Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

2۔ 1 اس سے مراد ترک اولی والے معاملات یا وہ امور ہیں جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے فہم واجتہاد سے کیے لیکن اللہ نے انہیں ناپسند فرمایا جیسے عبد اللہ بن ام مکتوم (رض) وغیرہ کا واقعہ ہے جس پر سورة عبس کا نزول ہوا یہ معاملات وامور اگرچہ گناہ اور منافی عصمت نہیں لیکن آپ کی شان ارفع کے پیش نظر انہیں بھی کو تاہیاں شمار کرلیا گیا جس پر معافی کا اعلان فرمایا جا رہا ہے لیغفر میں لام تعلیل کے لیے ہے یعنی یہ فتح مبین ان تین چیزوں کا سبب ہے جو آیت میں مذکور ہیں اور یہ مغفرت ذنوب کا سبب اس اعتبار سے ہے کہ اس صلح کے بعد قبول اسلام کرنے والوں کی تعداد میں بکثرت اضافہ ہوا جس سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اجر عظیم میں بھی خوب اضافہ ہوا اور حسنات و بلندی درجات میں بھی۔ 2۔ 2 اس دین کو غالب کر کے جس کی تم دعوت دیتے ہو، یا فتح و غلبہ عطا کر کے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ مغفرت اور ہدایت پر یہی تمام نعمت ہے (فتح القدیر) 2۔ 3 یعنی اس پر استقلال نصیب فرمائے۔ ہدایت کے اعلیٰ سے اعلیٰ درجات سے نوازے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢] ذَنْبٌ ہر اس فعل کو کہتے ہیں جس کا انجام برا ہو (مفردات القرآن) اور بمعنی ہر وہ کام جس کے نتیجہ میں مذمت ہو (فقہ اللغۃ اور اس لفظ کا اطلاق اس قدر عام ہے کہ چھوٹی چھوٹی لغزشوں سے لے کر بڑے بڑے گناہوں پر بھی ہوسکتا ہے۔ سب سے بڑا گناہ قتل ناحق ہوتا ہے۔ اس کے لئے بھی یہی لفظ آیا ہے۔ سیدنا موسیٰ اللہ تعالیٰ سے فرماتے ہیں :- ( وَلَهُمْ عَلَيَّ ذَنْۢبٌ فَاَخَافُ اَنْ يَّقْتُلُوْنِ 14۝ۚ ) 26 ۔ الشعراء :14) اور میرے اوپر ان کا ایک گناہ (خون ناحق) ہے اور مجھے ڈر ہے کہ وہ مجھے مار ہی نہ ڈالیں۔ اور رسول اللہ نے فرمایا : (عَفَا اللّٰهُ عَنْكَ ۚ لِمَ اَذِنْتَ لَهُمْ حَتّٰي يَتَبَيَّنَ لَكَ الَّذِيْنَ صَدَقُوْا وَتَعْلَمَ الْكٰذِبِيْنَ 43؀) 9 ۔ التوبہ :43) اللہ آپ کو معاف فرمائے آپ نے ان منافقوں کو کیوں (جہاد سے رخصت کی) اجازت دی ؟۔- اور یہ تو ظاہر ہے کہ معافی کسی گناہ یا غلطی کے کام پر ہی ہوتی ہے۔ اور اس آیت میں ذنب سے مراد تدبیری امور میں بعض اجتہادی غلطیاں ہیں جو بشریت کا خاصہ ہیں۔ اور اگلے پچھلے گناہ معاف کردینے کی بنیاد یہ ہے کہ اللہ کو معلوم تھا کہ آپ دیدہ دانستہ کوئی گناہ کر ہی نہیں سکتے۔ اس آیت کی آپ کو جو خوشی ہوئی اور اس کا آپ نے جو تاثر قبول کیا وہ مندرجہ ذیل احادیث میں ملاحظہ فرمائیے :- ١۔ سیدنا انس فرماتے ہیں کہ یہ آیات اس وقت نازل ہوئیں جب آپ حدیبیہ سے واپس مدینہ جارہے تھے۔ آپ نے فرمایا : مجھ پر ایک آیت (لِیَغْفِرَلَکَ ) ایسی اتری ہے جو مجھے زمین کی ساری دولت سے پیاری ہے۔ صحابہ کہنے لگے : یارسول اللہ مبارک ہو، مبارک ہو اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے تو وضاحت فرمادی مگر ہمارے ساتھ کیا معاملہ ہوگا ؟ تو اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ ( لِّيُدْخِلَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا وَيُكَفِّرَ عَنْهُمْ سَيِّاٰتِهِمْ ۭ وَكَانَ ذٰلِكَ عِنْدَ اللّٰهِ فَوْزًا عَظِيْمًا ۝ ۙ ) 48 ۔ الفتح :5) (ترمذی۔ ابو اب التفسیر)- ٢۔ صلح حدیبیہ کے بعد آپ کی عبادت میں اضافہ :۔ سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ آپ جب صحابہ کو کوئی حکم دیتے تو ایسے کاموں کا دیتے جنہیں وہ (بآسانی) کرسکتے۔ صحابہ عرض کرتے، ہم آپ جیسے نہیں۔ آپ کے تو اللہ نے اگلے پچھلے سب گناہ معاف کردیئے ہیں۔ اس بات پر آپ غصہ میں آجاتے اور غصہ کے آثار آپ کے چہرہ پر نمودار ہوجاتے اور فرماتے : (سن لو) تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور اسے جاننے والا میں ہوں (بخاری۔ کتاب الایمان۔ باب قول النبی انا اعلمکم باللّٰہ) - ٣۔ سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ : آپ رات کو (تہجد کی نماز میں) اتنا زیادہ قیام فرماتے کہ آپ کے پاؤں تڑخ جاتے (اور ایک روایت میں ہے کہ آپ کے پاؤں سوج جاتے) سیدہ عائشہ (رض) نے پوچھا : یارسول اللہ آپ اتنی محنت کیوں کرتے ہیں ؟ آپ کے تو اللہ تعالیٰ نے سب اگلے پچھلے گناہ معاف فرما دیئے ہیں ؟ آپ نے جواب دیا : کیا میں اللہ کا شکرگزار بندہ نہ بنوں ؟ پھر جب آپ کا جسم (آخر عمر میں) فربہ ہوگیا تو آپ یہ نماز بیٹھ کر پڑھا کرتے۔ جب رکوع کا وقت آتا تو کھڑے ہو کر کچھ قرأت فرماتے۔ پھر رکوع کرتے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) لیغفرلک اللہ ماتقدم من ذنبک وما تاخر :” لیغفر “ کا لام ” لام عاقبت “ ہے، یعنی ہم نے آپ کو یہ فتح مبین عطا فرمائی تاکہ آپ کو اس کے نتیجے میں چار عظیم نعمتیں حاصل ہوں۔ گویا اللہ تعالیٰ اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرما رہے ہیں کہ آپ نے اپنی رسالت کا حق ادا کیا، میرا پیغام پہنچایا، جان مار کر محنت کی، اپنی زبان اور تلوار کے ساتھ جہاد کیا، مسلمانوں کی ایک مخلص ترین جماعت تیار کی، سختی کے موقع پر سختی اور نرمی کے موقع پر نرمی کی اور مختصر سے عرصے میں وہ کامیابی حاصل کی جو طویل مدتوں میں کوئی حاصل نہ کرسکا، حتیٰ کہ وہ کام پورا کر دکھایا جو ہم نے آپ کے ذمے لگایا تھا۔ اب آپ اپنی محنت کا پھل اٹھائیں گے، جس سے دنیا اور آخرت میں آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی، چناچہ ہم نے آپ کیلئے واضح فتح عطا کی جس کے نتیجے میں پہلی نعمت آپ کو یہ ملی کہ نبوت سے پہلے اور بعد کے گناہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بخش دیئے۔- (٢) یہاں ایک مشہور سوال ہے کہ کیا نبی سے بھی گناہ کا صدور ہوسکتا ہے ؟ بعض حضرات نے انبیائے کرام (علیہم السلام) سے گناہ صادر ہونے کو ناممکن قرار دیا ہے، کیونکہ ان کے نزدیک نبی سے گناہ کا صادر ہونا اس کی شان کے خلاف ہے، مگر اس کا کیا کیا جائے کہ قرآن مجید نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق لفظ ” ذنب “ استعمال کیا ہے، جس کا معروف و مشہور معنی ” گناہ “ ہے۔ اس لئے فارسی اور اردو تقریباً تمام مترجمین نے یہاں ” ذنب “ کا معنی گناہ کیا ہے۔ رہی یہ بات کہ آپ کی طرف لفظ گناہ کی نسبت سے آپ کی شان میں کمی کا اظہار ہوتا ہے، تو جو لوگ ایسا سمجھتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ انبیاء کے گناہوں کو اپنے گناہوں کی طرح سمجھ لیتے ہیں۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء (علیہ السلام) کو جتنا عظیم اورب لند مرتبہ عطا فرمایا ہے اسے محلوظ رکھتے ہوئے وہ اپنی معمولی کوتاہیوں اور لغزشوں کو گناہ قرار دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بھی انہیں ” ذنوب “ کہہ کر ان سے استغفار کا حکم دیتا ہے، اسی لئے وہ اللہ تعالیٰ کی جناب میں استغفار کرتے ہیں جس سے ان کا مرتبہ پہلے سے بھی بلند ہوجاتا ہے۔ مثلاً موسیٰ (علیہ السلام) سے خطا کے ساتھ قبطی قتل ہوگیا تو انہوں نے دعا ک :(رب انی ظلمت نفسی فاغفرلی فغفرلہ) (القصص :16) ” اے میرے رب میں نے اپنی جان پر ظلم کیا، سو تو مجھے بخش دے، تو اللہ نے اسے بخش دیا۔ “ آدم (علیہ السلام) منع کرنے کے باوجود بھول کر اس پودے میں سے کھا بیٹھے تو کہا :(ربنا ظلمنا انفسنا وان لم تغفرلنا وترحمنا لنکونن من الخسرین (الاعراف : ٢٣)” اے ہمارے رب ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں نہ بخشا اور ہم پر رحم نہ کیا تو یقینا ہم ضرور خسارہ پانے والوں سے ہوجائیں گے۔ “ تو اللہ تعالیٰ نے اس استغفار کے نتیجے میں انہیں ” مجتبی “ بنا لیا، فرمایا (ثم اجتبہ ربہ فتاب علیہ وھدی) (طہ : ١٢٢)” پھر اس کے رب نے اسے چن لیا، تو اس پر مہربانی فرمایء اور ہدایت دی۔ “ یونس (علیہ السلام) بغیر اجازت قوم کو چھوڑ کر چلے گئے تو مچھلی کے پیٹ سے اللہ تعالیٰ کو پکارا (لا الہ الا انت سبحنک انی کنت من الظلمین) (الانبیائ : ٨٨)” تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو پاک ہے، یقینا میں ظلم کرنے والوں سے ہوگیا ہوں۔ “ اس استغافر کے نت یجے میں انہیں وہ مقام حاصل ہوا جو خطا نہ ہونے اور استغفار نہ کرنے کی صورت میں کبھی حاصل نہ ہوتا، فرمایا :(فاجتبہ ربہ فجعلہ من الصلحین) (القلم : ٥٠) ” پھر اس کے رب نے اسے چن لیا ، پس اسے نیکوں میں شامل کردیا۔ “- بنی آدم کا فرشتوں سے یہی فرق ہے کہ فرشتوں سے نہ خطا ہوتی ہے، نہ انہیں استغافر کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ وہ استغفار سے حاصل ہونے والا بلند مقام حاصل کرسکتے ہیں۔ انبیائے کرام (علیہ السلام) ہماری طرح کبیرہ گناہوں کا ارتکاب یا دیدہ و دانستہ فرمانی نہیں کرتے، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے چنے ہوئے فرماں بردار بندے ہوتے ہیں، البتہ ان سے بشری تقاضوں کے پیش نظر کوئی معمولی کوتاہی یا اجتہادی خطا ہوجاتی ہے۔ انبیاء کی خصوصیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں اس خطا یا کوتاہی پر قائم نہیں رہنے دیتا، بلکہ وحی کے ذریعے سے فوراً اصلاح فرما دیتا ہے، انبیاء کے معصوم ہونے کا یہی مطلب ہے۔ کسی امتیک و، خواہ وہ کتنے بلند منصب پر فائز ہو یہ امتیاز حاصل نہیں کہ اس کی خطا کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کے ذریعے سے اصلاح کی جائے۔ انبیاء سے سر زد ہونے والی یہ معمولی کوتاہیاں یا اجتہادی خطائیں بھی ان کے مقام کے پیش نظر خود انہیں اتنی بڑی نظر آتی ہیں کہ وہ بار بار اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔ ہمارے نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ” ذنوب “ سے مغفرت مانگنے کا حکم دیا، جس پر عمل کرتے ہوئے آپ بےحد استغفار کرتے تھے۔ دیکھیے سورة محمد کی آیت (١٩) کی تفسیر۔ استغفار کی وہ مختلف دعائیں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کی جناب میں کیا کرتے تھے ان تمام دعاؤں میں لفظ ” ذنب “ استعمال ہوا ہے۔ ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا اور اس کے رسول کا معاملہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ذنوب کا اقرار کر کے استغفار کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ک و پہلے اور پچھلے ذنوب کی مغفرت کی خوش خبری دے رہے ہیں۔ صحابہ کرام (رض) بھی اس بات کا حوالہ دیا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے آپ کے پہلے اور پچھلے ذنوب معاف فرما دیے ہیں، جیسا کہ ام المومنین عائشہ (رض) ب یان کرتی ہیں ۔ (ان نبی اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کان یقوم من اللیل حتی تنفطر قدماہ فقالت عائشہ لم تصنع ھذا یا رسول اللہ وقد غفر اللہ لک ما تقدم من ذنبک وما تاخر ؟ قال افلا احب ان اکون عبداشکور ؟ ) (بخاری، التفسیر، باب قولہ :(لیغفرلک اللہ ماتقدم…):3838)” نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات اتنا قیام کرتے حتیٰ کہ آپ کے قدم پھٹ جاتے تو عائشہ (رض) نے کہا :” یا رسول اللہ آپ اس طرح کیوں کرتے ہیں، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے آپ کے پہلے اور پچھلے گناہ بخش دیئے ہیں ؟ “ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” تو کیا میں شکر گزار بندہ بننا پسند نہ کروں ؟ “- یہی وجہ ہے کہ پہلے تقریباً سبھی ترجمہ کرنے والوں نے ” ذنب “ کا معنی گناہ کیا ہے۔ یہ ترجمہ کرنے والے قرآن مجید کے سب خدام کیا نعوذ باللہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گستاخ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقام سے نا آشنا تھے ؟ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اس سے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گناہ گار ٹھہرتے ہیں۔ آپ ان حضرات سے پوچھیں کہ آپ ” ذنب “ کا ترجمہ کر کے بتائیے، ان میں سے ایک صاحب نے ” لیغفرلک اللہ ماتقدم من ذنبک وما تاخر “ کا ترجمہ کیا ہے :” تاکہ اللہ تعالیٰ آپ کی اگلی پچھلی سب خطائیں معاف فرما دے۔ “ ایک اور صاحب نے ترجمہ کیا ہے :” تاکہ اللہ تعالیٰ تمہاری اگلی پچھلی ہر کوتاہی سے درگزر فرمائے۔ “ اپنے خیال میں ان حضرت ا نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گناہ گار ہونے سے تو بچا لیا مگر انہیں خطا کار اور کوتاہی کا مرتکب ہونے سے تو نہ بچا سکے، بتائیے آپ نے کون سامعر کہ سر کیا ؟ حقیقت یہ ہے کہ ایک آدھ معمولی گناہ و خطا سے آدمی نہ گناہ و خطا سے آدمی نہ گناہگار کے لقب کا حق دار بنتا ہے اور نہ ہی اسے خطاکار یا کوتاہ کار کہہ سکتے ہیں۔- بعض حضرات نے یہاں ذنب کا معنی الزام کیا ہے اور ترجمہ کیا ہے :” تاکہ اللہ تعالیٰ آپ پر لگائے گئے پہلے پچھلے تمام الزامات دور کر دے۔ “ ان حضرت ا سے کوئی پوچھے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جن کاموں پر باز پرس فرمائی اور ساتھ ہی انہیں معاف کردینے کی بشارت بھی دے دی، کیا وہ سب الزامات تھے جو اللہ تعالیٰ نے غلط قرار دے کر دور فرما دیئے ؟ مثلاً فرمایا :(یا یھا النبی لم تحرم ما احل اللہ لک تبتغی مرضک ازواجک واللہ غفور رحیم) (التحریم : ١) ” اے نبی تو کیا حرام کرتا ہے جو اللہ نے تیرے لئے حلال کیا ہے ؟ تو اپنی بیویوں کی خوشی چاہتا ہے اور اللہ بہت بخشنے والا نہایت رحم والا ہے۔ “ اور فرمایا :(عفا اللہ عنک لم اذنت لھم حتی یتبین لک الذین صدقوا و تعلم اللذین) (التوبۃ : ٣٣)” اللہ نے تجھے معاف کردیا، تو نے انہیں کیوں اجازت دی، یہاں تک کہ تیرے لئے وہ لوگ صاف ظاہر ہوجاتے جنہوں نے سچ کہا اور تو جھوٹوں کو جان لیتا۔ “ اور فرمایا :(ما کان لنبی ان یکون لہ اسری حتی ینحن فی الارض تریدون عرض الدنیا ، واللہ یرید الاخرۃ ، واللہ عزیز حکیم) (الانفال :68)” کبھی کسی نبی کے لائق نہیں کہ اس کے ہاں قیدی ہوں، یہاں تک کہ وہ زمین میں خوب خون بہا لے، تم دنیا کا سامان چاہتے ہو اور اللہ آخرت کو چاہتا ہے اور اللہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔ “ اور فرمایا :(وتخشی الناس، واللہ احق ان تخشہ) (الاحزاب :38)” اور تو لوگوں سے ڈرتا تھا، حالانکہ اللہ زیادہ حق دار ہے کہ تو اس سے ڈرے۔ “- اصل بات یہ ہے کہ ایسے حضرات غلو کی وجہ سے ہر اس شخص کو گستاخ رسول قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں جو ان کی طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خدائی صفات کا مالک قرار نہ دے، آپ کا عالم الغیب نہ مانے، مختار کل تسلیم نہ کرے، یا یہ نہ مانے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب ہوس کتی ہی نہیں۔ ان میں سے بعض حضرات نے اس مقام پر ذنب کا معنی تو گناہ ہی کیا ہے، مگر اس آیت کے ترجمے میں تحریف قرآن کے اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا اس امت کو مہلت دینے کا فیصلہ نہ ہوتا تو ان کا نام و نشان مٹا دیا جاتا۔ چناچہ ان میں سے ایک صاحب نے ” لیغفرلک اللہ ماتقدم من ذنبک وماتاخر “ کا ترجمہ کیا ہے :” تاکہ اللہ تمہارے سبب سے گناہ بخشے تمہارے اگلوں کے اور تمہارے پچھلوں کے۔ “ ایک اور صاحب نے ترجمہ کیا ہے، ” تاکہ اللہ تمہارے سبب سے گناہ بخشے تمہارے اگلوں کے اور تمہارے پچھلوں کے۔ “ ایک اور صاحب نے ترجمہ کیا ہے ” تاکہ آپ کی خاطر اللہ آپ کی امت (کے ان تمام افراد) کی اگلی پچھلی خطائیں معاف فرما دے (جنہوں نے آپ کے حکم پر جہاد کئیا ور قبرانیاں دیں۔ ) “ ان لوگوں کی تحریف پر جرأت دیکھیے، لفظ ” ذنبک “ کا معنی ” تیرے گناہ “ کے علاوہ ہو نہیں سکتا، مگر یہ لوگ اس کا ترجمہ ” تیری امت کے اگلے پچھلے گناہ “ کر رہے ہیں اور حب رسول کے اتنے بڑے اجارہ دار بنے ہوئے ہیں کہ جو ان کی طرح تحریف نہ کرے، یا ان کی تحریف پر شاباش نہ کہے وہ ان کی نظر میں حب رسول سے آشنا ہی نہیں۔ ان لوگوں کے ترجمے کے مطابق تو تمام امتیوں کے اگلے پچھلے گناہ معاف ہوچکے ہیں، اب اگر کوئی قتل یا زنا چوری کرتا ہے تو اس پر حد کیسی ؟ اسے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے معافی مل چکی ہے۔ یہ سب نتیجہ اسی غلو کا ہے جس سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع فرمایا ہے۔ عمر بن خطاب (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو منبر پر یہ فرماتے ہوئے سنا :(لاتطرونی کما اطرت النصاری ابن مریم فانما انا عبدہ، فقولوا عبداللہ و رسولہ) (بخاری احادیث، النبایئ، باب قول اللہ تعالیٰ :(واذکر فی الکتاب مریم ): ٣٣٣٥)” مجھے حد سے مت بڑھاؤ جس طرح نصاریٰ نے مسیح ابن مریم کو حد سے بڑھا دیا، کیونکہ میں تو صرف اس کا بندہ ہوں، سو تم ” اللہ کا بندہ اور اس کا رسول “ کہو۔ “- (٣) اس مقام پر اکثر مفسرین نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق لفظ ذنب کی توجیہ کرتے ہوئے ایک جملہ مسلم قول کے طور پر ذکر فرمایا ہے :” حسنات الابرار سیئات المقربین “” نیک لوگوں کی نیکیاں مقرب لوگوں کی برائیاں ہوتی ہیں۔ “ یہ جملہ اللہ تعالیٰ یا اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تو ہرگز نہیں، اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ یہ بات کہنے والا کون ہے، مگر اکثر مفسر اور مصنف اسے اندھا دھند بیان کرتے چلے جاتے ہیں۔ نہ یہ سوچتے ہیں کہ نیکی بدی کیسے بن سکتی ہے اور نہ یہ خیال فرماتے ہیں کہ قرآن مجید کے مطابق ابرار مقربین کی یہ تقسیم سرے سے غلط ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بڑھ کر کون مقرب ہوگا ؟ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پچھلی رات اٹھ کر جن آیات کی تلاوت کیا کرتے تھے ان میں مذکور دعاؤں میں سیا یک دعا یہ ہے :(وتوفنا مع الابرار) (آل عمران :193)” اور ہمیں ابرار کے ساتھ فوت کر۔ “ پھر وہ کون سے ابرار ہیں جن کی نیکیاں مقربین کی بدیاں ہیں ؟- (٤) ویتم نعمتہ علیک : یہ دوسری نعمت ہے جو صلح حدیبیہ کے نتیجے میں حاصل ہونے کی خوش خبری دی گئی۔ اس سے مراد وہ بہت سی نعمتیں عطا کرنا ہے جو اس سے پہلے آپ کو عطا نہیں کی گئی تھیں، مثلاً قریش، اہل مکہ اور دوسرے لوگوں کا فوج در فوج اسلام میں داخل ہونا، تمام دشمنوں اور مخالفوں کا زیر وہ اجنا، پورے ملک عرب کا آپ کے زیر نگیں ہوجانا اور دین کی تکمیل وغیرہ، جن کا اس موقع پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وعدہ کیا گیا اور کچھ ہی عرصہ بعد پورا کردیا گیا اور اعلان ہوگیا :(الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا) (المائدۃ : ٣)” آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لئے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کرلیا۔ “ - (٥) ویھدیک صراط مستقیماً : یہ تیسری نعمت کا وعدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے احکام پر عمل، ان کی تبلیغ و جاد، سلطنت کے معاملات اور فتح و کامرانی کے حصول کے بارے میں آپ کو بالکل سیدھے راستے پر چلائے گا۔ اگرچہ یہ سب کچھ پہلے بھی آپ کو حاصل تھا، مگر اس کے بعد جس وسعت کے ساتھ حاصل ہوا وہ پہلے حاصل نہ تھا۔ مزید دیکھیے سورة فاتحہ کی آیت :(اھدنا الصراط مستقیم) کی تفسیر۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) لِّيَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَمَا تَاَخَّرَ ، اس لیغفر کا لام اگر تعلیل یعنی بیان علت کے لئے لیا جائے تو حاصل اس کا یہ ہے کہ یہ فتح مبین آپ کو اس لئے دی گئی ہے تاکہ آپ کو یہ تین کمالات حاصل ہوجائیں جن کا اس آیت میں ذکر ہے، ان میں پہلی چیز تمام اگلی پچھلی لغزشوں اور خطاؤں کی معافی ہے۔ سورة محمد میں پہلے یہ معلوم ہوچکا ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) گناہوں سے معصوم ہوتے ہیں ان کی طرف قرآن میں جہاں کہیں ذنب یا عصیان وغیرہ کے الفاظ منسوب کئے گئے وہ ان کے مقام عالی کی مناسبت سے ایسے کاموں کے لئے استعمال کئے گئے جو خلاف اولیٰ تھے مگر نبوت کے مقام بلند کے اعتبار سے غیر افضل پر عمل کرنا بھی ایسی لغزش ہے جس کو قرآن نے بطور تہدید کے ذنب و گناہ سے تعبیر کیا ہے اور ماتقدم سے مراد وہ لغزشیں ہیں جو نبوت سے پہلے ہوئیں اور ماتاخر سے مراد وہ لغزشیں جو رسالت و نبوت کے بعد صادر ہوئیں (مظہری) اور فتح مبین کا اس مغفرت کے لئے سبب ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس فتح مبین سے بہت لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہوں گے اور اسلام کی دعوت کا عام ہوجانا آپ کی زندگی کا مقصد عظیم اور آپ کے اجر وثواب کو بہت بڑھانے والا ہے اور اجر وثواب کی زیادتی سبب ہوتی ہے کفارہ سیئات کی (بیان القرآن)- (اآیت) وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُّسْتَـقِيْمًا، یہ دوسری نعمت ہے جو اس فتح مبین پر مرتب ہوئی، یہاں یہ سوال ہوتا ہے کہ صراط مستقیم پر تو آپ اول ہی سے ہیں اور نہ صرف خود صراط مستقیم پر ہیں بلکہ دنیا کو اسی صراط مستقیم کی دعوت دینا آپ کا رات دن کا مشغلہ ہے تو ہجرت کے چھٹے سال فتح مبین کے ذریعہ صراط مستقیم کی ہدایت کے کیا معنی ہیں اس کا جواب سورة فاتحہ کی تفسیر لفظ ہدایت کی تحقیق میں گزر چکا ہے کہ ہدایت ایک ایسا مفہوم عام ہے کہ جس کے درجات غیر متناہی ہیں وجہ یہ ہے کہ ہدایت کے معنی منزل مقصود کا راستہ دکھلانا یا اس پر پہنچانا ہے اور