چودہ سو صحابہ اور بیعت رضوان پہلے بیان ہو چکا ہے کہ یہ بیعت کرنے والے چودہ سو کی تعداد میں تھے اور یہ درخت ببول کا تھا جو حدیبیہ کے میدان میں تھا ، صحیح بخاری شریف میں ہے کہ حضرت عبدالرحمن جب حج کو گئے تو دیکھا کہ کچھ لوگ ایک جگہ نماز ادا کر رہے ہیں پوچھا کہ کیا بات ہے ؟ تو جواب ملا کہ یہ وہی درخت ہے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت الرضوان ہوئی تھی ۔ حضرت عبدالرحمن نے واپس آکر یہ قصہ حضرت سعید بن مسیب سے بیان کیا تو آپ نے فرمایا میرے والد صاحب بھی ان بیعت کرنے والوں میں تھے ان کا بیان ہے کہ بیعت کے دوسرے سال ہم وہاں گئے لیکن ہم سب کو بھلا دیا گیا وہ درخت ہمیں نہ ملا پھر حضرت سعید فرمانے لگے تعجب ہے کہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی زیادہ جاننے والے ہو ۔ پھر فرمایا ہے ان کی دلی صداقت نیت وفا اور سننے اور ماننے والی عادت کو اللہ نے معلوم کر لیا پس ان کے دلوں میں اطمینان ڈال دیا اور قریب کی فتح انعام فرمائی ۔ یہ فتح وہ صلح ہے جو حدیبیہ کے میدان میں ہوئی جس سے عام بھلائی حاصل ہوئی اور جس کے قریب ہی خیبر فتح ہوا پھر تھوڑے ہی زمانے کے بعد مکہ بھی فتح ہو گیا پھر اور قلعے اور علاقے بھی فتح ہوتے چلے گئے ۔ اور وہ عزت و نصرت و فتح و ظفر و اقبال اور رفعت حاصل ہوئی کہ دنیا انگشت بدنداں حیران و پریشان رہ گئی ۔ اسی لئے فرمایا کہ بہت سی غنیمتیں عطا فرمائے گا ۔ سچے غلبہ والا اور کامل حکمت والا اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے ہم حدیبیہ کے میدان میں دوپہر کے وقت آرام کر رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منادی نے ندا کی کہ لوگو بیعت کے لئے آگے بڑھو روح القدس آچکے ہیں ۔ ہم بھاگے دوڑے حاضر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہوئے آپ اس وقت ببول کے درخت تلے تھے ہم نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی جس کا ذکر آیت ( لَقَدْ رَضِيَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ يُبَايِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِيْ قُلُوْبِهِمْ فَاَنْزَلَ السَّكِيْنَةَ عَلَيْهِمْ وَاَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيْبًا 18ۙ ) 48- الفتح:18 ) میں ہے ۔ حضرت عثمان کی طرف سے آپ نے اپنا ہاتھ دوسرے ہاتھ پر رکھ کر خود ہی بیعت کر لی ، تو ہم نے کہا عثمان بڑے خوش نصیب رہے کہ ہم تو یہاں پڑے ہوئے ہیں اور وہ بیت اللہ کا طواف کر رہے ہوں گے یہ سن کر جناب رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بالکل ناممکن ہے کہ عثمان ہم سے پہلے طواف کر لے گو کئی سال تک وہاں رہے ۔
18۔ 1 یہ ان اصحاب بیعت رضوان کے لیے رضائے الہی اور ان کے پکے سچے مومن ہونے کا سرٹیفکیٹ ہے جنہوں نے حدیبیہ میں ایک درخت کے نیچے اس بات پر بیعت کی کہ وہ قریش مکہ سے لڑیں گے اور راہ فرار اختیار نہیں کریں گے۔ 18۔ 2 یعنی ان کے دلوں میں جو صدق و صفا کے جذبات تھے، اللہ ان سے بھی واقف ہے۔ اس سے ان دشمنان صحابہ اکرام کا رد ہوگیا جو کہتے ہیں کہ ان کا ایمان ظاہری تھا، دل سے وہ منافق تھے۔ 18۔ 3 یعنی وہ نہتے تھے جنگ کی نیت سے نہیں گئے تھے اس لیے جنگی ہتھیار مطلوبہ تعداد میں نہیں تھے اس کے باوجود جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عثمان (رض) کا بدلہ لینے کے لیے ان سے جہاد کی بیعت لی تو بلا ادنی تامل سب لڑنے کے لیے تیار ہوگئے یعنی ہم نے موت کا خوف ان کے دلوں سے نکال دیا اور اس کی جگہ صبر و سکینت ان پر نازل فرما دی جس کی بنا پر انہیں لڑنے کا حوصلہ ہوا۔ 18۔ 4 اس سے مراد وہی فتح خیبر ہے جو یہودیوں کا گڑھ تھا اور حدیبیہ سے واپسی پر مسلمانوں نے اسے فتح کیا۔
[٢٤] صحابہ کرام (رض) پر طعن کرنے والے ؟ اس آیت کا آغاز ( لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ ) سے ہوا ہے۔ اسی وجہ سے اس بیعت کا نام بیعت رضوان پڑگیا یعنی ایسی مخلصانہ اور سرفروشانہ بیعت جس پر اللہ نے ان لوگوں کو اپنی خوشنودی کا سرٹیفیکیٹ دے دیا۔ اور بعض احادیث میں صراحت سے یہ مذکور ہے کہ اس بیعت میں حصہ لینے والے سب جنتی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بعض لوگ ان صحابہ کرام کے ایمان میں بھی شک کرتے ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ بلاشبہ یہ لوگ بیعت رضوان کے وقت تو اسلام کے وفادار اور اس کے لئے مخلص تھے مگر بعد میں بےوفاثابت ہوئے۔ گویا ان لوگوں نے پہلا الزام تو ان عظیم المرتبت صحابہ کرام (رض) پر لگایا تھا۔ دوسرا اللہ تعالیٰ پر لگایا جسے اپنی رضامندی کا سرٹیفکیٹ دیتے وقت اتنا بھی پتا نہ چل سکا کہ جن لوگوں کو میں یہ سند دے رہا ہوں وہ تو بعد میں بےوفا نکلیں گے۔ گویا یہ نظریہ ممتاز صحابہ کرام کی توہین ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے علم غیب پر بھی زبردست چوٹ ہے۔ ایسے لوگوں کو اپنے ایمان کی خیرمنانا چاہئے۔- خ درخت جس کے نیچے بیعت کی گئی تھی :۔ جس درخت کے نیچے رسول اللہ نے بیعت لی تھی اس کے متعلق دو طرح کی روایات ملتی ہیں۔ طبری کی روایت کے مطابق مسلمان اس درخت کی زیارت کو جانے لگے۔ وہ وہاں جاکر نمازیں اور نوافل وغیرہ ادا کرتے تھے۔ سیدنا عمر کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے اسے اپنے دور خلافت میں کٹوا دیا۔ اس کے مقابلہ میں صحیح اور معتبر روایات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اگلے ہی سال خود بیعت رضوان میں شامل ہونے والے بعض صحابہ وہاں گئے تو وہ خود بھی اس درخت کو پہچان نہ سکے جس کے نیچے بیعت لی گئی تھی۔ اس سلسلہ میں درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے :- ١۔ سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری (رض) کہتے ہیں کہ حدیبیہ کے دن ہم ایک ہزار چار سو آدمی تھے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر)- طارق بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں حج کی نیت سے روانہ ہوا۔ راستے میں کچھ لوگوں کو نماز ادا کرتے دیکھا تو پوچھا کہ یہ مسجد کیسی ہے ؟ کہنے لگے : یہاں وہ درخت تھا جس کے نیچے آپ نے صحابہ سے بیعت رضوان لی تھی۔ یہ سن کر میں سعید بن مسیب کے پاس آیا۔ تو انہوں نے کہا کہ میرے والد (مسیب بن حزم) ان لوگوں سے تھے جنہوں نے درخت کے تلے بیعت کی تھی۔ وہ کہتے تھے کہ جب میں دوسرے سال وہاں گیا تو اس درخت کو پہچان نہ سکا سعید کہتے ہیں کہ آپ کے اصحاب تو اس درخت کو پہچان نہ سکے۔ اور تم لوگ ان سے زیادہ علم رکھتے ہو۔ (کہ اسے پہچان کر وہاں مسجد بنا ڈالی) (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب غزوۃ الحدیبیۃ)- [٢٥] اس دن جنگ کو روکنا اللہ کا احسان تھا :۔ یعنی بیعت کرنے والوں کی نسبت یہ معلوم ہوگیا کہ ان میں اسلام کی خاطر کس قدر جان نثاری اور سرفروشی کا جذبہ موجود ہے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو اس بات پر جما دیا کہ نتائج خواہ کیسے برآمد ہوں ہمیں ضرور جنگ لڑنا چاہئے۔ بظاہر جو نتیجہ نظر آرہا تھا وہ تو یہی تھا ایک طرف صرف چودہ سو نہتے اور پردیسی مسلمان تھے۔ دوسری طرف ان کا طاقتور جانی دشمن تھا جو سازوسامان کے لحاظ سے، تعداد کے لحاظ سے، رسد کے لحاظ سے غرضیکہ ہر لحاظ سے ان سے بڑھ کر تھا اور سب سے بڑی بات یہ کہ وہ اپنے گھر پر تھا اور اس کے حریف اس مسلمان کے گھر آگئے تھے۔ اس صورت حال میں اللہ کا مسلمانوں کے دلوں کو جنگ پر جما دینا اور اسے اطمینان مہیا کردینا واقعی اللہ کی بہت بڑی نعمت تھی۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جنگ کی طرف اس قدر پیش رفت کے بعد اللہ نے کافروں سے بہرحال صلح کرلینے کی خاطر ان کے جذبات کو ٹھنڈا کرکے انہیں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت پر مطمئن کردیا۔- [٢٦] قریبی فتح سے مراد فتح خیبر ہے جو صلح نامہ حدیبیہ کے صرف تین ماہ بعد وقوع پذیر ہوئی تھی۔
