ذی قعدہ سنہ ٦ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمرہ ادا کرنے کے ارادے سے مدینہ سے مکہ کو چلے لیکن راہ میں مشرکین مکہ نے روک دیا اور مسجد الحرام کی زیارت سے مانع ہوئے پھر وہ لوگ صلح کی طرف جھکے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس بات پر کہ اگلے سال عمرہ ادا کریں گے ان سے صلح کر لی جسے صحابہ کی ایک بڑی جماعت پسند نہ کرتی تھی جس میں خاص قابل ذکر ہستی حضرت عمر فاروق کی ہے آپ نے وہیں اپنی قربانیاں کیں اور لوٹ گئے جس کا پورا واقعہ ابھی اسی سورت کی تفسیر میں آرہا ہے ، انشاء اللہ ۔ پس لوٹتے ہوئے راہ میں یہ مبارک سورت آپ پر نازل ہوئی جس میں اس واقعہ کا ذکر ہے اور اس صلح کو بااعتبار نتیجہ فتح کہا گیا ۔ ابن مسعود وغیرہ سے مروی ہے کہ تم تو فتح فتح مکہ کو کہتے ہو لیکن ہم صلح حدیبیہ کو فتح جانتے تھے ۔ حضرت جابر سے بھی یہی مروی ہے ، صحیح بخاری شریف میں ہے حضرت براء فرماتے ہیں تم فتح مکہ کو فتح شمار کرتے ہو اور ہم بیعت الرضوان کے واقعہ حدیبیہ کو فتح گنتے ہیں ۔ ہم چودہ سو آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس موقعہ پر تھے حدیبیہ نامی ایک کنواں تھا ہم نے اس میں سے پانی اپنی ضرورت کے مطابق لینا شروع کیا تھوڑی دیر میں پانی بالکل ختم ہو گیا ایک قطرہ بھی نہ بچا آخر پانی نہ ہونے کی شکایت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کانوں میں پہنچی آپ اس کنویں کے پاس آئے اس کے کنارے بیٹھ گئے اور پانی کا برتن منگوا کر وضو کیا جس میں کلی بھی کی پھر کچھ دعا کی اور وہ پانی اس کنویں میں ڈلوا دیا تھوڑی دیر بعد جو ہم نے دیکھا تو وہ تو پانی سے لبالب بھرا ہوا تھا ہم نے پیا جانوروں نے بھی پیا اپنی حاجتیں پوری کیں اور سارے برتن بھر لئے ۔ مسند احمد میں حضرت عمر بن خطاب سے مروی ہے کہ ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا تین مرتبہ میں نے آپ سے کچھ پوچھا آپ نے کوئی جواب نہ دیا اب تو مجھے سخت ندامت ہوئی اس امر پر کہ افسوس میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دی آپ جواب دینا نہیں چاہتے اور میں خوامخواہ سر ہوتا رہا ۔ پھر مجھے ڈر لگنے لگا کہ میری اس بے ادبی پر میرے بارے میں کوئی وحی آسمان سے نہ نازل ہو چنانچہ میں نے اپنی سواری کو تیز کیا اور آگے نکل گیا تھوڑی دیر گذری تھی کہ میں نے سنا کوئی منادی میرے نام کی ندا کر رہا ہے میں نے جواب دیا تو اس نے کہا چلو تمہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم یاد فرماتے ہیں اب تو میرے ہوش گم ہوگئے کہ ضرور کوئی وحی نازل ہوئی اور میں ہلاک ہوا جلدی جلدی حاضر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا گذشتہ شب مجھ پر ایک سورت اتری ہے جو مجھے دنیا اور دنیا کی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہے پھر آپ نے آیت ( اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِيْنًا Ǻۙ ) 48- الفتح:1 ) ، تلاوت کی ۔ یہ حدیث بخاری ترمذی اور نسائی میں بھی ہے حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں حدیبیہ سے لوٹتے ہوئے آیت ( لیغفرک لک اللہ ) الخ ، نازل ہوئی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ پر ایک آیت اتاری گئی ہے جو مجھے روئے زمین سے زیادہ محبوب ہے پھر آپ نے یہ آیت پڑھ سنائی صحابہ آپ کو مبارکباد دینے لگے اور کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو ہوئی آپ کے لئے ہمارے لئے کیا ہے ؟ اس پر یہ آیت ( لِّيُدْخِلَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا وَيُكَفِّرَ عَنْهُمْ سَيِّاٰتِهِمْ ۭ وَكَانَ ذٰلِكَ عِنْدَ اللّٰهِ فَوْزًا عَظِيْمًا Ĉۙ ) 48- الفتح:5 ) نازل ہوئی ( بخاری و مسلم ) حضرت مجمع بن حارثہ انصاری جو قاری قرآن تھے فرماتے ہیں حدیبیہ سے ہم واپس آرہے تھے کہ میں نے دیکھا کہ لوگ اونٹوں کو بھگائے لئے جا رہے ہیں پوچھا کیا بات ہے معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی وحی نازل ہوئی ہے تو ہم لوگ بھی اپنے اونٹوں کو دوڑاتے ہوئے سب کے ساتھ پہنچے آپ اس وقت کراع الغمیم میں تھے جب سب جمع ہوگئے تو آپ نے یہ سورت تلاوت کر کے سنائی تھی ایک صحابی نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا یہ فتح ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں قسم اس کی جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے یہ فتح ہے ، خیبر کی تقسیم صرف انہی پر کی گئی جو حدیبیہ میں موجود تھے اٹھارہ حصے بنائے گئے کل لشکر پندرہ سو کا تھا جس میں تین سو گھوڑے سوار تھے پس سوار کو دوہرا حصہ ملا اور پیدل کو اکہرا ۔ ( ابو داؤد وغیرہ ) حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں حدیبیہ سے آتے ہوئے ایک جگہ رات گذارنے کیلئے ہم اتر کر سو گئے تو ایسے سوئے کہ سورج نکلنے کے بعد جاگے ، دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی سوئے ہوئے ہیں ہم نے کہا آپ کو جگانا چاہیے کہ آپ خود جاگ گئے اور فرمانے لگے جو کچھ کرتے تھے کرو اور اسی طرح کرے جو سو جائے یا بھول جائے ۔ اسی سفر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کہیں گم ہوگئی ہم ڈھونڈنے نکلے تو دیکھا کہ ایک درخت میں نکیل اٹک گئی ہے اور وہ رکی کھڑی ہے اسے کھول کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے آپ سوار ہوئے اور ہم نے کوچ کیا ناگہاں راستے میں ہی آپ پر وحی آنے لگی وحی کے وقت آپ پر بہت دشواری ہوتی تھی جب وحی ہٹ گئی تو آپ نے ہمیں بتایا کہ آپ پر سورہ ( اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِيْنًا Ǻۙ ) 48- الفتح:1 ) ، اتری ہے ( ابو داؤد ، ترمذی مسندوغیرہ ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نوافل تہجد وغیرہ میں اس قدر وقت لگاتے کہ پیروں پر ورم چڑھ جاتا تو آپ سے کہا گیا کہ کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے گناہ معاف نہیں فرما دیئے؟ آپ نے جواب دیا کیا پھر میں اللہ کا شکر گذار غلام نہ بنوں ؟ ( بخاری ومسلم ) اور روایت میں ہے کہ یہ پوچھنے والی ام المومنین عائشہ تھیں ( مسلم ) پس مبین سے مراد کھلی صریح صاف ظاہر ہے اور فتح سے مراد صلح حدیبیہ ہے جس کی وجہ سے بڑی خیرو برکت حاصل ہوئی لوگوں میں امن و امان ہوا مومن کافر میں بول چال شروع ہو گئی علم اور ایمان کے پھیلانے کا موقعہ ملا آپ کے اگلے پچھلے گناہوں کی معافی یہ آپ کا خاصہ ہے جس میں کوئی آپ کا شریک نہیں ۔ ہاں بعض اعمال کے ثواب میں یہ الفاظ اوروں کے لئے بھی آئے ہیں ، اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت بڑی شرافت و عظمت ہے آپ اپنے تمام کاموں میں بھلائی استقامت اور فرمانبرداری الہٰی پر مستقیم تھے ایسے کہ اولین و آخرین میں سے کوئی بھی ایسا نہ تھا آپ تمام انسانوں میں سب سے زیادہ اکمل انسان اور دنیا اور آخرت میں کم اولاد آدم کے سردار اور رہبر تھے ۔ اور چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ اللہ کے فرمانبردار اور سب سے زیادہ اللہ کے احکام کا لحاظ کرنے والے تھے اسی لئے جب آپ کی اونٹنی آپ کو لے کر بیٹھ گئی تو آپ نے فرمایا اسے ہاتھیوں کے روکنے والے نے روک لیا ہے اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے آج یہ کفار مجھ سے جو مانگیں گے دوں گا بشرطیکہ اللہ کی حرمت کی ہتک نہ ہو پس جب آپ نے اللہ کی مان لی اور صلح کو قبول کر لیا تو اللہ عزوجل نے فتح سورت اتاری اور دنیا اور آخرت میں اپنی نعمتیں آپ پر پوری کیں اور شرع عظیم اور دین قدیم کی طرف آپ کی رہبری کی اور آپ کے خشوع و خضوع کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو بلند و بالا کیا آپ کی تواضع ، فروتنی ، عاجزی اور انکساری کے بدلے آپ کو عز و جاہ مرتبہ منصب عطا فرمایا آپ کے دشمنوں پر آپ کو غلبہ دیا چنانچہ خود آپ کا فرمان ہے بندہ درگذر کرنے سے عزت میں بڑھ جاتا ہے اور عاجزی اور انکساری کرنے سے بلندی اور عالی رتبہ حاصل کر لیتا ہے ۔ حضرت عمر بن خطاب کا قول ہے کہ تو نے کسی کو جس نے تیرے بارے میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی ہو ایسی سزا نہیں دی کہ تو اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرے ۔
1۔ 1 6 ہجری میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور 14 سو کے قریب صحاب اکرام رضوان علیہم اجمعین عمرے کی نیت سے مکہ تشریف لے گئے، لیکن مکہ کے قریب حدیبیہ کے مقام پر کافروں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو روک لیا عمرہ نہیں کرنے دیا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عثمان (رض) کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا تاکہ قریش کے سرداروں سے گفتگو کر کے انہیں مسلمانوں کو عمرہ کرنے کی اجازت دینے پر آمادہ کریں کفار مکہ نے اجازت نہیں دی اور مسلمانوں نے آئندہ سال کے وعدے پر واپسی کا ارادہ کرلیا وہیں اپنے سر بھی منڈوا لئے اور قربانیاں کرلیں۔ نیز کفار سے بھی چند باتوں کا معاہدہ ہوا جنہیں صحابہ کرام کی اکثریت ناپسند کرتی تھی لیکن نگاہ رسالت نے اس کے دور رس اثرات کا اندازہ لگاتے ہوئے، کفار کی شرائط پر ہی صلح کو بہتر سمجھا۔ حدیبیہ سے مدینے کی طرف آتے ہوئے راستے میں یہ سورت اتری، جس میں صلح کو فتح مبین سے تعبیر فرمایا گیا کیونکہ یہ صلہ فتح مکہ کا ہی پیش خیمہ ثابت ہوئی اور اس کے دو سال بعد ہی مسلمان مکہ میں فاتحانہ طور پر داخل ہوئے۔ اسی لئے بعض صحابہ اکرام کہتے تھے کہ تم فتح مکہ کو شمار کرتے ہو لیکن ہم حدیبیہ کی صلح کو فتح شمار کرتے ہیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سورت کی بابت فرمایا کہ آج کی رات مجھ پر وہ سورت نازل ہوئی ہے جو مجھے دنیا ما فیہا سے زیادہ محبوب ہے (صحیح بخاری)
[١] آپ کو بیت اللہ کے طواف کا خوب میں آنا :۔ جنگ احزاب کے بعد قریش کی مسلمانوں پر بالا دستی کا تصور ختم ہوچکا تھا تاہم ابھی تک بیت اللہ پر قریش کا ہی قبضہ تھا۔ مسلمان جب سے ہجرت کرکے مدینہ گئے تھے ان میں سے کسی نے حج، عمرہ یا طواف کعبہ نہیں کیا تھا جس کے لئے ان کے دل ترستے رہتے تھے۔ ایک دن رسول اللہ کو خواب آیا کہ آپ بہت سے مسلمانوں کی معیت میں بیت اللہ کا طواف کر رہے ہیں۔ نبی کا خواب چونکہ وحی ہوتا ہے۔- ١٤٠٠ صحابہ کے ساتھ مکہ کو روانگی :۔ لہذا آپ نے عمرہ کا اعلان فرما دیا۔ چونکہ اس سفر سے جنگی مقاصد یا غنائم کا کوئی تعلق نہ تھا۔ لہذا آپ کی معیت صرف ان صحابہ کرام (رض) نے ہی اختیار کی جو محض رضائے الٰہی کے لئے عمرہ کی نیت رکھتے تھے۔ جو صحابہ آپ کے ساتھ جانے پر تیار ہوئے ان کی تعداد چودہ سو کے لگ بھگ تھی۔- خ کافروں کا روکنا اور آمادہ جنگ ہونا : اہل مکہ کو پہلے ہی آپ کی آمد کی اطلاع ہوچکی تھی اور ان کی یہ انتہائی کوشش تھی کہ مسلمانوں کو مکہ میں داخل نہ ہونے دیا جائے۔ کیونکہ اس میں وہ اپنی توہین سمجھتے تھے۔ دستور کے مطابق اہل مکہ کسی بھی طواف اور عمرہ کرنے والے کو نہیں روک سکتے تھے۔ پھر یہ مہینہ بھی ذیقعد کا تھا جن میں اہل عرب کے دستور کے مطابق لڑائی منع تھی۔ ان دونوں باتوں کے باوجود قریش مکہ مسلمانوں کا مکہ میں داخلہ روکنے کے لئے لڑائی پر آمادہ ہوگئے۔ چناچہ خالد بن ولید ایک فوجی دستہ لے کر مقابلہ کے لئے نکل آئے۔ - خ حدیبیہ کے مقام پر فروکشی :۔ آپ کو جب یہ صورت حال معلوم ہوئی تو آپ سیدھی راہ میں تھوڑی سی تبدیلی کرکے مکہ کے زیریں علاقہ حدیبیہ میں فروکش ہوگئے۔ آپ نے اہل مکہ کو بہتیرا سمجھایا کہ ہم لڑنے کی غرض سے نہیں آئے فقط عمرہ کرنا چاہتے ہیں۔ اور قربانی کے جانور بھی دکھائے لیکن انہیں مسلمانوں کا مکہ میں داخل ہونا بھی گوارا نہ تھا۔ لہذا انہوں نے مسلمانوں کو واپس چلے جانے پر ہی اصرار کیا۔ - سیدنا عثمان (رض) کی شہادت کی افواہ اور بیعت رضوان :۔ اسی دوران فریقین کی طرف سے کئی سفارتیں بھی آئیں اور گئیں۔ مسلمانوں کی طرف سے سیدنا عثمان (رض) کو سفیر بنا کر بھیجا گیا تو انہیں وہیں روک لیا گیا۔ اور افواہ یہ مشہور ہوگئی کہ سیدنا عثمان (رض) شہید کردیئے گئے۔ چناچہ قصاص عثمان کے سلسلہ میں آپ نے ایک کیکر کے درخت کے نیچے سب صحابہ کرام سے خون پر بیعت لی۔ جو بیعت رضوان کے نام سے مشہور ہے۔ - سیدنا عثمان (رض) کی بیعت :۔ سیدنا عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ اگر رسول اللہ کے نزدیک اہل مکہ کے لئے سیدنا عثمان (رض) سے کوئی زیادہ کوئی قابل احترام ہوتا تو آپ سفارت کے لئے اسے بھیجتے یہ بیعت سیدنا عثمان (رض) کی غیر موجودگی میں ہوئی۔ لہذا اپ نے یوں کیا کہ اپنے دائیں ہاتھ سے اشارہ کیا اور فرمایا یہ عثمان (رض) کا ہاتھ ہے اور اس کو بائیں ہاتھ پر مار کر فرمایا کہ یہ عثمان (رض) کی بیعت ہے۔ (بخاری۔ کتاب المناقب۔ باب مناقب عثمان بن عفان۔۔ ) بعد میں معلوم ہوا کہ سیدنا عثمان (رض) کی شہادت کی خبر غلط تھی۔- خ سفارتوں کے تبادلے اور صلح حدیبیہ :۔ دو تین دفعہ سفارتوں کے تبادلہ کے بعد با لآخر صلح کی شرائط پر سمجھوتہ ہوگیا۔ یہ شرائط بظاہر مسلمانوں کے لئے توہین آمیز تھیں اور بیعت رضوان کے بعد بالخصوص ایسی شرائط پر رضا مند بھی نہیں ہوسکتے تھے۔ اس کے باوجود رسول اللہ نے ان شرائط کو منظور فرما لیا اور بعد میں اللہ تعالیٰ نے اس صلح کو فتح مبین قرار دیا۔ صلح کی شرائط یہ تھیں۔- ١۔ آئندہ دس سال تک مسلمان اور قریش ایک دوسرے پر چڑھائی نہ کریں گے اور صلح و آشتی سے رہیں گے۔- ٢۔ قبائل کو عام اجازت ہے کہ وہ جس فریق کے حلیف بننا چاہیں بن سکتے ہیں۔- ٣۔ اگر مکہ سے کوئی مسلمان اپنے ولی کی اجازت کے بغیر مدینہ پہنچ جائے تو مسلمان اسے واپس کردیں گے لیکن اگر کوئی مسلمان مکہ آجائے تو وہ واپس نہ کیا جائے گا۔- ٤۔ مسلمان اس دفعہ عمرہ کئے بغیر واپس چلے جائیں۔ آئندہ سال وہ تلواریں نیام میں کئے ہوئے آئیں۔ تین دن تک ان کے لئے شہر خالی کردیا جائے گا اور انہیں مکہ میں رہنے اور عمرہ کرنے کی اجازت ہوگی۔- خ شرائط قبول کرنے کی وجوہ :۔ مسلمانوں کو جب یہ سورة سنائی گئی تو وہ خود حیران ہو کر ایک دوسرے سے پوچھتے تھے کہ ایسی توہین آمیز صلح فتح مبین کیسے ہوسکتی ہے ؟ یہ بحث بڑی تفصیل طلب ہے جس کا یہاں موقع نہیں۔ ہم یہاں ایسی وجوہ بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں جن کی بنا پر آپ نے ایسی شرائط کو مسلمانوں سے مشورہ کئے بغیر بلکہ ان کی مرضی کے علی الرغم منظور فرما لیا تھا۔ البتہ یہ بات ملحوظ رکھنا چاہئے کہ یہ سب وحی الٰہی اور اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے مطابق ہوا تھا۔ وہ وجوہ یہ ہیں :- ١۔ جب سے آپ مدینہ گئے تھے آپ کے دشمنوں میں کئی گنا اضافہ ہوگیا تھا اور مسلسل چھ سال سے ہنگامی حالات میں زندگی گزار رہے تھے۔ ان دشمنوں میں سب سے بڑے دشمن یہی قریش تھے۔ آپ چاہتے تھے کہ ان کی طرف سے اطمینان نصیب ہو تاکہ دوسرے دشمنوں سے بطریق احسن نمٹا جاسکے۔ چناچہ آپ نے یہاں سے واپسی پر سب سے پہلے بنونضیر کی سرکوبی کی اور خیبر فتح ہوا۔- ٢۔ انہی ہنگامی حالات کی وجہ سے آپ کے بہت سے تبلیغی پروگرام مؤخر ہوتے جارہے تھے۔ چناچہ اس صلح کے بعد آپ نے آس پاس کے بادشاہوں کے نام تبلیغی خطوط ارسال فرمائے۔- ٣۔ اس صلح نے تمام عرب پر یہ بات ثابت کردی کہ مسلمان فی الحقیقت امن پسند قوم ہے جو جنگ سے حتی الامکان گریز کرتی ہے اور مقابلہ کی قدرت رکھنے کے باوجود صلح و آشتی کو ترجیح دیتی ہے۔ اسی تاثر کے نتیجہ میں اس صلح کے بعد بعض بڑے بڑے سردار از خود اسلام لے آئے مثلاً خالد بن ولید سیف اللہ اور عمرو بن عاص فاتح مصر وغیرہم۔- ٤۔ جنگ کی صورت میں مکہ میں موجود مسلمانوں کی تباہی یقینی تھی۔ قرآن کریم نے یہ ایک ایسی وجہ بیان فرمائی جس کا مسلمانوں کو خیال تک نہ آیا تھا۔- خ جانوروں کی قربانی :۔ اس معاہدہ صلح کی تحریر کے بعد آپ نے صحابہ کرام (رض) کو اپنی اپنی قربانیاں ذبح کرنے کا حکم دیا۔ لیکن صحابہ کرام کو اس توہین آمیز صلح کا کچھ ایسا غم لاحق ہوگیا تھا کہ آپ کے اس حکم پر کوئی بھی اپنی جگہ سے نہ اٹھا۔ (شاید وہ اسی انتظار میں ہوں کہ ابھی اللہ کی طرف سے کوئی اور حکم آجائے گا) اس سفر میں سیدہ ام سلمہ (رض) آپ کے ہمراہ تھیں۔ آپ نے ان سے جب یہ صورت حال بیان کی تو انہوں نے یہ مشورہ دیا کہ آپ اپنی قربانی ذبح کردیں پھر صحابہ اپنی قربانیاں خود بخود ذبح کردیں گے۔ چناچہ آپ نے اپنی قربانی ذبح کی۔ بال منڈائے تو صحابہ کرام نے آپ کی اتباع میں قربانیاں کیں۔ بال منڈائے اور احرام کھول کر واپس مدینہ آگئے۔ (بخاری۔ کتاب الشروط۔ باب الشروط فی الجہاد والمصالحۃ)- خ عمرہ قضا :۔ پھر اگلے سال انہیں مسلمانوں نے عمرہ قضا ادا کیا۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب عمرۃ القضائ)- اب ہم یہاں چند احادیث درج کرتے ہیں جن سے اس سورة کا شان نزول اور صحابہ کرام بالخصوص سیدنا عمر کے اضطراب کا منظر سامنے آتا ہے :- ١۔ سیدنا انس فرماتے ہیں کہ ( اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِيْنًا ۙ ) 48 ۔ الفتح :1) سے مراد صلح حدیبیہ ہے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر)- ٢۔ شراط صلح پر سیدنا عمر (رض) کی بےقراری :۔ زید بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ایک سفر (حدیبیہ) میں تھے اور سیدنا عمر بھی آپ کے ساتھ تھے۔ رات کا وقت تھا۔ سیدنا عمر نے آپ سے کچھ پوچھا تو آپ نے جواب نہ دیا۔ سیدنا عمر نے پھر پوچھا تو بھی آپ نے کوئی جواب نہ دیا۔ پھر (تیسری بار) پوچھا تب بھی آپ نے جواب نہ دیا۔ آخر سیدنا عمر اپنے تئیں کہنے لگے : تیری ماں تجھ پر روئے تو نے تین بار عاجزی کے ساتھ رسول اللہ سے پوچھا لیکن آپ نے ایک بار بھی جواب نہ دیا سیدنا عمر کہتے ہیں۔ پھر میں نے اپنے اونٹ کو ایڑ لگائی اور لوگوں سے آگے نکل گیا۔ مجھے خطرہ تھا کہ اب میرے بارے میں قرآن نازل ہوگا۔ ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ میں نے ایک پکارنے والے کی آواز سنی جو مجھے ہی بلا رہا تھا۔ میں ڈر گیا کہ شاید میرے بارے میں قرآن اترا ہے۔ پھر میں آپ کے پاس آیا اور آپ کو سلام کیا۔ آپ نے فرمایا : آج رات مجھ پر ایک سورت اتری ہے جو مجھے ان تمام چیزوں سے زیادہ پسند ہے جن تک سورج کی روشنی پہنچتی ہے پھر آپ نے یہ سورت پڑھی۔ (حوالہ ایضاً )- ٣۔ سیدنا سہل بن حنیف کہتے ہیں کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر ہم رسول اللہ کے ساتھ موجود تھے۔ جب آپ نے مشرکین مکہ سے صلح کی۔ اگر ہم لڑنا مناسب سمجھتے تو لڑ سکتے تھے۔ سیدنا عمر آئے اور آپ سے کہا : کیا ہم حق پر اور یہ (مشرک) باطل پر نہیں ؟ کیا ہمارے مقتول جنت میں اور ان کے مقتول دوزخ میں نہ ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا : کیوں نہیں سیدنا عمر کہنے لگے : تو پھر ہم اپنے دین کو کیوں ذلیل کریں ؟ اور ایسے ہی مدینہ کو چلے جائیں۔ جب تک کہ اللہ ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ نہ کردے ؟ آپ نے فرمایا : خطاب کے بیٹے رسول میں ہوں (تم نہیں) اللہ مجھے کبھی ضائع نہ کرے گا چناچہ سیدنا عمر غصے کی حالت میں لوٹ گئے۔ مگر قرار نہ آیا تو سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کے پاس آکر کہنے لگے۔ کیا ہم حق پر اور یہ مشرک باطل پر نہیں ؟ سیدنا ابوبکر صدیق (رض) نے فرمایا : خطاب کے بیٹے اللہ کے رسول وہ ہیں (تم نہیں) اور اللہ انہیں کبھی ضائع نہیں کرے گا اس وقت سورة فتح نازل ہوئی۔ (حوالہ ایضاً )- ٤۔ سیدنا عبداللہ بن مغفلص کہتے ہیں کہ جس دن مکہ فتح ہوا اس وقت آپ یہ سورت دہرا دہرا کر خوش الحانی سے پڑھ رہے تھے۔ (حوالہ ایضاً )- خ صلح حدیبیہ کی توہین آمیز شرائط سے خیر کے پہلو کیسے پیدا ہوئے اور ابو جندل کی حالت زار اور فریاد :۔ صلح حدیبیہ کی انہی توہین آمیز شرائط سے اللہ تعالیٰ نے خیر کے بہت سے پہلو پیدا کردیئے۔ مکہ میں رکھے جانے والے مسلمانوں نے جب مکہ میں تبلیغ شروع کردی اور بعض لوگ اسلام بھی لے آئے تو یہی بات قریش مکہ کے لئے سوہان روح بن گئی، اور مسلمانوں کے ہاں مدینہ سے واپس کئے جانے والے مسلمانوں نے تجارتی شاہراہ پر اپنی الگ بستی بسا کر قریش کے تحارتی قافلوں کا ناک میں دم کردیا۔ ان میں ایک ابو جندل تھے۔ قریش مکہ کے تیسرے اور آخری سفیر سہیل بن عمرو کے بیٹے تھے اور مسلمان ہوچکے تھے جب شرائط صلح طے پارہی تھیں لیکن تاہنوز ضبط تحریر میں نہ آئی تھیں اس وقت یہ اہل مکہ کی قید سے بھاگ کر حدیبیہ میں مسلمانوں کے پاس پہنچ گئے اور انہیں اپنے زخم دکھا دکھا کر التجا کی کہ اب انہیں کفار کے حوالہ نہ کیا جائے۔ مسلمان ابو جندل کو پناہ دینے کے حق میں تھے کیونکہ شرائط تاحال ضبط تحریر میں نہ آئی تھیں مگر ابو جندل کا باپ سہیل اس بات پر اڑ گیا کہ اگر ابو جندل کو واپس نہ کیا گیا تو صلح نہیں ہوسکتی آخر رسول اللہ نے ابو جندل کو صبر کی تلقین فرمائی اور اسے واپس کردیا۔ اسی طرح سیدنا ابو بصیر اسلام لاکر مدینہ پہنچے تو کفار نے دو آدمی مدینہ بھیج دیئے کہ وہ انہیں واپس مکہ لائیں۔ آپ نے ابو بصیر کو ان کے ہمراہ کردیا۔ ابو بصیر نے راہ میں موقع پر ایک کو قتل کردیا اور دوسرا فرار ہو کر مدینہ آگیا اور رسول اللہ کو یہ ماجرا سنایا اتنے میں پیچھے پیچھے ابو بصیر بھی مدینہ آپ کے پاس پہنچ گیا اور عرض کیا یارسول اللہ آپ نے مجھے ان کے ہمراہ بھیج کر اپنا ذمہ پورا کردیا۔ اب تو اللہ نے مجھے ان سے نجات دی رسول اللہ نے فرمایا : جنگ کی آگ نہ بھڑکاؤ سیدنا ابو بصیر کو جب معلوم ہوا کہ آپ انہیں مدینہ نہیں رہنے دیں گے تو وہاں سے چل کر سمندر کے کنارے پر آکر مقیم ہوگئے۔ بعد ازاں ابو جندل بھی یہاں پہنچ گئے اور دوسرے نومسلم بھی مدینہ کے بجائے ادھر کا رخ کرنے لگے۔ ان لوگوں نے قریش کو اس قدر تنگ کیا کہ انہوں نے مجبور ہو کر اس شرط کو کالعدم کردیا اور اجازت دے دی کہ جو شخص مسلمان ہو کر مدینہ جانا چاہے وہ جاسکتا ہے۔ اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ کفار نے رسول اللہ سے درخواست کی کہ ابو بصیر کو ان کاموں سے منع کریں اور جو شخص مسلمان ہو کر مدینہ جانا چاہے وہ جاسکتا ہے۔ چناچہ آپ نے ابو بصیر کو لوٹ مار کرنے سے منع فرما دیا۔ (کتاب الشروط نیز کتاب المغازی وغیرہ)
