Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

2 6 ۔ 1 اذ کا ظرف یا تو لعذبتا ہے یا واذکرو محذوف ہے یعنی اس وقت کو یاد کرو جب کہ ان کافروں نے۔ 2 6 ۔ 2 کفار کی اس حمیت جاہلیہ عار اور غرور سے مراد اہل مکہ کا مسلمانوں کو مکہ میں داخل ہونے سے روکتا ہے انہوں نے کہا کہ انہوں نے ہمارے بیٹوں اور باپوں کو قتل کیا ہے لات وعزی کی قسم ہم انہیں کبھی یہاں داخل نہیں ہونے دیں گے یعنی انٰہوں نے اسے اپنی عزت اور وقار کا مسئلہ بنا لیا اسی کو حمیت جاہلیہ کہا گیا ہے کیونکہ خانہ کعبہ میں عبادت کے لیے آنے سے روکنے کا کسی کو حق حاصل نہیں تھا قریش مکہ کے اس معاندانہ رویے کے جواب میں خطرہ تھا کہ مسلمانوں کے جذبات میں بھی شدت آجاتی اور وہ بھی اسے اپنے وقار کا مسئلہ بنا کر مکہ جانے پر اصرار کرتے جس سے دونوں کے درمیان لڑائی چھڑ جاتی اور یہ لڑائی مسلمانوں کے لیے سخت خطرناک رہتی اس لیے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے دلوں میں سکینت نازل فرما دی یعنی انہیں صبر وتحمل کی توفیق دے دی اور وہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد کے مطابق حدیبیہ میں ہی ٹھہرے رہے جوش اور جذبے میں آ کر مکہ جانے کی کوشش نہیں کی لعض کہتے ہیں کہ اس حمیت جاہلیہ سے مراد قریش مکہ کا وہ رویہ ہے جو صلح کے لیے اور معاہدے کے وقت انہوں نے اختیار کیا یہ رویہ اور معاہدہ دونوں مسلمانوں کے لیے بظاہر ناقابل برداشت تھا لیکن انجام کے اعتبار سے چونکہ اس میں اسلام اور مسلمانوں کا بہترین مفاد تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو نہایت ناگواری اور گرانی کے باوجود اسے قبول کرنے کا حوصلہ عطا فرما دیا اس کی مختصر تفصیل اس طرح ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش مکہ کے بھیجے ہوئے نمائندوں کی یہ بات تسلیم کرلی کہ اس سال مسلمان عمرے کے لیے مکہ نہیں جائیں گے اور یہیں سے واپس ہوجائیں گے تو پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) کو معاہدہ لکھنے کا حکم دیا انہوں نے آپ کے حکم سے بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھی انہوں نے اس پر اعتراض کردیا کہ رحمن رحیم کو ہم نہیں جانتے ہمارے ہاں جو لفظ استعمال ہوتا ہے اس کے ساتھ یعنی باسمک اللھم اے اللہ تیرے نام سے لکھیں چناچہ آپ نے اسی طرح لکھوایا پھر آپ نے لکھوایا یہ وہ دستاویز ہے جس پر محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل مکہ سے مصالحت کی ہے قریش کے نمائندوں نے کہا اختلاف کی بنٰیاد تو آپ کی رسالت ہی ہے اگر ہم آپ کو رسول اللہ مانٰ لیں تو اس کے بعد جھگڑا ہی کیا رہ جاتا ہے پھر ہمیں آپ سے لڑنے کی اور بیت اللہ میں جانے سے روکنے کی ضرورت ہی کیا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہاں محمد رسول اللہ کی جگہ محمد بن عبد اللہ لکھیں چناچہ آپ نے حضرت علی رضی الیہ کو ایسا ہی لکھنے کا حکم دیا یہ مسلمانوں کے لیے نہایت اشتعال انگیز صورت حال تھی اگر اللہ تعالیٰ مسلمانوں پر سکینت نازل نہ فرماتا تو وہ کبھی اسے برداشت نہ کرتے حضرت علی (رض) نے اپنے ہاتھ سے محمد رسول اللہ کے الفاظ مٹانے اور کاٹنے سے انکار کردیا تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا کہ یہ لفظ کہاں ہے بتانے کے بعد خود آپ نے اسے اپنے دست مبارک سے مٹا دیا اور اس کی جگہ محمد بن عبد اللہ تحریر کرنے کو فرمایا اس کے بعد اس معاہدے یا صلح نامے میں تین باتیں لکھیں گئیں 1۔ اہل مکہ میں سے جو مسلمان ہو کر آپ کے پاس آئے گا اسے واپس کردیا جائے گا۔ 2۔ جو مسلمان اہل مکہ سے جا ملے گا وہ اس کو واپس کرنے کے پابند نہیں ہوں گے۔ 3۔ مسلمان آئندہ سال مکہ میں آئیں گے اور یہاں تین دن قیام کرسکیں گے تاہم انہیں ہتھیار ساتھ لانے کی اجازت نہیں ہوگی (صحیح مسلم کتاب الجہاد) اور اس کے ساتھ دو باتیں اور لکھی گئیں۔ 1 اس سال لڑائی موقوف رہے گی۔ 2۔ قبائل میں سے جو چاہے مسلمانوں کے ساتھ اور جو چاہے قریش کے ساتھ ہوجائے۔ 26۔ 3 اس سے مراد کلمہ توحید و رسالت لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ہے، جس سے حدیبیہ والے دن مشرکین نے طواف وعمرہ کرتے ہوئے دکھایا گیا۔ نبی کا خواب بھی بمنزلہ وحی ہی ہوتا ہے۔ تاہم اس خواب میں یہ تعین نہیں تھی کہ یہ اسی سال ہوگا، لیکن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمان، اس بشارت عظیمہ سمجھتے ہوئے، عمرے کے لئے فوراً ہی امادہ ہوگئے اور اس کے لئے عام منادی کرا دی گئی اور چل پڑے۔ بالآخر حدیبیہ میں وہ صلح ہوئی، جس کی تفصیل ابھی گزری، دراں حالیکہ اللہ کے علم میں اس خواب کی تعبیر آئندہ سال تھی، جیسا کہ آئندہ سال مسلمانوں نہایت امن کے ساتھ یہ عمرہ کیا اور اللہ نے اپنے پیغمبر کے خواب کو سچا کر دکھایا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٩] قریش کی جاہلانہ حمیت :۔ قریش کی اس عصبیت کے بھی دو پہلو تھے ایک یہ کہ جن مسلمانوں نے جنگ بدر میں ہمارے عزیز و اقارب کو مار ڈالا ہے، ہم انہیں مکہ میں اپنے ہاں داخل ہونے کی اجازت کیسے دے سکتے ہیں اور دوسرا پہلو یہ تھا کہ اگر ہم نے مسلمانوں کو مکہ میں داخل ہوجانے دیا تو عرب بھر میں یہ بات مشہور ہوجائے گی کہ قریش مکہ مسلمانوں سے دب گئے ہیں۔ یہ تھی جاہلی حمیّت جس کی پچ میں انہوں نے ایک ایسے دستور کی خلاف ورزی کر ڈالی جو ان میں معروف تھا اور وہ یہ تھا کہ کسی بھی حج، عمرہ اور طواف کرنے والے کو ان کاموں سے روکا نہیں جاسکتا۔ علاوہ ازیں وہ حرمت والے مہینہ میں بھی لڑائی کرنے پر آمادہ تھے۔- [٤٠] وہ تقویٰ کی بات یہ تھی کہ مسلمان تنگی ترشی، جوش، غضب، غرضیکہ ہر طرح کے حالات میں اپنے آپ کو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا پابند بنائے رکھیں گے۔ یہ اللہ کی خاص مہربانی تھی کہ اس نے اپنے رسول اور صحابہ کرام کے مشتعل جذبات کو سکون بخش کر انہیں صلح کے سمجھوتہ پر مائل کردیا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) اذ جعل الذین کفروا فی قلوبھم الحمیۃ : لفظ ” اذ “ پچھلی آیت کے آخر میں ” لعذبنا “ کا ظرف ہے، یعنی اگر وہ مومن مرد اور مومن عورتیں کفار سے الگ ہوگئے ہوتے ” تو ہم ان لوگوں کو جنہوں نے کفر کای، درد ناک سزا دیتے، جب ان کفر کرنے والوں نے اپنے دل میں ضد رکھ لی تھی۔ …“ اور فعل محذوف ” اذکر “ کا مفعول بہ بھی ہوسکتا ہے، یعنی اس وقت کو یاد کر جب …۔- (٢) حمیۃ الجاھلیۃ : جاہلیت کی ضد سے مراد یہ ہے کہ انہوں نے وہ بات ماننے سے بھی انکار کردیا جو تمام عرب کے ہاں مسلم تھی کہ اللہ کے گھر سے کسی طواف یا عمرہ یا حج ادا کرنے والے کو روکا نہیں جاسکتا اور حرمت والے مہینوں میں لڑنے کی اجازت نہیں۔ بلکہ وہ لڑنے پر تیار ہوگئے اور کہنے لگے، ہم یہ عار برداشت نہیں کرسکتے کہ ہم سے زبردستی کوئی مکہمیں داخل ہو، اس لئے اس سال مسلمان واپس چلے جائیں، آئندہ سال آکر عمرہ ادا کرلیں، وہ بھی صرف تین دن ٹھہریں اور اسلحہ میں صرف تلوار لاسکتے ہیں جو نیام میں ہو۔ اس کے علاوہ ان کا بات بات پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے الجھنا اور صلح کے لئے ن اورا شرطیں لگانا بھی جاہلیت کی ضد تھی، مثلاً یہ کہنا کہ ” بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ‘ ‘ کے بجائے ” باسمک اللھم “ لکھو اور ” محمد رسول اللہ “ کی بجائے ” محمد بن عبداللہ “ لکھو اور کوئی شخص مسلمان ہو کر تمہارے پاس جائے تو اسے واپس کرو، لیکن اگر کوئی م رتد ہو کر ہمار پاس آئے تو ہم اسے واپس نہیں کریں گے۔ اسی طرح سہیل بن عمرو کا اپنے مسلمان ہوجانے والے بیٹے ابو جندل کو عین معاہدے کے درمیان آکر اپنی حالت زار دکھانے کے باوجود مسلمانوں کے ساتھ جانے کی اجازت دینے سے انکار اور سب کے سامنے اس پر تشدد بھی جاہلیت کی ضد تھی۔- (٣) فانزل اللہ سکینت ہ علی رسولہ و علی المومنین، سکینت سے مراد وہ تحمل و حوصلہ اور صبر و وقار ہے جس کے ساتھ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں نے کفار مکہ کی جاہلانہ حمیت کا مقابلہ کیا کہ نہ مشتعل ہوئے، نہ کوئی ناحق بات زبان سے کہی اور نہ اپنے کسی عمل سے کفار کو لڑائی چھیڑنے کا موقع دیا۔- (٤) اس آیت کے الفاظ پر غور کریں تو کفار اور مسلمانوں کے طرز عمل کے درمیان اور اللہ تعالیٰ کے ان کے ساتھ معاملے کے درمیان فرق کا انداز ہوتا ہے :(١) کفار نے اپنے دلوں میں حمیت یعنی ضد رکھ لی، سوچے سمجھے بغیر یہ ضد رکھنے والے وہ خود تھے۔ اس کے مقابلے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مومنوں کے دلوں میں سکنیت تھی، جو اپنے خزانے سے نازل کرنے والا اللہ تعالیٰ تھا۔ (٢) کفار کے دلوں میں موجود ضد جاہلیت کی ضد تھی، جبکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مومنوں کے دلوں میں سکینت ربانی سکینت تھی۔- (٦) والزمھم کلمۃ التقویٰ : وہ تقویٰ کی بات یہ تھی کہ مسلمان تنگی ترشی، جوش، غضب، غرض ہر طرح کے حالات میں اپنے آپ کو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا پابند بنائے رکھیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل تھا کہ اس نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) کے مشتعل جذبات کو سکون بخش کر اور اپنے حکم کی پابندی پر قائم رکھ کر صلح کا کام پایہ تکمیل تک پہنچا دیا۔- (٦) وکانوا احق بھا واھلھا : اور وہ اس کے زیادہ حق دار اور اس کے اہل تھے، کیونکہ وہ اللہ اور سا کے رسول پر ایمان رکھتے تھے اور انہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت اور آپ کی تربیت پانے کا شرف حاصل تھا۔- (٧) وکان اللہ بکل شیء علیماً : اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے ہر چیز کو پوری طرح جاننے والا ہے۔ اس علم ہی کے ساتھ اس نے ان پاکیزہ ہستیوں کو تقویٰ کے سب سے زیادہ حق کے سب سے زیادہ حق دار اور اہل جان کر اپنے رسول کی صحبت کے لئے چنا، اس کی اطاعت کی توفیق بخشی اور انہیں تقویٰ کی بات پر قائم رکھا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) وَاَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوٰى وَكَانُوْٓا اَحَقَّ بِهَا وَاَهْلَهَا، کلمہ تقویٰ سے مراد اہل تقویٰ کا کلمہ ہے یعنی کلمہ توحید و رسالت، اس کو کلمہ تقویٰ اس لئے کہا گیا کہ یہ کلمہ ہی تقویٰ کی بنیاد ہے اور صحابہ کرام کو اس کلمہ کا احق اور اہل فرما کر اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی رسوائی واضح کردی جو ان حضرات پر کفر و نفاق کا الزام لگاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ تو ان کو کلمہ اسلام کا اہل اور احق فرمائے اور یہ بدبخت ان پر تبرا کریں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِذْ جَعَلَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فِيْ قُلُوْبِہِمُ الْحَمِيَّۃَ حَمِيَّۃَ الْجَاہِلِيَّۃِ فَاَنْزَلَ اللہُ سَكِيْنَتَہٗ عَلٰي رَسُوْلِہٖ وَعَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ وَاَلْزَمَہُمْ كَلِمَۃَ التَّقْوٰى وَكَانُوْٓا اَحَقَّ بِہَا وَاَہْلَہَا۝ ٠ ۭ وَكَانَ اللہُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِــيْمًا۝ ٢٦ ۧ- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- قلب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] .- ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ - حمی - الحَمْيُ : الحرارة المتولّدة من الجواهر المحمية، کالنّار والشمس، ومن القوّة الحارة في البدن، قال تعالی: في عين حامية أي : حارة، وقرئ : حَمِئَةٍ وقال عزّ وجل : يَوْمَ يُحْمى عَلَيْها فِي نارِ جَهَنَّمَ [ التوبة 35] ، وحَمِيَ النهار وأَحْمَيْتُ الحدیدة إِحْمَاء . وحُمَيّا الكأس : سورتها وحرارتها، وعبّر عن القوة الغضبية إذا ثارت و کثرت بالحمِيَّة، فقیل : حَمِيتُ علی فلان، أي : غضبت عليه، قال تعالی: حَمِيَّةَ الْجاهِلِيَّةِ [ الفتح 26] ، وعن ذلک استعیر قولهم : حمیت المکان حمی، وروي : ( لا حِمَى إلا لله ورسوله) - وحمیت أنفي مَحْمِيَة وحمیت المریض حَمْياً ، وقوله عزّ وجل : وَلا حامٍ- [ المائدة 103] ، قيل : هو الفحل إذا ضرب عشرة أبطن كأن يقال : حَمَى ظَهْرَه فلا يركبوأحماء المرأة : كلّ من کان من قبل زوجها وذلک لکونهم حُمَاة لها، وقیل : حَمَاهَا وحَمُوهَا وحَمِيهَا، وقد همز في بعض اللغات فقیل : حمء، نحو : كمء والحَمْأَةُ والحَمَأُ : طين أسود منتن، قال تعالی: مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ [ الحجر 26] ، ويقال : حمأت البئر : أخرجت حمأتها، وأحمأتها : جعلت فيها حما، وقرئ : فِي عَيْنٍ حَمِئَةٍ : ذات حمأ .- ( ح م ی) الحمی وہ حرارت جو گرم جو اہر جیسے آگ سورج وغیرہ سے حاصل ہوتی ہے اور وہ بھی جو قوت حارہ سے پیدا ہوجاتی ہے قرآن میں ہے :۔ في عين حامية گرم چشمے میں ۔ ایک قرآت میں حمئۃ ہے يَوْمَ يُحْمى عَلَيْها فِي نارِ جَهَنَّمَ [ التوبة 35] جس دن وہ مال درزخ کی آگ میں خوب گرم کیا جائے گا ۔ حمی النار دن گرم ہوگیا ۔ احمیت الحدیدۃ لوہا گرم کیا گیا ۔ حمیا الک اس شراب کی تیزی ، اور انسان کی قوت غضبیہ جب جوش میں آجائے اور حد سے بڑھ جائے ۔ تو اسے بھی حمیۃ کہا جاتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے حمیت عل فلان میں فلاں پر غصے ہوا ۔ قرآن میں ہے :۔ حَمِيَّةَ الْجاهِلِيَّةِ [ الفتح 26] اور ضد بھی جاہلت کی پھر استعارہ کے طور پر حملت المکان کا محاورہ استعمال ہوتا ہے یعنی کسی جگہ کی حفاظت کرنا ۔ ایک روایت میں ہے (99) لاحمی الاللہ ورسولہ ۔ کہ چراگاہ کا محفوظ کرنا صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا حق ہے ۔ حمیت انفی محمیۃ میں نے اپنی عزت کی حفاظت کی ۔ حمیت المرض حمیا بیمار کو نقصان دہ چیزوں سے روگ دیا ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ وَلا حامٍ [ المائدة 103] اور نہ حام ۔ میں بعض کے نزدیک حام سے وہ نرا اونٹ مراد ہے جس کی پشت سے دن بچے پیدا ہوچکے ہوں ( اس کے متعلق ) کہہ دیا جاتا تھا حمی ظھرہ فلا یرکب اس کی پشت محفوظ لہذا اس پر کوئی سوار نہ ہو۔ احماء المرءۃ خاوند کی طرف سے عورت کے رشتہ دار کیونکہ وہ اس کی حفاظت کرتے ہیں اضافت کے وقت تینوں حالتوں میں حماھا وحموھا وحمیھا کہاجاتا ہے بعض حما ( مہموز ) بھی بولتے ہیں جیسا کہ کما ہے ۔ الحماۃ والحماٰء سیاہ بدبودر مٹی ۔ قرآن میں ہے ۔ مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ [ الحجر 26] سڑے ہوئے گارے سے ۔ کہا جاتا ہے حمات البئر میں نے کنوئیں کو صاف کیا ۔ احما تھا اسے کیچڑ سے بھر دیا ۔ ایک قرآت میں عَيْنٍ حَمِئَةٍ ہے یعنی سیاہ بدبودار کیچڑ والا چشمہ ۔- جهل - الجهل علی ثلاثة أضرب :- الأول : وهو خلوّ النفس من العلم، هذا هو الأصل، وقد جعل ذلک بعض المتکلمین معنی مقتضیا للأفعال الخارجة عن النظام، كما جعل العلم معنی مقتضیا للأفعال الجارية علی النظام .- والثاني : اعتقاد الشیء بخلاف ما هو عليه .