Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خواب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب دیکھا تھا کہ آپ مکہ میں گئے اور بیت اللہ شریف کا طواف کیا ۔ آپ نے اس کا ذکر اپنے اصحاب سے مدینہ شریف میں ہی کر دیا تھا حدیبیہ والے سال جب آپ عمرے کے ارادے سے چلے تو اس خواب کی بنا پر صحابہ کو یقین کامل تھا کہ اس سفر میں ہی کامیابی کے ساتھ اس خواب کا ظہور دیکھ لیں گے ۔ وہاں جا کر جو رنگت بدلی ہوئی دیکھی یہاں تک کہ صلح نامہ لکھ کر بغیر زیارت بیت اللہ واپس ہونا پڑا تو ان صحابہ پر نہایت شاق گذرا ۔ چنانچہ حضرت عمر نے تو خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہا بھی کہ آپ نے تو ہم سے فرمایا تھا کہ ہم بیت اللہ جائیں گے اور طواف سے مشرف ہوں گے آپ نے فرمایا یہ صحیح ہے لیکن یہ تو میں نے نہیں کہا تھا کہ اسی سال ہو گا ؟ حضرت عمر نے فرمایا ہاں یہ تو نہیں فرمایا تھا آپ نے فرمایا پھر جلدی کیا ہے ؟ تم بیت اللہ میں جاؤ گے ضرور اور طواف بھی یقینا کرو گے ۔ پھر حضرت صدیق سے یہی کہا اور ٹھیک یہی جواب پایا ۔ اس آیت میں جو ان شاء اللہ ہے یہ استثناء کے لئے نہیں بلکہ تحقیق اور تاکید کے لئے ہے اس مبارک خواب کی تاویل کو صحابہ نے دیکھ لیا اور پورے امن و اطمینان کے ساتھ مکہ میں گئے اور وہاں جا کر احرام کھولتے ہوئے بعض نے اپنا سر منڈوایا اور بعض نے بال کتروائے ۔ صحیح حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ سر منڈوانے والوں پر رحم کرے لوگوں نے کہا حضرت اور کتروانے والوں پر بھی ۔ آپ نے دوبارہ بھی یہی فرمایا پھر لوگوں نے وہی کہا آخر تیسری یا چوتھی دفعہ میں آپ نے کتروانے والوں کے لئے بھی رحم کی دعا کی ۔ پھر فرمایا بےخوف ہو کر یعنی مکہ جاتے وقت بھی امن و امان سے ہو گے اور مکہ کا قیام بھی بےخوفی کا ہو گا چنانچہ عمرۃ القضاء میں یہی ہوا یہ عمرہ ذی قعدہ سنہ ٧ ہجری میں ہوا تھا ۔ حدیبیہ سے آپ ذی قعدہ کے مہینے میں لوٹے ذی الحجہ اور محرم تو مدینہ شریف میں قیام رہا صفر میں خیبر کی طرف گئے اس کا کچھ حصہ تو از روئے جنگ فتح ہوا اور کچھ حصہ ازروئے صلح مسخر ہوا یہ بہت بڑا علاقہ تھا اس میں کھجوروں کے باغات اور کھیتیاں بکثرت تھیں ، یہیں کے یہودیوں کو آپ نے بطور خادم یہاں رکھ کر ان سے یہ معاملہ طے کیا کہ وہ باغوں اور کھیتیوں کی حفاظت اور خدمت کریں اور پیداوار کا نصف حصہ دے دیا کریں ، خیبر کی تقسیم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ان ہی صحابہ میں کی جو حدیبیہ میں موجود تھے ان کے سوا کسی اور کو اس جنگ میں آپ نے حصہ دار نہیں بنایا ، سوائے ان لوگوں کے جو حبشہ کی ہجرت سے واپس آئے تھے جو حضرات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے وہ سب اس فتح خیبر میں بھی ساتھ تھے ۔ حضرت ابو دجانہ ، سماک بن خرشہ کے سوا جیسے کہ اس کا پورا بیان اپنی جگہ ہے یہاں سے آپ سالم و غنیمت لئے ہوئے واپس تشریف لائے اور ماہ ذوالقعدہ سنہ ٧ ہجری میں مکہ کی طرف باارادہ عمرہ اہل حدیبیہ کو ساتھ لے کر آپ روانہ ہوئے ، ذوالحلفیہ سے احرام باندھا قربانی کے لئے ساٹھ اونٹ ساتھ لئے اور لبیک پکارتے ہوئے ظہران میں پہنچے جہاں سے کعبہ کے بت دکھائی دیتے تھے تو آپ نے تمام نیزے بھالے تیر کمان بطن یا جج میں بھیج دئیے ، مطابق شرط کے صرف تلواریں پاس رکھ لیں اور وہ بھی میان میں تھیں ابھی آپ راستے میں ہی تھے جو قریش کا بھیجا ہوا آدمی مکرز بن حفص آیا اور کہنے لگا حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی عادت تو توڑنے کی نہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا بات ہے ؟ وہ کہنے لگا کہ آپ تیر اور نیزے لے کر آرہے ہیں آپ نے فرمایا نہیں تو ہم نے وہ سب یاجج بھیج دیے ہیں اس نے کہا یہی ہمیں آپ کی ذات سے امید تھی آپ ہمیشہ سے بھلائی اور نیکی اور وفاداری ہی کرنے والے ہیں سرداران کفار تو بوجہ غیظ وغضب اور رنج وغم کے شہر سے باہر چلے گئے کیونکہ وہ تو آپ کو اور آپ کے اصحاب کو دیکھنا بھی نہیں چاہتے تھے اور لوگ جو مکہ میں رہ گئے تھے وہ مرد عورت بچے تمام راستوں پر اور کوٹھوں پر اور چھتوں پر کھڑے ہوگئے اور ایک استعجاب کی نظر سے اس مخلص گروہ کو اس پاک لشکر کو اس اللہ کی فوج کو دیکھ رہے تھے آپ نے قربانی کے جانور ذی طوٰی میں بھیج دئیے تھے خود آپ اپنی مشہور و معروف سواری اونٹنی قصوا پر سوار تھے آگے آگے آپ کے اصحاب تھے جو برابر لبیک پکار رہے تھے حضرت عبداللہ بن رواحہ انصاری آپ کی اونٹنی کی نکیل تھامے ہوئے تھے اور یہ اشعار پڑھ رہے تھے باسم الذی لا دین الا دینہ بسم الذی محمد رسولہ خلوا بنی الکفار عن سبیلہ الیوم نضربکم علی تاویلہ کما ضربنا کم علی تنزیلہ ضربا یزیل الھام عن مقیلہ ویذھل الخلیل عن خلیلہ قد انزل الرحمن فی تنزیلہ فی صحف تتلی علی رسولہ بان خیر القتل فی سبیلہ یارب انی مومن بقیلہ یعنی اس اللہ عزوجل کے نام جس کے دین کے سوا اور کوئی دین قابل قبول نہیں ۔ اس اللہ کے نام سے جس کے رسول حضرت محمد ہیں ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اے کافروں کے بچو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے سے ہٹ جاؤ آج ہم تمہیں آپ کے لوٹنے پر بھی ویسا ہی ماریں گے جیسا آپ کے آنے پر مارا تھا وہ مار جو دماغ کو اس کے ٹھکانے سے ہٹا دے اور دوست کو دوست سے بھلا دے ۔ اللہ تعالیٰ رحم والے نے اپنی وحی میں نازل فرمایا ہے جو ان صحیفوں میں محفوظ ہے جو اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تلاوت کئے جاتے ہیں کہ سب سے بہتر موت شہادت کی موت ہے جو اس کی راہ میں ہو ۔ اے میرے پروردگار میں اس بات پر ایمان لا چکا ہوں ۔ بعض روایتوں میں الفاظ میں کچھ ہیر پھیر بھی ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ اس عمرے کے سفر میں جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم ( مر الظہران ) میں پہنچے تو صحابہ نے سنا کہ اہل مکہ کہتے ہیں یہ لوگ بوجہ لاغری اور کمزوری کے اٹھ بیٹھ نہیں سکتے یہ سن کر صحابہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا اگر آپ اجازت دیں تو ہم اپنی سواریوں کے چند جانور ذبح کرلیں ان کا گوشت کھائیں اور شوربا پئیں اور تازہ دم ہو کر مکہ میں جائیں آپ نے فرمایا نہیں ایسا نہ کرو تمہارے پاس جو کھانا ہو اسے جمع کرو چنانچہ جمع کیا دستر خوان بچھایا اور کھانے بیٹھے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی وجہ سے کھانے میں اتنی برکت ہوئی کہ سب نے کھا پی لیا اور توشے دان بھر لئے ۔ آپ مکہ شریف آئے سیدھے بیت اللہ گئے قریشی حطیم کی طرف بیٹھے ہوئے تھے آپ نے چادر کے پلے دائیں بغل کے نیچے سے نکال کر بائیں کندھے پر ڈال لئے اور اصحاب سے فرمایا یہ لوگ تم میں سستی اور لاغری محسوس نہ کریں ، اب آپ نے رکن کو بوسہ دے کر دوڑنے کی سی چال سے طواف شروع کیا جب رکن یمانی کے پاس پہنچے جہاں قریش کی نظریں نہیں پڑتی تھیں تو وہاں سے آہستہ آہستہ چل کر حجر اسود تک پہنچے ، قریش کہنے لگے تم لوگ تو ہرنوں کی طرح چوکڑیاں بھر رہے ہو گویا چلنا تمہیں پسند ہی نہیں تین مرتبہ تو آپ اسی طرح ہلکی دوڑ کی سی چال حجر اسود سے رکن یمانی تک چلتے رہے تین پھیرے اس طرح کئے چنانچہ یہی مسنون طریقہ ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے حجتہ الوداع میں بھی اسی طرح طواف کے تین پھیروں میں رمل کیا یعنی دلکی چال چلے ۔ بخاری مسلم میں ہے کہ اصحاب رسول کو مدینے کی آب و ہوا شروع میں کچھ ناموافق پڑی تھی اور بخار کی وجہ سے یہ کچھ لاغر ہوگئے تھے ، جب آپ مکہ پہنچے تو مشرکین مکہ نے کہا یہ لوگ جو آرہے ہیں انہیں مدینے کے بخار نے کمزور اور سست کر دیا اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے اس کلام کی خبر اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کر دی ۔ مشرکین حطیم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے آپ نے اپنے اصحاب کو حکم دیا کہ وہ حجر اسود سے لے کر رکن یمانی تک طواف کے تین پہلے پھیروں میں دلکی چال چلیں اور رکن یمانی سے حجر اسود تک جہاں جانے کے بعد مشرکین کی نگاہیں نہیں پڑتی تھیں وہاں ہلکی چال چلیں پورے ساتوں پھیروں میں رمل کرنے کو نہ کہنا یہ صرف بطور رحم کے تھا ، مشرکوں نے جب دیکھا کہ یہ تو سب کے سب کود کود کر پھرتی اور چستی سے طواف کر رہے ہیں تو آپس میں کہنے لگے کیوں جی انہی کی نسبت اڑا رکھا تھا کہ مدینے کے بخار نے انہیں سست و لاغر کر دیا ہے ؟ یہ لوگ تو فلاں فلاں سے بھی زیادہ چست و چالاک ہیں ، ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ذوالقعدہ کی چوتھی تاریخ کو مکہ شریف پہنچ گئے تھے اور روایت میں ہے کہ مشرکین اس وقت قعیقعان کی طرف تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا صفا مروہ کی طرف سعی کرنا بھی مشرکوں کو اپنی قوت دکھانے کے لئے تھا ، حضرت ابن ابی اوفی فرماتے ہیں اس دن ہم آپ پر چھائے ہوئے تھے اس لئے کہ کوئی مشرک یا کوئی ناسمجھ آپ کو کوئی ایذاء نہ پہنچا سکے ، بخاری شریف میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم عمرے کے لئے نکلے لیکن کفار قریش نے راستہ روک لیا اور آپ کو بیت اللہ شریف تک نہ جانے دیا آپ نے وہیں قربانیاں کیں اور وہیں یعنی حدیبیہ میں سر منڈوا لیا اور ان سے صلح کر لی جس میں یہ طے ہوا کہ آپ اگلے سال عمرہ کریں گے سوائے تلواروں کے اور کوئی ہتھیار اپنے ساتھ لے کر مکہ مکرمہ میں نہیں آئیں گے اور وہاں اتنی ہی مدت ٹھہریں گے جتنی اہل مکہ چاہیں پس اگلے سال آپ اسی طرح آئے تین دن تک ٹھہرے پھر مشرکین نے کہا اب آپ چلے جائیں چنانچہ آپ وہاں سے واپس ہوئے صحیح بخاری شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذی قعدہ میں عمرہ کرنے کا ارادہ کیا لیکن اہل مکہ حائل ہوئے تو آپ نے ان سے یہ فیصلہ کیا کہ آپ صرف تین دن ہی مکہ میں ٹھہریں گے جب صلح نامہ لکھنے لگے تو لکھا یہ وہ ہے جس پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح کی تو اہل مکہ نے کہا کہ اگر آپ کو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تو ہرگز نہ روکتے بلکہ آپ محمد بن عبداللہ لکھئے ، آپ نے فرمایا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوں میں محمد بن عبداللہ ہوں پھر آپ نے حضرت علی بن ابو طالب سے فرمایا لفظ یا رسول اللہ کو مٹا دو ۔ حضرت علی نے فرمایا نہیں نہیں قسم اللہ کی میں اسے ہرگز نہ مٹاؤں گا چنانچہ آپ نے اس صلح نامہ کو اپنے ہاتھ میں لے کر باوجود اچھی طرح لکھنا نہ جاننے کے لکھا ، کہ یہ وہ ہے جس پر محمد بن عبداللہ نے صلح کی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) یہ کہ مکہ میں ہتھیار لے کر داخل نہ ہوں گے صرف تلوار ہو گی اور وہ بھی میان میں اور یہ کہ اہل مکہ میں سے جو آپ کے ساتھ جانا چاہے گا اسے آپ اپنے ساتھ نہیں لے جائیں گے اور یہ کہ آپ کے ساتھیوں میں سے جو مکے میں رہنے کے ارادے سے ٹھہر جانا چاہے گا آپ اسے روکیں گے نہیں پس جب آپ آئے اور وقت مقررہ گذر چکا تو مشرکین حضرت علی کے پاس آئے اور کہا آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہئے کہ اب وقت گذر چکا تشریف لے جائیں چنانچہ آپ نے کوچ کر دیا ۔ حضرت حمزہ کی صاحبزادی چچا چچا کہہ کر آپ کے پیچھے ہو لیں حضرت علی نے انہیں لے لیا اور انگلی تھام کر حضرت فاطمہ کے پاس لے گئے اور فرمایا اپنے چچا کی لڑکی کو اچھی طرح رکھو حضرت زہرا نے بڑی خوشی سے بچی کو اپنے پاس بٹھا لیا ۔ اب حضرت علی اور حضرت زید اور حضرت جعفر میں جھگڑا ہونے لگا حضرت علی فرماتے تھے انہیں میں لے آیا ہوں اور یہ میرے چچا کی صاحبزادی ہیں حضرت جعفر فرماتے تھے میری چچا زاد بہن ہے اور ان کی خالہ میرے گھر میں ہیں ۔ حضرت زید فرماتے تھے میرے بھائی کی لڑکی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جھگڑے کا فیصلہ یوں کیا کہ لڑکی کو تو ان کی خالہ کو سونپا اور فرمایا خالہ قائم مقام ماں کے ہے حضرت علی سے فرمایا تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں ۔ حضرت جعفر سے فرمایا کہ تو خلق اور خلق میں مجھ سے پوری مشابہت رکھتا ہے ۔ حضرت زید سے فرمایا تو ہمارا بھائی اور ہمارا مولیٰ ہے ۔ حضرت علی نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ حضرت حمزہ کی لڑکی سے نکاح کیوں نہ کرلیں ؟ آپ نے فرمایا وہ میرے رضاعی بھائی کی لڑکی ہیں پھر فرماتا ہے اللہ تعالیٰ جس خیر و مصلحت کو جانتا تھا اور جسے تم نہیں جانتے تھے اس بنا پر تمہیں اس سال مکہ میں نہ جانے دیا اور اگلے سال جانے دیا اور اس جانے سے پہلے ہی جس کا وعدہ خواب کی شکل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا تھا تمہیں فتح قریب عنایت فرمائی ۔ یہ فتح وہ صلح ہے جو تمہارے دشمنوں کے درمیان ہوئی ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ مومنوں کو خوشخبری سناتا ہے کہ وہ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ان دشمنوں پر اور تمام دشمنوں پر فتح دے گا اس نے آپ کو علم نافع اور عمل صالح کے ساتھ بھیجا ہے ، شریعت میں دو ہی چیزیں ہوتی ہیں علم اور عمل پس علم شرعی صحیح علم ہے اور عمل شرعی مقبولیت والا عمل ہے اس کے اخبار سچے ، اس کے احکام سراسر عدل و حق والے ۔ چاہتا یہ ہے کہ روئے زمین پر جتنے دین ہیں عربوں میں ، عجمیوں میں ، مسلمین میں ، مشرکین میں ، ان سب پر اس اپنے دین کو غالب اور ظاہر کرے اللہ کافی گواہ ہے اس بات پر کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ ہی آپ کا مددگار ہے واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

27۔ 1 واقعہ حدیبیہ سے پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خواب میں مسلمانوں کے ساتھ بیت اللہ میں داخل ہو کر طواف وعمرہ کرتے ہوئے دکھا گیا نبی کا خواب بھی بمنزلہ وحی ہی ہوتا ہے تاہم اس خواب میں یہ تعیین نہیں تھی کہ یہ اسی سال ہوگا لیکن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمان اسے بشارت عظیمہ سمجھتے ہوئے عمرے کے لیے فورا ہی آمادہ ہوگئے اور اس کے لیے عام مندی کرا دی گئی اور چل پڑے بالآخر حدیبیہ میں وہ صلح ہوئی جس کی تفصل ابھی گزری دراں حالیکہ اللہ کے علم میں اس خواب کی تعبیر آئندہ سال تھی جیسا کہ آئندہ سال مسلمانوں نے نہایت امن کے ساتھ یہ عمرہ کیا اور اللہ نے اپنے پیغمبر کے خواب کو سچا کر دکھایا۔ 27۔ 2 یعنی اگر حدیبیہ کے مقام پر صلح نہ ہوتی تو جنگ سے مکہ میں مقیم کمزور مسلمانوں کو نقصان پہنچتا صلح کے ان فوائد کو اللہ ہی جانتا تھا۔ 27۔ 3 اس سے فتح خیبر و فتح مکہ کے علاوہ، صلح کے نتیجے میں جو بہ کثرت مسلمان ہوئے وہ بھی مراد ہے، کیونکہ وہ بھی فتح کی ایک عظیم قسم ہے۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر مسلمان ڈیڑھ ہزار تھے، اس کے دو سال بعد جب مسلمان مکہ میں فاتحانہ طور پر داخل ہوئے تو ان کی تعداد دس ہزار تھی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤١] عمرہ کے خواب کی حقیقت :۔ کافر یا منافقین تو درکنار خود بعض مسلمانوں کو بھی اس بات میں تردد تھا کہ نبی کا خواب تو وحی ہوتا ہے۔ پھر یہ کیا معاملہ ہے کہ ہمیں عمرہ سے روک دیا گیا ہے۔ اور خود رسول اللہ اس شرط کو منظور فرما رہے ہیں۔ اس کا ایک جواب تو رسول اللہ نے سیدنا عمر کو دے دیا تھا کہ : میں نے یہ کب کہا تھا کہ یہ عمرہ اسی سال ہوگا (یعنی خواب میں وقت کی تعیین نہیں کی گئی تھی) اور دوسرا جواب خود اللہ تعالیٰ نے دے دیا کہ پیغمبر کا خواب فی الواقع سچا تھا اور ہم نے ہی دکھایا تھا وہ ضرور پورا ہوگا۔ تم یقیناً امن وامان کے ساتھ حرم میں داخل ہو کر عمرہ ادا کرو گے۔ تم سر منڈاؤ گے اور بال کتراؤ گے۔ یہاں پہلے سر منڈانے کا ذکر فرمایا جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سر منڈانا، بال کتروانے سے افضل ہے۔ چناچہ صلح حدیبیہ سے اگلے سال مسلمانوں نے عمرہ قضا ادا کیا اور یہ سب باتیں پوری ہوئیں۔- خایفائے عہد کی مثال :۔ از روئے معاہدہ حدیبیہ طے یہ ہوا تھا کہ مسلمان اگلے سال عمرہ کے لئے آئیں اور تین دن کے اندر اندر عمرہ کرکے واپس اپنے وطن چلے جائیں۔ اور جب مسلمان آگئے تو قریش مکہ یہ برداشت نہ کرسکے کہ مسلمان ان کی نظروں کے سامنے بلاتکلف کعبہ میں داخل ہو کر عمرہ کے ارکان آزادی سے بجا لاسکیں۔ لہذا انہوں نے صرف حرم کعبہ کو خالی کرنے کے بجائے اس شہر کو ہی خالی کردیا اور خود آس پاس پہاڑیوں پر تین دن کے لئے جامقیم ہوئے۔ اس دوران اگر مسلمان چاہتے تو بڑی آسانی سے مکہ پر قبضہ کرسکتے تھے۔ مگر مسلمان ایفائے عہد میں اس قسم کی موقع شناسی کو بدترین جرم تصور کرتے تھے۔ لہذا کسی کو بھی ایسا خیال تک نہ آیا اور تین دن کی طے شدہ مدت کے بعد مسلمان عمرہ کرکے واپس چلے گئے۔- خ عمرہ قضا کو کس لحاظ سے عمرہ قضا کہا جاتا ہے ؟ :۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حدیبیہ میں چونکہ مسلمانوں کو عمرہ کرنے سے روک دیا گیا تھا۔ لہذا اس عمرہ کی قضا لازم تھی۔ جو انہوں نے اگلے سال ادا کی۔ اور مغالطہ غالباً لفظ قضا سے ہوا۔ حالانکہ یہاں قضا اپنے لغوی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ یعنی وہ عمرہ جس کے متعلق معاہدہ حدیبیہ میں یہ فیصلہ ہوا تھا کہ مسلمان اس سال نہیں بلکہ اگلے سال آکر کریں گے جس کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ نے اگلے سال کوئی ایسا اعلان نہیں فرمایا کہ جو لوگ پچھلے سال عمرہ سے روک دیئے گئے تھے وہ عمرہ کے لئے تیار ہوجائیں اور مسلمان بھی جو حدیبیہ میں حاضر ہوئے تھے اس معاملہ میں آزاد تھے۔ جو آسکتے تھے وہ آگئے اور جو نہ آسکے وہ نہیں آئے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث میں بھی اس کی وضاحت موجود ہے۔- سیدنا ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ قضا اس پر لازم ہے جو عورت سے صحبت کرکے حج توڑے، اور جسے کوئی عذر لاحق ہوجائے، دشمن روک دے یا اور کچھ بیماری وغیرہ کا عذر ہو تو وہ اپنا احرام کھول دے اور قضا نہ دے۔ اور اگر اس کے ساتھ قربانی ہو اور اسے حرم میں نہ بھیج سکے تو وہیں ذبح کردے اور اگر حرم تک بھیج سکتا ہے تو جب تک قربانی وہاں نہ پہنچ جائے، وہ احرام نہیں کھول سکتا اور امام مالک وغیرہ نے کہا کہ جب وہ رک جائے تو جہاں کہیں چاہے وہیں قربانی ذبح کر دے اور سر منڈا لے اور اس پر قضا لازم نہیں۔ کیونکہ رسول اللہ اور آپ کے اصحاب (رض) نے حدیبیہ میں قربانیاں ذبح کیں اور سر منڈائے اس سے پہلے کہ وہ طواف کریں اور قربانی بیت اللہ کو پہنچے۔ پھر کسی روایت میں اس کا ذکر نہیں کہ آپ نے ان میں سے کسی کو قضا کا حکم دیا ہو یا دہرانے کو کہا ہو۔ اور حدیبیہ حرم کی حد سے باہر ہے۔ (بخاری۔ کتاب المناسک۔ ابو اب المحصر۔ باب من قال لیس علی المحصر بدل۔۔ )- [٤٢] یعنی یہ کہ یہ عمرہ اگلے سال ہوگا۔ اس سال نہیں ہوگا۔