اطمینان و رحمت سکینہ کے معنی ہیں اطمینان رحمت اور وقار کے ۔ فرمان ہے کہ حدیبیہ والے دن جن باایمان صحابہ نے اللہ کی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات مان لی اللہ نے ان کے دلوں کو مطمئن کر دیا اور ان کے ایمان اور بڑھ گئے اس سے حضرت امام بخاری وغیرہ ائمہ کرام نے استدلال کیا ہے کہ دلوں میں ایمان بڑھتا ہے اور اسی طرح گھٹتا بھی ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ اللہ کے لشکروں کی کمی نہیں وہ اگر چاہتا تو خود ہی کفار کو ہلاک کر دیتا ۔ ایک فرشتے کو بھیج دیتا تو وہ ان سب کو برباد اور بےنشان کر دینے کے لئے بس تھا لیکن اس نے اپنی حکمت بالغہ سے ایمانداروں کو جہاد کا حکم دیا جس میں اس کی حجت بھی پوری ہو جائے اور دلیل بھی سامنے آجائے اس کا کوئی کام علم و حکمت سے خالی نہیں ہوتا ۔ اس میں ایک مصلحت یہ بھی ہے کہ ایمانداروں کو اپنی بہترین نعمتیں اس بہانے عطا فرمائے ۔ پہلے یہ روایت گذر چکی ہے کہ صحابہ نے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مبارک باد دی اور پوچھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لئے کیا ہے؟ تو اللہ عزوجل نے یہ آیت اتاری کہ مومن مرد و عورت جنتوں میں جائیں گے جہاں چپے چپے پر نہریں جاری ہیں اور جہاں وہ ابدالآباد تک رہیں گے اور اس لئے بھی کہ اللہ تعالیٰ ان کے گناہ اور ان کی برائیاں دور اور دفع کر دے انہیں ان کی برائیوں کی سزا نہ دے بلکہ معاف فرما دے درگذر کر دے بخش دے پردہ ڈال دے رحم کرے اور ان کی قدر دانی کرے دراصل یہی اصل کامیابی ہے جیسے کہ اللہ عزوجل نے فرمایا آیت ( فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ ۭ وَمَا الْحَيٰوةُ الدُّنْيَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ ١٨٥ ) 3-آل عمران:185 ) ، یعنی جو جہنم سے دور کر دیا گیا اور جنت میں پہنچا دیا گیا وہ مراد کو پہنچ گیا ۔ پھر ایک اور وجہ اور غایت بیان کی جاتی ہے کہ اس لئے بھی کہ نفاق اور شرک کرنے والے مرد و عورت جو اللہ تعالیٰ کے احکام میں بدظنی کرتے ہیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحاب رسول کے ساتھ برے خیال رکھتے ہیں یہ ہیں ہی کتنے؟ آج نہیں تو کل ان کا نام و نشان مٹا دیا جائے گا اس جنگ میں بچ گئے تو اور کسی لڑائی میں تباہ ہو جائیں گے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دراصل اس برائی کا دائرہ انہی پر ہے ان پر اللہ کا غضب ہے یہ رحمت الہی سے دور ہیں ان کی جگہ جہنم ہے اور وہ بدترین ٹھکانا ہے دوبارہ اپنی قوت ، قدرت اپنے اور اپنے بندوں کے دشمنوں سے انتقام لینے کی طاقت کو ظاہر فرماتا ہے کہ آسمانوں اور زمینوں کے لشکر سب اللہ ہی کے ہیں اور اللہ تعالیٰ عزیز و حکیم ہے ۔
4۔ 1 یعنی اس اضطراب کے بعد جو مسلمانوں کو شرائط صلح کی وجہ سے لاحق ہوا اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں سکینت نازل فرما دی جس سے ان کے دلوں کو اطمینان سکون اور ایمان مزید حاصل ہوا یہ آیت بھی اس بات کی دلیل ہے کہ ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے۔ 4۔ 2 یعنی اگر اللہ چاہے تو اپنے کسی لشکر (مثلًا فرشتوں) سے کفار کو ہلاک کروا دے، لیکن اس نے اپنی حکمت بالغہ کے تحت ایسا نہیں کیا اور اس کے بجائے مومنوں کو قتال و جہاد کا حکم دیا ہے۔
[٤] صلح حدیبیہ میں مسلمانوں کے جذبات کی دو انتہائیں :۔ حدیبیہ کے مقام پر مسلمانوں میں دو متضاد کیفیتیں پیدا ہوئیں اور دونوں ہی اپنی انتہا کو پہنچیں اور دونوں ہی اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کا نتیجہ تھیں۔ پہلے خون پر بیعت لی گئی جس سے مسلمانوں میں جنگ کے لئے اس قدر اشتعال پیدا ہوگیا کہ وہ کافروں کے مقابلہ میں سردھڑ کی بازی لگانے کے لئے تیار ہوگئے۔ اس کے بعد مسلمان دراصل صلح کے حق میں ہی نہ تھے چہ جائیکہ نہایت توہین آمیز شرائط پر صلح کے لئے آمادہ ہوں۔ ان باتوں پر سیدنا ابو جندل کا واقعہ مزید اشتعال دلانے والا تھا جس سے سب مسلمانوں کے دل بھر آئے تھے اور اگر ان کے اختیار میں ہوتا تو وہ تو یہ چاہتے تھے کہ اسی وقت کافروں کی تکا بوٹی کردیں۔ اور اس وقت انہیں یہ قدرت بھی حاصل تھی۔ مگر جب انہیں اللہ اور اس کے رسول نے ٹھنڈا کیا۔ تو یکدم ان کے جذبات ٹھنڈے ہوگئے۔ ہر مسلمان جب دوسرے سے یہ پوچھتا کہ آج ایسی توہین آمیز شرائط پر صلح کیوں کی جارہی ہے تو ہر ایک یہی جواب دے دیتا اللہ و رسولہ اعلم سیدنا عمر کی طبیعت کفار کے حق میں سب سے زیادہ جوشیلی تھی۔ انہوں نے کچھ اضطراب کا مظاہرہ ضرور کیا جیسا کہ مذکور دو احادیث سے واضح ہے۔ مگر وہ بھی نافرمانی کی حد کو نہ پہنچا اور سیدنا عمر کو اس بات کا عمر بھر افسوس بھی رہا۔ اللہ تعالیٰ یہ فرماتے ہیں کہ اس وقت مسلمانوں کے جوش کو ٹھنڈا کرنے کے لئے سکون نازل کیا گیا وہ اللہ کی طرف سے تھا۔ ورنہ عین ممکن تھا کہ حالات کچھ اور رخ اختیار کر جاتے۔ اگر کافروں کو کچلنا ہی مقصود ہوتا تو اللہ کے پاس مدد کے اور بھی کئی طریقے اور اسباب موجود تھے۔ البتہ ان دونوں انتہاؤں میں مسلمانوں کی آزمائش ہوگئی کہ وہ کس حد تک اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے تابع رہتے ہیں۔ پھر جب وہ اس آزمائش میں پورے اترے تو یہی بات ان کے ایمان میں مزید اضافہ کا سبب بن گئی اور اللہ نے اپنے رسول پر بھی احسان فرمایا اور مسلمانوں پر بھی۔
(١) ھو الذی انزل الکسینۃ فی قلوب المومنین :” الکسینۃ “ سے مراد وہ سکون و اطمینان اور ثبات قلب ہے جس کا اتارنا اللہ تعالیٰ نے مدینہ سے نکلنے سے لے کر اس فتح مبین کے حصول تک مومنوں کے دلوں پر مسلسل جاری رکھا اور جو اس فتح کا اہم سبب بنا، ورنہ اگر مسلمان مدینہ سے عمرہ کے لئے نکلتے وقت منافقین کی طرح سوچنے لگتے کہ یہ تو صریحاً موت کے منہ میں جانا ہے، یا راستے میں جب اطلاع ملی کہ قریش لڑنے مرنے پر تلے ہوئے ہیں تو ہمت ہار جاتے، یا حدیبیہ میں پہنچنے پر جس طرح کفار نے مسلمانوں کو مسجد حرام سے روکا اور چھاپے اور شب خون مار مار کر انہیں اشتعال دلانے کی کوشش کی ، پھر جب عثمان (رض) کی شہادت کی خبر پھیلی، ان میں سے کسی موقع پر اگر مسلمان اپنے آپ پر قابو نہ رکھتے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت پر قائم نہ رہتے تو یہ فتح مبین کبھی حال نہ ہوتی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ سکینت ہی تھی جس نے ہر موقع پر انہیں اطاعت پر ثابت قدم رکھا۔ پھر جب صلح کی وہ شرئاط ان کے سامنے آئیں جو مسلمانوں کو سخت ناپسند اور ان کے خیال میں ان اطاعت پر ثابت قدم رکھا۔ پھر جب صلح کی وہ شرائط ان کے سامنے آئیں جو مسلمانوں کو سخت ناپسند اور ان کے خیال میں ان کی ذلت کا باعث تھیں، خصوصاً ابوجندل (رض) مظلومیت کی تصویر بنے ہوئے مجمع عام میں آکھڑے ہوئے، اس موقع پر اس سکینت ہی کی برکت تھی کہ سب نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلے پر سر تسلیم خم کردیا۔- (٢) لیزدادوآ ایمانا مع ایمانھم : یعنی ایمان انہیں پہلے بھی حاصل تھا مگر ان تمام آزماشوں میں ثابت قدم رہنے کی وجہ سے ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور جب اس ثابت قدمی کے خوش گوار نتائج سامنے آئے تو ان کا ایمان مزید بڑھ گیا۔ یہ آیت بھی ان بہت سی آیات و احادیث میں سے ایک ہے جو ایمان میں زیادتی اور کمی کی دلیل ہیں۔ امام بخاری نے متعدد آیات و احادیث کے ساتھ اس مسئلے کو مدلل ذکر فرمایا ہے۔ روح المعانی میں ہے :” بخاری نے فرمایا، میں بہت سے شہروں میں ایک ہزار سے زائد علماء سے ملا، میں نے ان میں سے ایک شخص بھی نہیں دیکھا جو اس بات سے اختلاف کرتا ہوا کہ ایمان قول اور عمل ہے اور اس میں زیادتی اور کمی ہوتی ہے اور انہوں نے اس کی عقلی اور نقلی دلیلیں بیان کی ہیں۔ عقلی دلیلیں تو یہ ہے کہ ایمان کی حقیقت میں تفاوت نہ ہو تو امت کے عام آدمیوں کا ایمان، جو فسق و فجور میں منہمک رہتے ہیں، انبیاء کے ایمان کے برابر ہوگا اور یہ لازم باطل ہے ، سو ملزوم بھی ایسا ہی ہے اور نقلی دلیل یہ کہ اس مفہوم کی آیات و احادیث بہت زیادہ ہیں جن میں سے ایک یہ آیت ہے جو زیر تفسیر ہے۔ “ (ملحضاً ) یہ بھی معلوم ہوا کہ ایمان میں زیادتی کا مطلب اعمال کے لحاظ سے زیادتی ہی نہیں بلکہ دل کی تصدیق اور اس کے یقین میں بھی زیادتی اور کمی ہوتی ہے۔ کبھی یقین کا یہ حال ہوتا ہے کہ آدمی اپنی جان، مال اور ہر چیز اللہ کی راہ میں لٹانے پر تیار ہوجاتا ہے اور بھی اس یقین میں ایسی کمی ہوتی ہے کہ اسلام قبول کرتے وقت ایمان کا جو سرمایہ اسے حاصل ہوا تھا وہ بھی خطرے میں پڑجاتا ہے۔ تعجب اور افسوس ہے ان بڑے بڑے شیوخ الحدیث پر جو اتنی صریح آیات و احادیث کے باوجود یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ ایمان میں زیادتی اور کمی ہوتی ہے، ان کے علمک ا کمال یہی ہے کہ وہ تاویل کے ذریعے سے ثابت کردیتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کا ایمان برابر ہے۔ وجہ صرف یہ ہے کہ ان کے دھڑے کے کسی بزرگ نے کہہ دیا ہے کہ ایمان میں نہ زیاتدی ہوتی ہے نہ کمی۔- (٣) وللہ جنود السموت ولارض : یعنی آپ کو ظاہر اسباب کی کمی کے باوجود یہ فتح مبین آپ کی جدوجہد یا ذاتی کمال کی وجہ سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی مدد کی بدولت حاصل ہوئی، کیونکہ وہی آسمانوں کے اور زمین کے بیشمار لشکروں کا مالک ہے۔ جس کی چاہتا ہے جس لشکر کے ساتھ چاہتا ہے مدد کردیتا ہے۔ آسمانوں کے لشکروں کی مثال بدر میں نازل ہونے والے فرشتے، احزاب میں آنے والی آندھی اور بدر میں اترنے والی بارش ہیں اور زمین کے لشکروں کی مثال فتح مکہ کے موقع پر آنے والے دس ہزار مجاہدین کا عظیم الشان لشکر ہے۔” للہ “ کو پہلے لانے سے حصر پیدا ہوا، جس کا مطلب ہوا کہ اللہ تعالیٰ مانتا ہی نہیں کہ آسمانوں اور زمین میں اس کے علاوہ بھی کسی کے پاس کوئی لشکر ہے، کیونکہ اس کیس امنے کسی کی کوئی حیثیت نہیں۔- (٤) وکان اللہ علیماً حکیماً : یعنی اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کے لشکروں کا اکیلا مالک ہے اور لشکر بھی ایسے کہ ان میں سے کسی لشکر کا ایک فرد اگر اللہ کا حکم ہو تو تمام کافر کو نیست و نابود کر دے، مگر اس نے یہ فتح مبین اور نصر عزیز صلح کی صورت میں عطا فرمائی کیونکہ اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔ اس کے علم میں یہ بات تھی اور اس کی حکمت کا تقاضا تھا کہ اب کفار کو تلوار کی مار کے بجائے اسلام اور مسلمانوں کو سمجھنے اور ان کی دعوت سننے کا موقع دیا جائے، تاکہ کافر مسلمان ہوجائیں اور دشمن دوست بن ذجائیں۔ واضح رہے، یہاں ” علیماً حکیماً “ فرمایا ہے : جبکہ آگے جہاں کفار و منافقین کیلئے عذاب اور لعنت کا ذکر فرمایا ہے وہاں ” عزیز اً حکیماً “ فرمایا ہے، کیونکہ عذاب کے ذکر کے مناسب صفت علم کے بجائے صفت عزیز ہے۔
خلاصہ تفسیر - وہ خدا ایسا ہے جس نے مسلمانوں کے دلوں میں تحمل پیدا کیا (جس کے دو اثر ہیں ایک بیعت جہاد کے وقت اس کی طرف مسابقت اور عزم و ہمت جیسا کہ بیعت رضوان کے واقعہ میں اوپر ذکر آ چکا ہے اور دوسرا اثر کفار کی بےجا ضد کے وقت اپنے جوش اور غیظ و غضب کو قابو میں رکھنا جس کا ذکر اس واقعہ کے جزو دہم میں تفصیل کے ساتھ آ چکا ہے اور آگے بھی (آیت) فانزل اللہ سکینتہ علیٰ رسولہ میں آئے گا) تاکہ ان کے پہلے ایمان کے ساتھ ان کا ایمان اور زیادہ ہو (کیونکہ دراصل اطاعت رسول ذریعہ ہے نور ایمان میں زیادتی کا اور اس واقعہ میں ہر پہلو سے مکمل اطاعت رسول کا امتحان ہوگیا کہ جب رسول نے دعوت جہاد کے لئے بلایا اور بیعت لی تو بڑی خوش دلی اور مسابقت کے ساتھ سب نے بیعت کی اور جہاد کے لئے تیار ہوگئے اور جب حکمت و مصلحت کے پیش نظر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قتال سے روکا اور سب صحابہ جوش جہاد میں قتال کے لئے بےقرار تھے مگر اطاعت رسول میں سر تسلیم خم کردیا اور قتال سے باز رہے) اور آسمان و زمین کے سب لشکر ( جیسے ملائکہ اور سب مخلوقات) اللہ ہی کے (لشکر) ہیں (اس لئے کفار کی شکست اور دین اسلام کی سربلندی کے لئے اللہ تعالیٰ تمہارے قتال و جہاد کا محتاج نہیں وہ اگر چاہیں تو اپنے فرشتوں کے لشکر بھیج دیں جیسا کہ بدر، احزاب، حنین کے غزوات میں اس کا مشاہدہ ہوچکا اور یہ لشکر بھیجنا بھی مسلمانوں کی ہمت بڑھانے کے لئے ہے ورنہ ایک فرشتہ بھی سب کیلئے کافی ہے اس لئے تم