحرائب، وقال :- والحرب مشتقة المعنی من الحرب - «5» وقد حُرِبَ فهو حَرِيب، أي : سلیب، والتّحریب : إثارة الحرب، ورجل مِحْرَب، كأنه آلة في الحرب، والحَرْبَة : آلة للحرب معروفة، وأصله الفعلة من الحرب أو من الحراب، ومِحرابُ المسجد - قيل : سمّي بذلک لأنه موضع محاربة الشیطان والهوى، وقیل : سمّي بذلک لکون حقّ الإنسان فيه أن يكون حریبا من أشغال الدنیا ومن توزّع الخواطر، وقیل : الأصل فيه أنّ محراب البیت صدر المجلس، ثم اتّخذت المساجد فسمّي صدره به، وقیل : بل المحراب أصله في المسجد، وهو اسم خصّ به صدر المجلس، فسمّي صدر البیت محرابا تشبيها بمحراب المسجد، وكأنّ هذا أصح، قال عزّ وجل :- يَعْمَلُونَ لَهُ ما يَشاءُ مِنْ مَحارِيبَ وَتَماثِيلَ [ سبأ 13] .- والحِرْبَاء : دویبة تتلقی الشمس كأنها تحاربها، والحِرْبَاء : مسمار، تشبيها بالحرباء التي هي دویبة في الهيئة، کقولهم في مثلها : ضبّة وکلب، تشبيها بالضبّ والکلب .- ( ح ر ب ) الحرب جنگ کا راز ۔ اور فتحۃ را کے ساتھ لڑائی میں کسی کا مال چھیننے کے ہیں پھر ہر قسم کے سب کے حرب کہاجاتا ہے اور حرب معنوی لحاظ سے حرب سے مشتق ہے کہا جاتا ہے ۔ حرب الرجل ان کا سامان چھین لیا گیا فھو حریب یعنی لٹا ہوا ۔ التحریب لڑائی کا بھڑکا نا ۔ رجل محرب جنگجو گویا وہ لڑائی بھڑکانے کا آلہ ہے ۔ الحربۃ بر چھا ۔ اصل میں یہ حرب یا حراب سے فعلۃ کے وزن پر ہے اور مسجد کے محراب کو محراب یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ شیطان اور خواہشات نفسانی سے جنگ کرنے کی جگہ ہے اور یا اس لئے کہ اس جگہ میں کھڑے ہو کر عبادت کرنیوالے پر حق یہ ہے کہ دنیوی کاروبار ۔ اور پریشان خیالیوں سے یک سو ہوجانے ۔ بعض کہتے ہیں کہ اصل میں محراب البیت صدر مجلس کو کہتے ہیں اسی بنا پر جب مسجد میں امام کی گہ بنائی گئی تو اسے بھی محراب کہہ دیا گیا ۔ اور بعض نے اس کے برعکس محراب المسجد کو اصل اور محراب البیت کو اس کی فرع نانا ہے اور یہی زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ يَعْمَلُونَ لَهُ ما يَشاءُ مِنْ مَحارِيبَ وَتَماثِيلَ [ سبأ 13] وہ جو چاہتے یہ ان کے لئے بناتے یعنی محراب اور مجسمے ۔ الحرباء گرگٹ کیونکہ وہ سورج کے سامنے اس طرح بیٹھ جاتی ہے گویا اس سے جنگ کرنا چاہتی ہے نیز زرہ کے حلقہ یا میخ کو بھی صوری مشابہت کی بنا پر حرباء کہاجاتا ہے جیسا کہ ضب اور کلب کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے اس کی بعض حصوں کو ضبہ اور کلب کہہ دیتے ہیں ۔ - وزر - الوَزَرُ : الملجأ الذي يلتجأ إليه من الجبل .- قال تعالی: كَلَّا لا وَزَرَ إِلى رَبِّكَ [ القیامة 11] والوِزْرُ : الثّقلُ تشبيها بِوَزْرِ الجبلِ ، ويعبّر بذلک عن الإثم کما يعبّر عنه بالثقل . قال تعالی:- لِيَحْمِلُوا أَوْزارَهُمْ كامِلَةً (يَوْمَ الْقِيامَةِ ) وَمِنْ أَوْزارِ الَّذِينَ يُضِلُّونَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ أَلا ساءَ ما يَزِرُونَ- [ النحل 25] ، کقوله : وَلَيَحْمِلُنَّ أَثْقالَهُمْ وَأَثْقالًا مَعَ أَثْقالِهِمْ [ العنکبوت 13] وحمل وِزْر الغیرِ في الحقیقة هو علی نحو ما أشار إليه صلّى اللہ عليه وسلم بقوله : «من سنّ سنّة حسنة کان له أجرها وأجر من عمل بها من غير أن ينقص من أجره شيء، ومن سنّ سنّة سيّئة کان له وِزْرُهَا ووِزْرُ من عمل بها» أي : مثل وِزْرِ مَن عمل بها . وقوله تعالی: وَلا تَزِرُ وازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرى[ الأنعام 164] أي : لا يحمل وِزْرَهُ من حيث يتعرّى المحمول عنه، وقوله : وَوَضَعْنا عَنْكَ وِزْرَكَ الَّذِي أَنْقَضَ ظَهْرَكَ [ الشرح 2- 3] ، أي : ما کنت فيه من أمر الجاهليّة، فأعفیت بما خصصت به عن تعاطي ما کان عليه قومک، والوَزِيرُ : المتحمِّلُ ثقل أميره وشغله، والوِزَارَةُ علی بناء الصّناعة . وأَوْزَارُ الحربِ واحدها وِزْرٌ: آلتُها من السّلاح، والمُوَازَرَةُ : المعاونةُ. يقال : وَازَرْتُ فلاناً مُوَازَرَةً : أعنته علی أمره . قال تعالی: وَاجْعَلْ لِي وَزِيراً مِنْ أَهْلِي[ طه 29] ، وَلكِنَّا حُمِّلْنا أَوْزاراً مِنْ زِينَةِ الْقَوْمِ [ طه 87] .- ( و ز ر ) الوزر - ۔ پہاڑ میں جائے پناہ ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَلَّا لا وَزَرَ إِلى رَبِّكَ [ القیامة 11] بیشک کہیں پناہ نہیں اس روز پروردگار ہی کے پاس جانا ہے ۔ الوزر ۔ کے معنی بار گراں کے ہیں اور یہ معنی وزر سے لیا گیا ہے جس کے معنی پہاڑ میں جائے پناہ کے ہیں اور جس طرح مجازا اس کے معنی بوجھ کے آتے ہیں اسی طرح وزر بمعنی گناہ بھی آتا ہے ۔ ( اسی کی جمع اوزار ہے ) جیسے فرمایا : ۔ لِيَحْمِلُوا أَوْزارَهُمْ كامِلَةً (يَوْمَ الْقِيامَةِ ) وَمِنْ أَوْزارِ الَّذِينَ يُضِلُّونَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ أَلا ساءَ ما يَزِرُونَ [ النحل 25]( اے پیغمبر ان کو بکنے دو ) یہ قیامت کے دن اپنے ( اعمال کے ) پورے سے بوجھ بھی اٹھائیں گے اور جن کو یہ بےتحقیق گمراہ کرتے ہیں ان کے بوجھ بھی ( اٹھائیں گے ) جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَلَيَحْمِلُنَّ أَثْقالَهُمْ وَأَثْقالًا مَعَ أَثْقالِهِمْ [ العنکبوت 13] اور یہ اپنے بوجھ بھی اٹھائیں گے اور اپنے بوجھوں کے ساتھ اور بوجھ بھی ۔ اور دوسروں کو بوجھ اٹھانے کے حقیقت کیطرف آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا من سن سنتہ حسنتہ کان لہ اجرھا واجر من عمل بھا من غیران ینقض من اجرہ شیئ ومن سن سنتہ سیئتہ کان لہ وزرھا ووزر من عمل بھا کی جس شخص نے اچھا طریقہ جاری کیا اسے اس کا اجر ملے گا اور ان لوگوں کا بھی اجر ملے گا جو اس پر عمل کریں گے بدوں اس کے کہ ان کے اجر میں کسی قسم کی کمی ہو اور جس نے بری رسم جاری کی اس کا بوجھ ہوگا اور ان لوگوں کا بھی جو اس پر عمل کریں گے ۔ تویہاں ان لوگوں کے اجر یا بوجھ سے ان کی مثل اجر یا بوجھ مراد ہے۔ اور آیت کریمہ : ۔ میں بھی یہی معنی مراد ہیں اور آیت : ۔ وَلا تَزِرُ وازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرى[ الأنعام 164] اور کوئی شخص کسی ( کے گناہ ) کا بوجھ نہیں اٹھائیگا ۔ سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص دوسرے کا بوجھ اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ محمول عنہ یعنی وہ دوسرا اس گناہ سے بری ہوجائے لہذا ان دونوں میں کوئی منافات نہیں ہے اور آیت : ۔ وَوَضَعْنا عَنْكَوِزْرَكَ الَّذِي أَنْقَضَ ظَهْرَكَ [ الشرح 2- 3] اور تم پر سے بوجھ بھی اتار دیا ۔ میں وزر سے مراد وہ لغزشیں ہیں جو جاہلی معاشرہ کے رواج کے مطابق قبل از نبوت آنحضرت سے سر زد ہوئی تھیں ۔ الوزیر وہ ہے جو امیر کا بوجھ اور اس کی ذمہ داریاں اٹھائے ہوئے ہو ۔ اور اس کے اس عہدہ کو وزارۃ کہا جاتا ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ وَاجْعَلْ لِي وَزِيراً مِنْ أَهْلِي[ طه 29] اور میرے گھر والوں میں سے ( ایک کو ) میرا وزیر ( یعنی مدد گار امقر ر فرمایا ۔ ارزار الحرب اس کا مفرد ورر ہے اور اس سے مراد اسلحہ جنگ ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَلكِنَّا حُمِّلْنا أَوْزاراً مِنْ زِينَةِ الْقَوْمِ [ طه 87] بلکہ ہم لوگوں کے زیوروں کا بوجھ اٹھائے ہوئے تھے ۔ میں زیورات کے بوجھ مراد ہیں ۔ الموزراۃ ( مفاعلۃ ) کے معنی ایک دوسرے کی مدد کرنے کے ہیں اور وازرت فلانا موازرۃ کے معنی ہیں میں نے اس کی مدد کی ۔- لو - لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] .- ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ - شاء - والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] ، قال الکفّار : الأمر إلينا إن شئنا استقمنا، وإن شئنا لم نستقم، فأنزل اللہ تعالیٰ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ وقال بعضهم : لولا أن الأمور کلّها موقوفة علی مشيئة اللہ تعالی، وأنّ أفعالنا معلّقة بها وموقوفة عليها لما أجمع الناس علی تعلیق الاستثناء به في جمیع أفعالنا نحو : سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات 102] ، سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف 69] ، يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود 33] ، ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف 69] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف 188] ، وَما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ رَبُّنا [ الأعراف 89] ، وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف 24] .