وہ سخت لڑاکا قوم جن سے لڑنے کی طرف یہ بلائے جائیں گے کونسی قوم ہے ؟ اس میں کئی اقوال ہیں ایک تو یہ کہ اس سے مراد قبیلہ ہوازن ہے دوسرے یہ کہ اس سے مراد قبیلہ ثقیف ہے تیسرے یہ کہ اس سے مراد قبیلہ بنو حنیف ہے چوتھے یہ کہ اس سے مراد اہل فارس ہیں پانچویں یہ کہ اس سے مراد رومی ہیں چھٹے یہ کہ اس سے مراد بت پرست ہیں بعض فرماتے ہیں اس سے مراد کوئی خاص قبیلہ یا گروہ نہیں بلکہ مطلق جنگجو قوم مراد ہے جو ابھی تک مقابلہ میں نہیں آئی حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں اس سے مراد کوئی خاص قبیلہ یا گروہ نہیں بلکہ مطلق جنگجو قوم مراد ہے جو ابھی تک مقابلہ میں نہیں آئی حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں اس سے مراد کرد لوگ ہیں ایک مرفوع حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں قیامت قائم نہ ہوگی جب تک کہ تم ایک ایسی قوم سے نہ لڑو جن کی آنکھیں چھوٹی چھوٹی ہوں گی اور ناک بیٹھی ہوئی ہو گی ان کے منہ مثل تہ بہ تہ ڈھالوں کے ہوں گے حضرت سفیان فرماتے ہیں اس سے مراد ترک ہیں ایک حدیث میں ہے کہ تمہیں ایک قوم سے جہاد کرنا پڑے گا جن کی جوتیاں بال دار ہوں گی حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں اس سے مراد کرد لوگ ہیں پھر فرماتا ہے کہ ان سے جہاد قتال تم پر مشروع کر دیا گیا ہے اور یہ حکم باقی ہی رہے گا اللہ تعالیٰ ان پر تمہاری مدد کرے گا یا یہ کہ وہ خود بخود بغیر لڑے بھڑے دین اسلام قبول کرلیں گے پھر ارشاد ہوتا ہے اگر تم مان لو گے اور جہاد کے لئے اٹھ کھڑے ہو جاؤ گے اور حکم کی بجا آوری کرو گے تو تمہیں بہت ساری نیکیاں ملیں گی اور اگر تم نے وہی کیا جو حدیبیہ کے موقع پر کیا تھا یعنی بزدلی سے بیٹھے رہے جہاد میں شرکت نہ کی احکام کی تعمیل سے جی چرایا تو تمہیں المناک عذاب ہو گا ۔ پھر جہاد کے ترک کرنے کے جو صحیح عذر ہیں ان کا بیان ہو رہا ہے پس دو عذر تو وہ بیان فرمائے جو لازمی ہیں یعنی اندھا پن اور لنگڑا پن اور ایک عذر وہ بیان فرمایا جو عارضی ہے جیسے بیماری کہ چند دن رہی پھر چلی گئی ۔ پس یہ بھی اپنی بیماری کے زمانہ میں معذور ہیں ہاں تندرست ہونے کے بعد یہ معذور نہیں پھر جہاد کی ترغیب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانبردار جنتی ہے اور جو جہاد سے بےرغبتی کرے اور دنیا کی طرف سراسر متوجہ ہو جائے ، معاش کے پیچھے معاد کو بھول جائے اس کی سزا دنیا میں ذلت اور آخرت کی دکھ مار ہے ۔
1 6 ۔ 1 اس جنگجو قوم کی تعیین میں اختلاف ہے بعض مفسرین اس سے عرب کے ہی بعض قبائل مراد لیتے ہیں مثلا ہوازن یا ثقیف جن سے حنین کے مقام پر مسلمانوں کی جنگ ہوئی یا مسیلمۃ الکذاب کی قوم بنو حنیفہ اور بعض نے فارس اور روم کے مجوسی و عیسائی مراد لیے ہیں ان پیچھے رہ جانے والے بدویوں سے کہا جا رہا ہے کہ عنقریب ایک جنگجو قوم سے مقابلے کے لیے تمہیں بلایا جائے گا اگر وہ مسلمان نہ ہوئے تو تمہاری اور ان کی جنگ ہوگی۔ 16۔ 2 یعنی خلوص دل سے مسلمانوں کے ساتھ ملکر لڑو گے ۔ 16۔ 3 دنیا میں غنیمت اور آخرت میں پچھلے گناہوں کی مغفرت اور جنت۔ 16۔ 4 یعنی جس طرح حدیبیہ کے موقع پر تم نے مسلمانوں کے ساتھ مکہ جانے سے گریز کیا تھا، اسی طرح اب بھی تم جہاد سے بھاگو گے، تو پھر اللہ کا دردناک عذاب تمہارے لئے تیار ہے۔
[٢١] جنگجو قوم کونسی تھی ؟ ثقیف ہوازن اور بنو حنیفہ :۔ (یُسْلِمُوْنَ ) کے دو مطلب ہیں ایک وہ جو ترجمہ سے واضح ہو رہا ہے کہ وہ جنگ کرنے کے بغیر ہی آپ کی اطاعت قبول کرلیں گے اور جزیہ ادا کریں گے نیز اسلام کی راہ میں مزاحمت کرنا چھوڑ دیں گے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ مسلمان ہوجائیں گے۔ گویا حسد کا طعنہ دینے والے منافقوں کو سمجھایا یہ جارہا ہے کہ جب تک تم اپنے اموال اور اپنی جانوں کی قربانی سے یہ ثابت نہ کردو کہ تم اسلام اور مسلمانوں کے حق میں مخلص ہو تو اموال غنیمت میں حصہ دار کیسے بن سکتے ہو ؟ اب اس کی یہ صورت ہوسکتی ہے کہ آئندہ بھی کئی مواقع پر جنگجو قوموں سے سابقہ پڑنے والا ہے۔ اس وقت تمہیں جہاد میں باقاعدہ شمولیت کی دعوت دی جائے گی اور تمہارے ایمان کی آزمائش کی جائے گی۔ یہ الگ بات ہے کہ ان سے جنگ کرنا پڑتی ہے یا وہ لڑے بھڑے بغیر ہی مطیع فرمان بن جاتے ہیں۔ بہرحال تمہارے روانہ ہونے سے ہی تمہارا امتحان ہوجائے گا۔ پھر اگر تو تم اپنے دعوے میں سچے اور اپنے ایمان میں مخلص ہوئے تو تم ایسی جنگجو قوم سے لڑنے اور سردھڑ کی بازی لگانے پر تیار ہوجاؤ گے تو تمہیں اموال غنیمت میں سے بھی حصہ ملے گا اور اللہ سے بھی بڑا اچھا بدلہ ملے گا۔ لیکن اگر تم نے پھر وہی کام کیا جو غزوہ حدیبیہ کے موقع پر کیا تھا اور حیلے بہانے تراشنے لگے تو پھر تمہاری اور بھی زیادہ ذلت اور رسوائی ہوگی اور آخرت میں بھی دردناک سزا ملے گی۔ واضح رہے کہ اس آیت میں جنگجو قوم سے مراد جنگ حنین میں حصہ لینے والے قبیلے ثقیف اور ہوازن بھی ہوسکتے ہیں اور مسیلمہ کذاب کی جنگ یمامہ میں حصہ لینے والے بنو حنیفہ بھی۔ علاوہ ازیں خلافت ابوبکر صدیق (رض) و عمر کے دور میں بھی کئی معرکے پیش آتے رہے۔- صلح حدییبہ میں مسلمانوں کی مرضی کے علی الرغم رسول اللہ نے بظاہر توہین آمیز شرائط پر صلح کے لئے اصرار فرمایا تھا تو اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جب آپ مدینہ تشریف لائے تھے ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا تھا کہ جنگ کا خطرہ سر پر سوار نہ ہو اور جب بھی جنگ کا موقعہ آتا تو قریش، یہود، منافقین اور مشرک قبائل سب مسلمانوں کے خلاف اتحاد قائم کرلیتے تھے۔ آپ یہ چاہتے تھے کہ کم از کم قریش مکہ سے صلح کرکے دوسرے دشمنوں کی سرکوبی کی جائے۔ جنگ احزاب میں بنونضیر کا سردار حیی بن اخطب بھی قتل کردیا گیا۔ جو خیبر کے یہود کا سردار تھا تو یہودی اور بھی سیخ پا ہوگئے تھے اور مدینہ پر پرزور حملہ کرکے ان کا استیصال کرنے کے لئے تیاریاں کر رہے تھے۔ اور یہ خبریں دم بدم مدینہ بھی پہنچ رہی تھیں۔ صلح حدیبیہ کے بعد آپ نے خود ان پر لشکر کشی کا ارادہ کرلیا۔ اس لشکر کا بیشتر حصہ وہی مسلمان تھے جنہوں نے صلح حدیبیہ یا بیعت رضوان میں حصہ لیا تھا۔- خ خیبر پر حملہ کا آغاز :۔ خیبر میں یہودیوں کے جو مشہور قلعے تھے جن میں بیس ہزار آزمودہ کار سپاہی موجود تھے۔ اسلامی لشکر رات کے وقت خیبر کے پہلے قلعہ ناعم پر پہنچ گیا۔ اس وقت قلعہ والے اسلامی لشکر کی یورش سے بالکل بیخبر محو خواب تھے۔ شب خون مار کر قلعہ کو فتح کرنے کا یہ بہترین موقعہ تھا۔ لیکن آپ شب خون مارنے کے خلاف تھے۔ اور مسلمانوں کو بھی شب خون مارنے کی ممانعت کردی تھی۔ لہذا آپ نے لشکر کو صبح ہونے تک توقف کرنے کا حکم دیا۔ چناچہ سیدنا انس فرماتے ہیں کہ آپ جب کسی قوم پر جہاد کرتے تو ان پر صبح تک حملہ نہ کرتے، صبح اگر ان لوگوں میں اذان کی آواز سنتے تو حملہ نہ کرتے اور اگر آذان کی آواز نہ آتی تب حملہ کرتے تھے۔ جب صبح ہوئی تو یہودی پھاوڑے ٹوکریاں لے کر نکلے۔ کیونکہ وہ زراعت پیشہ تھے۔ جب انہوں نے آپ کو دیکھا تو چیخ اٹھے اور کہنے لگے : اللہ کی قسم یہ تو محمد ہیں جو لشکر سمیت آن پہنچے۔ آپ نے انہیں دیکھ کر نعرہ لگایا۔ اللہ اکبر خربت خیبر (اللہ اکبر خیبر کی شامت آگئی) پھر فرمایا : ہم جب بھی کسی قوم کے آنگن میں اترے تو جن لوگوں کو ڈرایا گیا ان کی صبح منحوس ہی ہوتی ہے۔ (بخاری۔ کتاب الجہاد۔ باب دعاء النبی الی الاسلام والنبوۃ۔۔ )- چناچہ یہ یہودی خوف زدہ ہو کر شہر کی طرف بھاگے اور قلعہ ناعم میں جا پناہ لی۔ ناعم میں یہود کا صرف سامان رسد وغیرہ تھا کوئی بڑی فوجی قوت نہ تھی۔ لہذا مسلمانوں نے اسے آسانی سے فتح کرلیا۔ اس کے بعد دوسرے چھوٹے قلعے بھی آسانی کے ساتھ تسخیر ہوگئے۔ لیکن سب سے مضبوط اور سب سے اہم سلام بن ابی الحقیق کا قلعہ قموص تھا جس میں یہود کا سردار اور مشہور جری پہلوان مرحب بھی موجود تھا۔ قموص پر ہر روز حملے ہوتے رہے لیکن یہ سر ہونے میں نہ آتا تھا۔ اسی طرح بیس دن گزر گئے تو رسول اللہ نے فرمایا : کل میں جھنڈا ایسے شخص کو دوں گا جس کے ہاتھ پر اللہ خیبر فتح کرا دے گا۔ اور اللہ اور اس کے رسول اس سے محبت رکھتے ہیں اور وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہے۔- خ آپ کا سیدناعلی کو جھنڈا عطا کرنا :۔ لوگ رات بھر اسی سوچ میں رہے کہ دیکھئے کل کس کو جھنڈا ملتا ہے۔ صبح سب لوگ رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے پوچھا علی (رض) ابن ابی طالب کہاں ہیں ؟ لوگوں نے عرض کیا : یارسول اللہ ان کی تو آنکھیں دکھ رہی ہیں۔ آپ نے فرمایا : کسی کو اسے بلانے کے لئے بھیج دو ۔ جب سیدنا علی (رض) آئے تو آپ نے اپنا تھوک ان کی آنکھوں پر لگایا اور دعا فرمائی۔ وہ ایسے اچھے ہوگئے جیسے انہیں کچھ تکلیف ہی نہ تھی۔ آپ نے جھنڈا ان کے حوالے کیا۔ انہوں نے عرض کیا : یارسول اللہ کیا میں ان سے اس وقت تک لڑتا رہوں جب تک وہ ہماری طرح (مسلمان) نہ ہوجائیں ؟ آپ نے فرمایا : کہ آرام سے جاؤ جب ان کے مقام پر پہنچ جاؤ تو انہیں اسلام کی دعوت دو اور ان پر اللہ کا جو فرض ہے وہ انہیں بتاؤ۔ اللہ کی قسم اگر تیرے ذریعہ اللہ ایک شخص کو بھی ہدایت دے دے تو وہ تیرے حق میں سرخ اونٹوں سے بہتر ہے (بخاری۔ کتاب المناقب۔ باب مناقب علی ابن ابی طالب)- اور ایک روایت میں ہے کہ سیدنا عمر فرمایا کرتے تھے کہ مجھے کبھی کسی منصب یا عہدے کی آرزو پیدا نہیں ہوئی۔ لیکن اس رات میرے دل میں بھی یہ خواہش مچل رہی تھی کہ کاش صبح میرا نام پکارا جائے۔ (مسلم۔ کتاب الفضائل۔ باب فضائل علی ابن ابی طالب)- خ سیدنا علی اور مرحب کا مقابلہ :۔ چناچہ سیدنا علی (رض) فوج لے کر قلعہ پر حملہ آور ہوئے تو آپ کے مقابلہ کے لئے یہودی سالار مرحب مقابلہ کو نکلا اور میدان میں اتر کر تین مصرعوں کا شعر پڑھا :- قد علمتْ خیبر انی مرحَب۔۔ شَاک السَّلاحِ بَطَلٌ مجرَّبٌ۔۔ اِذَا الحُروبُ اَقْبَلَتْ تَلَھَّبُ- سارا خیبر جانتا ہے کہ میں مرحب ہوں۔ ہتھیار بند ہوں اور اس وقت آزمودہ کار پہلوان ثابت ہوتا ہوں۔ جب لڑائیاں شعلے اڑانے لگتی ہیں - اس کے جواب میں سیدنا علی (رض) نے بھی تین مصرعے کا شعر پڑھا :- انا الذی سمَّتُنِی اُمّی حیدرَہ،۔۔ کَلَیْثِ غاباتٍ کر یہ المَنْظَرَہ۔۔ اُو فیھِم بالصَّاع کیل السُّنْدَرَہ،- میں وہ ہوں جس کا میری ماں نے شیر نام رکھا تھا۔ میں جنگلوں کے شیر کی طرح جس کو دیکھوں سب ڈر جاتے ہیں۔ اور میں اینٹ کا جواب پتھر سے دیا کرتا ہوں - پھر سیدنا علی نے مرحب کے سر پر ایک ایسی کاری ضرب لگائی جس سے اس کا کام تمام ہوگیا اور اللہ تعالیٰ نے سیدنا علی (رض) کے ہاتھ پر فتح دی۔ (مسلم۔ کتاب الجہاد والسیر۔ باب غزوۃ ذی قرد وخیبر)- مرحب کے بعد اس کا بھائی یاسر میدان میں اترا تو سیدنا زبیر نے اسے ڈھیر کردیا۔ اس پر یہودیوں کی ہمت ٹوٹ گئی اور قلعہ فتح ہوگیا۔ اس معرکہ خیبر میں ترانوے یہودی کام آئے اور بیس مجاہدین شہید ہوئے۔- خ یہودیوں کی جان بخشی کی شرائط :۔ اس شکست فاش کے بعد یہودیوں نے آپ سے جان بخشی کی درخواست کی جسے آپ نے اس شرط پر منظور کیا کہ یہود اپنی تمام جائیداد منقولہ اور غیر منقولہ یعنی ہتھیار، نقدی اور مویشی نیز زمین اور باغات وغیرہ سب کچھ مسلمانوں کے حوالہ کردیں گے اور اگر انہوں نے جائداد کا اتا پتا بتانے میں پس و پیش کیا تو یہ معاہدہ ختم اور مسلمانوں کو انہیں قتل کردینے یا جلا وطن کرنے کا حق حاصل ہوگا۔- اس معاہدہ کی رو سے آپ نے یہود بنونضیر سے اس کے مال و دولت کی بابت دریافت فرمایا۔ جو وہ مدینہ سے لے کر نکلے تھے تو حیی بن اخطب کے داماد کنانہ بن ربیع نے اس کے بتانے میں پس و پیش کیا۔ لیکن ایک دوسرے یہودی کی نشاندہی پر مطلوبہ مال جنگل میں مدفون مل گیا۔ اس عہد شکنی کی بنا پر کنانہ بن ربیع کو تہ تیغ کردیا گیا اور اس کے خاندان کی عورتیں اور بچے غلام بنا لئے گئے۔ حیی بن اخطب کی بیٹی صفیہ اسیر ہو کر آپ کے سامنے حاضر ہوئی تو آپ نے اس کی عزت کو ملحوظ خاطر رکھ کر نیز دشمنوں پر اپنے اخلاق کا اثر ڈالنے کے لئے اسے آزاد کردیا اور دوسری مہربانی یہ فرمائی کہ اسے اپنے عقد میں لے لیا۔ چناچہ یہود پر اس کا بہت اچھا اثر ہوا۔- خ نصف پیداوار کی شرط پر یہود سے مصالحت :۔ اب یہود نے دوسری درخواست یہ کی کہ ان کی زمینیں اور باغات انہیں کے پاس رہنے دیئے جائیں اس شرط پر کہ وہ ساری پیداوار کا نصف مسلمانوں کو ادا کردیا کریں گے۔ آپ نے کمال مہربانی سے ان کی یہ درخواست بھی منظور فرمالی۔ اور ساتھ ہی فرما دیا کہ اگر وہ مسلمانوں سے بد عہدی یا کوئی اور شرارت کریں گے تو یہ معاہدہ ختم کردیا جائے گا۔ چناچہ جب فصل تیار ہوچکتی تو آپ عبداللہ بن رواحہ کو بھیجتے جو پیداوار کو دو حصوں میں تقسیم کردیتے پھر یہود کو اختیار دے دیتے کہ جونسا حصہ تم چاہو لے لو۔ یہودیوں پر اس فیاضانہ عدل کا یہ اثر ہوا کہ وہ کہتے تھے کہ زمین و آسمان ایسے ہی عدل پر قائم ہیں۔- خ زہریلی بکری سے آپ کو ختم کرنے کی سازش :۔ آپ کے اس فیاضانہ سلوک کے باوجود یہود کا خبث باطن ختم نہ ہوا۔ خیبر میں قیام کے دوران سلام بن مشکم یہودی کی بیوی زینب بنت حارث نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دعوت کی درخواست کی جسے آپ نے قبول فرما لیا۔ یہ دراصل سب یہود کی ملی بھگت سے ایک سازش تیار کی گئی تھی کہ آپ کو کھانے میں زہر ملا کر ہلاک کردیا جائے۔ چناچہ زینب نے آپ سے پوچھا کہ آپ کونسا گوشت پسند فرماتے ہیں۔ آپ نے فرمایا : دستی کا۔ آپ چند صحابہ کے ساتھ دعوت پر آئے۔ لیکن پہلا لقمہ ابھی حلق سے اترا ہی تھا کہ آپ کو معلوم ہوگیا کہ اس میں زہر ملایا گیا ہے۔ آپ کھانے سے رک گئے لیکن ایک صحابی بشیر بن براء دو چار لقمے کھاچکے تھے وہ جانبر نہ ہوسکے۔ اس موقعہ پر اگر کوئی اور فاتح ہوتا تو سب یہودیوں کو تہ تیغ کرا دیتا۔ آپ نے زینب سے پوچھا تو اس نے اعتراف جرم کرلیا اور بتایا کہ اس سازش میں سب یہود ملوث ہیں۔ آپ نے یہود کو بلاکر پوچھا تو انہوں نے بھی اعتراف کرلیا۔ آپ نے ان سے پوچھا کہ تم نے ایسا کیوں کیا تو کہنے لگے کہ اس لئے کیا کہ اگر آپ سچے نبی ہیں تو زہر آپ پر اثر نہیں کرے گا اور جھوٹے ہیں تو آپ سے ہماری جان چھوٹ جائے گی۔ آپ مجسمہ رحمت تھے۔ لہذا آپ نے ان سب کا یہ قصور بھی معاف کردیا۔ فقط بشیر بن براء کے قصاص میں زینب بنت حارث کو قتل کرنے کا حکم دیا۔ (بخاری۔ کتاب الجہاد۔ باب اذا غدر المشرکون بالمسلمین)- خ فتح خیبر کے اثرات :۔ خیبر کے معاملات سے فارغ ہو کر صفر ٧ ھ آپ نے فدک کی طرف توجہ فرمائی۔ کیونکہ یہ لوگ بھی جنگ پر تلے بیٹھے تھے۔ یہاں صرف ایک دن جنگ ہوئی دوسرے دن صبح ہی مجاہدین اسلام نے ان پر فتح پالی اور ان سے اہل خیبر کی شرائط پر مصالحت کرلی۔ تیماء کے یہود کو ان فتوحات کی خبر ملی تو انہوں نے خود ہی جزیہ کی شرط پر صلح کرلی۔ خیبر وغیرہ کی فتح سے یہود کا دم خم بالکل ختم ہوگیا۔ جب قریش مکہ کو یہ خبر ملی تو انہیں سخت صدمہ ہوا کیونکہ ان کا ایک مضبوط بازو کٹ گیا اور اب وہ مسلمانوں کے مقابلہ میں تنہا رہ گئے۔- خ خیبر کے اموال غنائم اور اموال فئے : غزؤہ خیبر میں کچھ لڑائی کے ذریعہ اموال غنیمت حاصل ہوئے اور کچھ بےلڑے بھڑے بھی حاصل ہوگئے اور مال کثیر اور باغات مسلمانوں کے ہاتھ لگے حتیٰ کہ مسلمانوں کی معاشی حالت بہت بہتر ہوگئی اور مہاجرین نے انصار کو وہ باغات وغیرہ واپس کردیئے جو سلسلہ مواخات کے نتیجہ میں مہاجرین نے بطور شراکت انصار سے لے رکھے تھے اس غزوہ خیبر میں انہیں مجاہدین کو شریک کیا گیا جو غزوہ حدیبیہ میں آپ کے ہمراہ تھے اور خون پر بیعت کی تھی۔ انہیں میں یہ اموال غنیمت تقسیم کئے گئے۔- خ ان اموال میں حبشہ کے مہاجرین کا حصہ : البتہ ان اموال میں حبشہ سے ہجرت کرکے مدینہ پہنچنے والے مہاجرین کو شریک کرلیا گیا تھا جو عین اموال غنیمت کی تقسیم کے موقعہ پر پہنچے تھے۔ بعض علماء نے یہ بھی وضاحت کی ہے کہ آپ نے مہاجرین حبشہ کو جو مال دیا تھا وہ مجاہدین کے حصہ سے نہیں بلکہ اپنے حصہ خمس سے دیا تھا۔ جس کی تقسیم کلیتاً آپ کی صوابدید پر منحصر تھی۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے :- سیدنا ابو موسیٰ کہتے ہیں کہ ہم نے یمن میں سنا کہ رسول اللہ مکہ سے ہجرت کرکے چلے گئے۔ تو میں اور میرے دو چھوٹے بھائی ابو بردہ اور ابو رہم بھی مدینہ کو ہجرت کی غرض سے نکلے۔ ہماری قوم کے کل باون یا ترپن آدمی تھے جو کشتی پر سوار ہوئے۔ وہ کشتی حبش کی طرف چلی گئی جہاں کا بادشاہ نجاشی تھا۔ وہاں ہم کو جعفر بن ابی طالب اور ان کے ساتھی ملے۔ جعفر نے کہا کہ رسول اللہ نے ہم کو یہاں بھیجا ہے اور فرمایا ہے کہ یہیں ٹھہرو۔ تو تم بھی ہمارے ساتھ ٹھہرو۔ ہم کچھ عرصہ وہاں رہے۔ پھر سب لوگ مل کر مدینہ آئے۔ اس وقت رسول اللہ نے خیبر فتح کیا تھا۔ آپ نے اموال غنائم میں سے ہمارا حصہ لگایا یا کہا کہ اس سے ہمیں عطا کیا۔ لیکن ہمارے سوا صرف اسے ہی آپ نے دیا جو فتح خیبر میں حاضر تھا، کسی غیر حاضر کو کچھ نہیں دیا۔ سو ہم کشتی والوں کے جو جعفر اور ان کے اصحاب کے ساتھ تھے۔ آپ نے ان کا حصہ لگایا۔ بعض لوگ کہنے لگے کہ ہم تو تم سے پہلے ہجرت کرچکے تھے۔- چناچہ اس سلسلہ میں سیدنا عمر اور سیدہ اسماء بنت عمیس میں تکرار بھی ہوئی۔ سیدنا عمر کہتے تھے کہ ہم تم سے پہلے ہجرت کرکے مدینہ پہنچے ہیں لہذا ہم رسول اللہ کی طرف زیادہ حق رکھتے ہیں۔ اسماء بنت عمیس کو اس بات پر غصہ آگیا کہ تم تو رسول اللہ کے ساتھ رہے وہ تمہارا ہر طرح سے خیال رکھتے تھے اور ہم دیار غیر میں تھے اور ہجرت بھی دو دفعہ کی ہے اور کہنے لگیں میں ضرور یہ بات رسول اللہ سے پوچھوں گی۔ چناچہ اسماء نے آپ سے پوچھا تو آپ نے فرمایا : وہ تم سے زیادہ حق نہیں رکھتے۔ کیونکہ ان کی ایک ہجرت ہے اور تمہاری دو بار ہجرت ہے۔ اسماء کہتی ہیں کہ رسول اللہ کی اس بات سے کشتی والوں کو انتہائی خوشی ہوئی۔ اور وہ مجھے باربار اس حدیث کو دہرانے کو کہتے تھے۔ (مسلم۔ کتاب الفضائل۔ باب فضائل جعفر و اسماء بنت عمیس و اھل سفینتھم۔۔ ملخصاً )- اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حبشہ سے آنے والے مہاجرین کو یہ حصہ دو ہجرتوں کی وجہ سے ملا تھا۔