لوگوں کو نہ تو کفار کی کثرت دیکھ کر جہاد و قتال میں کوئی تردد ہونا چاہئے اور نہ جس وقت اللہ و رسول کا حکم ترک قتال کا ہو اس وقت ترک قتال میں بھی کوئی تردد ہونا چاہئے کہ افسوس صلح ہوگئی اور کفار بچ گئے ان کو سزا نہ ہوئی اور قتال یا ترک قتال کے نتائج کو اللہ تعالیٰ ہی زیادہ جانتا ہے کیونکہ) اللہ تعالیٰ (مصلحتوں کا) بڑا جاننے والا حکمت والا ہے (جب قتال میں حکمت ہوتی ہے اس کا حکم دیتا ہے اور جب ترک قتال میں مصلحت ہوتی ہے اس کا حکم فرماتا ہے اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ دونوں حالتوں میں اپنے جذبات کو امر رسول کے تابع رکھیں جو سبب ہے زیادت ایمان کا آگے زیادتی ایمان کے ثمرہ کا بیان ہے یعنی) تاکہ اللہ تعالیٰ ( اس اطاعت کی بدولت) مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کو ایسی بہشتوں میں داخل کرے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اور تاکہ (اس اطاعت کی بدولت) ان کے گناہ دور کر دے (کیونکہ اطاعت رسول میں گناہوں سے توبہ اور اعمال صالحہ سب داخل ہیں جو تمام سئیات اور گناہوں کا کفارہ ہوتے ہیں) اور یہ (جو کچھ مذکور ہوا) اللہ کے نزدیک بڑی کامیابی ہے ( اس آیت میں اول قلوب مومنین پر سکینت اور تحمل نازل کرنے کا انعام ذکر فرمایا پھر یہ انعام ایمان کی زیادتی کا بذریعہ اطاعت رسول سبب بنا اور اطاعت رسول دخول جنت کا سبب بنی اس لئے یہ سب امور مومنین کے قلوب میں نزول سکینت پر مرتب ہوئے، آگے اسی سکینت پر مرتب کر کے منافقین کی اس سے محرومی) اور (اس محرومی کے سبب سے گرفتار عذاب ہونا بیان فرماتے ہیں یعنی یہ سکینت مسلمانوں کے قلوب پر نازل فرمائی اور کفار کے قلوب پر نہیں فرمائی) تاکہ اللہ تعالیٰ منافق مردوں اور منافق عورتوں کو اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو (بوجہ ان کے کفر کے) عذاب دے جو کہ اللہ کے ساتھ برے برے گمان رکھتے ہیں (اس برے گمان سے مراد باعتبار سیاق کلام کے ان لوگوں کا گمان ہے جن کو عمرہ کے لئے حدیبیہ کے سفر کی دعوت دی گئی اور انہوں نے انکار کردیا اور باہم یہ کہا کہ یہ لوگ اہل مکہ سے ہمیں لڑانا چاہتے ہیں ان کو جانے دو یہ ان کے ہاتھ سے بچ کر نہیں آویں گے ایسا کہنے والے لوگ منافقین ہی ہو سکتے ہیں اور اپنے مفہوم عام کے اعتبار سے سارے عقائد کفریہ شرکیہ اسی گمان بد میں داخل ہیں ان سب کے لئے وعید ہے کہ دنیا میں) ان پر برا وقت پڑنے والا ہے (چنانچہ چند ہی روز کے بعد مقتول اور محبوس ہوئے اور منافقین کی تمام عمر حسرت و پریشانی میں کٹی کہ اسلام بڑھتا تھا اور وہ گھٹتے جاتے تھے یہ تو دنیا میں ہوا) اور (آخرت میں) اللہ تعالیٰ ان پر غضبناک ہوگا اور ان کو رحمت سے دور کر دے گا اور ان کے لئے اس نے دوزخ تیار کر رکھی ہے اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے اور (آگے اس و عید کی تاکید ہے کہ) آسمان اور زمین کے سب لشکر اللہ ہی کے ہیں اور اللہ تعالیٰ زبردست (یعنی پوری قدرت والا ہے اگر چاہتا اپنے کسی بھی لشکر سے ان سب کی ایک دم صفائی کردیتا کہ یہ اس کے مستحق ہیں لیکن چونکہ وہ) حکمت والا ہے (اس لئے بمصلحت سزا میں مہلت دیتا ہے)- معارف و مسائل - شروع سورت کی تین آیتوں میں ان خاص انعامات کا ذکر ہے جو اس فتح مبین رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر مبذول ہوئے۔ بعض صحابہ جو سفر حدیبیہ میں ساتھ تھے انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ یہ انعامات تو آپ کے لئے ہیں اللہ آپ کو مبارک فرمائے ہمارے لئے کیا ہے اس پر یہ آیات نازل ہوئیں ان میں اصالتہ حاضرین حدیبیہ اور بیعت رضوان پر اللہ تعالیٰ کے انعامات کا ذکر ہے اور چونکہ وہ انعامات ایمان اور اطاعت رسول کے سبب ملے اس حیثیت سے سب مومنین کو بھی شامل ہے کہ جو بھی ایمان اور اطاعت میں کامل ہوگا وہ ان انعامات کا مستحق ہوگا۔
