[١٠] تعسا کا لغوی مفہوم :۔ تعسًا کے معنی ٹھوکر کھا کر گرنا اور پھر اٹھ نہ سکنا ہے یا کسی گڑھے میں گر کر ہلاک ہوجانا ہے (مفردات) گویا اللہ کے دین کی مدد کرنے والوں کے تو اللہ تعالیٰ پاؤں جما دیتا ہے اس کے برعکس منکروں کو منہ کے بل گرا کر ہلاک کردیا جاتا ہے اور مومنوں کی تو مدد کی جاتی ہے جبکہ کافروں کے سب کئے کرائے پر پانی پھیر دیا جاتا ہے۔
(١) والذین کفروا فتعسا لھم واصل اعمالھم :” تعسا “ کا معنی ٹھوکر کھا کر گرنا اور پھر اٹھ نہ سکنا ہے ، یا کسی گڑھے میں گر کر ہلاک ہوجانا ہے۔ (مفردات) گویا اللہ کے دین کی مدد کرنے والوں کے تو اللہ تعالیٰ پاؤں جما دیتا ہے۔ اس کے برعکس منکروں کو منہ کے بل گرا کر ہلاک کر دیاج اتا ہے اور مومنوں کی تو مدد کی جاتی ہے جب کہ کافروں کے تمام اعمال برباد اور ان کے کئے کرائے پر پانی پھیر دیا جاتا ہے۔ (کیلانی)- (٢) ” تعسا “ کا فعل ” منع “ اور ” سمع “ دونوں سے آتا ہے۔ ” تعسا “ مصدر مفعول مطلق ہے جس کا فعل حذف ہونا واجب ہے :” ای تعسوا تعساً “ پھر ” تعسوا “ کو حذف کر کے ” تعساً “ مصدر کو اس کے قائم مقام کردیا اور فعل کے فاعل جمع مذکر غائب کی ضمیر کو ظاہر کردیا۔ ابن ہشام نے فرمایا کہ ” لھم “ میں لام تبین کا ہے جو ” تعسا “ کے فاعل کے بیان کے لئے ہے۔ معنی یہی ہے کہ وہ ہلاک ہوئے، بری طرح ہلاک ہونا۔
وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَتَعْسًا لَّہُمْ وَاَضَلَّ اَعْمَالَہُمْ ٨- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- تعس - التَّعْس : أن لا ينتعش من العثرة وأن ينكسر في سفال، وتَعِسَ تَعْساً وتَعْسَةً. قال تعالی: فَتَعْساً لَهُمْ [ محمد 8] . ( ت ع س ) التعس ۔ اصل تعس کے معنی ہیں لغزس کھاکر کرنا اور پھر اٹھ نہ سکنا پستی میں گر کر کسی چیز کا ٹوٹ جا تا اور یہ تعس ( س ) تعسا وتعسۃ کا مصدر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَتَعْساً لَهُمْ [ محمد 8] . ان کے لئے ہلاکت ہے ۔- ضل - الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] - ( ض ل ل ) الضلال - ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔
اور جو کفار بدر کے دن مقابلہ کے لیے آئے ان کے لیے تباہی اور بربادی ہے اور حق تعالیٰ ان کی تمام کوششوں اور اعمال کو کالعدم کردے گا۔
آیت ٨ وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَتَعْسًا لَّہُمْ وَاَضَلَّ اَعْمَالَہُمْ ” اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا تو ان کے لیے نا کامی ہے اور وہ ان کے تمام اعمال کو برباد کر دے گا۔ “- تَعْسکا معنی ٹھوکر کھا کر منہ کے بل گرنا ہے ‘ گویا ناکام و نامراد اور ذلیل و رسوا ہونا۔ اور اس سے مراد ہلاکت بھی ہے۔ یعنی جن لوگوں نے کفر کی روش اختیار کی وہ دنیا کی زندگی میں بھی خائب و خاسر اور ذلیل و رسوا ہوں گے ‘ ٹھوکریں کھا کر منہ کے بل گرنا ان کا مقدر ہوگا۔ قیامت کے دن ایسے لوگ راندئہ درگاہ کردیے جائیں گے اور حصول دنیا کے لیے کی جانے والی ان کی تمام جدوجہد ان کے کسی کام نہیں آسکے گی۔
سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :13 اصل الفاظ ہیں فَتَعْساًلَّھُمْ ۔ تعس ٹھوکر کھا کر منہ کے بل گرنے کو کہتے ہیں ۔