- [٤٣] یعنی یہ فتح خیبر تمہاری حدیبیہ کے مقام پر پیش آنے والی پریشانیوں پر صبر و برداشت اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے صلہ کے طور پر تمہیں دی جارہی ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) لقد صدق اللہ رسولہ الرء یا بالحق : اس کی ترکیب دو طرح سے کی جاتی ہے، ایک یہ کہ ” صدق اللہ “ فعل اور فاعل ہے،” رسولہ “ اس کا مفعول بہ ہے اور ” الرء یا “ سے پہلے حرف جار ” فی “ محذوف ہے، جس کے حذف کی وجہ سے ” الرء یا “ منصوب ہے، اسے منصوب بنزع الخافض کہتے ہیں :” ای فی الرویا “ ترجمہ اسی ترکیب کے مطابق کیا گیا ہے کہ بلا شبہ یقینا اللہ نے اپنے رسول کو خواب میں حق کے ساتھ سچی خبر دی یا سچ کہا۔ اس کی مثال یہ آیت ہے :(من المومنین رجال صدقوا ما ماھدوا اللہ علیہ) (الاحزاب : ٢٣)” ای فی ماعاھدوا اللہ علیہ “ ” مومنوں میں سے کچھ مرد ایسے ہیں جنہوں نے اس بات میں سچ کہا جس پر انہوں نے اللہ سے عہد کیا۔ “ دوسری ترکیب یہ ہے کہ ” صدق اللہ “ فعل و فاعل ہے، ” رسولہ “ پہلا مفعول ہے اور ” الرء یا “ دوسرا مفعول ہے۔ یعنی بلاشبہ یقینا اللہ نے اپنے رسول کو حق کے ساتھ سچا خواب دکھایا۔ اس صورت میں ” صدق “ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوگا۔ ” بالحق “ کا مطلب ہے واقعہ کے عین مطابق۔- (٢) لتدخلن المجسد الحرام…: حدیبیہ روانہ ہونے سے پہلے مدینہ منورہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خواب دیکھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے صحابہ سمیت امن و اطمینان کے ساتھ کسی خوف کے بغیر مکہ میں داخل ہوتے ہیں، بیت اللہ کا طواف اور عمرہ کے دوسرے ارکان ادا کر رہے ہیں، پھر کوئی سر منڈوا رہا ہے اور کوئی کتروا رہا ہے۔ پیغمبر کا خواب چو کہ وحی ہوتا ہے اور کسی صورت جھوٹا نہیں ہوسکتا، اس لئے مسلمان بہت خشو ہوئے اور عوماً انہوں نے سمجھا کہ اسی سال مکہ میں داخلہ ہوگا، مگر جب مکہ میں داخل ہوئے بغیر حدیبیہ سے واپس پلٹے تو بعض صحابہ کے دلوں میں اس کے متعلق کچھ تردد پیدا ہوا کہ خواب پورا نہیں ہوا۔ تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کر کے واضح فرمایا کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ خواب ہم نے دکھایا اور یہ بالکل سچ ہے جو یقیناً پورا ہوگا۔ چناچہ اس کے مطابق آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگلے سال مکہ معظمہ میں داخل ہوئے اور امن و اطمینان کے ساتھ عمرہ ادا کر کے واپس آئے۔ حقیقت یہ ہے کہ خود خواب میں اس کے پورا ہونے کا وقت نہیں بتایا گیا تھا، جب کہ خواب کی تعبیر بعض اوقات کئی سال بعد جا کر ظاہر ہوتی ہے، جیسا کہ یوسف (علیہ السلام) نے خواب دیکھنے کے کئی سال بعد والدین اور بھائیوں کے مصر میں آنے پر کہا (یابت ھذا تاویل ریای من قبل قد جعلھا ربی حقا) (یوسف : ١٠٠) ” اے میرے باپ یہ میرے پہلے کے خواب کی تعبیر ہے، بیشک میرے رب نے اسے سچا کردیا۔ “ یہاں بعض مسلمانوں نے اپنے طور پر سمجھ لیا تھا کہ اسی سال مکہ معظمہ میں داخلہ ہوگا۔ چناچہ صحیح بخاری کی ایک لمبی حدیث میں ہے کہ جب صلح طے ہوچکی، تو عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں (فاتبت نبی اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فقلت الست نبی اللہ حقا ؟ قال بلی، قلت السنا علی الحق وعلونا علی الباطل ؟ قال بلی، قلت فلم نعطی الدنیۃ فی دیننا اذا ؟ قال انی رسول اللہ ، ولست اغصہ وھو ناصری، قلت اولیس کنت تحدننا انا سناتی البیت فنطوف بہ ؟ قال بلی، فاخبر تک انا ناتیہ العام ؟ قال قلت لاء قال فانک آتیہ و مطوف بہ قال فاتیت ابابکر ففلت یا اببکرچ الیس ھذا نبی اللہ حقاً ١ قال بلی ، قلت السنا علی الحق و عدونا علی الباطل ؟ قال بلی قلت فلم نعطی الدنیۃ فی دیننا اذا ؟ قال ایھا الرجل انہ لرسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ولیس یعصی ربہ و ھو ناصرہ، فاستمسک بغرہ، فو اللہ بانہ لعی الحق فلت الیس کان یحدتنا انا سناتی البیت و نطوف بہ ؟ قال بلی، افاخبرک الک ناتیہ الغام ؟ قلت لا، قال فانک آتیہ و مطوف بہ قال الزھری قال عمر فعمک لذلک اعمالاً ) (بخاری، الشروط، باب الشروط فی الجھاد…: ٢٨٣١، ٢٨٣٢)” تو میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا، میں نے کہا، کیا آپ اللہ کے سچے نبی نہیں ہیں ؟ “ آپ نے فرمایا :” کیوں نہیں میں نے کہا :” کیا ہم حق پر اور ہمارے دشمن باطل پر نہیں ؟ “ فرمایا :” کیوں نہیں “ میں نے کہا :” تو ایسے میں ہمیں اپنے دین میں ذلت کی بات کیوں قبول کروائی جاتی ہے ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یقیناً میں اللہ کا رسول ہوں اور میں اس کی نافرمانی نہیں کرتا اور وہ میری مدد کرنیو الا ہے۔ “ میں نے کہا : ” کیا آپ ہمیں بیان نہیں کیا کرتے تھے کہ ہم بیت اللہ میں جائیں گے اور اس کا طواف کریں گے ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” تو کیا میں نے والے اور اس کا طواف کرنے والے ہو۔ “ عمر (رض) نے کہاک، پھر میں ابوبکر (رض) کے پاس گیا، میں نے کہا :” اے ابوبکر کیا یہ اللہ کے سچے نبی نہیں ہیں ؟ “ انہوں نے کہا :” کیوں نہیں “ میں نے کہا :” کیا ہم حق پر اور ہمارے دشمن باطل پر نہیں ؟ “ کہا ” کیوں نہیں “ میں نے کہا :” تو پھر ہمیں اپنے دین میں ذلت کی بات کیوں قبول کروائی جاتی ہے ؟ “ انہوں نے کہا :” اے (اللہ کے) بندے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یقیناً اللہ کے رسول ہیں اور آپ اپنے رب کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہ آپ کی مدد کرنے والا ہے، اس لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رکاب کو مضبوط سے تھامے رکھو۔ “ میں نے کہا :” کیا آپ ہمیں بیان نہیں کیا ک رتے تھے کہ ہم بیت اللہ میں جائیں گے اور اس کا طواف کریں گے ؟ “ انہوں نے کہا :” تو کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمہیں بتایا تھا کہ تم اسی سال وہاں جاؤ گے ؟ “ میں نے کہا :” نہیں “ انہوں نے کہا :” تو تم یقیناً اس میں جاؤ گے اور اس کا طواف کرو گے۔ “ زہری کہتے ہیں کہ عمر (رض) نے کہا :” پھر میں نے اس (جلد بازی کے کفارے) کے لئے کئی اعمال کئے۔ “- صحیح بخاری میں ایک اور جگہ سہل بن حنیف (رض) سے عمر (رض) کی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر (رض) کے ساتھ یہ گفتگو اور ان کا یہی جواب مروی ہے، اس کے آخر میں ہے : فنزلت سورة الفتح فقراھا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) علی عمر الی اخرھا، فقال عمر یا رسول اللہ او فتح ہو ؟ قال نعم ) (بخاری، الجزیۃ و الموادعۃ ، باب انم من عاھدثم غدر : ٣١٨٢)” اس موقع پر سورة فتح اتری تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عمر (رض) کو یہ سورت آخر تک پڑھ کر سنائی۔ عمر (رض) نے کہا :” اے اللہ کے رسول ٖ کیا یہ فتح ہے ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” ہاں (یہ فتح ہے۔ ) “- (٣) ان شآء اللہ : یہاں ایک مشہور سوال ہے کہ ” ان شاء اللہ “ تو استثنا کے لئے کہا جاتا ہے کہ اگر اللہ نے چاہا تو یہ کام ہوجائے گا ورنہ نہیں، حتی کہ قسم کے بعد اگر ” ان شاء اللہ “ کہہ لیا جائے تو قسم بھی واقع نہیں ہوتی، کیونکہ اس میں جزم اور پختگی نہیں ہوئی، جبکہ اللہ تعالیٰ کے کلام میں شک یا استثناء کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تو یہاں ” ان شآء اللہ “ کہنے کا کیا مطلب ہے ؟ اہل لم نے اس کے کئی جواب دیے ہیں۔ ابن کثیر (رح) نے فرمایا :” یہ ” ان شآء اللہ “ اس خبر کی تاکید اور اس کا یقین دلانے کے لئے ہے، استثنا کے لئے کس طرح بھی نہیں۔ “ (ابن کثیر) ابن تیمیہ (رح) نے تاتاریوں کے مقابلے پر مسلمانوں کو ان کی فتح کا یقین دلاتے ہوئے اللہ کی قسم کھائی اور ان شاء اللہ کہا ساتھ ہی فرمایا ا :” ان شاء اللہ تحقیقاً لاتعلیقا “ ابن عاشور نے فرمایا :” ان شاء اللہ “ کا ایک استعمال یہ ہے کہ یہ کسی چیز کے متعلق اس وقت بولا جاتا ہے جب وہ ائٓندہ دیر سے واقع ہونے والی ہو، جیسے کسی سے کہا جائے کہ یہ کام کردو تو جیہوں میں سے تین توج ہیں ہیں ہیں، ایک یہ کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کو ادب سکھانے کے لئے ہے کہ وہ اپنے آئندہ ہر کام کے لئے ” ان شاء اللہ “ کہا کریں۔ (جیسا کہ سورة کہف (٢٣، ٢٤) میں فرمایا :(ولا تقولن لشای انی فاعل ذلک غدا الا ان یشآء اللہ) دوسری یہ کہ یہ استثناء ہر انسان کو الگ الگ پیش نظر رکھ کر کیا گیا ہے، کیونکہ ممکن ہے ان میں سے کوئی شخص اس داخلے سے پہلے فوت ہوجائے، یا بیمار ہونے کی وجہ سے نہ جاسکے۔ تیسری یہ کہ یہاں ” ان شآء اللہ “ ” اذا شاء اللہ “ کے معنی میں ہے کہ یقیناً تم مسجد حرام میں داخل ہوگے جب اللہ چاہے گا۔ آلوسی نے اس کی ایک مثال ” انا ان شاء اللہ بکم للاحقون “ دی ہے۔ یہ تمام جواب ہی درست، پختہ اور مضبوط ہیں۔- (٤) امنین مخلقین : حج اور عمرہ میں احرام کھولنے پر سر منڈوایا یا کتروایا جاتا ہے۔ ” مخلقین “ کو پ ہلے لانے میں اس کے حق میں ایک دفعہ دعا کی۔ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(اللھم اغفر للمحلفین، قالوا وللمقصرین ، قال اللھم اغفر للمحلفین … قالھا ثلاثاً قال وللمقصرین) (بخاری، الحج، باب الحق و التفصیر عندالاحال :1828)” اے اللہ منڈوانے والوں کو بخش دے۔ “ صحابہ نے کہا :” اور کتروانے والوں کو بھی۔ “ آپ نے فرمایا : ” اے اللہ منڈوانے والوں کو بخش دے۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (صحابہ کے بار بار سوال پر) تین دفعہ پہلی دعا ہی کی، پھر فرمایا :” اور کتروانے والوں کو بھی بخش دے۔ “- (٥) مخلقین رء و سکو و مقصرین : اپنے سروں کو منڈوانے والے اور کتروانے والے۔ رؤ و سکم “ کا لفظ دلیل ہے کہ سر کو منڈوانا یا کتروانا ہے، ڈاڑھی کو نہیں۔- (٦) لا تخافون : یہاں ایک سوال ہے کہ ” امنین “ ان لوگوں کو کہتے ہیں جنہیں کوئی خوف نہ ہو، پھر ” لاتخافون “ دوبارہ لانے کی کیا ضرورت تھی ؟ جواب یہ ہے کہ ” امنین “ ” لتدخلن “ کی ضمیر سے حال ہے، یعنی تم داخلے کے وقت امن کی حالت میں ہوگے اور ” لاتخاقون “ آئندہ کے لئے وعدہ ہے کہ آئندہ بھی تمہیں دشمن کے حملے یا اس کی کسی شاز کا خوف نہیں ہوگا۔- (٧) فعلم مالم تعلموا : یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خواب میں جو دھکایا تھا کہ تم ضرور مسجد حرام میں داخل ہوگے وغیرہ وہ بالکل سچ فرمایا تھا۔ تمہارے خیال میں یہ داخلہ اسی سال ہونا چاہیے تھا، مگر اسے تمہارے اس سال مکہ میں داخل نہ ہونے میں وہ حکمتیں معلوم تھیں جو تم نہیں جانتے تھے۔ ان حکمتوں سے مراد کچھ وہ حکت میں ہیں جن کا پیھچے ذکر ہوا، مثلاً صلح کی بدولت بیشمار لوگوں کا مسلمان ہونا، مکہ میں م وجود ان مومن مردوں اور مومن عورتوں کو نقصان سے محفوظ رکھنا، جن کا مسلمانوں کو علم نہیں تھا، مکہ میں داخلے سے پہلے پہلے فتوحات اور غنائم کے ذریعے سے مسلمانوں کی مالی اور عدی حالت کو مستحکم کرنا وغیرہ اور کچھ وہ حکمتیں مراد ہیں جنہیں علیم و حکیم ہی جانتا ہے۔- (٨) فجعل من دون ذلک فتحاً قریباً : تو اس نے تمہارے مکہ میں داخل ہونے اور بیت اللہ کا طواف کرنے سے پہلے ایک قریب فتح رکھ دی۔ اس فتح قریب سے مراد بعض نے فتح خیبر لی ہے اور بعض نے صلح حدیبیہ۔ زیادہ درست یہی ہے کہ مراد صلح حدیبیہ ہے، کیونکہ عمر (رض) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے متعق پوچھا :(یا رسول اللہ او فتح ھو ؟ )” یا رسول اللہ کیا وہ فتح ہے ؟ “ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(نعم)” ہاں “ ) (مسلم، الجھاد والسیر، باب صلح الحدیبیۃ :1885) جیسا کہ اس سے پہلے گزر چکا ہے اور ” انا فتحنا لک فتحامبیناً سے مراد بھی یہی ہے۔ دونوں بھی مراد ہوسکتی ہیں، البتہ فتح مکہ مراد نہیں ہوسکتی، کیو کہ مکہ میں داخلہ اس فتح سے پہلے بھی ہونے والا تھا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - بیشک اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو سچا خواب دکھلایا ہے جو مطابق واقعہ کے ہے تم لوگ مسجد حرام میں انشاء اللہ ضرور جاؤ گے امن وامان کے ساتھ کہ تم میں کوئی سر منڈاتا ہوگا کوئی بال کتراتا ہوگا تم کو کسی طرح کا اندیشہ نہ ہوگا (چنانچہ سال آئندہ ایسا ہی ہوا اور اس سال سے تاخیر کی وجہ یہ ہے کہ) سو اللہ تعالیٰ کو وہ باتیں (اور حکمتیں) معلوم ہیں جو تم کو معلوم نہیں (ان حکمتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ) پھر اس (خواب کے واقع ہونے) سے پہلے تم کو ایک قریبی فتح (خیبر کی) دے دی (تاکہ اس سے مسلمانوں کو قوت اور سامان حاصل ہوجائے اور وہ پورے اطمینان کے ساتھ عمرہ ادا کریں جیسا کہ ایسا ہی واقع ہوا) وہ اللہ ایسا ہے کہ اس نے اپنے رسول کو ہدایت (کا سامان یعنی قرآن) اور سچا دین (اسلام) دے کر بھیجا ہے تاکہ اس (دین) کو تمام دینوں پر غالب کر دے (یہ غلبہ حجت و دلیل کے اعتبار سے تو دائمی اور ہمیشہ ہی رہے گا اور شوکت و سلطنت کے اعتبار سے بھی غلبہ رہے گا مگر ایک شرط کے ساتھ وہ یہ کہ اہل دین یعنی مسلمان باصلاحیت ہوں، جب یہ شرط نہیں ہوگی تو غلبہ ظاہری کا وعدہ نہیں اور چونکہ صحابہ کرام میں یہ شرط موجود تھی جیسا کہ اگلی آیات جو صحابہ کے متعلق آ رہی ہیں ان میں اس صلاحیت کا ذکر ہے اس لئے اس آیت میں جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کی بشارت ہے ایسا ہی صحابہ کرام کے لئے فتوحات کی بشارت ہے جیسا کہ مشاہدہ ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات پر پچیس سال گزرنے نہ پائے تھے کہ اسلام اور قرآن دنیا کے گوشہ گوشہ میں فاتحانہ طور پر پہنچ گیا) اور (حمیت جاہلیت والے اگر آپ کے نام کے ساتھ رسول کا لفظ لکھنے سے گریز کرتے ہیں تو آپ مغمول نہ ہوں، کیونکہ آپ کی رسالت پر) اللہ کافی گواہ ہے (جس نے آپ کی رسالت کو دلائل واضحہ اور کھلے ہوئے معجزات سے ثابت کر دکھایا جس سے ثابت ہوگیا کہ) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں (اس جگہ محمد رسول اللہ کا پورا جملہ لانے سے اس طرف اشارہ ہے کہ حمیت جاہلیت والوں نے ان کے نام کے ساتھ رسول اللہ لکھنا گوارا نہ کیا تو کیا پروا ہے اللہ نے یہ کلمہ آپ کے نام کے ساتھ لکھ دیا جو قیامت تک پڑھا جائے گا، آگے آپ کی متبعین صحابہ کے فضائل و بشارات مذکور ہیں کہ) اور جو لوگ آپ کی صحبت پائے ہوئے ہیں (یہ لفظ تمام صحابہ کرام کو شامل ہے خواہ ان کی صحبت طویل میسر ہو یا قلیل اور جو صحابہ حدیبیہ میں آپ کے ساتھ تھے وہ اصالتہ اور خصوصاً اس کے مصداق ہیں، حاصل یہ ہے کہ سب صحابہ کرام ان صفات کمال کے ساتھ موصوف ہیں کہ) وہ کافروں کے مقابلہ میں تیز ہیں (اور) آپس میں مہربان ہیں (اور) اے مخاطب تو ان کو دیکھے گا کہ کبھی رکوع کر رہے ہیں کبھی سجدہ کر رہے ہیں (اور) اللہ تعالیٰ کے فضل اور رضا مندی (یعنی ثواب اور قرب) کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں ان (کی عبدیت) کے آثار (ان کے) سجدہ کی تاثیر سے ان کے چہروں پر نمایاں ہیں (مراد ان آثار سے خشوع و خضوع کے انوار ہیں جو مومن متقی کے چہرہ میں عموماً مشاہدہ کیے جاتے ہیں) یہ ان کے اوصاف (مذکورہ) تورات میں ہیں اور انجیل میں ان کا یہ وصف (مذکور) ہے کہ جیسے کھیتی کہ اس نے (اول زمین سے) اپنی سوئی نکالی پھر اس نے (مٹی، پانی، ہوا وغیرہ سے غذا پا کر اپنی) اس (سوئی) کو قوی کیا (یعنی یہ کھیتی قوی ہوگئی) پھر وہ کھیتی اور موٹی ہوئی پھر اپنے تنہ پر سیدھی کھڑی ہوگئی کہ (اپنے ہرے بھرے ہونے سے) کسانوں کو بھلی معلوم ہونے لگی (اسی طرح صحابہ میں اول صنعف تھا پھر روزانہ قوت بڑھتی گئی اور اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کو یہ نشوونما اس لئے دیا) تاکہ ان (کی اس حالت) سے کافروں کو (حسد میں) جلا دے اور (آخرت میں) اللہ نے ان صاحبوں سے جو کہ ایمان لائے ہیں اور نیک کام کر رہے ہیں (گناہوں کی) مغفرت اور (طاعات پر) اجر عظیم کا وعدہ کر رکھا ہے۔- معارف و مسائل - جب صلح حدیبیہ مکمل ہوگئی اور یہ بات طے ہوگئی کہ اس وقت بغیر دخول مکہ اور بغیر ادائے عمرہ کے واپس مدینہ جانا ہے اور صحابہ کرام کا یہ عزم عمرہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خواب کی بنا پر ہوا تھا جو ایک طرح کی وحی تھی۔ اب بظاہر اس کے خلاف ہوتا ہوا دیکھ کر بعض صحابہ کرام کے دلوں میں خود یہ شکوک پیدا ہونے لگے کہ (معاذاللہ) آپ کا خواب سچا نہ ہوا۔ دوسری طرف کفار و منافقین نے مسلمانوں کو طعنہ دیا کہ تمہارے رسول کا خواب صحیح نہ ہوا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی (آیت) لَـقَدْ صَدَقَ اللّٰهُ رَسُوْلَهُ الرُّءْيَا بالْحَقِّ الآیتہ (رواہ البیہقی وغیرہ عن مجاہد) - (آیت) لَـقَدْ صَدَقَ اللّٰهُ رَسُوْلَهُ الرُّءْيَا بالْحَقِّ ، لفظ صدق بمقابلہ کذب کے اقوال میں استعمال ہوتا ہے، جو قول واقعہ کے مطابق ہو اس کو صدق جو مطابق نہ ہو اس کو کذب کہا جاتا ہے اور بعض اوقات یہ لفظ افعال کے لئے بھی بولا جاتا ہے تو اس وقت اس کے معنی کسی فعل کو محقق اور ثابت کرنے کے ہوتے ہیں جیسا کہ قرآن میں ہے (آیت) رجال صدقوا ماعاھدوا اللہ، یعنی وہ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے اپنے معاہدہ کو پورا کر دکھایا اس وقت لفظ صدق کے دو مفعول ہوتے ہیں جیسا کہ اس آیت میں لفظ صدق کا پہلا مفعول رسولہ اور دوسرا رؤیا ہے اور معنی آیت کے یہ ہیں کہ اللہ نے اپنے رسول کو اپنے خواب میں سچا کر دکھایا (بیضاوی) اور اگرچہ یہ سچا کر دکھانے کا واقعہ آگے آنے والا تھا مگر اس کو بلفظ ماضی تعبیر کر کے اس کے قطعی اور یقینی ہونے کی طرف اشارہ کردیا چناچہ آگے بلفظ مستقبل فرمایا گیا کہ (آیت) َتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ ، یعنی آپ نے جو خواب میں دیکھا تھا کہ ہم مسجد حرام میں داخل ہوئے یہ ضرور ہو کر رہے گا مگر اس سال نہیں بلکہ اس سال کے بعد ہوگا۔ خواب میں اس کا وقت معین نہیں تھا، صحابہ کرام نے اپنے اشتیاق کی وجہ سے اسی سال عزم سفر کرلیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی موافقت فرمائی جس میں اللہ تعالیٰ کی بڑی حکمتیں تھیں جن کا ظہور صلح حدیبیہ کے وقت ہوا، جیسا کہ صدیق اکبر نے اول ہی حضرت عمر کے جواب میں فرمایا تھا کہ آپ کو شک میں نہیں پڑنا چاہئے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خواب میں کوئی وقت اور سال معین نہیں تھا اگر اس وقت نہیں تو پھر ہوگا (قرطبی)- آئندہ ہونے والے کاموں کیلئے انشاء اللہ کہنے کی تاکید :- اس آیت میں حق تعالیٰ نے آئندہ ہونے والے داخلہ مسجد حرام کے ساتھ انشاء اللہ کا لفظ استعمال فرمایا حالانکہ اللہ تعالیٰ تو خود اپنی مشیت کے عالم ہیں ان کو اس کے کہنے کی ضرورت نہیں تھی لیکن اپنے رسول اور سب بندوں کو تعلیم دینے کیلئے اس جگہ حق تعالیٰ نے بھی لفظ انشاء اللہ استعمال فرمایا (قرطبی)- (آیت) مُحَلِّقِيْنَ رُءُوْسَكُمْ وَمُقَصِّرِيْنَ ۙ، صحیح بخاری میں ہے کہ اگلے سال عمرہ قضاء میں حضرت معاویہ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے موئے مبارک قینچی سے تراشے تھے، یہ واقعہ عمرہ قضا ہی کا ہے کیونکہ حجتہ الوداع میں تو آپ نے حلق فرمایا ہے (قرطبی) - فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوْا، یعنی اللہ کی قدرت میں تو یہ بھی تھا کہ اسی سال تمہیں دخول مسجد حرام اور عمرہ نصیب ہوجاتا مگر اگلے سال تک تاخیر کرنے میں بڑی مصالح تھیں جو اللہ کو معلوم تھیں تم ان کو نہ جانتے تھے، منجملہ ان مصالح کے ایک یہ بھی تھا کہ اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ اس سے پہلے خیبر فتح ہو کر مسلمانوں کی قوت اور سامان میں اضافہ ہوجائے اور وہ فراغت و اطمینان کے ساتھ عمرہ ادا کریں اسی لئے فرمایا - (آیت) فَجَــعَلَ مِنْ دُوْنِ ذٰلِكَ فَتْحًا قَرِيْبًا، دون ذلک سے مراد دون الرویا ہے یعنی اس خواب کے واقع ہونے سے پہلے خیبر کی فتح قریب مسلمان کو حاصل ہوجائے اور بعض حضرات نے فرمایا کہ اس فتح قریب سے مراد خود صلح حدیبیہ ہے کہ وہ فتح مکہ اور دوسری تمام فتوحات کا مقدمہ تھی اور بعد تو سبھی صحابہ نے اس کو اعظم الفتوحات قرار دیا ہے تو اب مطلب آیت کا یہ ہوگا کہ اس سال تمہارے عزم سفر اور پھر ناکام ہونے اور صلح ہونے میں جو حکمتیں اور مصالح تھیں وہ تمہارے علم میں نہیں تھیں لیکن اللہ تعالیٰ سب سے واقف تھا وہ چاہتا تھا کہ تم کو اس خواب کے واقعہ سے پہلے صلح حدیبیہ کے ذریعہ ایک فتح قریب نصیب فرما دے اسی فتح قریب کا یہ نتیجہ سب نے دیکھ لیا کہ صحابہ کرام جن کی تعداد سفر حدیبیہ میں ڈیڑھ ہزار سے زائد نہ تھی اس کے بعد دس ہزار تک پہنچ گئی۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لَـقَدْ صَدَقَ اللہُ رَسُوْلَہُ الرُّءْيَا بِالْحَقِّ۝ ٠ ۚ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ اِنْ شَاۗءَ اللہُ اٰمِنِيْنَ۝ ٠ ۙ مُحَلِّقِيْنَ رُءُوْسَكُمْ وَمُقَصِّرِيْنَ۝ ٠ ۙ لَا تَخَافُوْنَ۝ ٠ ۭ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوْا فَجَــعَلَ مِنْ دُوْنِ ذٰلِكَ فَتْحًا قَرِيْبًا۝ ٢٧- ( قَدْ )- : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] ، قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران 13] ، قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة 1] ، لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ، لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة 117] ، وغیر ذلك، ولما قلت لا يصحّ أن يستعمل في أوصاف اللہ تعالیٰ الذّاتيّة، فيقال : قد کان اللہ علیما حكيما، وأما قوله : عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل 20] ، فإنّ ذلک متناول للمرض في المعنی، كما أنّ النّفي في قولک :- ما علم اللہ زيدا يخرج، هو للخروج، وتقدیر ذلک : قد يمرضون فيما علم الله، وما يخرج زيد فيما علم الله، وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة .- نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ .- و ( قَدْ ) و ( قط) «2» يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر .- ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے ۔ قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران 13] تمہارے لئے دوگرہوں میں ۔۔۔۔ ( قدرت خدا کی عظیم الشان ) نشانی تھی ۔ قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة 1] خدا نے ۔۔ سن لی ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ( اے پیغمبر ) ۔۔۔۔۔ تو خدا ان سے خوش ہوا ۔ لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة 117] بیشک خدا نے پیغمبر پر مہربانی کی ۔ اور چونکہ یہ فعل ماضی پر تجدد کے لئے آتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے اوصاف ذاتیہ کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا ۔ لہذا عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل 20] کہنا صحیح نہیں ہے اور آیت : اس نے جانا کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوتے ہیں ۔ میں قد لفظا اگر چہ علم پر داخل ہوا ہے لیکن معنوی طور پر اس کا تعلق مرض کے ساتھ ہے جیسا کہ ، ، میں نفی کا تعلق خروج کے ساتھ ہے ۔ اور اس کی تقدریروں ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔- صدق - الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ص دق) الصدق ۔- یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال - ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ - رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ - رُّؤْيَا :- ما يرى في المنام، وهو فعلی، وقد يخفّف فيه الهمزة فيقال بالواو، وروي : «لم يبق من مبشّرات النّبوّة إلّا الرّؤيا» . قال : لَقَدْ صَدَقَ اللَّهُ رَسُولَهُ الرُّؤْيا بِالْحَقِ- [ الفتح 27] ، وَما جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْناكَ [ الإسراء 60] ، وقوله : فَلَمَّا تَراءَا الْجَمْعانِ- [ الشعراء 61] ، أي : تقاربا وتقابلا حتی صار کلّ واحد منهما بحیث يتمكّن من رؤية الآخر، ويتمكّن الآخر من رؤيته . ومنه قوله : «لا تَتَرَاءَى نارهما» . ومنازلهم رِئَاءٌ ، أي : متقابلة . وفعل ذلک رِئَاءُ الناس، أي : مُرَاءَاةً وتشيّعا . والْمِرْآةُ ما يرى فيه صورة الأشياء، وهي مفعلة من : رأيت، نحو : المصحف من صحفت، وجمعها مَرَائِي، والرِّئَةُ : العضو المنتشر عن القلب، وجمعه من لفظه رِؤُونَ ، وأنشد (أبو زيد) : فغظناهمو حتی أتى الغیظ منهمو ... قلوبا وأکبادا لهم ورئينا ورِئْتُهُ : إذا ضربت رِئَتَهُ.- الرؤیا بمعنی خواب کے ہیں اور یہ ہمزہ کے ساتھ بروزن فعلیٰ ہے اور کبھی ہمزہ کو حذف کرکے واؤ کے ساتھ الرؤیا کہہ دیتے ہیں ۔ ایک حدیث میں ہے (165) لم یبق من مبشرات النبوۃ الا الرؤیا ۔ کہ مبشرات نبوت سے صرف خواب رہ گئے ہیں ۔ قرآن میں ہے : لَقَدْ صَدَقَ اللَّهُ رَسُولَهُ الرُّؤْيا بِالْحَقِ [ الفتح 27] بیشک اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو واقعی سچا خواب دکھا یا تھا ۔ وَما جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْناكَ [ الإسراء 60] اور خواب جو ہم نے تم کو دکھایا تھا تو بس اس کو لوگوں ( کے ایمان ) کی آزمائش ( کا ذریعہ ) ٹھہرایا ۔ فَلَمَّا تَراءَا الْجَمْعانِ [ الشعراء 61] پھر جب دونوں فوجیں آمنے سامنے آئیں ۔ یعنی جب وہ باہم اس طرح آمنے سامنے ہوئے کہ ایک دوسرے کو دیکھ سکیں اور اسی سے وہ حدیث ہے جس میں فرمایا لایترای نارھما کہ ایک دوسرے کی آگ نظر نہ آئے محاورہ ہے ۔ ومنازلهم رِئَاءٌ ، کہ ان کے مکانات باہم متقابل ہیں ۔ وفعل ذلک رِئَاءُ الناساس نے نمود اور دکھاوے کے لئے یہ کام کیا ۔ المرءۃ آئینہ جس میں اشیاء کا عکس نظر آئے ۔ یہ رایت سے مفعلۃ کے وزن پر ہے جیسے صفحت سے مصحفۃ اور اس کے جمع مرائی آتی ہے ۔ الرئۃ ۔ پھیپھڑا ۔ اس کی جمع من لفظہ رؤون آتی ہے ۔ اس پر ابو زید نے اس شعر سے استشہاد کیا ہے ۔ فغظناهمو حتی أتى الغیظ منهمو ... قلوبا وأکبادا لهم ورئيناہم نے انہیں غصہ دلایا حتی کے غیظ وغضب ان کے دل و جگر اور پھیپھڑوں میں سرایت کر گیا ۔ اور اسی سے رئتہ ہے جسکے معنی پھیپھڑے سے پر مارنے کے ہیں ۔- حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- دخل - الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58]- ( دخ ل ) الدخول - ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔- مَسْجِدُ- : موضع الصلاة اعتبارا بالسجود، وقوله : وَأَنَّ الْمَساجِدَ لِلَّهِ- [ الجن 18] ، قيل : عني به الأرض، إذ قد جعلت الأرض کلّها مسجدا وطهورا کما روي في الخبر وقیل : الْمَسَاجِدَ : مواضع السّجود : الجبهة والأنف والیدان والرّکبتان والرّجلان، وقوله : أَلَّا يَسْجُدُوا لِلَّهِ [ النمل 25] أي : يا قوم اسجدوا، وقوله : وَخَرُّوا لَهُ سُجَّداً [يوسف 100] ، أي : متذلّلين، وقیل : کان السّجود علی سبیل الخدمة في ذلک الوقت سائغا، وقول الشاعر : وافی بها لدراهم الْإِسْجَادِعنی بها دراهم عليها صورة ملک سجدوا له . المسجد ( ظرف ) کے معنی جائے نماز کے ہیں اور آیت وَأَنَّ الْمَساجِدَ لِلَّهِ [ الجن 18] اور مسجدیں تو خدا ہی ( کی عبادت کے لئے ہیں ) میں بعض نے کہا ہے کہ مساجد سے روئے زمین مراد ہے کیونکہ آنحضرت کے لئے تمام زمین کو مسجد اور طھور بنایا گیا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں مروی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ مساجد سے اعضاء سجود یعنی پیشانی ناک دونوں ہاتھ دونوں زانوں اور دونوں پاؤں مراد ہیں اور آیت : ۔ أَلَّا يَسْجُدُوا لِلَّهِ [ النمل 25]( اور نہیں سمجھتے ) کہ اللہ کو ۔۔۔۔۔۔۔ سجدہ کیوں نہ کریں ۔ میں لا زائدہ ہے اور معنی یہ ہیں کہ میری قوم اللہ ہی کو سجدہ کرو ۔ اور آیت : ۔ وَخَرُّوا لَهُ سُجَّداً [يوسف 100] اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے ۔ میں اظہار عاجزی مراد ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ مراد سجدہ خدمت ہے جو اس وقت جائز تھا اور شعر ( الکامل ) وافی بها لدراهم الْإِسْجَادِمیں شاعر نے وہ دراھم مراد لئے ہیں جن پر بادشاہ کی تصویر ہوتی تھی اور لوگ ان کے سامنے سجدہ کرتے تھے ۔