7۔ 1 اللہ کی مدد کرنے سے مطلب اللہ کے دین کی مدد ہے کیونکہ وہ اسباب کے مطابق اپنے دین کی مدد اپنے مومن بندوں کے ذریعے سے ہی کرتا ہے یہ مومن بندے اللہ کے دین کی حفاظت اور اس کی تبلیغ ودعوت کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرماتا ہے یعنی انہیں کافروں پر فتح و غلبہ عطا کرتا ہے جیسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور قرون اولی کے مسلمانوں کی روشن تاریخ ہے وہ دین کے ہوگئے تھے تو اللہ بھی ان کا ہوگیا تھا انہوں نے دین کو غالب کیا تو اللہ نے نہیں بھی دنیا پر غالب فرما دیا جیسے دوسرے مقام پر فرمایا۔ ولینصرن اللہ من ینصرہ۔ الحج۔ اللہ اس کی ضرور مدد فرماتا ہے جو اس کی ضرور مدد فرماتا ہے جو اس کی مدد کرتا ہے۔ 7۔ 2 یہ لڑائی کے وقت تثبیت اقدام یہ عبارت ہے مواطن حرب میں نصرو معونت سے بعض کہتے ہیں اسلام یا پل صراط پر ثابت قدم رکھے گا۔
[٩] اللہ کی مدد کرنے سے مراد اللہ کے دین کی مدد کرنا ہے۔ یعنی جو لوگ اللہ کے دین کو قائم کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ یقیناً جہاد میں ان کی مدد فرمائے گا اور ان کے پائے ثبات میں لغزش نہیں آنے دے گا۔ بندہ کا کام صرف یہ ہے کہ وہ اقامت دین کے لیے کمر بستہ رہے۔ اللہ تعالیٰ اسے کامیابی سے ہمکنار کرے گا۔
(١) یایھا الذین امنوا ان تنصروا اللہ : اللہ کی مدد کرنے سے مراد اللہ کے دین اور اللہ کے دوستوں کی مدد کرنا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ تو غنی ہے، اسے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں، جیسا کہ اس سے پہلی آیت میں فرمایا :(ولو یشآء اللہ لانتصرمنھم) (محمد : ٣)” اور اگر اللہ چاہے تو ضرور ان سے اتنقام لے لے۔ “ اللہ کے دین کی مدد اس کی راہ میں جہاد اور جان و مال کی قربانی سے بھی ہوتی ہے اور اس کے دشمنوں پر دین حق کے دلائل وبراہین قائم کرنے کے ساتھ بھی۔- (٢) ینصرکم : اللہ تعالیٰ کی مدد دو طرح سے آتی ہے، ایک یہ کہ وہ ہمیں دنیا میں دشمنوں پر فتح اور غلبہ عطا فرما دے ۔ مگر ایسا کبھی ہوتا ہے کبھی نہیں ہوتا۔ دوسری یہ کہ وہ ہمیں آخرت عطا فرما دے، خواہ دنیا میں کسی موقع پر شکست سے بھی دوچار ہونا پڑے ۔ - (٣) ویثنت اقدامکم : یعنی وہ تمہیں دین پر قائم رکھے گا کسی شک و شبہ کا شکار نہیں ہونے دے گا، جنگ میں ثابت قدمی عطافرمائے گا کبھی فرار کا خیال تک نہیں آنے دے گا، خواہ دشمن کتنی زیادہ تعداد میں ہوں اور قیامت کے دن ” صراط “ پر تمہارے قدم جمائے رکھے گا اور پھسلنے اور جہنم میں گرنے سے محفوظ رکھے گا ، جب سب لوگ ” اللھم سلم سلم “ (اے اللہ سلامت رکھنا، سلامت رکھنا) کہہ رہے ہوں گے۔ (دیکھیے بخاری :6583)
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَنْصُرُوا اللہَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ اَقْدَامَكُمْ ٧- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] .- وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - انْتِصَارُ والاسْتِنْصَارُ- وَالانْتِصَارُ والاسْتِنْصَارُ : طلب النُّصْرَة وَالَّذِينَ إِذا أَصابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنْتَصِرُونَ [ الشوری 39] ، وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ [ الأنفال 72] ، وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ [ الشوری 41] ، فَدَعا رَبَّهُ أَنِّي مَغْلُوبٌ فَانْتَصِرْ [ القمر 10] وإنما قال :«فَانْتَصِرْ» ولم يقل : انْصُرْ تنبيهاً أنّ ما يلحقني يلحقک من حيث إنّي جئتهم بأمرك، فإذا نَصَرْتَنِي فقد انْتَصَرْتَ لنفسک، وَالتَّنَاصُرُ : التَّعاوُن . قال تعالی: ما لَكُمْ لا تَناصَرُونَ [ الصافات 25]- لا نتصار والانتنصار کے منعی طلب نصرت کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَالَّذِينَ إِذا أَصابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنْتَصِرُونَ [ الشوری 39] اور جو ایسے ہیں کہ جب ان پر ظلم وتعدی ہو تو مناسب طریقے سے بدلہ لیتے ہیں ۔ وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ [ الأنفال 72] اور اگر وہ تم سے دین کے معاملات میں مدد طلب کریں تو تم کو مدد کرتی لا زم ہے ۔ وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ [ الشوری 41] اور جس پر ظلم ہوا ہو وہ اگر اس کے بعد انتقام لے ۔ فَدَعا رَبَّهُ أَنِّي مَغْلُوبٌ فَانْتَصِرْ [ القمر 10] تو انہوں نے اپنے پروردگار سے دعا کی کہ ( بار الہ میں ان کے مقابلے میں کمزور ہوں ان سے ) بدلہ لے ۔ میں انصر کی بجائے انتصر کہنے سے بات پر متنبہ کیا ہے کہ جو تکلیف مجھے پہنچ رہی ہے وہ گویا تجھے ذات باری تعالیٰ پہنچ رہی ہے وہ گویا تجھے ( ذات باری تعا لی پہنچ رہی ہے کیو ن کہ میں تیرے حکم سے ان کے پاس گیا تھا لہذا میری مدد فر مانا گو یا یا تیرا اپنی ذات کے لئے انتقام لینا ہے ۔ لتنا صر کے معنی باہم تعاون کرنے کے ہیں ۔ چنا نچہ قرآن میں ہے : ما لَكُمْ لا تَناصَرُونَ [ الصافات 25] تم کو کیا ہوا کہ ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے ۔- نصر - النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ- [ الصف 13] وَما لَهُمْ فِي الْأَرْضِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ- [ التوبة 74] ، وَكَفى بِاللَّهِ وَلِيًّا وَكَفى بِاللَّهِ نَصِيراً- [ النساء 45] ، ما لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ [ التوبة 116]- ( ن ص ر ) النصر والنصر - کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی - إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی - ثبت - الثَّبَات ضدّ الزوال، يقال : ثَبَتَ يَثْبُتُ ثَبَاتاً ، قال اللہ تعالی: يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا [ الأنفال 45]- ( ث ب ت ) الثبات - یہ زوال کی ضد ہے اور ثبت ( ن ) ثباتا کے معنی ایک حالت پر جمے رہنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا [ الأنفال 45] مومنو جب ( کفار کی ) کسی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو ۔- قدم ( پاؤں)- القَدَمُ : قَدَمُ الرّجل، وجمعه أَقْدَامٌ ، قال تعالی: وَيُثَبِّتَ بِهِ الْأَقْدامَ [ الأنفال 11] ، وبه اعتبر التّقدم والتّأخّر، - ( ق د م ) القدم - انسان کا پاؤں جمع اقدام ۔ قرآن میں ہے : وَيُثَبِّتَ بِهِ الْأَقْدامَ [ الأنفال 11]- اس سے تمہارے پاؤں جمائے رکھے ۔ اسی سے تقدم کا لفظ لیا گیا ہے جو کہ تاخر کی ضد ہے
اے ایمان والو اگر تم دشمن کے ساتھ لڑائی میں رسول اکرم کی مدد کرو گے تو دشمن پر غلبہ اور فتح نصیب کر کے تمہاری مدد کرے گا اور لڑائی میں تمہارے قدم جما دے گا۔