(١) لقد (رض) عن المومنین…: اس سے پہلے ” ان الذین یبایعونک انما یبایعون اللہ “ میں حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ پر بیعت کو اللہ تعالیٰ سے بیعت قرار دینے کے بعد اس سے پیچھے رہنے والوں کا حال بیان فرمایا، اب دوبارہ بیعت کرنے والوں پر اپنی رضا کا اور دوسری بشارتوں کا ذکر فرمایا ۔- (٢) اس درخت کے نیچے بیعت کرنے والے صحابہ کرام کو بیعت کے وقت ہی کائنات کی سب سے بڑی نعمت مل گئی اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی، کیونکہ اس سے بڑی نعمت کوئی نہیں، جیسا کہ فرمایا :(ورضوان من اللہ اکبر) (التوبۃ : ٨٢)” اور اللہ کی طرف سے تھوڑی سی خوشنوید سب سے بڑی ہے۔ “ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(لقد (رض) المومنین اذیبا یعونک تحت الشجرۃ)” بلاشبہ یقینا اللہ ایمان والوں سے اس وقت راضی ہوگیا جب وہ اس درخت کے نیچے تجھ سے بیعت کر رہے تھے۔ “ اس رضا ہی کی وجہ سے اس کا نام بیعت رضوان ہوگیا ۔ اللہ تعالیٰ کی رضا اور جنت کا داخلہ لازم و ملزوم ہیں۔ (دیکھیے مجادلہ : ٢٢۔ توبہ : ٧٢) جب ان صحابہ کرام (رض) کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے شہادت دے دی کہ وہ ان پر راضی ہوگیا تو کس قدر بدنصیب ہے وہ گروہ جو ان مقبول بندوں سے ناراض اور ان سے بغض و عداوت رکھے اور کہے کہ وہ بعد میں نعوذ باللہ مرتد ہوگئے۔ کیا اللہ تعالیٰ کو آئندہ کا علم نہیں تھا اور وہ رضا کیسی ہے جس کے باوجود وہ بندے مرتد ہوجائیں جن پر وہ راضی ہے ؟ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے علاوہ مزید حاصل ہونے والی نعمتوں کا بیان آگے آرہا ہے۔- قرآن مجید کے علاوہ صحیح احادیث میں بھی بیعت رضوان میں شریک صحابہ کی بہت زیادہ فضیلت آئی ہے۔ عمرہ بن دینار کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبد اللہ (رض) سے سنا سے سنا، وہ بیان کرتے ہیں :” حدیبیہ کے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم سے فرمایا (انتم خیر اھل الارض)” تم زمین والوں میں سب سے بہتر ہ۔ “ اور (اس وقت) ہم چودہ سو تھے اور اگر آج مجھے دکھائی دیتا ہوتا تو میں تمہیں اس درخت کی جگہ دکھاتا۔ “ (بخاری، المغازی، باب غزوۃ الحدیبۃ :3153 ام مبشر (رض) بیان کرتیہیں کہ انہوں نے حفصہ (رض) کے پاس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ کہتے ہوئے سنا :(لا یدخل النار، ان شاء اللہ من اصحاب الشجرۃ اخد الذین یایعوا تحتھا) (مسلم، فضائل الصحابۃ باب من فضائل اصحاب الشجرۃ…؟ ٢٣٩٦” ان شاء اللہ اس درختوں والوں میں سے کوئی بھی آگ میں داخل نہیں ہوگا جنہوں نحے اس کے نیچے بیعت کی۔ ذذ جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ حاطب (رض) کا ایک غلام حاطب (رض) کی شکایت لے کر آیا اور کہنے لگا :” یا رسول اللہ حاطب ضرور آگ میں داخل ہوگا۔ “ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(کذبت لایدخلھا فانہ شھد بدرا و الحدیبیۃ) (مسلم ، فضائل الصحابۃ، باب من فضائل حاطب بن ابی بلتعۃ …: ٢٣٩٥)” ہم حدیبیہ کے دن چودہ سو تھے، ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیعت کی اور عمر (رض) درخت کے نیچے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے اور وہ کیکر کا درخت تھا۔ “- (٤) طارق بن عبداللہ نے بیان کیا کہ میں حج کرنے کے لئے گیا تو میں نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ نماز پڑھ رہے ہیں، میں نے پوچھا :” کیا یہ نماز کی جگہ ہے ؟ “ انہوں نے کہا :” یہ وہ درخت ہے جہاں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیعت رضوان لی تھی۔ “ میں سعید ابن مسیب کے پاس آیا اور انہیں بتایا تو سعید نے فرمایا :” میرے والد نے مجھے بتایا کہ وہ بھی ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے درخت کے نیچے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیعت کی، تو جب ہم اگلے سال آئے تو ہمیں وہ درخت بھلا دیا گیا، مہ اسے پاہی نہ سکے۔ “ سعید نے فرمایا :” اصحاب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تو وہ معلوم نہ ہوا اور تم نے اسے جان لیا، پھر تم زیادہ جاننے والے ہوئے ؟ “ (بخاری ، المغازی، باب غزوۃ الحدییۃ :3163) عبدا للہ بن عمر (رض) نے فرمایا (رجعنا من العام المقبل فما اجتمع منا اثنان علی الشجرۃ التی یایعنا تحتھا، کانت رحمۃ من اللہ) (بخاری، الجھاد و السری، باب البیعۃ فی الحرب ان لایفروا :2958)” ہم آئندہ سال دوبارہ آئے تو ہم میں سے دو شخص بھی اس درخت پر متفق نہ ہو سکے جس کے نیچے ہم نے بیعت کی تھی، یہ اللہ کی طرف سے رحمت تھی۔ “ فتح الباری میں اس کی شرح کرتے ہوئے حافظ ابن حجر (رح) نے فرمایا :” اس میں حکمت یہ تھی کہ اس درخت کے نیچے خیر کے اس کام کی وجہ سے لوگ فتنے میں مبتلا نہ ہوجائیں، کیونکہ اگر اس کی پہچان باقی رہتی تو بعض جاہل لوگوں سے اس کی تعظیم کا خطرہ تھا، حتیٰ کہ ممکن تھا کہ وہ یہ عقیدہ رکھ لیتے کہ اس درخت میں نفع اور نقصان پہنچانے کی طاقت ہے، جیسا کہ اب اس سے بھی معمولی چیزوں میں اس کا مشاہدہ ہو رہا ہے۔ “ ابن حجرنے اپنے زمانے کی بات کی ہے، ہمارے دور میں تو آثار پرستی کا معاملہ اس سے بھی کہیں دور پہنچ چکا ہے۔ آج کل جو لوگ پیروں فقیروں کے آستانوں کے درختوں، پتھروں اور قبروں کو پوجنے سے نہیں چوکتے اگر انھیں وہ درخت مل جاتا تو وہ کیا کچھ نہ کرتے۔- (٥) فعلم ما فی قلوبھم فانزل ال کسی نۃ علیھم : یعنی اللہ تعالیٰ نے اس صدق، اخلاص اور سمع و طاعت کو جان لیا جس کی وجہ سے انہوں نے دشمن کے اعتبار سے تعداد میں بہت کم ہونے اور تقریباً نہتے ہونے کے باوجود آخر دم تک میدان میں جمے رہنے کی بیعت کی اور اس سخت اضطراب اور بےقراری کو بھی جو ان کے دل میں صلح کی ناگوار شرطوں پر پیدا ہوئی ، جس کا باعث کوئی نافرمانی نہ تھی بلکہ اللہ تعالیٰ ، اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اسلام کی محبت اور ان کی عزت اور سربلندی کا جذبہ تھا۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان کے صدق و اخلاص کی بدولت ان کے دل پر سکینت نازل فرمائی، جس کی بدولت انہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہر حکم پر دلی اطمینان اور سکون حاصل ہوگیا اور وہ جس طرح موت تک لڑنے کے لئے تیار تھے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبول کردہ شرطوں پر صلح کے لئے بھی تیار ہوگئے۔- (٦) یہ آیت بیعت رضوان والے صحابہ کے مخلص مومن ہونے کی واضح دلیل ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خود ان کے دلوں کے اخلاص کی شہادت دی ہے۔ نہایت بدنصیب ہیں وہ لوگ جو ایسے مخلص ایمان والوں کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ منافق تھے۔ (نعوذ باللہ من ذلک)- (٧) واثا بھم فتحاً قریباً : عام مفسرین اس ” فتح قریب “ سے مراد فتح خیبر لیتے ہیں اور یہ کچھ بعید بھی نہیں، مگر اہل علم کا ایک قول اس کے بارے میں یہ بھی ہے کہ اس سے مراد صلح حدیبیہ ہے، کیونکہ بیعت رضوان کے بعد یہی وہ بنیادی اور اہم فتح تھی جس سے مسلمانوں کے لئے دوسری تمام فتوحات کے راستے کھل گئے اور اس کے کھچ ہی عرصہ بعد خیبر فتح ہوا، پھر مکہ مکرمہ کی فتح ہوئی، حتیٰ کہ پورا جزیرہ عرب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں اسلام کے زیر نگیں آگیا۔ اس سورت کی ابتدا میں اس صلح ہی کو فتح مبین فرمایا ہے۔