- ( ش ی ء ) الشیئ - المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق سے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ نازل ہوئی تو کفار نے کہا ہے یہ معاملہ تو ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم چاہیں تو استقامت اختیار کریں اور چاہیں تو انکار کردیں اس پر آیت کریمہ ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» نازل ہوئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ اگر تمام امور اللہ تعالیٰ کی مشیئت پر موقوف نہ ہوتے اور ہمارے افعال اس پر معلق اور منحصر نہ ہوتے تو لوگ تمام افعال انسانیہ میں انشاء اللہ کے ذریعہ اشتشناء کی تعلیق پر متفق نہیں ہوسکتے تھے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّه مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات 102] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائے گا ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف 69] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے ۔ يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود 33] اگر اس کو خدا چاہے گا تو نازل کریگا ۔ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف 69] مصر میں داخل ہوجائیے خدا نے چاہا تو ۔۔۔۔۔۔۔ قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف 188] کہدو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو خدا چاہے وما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّہُ رَبُّنا [ الأعراف 89] ہمیں شایان نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں ہاں خدا جو ہمارا پروردگار ہے وہ چاہے تو ( ہم مجبور ہیں ) ۔ وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف 24] اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا مگر ان شاء اللہ کہہ کر یعنی اگر خدا چاہے ۔- انْتِصَارُ والاسْتِنْصَارُ- وَالانْتِصَارُ والاسْتِنْصَارُ : طلب النُّصْرَة وَالَّذِينَ إِذا أَصابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنْتَصِرُونَ [ الشوری 39] ، وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ [ الأنفال 72] ، وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ [ الشوری 41] ، فَدَعا رَبَّهُ أَنِّي مَغْلُوبٌ فَانْتَصِرْ [ القمر 10] وإنما قال :«فَانْتَصِرْ» ولم يقل : انْصُرْ تنبيهاً أنّ ما يلحقني يلحقک من حيث إنّي جئتهم بأمرك، فإذا نَصَرْتَنِي فقد انْتَصَرْتَ لنفسک، وَالتَّنَاصُرُ : التَّعاوُن . قال تعالی: ما لَكُمْ لا تَناصَرُونَ [ الصافات 25]- لا نتصار والانتنصار کے منعی طلب نصرت کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَالَّذِينَ إِذا أَصابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنْتَصِرُونَ [ الشوری 39] اور جو ایسے ہیں کہ جب ان پر ظلم وتعدی ہو تو مناسب طریقے سے بدلہ لیتے ہیں ۔ وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ [ الأنفال 72] اور اگر وہ تم سے دین کے معاملات میں مدد طلب کریں تو تم کو مدد کرتی لا زم ہے ۔ وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ [ الشوری 41] اور جس پر ظلم ہوا ہو وہ اگر اس کے بعد انتقام لے ۔ فَدَعا رَبَّهُ أَنِّي مَغْلُوبٌ فَانْتَصِرْ [ القمر 10] تو انہوں نے اپنے پروردگار سے دعا کی کہ ( بار الہ میں ان کے مقابلے میں کمزور ہوں ان سے ) بدلہ لے ۔ میں انصر کی بجائے انتصر کہنے سے بات پر متنبہ کیا ہے کہ جو تکلیف مجھے پہنچ رہی ہے وہ گویا تجھے ذات باری تعالیٰ پہنچ رہی ہے وہ گویا تجھے ( ذات باری تعا لی پہنچ رہی ہے کیو ن کہ میں تیرے حکم سے ان کے پاس گیا تھا لہذا میری مدد فر مانا گو یا یا تیرا اپنی ذات کے لئے انتقام لینا ہے ۔ لتنا صر کے معنی باہم تعاون کرنے کے ہیں ۔ چنا نچہ قرآن میں ہے : ما لَكُمْ لا تَناصَرُونَ [ الصافات 25] تم کو کیا ہوا کہ ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے ۔- بلی - يقال : بَلِيَ الثوب بِلًى وبَلَاءً ، أي : خلق، ومنه قيل لمن سافر : بلو سفر وبلي سفر، أي :- أبلاه السفر، وبَلَوْتُهُ : اختبرته كأني أخلقته من کثرة اختباري له، وقرئ : هُنالِكَ تَبْلُوا كُلُّ نَفْسٍ ما أَسْلَفَتْ «3» [يونس 30] ، أي : تعرف حقیقة ما عملت، ولذلک قيل : بلوت فلانا : إذا اختبرته، وسمّي الغم بلاءً من حيث إنه يبلي الجسم، قال تعالی: وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة 49] - ( ب ل ی )- بلی الثوب ۔ بلی وبلاء کے معنی کپڑے کا بوسیدہ اور پرانا ہونے کے ہیں اسی سے بلاہ السفرہ ای ابلاہ ۔ کا تج اور ہ ہے ۔ یعنی سفر نے لا غر کردیا ہے اور بلو تہ کے معنی ہیں میں نے اسے آزمایا ۔ گویا کثرت آزمائش سے میں نے اسے کہنہ کردیا اور آیت کریمہ : هُنالِكَ تَبْلُوا كُلُّ نَفْسٍ ما أَسْلَفَتْ «3» [يونس 30] وہاں ہر شخص ( اپنے اعمال کی ) جو اس نے آگے بھیجے ہوں گے آزمائش کرلے گا ۔ میں ایک قرآت نبلوا ( بصیغہ جمع متکلم ) بھی ہے اور معنی یہ ہیں کہ وہاں ہم ہر نفس کے اعمال کی حقیقت کو پہنچان لیں گے اور اسی سے ابلیت فلان کے معنی کسی کا امتحان کرنا بھی آتے ہیں ۔ اور غم کو بلاء کہا جاتا ہے کیونکہ وہ جسم کو کھلا کر لاغر کردیتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة 49] اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی دسخت آزمائش تھی ۔- بعض - بَعْضُ الشیء : جزء منه، ويقال ذلک بمراعاة كلّ ، ولذلک يقابل به كلّ ، فيقال : بعضه وكلّه، وجمعه أَبْعَاض . قال عزّ وجلّ : بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] - ( ب ع ض ) بعض - الشئی ہر چیز کے کچھ حصہ کو کہتے ہیں اور یہ کل کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اسلئے کل کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے : بعضہ وکلہ اس کی جمع ابعاض آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ - قتل - أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] - ( ق ت ل ) القتل - ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144]- سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔- ضل - الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] - ( ض ل ل ) الضلال - ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

کافر سے مختلف احوال میں مختلف سلوک کیا جائے گا - قول باری ہے (فاذا لقیتم الذین کفروافضرب الرقاب۔ سو جب تمہارا مقابلہ کافروں سے ہوجائے تو ان کی گردنیں مارتے چلو) ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ ظاہر آیت کافروں کے وجوب قتل کا مقتضی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی اور صورت صرف اس وقت اختیار کی جائے جب کافروں کا اچھی طرح خون بہا لیا جائے۔ اس کی نظیر یہ قول باری ہے (ماکان لنبی ان یکون لہ اسزی حتی یثخن فی الارض نبی کے لئے یہ مناسب نہیں کہ اس کے ہاتھوں میں قیدی ہوں یہاں تک کہ وہ زمین میں اچھی طرح خون نہ بہالے۔ )- ہمیں جعفر بن محمد بن الحکم نے روایت بیان کی، انہیں جعفر بن محمد الیمان نے، انہیں ابوعبید نے، انہیں عبداللہ بن صالح نے معاویہ بن صالح سے، انہوں نے علی بن ابی طلحہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے درج بالا آیت کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ خون بہانے کا یہ حکم معرکہ بدر کے دن دیا گیا تھا، اس وقت مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی، لیکن جب ان کی تعداد بڑھ گئی اور ان کا غلبہ ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے قیدیوں کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی (فاما منا بعد واما فدآء پھر اس کے بعد یا محض احسان کرکے (انہیں چھوڑ دو ) یا معاوضہ لے کر (انہیں جانے دو ) ) اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو قیدیوں کے بارے میں یہ اختیار دے دیا کہ اگر چاہیں تو انہیں قتل کردیں اور اگر چاہیں تو غلام بنالیں یا فدیہ لے کر چھوڑ دیں۔ ابوعبید کو اس فقرے کے بارے میں شک ہے کہ ” اگر چاہیں تو انہیں غلام بنالیں۔- ہمیں جعفر بن محمد نے روایت بیان کی، انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے، انہیں ابوعبید نے انہیں ابومہدی اور حجاج نے سفیان سے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے السدی کو قول باری (فاما منا بعد واما فداء) کی تفسیر میں یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ یہ آیت منسوخ ہوچکی ہے، اس کی ناسخ یہ آیت ہے۔ (فاقتلوا المشرکین حیث وجدتموھم)- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ قول باری (فاذا لقیتم الذین کفروا فضرب الرقاب) نیز (ماکان لنبی ان یکون لہ اسری حتی یثخن فی الارض) نیز (فاما تثقفنھم فی العرب فشردبھم من خلفھم) کے حکم کا ثابت ہونا اور منسوخ نہ ہونا بعید از امکان نہیں ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو زمین میں کافروں کا خون بہانے کا حکم دیا اور انہیں قیدی بنانے کی صرف اسی صورت میں اجازت دی جب انہیں پوری طرح دبا دیاجائے اور ان کا قلع قمع کردیا جائے۔