Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

مجاہدین کی کامیاب واپسی جو اعراب لوگ جہاد سے جی چرا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ چھوڑ کر موت کے ڈر کے مارے گھر سے نہ نکلتے تھے اور جانتے تھے کہ کفر کی زبردست طاقت ہمیں چکنا چور کر دے گی اور جو اتنی بڑی جماعت سے ٹکر لینے گئے ہیں یہ تباہ ہو جائیں گے بال بچوں کو ترس جائیں گے اور وہیں کاٹ ڈالے جائیں گے جب انہوں نے دیکھا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مع اپنے پاکباز مجاہدین کی جماعت کے ہنسی خوشی واپس آرہے ہیں تو اپنے دل میں مسودے گانٹھنے لگے کہ اپنی مشیخت بنی رہے یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو پہلے ہی سے خبردار کر دیا کہ یہ بد باطن لوگ آکر اپنے ضمیر کے خلاف اپنی زبان کو حرکت دیں گے اور عذر پیش کریں گے کہ حضور بال بچوں اور کام کاج کی وجہ سے نکل نہ سکے ورنہ ہم تو ہر طرح تابع فرمان ہیں ہماری جان تک حاضر ہے اپنی مزید ایمان داری کے اظہار کے لئے یہ بھی کہہ دیں گے کہ حضرت آپ ہمارے لئے استغفار کیجئے ۔ تو آپ انہیں جواب دے دینا کہ تمہارا معاملہ سپرد اللہ ہے وہ دلوں کے بھید سے واقف ہے اگر وہ تمہیں نقصان پہنچائے تو کون ہے جو اسے دفع کر سکے ؟ اور اگر وہ تمہیں نفع دینا چاہے تو کون ہے جو اسے روک سکے ؟ تصنع اور بناوٹ سے تمہاری ایمانداری اور نفاق سے وہ بخوبی آگاہ ہے ایک ایک عمل سے وہ باخبر ہے اس پر کوئی چیز مخفی نہیں دراصل تمہارا پیچھے رہ جانا کسی عذر کے باعث نہ تھا بلکہ بطور نافرمانی کے ہی تھا ۔ صاف طور پر تمہارا نفاق اس کے باعث تھا تمہارے دل ایمان سے خالی ہیں اللہ پر بھروسہ نہیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں بھلائی کا یقین نہیں اس وجہ سے تمہاری جانیں تم پر گراں ہیں تم اپنی نسبت تو کیا بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت بھی یہی خیال کرتے تھے کہ یہ قتل کر دئیے جائیں گے ان کی بھوسی اڑا دی جائے گی ان میں سے ایک بھی نہ بچ سکے گا جو ان کی خبر تو لا کر دے ، ان بدخیالیوں نے تمہیں نامرد بنا رکھا تھا تم دراصل برباد شدہ لوگ ہو کہا گیا ہے کہ ( بورا ) لغت عمان ہے جو شخص اپنا عمل خالص نہ کرے اپنا عقیدہ مضبوط نہ بنا لے اسے اللہ تعالیٰ دوزخ کی آگ میں عذاب کرے گا گو دنیا میں وہ بہ خلاف اپنے باطن کے ظاہر کرتے رہے پھر اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے ملک اپنی شہنشاہی اور اپنے اختیارات کا بیان فرماتا ہے کہ مالک و متصرف وہی ہے بخشش اور عذاب پر قادر وہ ہے لیکن ہے غفور اور رحیم جو بھی اس کی طرف جھکے وہ اس کی طرف مائل ہو جاتا ہے اور جو اس کا در کھٹکٹھائے وہ اس کے لئے اپنا دروازہ کھول دیتا ہے خواہ کتنے ہی گناہ کئے ہوں جب توبہ کرے اللہ قبول فرما لیتا ہے اور گناہ بخش دیتا ہے بلکہ رحم اور مہربانی سے پیش آتا ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

11۔ 1 اس سے مدینے کے اطراف میں آباد قبیلے غفار مزینہ جہینہ اسلم اور وئل مراد ہیں جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خواب دیکھنے کے بعد جس کی تفصیل آگے آئے گی عمرے کے لیے مکہ جانے کی عام منادی کرا دی مذکورہ قبیلوں نے سوچا کہ موجودہ حالات تو مکہ جانے کے لیے ساز گار نہیں ہیں وہاں ابھی کافروں کا غلبہ ہے اور مسلمان کمزور ہیں نیز مسلمان عمرے کے لیے پورے طور پر ہتھیار بند ہو کر بھی نہیں جاسکتے اگر ایسے میں کافروں نے مسلمانوں کے ساتھ لڑنے کا فیصلہ کرلیا تو مسلمان خالی ہاتھ ان کا مقابلہ کس طرح کریں گے اس وقت مکہ جانے کا مطلب اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے چناچہ یہ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ عمرے کے لیے نہیں گئے اللہ تعالیٰ ان کی بابت فرما رہا ہے کہ یہ تجھ سے مشغو لیتوں کا عذر پیش کر کے طلب مغفرت کی التجائیں کریں گے۔ 11۔ 2 یعنی زبانوں پر تو یہ ہے کہ ہمارے پیچھے ہمارے گھروں کی اور بیوی بچوں کی نگرانی کرنے والا کوئی نہیں تھا اس لیے ہمیں خود ہی رکنا پڑا لیکن حقیقت میں ان کا پیچھے رہنا نفاق اور اندیشہ موت کی وجہ سے تھا 11۔ 3 یعنی اگر اللہ تمہارے مال ضائع کرنے اور تمہارے اہل کو ہلاک کرنے کا فیصلہ کرلے تو کیا تم سے کوئی اختیار رکھتا ہے کہ وہ اللہ کو ایسا نہ کرنے دے۔ 11۔ 4 یعنی تمہیں مدد پہنچانا اور تمہیں غنیمت سے نوازنا چاہے تو کوئی روک سکتا ہے یہ دراصل مذکورہ متخلفین پیچھے رہ جانے والوں کا رد ہے جنہوں نے یہ گمان کرلیا تھا کہ وہ اگر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نہیں گئے تو نقصان سے محفوظ اور منافع سے بہرہ ور ہوں گے حالانکہ نفع وضرر کا سارا اختیار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ 11۔ 