خلاصہ تفسیر - تحقیق اللہ ان مسلمانوں سے (جو آپ کے ہم سفر ہیں) خوش ہوا جبکہ یہ لوگ آپ سے درخت کے نیچے (جہاں میں ثابت قدم رہنے پر) بیعت کر رہے تھے اور ان کے دلوں میں جو کچھ (اخلاص اور عہد کو پورا کرنے کا عزم) تھا اللہ کو وہ بھی معلوم تھا اور (اس وقت) اللہ تعالیٰ نے ان (کے قلب) میں اطمینان پیدا کردیا (جس سے ان کو خدا کا حکم ماننے میں ذرا پس و پیش یا تردد نہیں ہوا۔ یہ تو معنوی نعمتیں ہوئیں) اور (اس کے ساتھ کچھ محسوس نعمتیں بھی دی گئیں جن میں معنوی نعمتیں بھی شامل تھیں، چنانچہ) ان کو ایک لگتے ہاتھ فتح دے دی (مراد اس فتح سے فتح خیبر ہے) اور (اس فتح میں) بہت سی غنیمتیں بھی (دیں) جن کو یہ لوگ لے رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ بڑا زبردست (اور) بڑا حکمت والا ہے (کہ اپنی قدرت اور حکمت سے جس وقت جس کے لئے مناسب سمجھتا ہے فتح دے دیتا ہے اور کچھ اسی فتح خیبر پر بس نہیں بلکہ) اللہ تعالیٰ نے تم سے (اور بھی) بہت سی غنیمتوں کا وعدہ کر رکھا ہے جن کو تم لو گے سو (ان میں سے) سردست تم کو یہ دے دی ہے اور (اس کے دینے کے لئے خیبر اور حلفاء خیبر کے) لوگوں کے ہاتھ تم سے روک دیئے (یعنی سب کے دلوں پر رعب ڈال دیا کہ ان کو زیادہ دراز دستی کی ہمت نہ ہوئی اور اس سے تمہارا دنیوی نفع بھی مقصود تھا تاکہ آرام اور فراغت ملے) اور (دینی نفع بھی تھا) تاکہ یہ (واقعہ) اہل ایمان کیلئے (دوسرے وعدوں کے سچے ہونے کا) ایک نمونہ ہوجائے (یعنی خدا کے وعدوں کے سچا ہونے پر اور زیادہ ایمان پختہ ہوجائے) اور تاکہ (اس نمونہ کے ذریعہ) تم کو (آئندہ کے لئے ہر کام میں) ایک سیدھے راستہ پر ڈال دے (مراد اس راستہ سے توکل اور اللہ پر بھروسہ ہے یعنی ہمیشہ کے لئے اس واقعہ کو سوچ کر اللہ پر اعتماد سے کام لیا کرو اس طرح دینی نفع دو ہوگئے ایک علمی اور اعتقادی جس کو ولتکون سے بیان فرمایا، دوسرا عملی و اخلاقی جس کو یھدیکم کے الفاظ سے ارشاد فرمایا) اور ایک فتح اور بھی (موعود) ہے جو ( اس وقت تک) تمہارے قابو میں نہیں آئی (مراد اس سے فتح مکہ ہے جو اب تک واقع نہیں ہوئی تھی مگر) خدا تعالیٰ اس کو احاطہ (قدرت) میں لئے ہوئے ہے (جب چاہے گا تم کو عطا کر دے گا) اور (اسی کی کیا تخصیص ہے) اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔- - معارف و مسائل - (آیت) لَقَدْ رَضِيَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ يُبَايِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ ، اس بیعت سے مراد بیعت حدیبیہ ہے جس کا ذکر اس سے پہلے بھی (آیت) ان الذین یبایعونک میں آ چکا ہے یہ آیت بھی اسی سے متعلق اور اس کی تاکید ہے اس آیت میں حق تعالیٰ نے اس بیعت کے شرکاء سے اپنی رضا کا اعلان فرمایا دیا ہے اسی لئے اس کو بیعت رضوان بھی کہا جاتا ہے اور مقصود اس سے ان شرکاء بیعت کی مدح اور ان کو اس عہد کے پورا کرنے کی تاکید ہے۔ صحیحین میں حضرت جابر کی روایت ہے کہ حدیبیہ کے دن ہماری تعداد چودہ سو نفر کی تھی ہم سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انتم خیر اھل الارض، یعنی تم لوگ تمام روئے زمین کے انسانوں سے بہتر ہو اور صحیح مسلم میں ام بشر سے مرفوعاً روایت ہے کہ لایدخل النار احد ممن بایع تحت الشجرة، یعنی جن لوگوں نے اس درخت کے نیچے بیعت کی ہے ان میں کوئی جہنم میں نہیں جائے گا (مظہری) اس لئے اس بیعت کے شرکاء کی مثال شرکاء غزوہ بدر کی سی ہے جیسا ان کے متعلق قرآن و حدیث میں رضائے الٰہی اور جنت کی بشارتیں ہیں اسی طرح شرکاء بیعت رضوان کے لئے بھی یہ بشارت آئی ہے۔ یہ بشارتیں اس پر شاہد ہیں کہ ان سب حضرات کا خاتمہ ایمان اور اعمال صالحہ مرضیہ پر ہوگا کیونکہ رضائے الٰہی کا یہ اعلان اس کی ضمانت دے رہا ہے۔- صحابہ کرام پر طعن وتشنیع اور ان کی لغزشوں میں غور و بحث اس آیت کیخلاف ہے :- تفسیر مظہری میں فرمایا کہ جن خیار امت کے متعلق اللہ تعالیٰ نے غفران و مغفرت کا یہ اعلان فرما دیا ہے، اگر ان سے کوئی لغزش یا گناہ ہوا بھی ہے تو یہ آیت اس کی معافی کا اعلان ہے۔ پھر ان کے ایسے معاملات کو جو مستحسن نہیں ہیں غور و فکر اور بحث و مباحثہ کا میدان بنانا بدبختی اور بظاہر اس آیت کی مخالفت ہے۔ یہ آیت روافض کے قول کی واضح تردید ہے جو ابوبکر و عمر اور دوسرے صحابہ پر کفر و نفاق کے الزام لگاتے ہیں - شجرة رضوان :- شجرہ، جس کا ذکر اس آیت میں آیا ہے ایک ببول کا درخت تھا اور مشہور یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد کچھ لوگ وہاں چل کر جاتے اور اس درخت کے نیچے نمازیں پڑھتے تھے۔ حضرت فاروق اعظم کو خطرہ ہوا کہ کہیں آئندہ آنے والے جہلاء اسی درخت کی پرستش نہ شروع کردیں جیسے پچھلی امتوں میں اس طرح کے واقعات ہوئے ہیں اس لئے اس درخت کو کٹوا دیا مگر صحیحین میں ہے کہ حضرت طارق بن عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ حج کے لئے گیا تو راستے میں میرا گزر ایسے لوگوں پر ہوا جو ایک مقام پر جمع تھے اور نماز پڑھ رہے تھے میں نے ان سے پوچھا کہ یہ کونسی مسجد ہے انہوں نے کہا کہ یہ وہ درخت ہے جس کے نیچے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیعت رضوان لی تھی، میں اس کے بعد حضرت سعید بن مسیب کے پاس حاضر ہوا اور اس واقعہ کی خبر ان کو دی، انہوں نے فرمایا کہ میرے والد ان لوگوں میں سے تھے جو اس بیعت رضوان میں شریک ہوئے انہوں نے مجھ سے فرمایا کہ ہم جب اگلے سال مکہ مکرمہ حاضر ہوئے تو ہم نے وہ درخت تلاش کیا ہمیں بھول ہوگئی اس کا پتہ نہیں لگا۔ پھر سعید بن مسیب نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ جو خود اس بیعت میں شریک تھے ان کو تو پتہ نہیں لگا تمہیں وہ معلوم ہوگیا عجیب بات ہے کیا تم ان سے زیادہ واقف ہو (روح المعانی) اس سے معلوم ہوا کہ بعد میں لوگوں نے محض اپنے تخمینہ اور اندازہ سے کسی درخت کو متعین کرلیا اور اس کے نیچے حاضر ہونا اور نمازیں پڑھنا شروع کردیا، فاروق اعظم کو یہ بھی معلوم تھا کہ یہ وہ درخت نہیں پھر خطرہ ابتلائے شرک کا لاحق ہوگیا اس لئے اس کو قطع کرا دیا ہو۔ کیا بعید ہے۔- فتح خیبر :- خیبر در حقیقت ایک صوبہ کا نام ہے جس میں بہت سی بستیاں اور قلعے اور باغات شامل ہیں (مظہری) - (آیت) وَاَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيْبًا، اس فتح قریب سے مراد باتفاق فتح خیبر ہے جو حدیبیہ سے واپس آنے کے بعد واقع ہوئی ہے بعض روایات کے مطابق تو حدیبیہ سے واپسی کے بعد آپ کا قیام مدینہ منورہ میں صرف دس روز اور دوسری روایت کے مطابق بیس روز رہا اس کے بعد خیبر کے لئے روانہ ہوگئے اور ابن اسحاق کی روایت کے مطابق آپ ذی الحجہ میں مدینہ طیبہ واپس تشریف لائے اور محرم 7 ہجری میں آپ غزوہ خیبر کے لئے تشریف لے گئے اور ماہ صفر سن 7 ہجری میں خیبر فتح ہوا۔ واقدی کے مغازی میں یہی لکھا ہے اور حافظ ابن حجرنے فرمایا کہ یہی راحج ہے (تفسیر مظہری )- بہرحال یہ ثابت ہوا کہ یہ واقعہ فتح خیبر سفر حدیبیہ سے کافی دنوں کے بعد پیش آیا ہے اور سورة فتح کا سفر حدیبیہ کے دوران نازل ہونا سب کے نزدیک متفق علیہ ہے البتہ اس میں اختلاف ہے کہ پوری سورت اسی وقت نازل ہوئی یا کچھ آیتیں بعد میں آئیں۔ اگر پہلی صورت راجح ہو تو ان آیتوں میں واقعہ خیبر کا بیان بطور پیشگوئی کے ہو اور اس کو بصیغہ ماضی قطعی اور یقینی ہونے کی بناء پر تعبیر کیا گیا اور اگر دوسرا قول راحج ہو تو یہ ہوسکتا ہے کہ یہ آیتیں بعد وقوع فتح خیبر کے نازل ہوئی ہوں واللہ اعلم۔