- حَرَمُ ( محترم)- والحَرَمُ : سمّي بذلک لتحریم اللہ تعالیٰ فيه كثيرا مما ليس بمحرّم في غيره من المواضع وکذلک الشهر الحرام،- شاء - والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] ، قال الکفّار : الأمر إلينا إن شئنا استقمنا، وإن شئنا لم نستقم، فأنزل اللہ تعالیٰ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ وقال بعضهم : لولا أن الأمور کلّها موقوفة علی مشيئة اللہ تعالی، وأنّ أفعالنا معلّقة بها وموقوفة عليها لما أجمع الناس علی تعلیق الاستثناء به في جمیع أفعالنا نحو : سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات 102] ، سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف 69] ، يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود 33] ، ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف 69] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف 188] ، وَما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ رَبُّنا [ الأعراف 89] ، وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف 24] .- ( ش ی ء ) الشیئ - المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق سے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ نازل ہوئی تو کفار نے کہا ہے یہ معاملہ تو ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم چاہیں تو استقامت اختیار کریں اور چاہیں تو انکار کردیں اس پر آیت کریمہ ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» نازل ہوئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ اگر تمام امور اللہ تعالیٰ کی مشیئت پر موقوف نہ ہوتے اور ہمارے افعال اس پر معلق اور منحصر نہ ہوتے تو لوگ تمام افعال انسانیہ میں انشاء اللہ کے ذریعہ اشتشناء کی تعلیق پر متفق نہیں ہوسکتے تھے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّه مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات 102] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائے گا ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف 69] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے ۔ يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود 33] اگر اس کو خدا چاہے گا تو نازل کریگا ۔ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف 69] مصر میں داخل ہوجائیے خدا نے چاہا تو ۔۔۔۔۔۔۔ قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف 188] کہدو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو خدا چاہے وما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّہُ رَبُّنا [ الأعراف 89] ہمیں شایان نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں ہاں خدا جو ہمارا پروردگار ہے وہ چاہے تو ( ہم مجبور ہیں ) ۔ وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف 24] اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا مگر ان شاء اللہ کہہ کر یعنی اگر خدا چاہے ۔- امنین امن کی جمع ہے بحالت نصب۔ اسم فاعل جمع مذکر امن ( باب سمع) مصدر۔ مطئن، دل جمع، بےخوف۔ لتدخلن کے ضمیر فاعل سے حال ہے۔ - حلق - الحَلْق : العضو المعروف، وحَلَقَهُ : قطع حلقه، ثم جعل الحَلْق لقطع الشعر وجزّه، فقیل : حلق شعره، قال تعالی: وَلا تَحْلِقُوا رُؤُسَكُمْ- [ البقرة 196] ، وقال تعالی:- مُحَلِّقِينَ رُؤُسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ- [ الفتح 27] ، ورأس حَلِيق، ولحية حلیق، و «عقری حَلْقَى» «1» في الدعاء علی الإنسان، أي : أصابته مصیبة تحلق النساء شعورهنّ ، وقیل معناه : قطع اللہ حلقها . وقیل للأكسية الخشنة التي تحلق الشعر بخشونتها : مَحَالِق «2» ، والحَلْقَة سمّيت تشبيها بالحلق في الهيئة، وقیل : حلقه، وقال بعضهم «3» : لا أعرف الحَلَقَة إلا في الذین يحلقون الشعر، وهو جمع حالق، ککافر وکفرة، والحَلَقَة بفتح اللام لغة غير جيدة . وإبل مُحَلَّقَة :- سمتها حلق . واعتبر في الحلقة معنی الدوران، فقیل : حَلْقَة القوم، وقیل : حَلَّقَ الطائر : إذا ارتفع ودار في طيرانه . ( ح ل ق ) الحلق حلق ( وہ جگہ جہاں سے جانور کو ذبح کیا جاتا ہے ) حلقۃ ( ض ) اسکے حلق کو قطع کر ڈالا ۔ پھر یہ لفظ بال مونڈے نے پر بولا جاتا ہے ہی کہا جاتا ہے خلق شعرۃ اس نے اپنے بال منڈوا ڈالے قرآن میں ہے : ۔ وَلا تَحْلِقُوا رُؤُسَكُمْ [ البقرة 196] اور ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ سر نہ منڈ واو ۔ مُحَلِّقِينَ رُؤُسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ [ الفتح 27] اپنے سر منند وا کر اور اپنے بال کتر وا کہ راس حلیق مونڈا ہوا مہر ۔ لحیۃ حلیقۃ مونڈی ہوئی داڑھی ۔ اور کسی انسان کے حق میں بددعا کے وقت عقرٰی حلقیٰ کہا جاتا ہے یعنی اسے ایسی مصیبت پہنچنے جس پر عورتیں اپنے سرکے بال منڈوا ڈالیں ۔ بعض نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کے حلق کو قطع کر ڈالے ۔ المحالق وہ کمبل جو کھردار ہونے کی وجہ سے بدن کے بال کاٹ ڈالیے ۔ جماعت جو دائرہ کی شکل میں جمع ہو ۔ کیونکہ وہ دائرہ ہیئت میں انسان کے حلق کے مشابہ ہوتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ حلقۃ کا لفظ صرف اس جماعت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو اپنے سر منڈوا ڈالتے ہیں ۔ ابل محلقۃ شتراں کہ بمشکل حلقہ داغ بر آنہا کردہ باشند اور حلقہ میں معنی دوران کا اعتبار کر کے حلق الطائر کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی پرندے کا چکر لگا کر اڑنا کے ہیں ۔- رأس - الرَّأْسُ معروف، وجمعه رُؤُوسٌ ، قال : وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْباً [ مریم 4] ، وَلا تَحْلِقُوا رُؤُسَكُمْ [ البقرة 196] ، ويعبّر بِالرَّأْسِ عن الرَّئِيسِ ، والْأَرْأَسُ : العظیم الرّأس، وشاة رَأْسَاءُ : اسودّ رأسها . ورِيَاسُ السّيف : مقبضه .- ( ر ء س ) الراس - سر کو کہتے ہیں اور اس کی جمع رؤوس آتی ہے ۔ قرآم میں ہے : وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْباً [ مریم 4] اور سر بڑاھاپے ( کی آگ ) سے بھڑک اٹھا ہے ۔ وَلا تَحْلِقُوا رُؤُسَكُمْ [ البقرة 196] اپنے سر نہ منڈاؤ اور کبھی راس بمعنی رئیس بھی آتا ہے اور ارء س ( اسم تفصیل ) کے معنی بڑے سر والا کے ہیں اور سیاہ سر والی بکری کو شاۃ راساء کہتے ہیں اور ریاس السیف کے معنی دستہ شمشیر کے ہیں ۔- قصر - القِصَرُ : خلاف الطّول، وهما من الأسماء المتضایفة التي تعتبر بغیرها، وقَصَرْتُ كذا :- جعلته قَصِيراً ، والتَّقْصِيرُ : اسم للتّضجیع، وقَصَرْتُ كذا : ضممت بعضه إلى بعض، ومنه سمّي الْقَصْرُ ، وجمعه : قُصُورٌ. قال تعالی: وَقَصْرٍ مَشِيدٍ [ الحج 45] ، وَيَجْعَلْ لَكَ قُصُوراً [ الفرقان 10] ، إِنَّها تَرْمِي بِشَرَرٍ كَالْقَصْرِ [ المرسلات 32] ، وقیل : الْقَصْرُ أصول الشّجر، الواحدة قَصْرَةٌ ، مثل : جمرة وجمر، وتشبيهها بالقصر کتشبيه ذلک في قوله : كأنّه جمالات صفر [ المرسلات 33] ، وقَصَرْتُه جعلته : في قصر، ومنه قوله تعالی:- حُورٌ مَقْصُوراتٌ فِي الْخِيامِ [ الرحمن 72] ، وقَصَرَ الصلاةَ : جعلها قَصِيرَةً بترک بعض أركانها ترخیصا . قال : فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُناحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلاةِ [ النساء 101] وقَصَرْتُ اللّقحة علی فرسي : حبست درّها عليه، وقَصَرَ السّهمِ عن الهدف، أي : لم يبلغه، وامرأة قاصِرَةُ الطَّرْفِ : لا تمدّ طرفها إلى ما لا يجوز . قال تعالی: فِيهِنَّ قاصِراتُ الطَّرْفِ [ الرحمن 56] . وقَصَّرَ شعره : جزّ بعضه، قال : مُحَلِّقِينَ رُؤُسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ [ الفتح 27] ، وقَصَّرَ في كذا، أي : توانی، وقَصَّرَ عنه لم : ينله، وأَقْصَرَ عنه : كفّ مع القدرة عليه، واقْتَصَرَ علی كذا : اکتفی بالشیء الْقَصِيرِ منه، أي : القلیل، وأَقْصَرَتِ الشاة : أسنّت حتی قَصَرَ أطراف أسنانها، وأَقْصَرَتِ المرأة : ولدت أولادا قِصَاراً ، والتِّقْصَارُ : قلادة قَصِيرَةٌ ، والْقَوْصَرَةُ معروفة «1» .- ( ق ص ر ) القصر یہ طول کی ضد ہے اور یہ دونوں اسمائے نسبتی سے ہیں جو ایک دوسرے پر قیاس کے ذریعہ سمجھے جاتے ہیں ۔ قصرت کذا کے معنی کسی چیز کو کوتاہ کرنے کے ۔ ہیں اور تقصیر کے معنی اور سستی کے ہیں اور قصرت کذا کے معنی سکیٹر نے اور کسی چیز کے بعض اجزاء کو بعض کے ساتھ ملانا کے بھی آتے ہیں ۔ اسی سے قصر بمعنی محل ہے اس کی جمع قصور آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَقَصْرٍ مَشِيدٍ [ الحج 45] اور بہت سے محل : ۔ وَيَجْعَلْ لَكَ قُصُوراً [ الفرقان 10] نیز تمہارے لئے محل بنادے گا ۔ إِنَّها تَرْمِي بِشَرَرٍ كَالْقَصْرِ [ المرسلات 32] اس سے آگ کی اتنی ( بڑی بڑی ) چنگاریاں اٹھتی ہیں ۔ جیسے محل ۔ بعض نے کہا ہے کہ قصر جمع ہے اور اس کے معنی درخت کی جڑوں کے ہیں ۔ اس کا واحد قصرۃ ہے جیسے جمرۃ وجمر اور ان شراروں کو قصر کے ساتھ تشبیہ دینا ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسری آیت میں ان کا ۔ كأنّه جمالات صفر [ المرسلات 33] گویا زور درنگ کے اونٹ ہیں ۔ کہا ہے کہ اور قصرتہ کے معنی محل میں داخل کرنے کے ہیں اور اسی سے ارشاد الہٰی ہے ۔ حُورٌ مَقْصُوراتٌ فِي الْخِيامِ [ الرحمن 72] وہ حوریں ہیں جو خیموں میں ستور ہیں ۔- قصرالصلٰوۃ - بموجب رخصت شرعی کے نماز کے بعض ارکان کو ترک کرکے اسے کم کرکے پڑھنا ۔ قرآن پاک میں ہے : فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُناحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلاةِ [ النساء 101] تو تم پر کچھ گناہ نہیں کہ نماز کو کم کر کے پڑھو ۔ قصرت اللقحتہ علٰی فرسی اونٹنی کا دودھ اپنی گھوڑی کے لئے مخصوص کردیا قصرالسھم عن الھدف ۔ تیر کا نشانے تک نہ پہنچنا ۔ امراءۃ قاصرۃ الطرف وہ عورت ناجائز نظر اٹھا کے نہ دیکھے ۔ قرآن پاک میں ہے : فِيهِنَّ قاصِراتُ الطَّرْفِ [ الرحمن 56] ان میں نیچی نگاہ والی عورتیں ۔ قصری شعرہ بال کتروانا قرآن پاک میں ہے : مُحَلِّقِينَ رُؤُسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ [ الفتح 27] اپنے سر منڈاوا کر اور بال کتروا کر ۔ قصرفی کذا : کسی کام میں سستی کرنا قصر عنہ کسی کام کے کرنے سے عاجز ہونا ۔ اقصرت عنہ ۔ باوجود قدرت کے کسی کام کرنے سے باز رہنا ۔ اقتصر علیٰ کذا تھوڑی چپز پر صبر کرنا ۔ اقتصرت الشاۃ بوڑھا ہونے کی وجہ سے بکری کے دانتوں کا کوتاہ ہوجانا ۔ اقصرت المرءۃ چھوٹی قد اولاد جننا تقصار چھوٹا سا رہا ۔ القوصرہ کھجور ڈالنے زنبیل جو کھجور پتوں یا نرکل کی بنئی ہوئی ہوتی ہے ۔- خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] - ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ - دون - يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم :- هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] ،- ( د و ن ) الدون - جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔- هذا ( ذَاكَ ذلك)- وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال :- هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام 131] ، إلى غير ذلك .- ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔- فتح - الفَتْحُ : إزالة الإغلاق والإشكال، وذلک ضربان :- أحدهما : يدرک بالبصر کفتح الباب ونحوه، وکفتح القفل والغلق والمتاع، نحو قوله : وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف 65] ، وَلَوْ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ باباً مِنَ السَّماءِ [ الحجر 14] .- والثاني : يدرک بالبصیرة کفتح الهمّ ، وهو إزالة الغمّ ، وذلک ضروب : أحدها : في الأمور الدّنيويّة كغمّ يفرج، وفقر يزال بإعطاء المال ونحوه، نحو : فَلَمَّا نَسُوا ما ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ أَبْوابَ كُلِّ شَيْءٍ [ الأنعام 44] ، أي : وسعنا، وقال : لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 96] ، أي : أقبل عليهم الخیرات . والثاني : فتح المستغلق من العلوم، نحو قولک : فلان فَتَحَ من العلم بابا مغلقا، وقوله : إِنَّا فَتَحْنا لَكَ فَتْحاً مُبِيناً [ الفتح 1] ، قيل : عنی فتح مكّةوقیل : بل عنی ما فتح علی النّبيّ من العلوم والهدایات التي هي ذریعة إلى الثّواب، والمقامات المحمودة التي صارت سببا لغفران ذنوبه وفَاتِحَةُ كلّ شيء : مبدؤه الذي يفتح به ما بعده، وبه سمّي فاتحة الکتاب، وقیل : افْتَتَحَ فلان کذا : إذا ابتدأ به، وفَتَحَ عليه كذا : إذا أعلمه ووقّفه عليه، قال : أَتُحَدِّثُونَهُمْ بِما فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ [ البقرة 76] ، ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ [ فاطر 2] ، وفَتَحَ الْقَضِيَّةَ فِتَاحاً : فصل الأمر فيها، وأزال الإغلاق عنها . قال تعالی: رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنا وَبَيْنَ قَوْمِنا بِالْحَقِّ وَأَنْتَ خَيْرُ الْفاتِحِينَ- [ الأعراف 89] ، ومنه الْفَتَّاحُ الْعَلِيمُ [ سبأ 26] ، قال الشاعر : بأني عن فَتَاحَتِكُمْ غنيّ- وقیل : الفتَاحةُ بالضمّ والفتح، وقوله : إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ [ النصر 1] ، فإنّه يحتمل النّصرة والظّفر والحکم، وما يفتح اللہ تعالیٰ من المعارف، وعلی ذلک قوله : نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] ، فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ [ المائدة 52] ، وَيَقُولُونَ مَتى هذَا الْفَتْحُ [ السجدة 28] ، قُلْ يَوْمَ الْفَتْحِ [ السجدة 29] ، أي : يوم الحکم . وقیل : يوم إزالة الشّبهة بإقامة القیامة، وقیل : ما کانوا يَسْتَفْتِحُونَ من العذاب ويطلبونه،- ( ف ت ح ) الفتح کے معنی کسی چیز سے بندش اور پیچیدگی کو زائل کرنے کے ہیں اور یہ ازالہ دوقسم پر ہے ایک وہ جس کا آنکھ سے ادراک ہو سکے جیسے ۔ فتح الباب ( دروازہ کھولنا ) اور فتح القفل ( قفل کھولنا ) اور فتح المتاع ( اسباب کھولنا قرآن میں ہے ؛وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف 65] اور جب انہوں نے اپنا اسباب کھولا ۔ وَلَوْ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ باباً مِنَ السَّماءِ [ الحجر 14] اور اگر ہم آسمان کا کوئی دروازہ ان پر کھولتے ۔ دوم جس کا ادراک بصیرت سے ہو جیسے : فتح الھم ( یعنی ازالہ غم ) اس کی چند قسمیں ہیں (1) وہ جس کا تعلق دنیوی زندگی کے ساتھ ہوتا ہے جیسے مال وغیرہ دے کر غم وانددہ اور فقر و احتیاج کو زائل کردینا ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا نَسُوا ما ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ أَبْوابَ كُلِّ شَيْءٍ [ الأنعام 44] پھر جب انہوں ن اس نصیحت کو جو ان کو کی گئی تھی ۔ فراموش کردیا تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیئے ۔ یعنی ہر چیز کی فرادانی کردی ۔ نیز فرمایا : لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 96] تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات کے دروازے کھول دیتے ۔ یعنی انہیں ہر طرح سے آسودگی اور قارغ البالی کی نعمت سے نوازتے ۔ (2) علوم ومعارف کے دروازے کھولنا جیسے محاورہ ہے ۔ فلان فتح من العلم بابامغلقا فلاں نے طلم کا بندو دروازہ کھول دیا ۔ یعنی شہادت کو زائل کرکے ان کی وضاحت کردی ۔ اور آیت کریمہ :إِنَّا فَتَحْنا لَكَ فَتْحاً مُبِيناً [ الفتح 1] ( اے محمد ) ہم نے تم کو فتح دی اور فتح صریح وصاف ۔ میں بعض نے کہا ہے یہ فتح کی طرف اشارہ ہے اور بعض نے کہا ہے کہ نہیں بلکہ اس سے علوم ومعارف ار ان ہدایات کے دروازے کھولنا مراد ہے جو کہ ثواب اور مقامات محمودہ تک پہچنے کا ذریعہ بنتے ہیں اور آنحضرت کیلئے غفران ذنوب کا سبب ہے ۔ الفاتحۃ ہر چیز کے مبدء کو کہاجاتا ہے جس کے ذریعہ اس کے مابعد کو شروع کیا جائے اسی وجہ سے سورة فاتحہ کو فاتحۃ الکتاب کہاجاتا ہے ۔ افتح فلان کذ افلاں نے یہ کام شروع کیا فتح علیہ کذا کسی کو کوئی بات بتانا اور اس پر اسے ظاہر کردینا قرآن میں ہے : أَتُحَدِّثُونَهُمْ بِما فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ [ البقرة 76] جو بات خدا نے تم پر ظاہر فرمائی ہے وہ تم ان کو ۔۔۔ بتائے دیتے ہو ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ [ فاطر 2] جو لوگوں کیلئے ۔۔ کھولدے فتح القضیۃ فتاحا یعنی اس نے معاملے کا فیصلہ کردیا اور اس سے مشکل اور پیچیدگی کو دور کردیا ۔ قرآن میں ہے ؛ رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنا وَبَيْنَ قَوْمِنا بِالْحَقِّ وَأَنْتَ خَيْرُ الْفاتِحِينَ [ الأعراف 89] اے ہمارے پروردگار ہم میں اور ہماری قوم میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کردے اور تو سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے ۔ اسی سے الْفَتَّاحُ الْعَلِيمُ [ سبأ 26] ہے یعن خوب فیصلہ کرنے والا اور جاننے والا یہ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ سے ہے کسی شاعر نے کہا ہے ( الوافر) (335) وانی من فتاحتکم غنی اور میں تمہارے فیصلہ سے بےنیاز ہوں ۔ بعض نے نزدیک فتاحۃ فا کے ضمہ اور فتحہ دونوں کے ساتھ صحیح ہے اور آیت کریمہ : إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ [ النصر 1] جب اللہ کی مدد آپہنچیں اور فتح حاصل ہوگئی ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ الفتح سے نصرت ، کامیابی اور حکم مراد ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ علوم ومعارف کے دروازے کھول دینا مراد ہو ۔ اسی معنی ہیں میں فرمایا : نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] ( یعنی تمہیں ) خدا کی طرف سے مدد ( نصیب ہوگی ) اور فتح عنقریب ( ہوگی ) فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ [ المائدة 52] تو قریب ہے خدا فتح بھیجے وَيَقُولُونَ مَتى هذَا الْفَتْحُ [ السجدة 28] اور کہتے ہیں ۔۔۔ یہ فیصلہ کب ہوگا ۔ قُلْ يَوْمَ الْفَتْحِ [ السجدة 29] کہدو کہ فیصلے کے دن ۔۔۔ یعنی حکم اور فیصلے کے دن بعض نے کہا ہے کہ الفتح سے قیامت بپا کرکے ان کے شک وشبہ کو زائل کرے کا دن مراد ہے اور بعض نے یوم عذاب مراد لیا ہے ۔ جسے وہ طلب کیا کرتے تھے - قرب - الْقُرْبُ والبعد يتقابلان . يقال : قَرُبْتُ منه أَقْرُبُ «3» ، وقَرَّبْتُهُ أُقَرِّبُهُ قُرْباً وقُرْبَاناً ، ويستعمل ذلک في المکان، وفي الزمان، وفي النّسبة، وفي الحظوة، والرّعاية، والقدرة .- نحو : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] - ( ق ر ب ) القرب - والبعد یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلہ میں استعمال ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قربت منہ اقرب وقربتہ اقربہ قربا قربانا کسی کے قریب جانا اور مکان زمان ، نسبی تعلق مرتبہ حفاظت اور قدرت سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے جنانچہ قرب مکانی کے متعلق فرمایا : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں داخل ہوجاؤ گے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