5 یعنی تمہیں تمہارے عملوں کی پوری جزا دے گا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١١] منافق کن وجو کی بناء پر صلح حدیبیہ کے سفر میں ساتھ نہیں گئے تھے :۔ جب آپ نے عمرہ کا ارادہ کیا تو مدینہ اور آس پاس کی بستیوں میں اس کا باقاعدہ اعلان کرایا گیا تھا کہ جو شخص عمرہ کرنے کے لئے آپ کے ہمراہ جانا چاہتا ہو وہ مدینہ پہنچ جائے۔ مگر آس پاس کی بستیوں کے کچھ قبائل مثلاً غفار، مزنیہ، جہینہ، اسلم اور اشجع کے لوگوں نے آپ کے ہمراہ جانے سے گریز کیا یہ لوگ دراصل منافق تھے اور اپنے خیال میں کسی بھلے وقت کے منتظر رہنے والوں میں سے تھے، وہ سمجھتے تھے کہ قریش مکہ تو مکہ سے یہاں آکر مسلمانوں کے بہت سے افراد کو میدان احد میں قتل کر گئے تھے اب یہ مختصر سی جمعیت جو خود اپنے جانی دشمنوں کے گھر پہنچ رہی ہے وہ لوگ بھلا انہیں زندہ واپس آنے دیں گے۔ اسی خیال سے انہوں نے اس غزوہ سے عدم شمولیت میں ہی اپنی عافیت سمجھی تھی۔- [١٢] جب آپ حدیبیہ سے واپس مدینہ تشریف لا رہے تھے تو اس وقت یہ سورة نازل ہوئی اور اللہ نے آپ کو منافقوں کے خبث باطن اور آئندہ کردار سے بھی مطلع کردیا کہ یہ لوگ طرح طرح کے بہانے اور عذر پیش کریں گے کہ ہم فلاں مجبوری کی وجہ سے آپ کے ساتھ نہ جاسکے۔ لہذا آپ اللہ سے ہمارے لئے دعا فرمائیے کہ وہ ہمارا یہ قصور معاف فرمائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ان کا آپ کو استغفار کے لئے کہنا بھی ایک فریب ہے اور وہ آپ کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ انہیں آپ کے ساتھ نہ جانے کا واقعی بہت افسوس ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ نہ وہ اپنی اس حرکت کو اپنا قصور سمجھتے ہیں، نہ انہیں کچھ افسوس ہے اور نہ ہی وہ اپنے لئے دعائے استغفار کی ضرورت سمجھتے ہیں۔ یہ سب کچھ ان کا زبانی جمع خرچ ہے جس سے وہ آپ کو مطمئن رکھنا چاہتے ہیں۔- [١٣] یعنی اے منافقو تم نے اس غزوہ سے عدم شمولیت میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔ پھر اگر اللہ تعالیٰ تمہیں تمہارے گھروں میں موت سے دو چار کر دے یا اور کوئی مصیبت تم پر ڈال دے تو اس سے تمہیں کوئی بچا سکتا ہے یا تم خود اسے روک سکتے تھے ؟ یا مثلاً تم اس سفر پر رسول کے ساتھ چلے جاتے اور اللہ تمہارے اہل و عیال کو کوئی فائدہ پہنچانا چاہے یا اس سفر میں بھی فائدہ پہنچا دے تو کیا اسے کوئی روک سکتا ہے ؟

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) سیقول لک المخلقون من الاعراب : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب عمرہ کے لئے جانے کا ارادہ فرمایا تو مدینہ کے اردگرد کے اعراب کو ساتھ چلنے کے لئے کہا، تاکہ اہل مکہ مسلمانوں کی تعداد دیکھ کر انہیں عمرہ سے نہ روکیں، مگر ان میں سے اکثر لوگ جان بوجھ کر پیچھے رہ گئے۔ یہ لوگ اگرچہ منافق نہیں تھے مگر ابھی تک ایمان ان کے دلوں میں پوری طرح جاگزیں نہیں ہوا تھا۔ اس کی دلیل آگے آنے والی آیات (قل للملخفین من الاعراب…“ ہیں۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مظفر و منصور واپس روانہ ہوئے تو ان لوگوں نے اپنے دلوں میں عذر بہانے تیار کئے جو وہ آپ کی آمد پر آپ کے سامنے پیش کرنے والے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہلے ہی راستے میں ان کے بہانوں کی اطلاع دے دی جو وہ پیش کرنے والے تھے اور ان کے پیچھے رہنے کا حقیقی سبب بھی بتادیا۔ یہ قرآن مجید کے معجزات میں سے ہے کہ اس نے وہ بات پہلے ہی بتادی جو بعد میں ہونے والی تھی۔- (٢) ” المخلفون “ کا لفظی معنی ” پیچھے چھوڑ دیئے جانے والے “ ہے، جبکہ یہ لوگ جان بوجھ کر خود پیچھے رہے تھے، تو بظاہر ان کے لئے لفظ ” متحلفون “ (پیچھے رہنے والے) استعمال ہونا چاہیے تھا، مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے ” الملخفون “ کا لفظ استعمال فرمایا۔ یعنی ان کی بدنیتی اور شامت اعمال کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انہیں ساتھ جانے کی توفیق ہی نہیں دی، بلکہ انہیں پیچھے چھوڑ دیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آدمی کا نیک اعمال سے محروم رہنا اللہ تعالیٰ کے ناراض ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے کیونکہ وہ اس کے اعمال بد کی وجہ سے نیک اعمال کی توفیق سلب کرلیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جنگ تبوک کے مخلفین کے متعلق فرمایا :(ولو ارادوا الخروج لا عدوا لہ عدۃ ولکن کرہ اللہ ابعاثھم فثبطھم و قیل اقعدوا مع القعدین) (التوبۃ : ٣٦)” اور اگر وہ نکلنے کا ارادہ رکھتے تو اس کے لئے کچھ سامان ضرور تیار کرتے اور لیکن اللہ نے ان کا اٹھنا نپاسند کیا تو انہیں روک دیا اور کہہ دیا گیا کہ بیٹھنے والوں کے ساتھ بیٹھے رہو۔ “ مزید دیکھیے سورة توبہ (٨١) ۔- (٣) شغلتنا اموالنا واھلونا فاستغفرلنا : یعنی یہ اعراب کہیں گے کہ ہمارے مال مویشی اور بیوی بچے ہمارے آپ کے ساتھ چلنے کی راہ میں رکاوٹ بن گئے، کیونکہ ان یک دیکھ بھال اور حفاظت کرنے والا کوئی نہ تھا، اس لئے ہماری اس کوتاہی پر آپ ہمارے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کیجیے کہ وہ ہمیں معاف فرما دے۔- (٤) یقولون بالسنتھم مالیس فی قلوبھم : یعنی یہ لوگ تمہارے مدینہ پہنچنے پر اپنی زبانوں سے وہ باتیں کہیں گے جو ان کے دلوں میں نہیں ہیں۔ مال مویشیا ور الہ و عیال کی رکاوٹ ان کا جھوٹا بہانہ ہے۔ اسی طرح ان کا استغفار کے لئے کہنا محض بناوٹ ہے، ورنہ گناہ کا ایسا ہی احساس ہوتا تو ساتھ کیوں نہ جاتے۔ ان کے نہ جانے کا اصل سبب اللہ علام الغیوب نے اگلی آیت میں بیان فرمایا ہے۔- (٥) قل فمن یملک لکم من اللہ شیئاً …: یہ ان کی دونوں باتوں کا جواب ہے، فرمایا تم جو اپنے کہنے کے مطابق اپنے مال و اہل کی دیکھ بھال اور حفاظت کی وجہ سے ساتھ نہیں گئے، بتاؤ اگر اللہ تعالیٰ تمہیں کوئی نقصان پہنچانا چاہے اور تمہارے جہاد سے پیچھے رہنے پر گھر میں موجود ہونے کے باوجود تمہارے اموال اور گھر والوں کو تباہ و برباد کر دے تو تمہیں اس سے کون بچا سکتا ہے ؟ یا اگر وہ تمہیں کوئی فائدہ پہنچانا چاہے اور تمہارے جہاد پر جانے کے باوجود تمہارے اموال اور گھر والوں کی حافظت کرے اور ان میں برکت اور اضافہ فرما دے تو کون اسے روک سکتا ہے ؟ جب نفع و نقصان کو کوئی روک نہیں سکتا تو اللہ اور سا کے رسول کے حکم کے مقابلے میں ان چیزوں کی پروا کیوں کرتے ہو ؟ اور تم نے جو استغفار کے لئے کہا ہے، اگر تم فی الواقع اپنے کئے پر نادم ہو اور اللہ تعالیٰ تمہیں معاف کرنا چاہیے تو کون اسے روک سکتا ہے ؟ پھر اگر میں تمہارے لئے استغفار نہ بھی کروں تو تمہارا کچھ نقصان نہیں اور اگر تم نادم نہیں ہو، صرف بناوٹ کے طور پر استغفار کے لئے کہہ رہے ہو تو اس صورت میں اگر میں تمہارے لئے استغافر کر بھی دوں اور اللہ تعالیٰ تمہیں معاف نہ کرنا چاہیے، بلکہ سزا دینا چاہے تو کون اسے روک سکتا ہے ؟- (٦) بل کان اللہ بما تعملون خبیراً : یعنی بات وہ نہیں جو تم نے سمجھ رکھی ہے کہ ہم زبان سے جو کچھ کہہ دیں گے مان لیا جائے گا اور ہمارے دل کا حال چھپا رہے گا، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ صرف موجود وقت ہی میں نہیں بلکہ ہمیشہ سے ان تمام اعمال سے پورا باخبر ہے جو تم کرتے ہو۔ ہمیشگی کا مفہم ” کان “ ادا کر رہا ہے۔ مفسر طبری کے الفاظ ہیں :” بل لم یزل اللہ بما یعملون من خیر و شر خبیراً “” بلکہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ان کے تمام اچھے اور برے اعمال کی پوری خبر رکھنے والا رہا ہے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - جو دیہاتی (اس سفر حدیبیہ سے) پیچھے رہ گئے (شریک سفر نہیں ہوئے) وہ عنقریب (جب کہ آپ مدینہ پہنچیں گے) آپ سے (بات بنانے کے طور پر) کہیں گے کہ (ہم جو آپ کے ساتھ شریک نہیں ہوئے وجہ اس کی یہ ہوئی کہ) ہم کو ہمارے مال اور عیال نے فرصت نہ لینے دی (یعنی ان کی ضروریات میں مشغول رہے) تو ہمارے لئے (اس کوتاہی کی) معافی کی دعا کر دیجئے (آگے حق تعالیٰ ان کی تکذیب فرماتے ہیں کہ) یہ لوگ اپنی زبان سے وہ باتیں کہتے ہیں جو ان کے دل میں نہیں ہیں (آگے آپ کو تلقین ہے کہ یہ لوگ جب آپ سے یہ عذر پیش کریں تو) آپ کہہ دیجئے کہ (اول تو یہ عذرا گر سچا بھی ہوتا تو بمقابلہ اللہ و رسول کے حکم قطعی کے محض عذر لنگ اور باطل ہوتا) سو (ہم پوچھتے ہیں کہ) وہ کون ہے جو خدا کے سامنے تمہارے لئے (نفع و نقصان میں) کسی چیز کا اختیار رکھتا ہو اگر اللہ تعالیٰ تم کو کوئی نقصان یا کوئی نفع پہنچانا چاہے (یعنی تمہاری ذات یا تمہارے مال اور عیال میں جو نفع یا نقصان تقدیر الٰہی میں مقدر ہوچکا ہے اس کے خلاف کرنے کا کسی کو اختیار نہیں البتہ شریعت اسلام نے بہت سے مواقع پر اس طرح کے خطرات کا عذر قبول کر کے رخصت دے دی ہے بشرطیکہ وہ عذر واقعی ہو اور جہاں شریعت نے اس عذر کو قبول نہیں کیا اور رخصت نہیں دی بلکہ حکم قطعی کردیا جیسا کہ مسئلہ زیر بحث میں ہے کہ سفر حدیبیہ کے لئے اللہ و رسول نے گھر بار کے مشاغل کو قابل قبول عذر قرار نہیں دیا اگرچہ وہ واقعی ہو۔ دوسرے یہ عذر جو تم کر رہے ہو واقعی اور سچا بھی نہیں جیسا کہ آگے آتا ہے اور تم سمجھتے ہو گے کہ مجھ کو اس جھوٹ کی خبر نہیں ہوئی) بلکہ (حقیقت یہ ہے کہ) اللہ تعالیٰ ( نے جو کہ) تمہارے سب اعمال پر مطلع ہے (مجھ کو بذریعہ وحی اطلاع کردی ہے کہ تمہاری غیر حاضری کی وجہ وہ نہیں جو تم بیان کر رہے ہو) بلکہ (اصل وجہ یہ ہے کہ) تم نے یہ سمجھا کہ رسول اور مومنین اپنے گھر والوں میں کبھی لوٹ کر نہ آویں گے (بلکہ مشرکین سب کی صفائی کردیں گے) اور یہ بات تمہارے دلوں میں اچھی بھی معلوم ہوتی تھی (بوجہ اللہ و رسول کی عداوت کے تمہاری دلی تمنا بھی تھی) اور تم نے برے برے گمان کئے اور تم (ان برے گمانوں کی وجہ سے جو کہ خیالات کفریہ ہیں) برباد ہونے والے لوگ ہوگئے اور (اگر ان وعیدوں کو سن کر تم اب بھی دل سے ایمان لے آؤ تو خیر ورنہ) جو شخص اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان نہ لاوے گا تو ہم نے کافروں کے لئے دوزخ تیار کر رکھی ہے اور (مومن و غیر مومن کے لئے مذکورہ قانون مقرر کرنے سے تعجب نہ کیا جائے کیونکہ) تمام آسمان و زمین کی سلطنت اللہ ہی کی ہے وہ جس کو چاہے بخش دے اور جس کو چاہے سزا دے اور (کافر اگرچہ مستحق عذاب ہوتا ہے لیکن) اللہ تعالیٰ بڑا غفور و رحیم ہے (کہ وہ بھی سچے دل سے ایمان لے آویں تو ان کو بھی بخش دیتا ہے )- معارف و مسائل - یہ مضمون جو اوپر مذکور ہوا ان اعراب کے متعلق ہے جن کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سفر حدیبیہ میں ساتھ چلنے کا حکم کیا تھا مگر انہوں نے بہانہ بازی سے کام لیا جس کا بیان قصہ حدیبیہ کے جزو اول میں ہوچکا ہے۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں بعض حضرات بعد میں تائب اور مخلص ہوگئے تھے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

سَيَقُوْلُ لَكَ الْمُخَلَّفُوْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ شَغَلَتْنَآ اَمْوَالُنَا وَاَہْلُوْنَا فَاسْتَغْفِرْ لَنَا۝ ٠ ۚ يَقُوْلُوْنَ بِاَلْسِنَتِہِمْ مَّا لَيْسَ فِيْ قُلُوْبِہِمْ۝ ٠ ۭ قُلْ فَمَنْ يَّمْلِكُ لَكُمْ مِّنَ اللہِ شَـيْـــــًٔا اِنْ اَرَادَ بِكُمْ ضَرًّا اَوْ اَرَادَ بِكُمْ نَفْعًا۝ ٠ ۭ بَلْ كَانَ اللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرًا۝ ١١- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- خلف پیچھے رہنا - وخَلَّفْتُهُ : تركته خلفي، قال فَرِحَ الْمُخَلَّفُونَ بِمَقْعَدِهِمْ خِلافَ رَسُولِ اللَّهِ- [ التوبة 81] ، أي : مخالفین، وَعَلَى الثَّلاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا[ التوبة 118] ، قُلْ لِلْمُخَلَّفِينَ [ الفتح 16] ، والخالِفُ : المتأخّر لنقصان أو قصور کالمتخلف، قال : فَاقْعُدُوا مَعَ الْخالِفِينَ [ التوبة 83] ، والخَالِفةُ : عمود الخیمة المتأخّر، ويكنّى بها عن المرأة لتخلّفها عن المرتحلین، وجمعها خَوَالِف، قال : رَضُوا بِأَنْ يَكُونُوا مَعَ الْخَوالِفِ [ التوبة 87] ، ووجدت الحيّ خَلُوفاً ، أي : تخلّفت نساؤهم عن رجالهم، والخلف : حدّ الفأس الذي يكون إلى جهة الخلف، وما تخلّف من الأضلاع إلى ما يلي البطن، والخِلَافُ : شجر كأنّه سمّي بذلک لأنّه فيما يظنّ به، أو لأنّه يخلف مخبره منظره، ويقال للجمل بعد بزوله : مخلف عام، ومخلف عامین . وقال عمر رضي اللہ عنه : ( لولا الخِلِّيفَى لأذّنت) أي : الخلافة، وهو مصدر خلف .- قرآن میں ہے : ۔ فَرِحَ الْمُخَلَّفُونَ بِمَقْعَدِهِمْ خِلافَ رَسُولِ اللَّهِ [ التوبة 81] جو لوگ ( غزوہ تبوک ) میں پیچھے رہ گئے وہ پیغمبر خدا کی ( مرضی ) کے خلاف بیٹھ رہنے سے خوش ہوئے ۔ یعنی پیغمبر خدا کے مخالف ہوکر ۔ وَعَلَى الثَّلاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا[ التوبة 118] اور ان تینوں پر بھی جن کا معاملہ ملتوی کیا کیا تھا ۔ قُلْ لِلْمُخَلَّفِينَ [ الفتح 16] پیچھے رہ گئے تھے ان سے کہدو ۔ الخالف ۔ نقصان یا کوتاہی کی وجہ سے پیچھے رہنے ولا اور یہی متخلف کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَاقْعُدُوا مَعَ الْخالِفِينَ [ التوبة 83] پیچھے رہنے والوں کے ساتھ بیٹھے رہو ۔ الخالفۃ خیمے کا پچھلا ستون بطور کنا یہ اس سے مراد عورت لی جاتی ہے کیونکہ یہ مجاہدین سے پیچھے رہ جاتی ہیں ۔ اس کی جمع خوالف ہے قرآن میں ہے : ۔ رَضُوا بِأَنْ يَكُونُوا مَعَ الْخَوالِفِ [ التوبة 87] یہ اس بات سے خوش ہیں کہ عورتوں کے ساتھ جو پیچھے رہ جاتی ہیں ( گھروں میں ) بیٹھ رہیں ۔ یعنی مرد گئے ہوئے ہیں صرف عورتیں موجود ہیں ۔ الخلف ( ایضا ) کلہاڑی کی دھار ۔ پہلو کی سب سے چھوٹی پسلی جو پیٹ کے جانب سب سے آخری ہوتی ہے ۔ الخلاف بید کی قسم کا ایک درخت کیونکہ وہ امید کے خلاف اگتا ہے یا اس کا باطن ظاہر کے خلاف ہوتا ہے : نہ سالگی یک یا دو سال گذستہ باشد ۔ الخلیفی ۔ خلافت ۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ کا قول ہے اگر بار خلافت نہ ہوتا تو میں خود ہی اذان دیا کرتا ( اذان کی فضیلت کی طرف اشارہ ہے )- عرب ( اعرابي)- العَرَبُ : وُلْدُ إسماعیلَ ، والأَعْرَابُ جمعه في الأصل، وصار ذلک اسما لسكّان البادية .- قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا [ الحجرات 14] ، الْأَعْرابُ أَشَدُّ كُفْراً وَنِفاقاً [ التوبة 97] ، وَمِنَ الْأَعْرابِ مَنْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ [ التوبة 99] ، وقیل في جمع الأَعْرَابِ :- أَعَارِيبُ ، قال الشاعر : أَعَارِيبُ ذو و فخر بإفك ... وألسنة لطاف في المقال والأَعْرَابِيُّ في التّعارف صار اسما للمنسوبین إلى سكّان البادية، والعَرَبِيُّ : المفصح،- والإِعْرَابُ : البیانُ. يقال : أَعْرَبَ عن نفسه . وفي الحدیث : «الثّيّب تُعْرِبُ عن نفسها» أي : تبيّن . وإِعْرَابُ الکلامِ : إيضاح فصاحته، وخصّ الإِعْرَابُ في تعارف النّحويّين بالحرکات والسّکنات المتعاقبة علی أواخر الکلم،- ( ع ر ب ) العرب حضرت اسمعیل کی اولاد کو کہتے ہیں الاعراب دراصل یہ عرب کی جمع ہے مگر یہ لفظ بادیہ نشین لوگون کے ساتھ مختص ہوچکا ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا [ الحجرات 14] بادیہ نشین نے آکر کہا ہم ایمان لے آئے ۔ الْأَعْرابُ أَشَدُّ كُفْراً وَنِفاقاً [ التوبة 97] دیہاتی لوگ سخت کافر اور سخت منافق ہیں ۔ وَمِنَ الْأَعْرابِ مَنْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ [ التوبة 99] اور بعض نہ دیہاتی ایسے ہیں کہ خدا پر اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ اعراب کی جمع اعاریب آتی ہے کسی شاعر نے کہا ہے ( 3011 ) اعاریب ذو و فخر بافک والسنۃ لطاف فی المقابل اعرابی جو جھوٹے فخر کے مدعی ہیں اور گفتگو میں نرم زبان رکھتے ہیں ۔ - الاعرابی :- یہ اعراب کا مفرد ہے اور عرف میں بادیہ نشین پر بولا جاتا ہے العربی فصیح وضاحت سے بیان کرنے والا الاعراب کسی بات کو واضح کردینا ۔ اعرب عن نفسہ : اس نے بات کو وضاحت سے بیان کردیا حدیث میں ہے الثیب تعرب عن نفسھا : کہ شب اپنے دل کی بات صاف صاف بیان کرسکتی ہے ۔ اعراب الکلام کلام کی فصاحت کو واضح کرنا علمائے نحو کی اصطلاح میں اعراب کا لفظ ان حرکاتوسکنات پر بولا جاتا ہے جو کلموں کے آخر میں یکے بعد دیگرے ( حسب عوامل ) بدلتے رہتے ہیں ۔- شغل - الشَّغْلُ والشُّغْلُ : العارض الذي يذهل الإنسان . قال عزّ وجلّ : إِنَّ أَصْحابَ الْجَنَّةِ الْيَوْمَ فِي شُغُلٍ فاكِهُونَ [يس 55] ، وقرئ : وقد شُغِلَ فهو مَشْغُولٌ ، ولا يقال : أَشْغَلَ وشُغُلٌ شَاغِلٌ.- ( ش غ ل ) الشغل والشغل ۔ ا یسی مصروفیت جس کی وجہ سے انسان دوسرے کاموں کی طرف توجہ نہ دے سکے قرآن میں ہے َ فِي شُغُلٍ فاكِهُونَ [يس 55] عیش ونشاط کے مشغلے میں ہوں گے ۔ ایک قرات میں شغل ہے یہ شغل فھو مشغول ( باب مجرد ) سے آتا ہے اور اشغل استعمال نہیں ہوتا شغل شاغل مصروف رکھنے والا کام ۔- ميل - المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین،- والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا،- ( م ی ل ) المیل - اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں - اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ - أهل - أهل الرجل : من يجمعه وإياهم نسب أو دين، أو ما يجري مجراهما من صناعة وبیت وبلد، وأهل الرجل في الأصل : من يجمعه وإياهم مسکن واحد، ثم تجوّز به فقیل : أهل الرجل لمن يجمعه وإياهم نسب، وتعورف في أسرة النبيّ عليه الصلاة والسلام مطلقا إذا قيل :- أهل البیت لقوله عزّ وجلّ : إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ [ الأحزاب 33] - ( ا ھ ل ) اھل الرجل - ۔ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اس کے ہم نسب یا ہم دین ہوں اور یا کسی صنعت یامکان میں شریک ہوں یا ایک شہر میں رہتے ہوں اصل میں اھل الرجل تو وہ ہیں جو کسی کے ساتھ ایک مسکن میں رہتے ہوں پھر مجازا آدمی کے قریبی رشتہ داروں پر اہل بیت الرجل کا لفظ بولا جانے لگا ہے اور عرف میں اہل البیت کا لفظ خاص کر آنحضرت کے خاندان پر بولا جانے لگا ہے کیونکہ قرآن میں ہے :۔ إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ ( سورة الأحزاب 33) اسے پیغمبر گے اہل بیت خدا چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی ( کا میل کچیل ) دور کردے ۔