لَقَدْ رَضِيَ اللہُ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ يُبَايِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَا فِيْ قُلُوْبِہِمْ فَاَنْزَلَ السَّكِيْنَۃَ عَلَيْہِمْ وَاَثَابَہُمْ فَتْحًا قَرِيْبًا ١٨ ۙ- ( قَدْ )- : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] ، قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران 13] ، قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة 1] ، لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ، لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة 117] ، وغیر ذلك، ولما قلت لا يصحّ أن يستعمل في أوصاف اللہ تعالیٰ الذّاتيّة، فيقال : قد کان اللہ علیما حكيما، وأما قوله : عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل 20] ، فإنّ ذلک متناول للمرض في المعنی، كما أنّ النّفي في قولک :- ما علم اللہ زيدا يخرج، هو للخروج، وتقدیر ذلک : قد يمرضون فيما علم الله، وما يخرج زيد فيما علم الله، وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة .- نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ .- و ( قَدْ ) و ( قط) «2» يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر .- ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے ۔ قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران 13] تمہارے لئے دوگرہوں میں ۔۔۔۔ ( قدرت خدا کی عظیم الشان ) نشانی تھی ۔ قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة 1] خدا نے ۔۔ سن لی ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ( اے پیغمبر ) ۔۔۔۔۔ تو خدا ان سے خوش ہوا ۔ لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة 117] بیشک خدا نے پیغمبر پر مہربانی کی ۔ اور چونکہ یہ فعل ماضی پر تجدد کے لئے آتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے اوصاف ذاتیہ کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا ۔ لہذا عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل 20] کہنا صحیح نہیں ہے اور آیت : اس نے جانا کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوتے ہیں ۔ میں قد لفظا اگر چہ علم پر داخل ہوا ہے لیکن معنوی طور پر اس کا تعلق مرض کے ساتھ ہے جیسا کہ ، ، میں نفی کا تعلق خروج کے ساتھ ہے ۔ اور اس کی تقدریروں ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔- رضي - يقال : رَضِيَ يَرْضَى رِضًا، فهو مَرْضِيٌّ ومَرْضُوٌّ. ورِضَا العبد عن اللہ : أن لا يكره ما يجري به قضاؤه، ورِضَا اللہ عن العبد هو أن يراه مؤتمرا لأمره، ومنتهيا عن نهيه، قال اللہ تعالی:- رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة 119] ، وقال تعالی: لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ، وقال تعالی: وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة 3] ، وقال تعالی: أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة 38] ، وقال تعالی: يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ- [ التوبة 8] ، وقال عزّ وجلّ : وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب 51] ، والرِّضْوَانُ :- الرّضا الکثير، ولمّا کان أعظم الرِّضَا رضا اللہ تعالیٰ خصّ لفظ الرّضوان في القرآن بما کان من اللہ تعالی: قال عزّ وجلّ : وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ- [ الحدید 27] ، وقال تعالی: يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح 29] ، وقال : يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة 21] ، وقوله تعالی: إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ- [ البقرة 232] ، أي : أظهر كلّ واحد منهم الرّضا بصاحبه ورَضِيَهُ.- ( ر ض و ) رضی - ( س ) رضا فھو مرضی و مرضو ۔ راضی ہونا ۔ واضح رہے کہ بندے کا اللہ تعالیٰ سے راضی ہونا یہ ہے کہ جو کچھ قضائے الہیٰ سے اس پر وارد ہو وہ اسے خوشی سے بر داشت کرے اور اللہ تعالیٰ کے بندے پر راضی ہونے کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اسے اپنے اوامر کا بجا لانے والا اور منہیات سے رکنے والا پائے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة 119] اللہ تعالیٰ ان سے خوش اور وہ اللہ تعالیٰ سے خوش ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] تو اللہ تعالیٰ ضرور ان مسلمانوں سے خوش ہوتا ہے وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة 3] اور ہم نے تمہارے لئے دین اسلام کو پسند فرمایا : ۔ أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة 38] کیا آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی پر قناعت کر بیٹھے ہو ۔ يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة 8] اپنی زبانی باتوں سے تو تم کو رضا مند کردیتے ہیں اور ان کے دل ہیں کہ ان باتوں سے انکار کرتے ہیں ۔ وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب 51] اور آزردہ خاطر نہ ہوں گی اور جو کچھ ( بھی ) تم ان کو دوگے وہ ( لے کر سب ) راضی ہوجائیں گی ۔ الرضوان رضائے کثیر یعنی نہایت خوشنودی کو کہتے ہیں ۔ چونکہ سب سے بڑی رضا اللہ تعالیٰ کی رضا مندی ہے اس لئے قرآن پاک میں خاص کر رضا الہی ٰ کے لئے رضوان کا لفظ استعما ل ہوا ہے ۔ جیسا کہ فرمایا : ۔ وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ [ الحدید 27] اور ( لذت ) دنیا کا چھوڑ بیٹھنا جس کو انہوں نے از خود ایجاد کیا تھا ہم نے وہ طریق ان پر فرض نہیں کیا تھا مگر ( ہاں ) انہوں نے اس کو خدا ( ہی ) کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ایجاد کیا تھا ۔ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح 29] اور خدا کے فضل اور خوشنودی کی طلب گاری میں لگے رہتے ہیں ۔ يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة 21] ان کا پروردگار ان کو اپنی مہربانی اور رضامندی کی خوشخبری دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔۔ : إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة 232] ، جب جائز طور پر آپس میں وہ راضی ہوجائیں ۔ میں تراضوا باب تفاعل سے ہے جس کے معنی باہم اظہار رضامندی کے ہیں ،- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] .- وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - بيع - البَيْع : إعطاء المثمن وأخذ الثّمن، والشراء :- إعطاء الثمن وأخذ المثمن، ويقال للبیع :- الشراء، وللشراء البیع، وذلک بحسب ما يتصور من الثمن والمثمن، وعلی ذلک قوله عزّ وجل :- وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف 20] ، وقال عليه السلام : «لا يبيعنّ أحدکم علی بيع أخيه» أي : لا يشتري علی شراه .- وأَبَعْتُ الشیء : عرضته، نحو قول الشاعر :- فرسا فلیس جو ادنا بمباع والمبَايَعَة والمشارة تقالان فيهما، قال اللہ تعالی: وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبا [ البقرة 275] ، وقال : وَذَرُوا الْبَيْعَ [ الجمعة 9] ، وقال عزّ وجل : لا بَيْعٌ فِيهِ وَلا خِلالٌ [إبراهيم 31] ، لا بَيْعٌ فِيهِ وَلا خُلَّةٌ [ البقرة 254] ، وبَايَعَ السلطان : إذا تضمّن بذل الطاعة له بما رضخ له، ويقال لذلک : بَيْعَة ومُبَايَعَة . وقوله عزّ وجل : فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بايَعْتُمْ بِهِ [ التوبة 111] ، إشارة إلى بيعة الرضوان المذکورة في قوله تعالی: لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ [ الفتح 18] ، وإلى ما ذکر في قوله تعالی: إِنَّ اللَّهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ الآية [ التوبة 111] ، وأمّا الباع فمن الواو بدلالة قولهم : باع في السیر يبوع : إذا مدّ باعه .- ( ب ی ع )- البیع کے معنی بیجنے اور شراء کے معنی خدید نے کے ہیں لیکن یہ دونوں ؛ہ ں لفظ ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور مبیع کے لحاظ سے ہوتا ہے اسی معنی میں فرمایا : ۔ وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف 20] اور اس کو تھوڑی سی قیمت ( یعنی ) معددے ہموں پر بیچ ڈالا ۔ اور (علیہ السلام) نے فرمایا کہ کوئی اپنے بھائی کی خرید پر خرید نہ کرے ۔ ابعت الشئی کسی چیز کو بیع کے لئے پیش کرنا ۔ شاعر نے کہا ہے یعنی ہم عمدہ گھوڑی فروخت کے لئے پیش نہیں کریں گے ۔ المبایعۃ والمشارۃ خریدو فروخت کرنا ۔ وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبا [ البقرة 275] حالانکہ سودے کو خدا نے حلال کیا ہے اور سود کو حرام وَذَرُوا الْبَيْعَ [ الجمعة 9] اور خرید فروخت ترک کردو ) لا بَيْعٌ فِيهِ وَلا خِلالٌ [إبراهيم 31] جس میں نہ ( اعمال کا ) سودا ہوگا نہ دوستی ( کام آئے گی ) بایع السلطان ( بادشاہ کی بیعت کرنا ) اس قلیل مال کے عوض جو بادشاہ عطا کرتا ہے اس کی اطاعت کا اقرار کرنا ۔ اس اقرار یبعۃ یا مبایعۃ کہا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بايَعْتُمْ بِهِ [ التوبة 111] تو جو سودا تم نے اس سے کیا ہے اس سے خوش رہو ۔ میں بیعت رضوان کی طرف اشارہ ہے جس کا ذکر کہ آیت : ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ [ الفتح 18] اے پیغمبر جب مومن تم سے درخت کے نیچے بیعت کررہے تھے تو خدا ان سے خوش ہوا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ الآية [ التوبة 111] میں پایا جاتا ہے ۔ الباع ( دونوں بازوں کے پھیلانے کی مقدار جو تقریبا 2 فٹ ہوتی ہے ) یہ مادہ وادی سے ہے کیونکہ باع فی السیر یبوع کہا جاتا ہے ۔ جس کے معنی گھوڑے کے لمبے لمبے قدم رکھنا کے ہیں ۔- تحت - تَحْت مقابل لفوق، قال تعالی: لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ المائدة 66] ، وقوله تعالی: جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ [ الحج 23] ، تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمْ [يونس 9] ، فَناداها مِنْ تَحْتِها [ مریم 24] ، يَوْمَ يَغْشاهُمُ الْعَذابُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ العنکبوت 55] . و «تحت» : يستعمل في المنفصل، و «أسفل» في المتصل، يقال : المال تحته، وأسفله أغلظ من أعلاه، وفي الحدیث : «لا تقوم الساعة حتی يظهر التُّحُوت» «4» أي : الأراذل من الناس . وقیل : بل ذلک إشارة إلى ما قال سبحانه : وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ وَأَلْقَتْ ما فِيها وَتَخَلَّتْ [ الانشقاق 3- 4] .- ( ت ح ت) تحت - ( اسم ظرف ) یہ فوق کی ضد ہے قرآن میں ہے :۔ لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ المائدة 66] تو ( ان پر رزق مینہ کی طرح برستا کہ اپنے اوپر سے اور پاؤں کے نیچے سے کھاتے ۔ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ [ الحج 23] ( نعمت کے ) باغ میں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ۔ فَناداها مِنْ تَحْتِها [ مریم 24] اس وقت ان کے نیچے کی جانب سے آواز دی ۔ تحت اور اسفل میں فرق یہ ہے کہ تحت اس چیز کو کہتے ہیں جو دوسری کے نیچے ہو مگر اسفل کسی چیز کے نچلا حصہ کو جیسے ۔ المال تحتہ ( مال اس کے نیچے ہے ) اس کا نچلا حصہ اعلیٰ حصہ سے سخت ہے ) حدیث میں ہے (48) لاتقوم الساعۃ حتیٰ یظھر النحوت کہ قیامت قائم نہیں ہوگی ۔ تا وقی کہ کمینے لوگ غلبہ حاصل نہ کرلیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حدیث میں آیت کریمہ ؛۔ وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ وَأَلْقَتْ ما فِيها وَتَخَلَّتْ [ الانشقاق 3- 4] اور جب یہ زمین ہموار کردی جائے گی اور جو کچھ اس میں سے اسے نکلا کر باہر ڈال دے گی ۔ کے مضمون کی طرف اشارہ ہے ۔- شجر - الشَّجَرُ من النّبات : ما له ساق، يقال : شَجَرَةٌ وشَجَرٌ ، نحو : ثمرة وثمر . قال تعالی: إِذْ يُبايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ [ الفتح 18] ، وقال : أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها [ الواقعة 72] ، وقال : وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ [ الرحمن 6] ، لَآكِلُونَ مِنْ شَجَرٍ مِنْ زَقُّومٍ [ الواقعة 52] ، إِنَّ شَجَرَةَ الزَّقُّومِ [ الدخان 43] . وواد شَجِيرٌ: كثير الشّجر، وهذا الوادي أَشْجَرُ من ذلك، والشَّجَارُ الْمُشَاجَرَةُ ، والتَّشَاجُرُ : المنازعة . قال تعالی: حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيما شَجَرَ بَيْنَهُمْ [ النساء 65] . وشَجَرَنِي عنه : صرفني عنه بالشّجار، وفي الحدیث : «فإن اشْتَجَرُوا فالسّلطان وليّ من لا وليّ له» «1» . والشِّجَارُ : خشب الهودج، والْمِشْجَرُ : ما يلقی عليه الثّوب، وشَجَرَهُ بالرّمح أي : طعنه بالرّمح، وذلک أن يطعنه به فيتركه فيه .- ( ش ج ر ) الشجر - ( درخت وہ نبات جس کا تنہ ہو ۔ واحد شجرۃ جیسے ثمر و ثمرۃ ۔ قرآن میں ہے : إِذْ يُبايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ [ الفتح 18] جب مومن تم سے درخت کے نیچے بیعت کررہے تھے ۔ أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها [ الواقعة 72] کیا تم نے اس کے درخت کو پیدا کیا ۔ وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ [ الرحمن 6] اور بوٹیاں اور درخت سجدہ کررہے ہیں ۔ مِنْ شَجَرٍ مِنْ زَقُّومٍ [ الواقعة 52] ، تھوہر کے درخت سے إِنَّ شَجَرَةَ الزَّقُّومِ [ الدخان 43] بلاشبہ تھوہر کا درخت گنجان درختوں والی وادی ۔ بہت درختوں والی جگہ ۔ ھذا الوادی اشجر من ذالک اس وادی میں اس سے زیادہ درخت ہیں ۔ الشجار والمشاجرۃ والتشاجر باہم جھگڑنا اور اختلاف کرنا ۔ قرآن میں ہے ۔ فِيما شَجَرَ بَيْنَهُمْ [ النساء 65] اپنے تنازعات میں ۔ شجرنی عنہ مجھے اس سے جھگڑا کرکے دور ہٹا دیا یا روک دیا حدیث میں ہے ۔ (189) فان اشتجروا فالسلطان ولی من لا ولی لہ اگر تنازع ہوجائے تو جس عورت کا ولی نہ ہو بادشاہ اس کا ولی ہے الشجار ۔ ہودہ کی لکڑی چھوٹی پالکی ۔ المشجر لکڑی کا اسٹینڈ جس پر کپڑے رکھے یا پھیلائے جاتے ہیں ۔ شجرہ بالرمح اسے نیزہ مارا یعنی نیزہ مار کر اس میں چھوڑ دیا ۔- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا - ما - مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف .- فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع .- فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي - نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] .- الثاني :- نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة «1» .- الثالث : الاستفهام،- ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا .- الرّابع : الجزاء نحو :- ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ- الآية [ فاطر 2] . ونحو : ما تضرب أضرب .- الخامس : التّعجّب - نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] .- وأمّا الحروف :- فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي «3» . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده .- الثاني : للنّفي - وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف 31] «1» .- الثالث : الکافّة،- وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو :- إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] ، وعلی ذلك :- قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي .- الرابع : المُسَلِّطَة،- وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو :- «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما .- الخامس : الزائدة- لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء 23] .- ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی - پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں - ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے - اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو - جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ - دوم ما نافیہ ہے - ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے - جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ - چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے - جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ - پانچواں مازائدہ ہے - جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔- قلب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] .- ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ - نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - سَّكِينَةَ- والسَّكْنُ :- سُكَّانُ الدّار، نحو سفر في جمع سافر، وقیل في جمع ساکن : سُكَّانٌ ، وسكّان السّفينة : ما يسكّن به، والسِّكِّينُ سمّي لإزالته حركة المذبوح، وقوله تعالی: أَنْزَلَ السَّكِينَةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 4] ، فقد قيل : هو ملك يُسَكِّنُ قلب المؤمن ويؤمّنه كما روي أنّ أمير المؤمنین عليه السلام قال : (إنّ السَّكِينَةَ لتنطق علی لسان عمر) وقیل : هو العقل، وقیل له سكينة إذا سكّن عن المیل إلى الشّهوات، وعلی ذلک دلّ قوله تعالی: وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُمْ بِذِكْرِ اللَّهِ [ الرعد 28] . وقیل : السَّكِينَةُ والسَّكَنُ واحد، وهو زوال الرّعب، وعلی هذا قوله تعالی: أَنْ يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ فِيهِ سَكِينَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ [ البقرة 248] ، وما ذکر أنّه شيء رأسه كرأس الهرّ فما أراه قولا يصحّ والْمِسْكِينُ قيل : هو الذي لا شيء له، وهو أبلغ من الفقیر، وقوله تعالی: أَمَّا السَّفِينَةُ فَكانَتْ لِمَساكِينَ [ الكهف 79] ، فإنه جعلهم مساکين بعد ذهاب السّفينة، أو لأنّ سفینتهم غير معتدّ بها في جنب ما کان لهم من المسکنة، وقوله : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة 61] ، فالمیم في ذلک زائدة في أصحّ القولین .- السکین ( چھری ) کو سکیں اس لئے کہا جاتا ہے ( وہ مذبوح کی حرکت کو زائل کردیتی ہے ) تو یہ سکون سے فعیل کے وزن پر اسم مشتق ہے ) اور آیت : أَنْزَلَ السَّكِينَةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 4] ( وہی تو ہے ) جس نے مومنوں کے دلوں پر تسلی نازل فرمائی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ سکینۃ سے مراد وہ فرشتے ہیں جو مومن کے دل کو تسکین دیتے ہیں ۔ جیسا کہ امیر المومنین ( حضرت علی (رض) ) سے راویت ہے (إن السکينة لتنطق علی لسان عمر) حضرت عمر (رض) کی زبا ن پر سکینۃ گویا ہے اور بعض نے اس سے عقل انسانی مراد لی ہے اور عقل کو بھی جب کہ وہ شہوات کی طرف مائل ہونے سے روک دے سکینۃ کہا جاتا ہے اور آیت : ۔ وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُمْ بِذِكْرِ اللَّهِ [ الرعد 28] اور جن کے دل یاد خدا سے آرام پاتے ہیں ۔ بھی اس معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ سکینۃ اور سکن کے ایک ہی معنی ہیں یعنی رعب اور خوف کا زائل ہونا اور آیت : ۔ أَنْ يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ فِيهِ سَكِينَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ [ البقرة 248] کہ تمہارے پاس ایک صندوق آئیگا اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے تسلی ہوگی ۔ میں بھی یہی معنی مراد ہیں اور بعض مفسرین نے جو یہ ذکر کیا ہے کہ وہ چیز تھی جس کا سر بلی کے سر کے مشابہ تھا وغیرہ تو ہمارے نزدیک یہ قول صحیح نہیں ہے ۔ المسکین بعض نے اس کی تفسیر الذي لا شيء له ( یعنی جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو ) کے ساتھ کی ہے اور یہ فقر سے ابلغ ہے ( یعنی بنسبت فقیر کے زیادہ نادار ہوتا ہے ) لیکن آیت : أَمَّا السَّفِينَةُ فَكانَتْ لِمَساكِينَ [ الكهف 79] اور کشتی غریب لوگوں کی تھی ۔ میں باوجود کشتی کا مالک ہونے کے انہیں مسکین قرار دینا ما یؤول کے لحاظ سے ہے یعنی کشتی کے چلے جانے کے بعد کی حالت کے لحاظ سے انہیں مسکین کہا گیا ہے ۔ یا اس لئے کہ ان کی احتیاج اور مسکنت کے مقابلہ میں کشتی کی کچھ بھی حیثیت نہ تھی ۔ اور آیت : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة 61] اور آخر کار ذلت و رسوائی اور محتاجی ( و بےنوائی ) ان سے چمٹا دی گئی ۔ میں اصح قول کے لحاظ سے مسکنۃ کی میم زائد ہے ( اور یہ سکون سے ہے ۔ )- ثوب - أصل الثَّوْب : رجوع الشیء إلى حالته الأولی التي کان عليها، أو إلى الحالة المقدّرة المقصودة بالفکرة، وهي الحالة المشار إليها بقولهم : أوّل الفکرة آخر العمل «2» . فمن الرجوع إلى الحالة الأولی قولهم : ثَابَ فلان إلى داره، وثَابَتْ إِلَيَّ نفسي، وسمّي مکان المستسقي علی فم البئر مَثَابَة، ومن الرجوع إلى الحالة المقدرة المقصود بالفکرة الثوب، سمّي بذلک لرجوع الغزل إلى الحالة التي قدّرت له، وکذا ثواب العمل، وجمع الثوب أَثْوَاب وثِيَاب، وقوله تعالی: وَثِيابَكَ فَطَهِّرْ [ المدثر 4]- ( ث و ب ) ثوب - کا اصل معنی کسی چیز کے اپنی اصلی جو حالت مقدمہ اور مقصود ہوتی ہے اس تک پہنچ جانا کے ہیں ۔ چناچہ حکماء کے اس قول اول الفکرۃ اٰخرالعمل میں اسی حالت کی طرف اشارہ ہے یعنی آغاز فکر ہی انجام عمل بنتا ہے ۔ چناچہ اول معنی کے لحاظ سے کہا جاتا ہے ۔ شاب فلان الی درہ ۔ فلاں اپنے گھر کو لوٹ آیا ثابت الی نفسی میری سانس میری طرف ہوئی ۔ اور کنوئیں کے منہ پر جو پانی پلانے کی جگہ بنائی جاتی ہے اسے مثابۃ کہا جاتا ہے اور غور و فکر سے حالت مقدرہ مقصود تک پہنچ جانے کے اعتبار سے کپڑے کو ثوب کہاجاتا ہے کیونکہ سوت کاتنے سے عرض کپڑا بننا ہوتا ہے لہذا کپڑا بن جانے پر گویا سوت اپنی حالت مقصود ہ کی طرف لوٹ آتا ہے یہی معنی ثواب العمل کا ہے ۔ اور ثوب کی جمع اثواب وثیاب آتی ہے اور آیت کریمہ ؛۔ وَثِيابَكَ فَطَهِّرْ [ المدثر 4] اپنے کپڑوں کو پاک رکھو ۔- فتح - الفَتْحُ : إزالة الإغلاق والإشكال، وذلک ضربان :- أحدهما : يدرک بالبصر کفتح الباب ونحوه، وکفتح القفل والغلق والمتاع، نحو قوله : وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف 65] ، وَلَوْ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ باباً مِنَ السَّماءِ [ الحجر 14] .- والثاني : يدرک بالبصیرة کفتح الهمّ ، وهو إزالة الغمّ ، وذلک ضروب : أحدها : في الأمور الدّنيويّة كغمّ يفرج، وفقر يزال بإعطاء المال ونحوه، نحو : فَلَمَّا نَسُوا ما ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ أَبْوابَ كُلِّ شَيْءٍ [ الأنعام 44] ، أي : وسعنا، وقال : لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 96] ، أي : أقبل عليهم الخیرات . والثاني : فتح المستغلق من العلوم، نحو قولک : فلان فَتَحَ من العلم بابا مغلقا، وقوله : إِنَّا فَتَحْنا لَكَ فَتْحاً مُبِيناً [ الفتح 1] ، قيل : عنی فتح مكّةوقیل : بل عنی ما فتح علی النّبيّ من العلوم والهدایات التي هي ذریعة إلى الثّواب، والمقامات المحمودة التي صارت سببا لغفران ذنوبه وفَاتِحَةُ كلّ شيء : مبدؤه الذي يفتح به ما بعده، وبه سمّي فاتحة الکتاب، وقیل : افْتَتَحَ فلان کذا : إذا ابتدأ به، وفَتَحَ عليه كذا : إذا أعلمه ووقّفه عليه، قال : أَتُحَدِّثُونَهُمْ بِما فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ [ البقرة 76] ، ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ [ فاطر 2] ، وفَتَحَ الْقَضِيَّةَ فِتَاحاً : فصل الأمر فيها، وأزال الإغلاق عنها . قال تعالی: رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنا وَبَيْنَ قَوْمِنا بِالْحَقِّ وَأَنْتَ خَيْرُ الْفاتِحِينَ- [ الأعراف 89] ، ومنه الْفَتَّاحُ الْعَلِيمُ [ سبأ 26] ، قال الشاعر : بأني عن فَتَاحَتِكُمْ غنيّ- وقیل : الفتَاحةُ بالضمّ والفتح، وقوله : إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ [ النصر 1] ، فإنّه يحتمل النّصرة والظّفر والحکم، وما يفتح اللہ تعالیٰ من المعارف، وعلی ذلک قوله : نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] ، فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ [ المائدة 52] ، وَيَقُولُونَ مَتى هذَا الْفَتْحُ [ السجدة 28] ، قُلْ يَوْمَ الْفَتْحِ [ السجدة 29] ، أي : يوم الحکم . وقیل : يوم إزالة الشّبهة بإقامة القیامة، وقیل : ما کانوا يَسْتَفْتِحُونَ من العذاب ويطلبونه،- ( ف ت ح ) الفتح کے معنی کسی چیز سے بندش اور پیچیدگی کو زائل کرنے کے ہیں اور یہ ازالہ دوقسم پر ہے ایک وہ جس کا آنکھ سے ادراک ہو سکے جیسے ۔ فتح الباب ( دروازہ کھولنا ) اور فتح القفل ( قفل کھولنا ) اور فتح المتاع ( اسباب کھولنا قرآن میں ہے ؛وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف 65] اور جب انہوں نے اپنا اسباب کھولا ۔ وَلَوْ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ باباً مِنَ السَّماءِ [ الحجر 14] اور اگر ہم آسمان کا کوئی دروازہ ان پر کھولتے ۔ دوم جس کا ادراک بصیرت سے ہو جیسے : فتح الھم ( یعنی ازالہ غم ) اس کی چند قسمیں ہیں (1) وہ جس کا تعلق دنیوی زندگی کے ساتھ ہوتا ہے جیسے مال وغیرہ دے کر غم وانددہ اور فقر و احتیاج کو زائل کردینا ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا نَسُوا ما ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ أَبْوابَ كُلِّ شَيْءٍ [ الأنعام 44] پھر جب انہوں ن اس نصیحت کو جو ان کو کی گئی تھی ۔ فراموش کردیا تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیئے ۔ یعنی ہر چیز کی فرادانی کردی ۔ نیز فرمایا : لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 96] تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات کے دروازے کھول دیتے ۔ یعنی انہیں ہر طرح سے آسودگی اور قارغ البالی کی نعمت سے نوازتے ۔ (2) علوم ومعارف کے دروازے کھولنا جیسے محاورہ ہے ۔ فلان فتح من العلم بابامغلقا فلاں نے طلم کا بندو دروازہ کھول دیا ۔ یعنی شہادت کو زائل کرکے ان کی وضاحت کردی ۔ اور آیت کریمہ :إِنَّا فَتَحْنا لَكَ فَتْحاً مُبِيناً [ الفتح 1] ( اے محمد ) ہم نے تم کو فتح دی اور فتح صریح وصاف ۔ میں بعض نے کہا ہے یہ فتح کی طرف اشارہ ہے اور بعض نے کہا ہے کہ نہیں بلکہ اس سے علوم ومعارف ار ان ہدایات کے دروازے کھولنا مراد ہے جو کہ ثواب اور مقامات محمودہ تک پہچنے کا ذریعہ بنتے ہیں اور آنحضرت کیلئے غفران ذنوب کا سبب ہے ۔ الفاتحۃ ہر چیز کے مبدء کو کہاجاتا ہے جس کے ذریعہ اس کے مابعد کو شروع کیا جائے اسی وجہ سے سورة فاتحہ کو فاتحۃ الکتاب کہاجاتا ہے ۔ افتح فلان کذ افلاں نے یہ کام شروع کیا فتح علیہ کذا کسی کو کوئی بات بتانا اور اس پر اسے ظاہر کردینا قرآن میں ہے : أَتُحَدِّثُونَهُمْ بِما فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ [ البقرة 76] جو بات خدا نے تم پر ظاہر فرمائی ہے وہ تم ان کو ۔۔۔ بتائے دیتے ہو ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ [ فاطر 2] جو لوگوں کیلئے ۔۔ کھولدے فتح القضیۃ فتاحا یعنی اس نے معاملے کا فیصلہ کردیا اور اس سے مشکل اور پیچیدگی کو دور کردیا ۔ قرآن میں ہے ؛ رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنا وَبَيْنَ قَوْمِنا بِالْحَقِّ وَأَنْتَ خَيْرُ الْفاتِحِينَ [ الأعراف 89] اے ہمارے پروردگار ہم میں اور ہماری قوم میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کردے اور تو سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے ۔ اسی سے الْفَتَّاحُ الْعَلِيمُ [ سبأ 26] ہے یعن خوب فیصلہ کرنے والا اور جاننے والا یہ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ سے ہے کسی شاعر نے کہا ہے ( الوافر) (335) وانی من فتاحتکم غنی اور میں تمہارے فیصلہ سے بےنیاز ہوں ۔ بعض نے نزدیک فتاحۃ فا کے ضمہ اور فتحہ دونوں کے ساتھ صحیح ہے اور آیت کریمہ : إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ [ النصر 1] جب اللہ کی مدد آپہنچیں اور فتح حاصل ہوگئی ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ الفتح سے نصرت ، کامیابی اور حکم مراد ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ علوم ومعارف کے دروازے کھول دینا مراد ہو ۔ اسی معنی ہیں میں فرمایا : نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] ( یعنی تمہیں ) خدا کی طرف سے مدد ( نصیب ہوگی ) اور فتح عنقریب ( ہوگی ) فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ [ المائدة 52] تو قریب ہے خدا فتح بھیجے وَيَقُولُونَ مَتى هذَا الْفَتْحُ [ السجدة 28] اور کہتے ہیں ۔۔۔ یہ فیصلہ کب ہوگا ۔ قُلْ يَوْمَ الْفَتْحِ [ السجدة 29] کہدو کہ فیصلے کے دن ۔۔۔ یعنی حکم اور فیصلے کے دن بعض نے کہا ہے کہ الفتح سے قیامت بپا کرکے ان کے شک وشبہ کو زائل کرے کا دن مراد ہے اور بعض نے یوم عذاب مراد لیا ہے ۔ جسے وہ طلب کیا کرتے تھے - قرب - الْقُرْبُ والبعد يتقابلان . يقال : قَرُبْتُ منه أَقْرُبُ «3» ، وقَرَّبْتُهُ أُقَرِّبُهُ قُرْباً وقُرْبَاناً ، ويستعمل ذلک في المکان، وفي الزمان، وفي النّسبة، وفي الحظوة، والرّعاية، والقدرة .- نحو : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] - ( ق ر ب ) القرب - والبعد یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلہ میں استعمال ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قربت منہ اقرب وقربتہ اقربہ قربا قربانا کسی کے قریب جانا اور مکان زمان ، نسبی تعلق مرتبہ حفاظت اور قدرت سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے جنانچہ قرب مکانی کے متعلق فرمایا : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں داخل ہوجاؤ گے
بیعت رضوان صحابہ کرام (رض) کے پختہ ایمان پر دلالت کرتی ہے - قول باری ہے (لقد (رض) عن المومنین اذ یبایعونک تحت الشجرۃ۔ بیشک اللہ تعالیٰ اہل ایمان سے راضی ہوگیا جب وہ درخت کے نیچے آپ کے ہاتھوں پر بیعت کررہے تھے) اس میں ان مسلمانوں کے ایمان کی صحت پر دلالت موجود ہے جنہوں نے حدیبیہ کے مقام پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھوں پر بیعت کی تھی جو بیعت رضوان کے نام سے مشہور ہے۔- آیت سے ان کی بصیرت کی پختگی پر بھی دلالت ہورہی ہے۔ یہ لوگ متعین افراد تھے حضرت ابن عباس (رض) کے قول کے مطابق ان کی تعداد پچیس سو تھی اور حضرت جابر (رض) کے قول کے مطابق پندرہ سو تھی۔ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ وہ سچ مچ اہل ایمان تھے اور اللہ کے دوست تھے کیونکہ یہ بات نہیں ہوسکتی کہ اللہ تعالیٰ کسی متعین گروہ کو اپنی خوشنودی اور رضامندی کے سند عطا کردے جب تک بصیرت کی پختگی اور ایمان کی سچائی کے لحاظ سے ان کا ظاہر وباطن ایک نہ ہو۔- اللہ تعالیٰ نے اس کی مزید تاکید کردی چناچہ ارشاد ہے (نعلم مافی قلوبھم فانزل السکینۃ علیھم۔ اور اللہ کو معلوم تھا جو کچھ ان کے دلوں میں تھا سو اس نے ان پر سکون نازل کردیا) اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ بصیرت کی پختگی اور نیت کی درستی کی جو کیفیت ان کے دلوں میں تھی اسے اس کی پوری خبر تھی نیز وہ یہ بھی جانتا تھا کہ ان کا ظاہر وباطن یکساں ہے۔- قول بایر ہے (فانزل السکینۃ علیھم) سکینہ کے نزول کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی نیت کی درستی پر جمے رہنے کی توفیق عطا فرمائی۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ توفیق ایزدی صدق نیت کے ساتھ حاصل ہوتی ہے۔ اس کی مثال یہ قول باری ہے (ان یرید اصلا حا یوفق اللہ بینھما اگر یہ (دونوں فیصل) اصلاح کا ارادہ کرلیں تو اللہ تعالیٰ انہیں اس کی توفیق دے گا) ۔
