Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣] صلح حدیبیہ میں اللہ کے چار احسانات :۔ اس فتح مبین کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو چار چیزیں عطا فرمائیں۔ (١) سابقہ اور آئندہ لغزشوں کی معافی، (٢) اتمام نعمت، اتمام نعمت سے مراد یہ ہے کہ آئندہ اب مسلمانوں پر ہنگامی فضا مسلط نہ رہ سکے گی اور وہ اپنی جگہ ہر طرح کے خوف اور بیرونی مداخلت سے محفوظ و مامون رہ کر پوری طرح اسلامی تہذیب وتمدن اور اسلامی قوانین و احکام کے مطابق آزادانہ زندگی بسر کرسکیں گے اور اعلائے کلمۃ اللہ کا فریضہ بجا لاسکیں گے، (٣) اس مقام پر آپ کو سیدھا راستہ دکھانے کا مطلب آپ کو فتح و کامرانی کی راہ دکھانا ہے۔ یعنی اس فتح مبین کے نتیجہ میں اللہ نے آپ کے لئے وہ راہ ہموار کردی جس سے تمام اسلام دشمن طاقتیں مغلوب ہوتی جائیں اور (٤) (نَصْرًا عَزِیْزًا) سے مراد ایسی مدد ہے جو بظاہر دشمن کو اپنی فتح نظر آرہی ہے مگر حقیقت میں وہی اس کی جڑ کاٹ دینے والی اور مغلوب کرنے والی ہے۔- خ حدیبیہ میں پانی کی قلت اور آپ کے معجزات :۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر کچھ اور بھی احسان فرمائے۔ اسلامی لشکر یہاں بیس دن سے بھی زیادہ قیام پذیر رہا۔ اس دوران پانی کی شدید قلت واقع ہوگئی۔ چناچہ سیدنا جابر (رض) فرماتے ہیں کہ لوگ سخت پیاسے ہوگئے۔ رسول اللہ کے پاس ایک چھاگل تھی۔ آپ نے اس میں سے وضو کیا۔ لوگ آپ کے پاس آئے تو آپ نے انہیں پوچھا : کیا ماجرا ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا : یارسول اللہ ہمارے پاس نہ وضو کے لئے پانی ہے اور نہ پینے کے لئے۔ بس یہی پانی ہے جو آپ کی چھاگل میں ہے۔ یہ سن کر آپ نے اپنا ہاتھ اس چھاگل میں رکھ دیا۔ آپ کی انگلیوں سے پانی چشموں کی طرح بہنے لگا۔ چناچہ ہم سب لوگوں نے پانی پیا اور وضو بھی کیا سالم (راوی) نے جابر (رض) سے پوچھا : اس دن تم کتنے آدمی تھے ؟ جابر (رض) نے کہا کہ اگر لاکھ بھی ہوتے تو بھی وہ پانی ہمیں کفایت کرجاتا ہم تو صرف پندرہ سو آدمی تھے۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب غزوۃ الحدیبیۃ)- دوسرا واقعہ سیدنا براء بن عازب بیان کرتے ہیں کہ حدیبیہ میں رسول اللہ کے ہمراہ چودہ سو یا زیادہ آدمی تھے۔ ایک کنوئیں پر اترے اور اس کا سارا پانی کھینچ ڈالا۔ پھر آپ کے پاس آکر عرض کیا کہ پانی نہیں رہا۔ اب کیا کریں۔ آپ کنوئیں پر تشریف لا کر اس کی منڈیر پر بیٹھے اور فرمایا اس کے پانی کا ایک ڈول لاؤ۔ آپ نے اپنا لب اس میں ڈال دیا اور اللہ سے دعا کی۔ پھر فرمایا : ساعت بھر اس سے پانی نہ نکالنا۔ اس کے بعد اس کنوئیں کے پانی سے آدمیوں نے اپنے آپ کو اور سب جانوروں کو سیراب کرلیا۔ پھر وہاں سے چل کھڑے ہوئے۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب غزوۃ الحدیبیۃ)- خبارش کو سیاروں سے منسوب کرنے والا کافر ہے :۔ اس کے بعد اللہ کی رحمت سے بارش ہوگئی اور مسلمانوں نے پانی ذخیرہ بھی کرلیا۔ چناچہ زید بن خالد جہنی کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے حدیبیہ میں ہمیں صبح کی نماز پڑھائی اور رات کو بارش ہوچکی تھی۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : تم جانتے ہو کہ تمہارا پروردگار اللہ عزوجل کیا فرماتا ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا : اللہ اور اس کا رسول ہی خوب جانتا ہے۔ آپ نے فرمایا : کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آج صبح میرے کچھ بندے مومن ہوئے اور کچھ کافر۔ جس نے یہ کہا کہ یہ بارش اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہوئی۔ وہ میرا مومن ہے اور ستاروں کا منکر اور جس نے کہا کہ یہ بارش فلاں ستارے کے فلاں نچھتر میں داخل ہونے سے ہوئی اس نے میرے ساتھ کفر کیا اور ستاروں کا مومن ہے۔ (بخاری۔ کتاب الصلوٰۃ۔ باب یستقبل الامام الناس اذاسلم)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وینصرک اللہ نصراً عزیزاً : چوتھی اور آخری نعمت یہ ہے کہ ” نصر عزیز “ کا ذکر اپنے سب سے باعظمت نام ” اللہ “ کے ساتھ فرمایا، تاکہ اس کی اہمیت واضح ہو۔ یعنی اللہ تعالیٰ آپ کی ایسی مدد فرمائیگا جس سے آپ کو عزت و قوت اور غلبہ حاصل ہوگا اور آپ کے دشمن عاجز اور مغلوب ہوجائیں گے۔ یہاں مبالغے کے لئے ” عزیز “ کی نسبت ” نصر “ کی طرف فرمائی ہے، ورنہ عزیز تو اس کے نتیجے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہونا ہی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کہتے ہیں :” فلان نھارہ صائم ولیلہ قائم “ ” فلاں کا دن روزہ رکھنے والا اور رات قیام کرنے والی ہے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) وَّيَنْصُرَكَ اللّٰهُ نَــصْرًا عَزِيْزًا، یہ تیسری نعمت ہے جو اس فتح مبین پر مرتب ہوئی کہ حق تعالیٰ کی امداد و اعانت جو آپ کو ہمیشہ حاصل رہی ہے اس وقت اس مدد کا ایک بڑا درجہ آپ کو دیا گیا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَّيَنْصُرَكَ اللہُ نَــصْرًا عَزِيْزًا۝ ٣- نصر - النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ- [ الصف 13] وَما لَهُمْ فِي الْأَرْضِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ- [ التوبة 74] ، وَكَفى بِاللَّهِ وَلِيًّا وَكَفى بِاللَّهِ نَصِيراً- [ النساء 45] ، ما لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ [ التوبة 116]- ( ن ص ر ) النصر والنصر - کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی - إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی - عزیز - ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] - ( ع ز ز ) العزیز - العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ )

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣ وَّیَنْصُرَکَ اللّٰہُ نَصْرًا عَزِیْزًا ” اور اللہ آپ کی مدد کرے گا ‘ بہت زبردست مدد۔ “- اب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جدوجہد میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی مدد شامل ہوگی جسے کوئی شکست نہیں دے سکے گا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :5 دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تم کو بے مثل نصرت بخشے ۔ اصل میں لفظ نصراً عزیزاً استعمال ہوا ہے ۔ عزیز کے معنی زبردست کے بھی ہیں اور بے نظیر ، بے مثل اور نادر کے بھی ۔ پہلے معنی کے لحاظ سے اس فقرے کا مطلب یہ ہے کہ اس صلح کے ذریعہ سے اللہ نے آپ کی ایسی مدد کی ہے جس سے آپ کے دشمن عاجز ہو جائیں گے ۔ اور دوسرے معنی کے لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہے کہ شاذ و نادر ہی کبھی کسی کی مدد کا ایسا عجیب طریقہ اختیار کیا گیا ہے کہ بظاہر جو چیز لوگوں کو محض ایک صلح نامہ اور وہ بھی دب کر کیا ہوا صلح نامہ نظر آتی ہے ، وہی ایک فیصلہ کن فتح بن جانے والی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani