19۔ 1 یہ وہ غنیمتیں ہیں جو خیبر سے حاصل ہوئیں یہ نہایت زرخیز اور شاداب علاقہ تھا اسی حساب سے یہاں سے مسلمانوں کو بہت بڑی تعداد میں غنیمت کا مال حاصل ہوا جسے صرف اہل حدیبیہ میں تقسیم کیا گیا۔
[٢٧] یعنی حدیبیہ کے مقام پر جنگ نہ ہونے میں اور بہرحال صلح ہوجانے میں اللہ کی بیشمار حکمتیں تھیں لہذا اس نے وہی کام ہونے دیا جو اسے منظور تھا۔ رہا بیعت کرنے والوں کی جانثاری کا صلہ تو وہ غنائم خیبر کی صورت میں انہیں مل جائے گا۔ اور اللہ کے ہاں ان کے لئے جو صلہ ہے وہ تو بہت زیادہ ہے۔
(١) ومغانم کثیرۃ یاخذونھا : اس سے مراد خیبر اور یہود کی دوسری بستیاں ہیں جو کسی خاص مزاحمت کے بغیر مسلمانوں کو حاصل ہوئیں۔ صفی الرحمٰن مبارک پوری لکھتے ہیں :” خیبر مدینہ سے شمال کی طرف اسی (٨٠) میل کے فاصلے پر ایک بہت بڑا شہر تھا ، جس میں کئی قلعے اور بہت سے باغات تھے۔ ابن اسحاق نے فرمایا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حدیبیہ سے واپس آکر مدینہ میں ذوالحجہ اور محرم کا کچھ حصہ ٹھہرے، پھر محرم کے باقی دنوں میں خیبر کی طرف نکلے۔ “ (الرحیق المختوم) ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں :(افتحنا خبیر ولم نعنم ذھبا ولا فضۃ ، انما غنمنا البقر و الابل والمتاع والحوائط) (بخاری المغازی، باب غزوۃ خبیر، 2323)” ہم نے خیبر فتح کیا اور ہمیں سونا چاندی غنیمت میں نہیں ملا ہمیں صرف گائے بیل، اونٹ، سامان اور باغات غنیمت میں ملے۔ “ خیبر کی فتح کے نتیجے میں مسلمانوں کو حاصل ہونے والی غنیمتوں کا اندازہ ابن عمر (رض) کی ایک روایت سے ہوتا ہے، انہوں نے فرمایا :(ماشبعنا حتی فتحنا خبیر) (بخاری، المغازی، باب غزوۃ خیر :2323)” ہم نے سیر ہو کر نہیں کھایا حتیٰ کہ خیبر فتح کیا۔ “ اور عائشہ (رض) نے فرمایا :(لما فتحت خیبر فلنا الا ن تشع من التمر) (بخاری، المغازی، باب غزوۃ خبیر :2323)” جب خیبر فتح ہوا تو ہم نے کہا، اب ہم کھجوریں پیٹ بھر کر کھائیں گے۔ “ الرحیق المختوم میں ہے :” اس فتح کے نتیجے میں مہاجرین کے حصے میں اتنی زمین اور باغات آئے کہا نہوں نے کھجوروں کے وہ درخت انصار کو واپس کردیئے جو انصار نے مدینہ میں انہیں دے رکھے تھے۔- (٢) وکان اللہ عزیزاً حکیماً : چونکہ کافر کی تعداد اور ساز و سامان کی کثرت اور مسلمانوں کی قلت کے پیش نظر یہ بات ممکن نظر نہیں آتی تھی، اس جملے کے ساتھ اس فتح و غنیمت کا سبب بیان فرمایا۔ بقاعی نے فرمایا :” اس واؤ کے ساتھ مقدر جملے پر عطف ہے : ای بعزۃ اللہ و حکمۃ و کان اللہ عزیاً حکیماً “ یعنی یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی عزت و حکمت کی بدولت ہوا اور اللہ تعالیٰ مہیشہ سے سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔ نہ اس پر کوئی غالب آسکتا ہے، نہ اس کی تدبیر میں کسی خطا کی نشاندہی کرسکتا ہے۔
(آیت) وَّمَغَانِمَ كَثِيْرَةً يَّاْخُذُوْنَهَا، مراد اس سے خیبر کا مال غنیمت ہے جس سے مسلمانوں کو سہولت اور فراغ بالی حاصل ہوئی۔
وَّمَغَانِمَ كَثِيْرَۃً يَّاْخُذُوْنَہَا ٠ۭ وَكَانَ اللہُ عَزِيْزًا حَكِــيْمًا ١٩- غنم - الغَنَمُ معروف . قال تعالی: وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنا عَلَيْهِمْ شُحُومَهُما [ الأنعام 146] . والغُنْمُ : إصابته والظّفر به، ثم استعمل في كلّ مظفور به من جهة العدی وغیرهم . قال تعالی: وَاعْلَمُوا أَنَّما غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ [ الأنفال 41] ، فَكُلُوا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلالًا طَيِّباً [ الأنفال 69] ، والمَغْنَمُ : ما يُغْنَمُ ، وجمعه مَغَانِمُ. قال : فَعِنْدَ اللَّهِ مَغانِمُ كَثِيرَةٌ [ النساء 94] .- ( غ ن م ) الغنم - بکریاں ۔ قرآن پاک میں ہے : وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنا عَلَيْهِمْ شُحُومَهُما [ الأنعام 146] اور گائیوں اور بکریوں سے ان کی چربی حرام کردی تھی ۔ الغنم کے اصل معنی کہیں سے بکریوں کا ہاتھ لگنا ۔ اور ان کو حاصل کرنے کے ہیں پھر یہ لفظ ہر اس چیز پر بولا جانے لگا ہے ۔ جو دشمن یا غیر دشمن سے حاصل ہو ۔ قرآن میں ہے : وَاعْلَمُوا أَنَّما غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ [ الأنفال 41] اور جان رکھو کہ جو چیز تم کفار سے لوٹ کر لاؤ ۔ فَكُلُوا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلالًا طَيِّباً [ الأنفال 69] جو مال غنیمت تم کو ہے اسے کھاؤ کہ تمہارے لئے حلال طیب ہے ۔ المغنم مال غنیمت اس کی جمع مغانم آتی ہے ۔ قرآن پاک میں ہے ۔ فَعِنْدَ اللَّهِ مَغانِمُ كَثِيرَةٌ [ النساء 94] سو خدا کے پاس بہت سی غنیمتں ہیں ۔- كثر - الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] - ( ک ث ر )- کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔- أخذ - الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة 255] - ( اخ ذ) الاخذ - ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔- عزیز - ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] - ( ع ز ز ) العزیز - العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ ) - حكيم - والحِكْمَةُ : إصابة الحق بالعلم والعقل، فالحکمة من اللہ تعالی:- معرفة الأشياء وإيجادها علی غاية الإحكام، ومن الإنسان : معرفة الموجودات وفعل الخیرات . وهذا هو الذي وصف به لقمان في قوله عزّ وجلّ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان 12] ، ونبّه علی جملتها بما وصفه بها، فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم «2» ، فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس 1] - ( ح ک م ) الحکمتہ - کے معنی علم وعقل کے ذریعہ حق بات دریافت کرلینے کے ہیں ۔ لہذا حکمت الہی کے معنی اشیاء کی معرفت اور پھر نہایت احکام کے ساتھ انکو موجود کرتا ہیں اور انسانی حکمت موجودات کی معرفت اور اچھے کو موں کو سرانجام دینے کا نام ہے چناچہ آیت کریمہ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان 12] اور ہم نے لقمان کو دانائی بخشی ۔ میں حکمت کے یہی معنی مراد ہیں جو کہ حضرت لقمان کو عطا کی گئی تھی ۔ لهذا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟
اور اس فتح میں بہت سی غنیمتیں دیں جن کو یہ لوگ لے رہے تھے اور حق تعالیٰ دشمنوں کو سزا دینے میں زبردست اور رسول اکرم اور اپنے صحابہ کرام کو فتح و غنیمت عطا کرنے میں حکمت والے ہیں۔
آیت ١٩ وَّمَغَانِمَ کَثِیْرَۃً یَّاْخُذُوْنَہَا وَکَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا ” اور بہت سے اموالِ غنیمت جو وہ حاصل کریں گے۔ اور اللہ زبردست ‘ حکمت والا ہے۔ “
سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :34 یہ اشارہ ہے خیبر کی فتح اور اس کے اموال غنیمت کی طرف ۔ اور یہ آیت اس امر کی تصریح کرتی ہے کہ اللہ تعالی نے یہ انعام صرف ان لوگوں کے لیے مخصوص فرما دیا تھا جو بیعت رضوان میں شریک تھے ، ان کے سوا کسی کو اس فتح اور ان غنائم میں شریک ہونے کا حق نہ تھا ۔ اسی بنا پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفر 7ھ میں خیبر پر چڑھائی کرنے کے لیے نکلے تو آپ نے صرف ان ہی کو اپنے ساتھ لیا ۔ اس میں شک نہیں کہ بعد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حبش سے واپس آنے والے مہاجرین اور بعض دوسی اور اشعری صحابیوں کو بھی اموال خیبر میں سے کچھ حصہ عطا فرمایا ، مگر وہ یا تو خمس میں سے تھا ، یا اصحاب رضوان کی رضا مندی سے دیا گیا ۔ کسی کو حق کے طور پر اس مال میں حصہ دار نہیں بنایا گیا ۔