- یہ حکم اس وقت کے لئے تھا جب مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی اور مشرکین کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ جب مشرکین کا خون بہہ گیا اور قتل ہونے کی بنا پر وہ پوری طرح ذلیل ہوگئے اور منتشر کردیے گئے تو اب انہیں باقی رکھنا جائز ہوگیا۔ اس لئے ضروری ہے کہ یہ حکم اس وقت بھی ثابت تسلیم کیا جائے جب صورت حال صدراسلام کی صورت حال جیسی ہو۔- رہ گیا قول باری (فاما منا بعدو اما فداء) تو ظاہری طور پر یہ دو میں سے ایک بات کا مقتضی ہے یا تو احسان کرکے انہیں چھوڑ دیا جائے یا فدیہ لے کر انہیں جانے دیا جائے اور یہ چیز قتل کے جواز کی نفی کرتی ہے۔- اس بارے میں سلف کے مابین بھی اختلاف رائے ہے۔ ہمیں جعفر بن محمد نے روایت بیان کی ہے۔ انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے، انہیں ابو عبید نے، انہیں حجاج نے مبارک بن فضالہ سے اور انہوں نے حسن سے کہ انہوں نے قیدی کو قتل کردینا پسند نہیں کیا ہے بلکہ کہا ہے کہ اس پر احسان کرکے اسے چھوڑ دیا جائے یا فدیہ لے کر جانے دیا جائے۔- ہمیں جعفر بن محمد نے روایت بیان کی انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے، انہیں ابو عبید نے، انہیں ہیثم نے اور انہیں اشعث نے ۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے قیدی کو قتل کردینے کے متعلق عطاء سے سوال کیا۔ انہوں نے جواب دیا۔” اس پر احسان کرو یا اس سے فدیہ لے لو۔ “ وہ کہتے ہیں کہ میں نے حسن سے اس مسئلے کے متعلق پوچھا تو انہوں نے جواب دیا۔ ” اس کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر کے قیدیوں کے ساتھ کیا تھا، اس پر یا تو احسان کیا جائے یا فدیہ لے کر اس چھوڑ دیا جائے۔ “- حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ ان کے پاس اصطخر کے علاقے کا ایک سردار لایا گیا اور ان سے اسے قتل کردینے کے لئے کہا گیا لیکن انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کردیا اور زیر بحث آیت پڑھ کر سنائی۔ مجاہد اور ابن سیرین سے بھی قیدی کو قتل کردینے کی کراہت منقول ہے۔ ہم نے سدی سے ان کا یہ قول بھی نقل کردیا ہے کہ زیر بحث آیت قول باری (فاقتلوا المشرکین حیث وجدتموھم) کی بنا پر منسوخ ہوچکی ہے۔- ابن جریج سے بھی اسی قسم کی روایت منقول ہے ۔ ہمیں جعفر بن محمد نے روایت بیان کی ہے، انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے، انہیں ابوعبید نے، انہیں حجاج نے ابن جریج سے روایت کی ہے کہ یہ آیت منسوخ ہے۔ انہوں نے کہا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عقبہ بن ابی معیط کو بدر کے دن بند رکھنے کے بعد قتل کا حکم دیا تھا۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ فقہاء امصار قیدی کو قتل کرنے کے جواز پر متفق ہیں۔ ہمیں اس مسئلے میں ان کے مابین کسی اختلاف رائے کا علم نہیں ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تواتر کے ساتھ مروی ہے کہ آپ نے قیدیوں کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا۔ آپ نے بدر کے دن عقبہ بن ابی معیط اور نضربن الحارث کو گرفتار ہونے کے بعد قتل کرنے کا حکم دیا تھا۔ اسی طرح احد کے دن ابوعزہ شاعر کو گرفتار کرکے قتل کردیا گیا تھا۔- بنو قریظہ نے عہد شکنی کے بعد جب حضرت سعد بن معاذ (رض) کے فیصلے پر صاد کیا تھا تو ان کے مردوں کو قتل کرنے اور عورتوں بچوں کو گرفتار کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ ان میں سے صرف زبیر بن باطا پر احسان کرکے اسے چھوڑ دیا گیا تھا۔ اسی طرح خیبر کے بعض حصوں کو صلحاً فتح کیا گیا اور بعض کو بزور شمشیر ۔ آپ نے ابن ابی الحقیق یہودی پر یہ شرط عائد کی تھی کہ وہ کوئی بات پوشیدہ نہیں رکھے گا لیکن جب اس کی خیانت ظاہر ہوگئی اور یہ واضح ہوگیا کہ اس نے باتیں چھپائی ہیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے قتل کردینے کا حکم دے دیا۔- فتح مکہ کے روز آپ نے ہلال بن خطل، مقیس بن حبابہ اور عبداللہ بن سعد بن ابی سرح نیز چند دوسرے لوگوں کو قتل کردینے کا حکم دیا تھا اور یہ فرمایا تھا کہ اگر یہ لوگ غلاف کعبہ سے چمٹے ہوئے بھی ہوں پھر بھی انہیں نہ چھوڑا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ نے اہل مکہ پر احسان کرکے انہیں چھوڑ دیا اور ان کے اموال کو مال غنیمت بھی قرار نہیں دیا۔- صالح بن کیسان سے مروی ہے، انہوں نے محمد بن عبدالرحمن سے اور انہوں نے اپنے والد حضرت عبدالرحمن بن عوف سے روایت کی ہے کہ انہوں نے حضرت ابوبکر (رض) کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ میری تمنا یہ تھی کہ جس دن فجاء ہ کو میرے پاس لایا گیا تھا میں اسے آگ میں نہ جلاتا بلکہ اسے برہنہ کرکے قتل کردیتا یا اسے بھگا کر چھوڑ دیتا۔- حضرت ابوموسیٰ (رض) کے متعلق مروی ہے کہ انہوں نے سو س کے ایک چودھری کو ایک گروہ کے لئے امان کا حکم جاری کردیا تھا ۔ اس چودھری نے امان کے لئے اس گروہ کیا فراد کے نام گنوائے تھے لیکن اپنا نام بھول گیا تھا۔ چناچہ حضرت ابو موسیٰ (رض) نے اسے امان میں داخل نہیں کیا اور اسے قتل کردیا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام سے قیدی کو قتل کردینے اور اسے زندہ رکھنے کے جواز کے سلسلے میں یہ متواتر روایتیں موجود ہیں۔ اس پر فقہاء امصار کا اتفاق ہے۔- البتہ قیدی سے فدیہ لے کر اسے چھوڑ دینے کے سلسلے میں اختلاف رائے ہے۔ ہمارے تمام اصحاب کا قول ہے کہ قیدی سے مال کا فدیہ نہیں لیا جائے گا اور نہ ہی قیدیوں کو اہل حرب کے ہاتھوں فروخت کیا جائے گا کہ وہ پھر سے مسلمانوں کے خلاف صف آراز ہوجائیں۔ امام ابوحنیفہ کا یہ بھی قول ہے کہ مسلمان قیدیوں سے ان کا تبادلہ بھی نہیں کیا جائے گا۔ انہیں کبھی بھی مسلمانوں کے خلاف دوبارہ صف آرا ہونے نہیں دیا جائے گا۔ امام ابویوسف اور امام محمد کا قول ہے کہ اگر مسلمان قیدیوں کے تبادلے میں مشرکین قیدیوں کو چھوڑ دیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔- سفیان ثوری اور اوزاعی کا بھی یہی قول ہے۔ اوزاعی کا کہنا ہے کہ قیدیوں کو اہل حرب کے ہاتھوں فروخت کردینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ تاہم مرد قیدیوں کو صرف اسی صورت میں فروخت کیا جائے گا جبکہ مسلمان قیدیوں کو ان کے ذریعے چھڑانے کی صورت پیدا ہوجائے ۔ المزنی نے امام شافعی سے روایت کی ہے کہ امام المسلمین کو اختیار ہے کہ جن لوگوں پر اسے فتح حاصل ہوئی ہے ان پر احسان کرکے بلامعاوضہ انہیں چھوڑ دے یا فدیہ لے لے۔- جو حضرات مسلمان قیدیوں کے تبادلے میں یا مالی معاوضہ کے بدلے قیدیوں کو چھوڑ دینا جائز قرار دیتے ہیں وہ قول باری (فاما منا بعدواما فداء) سے استدلال کرتے ہیں۔ ظاہر آیت مال کے بدلے اور مسلمان قیدیوں کے تبادے میں اس کے جواز کا مقتضی ہے۔ نیز یہ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر کے قیدیوں سے مال کا فدیہ لیا تھا۔- مسلمان قیدیوں کے تبادلے میں اس کے جواز کے لئے یہ حضرات اس روایت سے استدلال کرتے ہیں جس کے راوی ابن المبارک ہیں۔ انہوں نے معمر سے ، انہوں نے ایوب سے ، انہوں نے ابوقلابہ سے، انہوں نے ابوالمہلب سے اور انہوں نے حضرت عمران بن حصین (رض) سے روایت کی ہے کہ قبیلہ ثقیف کے لوگوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دو صحابیوں کو گرفتار کرلیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ نے بنو عامر بن صعصعہ کے ایک آدمی کو پکڑ لیا۔ اس شخص پر آپ کا گزر ہوا وہ رسیوں میں بندھا ہوا تھا ۔ جب آپ اس کی طرف متوجہ ہوئے تو اس نے کہا : ” مجھے کیوں گرفتار کیا گیا ہے۔ “ آپ نے جواب دیا۔ تمہارے حلیفوں کے جرم کی بنا پر “ وہ کہنے لگا ” میں مسلمان ہوتا ہوں “ آپ نے فرمایا۔” اگر تم یہ بات اس وقت کہتے جب تم اپنے معاملے میں خود مختار تھے تو تمہیں اس کا پورا فائدہ ہوتا۔ “ یہ کہہ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آگے بڑھ گئے ۔ اس نے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آواز دی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واپس مڑے۔ اس نے کہا میں بھوکا ہوں مجھے کھانا دیجئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” ٹھیک ہے یہ تمہاری ضرورت ہے۔ “ پھر آپ نے ان دو مسلمانوں کے بدلے میں اسے چھوڑ دیا جنہیں تقیف کے لوگوں نے گرفتار کرلیا تھا۔- ابن علیہ نے ایوب سے ، انہوں نے ابو قلابہ سے ، انہوں نے ابوالمہلب سے اور انہوں نے حضرت عمران بن حصین (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو مسلمان قیدیوں کے بدلے میں بنو عقیل کے ایک قیدی کو چھوڑ دیا تھا۔ اس روایت میں اس قیدی کے مسلمان ہوجانے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ جبکہ پہلی روایت میں اس کا ذکر ہے ۔ اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اب اس صورت میں قیدیوں کا تبادلہ نہیں ہوگا۔ یعنی مسلمان قیدی کے بدلے میں مسلمان قیدی نہیں چھڑائے جائیں گے کیونکہ کسی مسلمان کو اہل کفر کے حوالے نہیں کیا جاسکتا۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صلح حدیبیہ کے موقع پر مشرکین کی یہ شرط تسلیم کرلی تھی کہ ان کا کوئی آدمی اگر مسلمان ہوکر مدینہ آجائے گا تو اسے واپس بھیج دیا جائے گا ۔ پھر یہ حکم منسوخ ہوگیا اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کو کافروں کے درمیان رہائش اختیار کرنے سے منع فرمادیا۔ آپ نے فرمایا (انا بری من کل مسلم مع مشرک۔ میں ہر اس مسلمان سے بری الذمہ ہوں جو مشرک کے ساتھ رہتا ہو) نیز فرمایا (من اقام بین اظھر المشرکین فقد برئت منہ الذمۃ۔ جس مسلمان نے مشرکین کے درمیان اقامت اختیار کرلی اس سے ذمہ داری ختم ہوگئی) ۔- آیت زیر بحث میں احسان کرنے یا فدیہ لینے کا جو ذکر ہے نیز بدر کے قیدیوں سے فدیہ لینے کی جو روایت منقول ہے وہ اس قول باری کی بنا پر منسوخ ہے (فاقتلوا المشرکین حیث وجد تموھم وخذوھم واحصروھم واقعدوالھم کل مرصد فان تابو ا واقاموالصلوٰۃ واتوالزکوۃ فخلوا سبیلھم۔ پس مشرکین کو قتل کرو جہاں کہیں بھی انہیں پائو، انہیں پکڑ لو، انہیں گھیر لو اور ان کے خلاف ہر گھات لگائو۔ اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو ان کا راستہ چھوڑ دو ) ہم نے ابن جریج اور سدی سے بھی اس بات کی روایت نقل کی ہے۔- قول باری ہے (قاتلوا الذین لایومنون باللہ ولا بالیوم الاخر۔ ان لوگوں سے جنگ کرو جو اللہ اور یوم آخر پر ایمان نہیں رکھتے) تاقول باری (حتی یعطوا الجزیۃ عن یدوھم صاغروں یہاں تک کہ وہ ہاتھوں سے جزیہ دیں ذلیل ہوکر) یہ دونوں آیتیں کافروں سے قتال کے وجوب کو متضمن ہیں یہاں تک کہ وہ مسلمان ہوجائیں یا جزیہ ادا کریں۔ اب مال کے ذریعے یا کسی اور صورت میں فدیہ لینا اس بات کے منافی ہے۔- دوسری طرف اہل تفسیر اور راویان آثار کا اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ سورة برات سورة محمد ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) کے بعد نازل ہوئی تھی۔ اس لئے ضروری ہے کہ سورة برات میں مذکورہ حکم فدیہ کے اس حکم کا ناسخ بن جائے جس کا ذکر سورة محمد ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) میں ہوا ہے۔ - لڑائی کب تک جاری رکھی جائے ؟- قول باری ہے (حتی تضع الحرب اوزارھا ۔ تاآنکہ لڑائی اپنے ہتھیار رکھ دے) حسن کا قول ہے ” تاآنکہ اللہ کی عبادت کی جائے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے۔ “ سعید بن جبیر کا قول ہے۔ تاآنکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی آمد ہوجائے وہ آکر صلیب کو توڑ دیں اور خنزیر کو قتل کردیں اور پھر بکری بھیڑیے کے سامنے آجائے لیکن بھیڑیا اس سے کوئی تعرض نہ کرے نیز دو شخصوں کے درمیان عداوت باقی نہ رہے فراء کا قول ہے ” تاآنکہ دنیا سے شرک اور گناہوں کا خاتمہ ہوجائے اور پھر دنیا میں مسلمان ہی باقی رہیں یا صلح پسند۔ “- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اس تاویل پر آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ غیر مسلموں سے اس وقت تک قتال واجب ہے جب تک ایک بھی لڑنے والا باقی نہ رہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اسی طرح اللہ تعالیٰ امت محمدیہ کے سامنے ان سے پچھلے لوگوں کی مثالیں بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں جھٹلانے پر کس طرح ہلاک کیا اب مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دے رہے ہیں کہ جب بدر کے دن کفار سے تمہارا مقابلہ ہوجائے تو ان کی گردنیں مار دو یہاں تک کہ جب تم ان کی خوب خونریزی کرچکو اور ان کو قید کرلو تو قیدیوں کو خوب مضبوط باندھ لو پھر اس کے بعد یا تو قیدی پر احسان کر کے بلا فدیہ لیے اسے چھوڑ دینا یا قیدی سے اس کی جان کا فدیہ لے کر چھوڑ دینا جبکہ کفار اپنے ہتھیار نہ رکھیں یا یہ کہ جب تک کافر خود نہ چھوڑیں۔ کافر کی یہی سزا ہے اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو فرشتوں کے ذریعہ سے ان کفار سے خود ہی انتقام لے لیتا یا یہ کہ بغیر تمہارے لڑے خود بدلہ لے لیتا لیکن یہ حکم اس لیے دیا تاکہ اہل ایمان کا کافروں کے ذریعے سے امتحان کرے یا یہ کہ قریب کا قریب کے ساتھ امتحان کرے اور جو حضرات صحابہ بدر کے دن اللہ کی راہ میں شہید ہوگئے اللہ تعالیٰ ان کی نیکیوں کو ہرگز ضائع نہیں کرے گا۔- شان نزول : وَالَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ (الخ)- قتادہ سے روایت کیا گیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے بیان کیا گیا کہ یہ آیت غزوہ احد کے دن نازل ہوئی ہے، جس وقت رسول اکرم گھاٹی میں تھے اور ان میں قتل اور زخموں کی کثرت ہوگئی تھی اس روز مشرکین نے پکار کر کہا کہ ہبل بت بلند ہوا اس وقت مسلمانوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ سب سے بلند اور برتر ہے اس پر مشرکین کہنے لگے کہ ہمارے پاس عزی بت ہے اور تمہارے پاس عزی نہیں اس پر رسول اکرم نے فرمایا کہ ان کے جواب میں کہہ دو کہ اللہ تعالیٰ ہمارا مولی اور مددگار ہے اور وہ تمہارا مددگار نہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤ فَاِذَا لَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ” تو (اے مسلمانو ) جب تمہاری مڈ بھیڑ ہو کافروں سے “- اب جبکہ تمہاری جدوجہد مسلح تصادم کے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے اور تم لوگ تلوار کا جواب تلوار سے دینے کے لیے میدان میں اتر پڑے ہو تو جب ان کافروں سے تمہارے مقابلہ کی نوبت آئے :- فَضَرْبَ الرِّقَابِ ” تو ان کی گردنیں مارنا ہے “- اب میدان کارزار میں تمہاری پہلی ترجیح یہی ہونی چاہیے کہ جو دشمن حق تمہارے سامنے آئے وہ بچ کر نہ جائے۔ لہٰذا ان کی گردنیں اُڑائو ‘ انہیں قتل کرو - حَتّٰٓی اِذَآ اَثْخَنْتُمُوْہُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ ” یہاں تک کہ جب تم انہیں اچھی طرح سے ُ کچل دو تب انہیں مضبوطی کے ساتھ باندھو “- یعنی اس مرحلے پر تم بچے کھچے لوگوں کو قیدی بنا سکتے ہو۔- فَاِمَّا مَنًّابَعْدُ وَاِمَّا فِدَآئً حَتّٰی تَضَعَ الْحَرْبُ اَوْزَارَہَا ” پھر اس کے بعد (تم انہیں چھوڑ سکتے ہو) احسان کر کے یا فدیہ لے کر ‘ یہاں تک کہ جنگ اپنے ہتھیار ڈال دے۔ “- اس آیت کے الفاظ میں تقدیم و تاخیر کے اسلوب پر غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ الفاظ کی اصل ترتیب یوں ہے : ” فَضَرْبَ الرِّقَابِ ، حَتّٰٓی اِذَا اَثْخَنْتُمُوْہُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ ، حَتّٰی تَضَعَ الْحَرْبُ اَوْزَارَہَا فَاِمَّا مَنًّابَعْدُ وَاِمَّا فِدَآئً “۔ گویا اس جملے کے مطابق مقابلے کے مختلف مراحل کی ترتیب یہ ہوگی : پہلے ان کی گردنیں مارو ‘ جب ان کی طاقت اچھی طرح کچل ڈالی جائے تب انہیں قید میں مضبوط باندھو۔ پھر جب جنگ اپنے ہتھیار ڈال دے تو اس کے بعد انہیں چھوڑا جاسکتا ہے ‘ چاہے احسان کر کے چھوڑو یا فدیہ لے کر۔- آیت کے درست مفہوم تک پہنچنے کے لیے اس اہم فلسفے کو بھی سمجھنا ضروری ہے جو یہاں ” حَتّٰی تَضَعَ الْحَرْبُ اَوْزَارَہَا “ کے الفاظ میں بیان ہوا ہے۔ اس کے لیے انگریزی کے دو الفاظ اور کو ذہن میں رکھئے۔ سے مراد دو فریقوں کی باہمی محاذ آرائی اور کشمکش ہے جو ایک فریق کے فتح یاب اور دوسرے کے سرنگوں ہونے تک جاری رہتی ہے ‘ جبکہ سے مراد اس محاذ آرائی کے دوران متعلقہ فریقوں کے درمیان ہونے والا کوئی خاص معرکہ ہے۔ گویا ایک جنگ ( ) کے دوران میں کئی لڑائیاں ( ) ہوسکتی ہیں۔ اب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جدوجہد کے حوالے سے اس نکتے کو یوں سمجھئے کہ مدنی دور میں غلبہ دین کی جنگ ( ) چھ سال تک مسلسل جاری رہی ۔ - ۔ - اس میں صرف صلح حدیبیہ کی وجہ سے کچھ مدت کے لیے ایک وقفہ آیا تھا ۔ - ۔ - اس جنگ کے دوران غزوئہ بدر ( ) ‘ غزوئہ اُحد ( ) ‘ غزوہ احزاب ( ) ‘ غزوہ بنی مصطلق ( ) اور بہت سی دوسری لڑائیاں لڑی گئیں۔ لیکن جنگ ( ) نے مکمل طور پر ہتھیار اس وقت ڈالے جب پورے جزیرہ نمائے عرب میں اللہ کا دین اس حد تک غالب ہوگیا کہ اس کے مقابلے میں باطل کی طرف سے کسی قسم کی کوئی مزاحمت باقی نہ رہی۔ - چناچہ زیر مطالعہ آیت میں جو حکمت بیان ہوئی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اقامت دین کی جدوجہد کے آخری مرحلے یعنی مسلح تصادم میں جب باطل قوتوں کو علی الاعلان للکارا جا چکاہو اور مردانِ حق اپنے سروں پر کفن باندھ کر میدانِ کارزار میں اتر پڑے ہوں تو یہ پنجہ آزمائی اس وقت تک جاری رہے گی جب تک باطل پوری طرح سرنگوں نہ ہوجائے۔ اس دوران کسی مہم یا کسی لڑائی میں پکڑے جانے والے قیدیوں کو کسی بھی شرط پر آزاد کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ انہیں اگلے معرکے میں دوبارہ اپنے مقابلے میں آنے کا موقع دے رہے ہیں۔ جیسے غزوہ بدر میں کفار کے ّستر (٧٠) جنگجوئوں کے مارے جانے سے ان کی طاقت کو ایک حد تک تو نقصان پہنچا تھا ‘ مگر ان کی جنگی صلاحیت پوری طرح ختم نہیں ہوئی تھی۔ چناچہ ان کے ٧٠ قیدیوں کی آزادی ان کے لیے پھر سے تقویت کا باعث بن گئی اور فدیہ دے کر آزاد ہونے والے قیدیوں میں سے اکثر افراد اگلے سال مسلمانوں کے مقابلے کے لیے پھر سے میدان میں تھے۔- دوسری طرف اس حوالے سے ایک نکتہ یہ بھی ذہن نشین کرلیجئے کہ غزوہ بدر کے قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑنے سے متعلق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فیصلہ ایک اجتہاد تھا ‘ جس کا تعلق جانچ ( ) سے تھا۔ یعنی اس معاملے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اندازہ تھا کہ کفار کی طاقت کچلی جا چکی ہے ‘ لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک ابھی ایسا نہیں ہوا تھا۔ بہر حال اجتہاد کی دونوں صورتیں (خطا اور صواب) ہی اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہیں اور دونوں پر ہی اجر بھی ملتا ہے۔ البتہ اجتہاد میں تصویب کی صورت میں دہرے اجر کا وعدہ ہے۔ آیت زیر مطالعہ میں چونکہ قیدیوں کو فدیے کے عوض رہا کرنے کا اختیار دیا گیا تھا اس لیے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس اختیار کی رو سے مذکورہ فیصلہ فرمایا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو بہتر طور پر معلوم تھا کہ کفر کی جنگی صلاحیت ابھی ختم نہیں ہوئی۔ اسی لیے سورة الانفال (جو اس سورت کے بعد نازل ہوئی) میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس فیصلے سے متعلق یہ تبصرہ نازل ہوا تھا : مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّکُوْنَ لَہٗٓ اَسْرٰی حَتّٰی یُثْخِنَ فِی الْاَرْضِ تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَاق وَاللّٰہُ یُرِیْدُ الْاٰخِرَۃَ وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ ” کسی نبی کے لیے یہ روا نہیں کہ اس کے قبضے میں قیدی ہوں جب تک کہ وہ (کافروں کو قتل کرکے) زمین میں خوب خوں ریزی نہ کر دے۔ تم دنیا کا سازو سامان چاہتے ہو ‘ اور اللہ کے پیش نظر آخرت ہے ‘ اور اللہ عزیز اور حکیم ہے “۔ لَوْلاَ کِتٰبٌ مِّنَ اللّٰہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیْمَآ اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ ” اگر اللہ کی طرف سے ایک بات پہلے سے طے نہ ہوچکی ہوتی تو جو کچھ (فدیہ وغیرہ) تم نے لیا ہے اس کے باعث تم پر بڑا سخت عذاب آتا “۔ یہاں ” کتاب “ سے مراد آیت زیر مطالعہ کا یہ حکم ہے جس میں فدیہ کے عوض قیدیوں کو چھوڑنے کی اجازت دی گئی ہے۔ مطلب یہ کہ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے سورة محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آیت ٤ کا حکم پہلے سے نازل نہ ہوچکا ہوتا تو فدیہ لینے کی وجہ سے تم پر سخت گرفت ہوتی۔ فَکُلُوْا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلٰلاً طَیِّبًاز وَّاتَّقُوا اللّٰہَط اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔ ” تو اب کھائو جو تمہیں ملا ہے غنیمت میں سے (کہ وہ تمہارے لیے) حلال اور طیب (ہے) ‘ اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ یقینا اللہ بخشنے والا ‘ رحم فرمانے والا ہے۔ “- سورة الانفال کی یہ آیت بھی مشکلات القرآن میں سے ہے اور اس کو سمجھنے کے لیے بھی آیت زیر مطالعہ کی درست تفہیم ضروری ہے۔ بہر حال آیت زیر مطالعہ کے حکم کا خلاصہ یہ ہے کہ جب دشمن سے تمہارا مقابلہ ہو تو انہیں خوب قتل کرو ‘ پھر جب کفر کی کمر پوری طرح ٹوٹ جائے تو ان کے بچے کھچے زندہ افراد کو قیدی بھی بنا یا جاسکتا ہے۔ پھر جب دشمن کی طرف سے مزاحمت بالکل ختم ہوجائے اور اس کے خلاف تمہاری جنگ اپنے منطقی انجام کو پہنچ جائے تو قیدیوں کو آزاد کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ‘ چاہے ان کے عوض فدیہ لے لو یا احسان کرتے ہوئے بلامعاوضہ انہیں رہا کر دو ۔- ذٰلِکَ وَلَوْ یَشَآئُ اللّٰہُ لَانْتَصَرَ مِنْہُمْ ” یہ ہے (اس بارے میں حکم) ‘ اور اگر اللہ چاہتا تو خود ہی ان سے بدلہ لے لیتا “- وَلٰکِنْ لِّیَبْلُوَا بَعْضَکُمْ بِبَعْضٍ ” لیکن اللہ آزماتا ہے تمہارے بعض لوگوں کو بعض دوسروں کے ذریعے سے۔ “- اللہ تعالیٰ ان کفار سے خود بھی انتقام لے سکتا تھا۔ وہ چاہتا تو میدانِ بدر میں کفار کے ایک ہزار نفوس پر مشتمل لشکر کو آنِ واحد میں بھسم کر کے رکھ دیتا۔ لیکن اس نے تمہارے تین سو تیرہ افراد کو ایک ہزار کے طاقت ور لشکر کے مقابلے میں لا کر تمہارے صبر و ایمان اور جذبہ استقامت کا امتحان لینا پسند کیا۔ - وَالَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَلَنْ یُّضِلَّ اَعْمَالَہُمْ ” اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوگئے تو اللہ ان کے اعمال کو ہرگز ضائع نہیں کرے گا۔ “- اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کا انہیں بھر پور صلہ دے گا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :8 اس آیت کے الفاظ سے بھی ، اور جس سیاق و سباق میں یہ آئی ہے اس سے بھی یہ بات صاف معلوم ہوتی ہے کہ یہ لڑائی کا حکم آ جانے کے بعد اور لڑائی شروع ہونے سے پہلے نازل ہوئی ہے ۔ جب کافروں سے تمہاری مڈ بھیڑ ہو کے الفاظ اس پر دلالت کرتے ہیں کہ ابھی مڈبھیڑ ہوئی نہیں ہے اور اس کے ہونے سے پہلے یہ ہدایت دی جا رہی ہے کہ جب وہ ہو تو کیا کرنا چاہیے ۔ آگے آیت 20 کے الفاظ اس امر کی شہادت دے رہے ہیں کہ یہ سورۃ اس زمانے میں نازل ہوئی تھی جب سورہ حج کی آیت 39 اور سورہ بقرہ کی آیت 190 میں لڑائی کا حکم آ چکا تھا اور اس پر خوف کے مارے مدینے کے منافقین اور ضعیف الایمان لوگوں کا حال یہ ہو رہا تھا کہ جیسے ان پر موت چھا گئی ہو ۔ اس کے علاوہ سورہ انفال کی آیات 67 ۔ 69 بھی اس بات پر شاہد ہیں کہ یہ آیت جنگ بدر سے پہلے نازل ہو چکی تھی ۔ وہاں ارشاد ہوا ہے : کسی نبی کے لیے یہ زیبا نہیں ہے اس کے پاس قیدی ہوں جب تک کہ وہ زمین میں دشمنوں کو اچھی طرح کچل نہ دے ۔ تم لوگ دنیا کے فائدے چاہتے ہو ، حالانکہ اللہ کے پیش نظر آخرت ہے اور اللہ غالب اور حکیم ہے ۔ اگر اللہ کا نوشتہ پہلے نہ لکھا جا چکا ہوتا تو جو کچھ تم لوگوں نے کیا ہے اس کی پاداش میں تم کو بڑی سزا دی جاتی ۔ پس جو کچھ تم نے مال حاصل کیا ہے اسے کھاؤ کہ وہ حلال اور پاک ہے ۔ اس عبارت اور خصوصا اس کے خط کشیدہ فقروں پر غور کرنے سے یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ اس موقع پر عتاب جس بات پر ہوا تھا وہ یہ تھی کہ جنگ بدر میں دشمنوں کو اچھی طرح کچل دینے سے پہلے مسلمان دشمن کے آدمیوں کو قید کرنے میں لگ گئے تھے ، حالانکہ جنگ سے پہلے جو ہدایت سورہ محمد میں ان کو دی گئی تھی وہ یہ تھی کہ جب تم ان کو اچھی طرح کچل دو تب قیدیوں کو مضبوط باندھو ۔ تاہم ، چونکہ سورہ محمد میں مسلمانوں کو قیدیوں سے فدیہ لینے کی اجازت فی الجملہ دی جاچکی تھی اس لیے جنگ بدر کے قیدیوں سے جو مال لیا گیا اسے اللہ نے حلال قرار دیا اور مسلمانوں کو اس کے لینے پر سزا نہ دی ۔ اگر اللہ کا نوشتہ پہلے نہ لکھا جا چکا ہوتا کے الفاظ میں اس امر کی طرف صاف اشارہ کر رہے ہیں کہ اس واقعہ سے پہلے فدیہ لینے کی اجازت کا فرمان قرآن میں آچکا تھا ، اور ظاہر ہے کہ قرآن کے اندر سورہ محمد کی اس آیت کے سوا کوئی دوسری آیت ایسی نہیں ہے جس میں یہ فرمان پایا جاتا ہو ۔ اس لیے یہ ماننا پڑے گا کہ یہ آیت سورہ انفال کی مذکورہ بالا آیت سے پہلے نازل ہو چکی تھی ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم تفسیر سورہ انفال ، حاشیہ 49 ) ۔ یہ قرآن مجید کی پہلی آیت ہے جس میں قوانین جنگ کے متعلق ابتدائی ہدایات دی گئی ہیں ۔ اس سے جو احکام نکلتے ہیں ، اور اس کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے جس طرح عمل کیا ہے ، اور فقہاء کرام نے اس آیت اور سنت سے جو استنباطات کیے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے : 1 ) ۔ جنگ میں مسلمانوں کی فوج کا اصل ہدف دشمن کی جنگی طاقت کو توڑ دینا ہے ، یہاں تک کہ اس میں لڑنے کی سکت نہ رہے اور جنگ ختم ہو جائے ۔ اس ہدف سے توجہ ہٹا کر دشمن کے آدمیوں کو گرفتار کرنے میں نہ لگ جانا چاہیے ۔ قیدی پکڑنے کی طرف توجہ اس وقت کرنی چاہیے جب دشمن کا اچھی طرح قلع قمع کر دیا جائے اور میدان جنگ میں اس کے کچھ آدمی باقی رہ جائیں ۔ اہل عرب کو یہ ہدایت آغاز ہی میں اس لیے دے دی گئی کہ وہ کہیں فدیہ حاصل کرنے ، یا غلام فراہم کرنے کے لالچ میں پڑ کر جنگ کے اصل ہدف مقصود کو فراموش نہ کر بیٹھیں ۔ 2 ) ۔ جنگ میں جو لوگ گرفتار ہوں ان کے بارے میں فرمایا گیا کہ تمہیں اختیار ہے ، خواہ ان پر احسان کرو ، یا ان سے فدیہ کا معاملہ کر لو ۔ اس سے عام قانون یہ نکلتا ہے کہ جنگی قیدیوں کو قتل نہ کیا جائے ۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ، حسن بصری ، عطاء اور حماد بن ابی سلیمان رحمہم اللہ ، قانون کے اسی عموم کو لیتے ہیں ، اور یہ اپنی جگہ بالکل درست ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ آدمی کو قتل لڑائی کی حالت میں کیا جا سکتا ہے ۔ جب لڑائی ختم ہو گئی اور قیدی ہمارے قبضے میں آگیا تو اسے قتل کرنا درست نہیں ہے ۔ ابن جریر اور ابوبکر جصاص رحمہما اللہ کی روایت ہے کہ حجاج بن یوسف نے جنگی قیدیوں میں سے ایک قیدی کو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے حوالہ کیا اور حکم دیا کہ اسے قتل کر دیں ۔ انہوں نے انکار کر دیا اور یہ آیت پڑھ کر فرمایا کہ ہمیں قید کی حالت میں کسی کو قتل کرنے کا حکم نہیں دیا گیا ہے ۔ امام محمد رحمہ اللہ نے السیر الکبیر میں بھی ایک واقعہ لکھا ہے کہ عبداللہ بن عامر نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو ایک جنگی قیدی کے قتل کا حکم دیا تھا اور انہوں نے اسی بنا پر اس حکم کی تعمیل سے انکار کر دیا تھا ۔ 3 ) ۔ مگر چونکہ اس آیت میں قتل کی صاف ممانعت بھی نہیں کی گئی ہے ، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ تعالی کے حکم کا منشاء یہ سمجھا اور اسی پر عمل بھی فرمایا کہ اگر کوئی خاص وجہ ایسی ہو جس کی بنا پر اسلامی حکومت کا فرمانروا کسی قیدی یا بعض قیدیوں کو قتل کرنا ضروری سمجھے تو وہ ایسا کر سکتا ہے ۔ یہ عام قاعدہ نہیں ہے بلکہ قاعدہ عام میں ایک استثناء ہے جسے بضرورت ہی استعمال کیا جائے گا ۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جنگ بدر میں 70 قیدیوں میں سے صرف عقبہ بن ابی معیط اور نضر بن الحارث کو قتل کیا ۔ جنگ احد کے قیدیوں میں سے صرف ابو عذہ شاعر کو قتل فرمایا ۔ بنی قریظہ نے چونکہ اپنے آپ کو حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے فیصلے پر حوالے کیا تھا ، اور ان کے اپنے تسلیم کردہ حکم کا فیصلہ یہ تھا کہ ان کے مردوں کو قتل کر دیا جائے ، اس لیے آپ نے ان کو قتل کرا دیا ۔ جنگ خیبر میں جو لوگ گرفتار ہوئے ان میں سے صرف کنانہ ابن ابی الحقیق قتل کیا گیا کیونکہ اس نے بد عہدی کی تھی ۔ فتح مکہ کے بعد آپ صلی اللہ علہی وسلم نے تمام اہل مکہ میں سے صرف چند خاص اشخاص کے متعلق حکم دیا کہ ان میں سے جو بھی پکڑا جائے وہ قتل کر دیا جائے ۔ ان مستثنیات کے سوا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا عام طریقہ اسیران جنگ کو قتل کرنے کا کبھی نہیں رہا ۔ اور یہی عمل خلفائے راشدین کا بھی تھا ۔ ان کے زمانے میں بھی قتل اسیران جنگ کی مثالیں شاذ و نادر ہی ملتی ہیں اور ہر مثال میں قتل کسی خاص وجہ سے کیا گیا ہے ۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے بھی اپنے پورے زمانہ خلافت میں صرف ایک جنگی قیدی کو قتل کیا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اس نے مسلمانوں کو بہت تکلیفیں پہنچائی تھیں ۔ اسی بنا پر جمہور فقہاء اس بات کے قائل ہیں کہ اسلامی حکومت اگر ضرورت سمجھے تو اسیر کو قتل کر سکتی ہے ۔ لیکن یہ فیصلہ کرنا حکومت کا کام ہے ۔ ہر فوجی اس کا مجاز نہیں ہے کہ جس قیدی کو چاہے قتل کر دے ۔ البتہ اگر قیدی کے فرار ہونے کا یا اس سے کسی خطرناک شرارت کا اندیشہ ہو جائے تو جس شخص کو بھی اس صورت حال سے سابقہ پیش آئے وہ اسے قتل کر سکتا ہے ۔ اس سلسلے میں فقہائے اسلام نے تین تصریحات اور بھی کی ہیں ۔ ایک یہ کہ اگر قیدی اسلام قبول کر لے تو اسے قتل کیا جائے گا ۔ دوسرے یہ کہ قیدی صرف اسی وقت تک قتل کیا جا سکتا ہے جب تک وہ حکومت کی تحویل میں ہو ۔ تقسیم یا بیع کے ذریعہ سے اگر وہ کسی شخص کی ملک میں جا چکا ہو تو پھر اسے قتل نہیں کیا جا سکتا ۔ تیسرے یہ کہ قیدی کو قتل کرنا ہو تو بس سیدھی طرح قتل کر دیا جائے ، عذاب دے دے کر نہ مارا جائے ۔ 4 ) ۔ جنگی قیدیوں کے بارے میں عام حکم جو دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ یا ان پر احسان کرو ، یا فدیے کا معاملہ کر لو ۔ احسان میں چار چیزیں شامل ہیں: ایک یہ کہ قید کی حالت میں ان سے اچھا برتاؤ کیا جائے ۔ دوسرے یہ کہ قتل یا دائمی قید کے بجائے ان کو غلام بنا کر افراد مسلمین کے حوالہ کر دیا جائے ۔ تیسرے یہ کہ جزیہ لگا کر ان کو ذمی بنا لیا جائے ۔ چوتھے یہ کہ ان کو بلا معاوضہ رہا کر دیا جائے ۔ فدیے کا معاملہ کرنے کی تین صورتیں ہیں : ایک یہ کہ مالی معاوضہ لے کر انہیں چھوڑا جائے ۔ دوسرے یہ کہ رہائی کی شرط کے طور پر کوئی خاص خدمت لینے کے بعد چھوڑ دیا جائے ۔ تیسرے یہ کہ اپنے ان آدمیوں سے جو دشمن کے قبضے میں ہوں ، ان کا تبادلہ کر لیا جائے ۔ ان سب مختلف صورتوں پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے مختلف اوقات میں حسب موقع عمل فرمایا ہے ۔ خدا کی شریعت نے اسلامی حکومت کا کسی ایک ہی شکل کا پابند نہیں کر دیا ہے ۔ حکومت جس وقت جس طریقے کو مناسب ترین پائے اس پر عمل کر سکتی ہے ۔ 5 ) ۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے عمل سے یہ ثابت ہے کہ ایک جنگی قیدی جب ایک حکومت کی قید میں رہے ، اس کی غذا اور لباس ، اور اگر وہ بیمار یا زخمی ہو تو اس کا علاج حکومت کے ذمہ ہے ۔ قیدیوں کو بھوکا ننگا رکھنے ، یا ان کو عذاب دینے کا کوئی جواز اسلامی شریعت میں نہیں ہے ۔ بلکہ اس کے برعکس حسن سلوک اور فیاضانہ برتاؤ کی ہدایت بھی کی گئی ہے اور عملا بھی اسی کی نظیریں سنت میں ملتی ہیں ۔ جنگ بدر کے قیدیوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مختلف صحابہ کے گھروں میں بانٹ دیا اور ہدایت فرمائی کہ استوصوا بالاسارٰی خیراً ، ان قیدیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا ۔ ان میں سے ایک قیدی ، ابو عزیز کا بیان ہے کہ مجھے جن انصاریوں کے گھر میں رکھا گیا تھا وہ صبح شام مجھ کو روٹی کھلاتے تھے اور خود صرف کھجوریں کھا کر رہ جاتے تھے ۔ ایک اور قیدی سہیل بن عمرو کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ یہ بڑا آتش بیان مقرر ہے ، آپ کے خلاف تقریریں کرتا رہا ہے ، اس کے دانت تڑوا دیجیے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا اگر میں اس کے دانت تڑواؤں تو اللہ میرے دانت توڑ دے گا اگرچہ میں نبی ہوں ( سیرت بن ہشام ) ۔ یمامہ کے سردار ثامہ بن اثال جب گرفتار ہو کر آئے تو جب تک وہ قید میں رہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے عمدہ کھانا اور دودھ ان کے لیے مہیا کیا جاتا رہا ( ابن ہشام ) ۔ یہی طرز عمل صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے دور میں بھی رہا ۔ جنگی قیدیوں سے برے سلوک کی کوئی نظیر اس دور میں نہیں ملتی ۔ 6 ) ۔ قیدیوں کے معاملے میں یہ شکل اسلام نے سرے سے اپنے ہاں رکھی ہی نہیں ہے کہ ان کو ہمیشہ قید رکھا جائے اور حکومت ان سے جبری محنت لیتی رہے ۔ اگر ان کے ساتھ یا ان کی قوم کے ساتھ تبادلہ اسیران جنگ یا فدیے کا کوئی معاملہ طے نہ ہو سکے تو ان کے معاملے میں احسان کا طریقہ یہ رکھا گیا ہے کہ انہیں غلام بنا کر افراد کی ملکیت میں دے دیا جائے اور ان کے مالکوں کو ہدایت کی جائے کہ وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں ۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد میں بھی اس طریقے پر عمل کیا گیا ہے ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے عہد میں بھی یہ جاری رہا ہے ، اور فقہائے اسلام بالاتفاق اس جواز کے قائل ہیں ۔ اس سلسلے میں یہ بات جان لینی چاہیے کہ جو شخص قید میں آنے سے پہلے اسلام قبول کر چکا ہو اور پھر کسی طرح گرفتار ہو جائے وہ تو آزاد کر دیا جائے گا ، مگر جو شخص قید ہونے کے بعد اسلام قبول کرے ، یا کسی شخص کی ملکیت میں دے دیے جانے کے بعد مسلمان ہو تو یہ اسلام اس کے لیے آزادی کا سبب نہیں بن سکتا ۔ مسند احمد ، مسلم اور ترمذی میں حضرت عمران بن حصین کی روایت ہے کہ بنی عقیل کا ایک شخص گرفتار ہو کر آیا اور اس نے کہا کہ میں نے اسلام قبول کر لیا ۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ۔ : لو قلتھا وانت تملک امرک افلحت کل الفلاح ۔ اگر یہ بات تو نے اس وقت کہی ہوتے جب تو آزاد تھا تو یقینا فلاح پا جاتا ۔ یہی بت حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمائی ہے کہ اذا اسلم الاسیر فی ایدی المسلمیں فقش امن من القتل وھو رقیق ۔ جب قیدی مسلمانوں کے قبضے میں آنے کے بعد مسلمان ہو تو وہ قتل سے تو محفوظ ہو جائے گا مگر غلام رہے گا ۔ اسی بنا پر فقہائے اسلام کا اس پر اتفاق ہے کہ قید ہونے کے بعد مسلمان ہونے والا غلامی سے نہیں بچ سکتا ( السیر الکبیر ، امام محمد ) ۔ اور یہ بات سراسر معقول بھی ہے ۔ اگر ہمارا قانون یہ ہوتا کہ جو شخص بھی گرفتار ہونے کے بعد اسلام قبول کر لے گا وہ آزاد کر دیا جائے گا تو آخر وہ کونسا نادان قیدی ہوتا جو کلمہ پڑھ کر رہائی نہ حاصل کر لیتا ۔ 7 ) ۔ قیدیوں کے ساتھ احسان کی تیسری صورت اسلام میں یہ رکھی گئی ہے کہ جزیہ لگا کر ان کو دار الاسلام کی ذمی رعایا بنا لیا جائے اور وہ اسلامی مملکت میں اسی طرح آزاد ہو کر رہیں جس طرح مسلمان رہتے ہیں ۔ امام محمد السیر الکبیر میں لکھتے ہیں کہ ہر وہ شخص جس کو غلام بنانا جائز ہے اس پر جزیہ لگا کر اسے ذمی بنا لینا بھی جائز ہے ۔ اور ایک دوسرے جگہ فرماتے ہیں مسلمانوں کے فرمانروا کو یہ حق ہے کہ ان پر جزیہ اور ان کی زمینوں پر خراج لگا کر انہیں اصلا آزاد قرار دے دے ۔ اس طریقے پر بالعموم ان حالات میں عمل کیا گیا ہے جبکہ قید ہونے والے لوگ جس علاقے کے باشندے ہوں وہ مفتوح ہو کر اسلامی مملکت میں شامل ہو چکا ہو ۔ مثال کے طو پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اہل خیبر کے معاملہ میں یہ طریقہ اختیار فرمایا تھا ، اور پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سواد عراق اور دوسرے علاقوں کی فتح کے بعد بڑے پیمانے پر اس کی پیروی کی ۔ ابو عبید نے کتاب الاموال میں لکھا ہے کہ عراق کی فتح کے بعد اس علاقے کے سرکردہ لوگوں کا ایک وفد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ اے امیر المومنین ، پہلے اہل ایران ہم پر مسلط تھے ۔ انہیں نے ہم کو بہت ستایا ، بڑا برا برتاؤ ہمارے ساتھ کیا اور طرح طرح کی زیادتیاں ہم پر کرتے رہے ۔ پھر جب خدا نے آپ لوگوں کو بھیجا تو ہم آپ کی آمد سے بڑے خوش ہوئے اور آپ کے مقابلے میں نہ کوئی مدافعت ہم نے کی نہ جنگ میں کوئی حصہ لیا ۔ اب ہم نے سنا ہے کہ آپ ہمیں غلام بنا لینا چاہتے ہیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا تم کو اختیار ہے کہ مسلمان ہو جاؤ ، یا جزیہ قبول کر کے آزاد رہو ۔ ان لوگوں نے جزیہ قبول کر لیا اور وہ آزاد چھوڑ دیے گئے ۔ ایک اور جگہ اسی کتاب میں ابو عبید بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ جنگ میں جو لوگ پکڑے گئے ہیں ان میں سے ہر کاشتکار اور کسان کو چھوڑ دو ۔ 8 ) ۔ احسان کی چوتھی صورت یہ ہے کہ قیدی کو بلا کسی فدیے اور معاوضے کے یونہی رہا کر دیا جائے ۔ یہ ایک خاص رعایت ہے جو اسلامی حکومت صرف اسی حالت میں کر سکتی ہے جبکہ کسی خاص قیدی کے حالات اس کے متقاضی ہوں ، یا توقع ہو کہ یہ رعایت اس قیدی کو ہمیشہ کے لیے ممنون احسان کر دے گی اور وہ دشمن سے دوست یا کافر مومن بن جائے گا ۔ ورنہ ظاہر ہے کہ دشمن قوم کے اسی شخص کو اس لیے چھوڑ دینا کہ وہ پھر ہم سے لڑنے آ جائے کسی طرح بھی تقاضائے مصلحت نہیں ہو سکتا ۔ اسی لیے فقہائے اسلام نے بالعموم اس کی مخالفت کی ہے اور اس کے جواز کے لیے یہ شرط لگائی ہے کہ اگر امام مسلمین قیدیوں کو ، یا ان میں سے بعض کو بطور احسان چھوڑ دینے میں مصلحت پائے تو ایسا کرنے میں مضائقہ نہیں ہے ۔ ( السیر الکبیر ) ۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد میں اس کی بہت سی نظیریں ملتی ہیں اور قریب قریب سب میں مصلحت کا پہلو نمایاں ہے ۔ جنگ بدر کے قیدیوں کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوکان المطعم بن عدیٍّ حیًّا ثم کلّمنی فی ھٰؤلاء النتنیٰ لنزکتھم لہ ( بخاری ، ابوداؤد ، مسند احمد ) ۔ اگر مطعم بن عدی زندہ ہوتا اور وہ مجھ سے ان گھناؤنے لوگوں کے بارے میں بات کرتا تو میں اس کی خاطر انہیں یونہی چھوڑ دیتا ۔ یہ بات حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے فرمائی تھی کہ آپ جب طائف سے مکہ معظمہ واپس ہوئے تھے اس وقت مطعم ہی نے آپ کو اپنی پناہ میں لیا تھا اور اس کے لڑکے ہتھیار باندھ کر اپنی حفاظت میں آپ کو حرم میں لے گئے تھے ۔ اس لیے آپ اس کے احسان کا بدلہ اس طرح اتارنا چاہتے تھے ۔ بخاری ، مسلم ، اور مسند احمد کی روایت ہے کہ یمامہ کے سردار ثمامہ بن اثال جب گرفتار ہو کر آئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا ثمامہ ، تمہارا کیا خیال ہے ؟ انہوں نے کہا اگر آپ مجھے قتل کریں گے تو ایسے شخص کو قتل کریں گے جس کا خون کچھ قیمت رکھتا ہے ، اگر مجھ پر احسان کریں گے تو ایسے شخص پر کریں گے جو احسان ماننے والا ہے ، اور اگر آپ مال لینا چاہتے ہیں تو مانگیے ، آپ کو دیا جائے گا ۔ تین دن تک آپ ان سے یہی بات پوچھتے رہے اور وہ یہی جواب دیتے رہے ۔ آخر کو آپ نے حکم دیا کہ ثمامہ کو چھوڑ دو ۔ رہائی پاتے ہی وہ قریب کے ایک نخلستان میں گئے ، نہا دھو کر واپس آئے ، کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوئے اور عرض کیا کہ آج سے پہلے کوئی شخص میرے لیے آپ سے اور کوئی دین آپ کے دین سے بڑھ کر مبغوض نہ تھا ، مگر اب کوئی شخص اور کوئی دین مجھے آپ سے اور آپ کے دین سے بڑھ کر محبوب نہیں ہے ۔ پھر وہ عمرہ کے لیے مکے گئے اور وہاں قریش کے لوگوں کو نوٹس دے دیا کہ آج کے بعد کوئی غلہ تمہیں یمامہ سے نہ پہنچے گا جب تک محمد صلی اللہ علیہ و سلم اجازت نہ دیں ۔ چنانچہ انہوں نے ایسے ہی کیا اور مکہ والوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے التجا کرنی پڑی کہ یمامہ سے ہمارے غلہ کی رسد بند نہ کرائیں ۔ بنی قریظہ کے قیدیوں میں سے آپ نے زبیر بن باطا اور عمرو بن سعد ( یا ابن سعدی ) کی جان بخشی کی ۔ زبیر کو اس لیے چھوڑا کہ اس نے جاہلیت کے زمانے میں جنگ بُعاث کے موقع پر حضرت ثابت بن قیس انصاری رضی اللہ عنہ کو پناہ دی تھی ، اس لیے آپ نے اس کو حضرت ثابت کے حوالہ کر دیا تاکہ ان کے احسان کا بدلہ ادا کر دیں ۔ اور عمر بن سعد کو اس لیے چھوڑا کہ جب بنی قریظہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بد عہدی کر رہے تھے اس وقت یہی شخص اپنے قبیلے کو غداری سے منع کر رہا تھا ( کتاب الاموال لابی عبید ) ۔ غزوہ بنی المصطلق کے بعد جب اس قبیلے کے قیدی لائے گئے اور لوگوں میں تقسیم کر دیے گئے ، اس وقت حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا جس شخص کے حصے میں آئی تھیں اس کو ان کا معاوضہ ادا کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں رہا کرایا اور پھر ان سے خود نکاح کر لیا ۔ اس پر تمام مسلمانوں نے یہ کہہ کر اپنے اپنے حصے کے قیدیوں کو آزاد کر دیا کہ یہ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے رشتہ دار ہو چکے ہیں ۔ اس طرح سو 100 خاندانوں کے آدمی رہا ہو گئے ( مسند احمد ۔ طبقات ابن سعد ۔ سیرت ابن ہشام ) ۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر مکہ کے 80 آدمی تنعیم کی طرف سے آئے اور فجر کی نماز کے قریب انہوں نے آپ کے کیمپ پر اچانک شبخون مارنے کا ارادہ کیا ۔ مگر وہ سب کے سب پکڑ لیے گئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو چھوڑ دیا تاکہ اس نازک موقع پر یہ معاملہ لڑائی کا موجب نہ بن جائے ( مسلم ، ابوداؤد ، نسائی ، ترمذی ، مسند احمد ) ۔ فتح مکہ کے موقع پر آپ نے چند آدمیوں کو مستثنیٰ کر کے تمام اہل مکہ کو بطور احسان معاف کر دیا ، اور جنہیں مستثنی کیا تھا ان میں سے بھی تین چار کے سوا کوئی قتل نہ کیا گیا ۔ سارا عرب اس بات کو جانتا تھا کہ اہل مکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور مسلمانوں پر کیسے کیسے ظلم کیے تھے ۔ اس کے مقابلہ میں فتح پا کر جس عالی حوصلگی کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں معاف فرمایا اس سے اہل عرب کو یہ اطمینان حاصل ہو گیا کہ ان کا سابقہ کسی جبار سے نہیں بلکہ ایک نہایت رحیم و شفیق اور فیاض رہنما سے ہے ۔ اسی بنا پر فتح مکہ کے بعد پورے جزیرۃ العرب کو مسخر ہونے میں دو سال سے زیادہ دیر نہ لگی ۔ جنگ حنین کے بعد جب قبیلہ ہوازن کا وفد اپنے قیدیوں کی رہائی کے لیے حاضر ہوا تو سارے قیدی تقسیم کیے جا چکے تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سب مسلمانوں کو جمع کیا اور فرمایا یہ لوگ تائب ہو کر آئے ہیں اور میری رائے یہ ہے کہ ان کے قیدی ان کو واپس دے دیے جائیں ۔ تم میں سے جو کوئی بخوشی اپنے حصے میں آئے ہوئے قیدی کو بلا معاوضہ چھوڑنا چاہے وہ اس طرح چھوڑ دے ، اور جو معاوضہ لینا چاہے اس کو ہم بیت المال میں آنے والی پہلی آمدنی سے معاوضہ دے دیں گے ۔ چنانچہ چھ ہزار قیدی رہا کر دیے گئے اور جن لوگوں نے معاوضہ لینا چاہا انہیں حکومت کی طرف سے معاوضہ دے دیا گیا ، ( بخاری ، ابوداؤد ، مسند احمد ، طبقات ابن سعد ) ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تقسیم ہو چکنے کے بعد حکومت قیدیوں کو خود رہا کر دینے کی مجاز نہیں رہتی ، بلکہ یہ کام ان لوگوں کی رضا مندی سے ، یا ان کو معاوضہ دے کر کیا جا سکتا ہے جن کی ملکیت میں قیدی دیے جا چکے ہوں ۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے دور میں بھی بطور احسان قیدیوں کو رہا کرنے کی نظیریں مسلسل ملتی ہیں ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اشعث بن قیس کندی کو رہا کیا ، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہُرمُزان کو اور مناذر اور میسان کے قیدیوں کو آزادی عطاء کی ( کتاب الاموال لابی عبید ) ۔ 