سر مونڈنا یا کتراناعبادت احرام میں داخل ہے - قول باری ہے (لتد خلن المسجد الحرام ان شآء اللہ امنین محلقین رئوسکم ومقصرین۔ تم لوگ مسجد حرام میں انشاء اللہ ضرور داخل ہوگے اور امن وامان کے ساتھ سرمونڈ کر یا بال کترا کر) ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ آیت کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو اس بات کی خبر دی گئی ہے کہ وہ امن وامان کے ساتھ احرام باندھے ہوئے مسجد حرام میں داخل ہوجائیں گے جب اس کے ساتھ سر مونڈنے اور بال چھوٹے کرنے کا ذکر ہوا تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ حلق اور تقصیہ احرام کی عبادت میں داخل ہیں اور ان کے ذریعے ہی ایک شخص احرام سے باہر آسکتا ہے۔- اگر یہ بات نہ ہوتی تو ان دونوں کا یہاں ذکر کرنا بلاوجہ ہوتا۔ حضرت جابر (رض) اور حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حلق کرنے والوں کے لئے تین دفعہ دعا کی اور تقصیر کرنے والوں کے لئے ایک دفعہ دعا مانگی۔ یہ بات بھی اس پر دلالت کرتی ہے کہ حلق اور تقصیر احرام کھولنے کے لئے نسک اور قربت یعنی عبادت کا درجہ رکھتے ہیں۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

بیشک اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو بالکل سچا خواب دکھایا جس وقت رسول اکرم نے صحابہ کرام سے فرمایا کہ تم لوگ دشمن سے امن وامان کے ساتھ انشاء الہ مسجد حرام میں ضرور جاؤ گے، چناچہ اللہ تعالیٰ نے اس خواب کو بالکل واقعہ کے مطابق سچا کر کے دکھایا۔- اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ آئندہ سال یہ خواب پورا ہوگا اور تم نہیں جانتے اور پھر اس نے اس وقوع تعبیر سے پہلے لگے ہاتھ فتح خیبر دے دی۔- شان نزول : لَـقَدْ صَدَقَ اللّٰهُ رَسُوْلَهُ الرُّءْيَا بالْحَقِّ (الخ)- مقام حدیبیہ میں رسول اکرم کو یہ خواب نظر آیا کہ آپ اور آپ کے ساتھی مکہ مکرمہ میں امن وامان کے ساتھ داخل ہوں گے کہ کوئی سر منڈاتا ہوگا اور کوئی بال کتراتا ہوگا۔ چناچہ جب آپ نے مقام حدیبیہ میں قربانی کا جانور ذبح کردیا تو آپ کے صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ کے خواب کی تعبیر کب ظاہر ہوگی، تب یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٧ لَقَدْ صَدَقَ اللّٰہُ رَسُوْلَہُ الرُّئْ یَا بِالْحَقِّ ” اللہ نے اپنے رسول کو بالکل سچا خواب دکھایا حق کے ساتھ۔ “- یہ اس خواب کا ذکر ہے جس کی بنیاد پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عمرے کا قصد فرمایا تھا اور مسلمانوں کو ساتھ چلنے کے لیے ترغیب دی تھی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خواب میں خود کو مسلمانوں کے ساتھ عمرہ کرتے ہوئے دیکھا تھا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اس خواب کا تذکرہ صحابہ (رض) سے سرعام کیا تھا۔ چونکہ رسول کا خواب بھی وحی کے درجے میں ہوتا ہے اس لیے جب صلح حدیبیہ کے نتیجے میں عمرہ اگلے سال پر ملتوی ہوگیا تو ایسی صورت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خواب کے بارے میں وضاحت ضروری تھی۔ مبادا کسی کے ذہن میں یہ شبہ جنم لیتا کہ ‘ نعوذ باللہ ‘ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خواب سچا نہیں تھا۔ اس ضمن میں جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں نے یہ تو کہا تھا ہم عمرہ کریں گے لیکن یہ نہیں کہا تھا کہ ضرور اسی سال کریں گے۔ آیت زیر مطالعہ میں پیشگی خبر دی جا رہی ہے کہ تم لوگ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خواب کے عین مطابق عمرہ ادا کرو گے۔ چناچہ اگلے ہی سال ٧ ہجری کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کے ہمراہ عمرہ کیا۔ تاریخ میں یہ عمرہ ” عمرۃ القضاء “ کے نام سے مشہور ہے۔- لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ اِنْ شَآئَ اللّٰہُ اٰمِنِیْنَ ” ( اے مسلمانو ) تم لازماً داخل ہو گے مسجد الحرام میں ‘ ان شاء اللہ ‘ پورے امن کے ساتھ “- مُحَلِّقِیْنَ رُئُ وْسَکُمْ وَمُقَصِّرِیْنَلا لَا تَخَافُوْنَ ” اپنے سروں کو منڈواتے ہوئے اور بالوں کو ترشواتے ہوئے ‘ (اُس وقت) تمہیں کوئی اندیشہ نہیں ہوگا۔ “- اگلے سال یہ پیشین گوئی حرف بہ حرف سچ ثابت ہوئی۔ اگلے سال جب مسلمان عمرہ ادا کرنے کے لیے مکہ میں داخل ہوئے تو پورا شہر خالی تھا۔ قریش اپنے گھروں کو چھوڑ کر تین دن کے لیے پہاڑوں پر چلے گئے تھے۔ اس دوران مسلمان مکہ میں مقیم رہے اور انہوں نے پورے اطمینان سے عمرہ ادا کیا۔ - فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوْا فَجَعَلَ مِنْ دُوْنِ ذٰلِکَ فَتْحًا قَرِیْبًا ” تو اللہ وہ کچھ جانتا ہے جو تم نہیں جانتے ‘ تو اس کے علاوہ اس نے (تمہارے لیے ) ایک قریب کی فتح بھی رکھی ہے۔ “- اس سے فتح خیبر مراد ہے جس کا ذکر اس سے پہلے آیت ١٥ کے ضمن میں بھی ہوچکا ہے۔ یعنی اگلے سال جب تم لوگ قضا عمرہ ادا کرنے کے لیے جائو گے تو اس سے پہلے تم یہودیوں کے گڑھ خیبر کو فتح کر کے اس کے غنائم سمیٹ چکے ہو گے۔ - اب وہ عظیم آیت آرہی ہے جو اس سے پہلے ہم سورة التوبہ میں (آیت ٣٣) بھی پڑھ چکے ہیں۔ اس کے بعد یہ الفاظ سورة الصف (٢٨ ویں پارے) کی آیت ٩ میں بھی آئیں گے۔ سورة التوبہ اور سورة الصف میں یہ آیت جوں کی توں آئی ہے ‘ جبکہ زیر مطالعہ سورت میں اس کا آخری حصہ (وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیْدًا) مختلف ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :47 یہ اس سوال کا جواب ہے جو بار بار مسلمانوں کے دلوں میں کھٹک رہا تھا ۔ وہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب تو یہ دیکھا تھا کہ آپ مسجد حرام میں داخل ہوئے ہیں اور بیت اللہ کا طواف کیا ہے ، پھر یہ کیا ہوا کہ ہم عمرہ کیے بغیر واپس جا رہے ہیں ۔ اس کے جواب میں اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا تھا کہ خواب میں اسی سال عمرہ ہونے کی تصریح تو نہ تھی ، مگر اس کے باوجود ابھی تک کچھ نہ کچھ خلش دلوں میں باقی تھی ۔ اس لیے اللہ تعالی نے خود یہ وضاحت فرمائی کہ وہ خواب ہم نے دکھایا تھا ، اور وہ بالکل سچا تھا ، اور وہ یقینا پورا ہو کر رہے گا ۔ سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :48 یہاں اللہ تعالی نے خود اپنے وعدے کے ساتھ ان شاء اللہ کے الفاظ جو استعمال فرمائے ہیں ، اس پر ایک معترض یہ سوال کر سکتا ہے کہ جب یہ وعدہ اللہ تعالی خود ہی فرما رہا ہے تو اس کو اللہ کے چاہنے سے مشروط کرنے کے کیا معنی ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں یہ الفاظ اس معنی میں استعمال نہیں ہوئے ہیں کہ اگر اللہ نہ چاہے گا تو اپنا یہ وعدہ پورا نہ کرے گا ۔ بلکہ دراصل ان کا تعلق اس پس منظر سے ہے جس میں یہ وعدہ فرمایا گیا ہے ۔ کہ کفار مکہ نے جس زعم کی بنا پر مسلمانوں کو عمرے سے روکنے کا یہ سارا کھیل کھیلا تھا وہ یہ تھا کہ جس کو ہم عمرہ کرنے دینا چاہیں گے وہ عمرہ کر سکے گا ، اور جب ہم اسے کرنے دیں گے اسی وقت وہ کر سکے گا ۔ اس پر اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ یہ ان کی مشیت پر نہیں بلکہ ہماری مشیت پر موقوف ہے ۔ اس سال عمرے کا نہ ہو سکنا اس لیے نہیں ہوا کہ کفار مکہ نے یہ چاہا تھا کہ وہ نہ ہو ، بلکہ یہ اس لیے ہوا کہ ہم نے اس کے نہ ہونے دینا چاہا تھا ۔ اور آئندہ یہ عمرہ اگر ہم چاہیں گے تو ہوگا خواہ کفار چاہیں یا نہ چاہیں ۔ اس کے ساتھ ان الفاظ میں یہ معنی بھی پوشیدہ ہیں کہ مسلمان بھی جو عمرہ کریں گے تو اپنے زور سے نہیں کریں گے بلکہ اس بنا پر کریں گے کہ ہماری مشیت یہ ہوگی کہ وہ عمرہ کریں ۔ ورنہ ہماری مشیت اگر اس کے خلاف ہو تو ان کا یہ بل بوتا نہیں ہے کہ خود عمرہ کر ڈالیں ۔ سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :49 یہ وعدہ اگلے سال ذی القعدہ 7ھ میں پورا ہوا ۔ تاریخ میں یہ عمرہ عمرۃ القضاء’‘ کے نام سے مشہور ہے ۔ سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :50 یہ الفاظ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ عمرے اور حج میں سر منڈوانا لازم نہیں ہے بلکہ بال ترشوانا بھی جائز ہے ۔ البتہ سر منڈوانا افضل ہے ، کیونکہ اللہ تعالی نے اس سے پہلے بیان فرمایا ہے اور بال ترشوانے کا ذکر بعد میں کیا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

29: جیسا کہ اس سورت کے تعارف میں عرض کیا گیا، حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے سفر سے پہلے خواب دیکھا تھا کہ آپ اور آپ کے صحابہ کرامؓ مسجد حرام میں عمرے کی غرض سے داخل ہوئے ہیں۔ اِسی خواب کے بعد آپ نے تمام صحابہ کرامؓ سے عمرے پر روانہ ہونے کے لئے فرمایا تھا۔ لیکن جب حدیبیہ پہنچ کر صلح کے نتیجے میں احرام کھولنا پڑا اور عمرہ ادا نہ کیا جاسکا، تو بعض حضرات کو یہ خیال ہوا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا خواب تو وحی ہوتا ہے، اور عمرہ کئے بغیر واپس جانا اس خواب کے مطابق نہیں ہے۔ اِس آیت میں اِس خیال کا یہ جواب دیا گیا ہے کہ وہ خواب یقینا سچا تھا، لیکن اُس میں مسجد ِحرام میں داخلے کا کوئی وقت متعین نہیں کیا گیا تھا۔ اب بھی وہ خواب سچا ہے، اور اگرچہ اس سفر میں عمرہ نہیں ہوسکا لیکن ان شا اللہ وہ خواب عنقریب پورا ہوگا، چنانچہ اگلے سال وہ پورا ہوا، اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ نے اطمینان کے ساتھ عمرہ ادا فرمایا۔ 30: اس سے مراد خیبر کی فتح ہے جس کا ذکر آیت نمبر ۱۸ اور اُس کے حاشیہ میں گزرچکا ہے۔