6۔ 1 یعنی جسے وہ بغیر راہنمائی کے پہچان لیں گے اور جب وہ جنت میں داخل ہونگے تو از خود ہی اپنے اپنے گھروں میں جا داخل ہونگے۔ اس کی تائید ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، ایک جنتی کو اپنے جنت والے گھر کے راستوں کا اس سے زیادہ علم ہوگا جتنا دنیا میں اسے اپنے گھر کا تھا (صحیح بخاری)
[٧] یعنی جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید ہوجاتے ہیں اس کا صرف یہی فائدہ نہیں کہ وہ قومی زندگی کا سبب بنتے ہیں۔ بلکہ خود ان کی ذات کو بھی کئی فائدے پہنچتے ہیں۔ خواہ وہ دنیوی لحاظ سے بظاہر کامیاب نظر نہ آتے ہوں۔ مثلاً یہ کہ اللہ ان کی صحیح راستے کی طرف رہنمائی فرماتا ہے اور ان کی سرگرمیوں کو ضائع نہیں ہونے دیتا۔ دوسرے یہ کہ ان کے دلوں سے ہر قسم کی کدورت دور کرکے اور ان کی حالت کو درست کر دے گا۔ پھر انہیں جنت میں داخل کرے گا۔- [٨] عرف کے مختلف مفہوم :۔ اس جملہ کے تین مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ ایسے باغوں میں داخل ہوں گے جن کا انہیں کتاب و سنت کے ذریعہ تعارف کرایا جاچکا ہے اور اس کی صفات کو سب جنت میں داخل ہونے والے جانتے ہوں گے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ ہر جنتی جنت میں اپنے مکان اور مسکن کو پہچانتا ہوگا۔ چناچہ صحیح بخاری کتاب بدأ الخلق میں مذکور ہے کہ جنتی اپنے مکانوں اور رہائش گاہوں کو اس سے زیادہ پہنچانتے ہونگے جتنا وہ دنیا میں اپنے گھروں کو پہچانتے ہیں۔ یعنی انہیں اپنی رہائش گاہ پہچاننے میں نہ کوئی الجھن پیش آئے گی اور نہ راستہ بھولیں گے اور تیسرا مطلب یہ ہے کہ جس طرح عَرَفَکے معنی پہچاننا اور عَرَّفَ کے معنی پہچان کرانا ہے اسی طرح عَرَفَ کے معنی خوشبو لگانا اور عَرَّفَ کے معنی معطر کرنا اور خوشبو چھوڑ دینا بھی ہے۔ (مفردات القرآن) اس لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے اہل جنت کے لیے جنت کو خوشبو سے بسا دیا ہے۔
ویدخلھم الجنۃ عرفھا لھم : یعنی اللہ تعالیٰ انہیں اس جنت میں داخل کرے گا جس کی پہچان اس نے قرآن کی آیات اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی بہت اچھی طرح کروا دی ہے۔ اس سورت کی آیت (١٥) میں بھی اس کی کچھ شناخت آرہی ہے۔ جب وہ اس جنت میں جائیں گے تو وہ ان کے لئے اجنبی نہیں ہوگی، بلکہ عین اس وعدے اور شناخت کے مطابق ہوگی جو اللہ تعالیٰ نے انہیں کروا رکھی ہے۔ ” عرفھا لھم “ میں یہ بات بھی شامل ہے کہ کسی جنتی کو جنت میں اپنے گھر جانے کے لئے کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (یخلص المومنون من النار، فیحبسون علی قنطرۃ بین الجنجۃ والنار، فیقص لبعضھم من بعض مظالم کانت بینھم فی الدنیا، حتی اذا ھذبوا ونقوا اذن لھم فی دخول الجنۃ فوالذی نفس محمد بیدہ لاخذھم اھدی بمنزلہ فی الجنۃ منہ بمنزلہ کان فی الدنیا) (بخاری، الرقاق، باب القصاص یوم القیامۃ :6565)” مومن آگ سے بچ کر نکلیں گے تو انہیں ایک پل پر روک لیا جائے گا جو جنت اور آگ کے درمیان ہے، پھر انہیں ایک دوسرے سے ان زیادتیوں کا قصاص دلایا جائے گا جو دنیا میں ہوئیں، یہاں تک کہ جب وہ خوب صاف ستھرے ہوجائیں گے تو انہیں جنت میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے گی۔ سو اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (ﷺ) کی جان ہے اس میں سے ہر ایک کو جنت میں اپنے گھر کا راستہ اس سے زیادہ معلوم ہوگا جتنا اسے دنیا میں اپنے گھر کا راستہ معلوم تھا۔ “