(١) قل للمخلفین من الاعراب…: اس آیت میں پیچھے رہنے والے اعراب کو تسلی دلائی ہے کہ آئندہ غزوات میں انہیں شرکت کا اور غنیمتیں حاصل کرنے کا پورا پورا موقع دیا جائے گا، تاکہ انہیں اطمینان ہوجائے کہ انہیں اسلامی لشکر کیساتھ خیبر میں جانے سے اس لئے منع نہیں کیا گیا کہ وہ اسلام سے نکل گئے ہیں، بلکہ اس کا ایک خصا سبب ہے جس کا ذکر پیچھے گزر چکا ہے۔ چناچہ آئندہ جس طرح دوسرے مسلمانوں کو کفار سے لڑنے کی دعوت دی جائے گی انہیں بھی دی جائے گی۔ اس آیت میں ان کی اس دل شکنی کا مداوا فرمایا ہے جو خیبر میں شریک نہ کئے جانے سے ہوئی اور ان کے حی میں یہ عظیم خوش خبری بھی دی کہ وہ خیبر سے پیچھے رہ جانے کی کوتاہی کی تلافی کرسکتے ہیں اور تاریخ شاہد ہے کہ حدیبیہ سے پیچھے رہنے والے اعراب کے یہ قبائل آئندہ جنگوں مثلاً فتح مکہ، جنگ حنین، جنگ تبوک اور جنگ یمامہ میں شرکیہ وئے، ان میں سے کم ہی کوئی شخص ان جنگوں سے پیچھے رہا۔ یہ آیت اس بات کی بھی دلیل ہے کہ یہ لوگ ایمان سے محروم نہیں ہوئے تھے، کیونکہ اس کے بعد جنگ تبوک سے پیچھے رہنے والے منافقین، جو دل میں کفر چھپائے ہوئے تھے، ان کے ساتھ یہ معاملہ نہیں کیا گیا، نہ انہیں آئندہ کسی جنگ میں شرکت کی دعوت دی گئی اور نہ ان کے حق میں یہ اجازت ملی، بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(فان لجع اللہ الی طائفۃ منھم فاستاذنوک للخروج فقل لن تخرجوا معی ابداً ولن تقاتلوا معی عدواً انکم رضیتم بالقعود اول مرۃ فاقعدوا مع الخلفین ولا تصل علی احدمنھم مات ابداً ولا تقم علی قیرہ انھم کفروا باللہ و رسولہ وما توا وھم فسقون) (التوبۃ :83 83)” آپ اگر اللہ تجھے ان میں سے کسی گروہ کی طرف واپس لے آئے، پھر وہ تجھ سے (جنگ کے لئے) نکلنے کی اجازت طلب کریں تو کہہ دے تم میرے ساتھ کبھی نہیں نکلو گے اور میرے ساتھ مل کر کبھی کسی دشمن سے نہیں لڑو گے۔ بیشک تم پہلی مرتبہ بیٹھ رہنے پر خوش ہوئے، سو پیچھے رہنے والوں کیساتھ بیٹھے رہو۔ اور ان میں سے جو کوئی مرجائے اس کا کبھی جنازہ نہ پھڑنا اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہونا بیشک انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا اور اس حال میں مرے کہ وہ نافرمان تھے۔ “- (٢) ستدعون الی قوم اولی باس شدید : جنگ تبوک سے پیچھے رہنے والے منافقین کے برعکس غزوہ حدیبیہ سے پیچھے رہنے والے اعراب کے متعلق فرمایا کہ آئندہ تمہیں سخت لڑائی والے لوگوں سے جنگ کے لئے بلایا جائے گا۔” ستدعون “ (عنقریب تمہیں بلایا جائے گا) کا لفظ عام ہے، تاکہ اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلفاء کا جنگ کے لئے دعوت دینا بھی شامل ہوجائے۔ ان سخت لڑائی والے لوگوں کے بارے میں مفسرین کے چار اقوال ہیں، ایک یہ کہ اس سے مراد ثقیف و ہوا زن ہیں جن کے ساتھ جنگ حنین ہوئی۔ دوسرا یہ کہ اس سے مراد رومی ہیں جن سے جنگ کے لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ تبوک میں سب لوگوں کو ساتھ جانے کی دعوت دی اور بعد میں ابوبعمر و عمر (رض) کے زمانے میں بھی ان سے جنگ مراد اہل فارس ہیں جن کے ساتھ ابوبکر صدیق اور عمر فاورق (رض) کے زمانے میں جنگ ہوئی امام طبری رحمتہ اللہ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے اعراب کے ان مخلفین کے متعلق فرمایا کہ انہیں سخت لڑائی والے اور بہادر لوگوں سے لڑنے کی دعوت دی جائے گی اور کسی عقلی یا نقلی دلیل سے ثابت نہیں ہوتا کہ اس سے مراد خاص، ہوا زن ہیں یا بنو حنیفہ یا فارس یا روم۔ ہوسکتا ہے ان سے مراد ان میں سے بعض ہوں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کے علاوہ کوئی اور لوگ ہوں۔ اور اس قول سے زیادہ کوئی قول صحیح نہیں ہوسکتا جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ انہیں ایک سخت لڑنے والی قوم کی طرف بلایا جائے گا، سو اسی پر اکتفا ہونا چاہیے۔ “- (٣) تقاتلونھم او یسلمون : یعنی تم ان سے لڑو گے یا وہ لڑائی کے نتیجے میں یا لڑائی کے بغیر ہی تابع فرمان ہوجائیں گے۔ یا جزیہ دینا قبول کرلیں گے۔ بعض مفسرین نے ” اویسلمون “ کا معنی کیا ہے ” یا وہ مسلمان ہوجائیں گے۔ “ ان کے مطابق اس آیت میں ان لوگوں سے جنگ کی پیشگوئی ہے جن سے جزیہ لینے کی اجازت نہیں تھی، بلکہ ان کے لئے دو ہی راستے تھے کہ یا مسلمان ہو جایں یا جنگ کے لئے تیار رہیں۔ یہود و نصاریٰ سے بالاتفاق جزیہ لینا درست ہے، ہجر کے مجوس سے بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جزیہ لینا ثابت ہے۔ البتہ مشرکین عرب کے متعلق سورة توبہ (٥) میں یہ حکم اترا کہ ان سے اس وقت تک جنگ کی جائے جب تک وہ مسلمان نہ ہوجائیں، ان میں سے کسی سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جزیہ نہیں لیا۔ ان مفسرین کے قول کے مطابق اس ایٓ سے مراد ثقیف و ہوا زن ہوسکتے ہیں جو جنگ حنین میں ق تل ہوگئے یا گرفتار ہونے کے بعد سب کے سب مسلمان ہوگئے، یا بنو حنیفہ کے مرتدین ہیں جن سے اس وقت تک جنگ کی گئی جب تک وہ دوبارہ مسلمان نہیں ہوگئے۔ البتہ پہلے قول کے مطابق ” تقاتلونھم او یسلمون “ (تم ان سے لڑو گے یا وہ تابع فرمان ہوجائیں گے) سے مراد ہوا زن، روم و فارس، مرتدین اور وہ تمام کفار ہوسکتے ہیں جن سے مسلمان آئندہ جنگ کرنے والے تھے اور یہ قول زیادہ جامع ہے۔- (٤) فان تطیعوا یوتکم اللہ اجراً حسناً : یعنی اگر تم ان جنگجو لوگوں سے لڑنے کے حکم کی اطاعت کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں بہت اچھا بدلا دے گا، دنیا میں فتح و نصرت اور عزت و غنیمت سے نوازے گا اور آخرت میں جنت عطا کرے گا۔- (٥) وان تتولوا کما تولیتم من قبل یعذبکم عذاباً الیماً : اور اگر اطاعت سے پھر جاؤ گے، جیسا کہ اس سے پہلے حدیبیہ کے موقع پر پھرگئے تھے تو تمہیں درد ناک سزا دے گا کہ دنیا میں ذلت کی زندگی بسر کرو گے اور آخرت میں جہنم میں جاؤ گے۔