اب اللہ تعالیٰ اصحاب بیعۃ الرضوان سے اپنی خوشنودی کا ذکر فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان مسلمانوں سے خوش ہوا جبکہ یہ لوگ درخت سمرہ کے نیچے جہاد میں ثابت قدم رہنے پر رسول اکرم سے بیعت کر رہے تھے اور ان کے دلوں میں جو کچھ اخلاص اور عزم علی الوفاء تھا اللہ تعالیٰ وہ بھی جانتا تھا اور اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں اطمینان پیدا کردیا اور حمیت کو ختم کردیا اور ان کے لگے ہاتھ فتح خیبر بھی دے دی۔- شان نزول : لَقَدْ رَضِيَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ (الخ)- ابن ابی حاتم نے سلمہ بن اکوع سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ ہم دوپہر کو لیٹے ہوئے تھے کہ اچانک رسول اکرم کے منادی نے آواز دی کہ لوگو بیعت روح القدس نازل ہوئے ہیں۔ چناچہ ہم فورا رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ سمرہ درخت کے نیچے تھے ہم نے آپ سے جاکر بیعت کی اس وقت حق تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی۔
اب آئندہ آیات میں اسی مضمون کا تسلسل ہے جو پہلے رکوع میں اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَط (آیت ١٠) کے الفاظ سے شروع ہوا تھا۔ جیسا کہ قبل ازیں بھی ذکر ہوچکا ہے کہ حکمت الٰہی کے پیش نظر اس مضمون کا سلسلہ درمیان سے منقطع کرکے بعد میں نازل ہونے والی آیات کو وہاں جگہ دے دی گئی اور اب آیت ١٨ سے دوبارہ وہی مضمون شروع ہو رہا ہے۔- آیت ١٨ لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِہِمْ ” اللہ راضی ہوگیا اہل ایمان سے جب کہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیعت کر رہے تھے ‘ درخت کے نیچے ‘ تو اللہ کے علم میں تھا جو کچھ ان کے دلوں میں تھا “- یعنی بیعت کے وقت تو ان کے دلوں میں فقط ذوق شہادت اور جوشِ جہاد تھا۔ صلح کی بات چیت تو ان کی بیعت کے بعد شروع ہوئی تھی۔- فَاَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ عَلَیْہِمْ وَاَثَابَہُمْ فَتْحًا قَرِیْبًا ” تو اللہ نے ان پر سکینت نازل کردی اور انہیں (بدلے میں) ایک قریبی فتح بخشی۔ “- یہ اشارہ ہے فتح خیبر کی طرف جو حدیبیہ سے واپسی کے بعد جلد ہی ظہور میں آگئی۔ ان الفاظ میں اس امر کی صراحت ہے کہ یہ انعام ان ہی لوگوں کے لیے مخصوص تھا جو بیعت رضوان میں شریک تھے۔ چناچہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صفر ٧ ھ میں خیبر پر چڑھائی کے لیے نکلے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صرف انہی اصحاب کو ساتھ لیا ۔
سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :32 یہاں پھر اسی بیعت کا ذکر ہے جو حدیبیہ کے مقام پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجعمین سے لی گئی تھی ۔ اس بیعت کو بیعت رضوان کہا جاتا ہے ، کیونکہ اللہ تعالی نے اس آیت میں یہ خوش خبری سنائی ہے کہ وہ ان لوگوں سے راضی ہو گیا جنہوں نے اس خطرناک موقع پر جان کی بازی لگا دینے میں ذرہ برابر تامل نہ کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر سرفروشی کی بیعت کر کے اپنے صادق الایمان ہونے کا صریح ثبوت پیش کر دیا ۔ وقت وہ تھا کہ مسلمان صرف ایک ایک تلوار لیے ہوئے آئے تھے ۔ صرف چودہ سو کی تعداد میں تھے ۔ جنگی لباس میں بھی نہ تھے بلکہ احرام کی چادریں باندھے ہوئے تھے ۔ اپنے جنگی مستقر ( مدینہ ) سے ڈھائی سو میل دور تھے ، اور دشمن کا گڑھ ، جہاں سے وہ ہر قسم کی مدد لا سکتا تھا ، صرف 13 میل کے فاصلے پر واقع تھا ۔ اگر اللہ اور اس کے رسول اور اس کے دین کے لیے ان لوگوں کے اندر خلوص کی کچھ بھی کمی ہوتی تو وہ اس انتہائی خطرناک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ چھوڑ جاتے اور اسلام کی بازی ہمیشہ کے لیے ہار جاتے ۔ ان کے اپنے اخلاص کے سوا کوئی خارجی دباؤ ایسا نہ تھا جس کی بنا پر وہ اس بیعت کے لیے مجبور ہوتے ۔ ان کا اس وقت خدا کے دین کے لیے مرنے مارنے پر آمادہ ہو جانا اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ وہ اپنے ایمان میں صادق و مخلص اور خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفاداری میں درجہ کمال پر فائز تھے ۔ اسی بنا پر اللہ تعالی نے ان کو یہ سند خوشنودی عطا فرمائی ۔ اور اللہ کی سند خوشنودی عطا ہو جانے کے بعد اگر کوئی شخص ان سے ناراض ہو ، یا ان پر زبان طعن دراز کرے تو اس کا معاوضہ ان سے نہیں بلکہ اللہ سے ہے ۔ اس پر جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ جس وقت اللہ نے ان حضرات کو یہ خوشنودی کی سند عطا کی تھی اس وقت تو یہ مخلص تھے مگر بعد میں یہ خدا اور رسول کے بے وفا ہو گئے ، وہ شاید اللہ سے یہ بدگمانی رکھتے ہیں کہ اسے یہ آیت نازل کرتے وقت ان کے مستقبل کی خبر نہ تھی ، اس لیے محض اس وقت کی حالت دیکھ کر اس نے یہ پروانہ انہیں عطا کر دیا ، اور غالباً اسی بے خبری کی بنا پر اسے اپنی کتاب پاک میں بھی درج فرما دیا تاکہ بعد میں بھی ، جب یہ لوگ بے وفا ہو جائیں ، ان کے بارے میں دنیا یہ آیت پڑھتی رہے اور اس خدا کے علم غیب کی داد دیتی رہے جس نے معاذاللہ ان بیوفاؤں کو یہ پروانہ خوشنودی عطا کیا تھا ۔ جس درخت کے نیچے یہ بیعت ہوئی تھی اس کے متعلق حضرت نافع مولی ابن عمر کی یہ روایت عام طور پر مشہور ہوگئی ہے کہ لوگ اس کے پاس جا جا کر نمازیں پڑھنے لگے تھے ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے لوگوں کو ڈانٹا اور اس درخت کو کٹوا دیا ( طبقات ابن سعد ، ج 2 ، ص 100 ) ۔ لیکن متعدد روایات اس کے خلاف بھی ہیں ۔ ایک روایت خود حضرت نافع ہی سے طبقات ابن سعد میں یہ منقول ہوئی ہے کہ بیعت رضوان کے کئی سال بعد صحابہ کرام نے اس درخت کو تلاش کیا مگر اسے پہچان نہ سکے اور اس امر میں اختلاف ہو گیا کہ وہ درخت کونسا تھا ( ص 105 ) ۔ دوسری روایت بخاری و مسلم اور طبقات ابن سعد میں حضرت سعید بن المسیب کی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ میرے والد بیعت رضوان میں شریک تھے ۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ دوسرے سال جب ہم لوگ عمرۃ القضاء کے لیے گئے تو ہم اس درخت کو بھول چکے تھے ، تلاش کرنے پر بھی ہم اسے نہ پاسکے ۔ تیسری روایت ابن جریر کی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے عہد خلافت میں جب حدیبیہ کے مقام سے گزرے تو انہوں نے دریافت کیا کہ وہ درخت کہاں ہے جس کے نیچے بیعت ہوئی تھی ۔ کسی نے کہا فلاں درخت ہے اور کسی نے کہا فلاں ۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ، چھوڑو ، اس تکلف کی کیا حاجت ہے ۔ سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :33 یہاں سکنیت سے مراد دل کی وہ کیفیت ہے جس کی بنا پر ایک شخص کسی مقصد عظیم کے لیے ٹھنڈے دل سے پورے سکون و اطمینان کے ساتھ اپنے آپ کو خطرے کے منہ میں جھونک دیتا ہے اور کسی خوف یا گھبراہٹ کے بغیر فیصلہ کر لیتا ہے کہ یہ کام بہرحال کرنے کا ہے خواہ نتیجہ کچھ بھی ہو ۔
15: یہ اسی بیعت رضوان کا ذکر ہے جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام سے حدیبیہ کے مقام پر ببول کے ایک درخت کے نیچے لی تھی، اور جس کا ذکر سورت کے تعارف میں آچکا ہے، اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں کہ ان حضرات نے یہ بیعت دل سے پورے عزم کے ساتھ کی تھی، وہ منافقوں کی طرح جھوٹا عہد کرنے والے نہیں تھے۔ 16: اس سے مراد خیبر کی فتح ہے، اس سے پہلے مسلمان دو طرفہ خطرے سے دوچار تھے، جنوب میں قریش مکہ کی طرف سے ہر وقت حملوں کا خطرہ رہتا تھا جس کا سد باب حدیبیہ کی صلح کے ذریعے ہوا، اور شمال میں خیبر کے یہودی تھے جو ہر وقت مسلمانوں کے خلاف سازشوں کے جال بنتے رہتے تھے، اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں کہ مسلمانوں نے حدیبیہ کے موقع پر جس جاں نثاری اور پھر اطاعت کے جذبے کا مظاہرہ کیا، اس کے صلے میں اللہ تعالیٰ نے انہیں خیبر کی فتح عطا فرمادی جس سے ایک طرف شمالی خطرے کا سد باب ہوگا اور دوسری طرف بہت سا مال غنیمت مسلمانوں کے قبضے میں آئے گا، اور اس کے نتیجے میں معاشی خوش حالی حاصل ہوگی۔