(آیت) وَيُدْخِلُهُمُ الْجَــنَّةَ عَرَّفَهَا لَهُمْ ، یہ ایک تیسرا انعام ہے کہ ان کو صرف یہی نہیں کہ جنت میں پہنچا دیا جائے گا بلکہ ان کے دلوں میں خود بخود جنت کے اپنے اپنے مقام اور اس میں ملنے والی نعمتوں حور و قصور سے ایسی واقفیت پیدا کردی جائے گی جیسے وہ ہمیشہ سے انہی میں رہتے اور ان سے مانوس تھے اگر ایسا نہ ہوتا تو جنت ایک نیا عالم تھا اس میں اپنا مقام تلاش کرنے میں وہاں کی چیزوں سے مناسبت اور تعلق قائم ہونے میں وقت لگتا، اور ایک مدت تک اجنبیت کے احساس سے قلب مطمئن نہ ہوتا۔- حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے دین حق دے کر بھیجا ہے کہ تم دنیا میں جس طرح اپنی بیبیوں اور گھروں سے واقف اور مانوس ہو اس سے بھی زیادہ اپنے جنت کے مقام اور وہاں کی بیبیوں سے واقف اور مانوس ہوجاؤ گے (رواہ ابن جریر و طبرانی و ابویعلی و البیہقی۔ مظہری) اور بعض روایتوں میں ہے کہ ایک فرشتہ ہر ایک جنتی کے لئے مقرر کردیا جائے گا جو ان کا اپنے مقام جنت اور وہاں کی بیبیوں سے تعارف کرائے گا واللہ اعلم۔
وَيُدْخِلُہُمُ الْجَــنَّۃَ عَرَّفَہَا لَہُمْ ٦- دخل - الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58]- ( دخ ل ) الدخول - ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔- جَنَّةُ :- كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]- الجنۃ - ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ - حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔- عرف - المَعْرِفَةُ والعِرْفَانُ : إدراک الشیء بتفکّر وتدبّر لأثره، وهو أخصّ من العلم، ويضادّه الإنكار، - قال تعالی: فَلَمَّا جاءَهُمْ ما عَرَفُوا[ البقرة 89] ، فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ- [يوسف 58] - ( ع رف ) المعرفۃ والعرفان - کے معنی ہیں کسی چیز کی علامات وآثار پر غوروفکر کرکے اس کا ادراک کرلینا یہ علم سے اخص یعنی کم درجہ رکھتا ہے اور یہ الانکار کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے قرآن میں ہے ؛- فَلَمَّا جاءَهُمْ ما عَرَفُوا[ البقرة 89] پھر جس کو وہ خوب پہنچانتے تھے جب ان کے پاس آپہنچی تو اس کافر ہوگئے ۔ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف 58] تو یوسف نے ان کو پہچان لیا اور وہ ان کو نہ پہچان سکے ۔
آیت ٦ وَیُدْخِلُہُمُ الْجَنَّۃَ عَرَّفَہَا لَہُمْ ” اور داخل کرے گا انہیں جنت میں جس کی ان کو پہچان کرا دی ہے۔ “- یعنی جنت اور اس کی نعمتوں کا قرآن میں تفصیلی تعارف کرا دیا گیا ہے۔
سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :11 یہ ہے وہ نفع جو راہ خدا میں جان دینے والوں کو حاصل ہوگا ۔ اس کے تین مراتب بیان فرمائے گئے ہیں ۔ ایک یہ کہ اللہ ان کی رہنمائی فرمائے گا ۔ دوسرے یہ کہ ان کا حال درست کر دے گا ۔ تیسرے یہ کہ ان کو اس جنت میں داخل کرے گا جس سے وہ پہلے ہی ان کو واقف کرا چکا ہے ۔ رہنمائی کرنے سے مراد ظاہر ہے کہ اس مقام پر جنت کی طرف رہنمائی کرنا ہے ۔ حالت درست کرنے سے مراد یہ ہے کہ جنت میں داخل ہونے سے پہلے اللہ تعالی ان کو خلعتوں سے آراستہ کر کے وہاں لے جائے گا اور ہر اس آلائش کو دور کر دے گا جو دنیا کی زندگی میں ان کو لگ گئی تھی ۔ اور تیسرے مرتبے کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں پہلے ہی ان کو قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان سے بتایا جا چکا ہے کہ وہ جنت کیسی ہے جو اللہ نے ان کے لیے مہیا کر رکھی ہے ۔ اس جنت میں جب وہ پہنچیں گے تو بالکل اپنی جانی پہچانی چیز میں داخل ہوں گے اور ان کو معلوم ہو جائے گا کہ جس چیز کے دینے کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا وہی ان کو دی گئی ہے ، اس میں یک سرمو فرق نہیں ہے ۔
6: اس کا ایک مطلب تو یہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا ہی میں اپنے پیغمبروں کے ذریعے مسلمانوں کو جنت کا تعارف کرادیا ہے، یہ جنت اسی تعارف کے مطابق ہوگی، اور دوسرا مطلب یہ بھی ممکن ہے اور زیادہ تر مفسرین نے اسی کو اختیار کیا ہے کہ ہر جنتی کو جنت میں اپنی جگہ تلاش کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی، بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس کی پہچان کرانے کا ایسا آسان انتظام کر رکھا ہے کہ ہر جنتی اپنی مقررہ جگہ پر کسی دشواری اور تفتیش کے بغیر بے تکلف پہنچ جائے گا۔