5۔ 1 یعنی انہیں ایسے کاموں کی توفیق دے گا جن سے ان کے لئے جنت کا راستہ آسان ہوجائے گا۔
سیھدیھم ویصلح بالھم : یعنی اللہ تعالیٰ ان کی محنت ٹھکانے لگائے گا، انہیں جنت کے راستے پر لے جائے گا اور آخرت میں پیش آنے والے تمام مراحل میں ان کی حالت کو درست رکھے گا۔ عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(یعفر للشھید کل ذنب الا الذین) (مسلم، الامار ١ ۃ باب من قتل فی سبیل اللہ کفرت خطاباء الا الدین :1886)” قرض کے سوا شہید کے تمام گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔ “ شہادت اور شہداء کے مزید بہت سے فضائل کی تفصیل کے لئے تب احادیث میں سے جہاد کے ابواب ملاحظہ فرمائیں۔
(آیت) سَيَهْدِيْهِمْ وَيُصْلِحُ بَالَهُمْ ، اس میں شہید فی سبیل اللہ کے لئے دو نعمتوں کا ذکر ہے ایک یہ کہ اللہ ان کو ہدایت کر دے گا۔ دوسرے ان کے سب حالات درست کر دے گا۔ حالات سے مراد دنیا و آخرت دونوں جہان کے حالات ہیں۔ دنیا میں تو یہ کہ جو شخص جہاد میں شریک ہوا اگرچہ وہ شہید نہ ہوا سلامت رہا وہ بھی شہید کے ثواب کا مستحق ہوگیا، اور آخرت میں یہ کہ وہ قبر کے عذاب سے محشر کی پریشانی سے نجات پائے گا اور اگر کچھ لوگوں کے حقوق اس کے ذمہ رہ گئے ہیں تو اللہ تعالیٰ اصحاب حقوق کو اس سے راضی کر کے اس کی خلاصی کرا دیں گے (کما ورد حدیث ابی نعیم و البزار والبیہقی، مظہری) اور موت کے بعد ہدایت کردینے سے مراد ان کی منزل مقصود یعنی جنت پر پہنچا دینا ہے جیسا کہ قرآن میں اہل جنت کے متعلق آیا ہے کہ جنت میں پہنچ کر کہیں گے (آیت) الحمدللہ الذی ہدنالھذا۔
سَيَہْدِيْہِمْ وَيُصْلِحُ بَالَہُمْ ٥ ۚ- هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- صلح - والصُّلْحُ يختصّ بإزالة النّفار بين الناس، يقال منه : اصْطَلَحُوا وتَصَالَحُوا، قال : أَنْ يُصْلِحا بَيْنَهُما صُلْحاً وَالصُّلْحُ خَيْرٌ [ النساء 128] - ( ص ل ح ) الصلاح - اور الصلح کا لفظ خاص کر لوگوں سے باہمی نفرت کو دورکر کے ( امن و سلامتی پیدا کرنے پر بولا جاتا ہے ) چناچہ اصطلحوا وتصالحوا کے معنی باہم امن و سلامتی سے رہنے کے ہیں قرآن میں ہے : أَنْ يُصْلِحا بَيْنَهُما صُلْحاً وَالصُّلْحُ خَيْرٌ [ النساء 128] کہ آپس میں کسی قرار داد پر صلح کرلیں اور صلح ہی بہتر ہے ۔- بال - البَال : الحال التي يکترث بها، ولذلک يقال :- قال : كَفَّرَ عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ وَأَصْلَحَ بالَهُمْ [ محمد 2] [ طه 51] ، أي : فما حالهم وخبرهم .- ويعبّر بالبال عن الحال الذي ينطوي عليه الإنسان، فيقال : خطر کذا ببالي .- ( ب ی ل ) البال - اصل میں اس حالت کو کہتے ہیں جس کی فکر یا پرواہ کی جائے ۔ قرآن میں ہے ۔ كَفَّرَ عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ وَأَصْلَحَ بالَهُمْ [ محمد 2] ان سے ان کے گناہ دور کردیئے اور ان کی حالت سنواردی ۔ - فَما بالُ الْقُرُونِ الْأُولی[ طه 51] تو پہلی جماعتوں کا کیا حال اور انسان کے دل میں گذرنے والے خیال کو بھی بال کہا جاتا ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ میرے دل میں یہ بات کھٹکی ۔
(٥۔ ٦) اور ان کو نیک اعمال کی توفیق دے گا اور ان کی حالت و نیت کو درست رکھے گا یا یہ مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو آخرت میں نجات دے گا اور قیامت کے دن ان کے اعمال کو قبول فرمائے گا اور ان کو جنت میں داخل کرے گا جس کی ان کو پہچان کرا دے گا کہ وہ جنت میں اس طرح چلے جائیں گے جیسا کہ دنیا میں اپنے مکانات میں چلے جایا کرتے تھے۔
آیت ٥ سَیَہْدِیْہِمْ وَیُصْلِحُ بَالَہُمْ ” وہ ان کی راہنمائی کرے گا اور ان کے احوال کو سنوار دے گا۔ “