اصل منزل مقصود ہر انسان کی حق تعالیٰ کی رضا اور قرب حاصل کرنا ہے اور اس رضا و قرب کے متضاوت درجات بیشمار ہیں، ایک درجہ حاصل ہونے کے بعد دوسرے اور تیسرے درجہ کی ضرورت باقی رہتی ہے جس سے کوئی بڑے سے بڑا ولی بلکہ نبی و رسول بھی بےنیاز نہیں ہوسکتا، اسی لئے (آیت) اھدنا الصراط المستقیم کی دعا نماز کی ہر رکعت میں کرنے کی تعلیم جیسے امت کو ہے خود رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی ہے جس کا حاصل صراط مستقیم کی ہدایت یعنی اللہ تعالیٰ کے قرب و رضا کے درجات میں ترقی حاصل کرنا ہے اس فتح مبین پر حق تعالیٰ نے اسی قرب و رضا کا کوئی بہت اعلیٰ مقام آپ کو عطا فرمایا جس کو یھدیک کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لِّيَغْفِرَ لَكَ اللہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَمَا تَاَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَيْكَ وَيَہْدِيَكَ صِرَاطًا مُّسْتَـقِيْمًا۝ ٢ ۙ- غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ - الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة «3» لاتخاذهم إياها معبودا .- وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ.- فالإله علی هذا هو المعبود «4» . وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»- وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها «2» ، وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] وقرئ :- ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر «5» ، مركّب تركيب حيّهلا .- ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم )- ما - مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف .- فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع .- فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي - نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] .- الثاني :- نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة «1» .- الثالث : الاستفهام،- ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا .- الرّابع : الجزاء نحو :- ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ- الآية [ فاطر 2] . ونحو : ما تضرب أضرب .- الخامس : التّعجّب - نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] .- وأمّا الحروف :- فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي «3» . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده .- الثاني : للنّفي - وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف 31] «1» .- الثالث : الکافّة،- وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو :- إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] ، وعلی ذلك :- قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي .- الرابع : المُسَلِّطَة،- وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو :- «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما .- الخامس : الزائدة- لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء 23] .- ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی - پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں - ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے - اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو - جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ - دوم ما نافیہ ہے - ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے - جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ - چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے - جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ - پانچواں مازائدہ ہے - جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔- ذنب - والذَّنْبُ في الأصل : الأخذ بذنب الشیء، يقال : ذَنَبْتُهُ : أصبت ذنبه، ويستعمل في كلّ فعل يستوخم عقباه اعتبارا بذنب الشیء، ولهذا يسمّى الذَّنْبُ تبعة، اعتبارا لما يحصل من عاقبته، وجمع الذّنب ذُنُوب، قال تعالی: فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ [ آل عمران 11] ،- الذنب ( ض )- کے اصل معنی کسی چیز کی دم پکڑنا کے ہیں کہا جاتا ہے ذنبتہ میں نے اس کی دم پر مارا دم کے اعتبار ست ہر اس فعل کو جس کا انجام برا ہوا سے ذنب کہہ دیتے ہیں اسی بناء پر انجام کے اعتباڑ سے گناہ کو تبعتہ بھی کہا جاتا ہے ۔ ذنب کی جمع ذنوب ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ [ آل عمران 11] تو خدا نے ان کو ان کے گناہوں کے سبب ( عذاب میں ) پکڑلیا تھا۔- أخر ( تاخیر)- والتأخير مقابل للتقدیم، قال تعالی: بِما قَدَّمَ وَأَخَّرَ [ القیامة 13] ، ما تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَما تَأَخَّرَ [ الفتح 2] ، إِنَّما يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصارُ [إبراهيم 42] ، رَبَّنا أَخِّرْنا إِلى أَجَلٍ قَرِيبٍ [إبراهيم 44] - ( اخ ر ) اخر - التاخیر یہ تقدیم کی ضد ہے ( یعنی پیچھے کرنا چھوڑنا ۔ چناچہ فرمایا :۔ بِمَا قَدَّمَ وَأَخَّرَ ( سورة القیامة 13) جو عمل اس نے آگے بھیجے اور جو پیچھے چھوڑے ۔ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ ( سورة الفتح 2) تمہارے اگلے اور پچھلے گناہ إِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصَارُ ( سورة إِبراهيم 42) وہ ان کو اس دن تک مہلت دے رہا ہے جب کہ دہشت کے سبب آنکھیں کھلی کی کھلی ۔ رہ جائیں گی ۔ رَبَّنَا أَخِّرْنَا إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ ( سورة إِبراهيم 44) اسے ہمارے پروردگار ہمیں تھوڑی سی مہلت عطا کر - تمَ- تَمَام الشیء : انتهاؤه إلى حدّ لا يحتاج إلى شيء خارج عنه، والناقص : ما يحتاج إلى شيء خارج عنه . ويقال ذلک للمعدود والممسوح، تقول : عدد تَامٌّ ولیل تام، قال : وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [ الأنعام 115] ، وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ- [ الصف 8] ، وَأَتْمَمْناها بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقاتُ رَبِّهِ [ الأعراف 142] .- ( ت م م ) تمام الشیء کے معنی کسی چیز کے اس حد تک پہنچ جانے کے ہیں جس کے بعد اسے کسی خارجی شے کی احتیاج باقی نہ رہے اس کی ضد ناقص یعنی وہ جو اپنی ذات کی تکمیل کے لئے ہنور خارج شے کی محتاج ہو اور تمام کا لفظ معدودات کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے اور مقدار وغیرہ پر بھی بولا جاتا ہے مثلا قرآن میں ہے : ۔ وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [ الأنعام 115] اور تمہارے پروردگار وعدہ پورا ہوا ۔ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ [ الصف 8] حالانکہ خدا اپنی روشنی کو پورا کرکے رہے گا ۔ وَأَتْمَمْناها بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقاتُ رَبِّهِ [ الأعراف 142] . اور دس ( راتیں ) اور ملا کر اسے پورا ( حیلہ ) کردیا تو اس کے پروردگار کی ۔۔۔۔۔ میعاد پوری ہوگئی ۔- نعم - النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] - ( ن ع م ) النعمۃ - اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔- هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- صرط - الصِّرَاطُ : الطّريقُ المستقیمُ. قال تعالی: وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام 153] ، ويقال له : سِرَاطٌ ، وقد تقدّم . - سرط - السِّرَاطُ : الطّريق المستسهل، أصله من :- سَرَطْتُ الطعامَ وزردته : ابتلعته، فقیل : سِرَاطٌ ، تصوّرا أنه يبتلعه سالکه، أو يبتلع سالکه، ألا تری أنه قيل : قتل أرضا عالمها، وقتلت أرض جاهلها، وعلی النّظرین قال أبو تمام :- 231-- رعته الفیافي بعد ما کان حقبة ... رعاها وماء المزن ينهلّ ساكبه - «2» وکذا سمّي الطریق اللّقم، والملتقم، اعتبارا بأنّ سالکه يلتقمه .- ( ص ر ط ) الصراط - ۔ سیدھی راہ ۔ قرآن میں ہے : وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام 153] اور یہ کہ میرا سیدھا راستہ یہی ہے ۔ اسے سراط ( بسین مھملہ ) پڑھا جاتا ہے ملاحظہ ہو - ( س ر ط) السراط - کے معنی آسان راستہ ، کے آتے ہیں اور اصل میں سرطت الطعام وزاردتہ سے مشتق ہے جس کے معنی طعام کو نگل جانے کے ہیں ۔ اور راستہ کو صراط اس لئے کہاجاتا ہے کہ وہ راہر کو گویا نگل لیتا ہے یار ہرد اس کو نگلتا ہوا چلایا جاتا ہے ۔ مثل مشہور ہے ۔ قتل ارضا عالھا وقتلت ارض جاھلھا کہ واقف کار رہر و توزمین کو مار ڈالتا ہے لیکن ناواقف کو زمین ہلاک کردیتی ہے ۔ ابو تمام نے کہا ہے ۔ رعتہ الفیما فی بعد ماکان حقبۃ رعاھا اذا ماالمزن ینھل ساکبہ اس کے بعد کو اس نے ایک زمانہ دراز تک سرسبز جنگلوں میں گھاس کھائی اب اس کو جنگلات نے کھالیا یعنی دبلا کردیا ۔ اسی طرح راستہ کو لقم اور ملتقم بھی کہا جاتا ہے اس لحاظ سے کہ گویا ر ہرو اس کو لقمہ بنالیتا ہے۔- الاسْتِقَامَةُ- يقال في الطریق الذي يكون علی خطّ مستو، وبه شبّه طریق المحقّ. نحو : اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة 6] واسْتِقَامَةُ الإنسان : لزومه المنهج المستقیم . نحو قوله :إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت 30]- الاستقامۃ ( استفعال )- کے معنی راستہ خط مستقیم کی طرح سیدھا ہونے کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر راہ حق کو بھی صراط مستقیم کہا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة 6] ہم کو سيدھے راستے پر چلا ۔ اور کسی انسان کی استقامت کے معنی سیدھی راہ پر چلنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت 30] جس لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار خدا پے پھر وہ اس پر قائم رہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢۔ ٣) تاکہ اللہ تعالیٰ آپ کی سب اگلی یعنی وحی سے پہلے کی اور وحی کے بعد سے رحلت تک کی صورتی خطائیں معاف فرمائے اور تاکہ نبوت و اسلام اور مغفرت کے ذریعے سے آپ پر اپنے احسانات کی اور تکمیل فرما دے اور آپ کو سیدھے رستہ یعنی دین اسلام پر قائم رکھے اور آپ کے دشمنوں پر آپ کو ایسا غلبہ دے جس میں عزت ہی عزت ہو۔- شان نزول : لِّيَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ (الخ)- امام حاکم وغیرہ نے مسور بن مخرمہ اور مروان بن حکم سے روایت کیا ہے کہ سورة فتح اول سے آخر تک حدیبیہ کے واقعہ کے بارے میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان نازل ہوئی ہے۔ اور امام بخاری و مسلم اور ترمذی و حاکم نے حضرت انس سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم پر حدیبیہ سے واپسی میں یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی۔- اس پر رسول اکرم نے فرمایا مجھ پر ایسی آیت نازل ہوئی ہے جو مجھے تمام روئے زمین سے زیادہ محبوب ہے پھر آپ نے یہ آیت صحابہ کرام کو سنائی، صحابہ کرام نے کہا یا رسول اللہ، اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو مرتبہ اور فضیلت عطا کی ہے وہ آپ کو مبارک ہو باقی ہمیں اللہ تعالیٰ کیا صلہ دے گا۔ تب یہ آیت نازل ہوئی۔ لیدخل المومنین (الخ)