9 ) ۔ مالی معاوضہ لے کر قیدیوں کو چھوڑنے کی مثال نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد میں صرف جنگ بدر کے موقع پر ملتی ہے جب کہ فی قیدی ایک ہزار سے چار ہزار تک کی رقمیں لے کر ان کو رہا کیا گیا ( طبقات ابن سعد ۔ کتاب الاموال ) ۔ صحابہ کرام کے دور میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی اور فقہائے اسلام نے بالعموم اس کو ناپسند کیا ہے ، کیونکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم روپیہ لے کر دشمن کے ایک آدمی کو چھوڑ دیں تاکہ وہ پھر ہمارے خلاف تلوار اٹھائے ۔ لیکن چونکہ قرآن میں فدیہ لینے کی اجازت دی گئی ہے ، اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک مرتبہ اس پر عمل بھی کیا ہے ، اس لیے ایسا کرنا مطلقا ممنوع نہیں ہے ۔ امام محمد رحمہ اللہ السیر الکبیر میں کہتے ہیں کہ اگر مسلمانوں کو اس کی ضرورت پیش آئے تو وہ مالی معاوضہ لے کر قیدیوں کو چھوڑ سکتے ہیں ۔ 10 ) ۔ کوئی خدمت لے کر چھوڑنے کی مثال بھی جنگ بدر کے موقع پر ملتی ہے ۔ قریش کے قیدیوں میں سے جو لوگ مالی فدیہ دینے کے قابل نہ تھے ، ان کی رہائی کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ شرط عائد کر دی کہ وہ انصار کے دس دس بچوں کو لکنا پڑھنا سکھا دیں ۔ ( مسند احمد ، طبقات ابن سعد ، کتاب الاموال ) ۔ 11 ) ۔ قیدیوں کے تبادلے کی متعدد مثالیں ہم کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد میں ملتی ہیں ۔ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ایک مہم پر بھیجا اور اس میں چند قیدی گرفتار ہوئے ۔ ان میں ایک نہایت خوبصورت عورت بھی تھی جو حضرت سلمہ بن اکوع کے حصے میں آئی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے باصرار اس کو حضرت سلمہ سے مانگ لیا اور پھر اسے مکہ بھیج کر اس کے بدلے کئی مسلمان قیدیوں کو رہا کرایا ( مسلم ۔ ابوداؤد ۔ طحاوی ۔ کتاب الاموال لابی عبید ۔ طبقات ابن سعد ) ۔ حضرت عمران بن حصین کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ قبیلہ ثقیف نے مسلمانوں کے دو آدمیوں کو قید کر لیا ۔ اس سے کچھ مدت بعد ثقیف کے حلیف قبیلے ، بنی عقیل کا ایک آدمی مسلمانوں کے پاس گرفتار ہو گیا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو طائف بھیج کر اس کے بدلے ان دونوں مسلمانوں کر رہا کرا لیا ۔ ( مسلم ، ترمذی ، مسند احمد ) ۔ فقہاء میں سے امام ابو یوسف ، امام محمد ، امام شافعی ، امام مالک اور امام احمد تبادلہ اسیران کو جائز رکھتے ہیں ۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا ایک قول یہ ہے کہ تبادلہ نہیں کرنا چاہیے ، مگر دوسرا قول ان کا بھی یہی ہے کہ تبادلہ کیا جا سکتا ہے ۔ البتہ اس امر پر سب کا اتفاق ہے کہ جو قیدی مسلمان ہو جائے اسے تبادلہ میں کفار کے حوالہ نہ کیا جائے ۔ اس تشریح سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام نے اسیران جنگ کے معاملہ میں ایک ایسا وسیع ضابطہ بنایا ہے جس کے اندر ہر زمانے اور ہر طرح کے حالات میں اس مسئلے سے عہدہ برآں ہو نے کی گنجائش ہے ۔ جو لوگ قرآن مجید کی اس آیت کا بس یہ مختصر سا مطلب لے لیتے ہیں کہ جنگ میں قید ہونے والوں کو یا تو بطور احسان چھوڑ دیا جائے یا فدیہ لے کر رہا کر دیا جائے ، وہ اس بات کو نہیں جانتے کہ جنگی قیدیوں کا معاملہ کتنے مختلف پہلو رکھتا ہے ، اور مختلف زمانوں میں وہ کتنے مسائل پیدا کرتا رہا ہے اور آیندہ کر سکتا ہے ۔ سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :9 9 ۔ یعنی اللہ تعالی کو اگر محض باطل پرستوں کی سرکوبی ہی کرنی ہوتی تو وہ اس کام کے لیے تمہارا محتاج نہ تھا ۔ یہ کام تو اس کا یک زلزلہ یا ایک طوفان چشم زدن میں کر سکتا تھا ۔ مگر اس کے پیش نظر تو یہ ہے کہ انسانوں میں سے جو حق پرست ہوں وہ باطل پرستوں سے ٹکرائیں اور ان کے مقابلہ میں مجاہدہ کریں ، تاکہ جس کے اندر جو کچھ اوصاف ہیں وہ اس امتحان سے نکھر کر پوری طرح نمایاں ہو جائیں اور ہر ایک اپنے کردار کے لحاظ سے جس مقام اور مرتبے کا مستحق ہو وہ اس کو دیا جائے ۔ سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :10 10 ۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں کسی کے مارے جانے کے معنی یہ ہرگز نہیں ہیں کہ آدمی اپنی جان سے گیا اور اس کی ذات کی حد تک اس کا کیا کرایا سب ملیامیٹ ہو گیا ۔ اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ شہداء کی قربانیاں خود ان کے لیے نہیں بلکہ صرف انہی لوگوں کے لیے نافع ہیں جو ان کے بعد اس دنیا میں زندہ رہیں اور ان کی قربانیوں سے یہاں متمتع ہوں ، تو وہ غلط سمجھتا ہے ۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ خود شہید ہونے والوں کے لیے یہ زیاں کا نہیں بلکہ نفع کا سودا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

2: جنگ بدر میں ستر آدمی گرفتار ہوئے تھے، ان کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کی اکثریت کے مشورے سے فدیہ لے کر چھوڑدیا تھا، ان پر سورۂ انفال (٨۔ ٢٢، ٢٣) میں اللہ تعالیٰ نے ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ جب تک کافروں کی طاقت اچھی طرح کچلی نہیں جاتی، اس وقت تک قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑنا صحیح فیصلہ نہیں تھا، کیونکہ ان حالات میں دشمنوں کو چھوڑنے کا نتیجہ یہ ہوتا کہ ان کی طاقت کو اور مضبوط کیا جائے، سورۂ انفال کی ان آیتوں سے یہ نتیجہ نکالاجاسکتا تھا کہ شاید آئندہ بھی جنگی قیدیوں کو چھوڑ نا جائز نہ ہو، اس آیت نے یہ وضاحت فرمادی کہ اس وقت قیدیوں کو چھوڑ نے پر اللہ تعالیٰ نے ناراضگی کا جو اظہار فرمایا تھا وہ اس لئے کہ دشمن کی طاقت کو اچھی طرح کچلے بغیر انہیں رہا کردیا گیا، لیکن جب ان کی طاقت کچلی جاچکی ہو تو اس وقت انہیں چھوڑنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور مسلمان حاکم کے لئے دونوں صورتیں جائز ہیں چاہے کوئی فدیہ یعنی معاوضہ لئے بغیر احسان کے طور پر انہیں چھوڑدیا جائے یا کوئی فدیہ لے کر چھوڑا جائے، چنانچہ اس آیت کی روشنی میں اسلامی حکومت کو چارقسم کے اختیار حاصل ہیں، ایک یہ کہ قیدیوں کو بلا معاوضہ احسان کے طور پر چھوڑدے، دوسرے یہ کہ ان سے کوئی فدیہ یا معاوضہ لے کر چھوڑے جس میں جنگی قیدیوں کا تبادلہ بھی داخل ہے، تیسرے یہ کہ اگر ان کو زندہ چھوڑنے میں یہ اندیشہ ہو کہ وہ مسلمانوں کے لئے خطرہ بنیں گے تو انہیں قتل کرنے کی بھی گنجائش ہے جیسا کے سورۂ انفال (٨۔ ٢٢، ٢٣) میں بیان فرمایا گیا ہے، اور چوتھے یہ کہ اگر ان میں یہ صلاحیت محسوس ہو کہ وہ زندہ رہ کر مسلمانوں کے لئے خطرہ بننے کے بجائے اچھی خدمات انجام دے سکیں گے تو انہیں غلام بناکر رکھا جائے، اور ان اسلامی احکام کے مطابق رکھا جائے جو غلاموں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کرتے ہیں، اور انہیں بھائیوں کا سادرجہ دیتے ہیں، ان چار صورتوں میں سے کوئی صورت لازمی نہیں ہے، بلکہ اسلامی حکومت حالات کے مطابق کسی بھی صورت کو اختیار کرسکتی ہے، لیکن یہ اس وقت ہے جب دشمنوں سے جنگی قیدیوں کے بارے میں کوئی معاہدہ نہ ہو، اگر کوئی ایسا معاہدہ ہو تو مسلمانوں پر اس کی پابندی لازم ہے، آج کل بین الاقوامی طور پر اکثر ملکوں نے جنگی قیدیوں کے بارے میں یہ معاہدہ کیا ہوا ہے کہ وہ قیدیوں کو نہ قتل کریں گے اور نہ غلام بنائیں گے، جو ممالک اس معاہدے میں شریک ہیں اور جب تک شریک ہیں ان کے لئے اس کی پابندی شرعاً لازم ہے۔ 3: اس کا مطلب یہ ہے کہ غیرمسلموں کو قتل کرنا یاگرفتار کرنا صرف حالت جنگ میں جائز ہے، جب حالت جنگ ختم ہوگئی ہو، اور امن کا کوئی معاہدہ ہوگیا ہو تو قتل یا گرفتار کرنا جائز نہیں ہے۔ 4: یعنی اللہ تعالیٰ خود براہ راست ان پر کوئی عذاب نازل کرکے ان سے انتقام لے سکتا تھا، لیکن اس نے تم پر جہاد کا فریضہ اس لئے عائد فرمایا ہے کہ تمہارا امتحان مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دین کی خاطر تم میں سے کون ثابت قدمی سے اپنی جان خطرے میں ڈالتا ہے، اور ان کافروں کا بھی امتحان مقصود ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نصرت دیکھ کر ایمان کی طرف مائل ہوتے ہیں یا نہیں۔ 5: جو لوگ جہاد میں شہید ہوجائیں ان کے بارے میں یہ خیال ہوسکتا تھا کہ وہ فتح کی منزل تک پہنچے بغیر دنیا سے چلے گئے، اس لئے شاید ان کے اجر وثواب میں کوئی کمی ہو، آیت نے واضح فرمایا کہ انہوں نے جو قربانی دی اللہ تعالیٰ اس کو ضائع نہیں کرے گا، اور ان کو اصلی منزل یعنی جنت تک پہنچادے گا