قُلْ لِّـلْمُخَلَّفِيْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ سَـتُدْعَوْنَ اِلٰى قَوْمٍ اُولِيْ بَاْسٍ شَدِيْدٍ تُقَاتِلُوْنَہُمْ اَوْ يُسْلِمُوْنَ ٠ ۚ فَاِنْ تُطِيْعُوْا يُؤْتِكُمُ اللہُ اَجْرًا حَسَـنًا ٠ ۚ وَاِنْ تَتَوَلَّوْا كَـمَا تَوَلَّيْتُمْ مِّنْ قَبْلُ يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا اَلِـــيْمًا ١٦- خلف پیچھے رہنا - وخَلَّفْتُهُ : تركته خلفي، قال فَرِحَ الْمُخَلَّفُونَ بِمَقْعَدِهِمْ خِلافَ رَسُولِ اللَّهِ- [ التوبة 81] ، أي : مخالفین، وَعَلَى الثَّلاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا - [ التوبة 118] ، قُلْ لِلْمُخَلَّفِينَ [ الفتح 16] ، والخالِفُ :- المتأخّر لنقصان أو قصور کالمتخلف، قال :- فَاقْعُدُوا مَعَ الْخالِفِينَ [ التوبة 83] ، والخَالِفةُ : عمود الخیمة المتأخّر، ويكنّى بها عن - المرأة لتخلّفها عن المرتحلین، وجمعها خَوَالِف، قال : رَضُوا بِأَنْ يَكُونُوا مَعَ الْخَوالِفِ [ التوبة 87] ، ووجدت الحيّ خَلُوفاً ، أي : تخلّفت نساؤهم عن رجالهم، والخلف : حدّ الفأس الذي يكون إلى جهة الخلف، وما تخلّف من الأضلاع إلى ما يلي البطن، والخِلَافُ :- شجر كأنّه سمّي بذلک لأنّه فيما يظنّ به، أو لأنّه يخلف مخبره منظره، ويقال للجمل بعد بزوله : مخلف عام، ومخلف عامین . وقال عمر رضي اللہ عنه : ( لولا الخِلِّيفَى لأذّنت) «1» أي : الخلافة، وهو مصدر خلف .- قرآن میں ہے : ۔ فَرِحَ الْمُخَلَّفُونَ بِمَقْعَدِهِمْ خِلافَ رَسُولِ اللَّهِ [ التوبة 81] جو لوگ ( غزوہ تبوک ) میں پیچھے رہ گئے وہ پیغمبر خدا کی ( مرضی ) کے خلاف بیٹھ رہنے سے خوش ہوئے ۔ یعنی پیغمبر خدا کے مخالف ہوکر ۔ وَعَلَى الثَّلاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا[ التوبة 118] اور ان تینوں پر بھی جن کا معاملہ ملتوی کیا کیا تھا ۔ قُلْ لِلْمُخَلَّفِينَ [ الفتح 16] پیچھے رہ گئے تھے ان سے کہدو ۔ الخالف ۔ نقصان یا کوتاہی کی وجہ سے پیچھے رہنے ولا اور یہی متخلف کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَاقْعُدُوا مَعَ الْخالِفِينَ [ التوبة 83] پیچھے رہنے والوں کے ساتھ بیٹھے رہو ۔ الخالفۃ خیمے کا پچھلا ستون بطور کنا یہ اس سے مراد عورت لی جاتی ہے کیونکہ یہ مجاہدین سے پیچھے رہ جاتی ہیں ۔ اس کی جمع خوالف ہے - قرآن میں ہے : ۔ رَضُوا بِأَنْ يَكُونُوا مَعَ الْخَوالِفِ [ التوبة 87] یہ اس بات سے خوش ہیں کہ عورتوں کے ساتھ جو پیچھے رہ جاتی ہیں ( گھروں میں ) بیٹھ رہیں ۔ یعنی مرد گئے ہوئے ہیں صرف عورتیں موجود ہیں ۔ الخلف ( ایضا ) کلہاڑی کی دھار ۔ پہلو کی سب سے چھوٹی پسلی جو پیٹ کے جانب سب سے آخری ہوتی ہے ۔ الخلاف بید کی قسم کا ایک درخت کیونکہ وہ امید کے خلاف اگتا ہے یا اس کا باطن ظاہر کے خلاف ہوتا ہے : نہ سالگی یک یا دو سال گذستہ باشد ۔ الخلیفی ۔ خلافت ۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ کا قول ہے اگر بار خلافت نہ ہوتا تو میں خود ہی اذان دیا کرتا ( اذان کی فضیلت کی طرف اشارہ ہے )- عرب ( اعرابي)- العَرَبُ : وُلْدُ إسماعیلَ ، والأَعْرَابُ جمعه في الأصل، وصار ذلک اسما لسكّان البادية .- قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا [ الحجرات 14] ، الْأَعْرابُ أَشَدُّ كُفْراً وَنِفاقاً [ التوبة 97] ، وَمِنَ الْأَعْرابِ مَنْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ [ التوبة 99] ، وقیل في جمع الأَعْرَابِ :- أَعَارِيبُ ، قال الشاعر :- أَعَارِيبُ ذو و فخر بإفك ... وألسنة لطاف في المقال والأَعْرَابِيُّ في التّعارف صار اسما للمنسوبین إلى سكّان البادية، والعَرَبِيُّ : المفصح،- والإِعْرَابُ : البیانُ. يقال : أَعْرَبَ عن نفسه . وفي الحدیث : «الثّيّب تُعْرِبُ عن نفسها» «1» أي : تبيّن . وإِعْرَابُ الکلامِ : إيضاح فصاحته، وخصّ الإِعْرَابُ في تعارف النّحويّين بالحرکات والسّکنات المتعاقبة علی أواخر الکلم،- ( ع ر ب ) العرب حضرت اسمعیل کی اولاد کو کہتے ہیں الاعراب دراصل یہ عرب کی جمع ہے مگر یہ لفظ بادیہ نشین لوگون کے ساتھ مختص ہوچکا ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا [ الحجرات 14] بادیہ نشین نے آکر کہا ہم ایمان لے آئے ۔ الْأَعْرابُ أَشَدُّ كُفْراً وَنِفاقاً [ التوبة 97] دیہاتی لوگ سخت کافر اور سخت منافق ہیں ۔ وَمِنَ الْأَعْرابِ مَنْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ [ التوبة 99] اور بعض نہ دیہاتی ایسے ہیں کہ خدا پر اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ اعراب کی جمع اعاریب آتی ہے کسی شاعر نے کہا ہے ( 3011 ) اعاریب ذو و فخر بافک والسنۃ لطاف فی المقابل اعرابی جو جھوٹے فخر کے مدعی ہیں اور گفتگو میں نرم زبان رکھتے ہیں ۔ - الاعرابی :- یہ اعراب کا مفرد ہے اور عرف میں بادیہ نشین پر بولا جاتا ہے العربی فصیح وضاحت سے بیان کرنے والا الاعراب کسی بات کو واضح کردینا ۔ اعرب عن نفسہ : اس نے بات کو وضاحت سے بیان کردیا حدیث میں ہے الثیب تعرب عن نفسھا : کہ شب اپنے دل کی بات صاف صاف بیان کرسکتی ہے ۔ اعراب الکلام کلام کی فصاحت کو واضح کرنا علمائے نحو کی اصطلاح میں اعراب کا لفظ ان حرکاتوسکنات پر بولا جاتا ہے جو کلموں کے آخر میں یکے بعد دیگرے ( حسب عوامل ) بدلتے رہتے ہیں ۔- دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ - قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - شدید - والشِّدَّةُ تستعمل في العقد، وفي البدن، وفي قوی النّفس، وفي العذاب، قال : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر 44] ، عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم 5] ، يعني : جبریل عليه السلام، وقال تعالی: عَلَيْها مَلائِكَةٌ غِلاظٌ شِدادٌ [ التحریم 6] ، وقال : بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر 14] ، فَأَلْقِياهُ فِي الْعَذابِ الشَّدِيدِ [ ق 26] . والشَّدِيدُ والْمُتَشَدِّدُ : البخیل . قال تعالی: وَإِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيدٌ [ العادیات 8] . - ( ش دد ) الشد - اور شدۃ کا لفظ عہد ، بدن قوائے نفس اور عذاب سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر 44] وہ ان سے قوت میں بہت زیادہ تھے ۔ عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم 5] ان کو نہایت قوت والے نے سکھایا ؛نہایت قوت والے سے حضرت جبریل (علیہ السلام) مراد ہیں ۔ غِلاظٌ شِدادٌ [ التحریم 6] تندخواہ اور سخت مزاج ( فرشتے) بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر 14] ان کا آپس میں بڑا رعب ہے ۔ - قتل - أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] - ( ق ت ل ) القتل - ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144]- یسلمون ۔ مضارع جمع مذکر غائب۔ اسلام ( افعال) مصدر، وہ مطیع ہوجائیں گے ۔ مطلب یہ کہ تمہیں ان سے اس وقت تک لڑنا ہوگا کہ وہ اسلام کے مطیع ہوجائیں ۔- طوع - الطَّوْعُ : الانقیادُ ، ويضادّه الكره قال عزّ وجلّ : ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت 11] ، وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران 83] ، والطَّاعَةُ مثله لکن أكثر ما تقال في الائتمار لما أمر، والارتسام فيما رسم . قال تعالی: وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء 81] ، طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد 21] ، أي : أَطِيعُوا، وقد طَاعَ له يَطُوعُ ، وأَطَاعَهُ يُطِيعُهُ «5» .- قال تعالی: وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن 12] ، مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء 80] ، وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب 48] ، وقوله في صفة جبریل عليه السلام : مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير 21] ، والتَّطَوُّعُ في الأصل : تكلُّفُ الطَّاعَةِ ، وهو في التّعارف التّبرّع بما لا يلزم کالتّنفّل، قال : فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة 184] ، وقرئ :( ومن يَطَّوَّعْ خيراً )- ( ط و ع ) الطوع - کے معنی ( بطیب خاطر ) تابعدار ہوجانا کے ہیں اس کے بالمقابل کرھ ہے جس کے منعی ہیں کسی کام کو ناگواری اور دل کی کراہت سے سر انجام دینا ۔ قرآن میں ہے : ۔ ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت 11] آسمان و زمین سے فرمایا دونوں آؤ دل کی خوشی سے یا ناگواري سے - وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران 83] حالانکہ سب اہل آسمان و زمین بطبیب خاطر یا دل کے جبر سے خدا کے فرمانبردار ہیں ۔ یہی معنی الطاعۃ کے ہیں لیکن عام طور طاعۃ - کا لفظ کسی حکم کے بجا لانے پر آجاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء 81] اور یہ لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم دل سے آپ کے فرمانبردار ہیں ۔ طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد 21]( خوب بات ) فرمانبردار ی اور پسندیدہ بات کہنا ہے ۔ کسی کی فرمانبرداری کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن 12] اور اس کے رسول کی فر مانبردار ی کرو ۔ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء 80] جو شخص رسول کی فرمانبردار ی کرے گا بیشک اس نے خدا کی فرمانبرداری کی ۔ وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب 48] اور کافروں کا کہا نہ مانو ۔ اور حضرت جبریل (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير 21] سردار اور امانتدار ہے ۔ التوطوع ( تفعل اس کے اصل معنی تو تکلیف اٹھاکر حکم بجالا نا کے ہیں ۔ مگر عرف میں نوافل کے بجا لانے کو تطوع کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة 184] اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے ۔ ایک قرات میں ومن یطوع خیرا ہے - أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ «5» ، وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ «6» .- والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل 1] ، وقوله :- فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعر :- 5-- أتيت المروءة من بابها - «7» فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) «1» فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم 27] . يقال : أتيته وأتوته - الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو أَتَى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت وَجَاءَ رَبُّكَ [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) " اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔- أجر - الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس 72] ، وَآتَيْناهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت 27] ، وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف 57] .- والأُجرة في الثواب الدنیوي، وجمع الأجر أجور، وقوله تعالی: وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء 25] كناية عن المهور، والأجر والأجرة يقال فيما کان عن عقد وما يجري مجری العقد، ولا يقال إلا في النفع دون الضر، نحو قوله تعالی: لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 199] ، وقوله تعالی: فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ [ الشوری 40] . والجزاء يقال فيما کان عن عقدٍ وغیر عقد، ويقال في النافع والضار، نحو قوله تعالی: وَجَزاهُمْ بِما صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيراً [ الإنسان 12] ، وقوله تعالی: فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ [ النساء 93] .- يقال : أَجَر زيد عمراً يأجره أجراً : أعطاه الشیء بأجرة، وآجَرَ عمرو زيداً : أعطاه الأجرة، قال تعالی: عَلى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمانِيَ حِجَجٍ [ القصص 27] ، وآجر کذلک، والفرق بينهما أنّ أجرته يقال إذا اعتبر فعل أحدهما، وآجرته يقال إذا اعتبر فعلاهما «1» ، وکلاهما يرجعان إلى معنی واحدٍ ، ويقال : آجره اللہ وأجره اللہ .- والأجير : فعیل بمعنی فاعل أو مفاعل، والاستئجارُ : طلب الشیء بالأجرة، ثم يعبّر به عن تناوله بالأجرة، نحو : الاستیجاب في استعارته الإيجاب، وعلی هذا قوله تعالی:- اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص 26] .- ( ا ج ر ) الاجر والاجرۃ کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دنیوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [هود : 29] میرا اجر تو خدا کے ذمے ہے ۔ وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت : 27] اور ان کو دنیا میں بھی ان کا صلہ عنایت کیا اور وہ آخرت میں بھی نیک لوگوں میں سے ہوں گے ۔ وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف : 57] اور جو لوگ ایمان لائے ۔ ۔۔۔ ان کے لئے آخرت کا اجر بہت بہتر ہے ۔ الاجرۃ ( مزدوری ) یہ لفظ خاص کر دنیوی بدلہ پر بولا جاتا ہے اجر کی جمع اجور ہے اور آیت کریمہ : وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء : 25] اور ان کے مہر بھی انہیں ادا کردو میں کنایہ عورتوں کے مہر کو اجور کہا گیا ہے پھر اجر اور اجرۃ کا لفظ ہر اس بدلہ پر بولاجاتا ہے جو کسی عہد و پیمان یا تقریبا اسی قسم کے عقد کی وجہ سے دیا جائے ۔ اور یہ ہمیشہ نفع مند بدلہ پر بولا جاتا ہے ۔ ضرر رساں اور نقصان دہ بدلہ کو اجر نہیں کہتے جیسے فرمایا لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ البقرة : 277] ان کو ان کے کاموں کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا ۔ فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ ( سورة الشوری 40) تو اس کا بدلہ خدا کے ذمے ہے الجزاء ہر بدلہ کو کہتے ہیں خواہ وہ کسی عہد کی وجہ سے ہو یا بغیر عہد کے اچھا ہو یا برا دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ وَجَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا [ الإنسان : 12] اور ان کے صبر کے بدلے ان کو بہشت کے باغات اور ریشم ( کے ملبوسات) عطا کریں گے ۔ فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ ( سورة النساء 93) اس کی سزا دوزخ ہے ۔ محاورہ میں ہے اجر ( ن ) زید عمرا یا جرہ اجرا کے معنی میں زید نے عمر کو اجرت پر کوئی چیز دی اور اجر عمر زیدا کے معنی ہوں گے عمرو نے زید کو اجرت دی قرآن میں ہے :۔ عَلَى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ [ القصص : 27] کہ تم اس کے عوض آٹھ برس میری خدمت کرو ۔ اور یہی معنی اجر ( مفاعلہ ) کے ہیں لیکن اس میں معنی مشارکت کا اعتبار ہوتا ہے اور مجرد ( اجرتہ ) میں مشارکت کے معنی ملحوظ نہیں ہوتے ہاں مال کے لحاظ سے دونوں ایک ہی ہیں ۔ محاورہ ہی ۔ اجرہ اللہ واجرہ دونوں طرح بولا جاتا ہے یعنی خدا اسے بدلہ دے ۔ الاجیرہ بروزن فعیل بمعنی فاعل یا مفاعل ہے یعنی معاوضہ یا اجرت کا پر کام کرنے والا ۔ الاستیجار کے اصل معنی کسی چیز کو اجرت پر طلب کرنا پھر یہ اجرت پر رکھ لینے کے معنی میں بولا جاتا ہے جس طرح کہ استیجاب ( استفعال ) بمعنی اجاب آجاتا ہے چناچہ آیت کریمہ : اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص : 26] اسے اجرت پر ملازم رکھ لیجئے کیونکہ بہتر ملازم جو آپ رکھیں وہ ہے جو توانا اور امانت دار ہو میں ( استئجار کا لفظ ) ملازم رکھنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔- حسن - الحُسْنُ : عبارة عن کلّ مبهج مرغوب فيه، وذلک ثلاثة أضرب :- مستحسن من جهة العقل .- ومستحسن من جهة الهوى.- ومستحسن من جهة الحسّ.- والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله،- فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78]- ( ح س ن ) الحسن - ہر خوش کن اور پسندیدہ چیز کو حسن کہا جاتا ہے اس کی تین قسمیں ہیں ۔ ( 1) وہ چیز جو عقل کے اعتبار سے مستحسن ہو ۔ ( 2) وہ جو خواہش نفسانی کی رو سے پسندیدہ ہو ۔ ( 3) صرف نگاہ میں بھی معلوم ہو ۔ الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ - ولي - وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه .- فمن الأوّل قوله :- وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] . - ومن الثاني قوله :- فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] ،- ( و ل ی ) الولاء والتوالی - اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ - عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا - ألم - الأَلَمُ الوجع الشدید، يقال : أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قال تعالی: فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَما تَأْلَمُونَ [ النساء 104] ، وقد آلمت فلانا، و عذاب أليم، أي : مؤلم . وقوله : لَمْ يَأْتِكُمْ [ الأنعام 130] فهو ألف الاستفهام، وقد دخل علی «لم» .- ( ا ل م ) الالم - کے معنی سخت درد کے ہیں کہا جاتا ہے الم یالم ( س) أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قرآن میں ہے :۔ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ ( سورة النساء 104) تو جس طرح تم شدید درد پاتے ہو اسی طرح وہ بھی شدید درد پاتے ہیں ۔ اٰلمت فلانا میں نے فلاں کو سخت تکلیف پہنچائی ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ( سورة البقرة 10 - 174) میں الیم بمعنی مؤلم ہے یعنی دردناک ۔ دکھ دینے والا ۔ اور آیت :۔ اَلَم یَاتِکُم (64 ۔ 5) کیا تم کو ۔۔ نہیں پہنچی ۔ میں الف استفہام کا ہے جو لم پر داخل ہوا ہے ( یعنی اس مادہ سے نہیں ہے )
دلیل خلافت راشدہ - قول باری ہے (قل للمخلفین من الاعراب ستدعون الی قوم اولی باس شدید۔ آپ ان پیچھے رہ جانے والے دیہاتیوں سے کہہ دیجئے کہ عنقریب تم ایسے لوگوں کی طرف بلائے جائو گے جو سخت لڑنے والے ہوں گے) ایک روایت کے مطابق اس سے مراد فارس اور روم ہے بعض کا قول ہے کہ اس سے بنو حنیفہ مراد ہیں۔- یہ بات حضرت ابوبکر (رض) ، حضرت عمر (رض) ، اور حضرت عثمان (رض) کی خلافت کی صحت پر دلالت کرتی ہے کیونکہ حضرت ابوبکر (رض) نے انہیں بنو حنیفہ کے خلاف جنگ کرنے کے لئے بلایا تھا اور حضرت عمر (رض) نے ارض فارس وروم کی فتح کے لئے ان کی خدمات طلب کی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان بدویوں پر اس شخص کی طاعت لازم قرار دی جو انہیں جنگ کے لئے بلائے اور اس سلسلے میں ان کی خدمات حاصل کرے۔