(انا فتحنالک فتحا مبیناً : لفظ ” فتحاً “ سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد فتح مکہ اور اس کے قریب ہونے والی فتوحات ہیں اور یقیناً یہ الفاظ فتح مکہ پر بھی صادق آتے ہیں، مگر صحابہ کرام اور محقق اہل علم نے اس کا سبب نزول صلح حدیبیہ بیان فرمایا ہے۔ چناچہ قتادہ بیان کرتے ہیں کہ انس (رض) نے ” انا فتحنا لک فتحا مبیناً “ کے متعلق فرمایا کہ اس سے مراد صلح حدیبیہ ہے۔ (بخاری، التفسیر، سورة الفتح :3833) اور برئا بن عازب (رض) نے فرمایا :” تم فتح مکہ کو فتح سمجھتے ہو اور واقعی فتح مکہ فتح تھی مگر ہم حدیبیہ کے دن بیعت رضوان کو فتح شمار کرتے ہیں۔ “ (بخاری، المغازی، باب غزوہ الحدیبۃ :3150) زید بن اسلم اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ایک سفر میں چل رہے تھے، رات کو عمر بن خطاب (رض) بھی آپ کے ساتھ چل رہے تھے۔ عمر بن خطاب (رض) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کسی چیز کے متعلق سوال کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں جواب نہ دیا، انہوں نے پھر سوال کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب نہ دیا، انہوں نے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب نہ دیا۔ عمر بن خطاب (رض) نے کہا :” عمر تیری ماں تجھے گم پائے، تو نے اصرار کے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تین مرتبہ سوال کیا، لیکن ہر بار آپ نے جواب نہیں دیا۔ “ عمر (رض) فرماتے ہیں، چناچہ میں اپنی اونٹنی کو حرکت دے کر مسلمانوں سے آگے نکل گیا، اس خوف سے کہ کہیں میرے بارے میں قرآن نازل نہ ہوجائے۔ کچھ دیر بعد ہی میں یہی سمجھ رہا تھا کہ میرے بارے میں قرآن نازل ہوا ہے۔ میں نے سلام کہا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(لقد انزلت علی اللیلۃ سورة لھی احب الی مما طلعت علیہ الشمس، ثم قراً :(انا فتحنا لک فتحاً مبینا) (بخاری، المغازی، باب غزوۃ الحدیبیۃ :3188)” رات مجھ پر وہ سورت اتری ہے جو مجھے ہر اس چیز سے زیادہ محبوب ہے جس پر سورج طلوع ہوتا ہے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پڑھا :(انا فتحنا لک فتحاً مبیناً )” بیشک ہم نے تجھے فتح دی، ایک کھلی فتح۔ “- سہل بن حنیف (رض) سے مروی ایک لمبی حدیث کے آخر میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سورة فتح نازل ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عمر (رض) کی طرف پیغام بھیجا اور انہیں سورة فتح پڑھوائی۔ انہوں نے کہا :(یا رسول اللہ اوفتح ھو ؟ )” اے اللہ کے رسول کیا یہ فتح ہے ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(نعم)” ہاں “ تو ان کا دل خوش ہوگیا اور وہ چلے گئے۔ (مسلم، الجھاد والسیر، باب صلح الحدیبیۃ…:1885)- (٢) حقیقت یہ ہے کہ صلح حدیبیہ اسلام اور مسلمانوں کی عظیم فتح تھی، کیونکہ اس کے ساتھ مسلمانوں کو بیشمار فوائد حاصل ہوئے۔ جن میں سے ایک یہ تھا کہ قریش نے مسلمانوں کا وجود تسلیم کرلیا، جو اس سے پہلے وہ کسی صورت تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں تھے۔ ایک یہ کہ دشمن کی حقیقی قوت کا اندازہ ہوگیا اور یہ کہ وہ کس حد تک مزاحمت کرسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اس میں مخلص ایمان والوں اور منافقین کی پہچان ہوگئی، کیونکہ منافقین رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نکلنے کی جرأت ہی نہیں کرسکے تھے، جیسا کہ آگے ” سیقول المخلفون “ میں آرہا ہے۔ ایک یہ کہ جزیرہ عرب میں امن قائم ہوجانے سے کفار اور مسلمانوں کا ایک دوسرے سے میل جول شروع ہوگیا ۔ کفار نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کی بات سنی، ان کے اخلاق دیکھے، آپ س میں بحث و مناظرہ ہوا اور دعوت کا دائرہ وسیع ہوا، جس کے نتیجے میں بہت بڑی تعداد نے اسلام قبول کرلیا۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ اس سے پہلے حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ چودہ صحابہ آئے تھے، لیکن صرف دو سال بعد فتح مکہ کے سال آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دس ہزار صحابہ کیساتھ فاتحانہ شان سے مکہ میں داخل ہوئے۔- (٣) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تین طرح کی تاکید کے ساتھ اس فتح کی اہمیت بیان فرمائی، ایک اس کی عظمت کے اظہار کے لئے اس کی نسبت اپنی طرف دو دفعہ جمع متکلم کے صیغے کے ساتھ فرمائی، ایک ” انا “ اور دوسرا ” فتحنا “ اور دوسری یہ کہ ” فتحنا “ کی تاکید مفعول مطلق ” فتحا “ کے ساتھ فرمائی اور تیسری یہ کہ اسے ” فتح مبین “ قرار دیا، یعنی بیشک ہم نے تیرے لئے فتح دی، ایک کھلی فتح۔- (٤) ” انا فتحنالک “ میں ” لک ‘(تیرے لئے) کے الفاظ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکریم و تشریف کا اظہار ہو رہا ہے، جس سے امت کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قدر پہچاننے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت اور اتباع کی تعلیم دینا مقصود ہے۔
خلاصہ تفسیر - بیشک ہم نے (اس صلح حدیبیہ سے) آپ کو ایک کھلم کھلا فتح دی (یعنی صلح حدیبیہ سے یہ فائدہ ہوا کہ وہ سبب ہوگئی ایک فتح مطلوب یعنی فتح مکہ کا، اس لحاظ سے یہ صلح ہی فتح ہوگئی، اور فتح مکہ فتح مبین اس لئے کہا گیا کہ فتح سے مقصود شریعت اسلام میں کوئی حکمرانی نہیں بلکہ دین اسلام کا غلبہ مقصود ہوتا ہے، اور فتح مکہ سے یہ مقصود بڑی حد تک حاصل ہوگیا، کیونکہ تمام قبائل عرب اس بات کے منتظر تھے کہ اگر آپ اپنی قوم پر غالب آگئے تو ہم بھی اطاعت کرلیں گے، جب مکہ فتح ہوا تو چاروں طرف سے عرب کے قبائل امنڈ پڑے اور خود یا بواسطہ اپنے وفود کے اسلام لانا شروع کیا (رواہ البخاری عن عمر بن سلمہ) چونکہ غلبہ اسلام کے بڑے آثار فتح مکہ سے نمایاں ہوئے اس لئے اس کو فتح مبین فرمایا گیا، اور صلح حدیبیہ اس فتح مکہ کا سبب اور ذریعہ اس طرح ہوگئی کہ اہل مکہ سے آئے دن لڑائی رہا کرتی تھی جس کی وجہ سے مسلمانوں کو اپنی قوت اور سامان بڑھانے کی مہلت و فرصت نہ ملتی تھی۔ حدیبیہ کے واقعہ میں جو صلح ہوگئی تو اطمینان کے ساتھ مسلمانوں نے کوشش کی جس سے بہت سے نئے آدمی مسلمان ہوگئے اور مجمع مسلمانوں کا بڑھ گیا اور فتح خیبر وغیرہ سے سامان بھی درست ہوگیا اور ایسے ہوگئے کہ دوسروں پر دباؤ پڑ سکے، پھر قریش کی طرف سے عہد شکنی ہوئی تو آپ دس ہزار صحابہ کرام کے ساتھ مقابلے کے لئے چلے۔ اہل مکہ اس قدر مرعوب ہوئے کہ زیادہ لڑائی بھی نہیں ہوئی اور اطاعت قبول کرلی اور جو لڑائی ہوئی بھی تو اتنی کم اور خفیف کہ اہل علم کا اس میں اختلاف ہوگیا کہ مکہ مکرمہ صلح کے ساتھ فتح ہوا یا جنگ سے، غرض اس طرح یہ صلح سبب فتح ہوگئی اس لئے مجازی طور پر اس صلح کو بھی فتح فرما دیا گیا جس میں فتح مکہ کی پیشین گوئی بھی ہے۔ آگے اس فتح کے دینی اور دنیوی ثمرات و برکات کا بیان ہے کہ یہ فتح اس لئے میسر ہوئی) تاکہ (تبلیغ دین اور دعوت حق میں آپ کی کوششوں کا نتیجہ اس طرح ظاہر ہو کہ کثرت سے لوگ اسلام میں داخل ہوں اور اس سے آپ کا اجر بہت بڑھ جائے اور کثرت اجر و قرب کی برکت سے) اللہ تعالیٰ آپ کی سب اگلی پچھلی (صوری) خطائیں معاف فرما دے اور آپ پر (جو اللہ تعالیٰ ) اپنے احسانات (کرتا آتا ہے مثلاً آپ کو نبوت دی، قرآن دیا، بہت سے علوم دیئے بہت سے اعمال کا ثواب دیا ان احسانات) کی (اور زیادہ) تکمیل کر دے (اس طرح کہ آپ کے ہاتھ پر بہت سے لوگ اسلام میں داخل ہوں جس سے آپ کا اجر اور مقام قرب اور بلند ہو یہ دو نعمتیں تو آخرت سے متعلق ہیں) اور (دو نعمتیں دنیوی ہیں ایک یہ کہ) آپ کو بغیر کسی روک ٹوک کے دین کے) سیدھے راستہ پر لے چلے (اور اگرچہ آپ کا صراط مستقیم پر چلنا پہلے یقینی ہے مگر اس میں کفار کی مزاحمت ہوتی تھی اب یہ مزاحمت نہیں رہے گی) اور (دوسری دنیوی نعمت یہ ہے کہ) اللہ آپ کو ایسا غلبہ دے جس میں عزت ہی عزت ہو (یعنی جس کے بعد آپ کو کبھی کسی سے دبنا نہ پڑے۔ چناچہ ایسا ہی ہوا کہ تمام جزیرة العرب پر آپ کا تسلط ہوگیا )- معارف و مسائل - جمہور صحابہ وتابعین اور ائمہ تفسیر کے نزدیک سورة فتح 2 ہجری میں اس وقت نازل ہوئی جبکہ آپ بقصد عمرہ مکہ مکرمہ مع جماعت صحابہ کے تشریف لے گئے اور حرم مکہ کے قریب مقام حدیبیہ تک پہنچ کر قیام فرمایا مگر قریش مکہ نے آپ کو مکہ میں داخل ہونے سے منع کیا پھر اس پر صلح کرنے کے لئے تیار ہوئے کہ اس سال تو آپ واپس چلے جائیں اگلے سال اس عمرہ کی قضاء کرلیں، بہت سے صحابہ کرام خصوصاً فاروق اعظم اس طرح کی صلح سے ناراض تھے مگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے باشارات ربانی اس صلح کو انجام کار مسلمانوں کے لئے ذریعہ کامیابی سمجھ کر قبول فرما لیا جس کی تفصیل آگے آتی ہے۔- جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا احرام عمرہ کھول دیا اور حدیبیہ سے واپس روانہ ہوئے تو راستہ میں یہ سورت پوری نازل ہوئی جس میں بتلا دیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خواب سچا ہے ضرور واقع ہوگا مگر اس کا یہ وقت نہیں بعد میں فتح کے وقت ہوگا اور اس صلح حدیبیہ کو فتح مبین سے تعبیر فرمایا کیونکہ یہ صلح ہی درحقیقت فتح مکہ کا سبب بنی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود اور بعض دوسرے صحابہ کرام نے فرمایا ہے کہ تم لوگ تو فتح مکہ کو فتح کہتے ہو اور ہم صلح حدیبیہ کو فتح سمجھتے ہیں۔ اسی طرح جابر نے فرمایا کہ ہم صلح حدیبیہ ہی کو فتح سمجھتے ہیں اور حضرت براء بن عازب نے فرمایا کہ تم لوگ تو فتح مکہ ہی کو فتح سمجھتے ہو اور کوئی شک نہیں کہ وہ فتح ہے لیکن ہم تو واقعہ حدیبیہ کے وقت بیعت رضوان کو اصلی فتح سمجھتے ہیں جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حاضرین صحابہ سے جن کی تعداد چودہ سو تھی ایک درخت کے نیچے جہاد کرنے پر بیعت لی تھی جیسا کہ اسی سورت میں اس بیعت کا ذکر بھی آگے آ رہا ہے (ملحض از ابن کثیر) اور جبکہ یہ معلوم ہوگیا کہ یہ سورت واقعہ حدیبیہ میں نازل ہوئی ہے اور اس واقعہ کے بہت سے اجزاء کا خود اس صورت میں تذکرہ بھی ہے اس لئے مناسب معلوم ہوا کہ اس واقعہ کو پہلے ذکر کردیا جائے۔ تفسیر ابن کثیر میں اس کی بڑی تفصیل ہے اور اس سے زیادہ تفسیر مظہری میں اس جگہ چودہ صفحات میں یہ قصہ اول سے آخر تک مفصل اور مرتب مستند کتب حدیث کے حوالہ سے بیان کیا ہے جو بہت سے معجزات اور نصائح اور علمی، دینی، سیاسی فوائد و حکم پر مشتمل ہے اس میں سے یہاں اس قصہ کے صرف وہ اجرا لکھے جاتے ہیں جن کا ذکر خود اس سورت میں کیا گیا ہے یا جن سے اس کا گہرا تعلق ہے تاکہ آگے ان آیتوں کی تفسیر سمجھنا آسان ہوجائے جو اس قصہ سے متعلق ہیں اور یہ سب بیان تفسیر مظہری سے لیا گیا ہے اور جو کسی دوسری تفسیر سے لیا ہے اس کا حوالہ دے دیا ہے۔- واقعہ حدیبیہ :- حدیبیہ، ایک مقام مکہ مکرمہ سے باہر حدود حرام کے بالکل قریب ہے جس کو آج کل شمیسہ کہا جاتا ہے یہ واقعہ اس مقام پر پیش آیا ہے۔- جزو اول رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خواب :- اس واقعہ کا ایک جزو بروایت عبد بن حمید و ابن جریر و بیہقی وغیرہ یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ طیبہ میں یہ خواب دیکھا کہ آپ مکہ مکرمہ میں مع صحابہ کرام کے امن و اطمینان کے ساتھ داخل ہوئے اور احرام سے فارغ ہو کر کچھ لوگوں نے حسب قاعدہ سر کا حلق کرایا بعض نے بال کٹوا لئے اور یہ کہ آپ بیت اللہ میں داخل ہوئے اور بیت اللہ کی چابی آپ کے ہاتھ آئی، یہ اس واقعہ کا ایک جزو ہے جس کا ذکر اسی سورت میں آنے والا ہے (انبیاء (علیہم السلام) کا خواب وحی ہوتا ہے اس لئے اس صورت کا واقع ہونا یقینی ہوگیا مگر خواب میں اس واقعہ کے لئے کوئی سال یا مہینہ متعین نہیں کیا گیا اور درحقیقت یہ خواب فتح مکہ کے وقت پورا ہونے والا تھا مگر جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام کو خواب سنایا تو وہ سب کے سب مکہ مکرمہ جانے اور بیت اللہ کا طواف کرنے وغیرہ کے ایسے مشتاق تھے کہ ان حضرات نے فوراً ہی تیاری شروع کردی اور جب صحابہ کرام کا ایک مجمع تیار ہوگیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی ارادہ فرما لیا کیونکہ خواب میں کوئی خاص سال یا مہینہ متعین نہیں تھا تو احتمال یہ بھی تھا کہ ابھی یہ مقصد حاصل ہوجائے) (کذافی بیان القرآن بحوالہ روح المعانی)- جزو دوم، آپ کا صحابہ کرام اور دیہات کے مسلمانوں کے ساتھ چلنے کے لئے بلانا اور بعض کا انکار کرنا :- ابن سعد وغیرہ کی روایت ہے کہ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام نے عمرہ کا ارادہ فرما لیا تو آپ کو یہ خطرہ سامنے تھا کہ قریش مکہ ممکن ہے کہ ہمیں عمرہ کرنے سے روکیں اور ممکن ہے کہ مدافعت کے لئے جنگ کی صورت پیش آجائے اس لئے آپ نے مدینہ طیبہ کے قریبی دیہات میں اعلان کر کے ان لوگوں کے ساتھ چلنے کی دعوت دی، ان میں سے بہت سے اعراب (دیہات) نے ساتھ چلنے سے عذر کردیا اور کہنے لگے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے اصحاب ہمیں قریش مکہ سے لڑوانا چاہتے ہیں جو سازو سامان والے اور طاقتور ہیں ان کا انجام تو یہ ہونا ہے کہ یہ اس سفر سے زندہ واپس نہ لوٹیں گے (مظھری)- جزو سوم، مکہ کی طرف روانگی :- امام احمد و بخاری، ابوداؤد و نسائی وغیرہ کی روایت کے مطابق روانگی سے پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غسل فرمایا اور نیا لباس زیب تن فرمایا اور اپنی ناقہ قصوٰی پر سوار ہوئے، ام المومنین حضرت ام سلمہ کو ساتھ لیا اور آپ کے ساتھ مہاجرین اور انصار اور دیہات کے آنے والوں کا بڑا مجمع تھا جن کی تعداد اکثر روایات میں چودہ سو بیان کی گئی ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خواب کی وجہ سے ان میں کسی کو شک نہیں تھا کہ مکہ اس وقت فتح ہوجائے گا، حالانکہ بجز تلواروں کے ان کے ساتھ اور کچھ اسلحہ نہ تھا، آپ مع صحابہ کرام کے شروع ماہ ذیقعدہ میں پیر کے دن روانہ ہوئے اور ذوالحلیفہ میں پہنچ کر احرام باندھا (مظہری ملخصاً )- جزو چہارم، اہل مکہ کی مقابلے کیلئے تیاری :- دوسری طرف جب اہل مکہ کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک بڑی جماعت صحابہ کے ساتھ مکہ کے لئے روانہ ہونے کی خبر ملی تو جمع ہو کر باہم مشورہ کیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے اصحاب کے ساتھ عمرہ کے لئے آ رہے ہیں اگر ہم نے ان کو مکہ میں آنے دیا تو تمام عرب میں یہ شہرت ہوجائے گی کہ وہ ہم پر غلبہ پا کر مکہ مکرمہ پہنچ گئے حالانکہ ہمارے اور ان کے درمیان کئی جنگیں ہوچکی ہیں سب نے عہد کیا کہ ہم ایسا ہرگز نہیں ہونے دیں گے اور آپ کو روکنے کے لئے خالد بن ولید (جو ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے) کی سر کردگی میں ایک جماعت کو مکہ سے باہر مقام کراع الغمیم پر بھیج دیا اور آس پاس کے دیہات والوں کو بھی ساتھ ملا لیا اور طائف کا قبیلہ بنو ثقیف بھی ان کے ساتھ لگ گیا، انہوں نے مقام بلدح پر اپنا پڑاؤ ڈال لیا، ان سب نے آپس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکہ میں داخل ہونے سے روکنے اور آپ کے مقابلے میں جنگ کرنے کا عہد کرلیا۔- خبر رسانی کا ایک عجیب سادہ طریقہ :- ان لوگوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حالات سے باخبر رہنے کے لئے یہ انتظام کیا کہ مقام بلدح سے لے کر اس مقام تک جہاں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہنچ چکے تھے پہاڑوں کی چوٹیوں پر کچھ آدمی بٹھا دیئے تاکہ آپ کے پورے حالات دیکھ کر آپ کے متصل پہاڑ والا بآواز بلند دوسرے پہاڑ والے تک وہ تیسرے تک وہ چوتھے تک پہنچا دے اس طرح چند منٹوں میں آپ کی نقل و حرکت کا بلدح والوں کو علم ہوجاتا تھا۔- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خبر رساں :- آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بشر ابن سفیان کو آگے مکہ مکرمہ بھیج دیا تھا کہ وہ خفیہ اہل مکہ کے حالات جا کر دیکھیں اور آپ کو اطلاع کریں۔ وہ مکہ سے واپس آئے تو اہل مکہ کی ان جنگی تیاریوں اور مکمل مزاحمت کے واقعات کی خبر دی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ افسوس ہے قریش پر کہ متعدد جنگوں نے ان کو کھالیا ہے پھر بھی وہ جنگ سے باز نہیں آتے، ان کے لئے تو اچھا موقع تھا کہ وہ مجھے اور دوسرے اہل عرب کو آزاد چھوڑ دیتے اگر یہ عرب لوگ مجھ پر غالب آجاتے تو ان کی مراد گھر بیٹھے حاصل تھی اور میں ان پر غالب آجاتا تو یا تو پھر وہ بھی اسلام میں داخل ہوجاتے اور اگر یہ نہ کرتے اور جنگ ہی کرنے کا ارادہ ہوتا تو وہ تازہ اور قوی ہوتے اور پھر وہ میرے مقابلے پر آجاتے، معلوم نہیں کہ یہ قریش کیا سمجھ رہے ہیں قسم ہے اللہ کی کہ میں اس حکم پر جو اللہ نے مجھے دے کر بھیجا ہے ہمیشہ ان کے خلاف جہاد کرتا رہوں گا یہاں تک کہ تنہا میری گردن رہ جائے۔- جزو پنجم، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ناقہ کا راستہ میں بیٹھ جانا :- اس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو جمع کر کے خطبہ دیا اور مشورہ لیا کہ اب ہمیں یہیں سے ان عربوں کے خلاف جہاد شروع کردینا چاہئے یا ہم بیت اللہ کی طرف بڑھیں، پھر جو ہمیں روکے اس سے قتال کریں۔ حضرت ابوبکر صدیق اور دوسرے صحابہ نے مشورہ دیا کہ آپ بیت اللہ کے قصد سے نکلے ہیں کسی سے جنگ کے لئے نہیں نکلے اس لئے آپ اپنے قصد پر رہیں ہاں اگر کوئی ہمیں مکہ سے روکے گا تو ہم اس سے قتال کریں گے، اس کے بعد حضرت مقداد بن اسودا اٹھے اور عرض کیا یا رسول اللہ، ہم بنی اسرائیل کی طرح نہیں کہ آپ سے یہ کہہ دیں (آیت) اذھب انت و ربک فقاتلا (یعنی جایئے آپ اور آپ کا رب لڑ بھڑ لیجئے ہم تو یہاں بیٹھے ہیں) بلکہ ہم ہر حال میں آپ کے ساتھ قتال کریں گے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ سن کر فرمایا، بس اب اللہ کے نام پر مکہ کی طرف چلو۔ جب آپ مکہ مکرمہ کے قریب پہنچے اور خالد بن ولید اور ان کے ساتھیوں نے آپ کو مکہ کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھا تو اپنے لشکر کی صفوف جانب قبلہ کی طرف مستحکم کر کے کھڑا کردیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عباد بن بشر کو ایک دستہ فوج کا امیر بنا کر آگے کیا، انہوں نے خالد بن ولید کے لشکر کے بالمقابل صفوف بنالیں، اسی حالت میں نماز ظہر کا وقت آ گیا حضرت بلال نے اذان کہی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام صحابہ کرام کو نماز پڑھائی۔ خالد بن ولید اور ان کے سپاہی دیکھتے رہے۔ بعد میں خالد بن ولید نے کہا کہ ہم نے بڑا اچھا موقع ضائع کردیا جب یہ لوگ سب نماز میں تھے اس وقت ہم پر ٹوٹ پڑتے مگر کچھ بات نہیں اب ان کی دوسری نماز کا وقت آنے والا ہے اس کا انتظار کرو مگر جبرائیل (علیہ السلام) صلوٰة الخوف کے احکام لے کر نازل ہوگئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کے ارادوں سے باخبر کر کے نماز کے وقت لشکر کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا طریقہ بتلادیا اور ان کے شر سے محفوظ رہے۔- جزو ششم، مقام حدیبیہ میں ایک معجزہ :- مگر جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حدیبیہ کے قریب پہنچے تو آپ کی اونٹنی کا ہاتھ پھسل گیا وہ بیٹھ گئی صحابہ کرام نے اٹھانا چاہا تو نہ اٹھی لوگوں نے کہا کہ قصوٰی بگڑ گئی آپ نے فرمایا قصوٰی کا قصور نہیں نہ اس کی ایسی عادت ہے بلکہ اس کو تو اس ذات نے روک دیا ہے جس نے اصحاب فیل کو روک دیا تھا (غالباً اس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ اندازہ ہوگیا کہ جو واقعہ خواب میں دکھلایا گیا ہے اس کا یہ وقت نہیں ہے) آپ نے یہ دیکھ کر فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے آج کے دن قریش مجھ سے جو بات بھی ایسی کہیں گے جس میں شعائر الٰہیہ کی تعظیم ہو تو میں اس کو ضرور مان لوں گا۔ پھر آپ نے اونٹنی پر ایک آواز لگائی تو اٹھ گئی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خالد بن ولید کی جانب سے ہٹ کر حدیبیہ کی دوسری جانب قیام فرمایا جہاں پانی بہت ہی کم تھا۔ پانی کے موقع پر خالید بن ولید اور بلدح والے قابض ہوچکے تھے۔ یہاں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ معجزہ ظاہر ہوا کہ ایک کنواں جس میں پانی کچھ کچھ رستا تھا اس میں آپ نے کلی کردی اور اپنا ایک تیر دیا کہ اس کے اندر گاڑ دو ، یہ عمل ہوتے ہی اس کا پانی جوش مار کر کنویں کی من کے قریب پہنچ گیا کنویں کے اوپر والوں نے اپنے برتنوں سے پانی نکالا اور سیراب ہوگئے۔- جزو ہفتم، اہل مکہ کے ساتھ بواسطہ وفود بات چیت :- اس طرح سب صحابہ مطمئن ہو کر یہاں مقیم ہوئے اور اہل مکہ سے بواسطہ وفود بات چیت شروع ہوئی۔ پہلے بدیل بن ورقاء (جو بعد میں مسلمان ہوگئے) اپنے ساتھیوں کے ساتھ حاضر ہوئے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خیر خواہانہ عرض کیا کہ قریش مکہ پوری قوت کے ساتھ مقابلے کے لئے نکل آئے ہیں اور پانی کی جگہوں پر انہوں نے قبضہ کرلیا ہے وہ ہرگز آپ کو نہ چھوڑیں گے کہ آپ مکہ میں داخل ہوں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ہم کسی سے جنگ کرنے نہیں آئے البتہ اگر کوئی ہمیں عمرہ کرنے سے روکے گا تو ہم قتال کریں گے پھر آپ نے اسی بات کا اعادہ فرمایا جو پہلے جاسوس بشر کے سامنے کہی تھی کہ قریش کو متعدد جنگوں نے کمزور کردیا ہے اگر وہ چاہیں تو کسی معین مدت تک کیلئے ہم سے صلح کرلیں تاکہ وہ بےفکر ہو کر اپنی تیاری میں لگ جائیں اور ہمیں اور باقی عرب کو چھوڑ دیں، اگر وہ مجھ پر غالب آگئے تو ان کی مراد گھر بیٹھے پری ہوجائے گی اور اگر ہم غالب آگئے اور وہ اسلام میں داخل ہونے لگے تو ان کو اختیار ہوگا کہ وہ بھی اسلام میں داخل ہوجاویں یا ہمارے خلاف جنگ کریں اور اس عرصہ میں وہ اپنی قوت محفوظ رکھ کر بڑھا چکے ہوں گے اور اگر قریش اس بات سے انکار کریں تو بخدا ہم اپنے معاملہ پر ان سے جہاد کرتے رہیں گے جب تک کہ میری تنہا گردن باقی ہے، بدیل یہ کہہ کر واپس ہوگئے کہ میں جا کر قریشی سرداروں سے آپ کی بات کہہ دیتا ہوں۔ وہاں پہنچے تو کچھ لوگوں نے تو ان کی بات ہی سننا نہ چاہا بلکہ جنگ کے جوش میں رہے پھر کچھ لوگوں نے کہا کہ بات تو سن لیں، یہ کہنے والے عروہ بن مسعود اپنی قوم کے سردار تھے، جب بات سنی تو عروہ بن مسعود نے قریشی سرداروں سے کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو بات پیش کی ہے وہ درست ہے اس کو قبول کرلو اور مجھے اجازت دو کہ میں جا کر ان سے بات کروں، چناچہ دوسری مرتبہ عروہ بن مسعود گفتگو کے لئے حاضر ہوئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ آپ اگر اپنی قوم قریش کا صفایا ہی کردیں تو یہ کونسی اچھی بات ہوگی، کبھی دنیا میں آپ نے سنا ہے کہ کوئی شخص اپنی ہی قوم کو ہلاک کر دے۔ پھر صحابہ کرام سے ان کی نرم و گرم باتیں ہوتی رہیں، اسی حال میں عروہ صحابہ کرام کے حالات کا مشاہدہ کرتے رہے کہ اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تھوکا بھی تو صحابہ نے اس کو اپنے ہاتھوں میں لے کر اپنے چہروں سے مل لیا اور جب آپ نے وضو کیا تو وضو کے گرنے والے پانی پر صحابہ کرام ٹوٹ پڑتے اور اپنے چہروں کو ملتے تھے اور جب آپ گفتگو فرماتے تو سب اپنی آوازیں پست کرلیتے۔ عروہ نے واپس جا کر قریشی سرداروں سے یہ حال بیان کیا کہ میں بڑے بڑے شاہی درباروں قیصر و کسریٰ اور نجاشی کے پاس جا چکا ہوں، خدا کی قسم میں نے کوئی بادشاہ ایسا نہیں دیکھا جس کی قوم اس پر اس طرح فدا ہو جیسے اصحاب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان پر فدا ہیں اور وہ ایک صحیح بات کہہ رہے ہیں میرا مشورہ یہ ہے کہ تم ان کی بات مان لو، مگر لوگوں نے کہا ہم یہ بات نہیں مان سکتے بجز اس کے کہ اس سال تو آپ لوٹ جائیں پھر اگلے سال آجائیں۔ جب عروہ کی بات نہ مانی گئی تو وہ اپنی جماعت کو ساتھ لے کر واپس ہوگئے اس کے بعد ایک صاحب حلبیس بن علقمہ جو اعراب کے سردار تھے وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور صحابہ کرام کو احرام کی حالت میں قربانی کے جانور ساتھ لئے دیکھا تو واپس ہو کر اس نے بھی اپنی قوم کو سمجھایا کہ یہ لوگ بیت اللہ کے عمرہ کیلئے آئے ہیں ان کو روکنا کسی طرح درست نہیں، لوگوں نے اس کا کہنا نہ سنا تو یہ بھی اپنی جماعت کو لے کر واپس ہوگیا۔ پھر ایک چوتھا آدمی آپ سے بات کرنے کے لئے آیا اور آپ سے گفتگو کی تو آپ نے اپنی وہی بات پیش کردی جو اس سے پہلے بدیل اور عروہ ابن مسعود کے سامنے پیش کی تھی اس نے جا کر آپ کا جواب قریش کو سنا دیا۔- جزو ہشتم، حضرت عثمان کو اہل مکہ کے لئے پیغام دے کر بھیجنا :- امام بیہقی نے حضرت عروہ سے روایت کی ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حدیبیہ میں پہنچ کر قیام فرمایا تو قریش گھبرا گئے تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارادہ کیا کہ ان کے پاس اپنا کوئی آدمی بھیج کر بتلا دیں کہ ہم جنگ کرنے نہیں عمرہ کرنے آئے ہیں ہمارا راستہ نہ روکو، اس کام کے لئے حضرت عمر کو بلایا انہوں نے عرض کیا کہ یہ قریش میرے سخت دشمن ہیں کیونکہ ان کو میری عداوت و شدت کا حال معلوم ہے اور میرے قبیلہ کا کوئی آدمی ایسا مکہ میں نہیں جو میری حمایت کرے اس لئے میں آپ کے سامنے ایک ایسے شخص کا نام پیش کرتا ہوں جو مکہ مکرمہ میں اپنے قبیلہ وغیرہ کی وجہ سے خاص قوت و عزت رکھتے ہیں یعنی عثمان بن عفان، آپ نے حضرت عثمان کو اس کام کے لئے مامور فرما کر بھیج دیا اور یہ بھی فرمایا کہ جو ضعفاء مسلمین مرد اور عورتیں مکہ مکرمہ سے ہجرت نہیں کرسکے اور مشکلات میں پھنسے ہوئے ہیں ان کے پاس جا کر تسلی کردیں کہ پریشان نہ ہوں انشاء اللہ مکہ مکرمہ فتح ہو کر تمہاری مشکلات کے ختم ہونے کا وقت آ گیا ہے۔ حضرت عثمان غنی پہلے ان لوگوں کے پاس پہنچے جو مقام بلدح میں حضور کا راستہ روکنے اور مقابلے کے لئے جمع ہوئے تھے ان سے جا کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وہی بات سنا دی جو آپ نے بدیل و عروہ ابن مسعود وغیرہ کے سامنے کہی تھی، ان لوگوں نے کہا کہ ہم نے پیغام سن لیا آپ جا کر اپنے بزرگ سے کہہ دو کہ یہ بات ہرگز نہیں ہوگی۔ ان لوگوں کا جواب سن کر آپ مکہ مکرمہ کے اندر جانے لگے تو ابان بن سعید کی (جو بعد میں مسلمان ہوگئے تھے) ان سے ملاقات ہوئی انہوں نے حضرت عثمان کا گرمجوشی سے استقبال کیا اور اپنی پناہ میں لے کر ان سے کہا کہ مکہ میں اپنا پیغام لے کر جہاں چاہیں جاسکتے ہیں اس میں آپ کوئی فکر نہ کریں پھر اپنے گھوڑے پر حضرت عثمان کو سوار کر کے مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے کیونکہ ان کا قبیلہ بنو سعید مکہ مکرمہ میں بہت قوی اور عزت دار تھا، یہاں تک کہ حضرت عثمان مکہ مکرمہ میں قریش کے ایک ایک سردار کے پاس پہنچے اور حضور کا پیغام پہنچایا کہ ہم کسی سے لڑنے کے لئے نہیں آئے عمرہ کر کے واپس جائیں گے ہاں کوئی ہمارا راستہ روکے گا تو لڑیں گے اور قریش خود جنگوں سے نیم جاں ہوچکے ہیں ان کے لئے مناسب یہ ہے کہ ہمیں اور دوسرے اہل عرب کو چھوڑ دیں قریش ہمارے مقابلہ پر نہ آئیں پھر دیکھیں اگر عرب ہم پر غالب آگئے تو ان کی مراد پوری ہوجائے گی اور ہم غالب آئے تو انہیں پھر بھی اختیار باقی ہوگا اس وقت قتال کرسکتے ہیں اور اس عرصہ میں ان کو اپنی طاقت بڑھانے اور محفوظ رکھنے کا موقع بھی مل جائے گا مگر ان سب نے آپ کی بات کو رد کردیا۔ پھر عثمان غنی ضعفاء مسلمین سے ملے ان کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پیغام پہنچایا وہ بہت خوش ہوئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سلام بھیجا۔ جب حضرت عثمان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیغامات پہنچانے سے فارغ ہوئے تو اہل مکہ نے ان سے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو طواف کرسکتے ہیں، عثمان غنی نے کہا کہ میں اس وقت تک طواف نہیں کروں گا جب تک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات ماننے کی طرف دعوت دیتے رہے۔- جزو نہم، اہل مکہ اور مسلمانوں میں آویزش اور اہل مکہ کے ساٹھ آدمیوں کی گرفتاری :- اسی عرصہ میں قریش نے اپنے پچاس آدمی اس کام پر لگائے کہ وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قریب پہنچ کر موقع کا انتظار کریں اور موقع ملنے پر (معاذ اللہ) آپ کا قصہ ختم کردیں۔ یہ لوگ اسی تاک میں تھے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حفاظت و نگرانی پر مامور حضرت محمد بن مسلمہ نے ان سب کو گرفتار کرلیا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں قید کر کے حاضر کردیا، دوسری طرف حضرت عثمان جو مکہ میں تھے اور ان کے ساتھ تقریباً دس مسلمان اور مکہ مکرمہ میں پہنچ گئے تھے۔ قریش نے جب اپنے پچاس آدمیوں کی گرفتاری کا حال سنا تو حضرت عثمان سمیت ان سب مسلمانوں کو روک لیا اور قریش کی ایک جماعت مسلمانوں کے لشکر کی طرف نکلی اور مسلمانوں کی جماعت پر تیر اور پتھر پھینکے اس میں مسلمانوں میں سے ایک صحابی ابن زنیم شہید ہوگئے اور مسلمانوں نے ان قریشیوں کے دس سواروں کو گرفتار کرلیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کسی نے یہ خبر پہنچائی کہ حضرت عثمان قتل کردیئے گئے۔- جزو دہم، بیعت رضوان کا واقعہ :- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ خبر سن کر صحابہ کرام کو ایک درخت کے نیچے جمع کیا کہ سب جمع ہو کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ پر جہاد کیلئے بیعت کریں، سب صحابہ کرام نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی جس کا ذکر آگے اس سورت میں آنے والا ہے احادیث صحیحہ میں ان لوگوں کی بڑی فضیلت آئی ہے جو اس بیعت میں شریک تھے اور حضرت عثمان غنی چونکہ آپ کے حکم سے مکہ گئے ہوئے تھے اس لئے ان کی طرف سے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود آپ نے ہاتھ پر دوسرا ہاتھ مار کر فرمایا کہ یہ عثمان کی بیعت ہے یہ خصوصی فضیلت حضرت عثمان کی تھی کہ آپ نے اپنے ہی ہاتھ کو عثمان کا ہاتھ قرار دے کر ان کی طرف سے بیعت کرلی۔- جزو یازدہم، حدیبیہ کا واقعہ :- دوسری طرف اہل مکہ پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کا رعب مسلط کردیا اور خود مصالحت پر آمادہ ہو کر انہوں نے اپنے تین آدمی سہیل بن عمرو اور حویطب بن عبدالعزی اور مکرز بن حفص کو غدر معذرت کے لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بھیجا، ان میں سے پہلے دو حضرات بعد میں مسلمان بھی ہوگئے۔ سہیل بن عمرو نے آ کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ آپ تک جو خبر پہنچی ہے کہ عثمان غنی اور ان کے ساتھی قتل کردیئے یہ بالکل غلط ہے ہم ان کو آپ کے پاس بھیجتے ہیں، ہمارے قیدیوں کو آزاد کر دیجئے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو آزاد کردیا، مسند احمد اور مسلم میں حضرت انس کی روایت ہے کہ اس سورت میں جو آگے آیت آنے والی ہے (اآیت) ھوالذی کف ایدیھم عنکم، یہ اسی واقعہ سے متعلق ہے اب سہیل اور ان کے ساتھیوں نے جا کر بیعت رضوان میں صحابہ کرام کی مسارعت اور جان نثاری کے عجیب و غریب منظر کا حال قریش کے سامنے بیان کیا تو قریش کے اصحاب رائے لوگوں نے آپس میں کہا کہ اس سے بہتر کوئی بات نہیں ہے کہ ہم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس بات پر صلح کرلیں کہ وہ اس سال تو واپس چلے جائیں تاکہ پورے عرب میں یہ شہرت نہ ہوجائے کہ ہم نے ان کو روکنا چاہا وہ زبردستی مکہ میں داخل ہوگئے اور اگلے سال عمرہ کے لئے آجائیں اور تین روز مکہ میں قیام کریں، اس وقت اپنے جانور قربانی کے ذبح کر ڈالیں اور احرام کھول دیں چناچہ یہی سہیل بن عمرو یہ پیغام لے کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ نے ان کو دیکھتے ہی فرمایا کہ اب معلوم ہوتا ہے کہ اس قوم نے صلح کا ارادہ کرلیا ہے کہ سہیل کو پھر بھیجا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چہار زانو بیٹھ گئے اور صحابہ میں سے عباد بن بشر اور سلمہ ہتھیاروں سے مسلح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حفاظت کے لئے کھڑے ہوگئے۔ سہیل حاضر ہوئے تو ادب کے ساتھ حضور کے سامنے بیٹھ گئے اور قریش کا پیغام آپ کو پہنچایا۔ صحابہ کرام عموماً اس پر راضی نہ تھے کہ اس وقت اپنے احرام بغیر عمرہ کئے کھول دیں، انہوں نے سہیل سے سخت گفتگو کی، آوازیں کبھی بلند ہوگئیں کبھی پست ہوئیں، عباد بن بشر نے سہیل کو ڈانٹا کہ حضور کے سامنے آواز بلند نہ کر، طویل گفتگو کے بعد آپ اس شرط کو قبول کر کے صلح کرلینے پر راضی ہوگئے، سہیل نے کہا کہ لائیے ہم اپنے اور آپ کے درمیان صلح نامہ لکھ لیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی کو بلایا اور فرمایا لکھو، بسم اللہ الرحمن الرحیم، سہیل نے یہیں سے بحث شروع کردی اور کہا کہ لفظ رحمن اور رحیم ہمارے محاورات میں نہیں ہے آپ یہاں وہی لفظ لکھیں جو پہلے لکھا کرتے تھے یعنی باسمک اللھم آپ نے اس کو بھی مان لیا اور حضرت علی سے فرمایا کہ ایسا ہی لکھ دو ، اس کے بعد آپ نے حضرت علی کو فرمایا کہ یہ لکھو کہ یہ وہ عہد نامہ ہے جس کا فیصلہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیا ہے۔ سہیل نے اس پر بھی ضد کی کہ اگر ہم آپ کو اللہ کا رسول مانتے تو آپ کو ہرگز بیت اللہ سے نہیں روکتے (صلح نامہ میں ایسا کوئی لفظ نہیں ہونا چاہئے جو کسی فریق کے عقیدہ کیخلاف ہو) آپ صرف محمد بن عبداللہ لکھوائیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو بھی منظور فرما کر حضرت علی سے فرمایا کہ جو لکھا ہے اس کو مٹا کر محمد بن عبداللہ لکھ دو ۔ حضرت علی نے باوجود سراپا اطاعت ہونے کے عرض کیا میں تو یہ نہیں کرسکتا کہ آپ کے نام کو مٹا دوں۔ حاضرین میں سے حضرت اسید بن حضیر اور سعد بن عبادہ نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑ لیا کہ اس کو نہ مٹائیں اور بجز محمد رسول اللہ کے اور کچھ نہ لکھیں اگر یہ لوگ نہیں مانتے تو ہمارے اور ان کے درمیان تلوار فیصلہ کرے گی اور کچھ آوازیں ہر طرف سے بلند ہونے لگیں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صلح نامہ کا کاغذ خود اپنے دست مبارک میں لے لیا اور باوجود اس کے کہ آپ امی تھے پہلے کبھی لکھا نہیں تھا مگر اس وقت خود اپنے قلم سے آپ نے یہ لکھ دیا ھذا ما قاضی محمد بن عبداللہ و سہیل بن عمر و اصلحا علی وضع الحرب عن الناس عشر سنبن یامن فیہ الناس و یکف بعضہم عن، یعنی وہ فیصلہ ہے جو محمد بن عبداللہ اور سہیل بن عمرو نے دس سال کے لئے باہم جنگ نہ کرنے کا کیا ہے جس میں سب لوگ مامون رہیں ایک دوسرے پر چڑھائی اور جنگ سے پرہیز کریں۔- پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ہماری ایک شرط یہ ہے کہ اس وقت ہمیں طواف کرنے سے نہ روکا جائے، سہیل نے کہا کہ بخدا یہ نہیں ہوسکتا، آپ نے اس کو بھی قبول فرما لیا اس کے بعد سہیل نے اپنی ایک شرط یہ لکھی کہ جو شخص مکہ والوں میں سے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر آپ کے پاس جائے گا اس کو واپس کردیں گے اگرچہ وہ آپ ہی کے دین پر ہو اور مسلمانوں میں سے جو کوئی قریش کے پاس مکہ چلا آوے اس کو ہم واپس نہ کریں گے۔ اس پر عام مسلمانوں کی آواز اٹھی سبحان اللہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم اپنے مسلمان بھائی کو مشرکین کی طرف لوٹا دیں، مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو بھی قبول فرما لیا اور یہ فرمایا کہ ہم میں سے کوئی آدمی اگر ان کے پاس گیا تو اس کو اللہ ہی نے ہم سے دور کردیا اس کی ہم کیوں فکر کریں اور ان کا کوئی آدمی ہمارے پاس آیا اور ہم نے لوٹا بھی دیا تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے راستہ سہولت کا نکال دیں گے حضرت براء نے اس صلح نامہ کا خلاصہ تین شرطیں بیان کیا ہے، ایک یہ کہ ان کا کوئی آدمی ہمارے پاس آجائے گا تو ہم اس کو واپس کردیں گے، دوسرے یہ کہ ہمارا کوئی آدمی ان کے پاس چلا جائے گا تو وہ واپس نہ کریں گے۔ تیسرے یہ کہ اب آئندہ سال عمرہ کے لئے آئیں گے اور تین روز مکہ میں قیام کریں گے اور زیادہ ہتھیار لے کر نہیں آئیں گے اور آخر میں لکھا گیا کہ یہ عہد نامہ اہل مکہ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان ایک محفوظ دستاویز ہے جس کی کوئی خلاف ورزی نہ کرے گا اور باقی سب عرب آزاد ہیں جس کا جی چاہے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں داخل ہوجائے اور جس کا جی چاہے قریش کے عہد میں داخل ہوجائے۔ یہ سن کر قبیلہ خزاعہ اچھل پڑا اور کہا کہ ہم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عقد میں داخل ہیں اور بنو بکر نے آگے بڑھ کر کہا کہ ہم قریش کے عقد و عہد میں داخل ہیں۔- شرائط صلح سے عام صحابہ کرام کی ناراضی اور رنج :- جب یہ شرائط صلح طے ہوگئیں تو عمر بن خطاب سے نہ رہا گیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا، یا رسول اللہ، کیا آپ اللہ کے نبی برحق نہیں ہیں، آپ نے فرمایا کیوں نہیں، پھر حضرت عمر نے کہا کہ کیا ہم حق پر اور وہ لوگ باطل پر نہیں ہیں، آپ نے فرمایا کیوں نہیں، پھر حضرت عمر نے عرض کیا کہ کیا ہمارے مقتولین جنت اور ان کے مقتولین جہنم میں نہیں ہیں، آپ نے فرمایا کیوں نہیں، اس پر حضرت عمر نے عرض کیا تو پھر ہم کیوں اس ذلت کو قبول کریں کہ بغیر عمرہ کئے واپس چلے جائیں جب تک جنگ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کوئی فیصلہ نہ کردیں، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ” میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں ہرگز اس کے حکم کے خلاف نہیں کروں گا اور اللہ تعالیٰ مجھے ضائع نہ فرمائے گا وہ میرا مددگار ہے۔ حضرت عمر نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ، کیا آپ نے ہم سے یہ نہیں فرمایا کہ ہم بیت اللہ کے پاس جائیں گے اور طواف کریں گے، آپ نے فرمایا کہ بیشک یہ کہا تھا مگر کیا میں نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ کام اسی سال ہوگا تو حضرت عمر نے کہا کہ یہ تو آپ نے نہیں فرمایا تھا تو آپ نے فرمایا کہ بس یہ واقعہ جیسا کہ میں نے کہا تھا ہو کر رہے گا کہ آپ بیت اللہ کے پاس جائیں گے اور طواف کریں گے۔- حضرت عمر بن خطاب خاموش ہوگئے مگر غم و غصہ نہیں گیا، آپ کے پاس سے حضرت ابوبکر کے پاس گئے اور اسی گفتگو کا اعادہ کیا جو حضور کے سامنے کی تھی، حضرت ابوبکر نے فرمایا خدا کے بندے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور وہ اللہ کے حکم کے خلاف کوئی کام نہ کریں گے اور اللہ ان کا مددگار ہے اس لئے تم مرتے دم تک آپ کی رکاب تھامے رہو، خدا کی قسم وہ حق پر ہیں، غرض حضرت فاروق اعظم کو ان شرائط صلح سے سخت رنج و غم پہنچا، خود انہوں نے فرمایا کہ واللہ جب سے میں نے اسلام قبول کیا مجھے کبھی شک پیش نہیں آیا بجز اس واقعہ کے (رواہ البخاری) حضرت ابوعبیدہ نے سمجھایا اور فرمایا کہ شیطان کے شر سے پناہ مانگو، فاروق اعظم نے کہا میں شیطان سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں، حضرت عمر فرماتے ہیں کہ جب مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا تو میں برابر صدقہ خیرات کرتا اور روزے رکھتا اور غلام آزاد کرتا رہا کہ میری یہ خطا معاف ہوجائے۔- ایک اور حادثہ اور معاہدہ کی پابندی میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بےنظیر عمل :- ابھی ابھی یہ شرائط صلح طے ہوئی تھیں اور صحابہ کرام کی ناگواری اس پر ہو رہی تھی کہ اچانک اسی سہیل بن عمرو کا جو صلح نامہ کا فریق منجانب قریش تھا بیٹا ابوجندل جو مسلمان ہوچکا تھا اور باپ نے اس کو قید کر رکھا تھا اور سخت ایذائیں ان کو دیتا تھا وہ کسی طرح بھاگ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پہنچ گیا اور آپ سے پناہ مانگی، کچھ مسلمان بڑھے اور اس کو اپنی پناہ میں لے لیا مگر سہیل چلا اٹھا کہ یہ پہلی عہد نامہ کی خلاف ورزی ہو رہی ہے اگر اس کو واپس نہ کیا گیا تو میں صلح کی کسی شرط کو نہ مانوں گا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عہد کر کے پابند ہوچکے تھے اس لئے ابوجندل کو آواز دے کر فرمایا کہ اے ابوجندل تم چند روز اور صبر کرو اللہ تعالیٰ تمہارے لئے اور ضعفاء مسلمین کے لئے جو مکہ میں محبوس ہیں جلد رہائی اور فراخی کا انتظام کرنے والا ہے۔ مسلمانوں کے دلوں پر ابوجندل کے اس واقعہ نے اور زیادہ نمک پاشی کی وہ تو یقین کر کے آئے تھے کہ اسی وقت مکہ فتح ہوگا اور یہاں یہ حالات دیکھے تو ان کے رنج و غم کی انتہا نہ رہی قریب تھا کہ وہ ہلاکت میں پڑجاتے مگر معاہدہ صلح مکمل ہوچکا تھا اس صلح نامہ پر مسلمانوں کی طرف سے ابوبکر و عمر عبدالرحمن بن عوف اور عبداللہ بن سہیل بن عمر سعدبن ابی وقاص، محمد بن مسلمہ اور علی بن ابی طالب وغیرہ (رض) کے دستخط ہوئے اسی طرح مشرکین کی طرف سے سہیل کے ساتھ چند دوسرے لوگوں کے بھی دستخط ہوگئے۔- احرام کھولنا اور قربانی کے جانور ذبح کرنا :- جب صلح نامہ کی کتابت سے فراغت ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ (قرار داد صلح کے مطابق اب ہمیں واپس جانا ہے) سب لوگ اپنی قربانی کے جانور جو ساتھ ہیں ان کی قربانی کردیں اور سر کے بال منڈوا کر احرام کھول دیں۔ صحابہ کرام کی مسلسل رنج و غم کی وجہ سے یہ حالت ہوگئی تھی کہ آپ کے فرمانے کے باوجود کوئی اس کام کے لئے نہیں اٹھا جس سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مغموم ہوئے اور ام المومنین حضرت ام سلمہ کے پاس تشریف لے گئے اور اپنے اس رنج کا ذکر کیا، ام المومنین نے بہت مناسب اور اچھا مشورہ دیا کہ آپ صحابہ کرام کو اس پر کچھ نہ کہیں، ان کو اس وقت سخت صدمہ اور رنج شرائط صلح اور بغیر عمرہ کے واپسی کی وجہ سے پہنچا ہوا ہے، آپ سب کے سامنے حجام کو بلا کر خود اپنا حلق کر کے احرام کھول دیں اور اپنی قربانی کردیں۔ آپ نے مشورہ کے مطابق ایسا ہی کیا، صحابہ کرام نے جب یہ دیکھا تو سب کھڑے ہوگئے ایک دوسرے کا حلق کرنے لگے اور قربانی کے جانوروں کی قربانی کرنے لگے، آپ نے سب کے لئے دعا فرمائی۔- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس مقام حدیبیہ میں انیس اور بعض روایات کے اعتبار سے بیس دن قیام فرمایا تھا، اب یہاں سے واپسی شروع ہوئی اور آپ صحابہ کرام کے مجمع کے ساتھ پہلے مرظہران پھر عسفان پہنچے، یہاں پہنچ کر سب مسلمانوں کا زاد راہ تقریباً ختم ہوچکا تھا، کھانے کے لئے بہت کم سامان تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دستر خوان بچھایا اور سب کو حکم دیا کہ جس کے پاس جو کچھ ہے لا کر یہاں جمع کر دے اس طرح جو کچھ باقی ماندہ کھانے کا سامان تھا سب اس دستر خوان پر جمع ہوگیا۔ چودہ سو حضرات کا مجمع تھا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا فرمائی اور سب کو کھانا شروع کرنے کا حکم دیا۔ صحابہ کرام کا بیان ہے کہ پورے چودہ سو حضرات نے خوب پیٹ بھر کر کھانا کھایا پھر اپنے برتنوں میں بھر لیا اس کے بعد بھی اتنا ہی کھانا باقی تھا، اس مقام پر یہ دوسرا معجزہ ظاہر ہوا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو دیکھ کر بہت مسرور ہوئے۔- صحابہ کرام کے ایمان اور اطاعت رسول کا ایک اور امتحان اور ان کی بےنظیر قوت ایمانی :- اوپر معلوم ہوچکا ہے کہ صحابہ کرام پر ان شرائط صلح اور بغیر عمرہ اور بغیر جنگ میں اپنے حوصلے نکالنے کے واپسی سخت بھاری اور ناگوار تھی، یہی انہی کا ایمان تھا کہ ان سب حالات میں ایمان اور اطاعت رسول پر جمے رہے۔ حدیبیہ سے واپسی پر جب آپ مقام کراع غمیم پر پہنچے تو آپ پر یہ سورة فتح نازل ہوئی آپ نے صحابہ کرام کو پڑھ کر سنایا، صحابہ کرام کے قلوب اس طرح کی شرائط صلح اور بغیر عمرہ کے واپسی سے زخم خوردہ پہلے ہی سے تھے اب اس سورت نے یہ بتلایا کہ فتح مبین حاصل ہوئی ہے حضرت عمر بن خطاب پھر سوال کر بیٹھے کہ یا رسول اللہ کیا یہ فتح ہے، آپ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے یہ فتح مبین ہے۔ صحابہ کرام نے اس پر بھی سر تسلیم خم کیا اور ان سب چیزوں کو فتح مبین یقین کیا۔- صلح حدیبیہ کے ثمرات و برکات کا ظہور :- سب سے پہلے بات تو اس واقعہ میں یہ ہوئی کہ قریش مکہ اور ان کے بہت سے متبعین پر ان کی ضد اور بےجاہٹ دھرمی واضح ہو کر خود ان میں پھوٹ پڑی بدیل ابن ورقاء اپنے ساتھیوں کو لے کر ان سے الگ ہوگئے، پھر عروہ ابن مسعود اپنی جماعت کو لے کر الگ ہوگئے۔ دوسرے صحابہ کرام کی بینظیر جان نثاری اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بےمثال اطاعت و محبت و عظمت دیکھ کر قریش مکہ کا مرعوب ہوجانا اور صلح کی طرف مائل ہونا حالانکہ ان کے لئے مسلمانوں کا صفایا کردینے کا اس سے بہتر کوئی موقع نہ تھا کیونکہ وہ اپنے گھروں میں مطمئن تھے، مسلمان مسافرت کی حالت میں تھے قریش نے پانی کی جگہوں پر قبضہ کیا ہوا تھا یہ بےآب و دانہ جنگل میں تھے، ان کی پوری قوت موجود تھی مسلمانوں کے پاس کچھ زیادہ اسلحہ بھی نہیں تھا مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں رعب ڈالا اور ان کی جماعت کے بہت سے افراد کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملاقات اور اختلاط کے مواقع مل کر ان میں سے بہت سے لوگوں کے دلوں میں اسلام و ایمان راسخ ہوگیا اور بعد میں مسلمان ہوگئے۔ تیسرے صلح وامان کی وجہ سے راستے مامون ہوگئے دعوت اسلام کے لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کے واسطے راستے کھل گئے، عرب کے وفود کو آپ کی خدمت میں حاضری کا موقع ملا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ نے گوشہ گوشہ میں دعوت اسلام کو پھیلایا، دنیا کے بادشاہوں کو دعوت اسلام دینے کے لئے خطوط بھیجے گئے ان میں سے چند بڑے بڑے بادشاہ متاثر ہوئے جس کا حاصل یہ نکلا کہ واقعہ حدیبیہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت عام اور سب کو عمرہ کے لئے نکلنے کی تاکید کے باوجود ڈیڑھ ہزار سے زیادہ مسلمان ساتھ نہیں تھے اور صلح حدیبیہ کے بعد جوق در جوق لوگ اسلام میں داخل ہوئے اسی عرصہ میں 7 ہجری میں خیبر فتح ہو کر مسلمانوں کو سامان بڑی مقدار میں مل گیا اور ان کی مادی قوت مستحکم ہوگئی اور اس صلح پر دو سال گزرنے نہ پائے تھے کہ مسلمانوں کی تعداد اتنی کثیر ہوگئی جو اس سے پہلے تمام پچھلی مدت میں نہیں تھی، اسی کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب قریش مکہ نے اس معاہدہ کی خلاف ورزی کر کے معاہدہ توڑ ڈالا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ فتح کرنے کی خفیہ تیاری شروع کی تو اس صلح نامہ پر صرف بیس اکیس مہینے گزرے تھے کہ فتح مکہ کے لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جانے والے جان نثار سپاہی دس ہزار تھے قریش مکہ کو خبر لگی تو گھبرا کر ابوسفیان کو عذر معذرت کر کے تجدید معاہدہ پر آمادہ کرنے کے لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بھیجا آپ نے معاہدہ کی تجدید نہ کی اور بالآخر دس ہزار کے اس حزب اللہ کے ساتھ آپ مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوئے کفار قریش ایسے مغلوب و مرعوب ہوچکے تھے کہ مکر مکرمہ میں کچھ زیادہ لڑائی کی بھی نوبت نہیں آئی، کچھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حکیمانہ سیاست نے جنگ نہ ہونے کا یہ انتظام کردیا کہ آپ نے مکہ مکرمہ میں اعلان کرا دیا کہ جو شخص اپنے گھر کا دروازہ بند کرلے وہ مامون ہے جو مسجد میں داخل ہوجائے وہ مامون جو ابوسفیان کے گھر میں چلا جائے وہ مامون ہے اس طرح سب لوگوں کو اپنی اپنی فکر پڑگئی اور قتل و قتال کی زیادہ نوبت نہیں آئی اسی لئے ائمہ فقہاء میں یہ اختلاف ہوگیا کہ مکہ مکرمہ صلح سے فتح ہوا یا جنگ سے۔ بہرحال بڑی سہولت کے ساتھ مکہ مکرمہ فتح ہوا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خواب واقعہ بن کر سب کے سامنے آ گیا، صحابہ کرام نے بےخطر ہو کر بیت اللہ کا طواف پھر حلق و قصر کیا، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ بیت اللہ میں داخل ہوئے، بیت اللہ کی چابی آپ کے ہاتھ آئی اس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمر بن خطاب کو خصوصاً اور سب صحابہ کو عموماً خطاب کر کے فرمایا کہ یہ ہے وہ واقعہ جو میں نے آپ سے کہا تھا، پھر حجتہ الوداع کے موقع پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمر کو مخاطب کر کے فرمایا کہ یہ تھا وہ واقعہ جو میں نے تم سے کہا تھا۔ حضرت فاروق اعظم نے فرمایا کہ بیشک کوئی فتح صلح حدیبیہ سے زیادہ بہتر اور اعظم نہیں ہے۔ صدیق اکبر تو پہلے سے فرماتے تھے کہ اسلام میں کوئی فتح صلح حدیبیہ کے برابر نہیں ہے لیکن لوگوں کی رائے اور بصیرت وہاں تک نہ پہنچی جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے درمیان ایک طے شدہ حقیقت تھی یہ لوگ جلد بازی کرنا چاہتے تھے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی جلد بازی سے متاثر ہو کر جلدی نہیں کرتا بلکہ حکمت و مصلحت کے ساتھ ہر کام اپنے صحیح وقت پر انجام پاتا ہے اس لئے سورة فتح میں حق تعالیٰ نے واقعہ حدیبیہ کو فتح مبین فرمایا۔ یہ واقعہ حدیبیہ کے اہم اجزاء تھے جن سے اگلی آیات کے سمجھنے میں سہولت ملے گی اب آیات کی تفسیر دیکھئے۔
اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِيْنًا ١ ۙ- إِنَّ وأَنَ- إِنَّ أَنَّ ينصبان الاسم ويرفعان الخبر، والفرق بينهما أنّ «إِنَّ» يكون ما بعده جملة مستقلة، و «أَنَّ» يكون ما بعده في حکم مفرد يقع موقع مرفوع ومنصوب ومجرور، نحو : أعجبني أَنَّك تخرج، وعلمت أَنَّكَ تخرج، وتعجّبت من أَنَّك تخرج . وإذا أدخل عليه «ما» يبطل عمله، ويقتضي إثبات الحکم للمذکور وصرفه عمّا عداه، نحو : إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ- [ التوبة 28] تنبيها علی أنّ النجاسة التامة هي حاصلة للمختص بالشرک، وقوله عزّ وجل : إِنَّما حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ [ البقرة 173] أي : ما حرّم ذلك إلا تنبيها علی أنّ أعظم المحرمات من المطعومات في أصل الشرع هو هذه المذکورات .- وأَنْ علی أربعة أوجه :- الداخلة علی المعدومین من الفعل الماضي أو المستقبل، ويكون ما بعده في تقدیر مصدر، وينصب المستقبل نحو : أعجبني أن تخرج وأن خرجت .- والمخفّفة من الثقیلة نحو : أعجبني أن زيدا منطلق .- والمؤكّدة ل «لمّا» نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] . والمفسّرة لما يكون بمعنی القول، نحو : وَانْطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ أَنِ امْشُوا وَاصْبِرُوا [ ص 6] أي : قالوا : امشوا .- وكذلك «إِنْ» علی أربعة أوجه : للشرط نحو : إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبادُكَ [ المائدة 118] ، والمخفّفة من الثقیلة ويلزمها اللام نحو : إِنْ كادَ لَيُضِلُّنا [ الفرقان 42] ، والنافية، وأكثر ما يجيء يتعقّبه «إلا» ، نحو : إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا [ الجاثية 32] ، إِنْ هذا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ [ المدثر 25] ، إِنْ نَقُولُ إِلَّا اعْتَراكَ بَعْضُ آلِهَتِنا بِسُوءٍ [هود 54] .- والمؤكّدة ل «ما» النافية، نحو : ما إن يخرج زيد - ( ان حرف ) ان وان - ( حرف ) یہ دونوں اسم کو نصب اور خبر کو رفع دیتے ہیں اور دونوں میں فرق یہ ہے کہ ان جملہ مستقل پر آتا ہے اور ان کا مابعد ایسے مفرد کے حکم میں ہوتا ہے جو اسم مرفوع ، منصوب اور مجرور کی جگہ پر واقع ہوتا ہے جیسے اعجبنی انک تخرج وعجبت انک تخرج اور تعجب من انک تخرج جب ان کے بعد ما ( کافہ ) آجائے تو یہ عمل نہیں کرتا اور کلمہ حصر کے معنی دیتا ہے ۔ فرمایا :۔ إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ ( سورة التوبة 28) ۔ مشرک تو پلید ہیں (9 ۔ 28) یعنی نجاست تامہ تو مشرکین کے ساتھ مختص ہے ۔ نیز فرمایا :۔ إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ ( سورة البقرة 173) اس نے تم امر ہوا جانور اور لہو حرام کردیا ہے (2 ۔ 173) یعنی مذکورہ اشیاء کے سوا اور کسی چیز کو حرام قرار نہیں دیا اس میں تنبیہ ہے کہ معلومات میں سے جو چیزیں اصول شریعت میں حرام ہیں ان میں سے - یہ چیزیں سب سے بڑھ کر ہیں ۔- ( ان )- یہ چار طرح پر استعمال ہوتا ہے (1) ان مصدریہ ۔ یہ ماضی اور مضارع دونوں پر داخل ہوتا ہے اور اس کا مابعد تاویل مصدر میں ہوتا ہے ۔ ایسی صورت میں یہ مضارع کو نصب دیتا ہے جیسے :۔ اعجبنی ان تخرج وان خرجت ۔ ان المخففہ من المثقلۃ یعنی وہ ان جو ثقیلہ سے خفیفہ کرلیا گیا ہو ( یہ کسی شے کی تحقیق اور ثبوت کے معنی دیتا ہے جیسے ۔ اعجبنی ان زید منطلق ان ( زائدہ ) جو لما کی توکید کے لئے آتا ہے ۔ جیسے فرمایا فَلَمَّا أَنْ جَاءَ الْبَشِيرُ ( سورة يوسف 96) جب خوشخبری دینے والا آپہنچا (12 ۔ 92) ان مفسرہ ۔ یہ ہمیشہ اس فعل کے بعد آتا ہے جو قول کے معنیٰ پر مشتمل ہو ( خواہ وہ لفظا ہو یا معنی جیسے فرمایا :۔ وَانْطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ ( سورة ص 6) ان امشوا اور ان میں جو معزز تھے وہ چل کھڑے ہوئے ( اور بولے ) کہ چلو (38 ۔ 6) یہاں ان امشوا ، قالوا کے معنی کو متضمن ہے ان ان کی طرح یہ بھی چار طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ ان شرطیہ جیسے فرمایا :۔ إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ ( سورة المائدة 118) اگر تو ان کو عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں (5 ۔ 118) ان مخففہ جو ان ثقیلہ سے مخفف ہوتا ہے ( یہ تا کید کے معنی دیتا ہے اور ) اس کے بعد لام ( مفتوح ) کا آنا ضروری ہے جیسے فرمایا :۔ إِنْ كَادَ لَيُضِلُّنَا ( سورة الفرقان 42) ( تو ) یہ ضرور ہم کو بہکا دیتا ہے (25 ۔ 42) ان نافیہ اس کے بعداکثر الا آتا ہے جیسے فرمایا :۔ إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا ( سورة الجاثية 32) ۔۔ ،۔ ہم اس کو محض ظنی خیال کرتے ہیں (45 ۔ 32) إِنْ هَذَا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ ( سورة المدثر 25) (ٌپھر بولا) یہ ( خدا کا کلام ) نہیں بلکہ ) بشر کا کلام سے (74 ۔ 25) إِنْ نَقُولُ إِلَّا اعْتَرَاكَ بَعْضُ آلِهَتِنَا بِسُوءٍ - ( سورة هود 54) ۔ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے کسی معبود نے تمہیں آسیب پہنچا ( کر دیوانہ کر ) دیا ہے (11 ۔ 54) ان ( زائدہ ) جو ( ما) نافیہ کی تاکید کے لئے آتا ہے جیسے : مان یخرج زید ۔ زید باہر نہیں نکلے گا ۔ - فتح - الفَتْحُ : إزالة الإغلاق والإشكال، وذلک ضربان :- أحدهما : يدرک بالبصر کفتح الباب ونحوه، وکفتح القفل والغلق والمتاع، نحو قوله : وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف 65] ، وَلَوْ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ باباً مِنَ السَّماءِ [ الحجر 14] .- والثاني : يدرک بالبصیرة کفتح الهمّ ، وهو إزالة الغمّ ، وذلک ضروب : أحدها : في الأمور الدّنيويّة كغمّ يفرج، وفقر يزال بإعطاء المال ونحوه، نحو : فَلَمَّا نَسُوا ما ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ أَبْوابَ كُلِّ شَيْءٍ [ الأنعام 44] ، أي : وسعنا، وقال : لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 96] ، أي : أقبل عليهم الخیرات . والثاني : فتح المستغلق من العلوم، نحو قولک : فلان فَتَحَ من العلم بابا مغلقا، وقوله : إِنَّا فَتَحْنا لَكَ فَتْحاً مُبِيناً [ الفتح 1] ، قيل : عنی فتح مكّةوقیل : بل عنی ما فتح علی النّبيّ من العلوم والهدایات التي هي ذریعة إلى الثّواب، والمقامات المحمودة التي صارت سببا لغفران ذنوبه وفَاتِحَةُ كلّ شيء : مبدؤه الذي يفتح به ما بعده، وبه سمّي فاتحة الکتاب، وقیل : افْتَتَحَ فلان کذا : إذا ابتدأ به، وفَتَحَ عليه كذا : إذا أعلمه ووقّفه عليه، قال : أَتُحَدِّثُونَهُمْ بِما فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ [ البقرة 76] ، ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ [ فاطر 2] ، وفَتَحَ الْقَضِيَّةَ فِتَاحاً : فصل الأمر فيها، وأزال الإغلاق عنها . قال تعالی: رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنا وَبَيْنَ قَوْمِنا بِالْحَقِّ وَأَنْتَ خَيْرُ الْفاتِحِينَ- [ الأعراف 89] ، ومنه الْفَتَّاحُ الْعَلِيمُ [ سبأ 26] ، قال الشاعر : بأني عن فَتَاحَتِكُمْ غنيّ- وقیل : الفتَاحةُ بالضمّ والفتح، وقوله : إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ [ النصر 1] ، فإنّه يحتمل النّصرة والظّفر والحکم، وما يفتح اللہ تعالیٰ من المعارف، وعلی ذلک قوله : نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] ، فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ [ المائدة 52] ، وَيَقُولُونَ مَتى هذَا الْفَتْحُ [ السجدة 28] ، قُلْ يَوْمَ الْفَتْحِ [ السجدة 29] ، أي : يوم الحکم . وقیل : يوم إزالة الشّبهة بإقامة القیامة، وقیل : ما کانوا يَسْتَفْتِحُونَ من العذاب ويطلبونه،- ( ف ت ح ) الفتح کے معنی کسی چیز سے بندش اور پیچیدگی کو زائل کرنے کے ہیں اور یہ ازالہ دوقسم پر ہے ایک وہ جس کا آنکھ سے ادراک ہو سکے جیسے ۔ فتح الباب ( دروازہ کھولنا ) اور فتح القفل ( قفل کھولنا ) اور فتح المتاع ( اسباب کھولنا قرآن میں ہے ؛وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف 65] اور جب انہوں نے اپنا اسباب کھولا ۔ وَلَوْ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ باباً مِنَ السَّماءِ [ الحجر 14] اور اگر ہم آسمان کا کوئی دروازہ ان پر کھولتے ۔ دوم جس کا ادراک بصیرت سے ہو جیسے : فتح الھم ( یعنی ازالہ غم ) اس کی چند قسمیں ہیں (1) وہ جس کا تعلق دنیوی زندگی کے ساتھ ہوتا ہے جیسے مال وغیرہ دے کر غم وانددہ اور فقر و احتیاج کو زائل کردینا ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا نَسُوا ما ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ أَبْوابَ كُلِّ شَيْءٍ [ الأنعام 44] پھر جب انہوں ن اس نصیحت کو جو ان کو کی گئی تھی ۔ فراموش کردیا تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیئے ۔ یعنی ہر چیز کی فرادانی کردی ۔ نیز فرمایا : لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 96] تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات کے دروازے کھول دیتے ۔ یعنی انہیں ہر طرح سے آسودگی اور قارغ البالی کی نعمت سے نوازتے ۔ (2) علوم ومعارف کے دروازے کھولنا جیسے محاورہ ہے ۔ فلان فتح من العلم بابامغلقا فلاں نے طلم کا بندو دروازہ کھول دیا ۔ یعنی شہادت کو زائل کرکے ان کی وضاحت کردی ۔ اور آیت کریمہ :إِنَّا فَتَحْنا لَكَ فَتْحاً مُبِيناً [ الفتح 1] ( اے محمد ) ہم نے تم کو فتح دی اور فتح صریح وصاف ۔ میں بعض نے کہا ہے یہ فتح کی طرف اشارہ ہے اور بعض نے کہا ہے کہ نہیں بلکہ اس سے علوم ومعارف ار ان ہدایات کے دروازے کھولنا مراد ہے جو کہ ثواب اور مقامات محمودہ تک پہچنے کا ذریعہ بنتے ہیں اور آنحضرت کیلئے غفران ذنوب کا سبب ہے ۔ الفاتحۃ ہر چیز کے مبدء کو کہاجاتا ہے جس کے ذریعہ اس کے مابعد کو شروع کیا جائے اسی وجہ سے سورة فاتحہ کو فاتحۃ الکتاب کہاجاتا ہے ۔ افتح فلان کذ افلاں نے یہ کام شروع کیا فتح علیہ کذا کسی کو کوئی بات بتانا اور اس پر اسے ظاہر کردینا قرآن میں ہے : أَتُحَدِّثُونَهُمْ بِما فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ [ البقرة 76] جو بات خدا نے تم پر ظاہر فرمائی ہے وہ تم ان کو ۔۔۔ بتائے دیتے ہو ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ [ فاطر 2] جو لوگوں کیلئے ۔۔ کھولدے فتح القضیۃ فتاحا یعنی اس نے معاملے کا فیصلہ کردیا اور اس سے مشکل اور پیچیدگی کو دور کردیا ۔ قرآن میں ہے ؛ رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنا وَبَيْنَ قَوْمِنا بِالْحَقِّ وَأَنْتَ خَيْرُ الْفاتِحِينَ [ الأعراف 89] اے ہمارے پروردگار ہم میں اور ہماری قوم میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کردے اور تو سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے ۔ اسی سے الْفَتَّاحُ الْعَلِيمُ [ سبأ 26] ہے یعن خوب فیصلہ کرنے والا اور جاننے والا یہ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ سے ہے کسی شاعر نے کہا ہے ( الوافر) (335) وانی من فتاحتکم غنی اور میں تمہارے فیصلہ سے بےنیاز ہوں ۔ بعض نے نزدیک فتاحۃ فا کے ضمہ اور فتحہ دونوں کے ساتھ صحیح ہے اور آیت کریمہ : إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ [ النصر 1] جب اللہ کی مدد آپہنچیں اور فتح حاصل ہوگئی ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ الفتح سے نصرت ، کامیابی اور حکم مراد ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ علوم ومعارف کے دروازے کھول دینا مراد ہو ۔ اسی معنی ہیں میں فرمایا : نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] ( یعنی تمہیں ) خدا کی طرف سے مدد ( نصیب ہوگی ) اور فتح عنقریب ( ہوگی ) فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ [ المائدة 52] تو قریب ہے خدا فتح بھیجے وَيَقُولُونَ مَتى هذَا الْفَتْحُ [ السجدة 28] اور کہتے ہیں ۔۔۔ یہ فیصلہ کب ہوگا ۔ قُلْ يَوْمَ الْفَتْحِ [ السجدة 29] کہدو کہ فیصلے کے دن ۔۔۔ یعنی حکم اور فیصلے کے دن بعض نے کہا ہے کہ الفتح سے قیامت بپا کرکے ان کے شک وشبہ کو زائل کرے کا دن مراد ہے اور بعض نے یوم عذاب مراد لیا ہے ۔ جسے وہ طلب کیا کرتے تھے - مبینبَيَان - والبَيَان : الکشف عن الشیء، وهو أعمّ من النطق، لأنّ النطق مختص بالإنسان، ويسمّى ما بيّن به بيانا . قال بعضهم : - البیان يكون علی ضربین :- أحدهما بالتسخیر، وهو الأشياء التي تدلّ علی حال من الأحوال من آثار الصنعة .- والثاني بالاختبار، وذلک إما يكون نطقا، أو کتابة، أو إشارة . فممّا هو بيان بالحال قوله : وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف 62] ، أي : كونه عدوّا بَيِّن في الحال . تُرِيدُونَ أَنْ تَصُدُّونا عَمَّا كانَ يَعْبُدُ آباؤُنا فَأْتُونا بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [إبراهيم 10] .- وما هو بيان بالاختبار فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 43- 44] ، وسمّي الکلام بيانا لکشفه عن المعنی المقصود إظهاره نحو : هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران 138] .- وسمي ما يشرح به المجمل والمبهم من الکلام بيانا، نحو قوله : ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنا بَيانَهُ [ القیامة 19] ، ويقال : بَيَّنْتُهُ وأَبَنْتُهُ : إذا جعلت له بيانا تکشفه، نحو : لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 44] ، وقال : نَذِيرٌ مُبِينٌ [ ص 70] ، وإِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات 106] ، وَلا يَكادُ يُبِينُ [ الزخرف 52] ، أي : يبيّن، وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف 18] .- البیان کے معنی کسی چیز کو واضح کرنے کے ہیں اور یہ نطق سے عام ہے ۔ کیونکہ نطق انسان کے ساتھ مختس ہے اور کبھی جس چیز کے ذریعہ بیان کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی بیان کہہ دیتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ بیان ، ، دو قسم پر ہے ۔ ایک بیان بالتحبیر یعنی وہ اشیا جو اس کے آثار صنعت میں سے کسی حالت پر دال ہوں ، دوسرے بیان بالا ختیار اور یہ یا تو زبان کے ذریعہ ہوگا اور یا بذریعہ کتابت اور اشارہ کے چناچہ بیان حالت کے متعلق فرمایا ۔ وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف 62] اور ( کہیں ) شیطان تم کو ( اس سے ) روک نہ دے وہ تو تمہارا علانیہ دشمن ہے ۔ یعنی اس کا دشمن ہونا اس کی حالت اور آثار سے ظاہر ہے ۔ اور بیان بالا ختیار کے متعلق فرمایا : ۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ اگر تم نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ اور ان پیغمروں ( کو ) دلیلیں اور کتابیں دے کر ( بھیجا تھا ۔ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 43- 44] اور ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو ( ارشادات ) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ اور کلام کو بیان کہا جاتا ہے کیونکہ انسان اس کے ذریعہ اپنے مافی الضمیر کو ظاہر کرتا ہے جیسے فرمایا : ۔ هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران 138] ( قرآن لوگوں کے لئے بیان صریح ہو ۔ اور مجمل مہیم کلام کی تشریح کو بھی بیان کہا جاتا ہے جیسے ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنا بَيانَهُ [ القیامة 19] پھر اس ( کے معافی ) کا بیان بھی ہمارے ذمہ ہے ۔ بینہ وابنتہ کسی چیز کی شروع کرنا ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 44] تاکہ جو ارشادت لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ ص 70] کھول کر ڈرانے والا ہوں ۔إِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات 106] بلا شبہ یہ صریح آزمائش تھی ۔ وَلا يَكادُ يُبِينُ [ الزخرف 52] اور صاف گفتگو بھی نہیں کرسکتا ۔ وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف 18] . اور جهگڑے کے وقت بات نہ کرسکے ۔
فتح مبین سے کیا مراد ہے ؟- قول باری ہے (انا فتحنا لک فتحا مبینا۔ بیشک ہم نے آپ کو فتح مبین عطا کی) ایک روایت کے مطابق اس سے فتح مکہ مراد ہے۔ قتادہ کا قول ہے کہ ہم نے آپ کے لئے ایک واضح فیصلہ کیا۔ زیادہ ظاہر بات یہی ہے کہ اس سے فتح مکہ مراد ہے جسے اللہ نے مسلمانوں کے غلبے اور کافروں پر ان کی بالادستی کی صورت میں انہیں عطا کیا تھا۔- اور لفظ قضاء علی الاطلاق فتح کے مفہوم کو شامل نہیں ہوتا۔ اگر فتح مکہ مراد لینا درست ہوجائے تو یہ فتح بزور شمشیرہوئی تھی کیونکہ صلح کے طور پر حاصل ہونے والی فتح پر لفظ فتح کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اگرچہ مشروط صورت میں کبھی صلح کے لفظ سے فتح کے مفہوم کی تعبیر ہوجاتی ہے۔- اگر ایک شخص یہ کہتا ہے کہ ” فلاں شہر فتح ہوگیا۔ “ تو اس سے یہی مفہوم اخذ کیا جاتا ہے کہ یہ فتح غلبہ اور بالادستی کی بنا پر حاصل ہوئی ہے۔ صلح کی بنا پر حاصل نہیں ہوئی۔ سلسلہ تلاوت میں قول باری (وینصرک اللہ نصرا عزیزا۔ اور تاکہ اللہ آپ کو زبردست غلبہ عطا کرے) بھی اس پر دلالت کرتا ہے کہ آپ مکہ میں غلبہ اور بالا دستی کے تحت داخل ہوئے تھے اور آیت میں فتح مکہ ہی مراد ہے۔- اس پر قول باری (اذا جآء نصر اللہ والفتح جب اللہ کی مدد اور فتح آپہنچے) بھی دلالت کرتا ہے ۔ اہل علم کا اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ آیت میں فتح مکہ مراد ہے۔ بزور شمشیر فتح پر قول باری (انا فتحنالک فتحا مبینا) کے علاوہ قول باری (ھوالذی انزل السکینۃ فی قلوب المومنین۔ اس نے اہل ایمان کے دلوں میں سکون نازل کیا) کا اس واقعہ کے سیاق میں ذکر ہونا بھی دال ہے۔- کیونکہ ایمان کے ذریعے نفس کو سکون حاصل ہونے کے معنی یہی ہیں کہ اہل ایمان کو جو بصیرتیں حاصل ہونی تھیں ان کے سہارے وہ دین کے دفاع میں لڑتے رہے یہاں تک کہ وہ وقت بھی آگیا جب انہوں نے مکہ فتح کرلیا۔
ہم نے آپ کو واضح فتح دی اور صلح حدیبیہ بھی اسی میں سے ہے یا یہ کہ ہم نے آپ کے لیے واضح فیصلہ کردیا یہ کہ ہم نے آپ کو اسلام اور نبوت کے ذریعہ سرفرازی عطا فرمائی اور مخلوق کو بھی اس طرف دعوت دینے کا حکم دیا۔
آیت ١ اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا ” یقینا ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک بڑی روشن فتح عطا فرمائی ہے۔ “
سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :1 صلح حدیبیہ کے بعد جب فتح کا یہ مژدہ سنایا گیا تو لوگ حیران تھے کہ آخر اس صلح کو فتح کیسے کہا جاسکتا ہے ۔ ایمان کی بنا پر اللہ تعالی کے ارشاد کو مان لینے کی بات تو دوسری تھی ۔ مگر اس کے فتح ہونے کا پہلو کسی کی سمجھ میں نہ آ رہا تھا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ آیت سن کر پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا یہ فتح ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ( ابن جریر ) ۔ ایک اور صحابی حاضر ہوئے اور انہوں نے بھی یہی سوال کیا ۔ آپ نے فرمایا ای والذی نفس محمد بیدہ انہ لفتح ۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے ، یقینا یہ فتح ہے ( مسند احمد ۔ ابوداؤد ) ۔ مدینہ پہنچ کر ایک اور صاحب نے اپنے ساتھیوں سے کہا یہ کیسی فتح ہے؟ ہم بیت اللہ جانے سےروک دیے گئے ، ہماری قربانی کے اونٹ بھی آگے نہ جا سکے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو حدیبیہ ہی میں رک جانا پڑا ، اور اس صلح کی بدولت ہمارے دو مظلوم بھائیوں ( ابو جندل اور ابو بصیر ) کو ظالموں کے حوالہ کر دیا گیا ۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم تک یہ بات پہنچی تو آپ نے فرمایا بڑی غلط بات کہی گئی ہے یہ ۔ حقیقت میں تو یہ بہت بڑی فتح ہے ۔ تم مشرکوں کے عین گھر پر پہنچ گئے اور انہوں نے آئندہ سال عمرہ کرنے کی درخواست کر کے تمہیں واپس جانے پر راضی کیا ۔ انہوں نے تم سےخود جنگ بند کر دینے اور صلح کر لینے کی خواہش کی حالانکہ ان کے دلوں میں تمہارے لیے جیسا کچھ بغض ہے وہ معلوم ہے ۔ اللہ نے تم کو ان پر غلبہ عطا کر دیا ہے ۔ کیا وہ دن بھول گئے جب احد میں تم بھاگے جا رہے تھے اور میں تمہیں پیچھے سے پکار رہا تھا ؟ کیا وہ دن بھول گئے جب جنگ احزاب میں ہر طرف سے دشمن چڑھ آئے تھے اور کلیجے منہ کو آ رہے تھے ؟ ( بیہقی بروایت عروہ بن زبیر ) ۔ مگر کچھ زیادہ مدت نہ گزری تھی کی اس صلح کا فتح ہونا بالکل عیاں ہوتا چلا گیا اور ہر خاص و عام پر یہ بات پوری طرح کھل گئی کہ فی الواقع اسلام کی فتح کا آغاز صلح حدیبیہ ہی سے ہوا تھا ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ، حضرت جابر بن عبداللہ ، اور حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہم ، تینوں حضرات سے قریب قریب ایک ہی معنی میں یہ قول منقول ہوا ہے کہ لوگ فتح مکہ کو فتح کہتے ہیں ، حالانکہ ہم اصل فتح حدیبیہ کو سمجھتے ہیں ( بخاری ، مسلم ، مسند احمد ، ابن جریر ) ۔
1: صحیح روایات کے مطابق یہ آیت صلح حدیبیہ کے موقع پر نازل ہوئی تھی جس کا واقعہ سورت کے تعارف میں گذر چکا ہے۔ اگرچہ بظاہر صلح کی شرائط ایسی نظر نہیں آ رہی تھیں۔ جنہیں ’’ کھلی ہوئی فتح‘‘ کہا جائے، لیکن اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا کہ جن حالات میں یہ صلح ہوئی ہے، ان میں یہ ایک بڑی اور کھلی ہوئی فتح کا پیش خیمہ ہے، اور آخر کار اسی کے نتیجے میں مکہ مکرمہ فتح ہوگا۔