- استغفار - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس،- والاسْتِغْفَارُ : طلب ذلک بالمقال والفعال، وقوله : اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح 10] - ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے - اور استغفار کے معنی قول اور عمل سے مغفرت طلب کرنے کے ہیں لہذا آیت کریمہ : ۔ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح 10] اپنے پروردگار سے معافی مانگو کہ بڑا معاف کر نیوالا ہے ۔ - لسن - اللِّسَانُ : الجارحة وقوّتها، وقوله : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي [ طه 27] يعني به من قوّة لسانه، فإنّ العقدة لم تکن في الجارحة، وإنما کانت في قوّته التي هي النّطق به، ويقال : لكلّ قوم لِسَانٌ ولِسِنٌ بکسر اللام، أي : لغة . قال تعالی: فَإِنَّما يَسَّرْناهُ بِلِسانِكَ [ الدخان 58] ، وقال : بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ [ الشعراء 195] ، وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ- [ الروم 22] فاختلاف الْأَلْسِنَةِ إشارة إلى اختلاف اللّغات، وإلى اختلاف النّغمات، فإنّ لكلّ إنسان نغمة مخصوصة يميّزها السّمع، كما أنّ له صورة مخصوصة يميّزها البصر .- ( ل س ن ) اللسان - ۔ زبان اور قوت گویائی کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي [ طه 27] اور میری زبان کی گرہ گھول دے ۔ یہاں لسان کے معنی قلت قوت گویائی کے ہیں کیونکہ وہ بندش ان کی زبان پر نہیں تھی بلکہ قوت گویائی سے عقدہ کشائی کا سوال تھا ۔ محاورہ ہے : یعنی ہر قوم را لغت دلہجہ جدا است ۔ قرآن میں ہے : فَإِنَّما يَسَّرْناهُ بِلِسانِكَ [ الدخان 58]( اے پیغمبر ) ہم نے یہ قرآن تمہاری زبان میں آسان نازل کیا ۔ بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ [ الشعراء 195] فصیح عربی زبان میں ۔ اور آیت کریمہ : وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم 22] اور تمہاری زبانوں اور نگوں کا اختلاف ۔ میں السنہ سے اصوات اور لہجوں کا اختلاف مراد ہے ۔ چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح دیکھنے میں ایک شخص کی صورت دوسرے سے نہیں ملتی اسی طرح قوت سامعہ ایک لہجہ کو دوسرے سے الگ کرلیتی ہے ۔- قلب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] .- ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ - ملك ( مالک)- فالمُلْك ضبط الشیء المتصرّف فيه بالحکم، والمِلْكُ کالجنس للمُلْكِ ، فكلّ مُلْك مِلْك، ولیس کلّ مِلْك مُلْكا . قال : قُلِ اللَّهُمَّ مالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشاءُ [ آل عمران 26] ، وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلا نُشُوراً [ الفرقان 3] ، وقال :- أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس 31] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا[ الأعراف 188] وفي غيرها من الآیات - ملک کے معنی زیر تصرف چیز پر بذیعہ حکم کنٹرول کرنے کے ہیں اور ملک بمنزلہ جنس کے ہیں لہذا ہر ملک کو ملک تو کہہ سکتے ہیں لیکن ہر ملک ملک نہیں کہہ سکتے قرآن میں ہے : ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلا نُشُوراً [ الفرقان 3] اور نہ نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں اور نہ مرنا ان کے اختیار میں ہے اور نہ جینا اور نہ مر کر اٹھ کھڑے ہونا ۔ اور فرمایا : ۔ أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس 31] یا تمہارے کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا[ الأعراف 188] کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ اختیار نہیں رکھتا علی بذلقیاس بہت سی آیات ہیں - شيء - الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم .- ( ش ی ء ) الشئی - بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ،- رود - والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17]- ( ر و د ) الرود - الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ - ضر - الضُّرُّ : سوءُ الحال، إمّا في نفسه لقلّة العلم والفضل والعفّة، وإمّا في بدنه لعدم جارحة ونقص، وإمّا في حالة ظاهرة من قلّة مال وجاه، وقوله : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء 84] ، فهو محتمل لثلاثتها،- ( ض ر ر) الضر - کے معنی بدحالی کے ہیں خواہ اس کا تعلق انسان کے نفس سے ہو جیسے علم وفضل اور عفت کی کمی اور خواہ بدن سے ہو جیسے کسی عضو کا ناقص ہونا یا قلت مال وجاہ کے سبب ظاہری حالت کا برا ہونا ۔ اور آیت کریمہ : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء 84] اور جوان کو تکلیف تھی وہ دورکردی ۔ میں لفظ ضر سے تینوں معنی مراد ہوسکتے ہیں - نفع - النَّفْعُ : ما يُسْتَعَانُ به في الوُصُولِ إلى الخَيْرَاتِ ، وما يُتَوَصَّلُ به إلى الخَيْرِ فهو خَيْرٌ ، فَالنَّفْعُ خَيْرٌ ، وضِدُّهُ الضُّرُّ. قال تعالی: وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان 3] - ( ن ف ع ) النفع - ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے خیرات تک رسائی کے لئے استعانت حاصل کی جائے یا وسیلہ بنایا جائے پس نفع خیر کا نام ہے اور اس کی ضد ضر ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان 3] اور نہ اپنے نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں ۔- عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - خبیر - والخَبِيرُ : الأكّار فيه، والخبر : المزادة العظیمة، وشبّهت بها النّاقة فسمّيت خبرا، وقوله تعالی: وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران 153] ، أي : عالم بأخبار أعمالکم،- ( خ ب ر ) الخبر - کسان کو ِِ ، ، خبیر ، ، کہاجاتا ہے ۔ الخبر۔ چھوٹا توشہ دان ۔ تشبیہ کے طور پر زیادہ دودھ دینے والی اونٹنی کو بھی خبر کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ :۔ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران 153] اور جو کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی حقیقت کو جانتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

بنی غفار، اسلم اشجع، ودیل اور مزینہ و جہینہ کے لوگ جو غزوہ حدیبیہ سے پیچھے رہ گئے وہ عنقریب آپ سے کہیں گے کہ ہمیں ہمارے مال و عیال نے آپ کے ساتھ چلنے کے لیے فرصت نہ لینے دی ہمیں ان کے ضائع ہونے کا ڈر ہوا اس وجہ سے ہم آپ کے ساتھ نہ چلے سکے تو ہمارے لیے اس غلطی کی معافی کے لیے دعا کردیجیے۔- یہ لوگ صرف اپنی زبانوں سے طلب مغفرت کے لیے کہہ رہے ہیں ان کے دلوں میں یہ چیز موجود نہیں خواہ آپ ان کے لیے دعا کریں یا نہ کریں۔- آپ ان سے کہہ دیجیے کہ وہ کون ہے جو عذاب الہی کے سامنے تمہارے لیے کسی چیز کا اختیار رکھتا ہو اگر وہ تمہیں قتل و غارت کرنا چاہے یا کہ تمہیں فتح و نصرت اور عافیت دینا چاہیے بلکہ حق تعالیٰ تمہارے حدیبیہ سے پیچھے رہنے کی حقیقی وجہ سے باخبر ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

دوسرے رکوع کی یہ آیات صلح حدیبیہ کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے واپسی کے سفر کے دوران نازل ہوئیں ‘ بالکل اسی طرح جس طرح غزوئہ تبوک سے واپسی پر سورة التوبہ کی کچھ آیات نازل ہوئی تھیں۔ اللہ تعالیٰ کی حکمت اور مشیت کے تحت بعد میں نازل ہونے والی ان آیات کو پہلے سے جاری سلسلہ کلام کو منقطع کر کے یہاں پر رکھا گیا ہے۔ آیات کے تسلسل میں تقدیم و تاخیر کا بالکل یہی انداز اس سے پہلے ہم سورة التوبہ کے آغاز میں بھی دیکھ چکے ہیں۔ چناچہ ان آیات کے مطالعہ سے پہلے یہ بات نوٹ کر لیجیے کہ پہلے رکوع کا مضمون یہاں پر منقطع ہو رہا ہے اور اس مضمون کا تسلسل اب تیسرے رکوع کے مضمون کے ساتھ جا کر ملے گا۔- آیت ١١ سَیَقُوْلُ لَکَ الْمُخَلَّفُوْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ ” عنقریب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہیں گے وہ لوگ جو پیچھے رہ جانے والے تھے دیہاتیوں میں سے “- گویا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آگاہ کیا جا رہا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مدینہ پہنچتے ہی اردگرد کے قبائل سے بادیہ نشین آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آ آکر عذر پیش کریں گے کہ : - شَغَلَتْنَآ اَمْوَالُنَا وَاَہْلُوْنَا فَاسْتَغْفِرْ لَنَا ” ہمیں مشغول رکھا ہمارے اموال اور اہل و عیال (کی دیکھ بھال ) نے ‘ چناچہ آپ ہمارے لیے استغفار کیجیے۔ “- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام مسلمانوں پر عمرے کے لیے نکلنا لازم قرار نہیں دیا تھا۔ لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعلانِ عام کروایا تھا کہ جو کوئی عمرے کے لیے جاسکتا ہے ضرور چلے۔ بہر حال جو لوگ استطاعت کے باوجود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نہیں گئے تھے یہ ان کی منافقت کا ذکر ہے کہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اپنی نام نہاد مصروفیات کے بہانے بنائیں گے۔- یَـقُوْلُوْنَ بِاَلْسِنَتِہِمْ مَّا لَیْسَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ ” یہ لوگ اپنی زبانوں سے وہ کچھ کہہ رہے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہے۔ “- قُلْ فَمَنْ یَّمْلِکُ لَـکُمْ مِّنَ اللّٰہِ شَیْئًا اِنْ اَرَادَ بِکُمْ ضَرًّا اَوْ اَرَادَ بِکُمْ نَفْعًا ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (ان سے) کہیے کہ کون ہے جو کچھ اختیار رکھتا ہو تمہارے بارے میں اللہ کی طرف سے کچھ بھی اگر وہ تمہیں نقصان پہنچانے کا ارادہ کرے یا تمہیں نفع پہنچانے کا ارادہ کرے ؟ “- اللہ تعالیٰ کا تمہارے بارے میں نفع یا نقصان کا جو بھی ارادہ ہو وہ تمہاری کسی تدبیر سے تبدیل نہیں ہوسکتا۔ اپنے گھروں میں رہ کر تم لوگ اللہ کی تقدیر کو نہیں بدل سکتے تھے۔ تمہارے گھروں میں اگر کوئی خیر آنا تھی تو وہ تمہاری عدم موجودگی میں بھی آسکتی تھی اور اگر کوئی شر تمہارے مقدر میں لکھا تھا تو وہ تمہاری موجودگی میں بھی آسکتا تھا۔ لہٰذا ہمارے ساتھ نہ جانے کے جواز میں تمہارے سب دلائل بےمعنی اور فضول ہیں۔- بَلْ کَانَ اللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا ” بلکہ جو کچھ تم کرتے رہے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔ “- اب وہ بات بتائی جا رہی ہے جو اصل میں ان کے دلوں میں تھی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :20 یہ اطراف مدینہ کے ان لوگوں کا ذکر ہے جنہیں عمرے کی تیاری شروع کرتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ساتھ چلنے کی دعوت دی تھی ، مگر وہ ایمان کا دعوی رکھنے کے باوجود صرف اس لیے اپنے گھروں سے نہ نکلے تھے کہ انہیں اپنی جان عزیز تھی ۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اَسلم ، مُزَینہ ، جُہَینہ ، غِفار ، اَشْجع ، دِیل وغیرہ قبائل کے لوگ تھے ۔ سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :21 اس کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ تمہارے مدینہ پہنچنے کے بعد یہ لوگ اپنے نہ نکلنے کے لیے جو عذر اب پیش کریں گے وہ محض ایک جھوٹا بہانہ ہوگا ، ورنہ ان کے دل جانتے ہیں کہ وہ دراصل کیوں بیٹھ رہے تھے ۔ دوسرے یہ کہ ان کا اللہ کے رسول سے دعائے مغفرت کی درخواست کرنا محض زبانی جمع خرچ ہوگا ۔ اصل میں وہ نہ اپنی اس حرکت پر نادم ہیں ، نہ انہیں یہ احساس ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نہ دے کر کسی گناہ کا ارتکاب کیا ہے ، اور نہ ان کے دل میں مغفرت کی کوئی طلب ہے ۔ اپنے نزدیک تو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اس خطرناک سفر پر نہ جا کر بڑی عقلمندی کی ہے ۔ اگر انہیں واقعی اللہ اور اس کی مغفرت کی کوئی پروا ہوتی تو وہ گھر بیٹھے ہی کیوں رہتے ۔ سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :22 یعنی اللہ کا فیصلہ تو اس علم کی بنا پر ہوگا جو وہ تمہارے عمل کی حقیقت کے متعلق رکھتا ہے ۔ اگر تمہارا عمل سزا کا مستحق ہو اور میں تمہارے لیے مغفرت کی دعا کر دوں تو میری یہ دعا تمہیں اللہ کی سزا سے نہ بچا دے گی ۔ اور اگر تمہارا عمل سزا کا مستحق نہ ہو اور میں تمہارے حق میں استغفار نہ کروں تو میرا استغفار نہ کرنا تمہیں کوئی نقصان نہ پہنچا دے گا ۔ اختیار میرا نہیں بلکہ اللہ کا ہے ، اور اس کو کسی کی زبانی باتیں دھوکا نہیں دے سکتیں ۔ اس لیے تمہارے ظاہری قول کو میں سچ مان بھی لوں اور اس بنا پر تمہارے حق میں دعائے مغفرت بھی کر دوں تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

7: حدیبیہ کے سفر میں جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم عمرے کے ارادے سے روانہ ہوئے تو تمام مخلص صحابہ کرامؓ تو خود ہی بڑے شوق کے ساتھ چلنے کے لئے تیار ہوگئے تھے، لیکن چونکہ یہ اندیشہ شروع ہی سے تھا کہ شاید قریش کے کافر لوگ راستہ روکیں، اور لڑالی کی نوبت آجائے، اس لئے آپ نے ایک بڑی جمعیت کے ساتھ سفر کرنے کی غرض سے مدینہ منوَّرہ کے آس پاس کے دیہات میں بھی یہ اعلان فرمادیا تھا کہ وہاں کے لوگ بھی ساتھ چلیں۔ اِن میں سے جو حضرات مخلص مسلمان تھے، وہ تو آپ کے ساتھ آگئے، لیکن ان میں سے جو لوگ منافق تھے، اُنہوں نے یہ سوچا کہ جنگ کی صورت میں ہمیں لڑائی میں حصہ لینا پڑے گا، اس لئے مختلف بہانے کرکے رک گئے، اِس آیت میں ’’پیچھے رہنے والوں‘‘ سے وہی منافق مراد ہیں، اور فرمایا جارہا ہے کہ جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم مدینہ منوَّرہ واپس پہنچیں گے تو یہ لوگ یہ بہانہ کریں گے کہ ہم اپنے گھر بار کی مصروفیت کی وجہ سے آپ کے ساتھ نہیں جاسکے تھے۔ 8: یعنی تم تو یہ سوچ کر اپنے گھروں میں رک گئے تھے کہ گھر میں رہنا فائدہ مند ہے، اور حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ جانے میں نقصان ہے، حالانکہ فائدہ اور نقصان تو تمام تر اﷲ تعالیٰ کے قبضے میں ہے، وہ نفع یا نقصان پہنچانے کا ارادہ فرمالے تو کسی کی مجال نہیں ہے کہ اسے روک سکے۔