- چنانچہ ارشاد ہے (تقاتلو نھم او یسلمون فان تطیعو ایوتکم اللہ اجر حسنا وان تتولوا کما تولیتم من قبل یعذبکم عذابا الیما یا تو ان سے لڑتے رہو یا وہ مطیع اسلام ہوجائیں سو اگر تم اس وقت اطاعت کرو گے تو اللہ تمہیں نیک اجر دے گا اور اگر روگردانی کرو گے جیسا کہ اس سے قبل روگردانی کرچکے ہو تو وہ تمہیں درد ناک عذاب کی سزا دے گا) ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس شخص کی دعوت پر لبیک نہ کہنے کی صورت میں سخت عذاب کی دھمکی دی جو انہیں درج بالا دشمنان اسلام کے خلاف جنگ کرنے کے لئے نہ بلائے۔- یہ بات حضرت ابوبکر (رض) اور حضرت عمر (رض) کی خلافت وامامت کی صحت پر دلالت کرتی ہے ۔ کیونکہ ان حضرات کی طاعت سے پیچھے رہ جانے کو سزا کا مستحق قرار دیا گیا ہے۔- اگر یہ کہا جائے کہ آیت زیر بحث میں مذکور لوگوں سے قبیلہ ہوازن اور ثقیف مراد ہیں جن کے ساتھ معرکہ حنین پیش آیا تھا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ آیت میں داعی یعنی انہیں دشمنان اسلام کے خلاف جنگ کی دعوت دینے والے سے حضور صلی الہل علیہ وسلم کی ذات مراد نہیں ہوسکتی کیونکہ قول باری ہے (فقل کن تخرجوا معی ابدا ولن تقاتلوامعی عدوا ۔ آپ کہہ دیجئے تم ہرگز میرے ساتھ کبھی نہیں نکلو گے اور نہ ہی میرے ساتھ مل کر کسی دشمن سے لڑو گے) ۔- یہ قول باری اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ انہیں دشمنوں کے خلاف جنگ کی دعوت دینے والے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علاوہ دوسرے لوگ تھے۔ دوسری طرف یہ بات واضح ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر (رض) اور حضرت عمر (رض) نے ہی انہیں اس کام کی دعوت دی تھی اور روم وفارس کے جنگی محاذوں پر جانے کے لئے ان کی خدمات طلب کی تھیں۔
آپ ویل، اشجع، مزینہ اور جہینہ والوں سے فرما دیجیے کہ عنقریب تم ایسے لوگوں سے لڑنے کی طرف بلائے جاؤ گے یعنی مسیلمہ کذاب کی قوم جو سخت لڑنے والے ہوں گے یا تو ان سے دین پر لڑتے رہو یا وہ مطیع اسلام ہوجائیں۔- سو اگر تم اطاعت کرو گے اور ان سے جہاد کرو گے اور توحید پر ثابت قدم رہو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں جنت میں اچھا معاوضہ دے گا اور اگر تم توبہ توحید اخلاص اور مسیلمہ کذاب کے ساتھ جہاد کرنے سے منہ پھیرو گے جیسا اس سے قبل حدیبیہ میں منہ موڑ چکے ہو تو وہ دردناک عذاب کی سزا دے گا۔
آیت ١٦ قُلْ لِّلْمُخَلَّفِیْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ سَتُدْعَوْنَ اِلٰی قَوْمٍ اُولِیْ بَاْسٍ شَدِیْدٍ تُقَاتِلُوْنَہُمْ اَوْ یُسْلِمُوْنَ ” ان بدوئوں میں سے جو لوگ پیچھے رہ گئے تھے آپ ان سے کہہ دیجیے کہ عنقریب تمہیں بلایا جائے گا ایک ایسی قوم کے ساتھ مقابلے کے لیے جو بہت طاقتور ہوگی ‘ یا تو تم ان سے قتال کرو گے یا وہ اطاعت قبول کرلیں گے۔ “- ان الفاظ میں جنگوں کے اس طویل سلسلے کی طرف اشارہ ہے جو چند سال بعد سلطنت ِروما اور سلطنت ایران کے خلاف شروع ہونے والا تھا۔ گویا یہ انقلابِ محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بین الاقوامی سطح پر پیش قدمی کے بارے میں پیشین گوئی ہے کہ جزیرہ نمائے عرب کا پورا علاقہ تمہارے زیر تسلط آجانے کے بعد عنقریب تمہارا ٹکرائو سلطنت روما اور سلطنت ِایران کی ایسی افواج سے ہوگا جن کی تعداد لاکھوں میں ہے اور وہ اپنے زمانے کے جدید ترین سامانِ حرب سے لیس ہیں۔ چناچہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان اعراب سے کہیں کہ توسیع و تصدیر انقلاب کے اس مرحلے میں تم لوگوں کو بھی اپنی سابقہ کوتاہیوں کی تلافی کرنے کا موقع دیا جائے گا۔- فَاِنْ تُطِیْعُوْا یُؤْتِکُمُ اللّٰہُ اَجْرًا حَسَنًا ” تو اس وقت اگر تم اطاعت کرو گے تو اللہ تمہیں بہت اچھا اجر دے گا۔ “- اگر تم لوگ ان معرکوں میں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کا دم بھرتے ہوئے اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مشن کے علمبردار بنو گے تو اللہ تعالیٰ سے اس کا بہت اچھا صلہ پالو گے۔ - وَاِنْ تَتَوَلَّوْا کَمَا تَوَلَّیْتُمْ مِّنْ قَبْلُ یُعَذِّبْکُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا ” لیکن اگر تم نے (اس موقع پر بھی) پیٹھ دکھا دی جیسے کہ تم نے پہلے پیٹھ دکھائی تھی تو وہ تمہیں بہت درد ناک عذاب دے گا۔ “- یہاں پر یہ اہم نکتہ نوٹ کرلیجئے کہ تُقَاتِلُوْنَہُمْ اَوْ یُسْلِمُوْنَ کے الفاظ میں کسی قوم کے ساتھ مقابلے میں تین ممکنہ صورتوں کا ذکر ہے۔ ” تُقَاتِلُوْنَہُمْ “ میں مخالف فریق کے ساتھ مقابلے اور جنگ کی طرف اشارہ ہے جبکہ ” یُسْلِمُوْنَ “ میں ان کے اسلام لانے یا اطاعت قبول کرنے کی دونوں صورتیں شامل ہیں۔ چناچہ عرب سے باہر مسلمانوں کا جہاں کہیں بھی کوئی معرکہ ہوتا تھا اس میں ان کی طرف سے مخالف فریق کے سامنے یہی تین نکات پیش کیے جاتے تھے۔
سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :30 اصل الفاظ ہیں اَوْ یُسْلِمُوْنَ ۔ اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں اور دونوں ہی مراد ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ اسلام قبول کرلیں ۔ دوسرے یہ کہ وہ اسلامی حکومت کی اطاعت قبول کرلیں ۔
14: دیہات کے ان لوگوں سے کہا جارہا ہے کہ آپ لوگوں کا خیبر کی جنگ میں شامل ہونا تو اللہ تعالیٰ کو منظور نہیں ہے، البتہ اس کے بعد ایک وقت آئے گا جب آپ لوگوں کو سخت جنگجو قوموں سے لڑنے کی دعوت دی جائے گی، اس وقت اگر آپ نے سچا مومن بن کر اسقامت سے کام لیا تو آپ کا یہ گناہ دھل جائے گا، اور اللہ تعالیٰ آپ کو ثواب عطا فرمائیں گے، اس میں وہ تمام جنگیں داخل ہیں جن میں کسی بڑی طاقت سے مسلمانوں کا مقابلہ ہوا، اور دیہات کے ان لوگوں کو اس میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی، صحابہ کرام سے منقول ہے کہ دیہات کے لوگوں کو یہ دعوت آنخصرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد حضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہ اور حضرت فاروق اعظم (رض) کے عہد خلافت میں اس وقت دی گئی جب مسلمانوں کا مقابلہ مسیلمہ کذاب اور قیصر وکسرٰی کی طاقتوں سے ہوا، اس موقع پر دیہات کے ان لوگوں میں کچھ حضرات تائب بھی ہوگئے تھے۔