ہُوَالَّذِيْٓ اَنْزَلَ السَّكِيْنَۃَ فِيْ قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِيْنَ لِيَزْدَادُوْٓا اِيْمَانًا مَّعَ اِيْمَانِہِمْ ٠ ۭ وَلِلہِ جُنُوْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ٠ ۭ وَكَانَ اللہُ عَلِــيْمًا حَكِـيْمًا ٤ ۙ- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - سَّكِينَةَ- والسَّكْنُ :- سُكَّانُ الدّار، نحو سفر في جمع سافر، وقیل في جمع ساکن : سُكَّانٌ ، وسكّان السّفينة : ما يسكّن به، والسِّكِّينُ سمّي لإزالته حركة المذبوح، وقوله تعالی: أَنْزَلَ السَّكِينَةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 4] ، فقد قيل : هو ملك يُسَكِّنُ قلب المؤمن ويؤمّنه كما روي أنّ أمير المؤمنین عليه السلام قال : (إنّ السَّكِينَةَ لتنطق علی لسان عمر) وقیل : هو العقل، وقیل له سكينة إذا سكّن عن المیل إلى الشّهوات، وعلی ذلک دلّ قوله تعالی: وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُمْ بِذِكْرِ اللَّهِ [ الرعد 28] . وقیل : السَّكِينَةُ والسَّكَنُ واحد، وهو زوال الرّعب، وعلی هذا قوله تعالی: أَنْ يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ فِيهِ سَكِينَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ [ البقرة 248] ، وما ذکر أنّه شيء رأسه كرأس الهرّ فما أراه قولا يصحّ والْمِسْكِينُ قيل : هو الذي لا شيء له، وهو أبلغ من الفقیر، وقوله تعالی: أَمَّا السَّفِينَةُ فَكانَتْ لِمَساكِينَ [ الكهف 79] ، فإنه جعلهم مساکين بعد ذهاب السّفينة، أو لأنّ سفینتهم غير معتدّ بها في جنب ما کان لهم من المسکنة، وقوله : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة 61] ، فالمیم في ذلک زائدة في أصحّ القولین .- السکین ( چھری ) کو سکیں اس لئے کہا جاتا ہے ( وہ مذبوح کی حرکت کو زائل کردیتی ہے ) تو یہ سکون سے فعیل کے وزن پر اسم مشتق ہے ) اور آیت : أَنْزَلَ السَّكِينَةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 4] ( وہی تو ہے ) جس نے مومنوں کے دلوں پر تسلی نازل فرمائی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ سکینۃ سے مراد وہ فرشتے ہیں جو مومن کے دل کو تسکین دیتے ہیں ۔ جیسا کہ امیر المومنین ( حضرت علی (رض) ) سے راویت ہے (إن السکينة لتنطق علی لسان عمر) حضرت عمر (رض) کی زبا ن پر سکینۃ گویا ہے اور بعض نے اس سے عقل انسانی مراد لی ہے اور عقل کو بھی جب کہ وہ شہوات کی طرف مائل ہونے سے روک دے سکینۃ کہا جاتا ہے اور آیت : ۔ وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُمْ بِذِكْرِ اللَّهِ [ الرعد 28] اور جن کے دل یاد خدا سے آرام پاتے ہیں ۔ بھی اس معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ سکینۃ اور سکن کے ایک ہی معنی ہیں یعنی رعب اور خوف کا زائل ہونا اور آیت : ۔ أَنْ يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ فِيهِ سَكِينَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ [ البقرة 248] کہ تمہارے پاس ایک صندوق آئیگا اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے تسلی ہوگی ۔ میں بھی یہی معنی مراد ہیں اور بعض مفسرین نے جو یہ ذکر کیا ہے کہ وہ چیز تھی جس کا سر بلی کے سر کے مشابہ تھا وغیرہ تو ہمارے نزدیک یہ قول صحیح نہیں ہے ۔ المسکین بعض نے اس کی تفسیر الذي لا شيء له ( یعنی جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو ) کے ساتھ کی ہے اور یہ فقر سے ابلغ ہے ( یعنی بنسبت فقیر کے زیادہ نادار ہوتا ہے ) لیکن آیت : أَمَّا السَّفِينَةُ فَكانَتْ لِمَساكِينَ [ الكهف 79] اور کشتی غریب لوگوں کی تھی ۔ میں باوجود کشتی کا مالک ہونے کے انہیں مسکین قرار دینا ما یؤول کے لحاظ سے ہے یعنی کشتی کے چلے جانے کے بعد کی حالت کے لحاظ سے انہیں مسکین کہا گیا ہے ۔ یا اس لئے کہ ان کی احتیاج اور مسکنت کے مقابلہ میں کشتی کی کچھ بھی حیثیت نہ تھی ۔ اور آیت : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة 61] اور آخر کار ذلت و رسوائی اور محتاجی ( و بےنوائی ) ان سے چمٹا دی گئی ۔ میں اصح قول کے لحاظ سے مسکنۃ کی میم زائد ہے ( اور یہ سکون سے ہے ۔ )- قلب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] .- ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ - أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] .- وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - زاد - الزِّيادَةُ : أن ينضمّ إلى ما عليه الشیء في نفسه شيء آخر، يقال : زِدْتُهُ فَازْدَادَ ، وقوله وَنَزْداد كَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف 65] - ( زی د ) الزیادۃ - اس اضافہ کو کہتے ہیں جو کسی چیز کے پورا کرنے کے بعد بڑھا جائے چناچہ کہاجاتا ہے ۔ زدتہ میں نے اسے بڑھا یا چناچہ وہ بڑھ گیا اور آیت :۔ وَنَزْدادُكَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف 65] اور ( اس کے حصہ کا ) ایک بار شتر غلہ اور لیں گے ۔ - جند - يقال للعسکر الجُنْد اعتبارا بالغلظة، من الجند، أي : الأرض الغلیظة التي فيها حجارة ثم يقال لكلّ مجتمع جند، نحو : «الأرواح جُنُودٌ مُجَنَّدَة» «2» . قال تعالی: إِنَّ جُنْدَنا لَهُمُ الْغالِبُونَ [ الصافات 173] - ( ج ن د ) الجند - کے اصل معنی سنگستان کے ہیں معنی غفلت اور شدت کے اعتبار سے لشکر کو جند کہا جانے لگا ہے ۔ اور مجازا ہر گروہ اور جماعت پر جند پر لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے ( حدیث میں ہے ) کہ ارواح کئ بھی گروہ اور جماعتیں ہیں قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ جُنْدَنا لَهُمُ الْغالِبُونَ [ الصافات 173] اور ہمارا لشکر غالب رہے گا ۔- سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه،- قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا - حكيم - والحِكْمَةُ : إصابة الحق بالعلم والعقل، فالحکمة من اللہ تعالی:- معرفة الأشياء وإيجادها علی غاية الإحكام، ومن الإنسان : معرفة الموجودات وفعل الخیرات . وهذا هو الذي وصف به لقمان في قوله عزّ وجلّ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان 12] ، ونبّه علی جملتها بما وصفه بها، فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم «2» ، فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس 1] - ( ح ک م ) الحکمتہ - کے معنی علم وعقل کے ذریعہ حق بات دریافت کرلینے کے ہیں ۔ لہذا حکمت الہی کے معنی اشیاء کی معرفت اور پھر نہایت احکام کے ساتھ انکو موجود کرتا ہیں اور انسانی حکمت موجودات کی معرفت اور اچھے کو موں کو سرانجام دینے کا نام ہے چناچہ آیت کریمہ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان 12] اور ہم نے لقمان کو دانائی بخشی ۔ میں حکمت کے یہی معنی مراد ہیں جو کہ حضرت لقمان کو عطا کی گئی تھی ۔ لهذا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟
وہ اللہ ایسا ہے جس نے حدیبیہ کے دن سچے مومنوں کے دلوں میں تحمل پیدا کیا تاکہ ان کے سابقہ ایمان باللہ و بالرسول کے ساتھ ان کی تصدیق یقین اور علم میں زیادتی پیدا ہو فرشتے اور مومن سب اللہ ہی کے لشکر ہیں اور وہ اپنے دشمنوں میں سے جس پر چاہے ان کو مسلط کردے اور حق تعالیٰ فتح و مغفرت ہدایت و نصرت اور انزال سکینہ وغیرہ کو خوب جاننے والا اور ان تمام امور میں حکمت والا ہے۔
آیت ٤ ہُوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ فِیْ قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِیْنَ لِیَزْدَادُوْٓا اِیْمَانًا مَّعَ اِیْمَانِہِمْ ” وہی ہے جس نے اہل ایمان کے دلوں میں سکینت نازل کردی تاکہ وہ اضافہ کرلیں اپنے ایمان میں مزید ایمان کا۔ “- یہ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ سکینت اور طمانیت ہی تھی جس کے باعث صحابہ کرام (رض) اپنی جانیں قربان کردینے کے فیصلے پر پورے سکون قلب کے ساتھ جازم رہے۔ پھر اسی سکینت کے سہارے صحابہ کرام (رض) اس کڑے امتحان سے بھی سر خرو ہو کر نکلے جو اس خاص موقع پر انہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کے حوالے سے درپیش تھا۔ اس موقع پر اصل صورت حال یہ تھی کہ صحابہ (رض) میں سے کوئی ایک فرد بھی صلح کے حق میں نہیں تھا ‘ لیکن اس کے باوجود اس دوران ان کے نظم و ضبط کا یہ عالم رہا کہ بغیر کسی ایک استثناء کے پوری جماعت نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم پر سر تسلیم خم کردیا۔