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢ لِّیَغْفِرَ لَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ ” تاکہ اللہ بخش دے آپ کی کوئی کوتاہیاں جو پیچھے ہوئیں اور جو بعد میں ہوئیں “ - رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے سے لفظ ” ذنب “ کی وضاحت کے لیے سورة محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آیت ١٩ کی تشریح ملاحظہ ہو۔ یہاں بھی ذَنْبِکَ (آپ کی کوتاہیوں) سے مراد وہ خامیاں اور کوتاہیاں ہیں جو غلبہ اسلام کی اس جدوجہد میں رہ گئی تھیں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قیادت میں مسلمان کر رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے ان ساری کمزوریوں اور کوتاہیوں سے درگزر کر کے محض اپنے فضل سے ان کی تلافی کردی ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے فتح و نصرت کا دروازہ کھول دیا ہے۔- وَیُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکَ وَیَہْدِیَکَ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا ” اور تاکہ اللہ اپنی نعمت کا اتمام فرما دے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی راہنمائی کرے سیدھے راستے کی طرف۔ “ - بظاہر اس فقرے سے بھی لفظ ” ذنب “ کی طرح اشکال پیدا ہوتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو پہلے ہی سیدھی راہ پر تھے بلکہ وَاِنَّکَ لَتَھْدِیْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ۔ (الشوریٰ ) کا مصداق تھے ‘ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تمام اہل ایمان ساتھی بھی پچھلے اٹھارہ برسوں سے سربکف ہو کر اسی راہ ہدایت پر گامزن تھے تو پھر یہاں وَیَہْدِیَکَ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا کے فرمان کا کیا مفہوم ہے ؟ اس بارے میں مفسرین کی بہت سی آراء ہیں ‘ جن کی تفصیل بیان کرنا یہاں ممکن نہیں۔ بہر حال میرے نزدیک اس کی توجیہہ وہی ہے جو میں قبل ازیں سورة محمد کی آیت ١٩ کے ضمن میں لفظ ” ذنب “ کی وضاحت کے حوالے سے بیان کرچکا ہوں کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اپنے اہل ایمان ساتھیوں کے ساتھ اقامت ِدین کے لیے جو مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں ‘ اس حوالے سے اگر اہل ایمان میں سے کسی سے اب تک کسی قسم کی کوئی کوتاہی ہوئی ہے تو اللہ تعالیٰ اس فتح مبین کی برکت سے ایسی تمام کوتاہیوں کی تلافی فرما دے گا۔ اس کے بعد اللہ کی حکومت قائم کرنے کے لیے آپ لوگوں کی یہ جدوجہد تیر کی طرح سیدھی اپنے ہدف کی طرف تیزی سے بڑھے گی اور ” اظہارِ دین حق “ کا عملی مظاہرہ اب بہت جلد دنیا کی نظروں کے سامنے آجائے گا۔ گویا اس مقام پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سیدھا راستہ دکھانے کا مطلب فتح و کامرانی کا راستہ دکھانا ہے۔ - جہاں تک آیت زیر مطالعہ میں ” اتمامِ نعمت “ کے وعدے کا تعلق ہے تو اس سے مراد دراصل دین کا اتمام ہی ہے جس کے بارے میں یہ خوشخبری ہم سورة المائدۃ کی آیت ٣ میں پڑھ آئے ہیں : اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُم وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَـکُمُ الْاِسْلاَمَ دِیْنًاط ” آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کی تکمیل فرما دی ہے ‘ اور تم پر اپنی نعمت کا اتمام فرمادیا ہے ‘ اور تمہارے لیے میں نے اسلام کو بحیثیت دین کے پسند کرلیا ہے “۔ البتہ اس اہم مضمون کے درست ادراک کے لیے ضروری ہے کہ دین کے اتمام کی دونوں صورتیں پیش نظر رہیں۔ اس کی ایک صورت تو یہ ہے کہ قرآن میں تمام احکامِ دین بیان کردیے گئے اور شریعت مکمل ہوگئی۔ لیکن دین اسلام چونکہ ایک ضابطہ حیات ہے اس لیے عملی طور پر اس کی تکمیل تب ہی ممکن تھی جب اس کے تحت باقاعدہ ایک حکومت قائم ہوتی اور معاشرے کے اندر اس کے تمام قوانین کی تنفیذ کا مظاہرہ اور نمونہ عملی طور پر سامنے آتا۔ اسی کیفیت کا نام دراصل ” اظہارِ دین “ ہے جس کا ذکر قرآن مجید میں تین مقامات (التوبۃ : ٣٣ ‘ الفتح : ٢٨ ‘ اور الصف : ٩) پر لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ کے الفاظ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے ” مقصد “ کے طور پر بیان ہوا ہے۔ چناچہ آیت زیر مطالعہ میں یہاں خصوصی طور پر اسی ” نعمت “ کے اتمام کی طرف اشارہ ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کے ساتھیوں کی اگلی پچھلی کوتاہیوں کی تلافی کے لیے ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ” فتح مبین “ عطا کردی ہے۔ اب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جدوجہد تیزی کے ساتھ اپنے ہدف کی طرف بڑھے گی اور جزیرہ نمائے عرب میں بہت جلد ” اظہارِ دین حق “ کا عملی نمونہ دنیا کے سامنے آجائے گا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :2 جس موقع و محل پر یہ فقرہ ارشاد ہوا ہے اس نگاہ میں رکھا جائے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہاں جن کوتاہیوں سے در گزر کرنے کا ذکر ہے ان سے مراد وہ خامیاں ہیں جو اسلام کی کامیابی و سر بلندی کے لیے کام کرتے ہوئے اس سعی و جہد میں رہ گئی تھیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی قیادت میں پچھلے 19 سال سے مسلمان کر رہے تھے ۔ یہ خامیاں کسی انسان کے علم میں نہیں ہیں ، بلکہ انسانی عقل تو اس جدوجہد میں کوئی نقص تلاش کرنے سے قطعی عاجز ہے ۔ مگر اللہ تعالی کی نگاہ میں کمال کا جو بلند ترین معیار ہے اس کے لحاظ سے اس میں کچھ ایسی خامیاں تھیں جن کی وجہ سے مسلمانوں کو اتنی جلدی مشرکین عرب پر فیصلہ کن فتح حاصل نہ ہو سکتی تھی ۔ اللہ تعالی کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ ان خامیوں کے ساتھ اگر تم جدوجہد کرتے رہتے تو عرب کے مسخر ہونے میں ابھی عرصہ دراز درکار تھا ، مگر ہم نے ان ساری کمزوریوں اور کوتاہیوں سے درگزر کر کے محض اپنے فضل سے ان کی تلافی کر دی اور حدیبیہ کے مقام پر تمہارے لیے اس فتح و ظفر کا دروازہ کھول دیا جو معمول کے مطابق تمہاری اپنی کوششوں سے نصیب نہ ہو سکتی تھی ۔ اس مقام پر یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ کسی مقصد کے لیے ایک جماعت جو کوشش کر رہی ہو اس کی خامیوں کے لیے اس جماعت کے قائد و رہنما ہی کو مخاطب کیا جاتا ہے ۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ خامیاں قائد کی ذاتی خامیاں ہیں ۔ دراصل وہ اس جدوجہد کی کمزوریاں ہوتی ہیں جو پوری جماعت بحیثیت مجموعی کر رہی ہوتی ہے ۔ مگر خطاب قائد سے کیا جاتا ہے کہ آپ کے کام میں یہ کمزوریاں ہیں ۔ تاہم چونکہ روئے سخن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف ہے ، اور فرمایا یہ گیا ہے کہ اللہ نے آپ کی ہر اگلی پچھلی کوتاہی کو معاف فرما دیا ، اس لیے ان عام الفاظ سے یہ مضمون بھی نکل آیا کہ اللہ تعالی کے ہاں اس کے رسول پاک کی تمام لغزشیں ( جو آپ کے مقام بلند کے لحاظ سے لغزشیں تھیں ) بخش دی گئیں ۔ اسی بنا پر جب صحابہ کرام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو عبادت میں غیر معمولی مشقتیں اٹھاتے ہوئے دیکھتے تھے تو عرض کرتے تھے کہ آپ کے تو اب اگلے پچھلے قصور معاف ہو چکے ہیں ، پھر آپ اپنی جان پر اتنی سختی کیوں اٹھاتے ہیں؟ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جواب میں فرماتے تھے : افلا اکون عبداً شکوراً ۔ کیا میں ایک شکر گزار بندہ نہ بنوں ؟ ( احمد ، بخاری ، مسلم ، ابوداؤد ) ۔ سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :3 نعمت کی تکمیل سے مراد یہ ہے کہ مسلمان اپنی جگہ ہر خوف ، ہر مزاحمت اور ہر بیرونی مداخلت سے محفوظ ہو کر پوری طرح اسلامی تمدن و تہذیب اور اسلامی قوانین و احکام کے مطابق زندگی بسر کرنے کے لیے آزاد ہو جائیں ، اور ان کو یہ طاقت بھی نصیب ہو جائے کہ وہ دنیا میں اللہ کا کلمہ بلند کر سکیں ۔ کفر و فسق کا غلبہ ، جو بندگی رب کی راہ میں مانع اور اعلائے کلمۃ اللہ کی سعی میں مزاحم ہو ، اہل ایمان کے لیے سب سے بڑی مصیبت ہے جسے قرآن فتنہ قرار دیتا ہے ۔ اس فتنے سے خلاصی پاکر جب ان کو ایک ایسا دارالاسلام میسر آ جائے جس میں اللہ کا پورا دین نے کم و کاست نافذ ہو ، اور اس کے ساتھ ان کو ایسے ذرائع و وسائل بھی بہم پہنچ جائیں جن سے وہ خدا کی زمین پر کفر و فسق کی جگہ ایمان و تقوی کا سکہ رواں کر سکیں ، تو یہ ان پر اللہ کی نعمت کا اتمام ہے ۔ یہ نعمت چونکہ مسلمانوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہی کی بدولت حاصل ہوئی تھی ، اس لیے اللہ تعالی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ہم تم پر اپنی نعمت کی تکمیل کر دینا چاہتے تھے ، اس لیے یہ فتح ہم نے تم کو عطا کر دی ۔ سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :4 اس مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو سیدھا راستہ دکھانے کا مطلب آپ کو فتح و کامرانی کا راستہ دکھانا ہے دوسرے الفاظ میں اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی نے حدیبیہ کے مقام پر صلح کا یہ معاہدہ کرا کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وہ راہ ہموار کر دی اور وہ تدبیر آپ کو سجھا دی جس سے آپ اسلام کی مزاحمت کرنے والی تمام طاقتوں کو مغلوب کرلیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

2: جیسا کہ پیچھے سورۃ محمد کی آیت نمبر 19 کی تشریح میں عرض کیا گیا، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گناہوں سے معصوم تھے، اور آپ سے کوئی گناہ سرزد نہیں ہوسکتا تھا، لیکن کوئی معمولی قسم کی بھول چوک ہوجاتی تو آپ اس کو بھی اپنا قصور سمجھتے تھے، یہاں اسی قسم کے قصور مراد ہیں۔ 3: یعنی اب تک دین کی تبلیغ اور اس پر مکمل طور سے عمل کرنے میں کافروں کی طرف سے بڑی بڑی رکاوٹیں ڈالی جا رہی تھیں۔ اب اس فتح کے بعد سیدھا راستہ صاف ہوجائے گا۔