آیت ٧ یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰہَ یَنْصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ اَقْدَامَکُمْ ” اے اہل ِایمان اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا اور وہ تمہارے قدموں کو جما دے گا۔ “- یہ اللہ تعالیٰ کا بہت اہم قانون ہے۔ اگر تم لوگ اللہ کے فرماں بردار بندے بن کر رہو گے ‘ اسی سے مدد مانگو گے ‘ اسی پر توکل ّکرو گے اور اس کے دین کے غلبے کی جدوجہد کو اپنی زندگی کا مشن بنا لوگے تو وہ تمہیں بےسہارا اور بےیارومددگار نہیں چھوڑے گا ‘ بلکہ ایسی صورت میں ہر جگہ ‘ ہر گھڑی اس کی مدد آپ لوگوں کے شامل حال رہے گی۔ لیکن اس کے برعکس اگر تم لوگ اللہ کے دشمنوں کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھائو گے ‘ ان کی وفاداریوں کا دم بھرو گے ‘ انہیں اپنا حمایتی اور مدد گار سمجھو گے ‘ تو اللہ تعالیٰ تمہیں تمہارے حال پر چھوڑ دے گا۔ پھر تم اللہ سے رو رو کر بھی دعائیں کرو گے تو اس کے حضور تمہاری شنوائی نہیں ہوگی۔ - اس کی عملی مثال ١٩٧١ ء کی پاک بھارت جنگ میں سامنے آئی تھی۔ اس جنگ کے دوران پاکستان کی کامیابی کے لیے مسجد الحرام اور مسجد نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اندر تو اتر کے ساتھ قنوت نازلہ پڑھی جاتی رہی ‘ مگر عین اسی وقت ہمارے حکمرانوں کی حالت یہ تھی کہ وہ مدد اور حمایت کے لیے اللہ کے دشمنوں کے سامنے سجدہ ریز ہو کر ان کی مدد کا انتظار کر رہے تھے۔ یعنی دعائیں تو اللہ سے مانگی جا رہی تھیں لیکن بھروسا امریکہ کے ساتویں بحری بیڑے پر تھا۔ لہٰذا دنیا نے دیکھ لیا کہ حرمین شریفین کے اندر مانگی گئی دعائیں بھی اللہ کے حضور درجہ قبولیت حاصل نہ کرسکیں اور سقوط ڈھا کہ کا بدترین سانحہ رونما ہو کر رہا۔ اس صورت حال کا تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ قومی و ملکی سطح پر اتنی بڑی ہزیمت اور ذلت اٹھانے کے بعد بھی ہم نے اپنی روش تبدیل نہیں کی۔ چناچہ آج بھی ہماری حالت یہ ہے کہ ہم نے بدستور اللہ کے باغیوں کے سامنے مدد کے لیے ہاتھ پھیلا رکھے ہیں۔ ہمارے حکمران آج بھی انہی کو اپنا سرپرست سمجھتے ہیں اور انہیں کی مدد پر بھروسا کیے بیٹھے ہیں۔ ادھر پورے ملک کی معیشت ہے کہ بڑے دھڑلے ّسے سود پر چل رہی ہے۔ گویا ملک کے اندر ہم نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کھلم کھلا اعلانِ جنگ کر رکھا ہے۔ ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ ہماری دعائیں بھلا کیونکر سنے گا اور کیونکر اس کی مدد ہمارے شامل حال ہوگی ؟ - بہر حال آیت زیر مطالعہ میں اس حوالے سے ہمارے لیے راہنمائی بھی ہے اور خوشخبری بھی کہ اگر تم اللہ کی اطاعت میں مخلص رہو گے ‘ اس کے دین کے جھنڈے کو تھامے رکھوگے اور اقامت دین کی جدوجہد میں اپنا تن من دھن لگانے کے لیے آمادہ رہو گے تو وہ تمہاری مدد کے لیے ہر جگہ تمہارے ساتھ موجود ہوگا اور تمہارے دشمنوں کے مقابلے میں تمہارے قدم جمائے رکھے گا۔
سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :12 اللہ کی مدد کرنے کا ایک سیدھا سادھا مفہوم تو یہ ہے کہ اس کا کلمہ بلند کرنے کے لیے جان و مال سے جہاد کیا جائے ۔ لیکن اس کا ایک غامض مفہوم بھی ہے جس کی ہم اس سے پہلے تشریح کر چکے ہیں ( ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، تفسیر آل عمران ، حاشیہ 50 ) ۔