- بادی النظر میں یہ کہنا ذرا عجیب لگتا ہے کہ ” صحابہ (رض) میں سے کوئی بھی صلح کے حق میں نہیں تھا “ لیکن تاریخی حقائق بہر حال ایسی ہی صورت حال کی گواہی دیتے ہیں۔ چناچہ سیرت کی کتابوں میں ایسی روایات موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ صلح نامہ پر دستخط ہوجانے کے بعد جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مسلمانو اب اٹھو ‘ احرام کھول دو اور یہیں پر قربانیاں کر دو ‘ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کہنے پر کوئی ایک مسلمان بھی نہ اٹھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا یہ حکم پھر دہرایا تو پھر بھی کوئی نہ اٹھا۔ حتیٰ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تیسری مرتبہ فرمایا کہ لوگو اٹھو احرام کھول دو اور قربانی کے جانور ذبح کر دو ‘ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تیسری مرتبہ فرمانے پر بھی کوئی تعمیل کے لیے نہ اٹھا۔ بلاشبہ صحابہ (رض) کا یہ ” توقف “ اضطراری کیفیت کے باعث تھا۔ ان کا خیال تھا کہ یہ ان کے لیے امتحان کی کوئی صورت ہے ‘ اس کے بعد شاید کوئی نیا حکم آجائے گا اور صورت حال بدل جائے گی۔ دراصل یہ صورت حال صحابہ (رض) کی سمجھ سے باہر تھی کہ جو احرام انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اقتدا میں عمرے کے لیے باندھے ہیں وہ عمرہ ادا کیے بغیر میدانِ حدیبیہ میں ہی کھول دیے جائیں۔ بہر حال حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تیسری مرتبہ حکم دینے پر بھی جب کوئی احرام کھولنے کے لیے نہ اٹھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دل گرفتہ ہو کر اپنے خیمے میں تشریف لے گئے۔ اُمّ المومنین حضرت اُمّ سلمہ (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھیں۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام صورت حال انہیں بتائی تو انہوں نے مشورہ دیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی زبان مبارک سے کچھ نہ فرمائیں ‘ بس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنا احرام کھول دیں اور قربانی کا جانور ذبح کردیں۔ چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احرام کھولنے اور جانور ذبح کرنے پر سب مسلمانوں نے احرام کھول دیے اور اپنے اپنے جانور ذبح کردیے۔ صحابہ (رض) کے مذکورہ رد عمل سے یہ حقیقت بہرحال عیاں ہوتی ہے کہ اس موقع پر وہ سب کے سب ” صلح “ کو خوش آمدید کہنے کے بجائے اپنی جانیں قربان کرنے کے لیے زیادہ ُ پر عزم تھے ۔- وَلِلّٰہِ جُنُوْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَکَانَ اللّٰہُ عَلِیْمًا حَکِیْمًا ” اور آسمانوں اور زمین کے تمام لشکر تو اللہ ہی کے ہیں۔ اور اللہ سب کچھ جاننے والا ‘ کمال حکمت والا ہے۔ “
سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :6 سکینت عربی زبان میں سکون و اطمینان اور ثبات قلب کو کہتے ہیں ، اور یہاں اللہ تعالی مومنوں کے دل میں اس کے نازل کیے جانے کو اس فتح کا ایک اہم سبب قرار دے رہا ہے جو حدیبیہ کے مقام پر اسلام اور مسلمانوں کو نصیب ہوئی ۔ اس وقت کے حالات پر تھوڑا سا غور کرنے سے یہ بات اچھی طرح معلوم ہو جاتی ہے کہ وہ کس قسم کی سکینت تھی جو اس پورے زمانے میں مسلمانوں کے دلوں میں اتاری گئی اور کیسے وہ اس فتح کا سبب بنی ۔ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے عمرے کے لیے مکہ معظمہ جانے کا ارادہ ظاہر فرمایا ، اگر مسلمان اس وقت خوف زدگی میں مبتلا ہو جاتے اور منافقین کی طرح یہ سوچنے لگتے کہ یہ تو صریحا موت کے منہ میں جانا ہے ، یا جب راستے میں یہ اطلاع ملی کہ کفار قریش لڑنے مرنے پر آمادہ ہو گئے ہیں ، اس وقت اگر مسلمان اس گھبراہٹ میں مبتلا ہو جاتے کہ ہم کسی جنگی ساز و سامان کے بغیر دشمن کا مقابلہ کیسے کر سکیں گے ، اور اس بنا پر ان کے اندر بھگدڑ مچ جاتی ، تو ظاہر ہے کہ وہ نتائج کبھی رو نما نہ ہوتے جو حدیبیہ میں رو نما ہوئے ۔ پھر جب حدیبیہ کے مقام پر کفار نے مسلمانوں کو آگے بڑھنے سے روکا ، اور جب انہوں نے چھاپے اور شبخون مار مار کر مسلمانوں کو اشتعال دلانے کی کوشش کی ، اور جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی اطلاع ملی ، اور جب ابو جندل رضی اللہ عنہ مظلومیت کی تصویر بنے ہوئے مجمع عام میں آ کھڑے ہوئے ، ان میں سےہر موقع ایسا تھا کہ اگر مسلمان اشتعال میں آ کر اس نظم ضبط کو توڑ ڈالتے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قائم کیا تھا تو سارا کام خراب ہو جاتا ۔ سب سے زیادہ یہ کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان شرائط پر صلح نامہ طے کرنے لگے جو مسلمانوں کی پوری جماعت کو سخت ناگوار تھیں ، اس وقت اگر وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرنے پر اتر آتے تو حدیبیہ کی فتح عظیم شکست عظیم میں تبدیل ہو جاتی ۔ اب یہ سراسر اللہ ہی کا فضل تھا کہ ان نازک گھڑیوں میں مسلمانوں کو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی پر ، دین حق کی صداقت پر اور اپنے مشن کے برحق ہونے پر کامل اطمینان نصیب ہوا ۔ اسی کی بنا پر انہوں نے ٹھنڈے دل سے یہ فیصلہ کیا کہ اللہ کی راہ میں جو کچھ بھی پیش آئے سب گوارا ہے ۔ اسی کی بنا پر وہ خوف ، گھبراہٹ ، اشتعال ، مایوسی ، ہر چیز سے محفوظ رہے ۔ اسی کی بدولت ان کے کیمپ میں پورا نظم و ضبط بر قرار رہا ۔ اور اسی کی وجہ سے انہوں نے شرائط صلح پر سخت کبیدہ خاطر ہونے کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے فیصلہ پر سر تسلم خم کر دیا ۔ یہی وہ سکینت تھی جو اللہ نے مومنوں کے دلوں میں اتاری تھی ، اور اسی کی یہ برکت تھی کہ عمرے کے لیے نکلنے کا خطرناک ترین اقدام بہترین کامیابی کا موجب بن گیا ۔ سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :7 یعنی ایک ایمان تو وہ تھا جو اس مہم سے پہلے ان کو حاصل تھا ، اور اس پر مزید ایمان انہیں اس وجہ سے حاصل ہوا کہ اس مہم کے سلسلے میں جتنی شدید آزمائشیں پیش آتی چلی گئیں ان میں سے ہر ایک میں وہ اخلاص ، تقوی اور اطاعت کی روش پر ثابت قدم رہے ۔ یہ آیت بھی منجملہ ان آیات کے ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان ایک جامد و ساکن حالت نہیں ہے ، بلکہ اس میں ترقی بھی ہوتی ہے اور تنزل بھی ۔ اسلام قبول کرنے کے بعد سے مرتے دم تک مومن کو زندگی میں قدم قدم پر ایسی آزمائشوں سے سابقہ پیش آتا رہتا ہے جن میں اس کے لیے یہ سوال فیصلہ طلب ہوتا ہے کہ آیا وہ اللہ کے دین کی پیروی میں اپنی جان ، مال ، جذبات ، خواہشات ، اوقات ، آسائشوں اور مفادات کی قربانی دینے کے لیے تیار ہے یا نہیں ۔ ایسی ہر آزمائش کے موقع پر اگر وہ قربانی کی راہ اختیار کر لے تو اس کے ایمان کو ترقی اور بالیدگی نصیب ہوتی ہے ، اور اگر منہ موڑ جائے تو اس کا ایمان ٹھٹھر کر رہ جاتا ہے ، یہاں تک کہ ایک وقت ایسا بھی آ جاتا ہے جب وہ ابتدائی سرمایہ ایمان بھی خطرے میں پڑ جاتا ہے جسے لیے ہوئے وہ دائرہ اسلام میں داخل ہوا تھا ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، تفسیر سورہ انفال ، حاشیہ 2 ، جلد چہارم ، الاحزاب ، حاشیہ 38 ) ۔ سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :8 مطلب یہ ہے کہ اللہ کے پاس تو ایسے لشکر ہیں جن سے وہ کفار کو جب چاہے تہس نہس کر دے ، مگر اس نے کچھ جان کر اور حکمت ہی کی بنا پر یہ ذمہ داری اہل ایمان پر ڈالی ہے کہ وہ کفار کے مقابلہ میں جد و جہد اور کشمکش کر کے اللہ کے دین کا بول بالا کریں ۔ اسی سے ان کے لیے درجات کی ترقی اور آخرت کی کامیابیوں کا دروازہ کھلتا ہے جیسا کہ آگے کی آیت بتا رہی ہے ۔
4: جیسا کہ سورت کے تعارف میں عرض کیا گیا، صحابہ کرام (رض) کفار کے خلاف بہت غم و غصے اور جوش کی حالت میں تھے، اور انہیں صلح کی شرائط ماننا بھی بہت بھاری معلوم ہورہا تھا، لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ کو اس وقت یہی منظور تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں سکینت اور اطمینان پیدا کردیا جس کے نتیجے میں انہوں نے اللہ تعالیٰ اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کے آگے سر جھکا دیا۔