- والثالث : فعل الشیء بخلاف ما حقّه أن يفعل، سواء اعتقد فيه اعتقادا صحیحا أو فاسدا، كمن يترک الصلاة متعمدا، وعلی ذلک قوله تعالی: قالُوا : أَتَتَّخِذُنا هُزُواً ؟ قالَ : أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة 67]- ( ج ھ ل ) الجھل - ۔ ( جہالت ) نادانی جہالت تین قسم پر ہے - ۔ ( 1) انسان کے ذہن کا علم سے خالی ہونا اور یہی اس کے اصل معنی ہیں اور بعض متکلمین نے کہا ہے کہ انسان کے وہ افعال جو نظام طبعی کے خلاف جاری ہوتے ہیں ان کا مقتضی بھی یہی معنی جہالت ہے ۔- ( 2) کسی چیز کے خلاف واقع یقین و اعتقاد قائم کرلینا ۔ - ( 3) کسی کام کو جس طرح سر انجام دینا چاہئے اس کے خلاف سر انجام دنیا ہم ان سے کہ متعلق اعتقاد صحیح ہو یا غلط مثلا کوئی شخص دیا ۔ دانستہ نماز ترک کردے چناچہ اسی معنی کے اعتبار سے آیت : أَتَتَّخِذُنا هُزُواً ؟ قالَ : أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة 67] میں ھزوا کو جہالت قرار دیا گیا ہے ۔- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - سَّكِينَةَ- والسَّكْنُ :- سُكَّانُ الدّار، نحو سفر في جمع سافر، وقیل في جمع ساکن : سُكَّانٌ ، وسكّان السّفينة : ما يسكّن به، والسِّكِّينُ سمّي لإزالته حركة المذبوح، وقوله تعالی: أَنْزَلَ السَّكِينَةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 4] ، فقد قيل : هو ملك يُسَكِّنُ قلب المؤمن ويؤمّنه كما روي أنّ أمير المؤمنین عليه السلام قال : (إنّ السَّكِينَةَ لتنطق علی لسان عمر) وقیل : هو العقل، وقیل له سكينة إذا سكّن عن المیل إلى الشّهوات، وعلی ذلک دلّ قوله تعالی: وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُمْ بِذِكْرِ اللَّهِ [ الرعد 28] . وقیل : السَّكِينَةُ والسَّكَنُ واحد، وهو زوال الرّعب، وعلی هذا قوله تعالی: أَنْ يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ فِيهِ سَكِينَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ [ البقرة 248] ، وما ذکر أنّه شيء رأسه كرأس الهرّ فما أراه قولا يصحّ والْمِسْكِينُ قيل : هو الذي لا شيء له، وهو أبلغ من الفقیر، وقوله تعالی: أَمَّا السَّفِينَةُ فَكانَتْ لِمَساكِينَ [ الكهف 79] ، فإنه جعلهم مساکين بعد ذهاب السّفينة، أو لأنّ سفینتهم غير معتدّ بها في جنب ما کان لهم من المسکنة، وقوله : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة 61] ، فالمیم في ذلک زائدة في أصحّ القولین .- السکین ( چھری ) کو سکیں اس لئے کہا جاتا ہے ( وہ مذبوح کی حرکت کو زائل کردیتی ہے ) تو یہ سکون سے فعیل کے وزن پر اسم مشتق ہے ) اور آیت : أَنْزَلَ السَّكِينَةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 4] ( وہی تو ہے ) جس نے مومنوں کے دلوں پر تسلی نازل فرمائی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ سکینۃ سے مراد وہ فرشتے ہیں جو مومن کے دل کو تسکین دیتے ہیں ۔ جیسا کہ امیر المومنین ( حضرت علی (رض) ) سے راویت ہے (إن السکينة لتنطق علی لسان عمر) حضرت عمر (رض) کی زبا ن پر سکینۃ گویا ہے اور بعض نے اس سے عقل انسانی مراد لی ہے اور عقل کو بھی جب کہ وہ شہوات کی طرف مائل ہونے سے روک دے سکینۃ کہا جاتا ہے اور آیت : ۔ وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُمْ بِذِكْرِ اللَّهِ [ الرعد 28] اور جن کے دل یاد خدا سے آرام پاتے ہیں ۔ بھی اس معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ سکینۃ اور سکن کے ایک ہی معنی ہیں یعنی رعب اور خوف کا زائل ہونا اور آیت : ۔ أَنْ يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ فِيهِ سَكِينَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ [ البقرة 248] کہ تمہارے پاس ایک صندوق آئیگا اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے تسلی ہوگی ۔ میں بھی یہی معنی مراد ہیں اور بعض مفسرین نے جو یہ ذکر کیا ہے کہ وہ چیز تھی جس کا سر بلی کے سر کے مشابہ تھا وغیرہ تو ہمارے نزدیک یہ قول صحیح نہیں ہے ۔ المسکین بعض نے اس کی تفسیر الذي لا شيء له ( یعنی جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو ) کے ساتھ کی ہے اور یہ فقر سے ابلغ ہے ( یعنی بنسبت فقیر کے زیادہ نادار ہوتا ہے ) لیکن آیت : أَمَّا السَّفِينَةُ فَكانَتْ لِمَساكِينَ [ الكهف 79] اور کشتی غریب لوگوں کی تھی ۔ میں باوجود کشتی کا مالک ہونے کے انہیں مسکین قرار دینا ما یؤول کے لحاظ سے ہے یعنی کشتی کے چلے جانے کے بعد کی حالت کے لحاظ سے انہیں مسکین کہا گیا ہے ۔ یا اس لئے کہ ان کی احتیاج اور مسکنت کے مقابلہ میں کشتی کی کچھ بھی حیثیت نہ تھی ۔ اور آیت : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة 61] اور آخر کار ذلت و رسوائی اور محتاجی ( و بےنوائی ) ان سے چمٹا دی گئی ۔ میں اصح قول کے لحاظ سے مسکنۃ کی میم زائد ہے ( اور یہ سکون سے ہے ۔ )- رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ - أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] .- وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - لزم - لُزُومُ الشیء : طول مكثه، ومنه يقال : لَزِمَهُيَلْزَمُهُ لُزُوماً ،- والْإِلْزَامُ ضربان :- إلزام بالتّسخیر من اللہ تعالی، أو من الإنسان، وإلزام بالحکم والأمر . نحو قوله : أَنُلْزِمُكُمُوها وَأَنْتُمْ لَها كارِهُونَ [هود 28]- ( ل ز م ) لزمہ - یلزمہ لزوما کے معنی کسی چیز کا عرصہ دراز تک ایک جگہ پر ٹھہرے رہنا کے ہیں ۔- اور الزام ( افعال ) دوقسم پر ہے - ایک تو الزام بالتسخیر ہے اسکی نسبت اللہ تعالیٰ اور انسان دونوں کی طرف ہوسکتی ہے اور دوسرے الزام بالحکم والامر یعنی کسی چیز کو حکما واجب کردینا جیسے فرمایا : أَنُلْزِمُكُمُوها وَأَنْتُمْ لَها كارِهُونَ [هود 28] تو کیا ہم اس کے لئے تمہیں مجبور کرسکتے ہیں ۔ اور تم ہو کہ اس سے ناخوش ہورہے ہو ۔- كلم - الكلْمُ : التأثير المدرک بإحدی الحاسّتين، فَالْكَلَامُ : مدرک بحاسّة السّمع، والْكَلْمُ : بحاسّة البصر، وكَلَّمْتُهُ : جرحته جراحة بَانَ تأثيرُها،- ( ک ل م ) الکلم ۔- یہ اصل میں اس تاثیر کو کہتے ہیں جس کا ادراک دو حاسوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہوسکے چناچہ کلام کا ادراک قوت سامعہ کیساتھ ہوتا ہے ۔ اور کلم ( زخم ) کا ادراک قوت بصر کے ساتھ ۔ محاورہ ہے ۔ کلمتہ ۔ میں نے اسے ایسا زخم لگایا ۔ جس کا نشان ظاہر ہوا اور چونکہ یہ دونوں ( یعنی کلام اور کلم ) معنی تاثیر میں مشترک ہیں ۔- تَّقْوَى- والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، ثمّ يسمّى الخوف تارة تَقْوًى، والتَّقْوَى خوفاً حسب تسمية مقتضی الشیء بمقتضيه والمقتضي بمقتضاه، وصار التَّقْوَى في تعارف الشّرع حفظ النّفس عمّا يؤثم، وذلک بترک المحظور، ويتمّ ذلک بترک بعض المباحات لما روي : «الحلال بيّن، والحرام بيّن، ومن رتع حول الحمی فحقیق أن يقع فيه» قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] ، إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا - [ النحل 128] ، وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر 73] ولجعل التَّقْوَى منازل قال : وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة 281] ، واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء 1] ، وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ [ النور 52] ، وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسائَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحامَ [ النساء 1] ، اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران 102] . و تخصیص کلّ واحد من هذه الألفاظ له ما بعد هذا الکتاب . ويقال : اتَّقَى فلانٌ بکذا : إذا جعله وِقَايَةً لنفسه، وقوله : أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر 24] تنبيه علی شدّة ما ينالهم، وأنّ أجدر شيء يَتَّقُونَ به من العذاب يوم القیامة هو وجوههم، فصار ذلک کقوله : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم 50] ، يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر 48] . التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز سے بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ جس طرح کہ سبب بول کر مسبب اور مسبب بولکر سبب مراد لیا جاتا ہے اور اصطلاح شریعت میں نفس کو ہر اس چیز سے بچا نیکا نام تقوی ہے جو گناہوں کا موجب ہو ۔ اور یہ بات محظو رات شرعیہ کے ترک کرنے سے حاصل ہوجاتی ہے مگر اس میں درجہ کمال حاصل کرنے کے لئے بعض مباحات کو بھی ترک کرنا پڑتا ہے ۔ چناچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے ۔ ( 149 ) الحلال بین واحرام بین ومن وقع حول الحمی فحقیق ان یقع فیہ کہ حلال بھی بین ہے اور حرام بھی بین ہے اور جو شخص چراگاہ کے اردگرد چرائے گا تو ہوسکتا ہے کہ وہ اس میں داخل ہوجائے ( یعنی مشتبہ چیزیں اگرچہ درجہ اباحت میں ہوتی ہیں لیکن ورع کا تقاضا یہ ہے کہ انہیں بھی چھوڑ دایا جائے ) قرآن پاک میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا[ النحل 128] کچھ شک نہیں کہ جو پرہیز گار ہیں اللہ ان کا مدد گار ہے ۔ وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر 73] اور جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کو گروہ بناکر بہشت کی طرف لے جائیں گے ۔ پھر تقویٰ کے چونکہ بہت سے مدارج ہیں اس لئے آیات وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة 281] اور اس دن سے ڈرو جب کہ تم خدا کے حضور میں لوٹ کر جاؤ گے ۔ واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء 1] اپنے پروردگار سے ڈرو ۔ اور اس سے ڈرے گا ۔ اور خدا سے جس کا نام کو تم اپنی حاجت برآری کا ذریعہ بناتے ہو ڈرو ۔ اور قطع مودت ارجام سے ۔ اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران 102] خدا سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے ۔ میں ہر جگہ تقویٰ کا ایک خاص معنی مراد ہے جس کی تفصیل اس کتاب کے اور بعد بیان ہوگی ۔ اتقٰی فلان بکذا کے معنی کسی چیز کے ذریعہ بچاؤ حاصل کرنے کے ہیں ۔ اور آیت : ۔ أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر 24] بھلا جو شخص قیامت کے دن اپنے منہ سے برے عذاب کو روکتا ہوا ۔ میں اس عذاب شدید پر تنبیہ کی ہے جو قیامت کے دن ان پر نازل ہوگا اور یہ کہ سب سے بڑی چیز جس کے ذریعہ وہ و عذاب سے بچنے کی کوشش کریں گے وہ ان کے چہرے ہی ہوں گے تو یہ ایسے ہی ہے جیسے دوسری جگہ فرمایا : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم 50] اور ان کے مونہوں کو آگ لپٹ رہی ہوگی ۔ يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر 48] اس روز منہ کے بل دوزخ میں گھسٹیے جائیں گے ۔- حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- أهل - أهل الرجل : من يجمعه وإياهم نسب أو دين، أو ما يجري مجراهما من صناعة وبیت وبلد، وأهل الرجل في الأصل : من يجمعه وإياهم مسکن واحد، ثم تجوّز به فقیل : أهل الرجل لمن يجمعه وإياهم نسب، وتعورف في أسرة النبيّ عليه الصلاة والسلام مطلقا إذا قيل :- أهل البیت لقوله عزّ وجلّ : إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ [ الأحزاب 33] - ( ا ھ ل ) اھل الرجل - ۔ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اس کے ہم نسب یا ہم دین ہوں اور یا کسی صنعت یامکان میں شریک ہوں یا ایک شہر میں رہتے ہوں اصل میں اھل الرجل تو وہ ہیں جو کسی کے ساتھ ایک مسکن میں رہتے ہوں پھر مجازا آدمی کے قریبی رشتہ داروں پر اہل بیت الرجل کا لفظ بولا جانے لگا ہے اور عرف میں اہل البیت کا لفظ خاص کر آنحضرت کے خاندان پر بولا جانے لگا ہے کیونکہ قرآن میں ہے :۔ إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ ( سورة الأحزاب 33) اسے پیغمبر گے اہل بیت خدا چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی ( کا میل کچیل ) دور کردے ۔- شيء - الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم .- ( ش ی ء ) الشئی - بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ،

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے (اذ جعل الذین کفروا فی قلوبھم الحمیۃ ۔ اور اس وقت کو بھی یاد کرو) جب (ان) کافروں نے عصییت کو اپنے دلوں میں جگہ دی، کہا جاتا ہے کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صلحنامہ حدیبیہ تحریر کرنے کا ارادہ کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) کو یہ عبارت لکھنے کے لئے کہا۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم ھذا ما اصطلح علیہ محمد رسول اللہ وسھیل بن عمرو ، بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ یہ وہ صلحنامہ ہے جس پر اللہ کے رسول محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور سہیل بن عمرو نے اتفاق کیا ہے۔- حضرت علی (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد کے مطابق یہ عبارت لکھی، اس پر قریش والے اڑ گئے کہ صلحنامہ کی تحریر میں نہ تو بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھا جائے اور نہ ہی محمدرسول اللہ بکہ بسمک اللھم اور محمد بن عبداللہ تحریر کی جائے۔ پھر قریش والوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکہ میں داخل ہونے سے بھی روک دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس غرور اور ہٹ دھرمی کو (حمیۃ الجاھلیۃ جاہلی عصبیت ) کا نام دیا۔- قول باری ہے (والزمھم کلمۃ التقوی اور اللہ نے انہیں تقویٰ کی بات پر جمائے رکھا) حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ اس سے لا الہ الا اللہ کا کلمہ مراد ہے۔ قتادہ سے بھی یہی روایت ہے۔ مجاہد کا قول ہے کہ اس سے کلمہ اخلاص مراد ہے۔ ہمیں عبداللہ بن محمد نے روایت بیان کی، انہیں حسن نے ، انہیں عبدالرزاق نے معمر سے ، انہوں نے زہری سے اس قول باری کی تفسیر میں بیان کیا کہ یہ بسم اللہ الرحمن الرحیم ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

جبکہ ان کفار مکہ نے اپنے دلوں میں عار کو جگہ دی اور عار بھی جاہلیت والی کہ رسول اکرم اور صحابہ کرام کو مکہ مکرمہ میں داخل ہونے سے روکا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اور مومنین کو اپنی طرف سے تحمل عطا فرمایا اور ان کو تقوی کی بات یعنی کلمہ طیبہ پر ثابت قدم رکھا اور وہ مسلمان علم الہی میں اس کلمہ تقوی لا الہ الا اللہ کے دنیا میں بھی زیادہ مستحق ہیں اور حق تعالیٰ مسلمانوں کی بزرگی سے اچھی طرح واقف ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٦ اِذْ جَعَلَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِیْ قُلُوْبِہِمُ الْحَمِیَّۃَ حَمِیَّۃَ الْجَاہِلِیَّۃِ ” جب ان کافروں نے اپنے دلوں میں حمیت بٹھالی ‘ جاہلیت کی حمیت “- قریش مکہ نے اس موقع پر جس حمیت کا مظاہرہ کیا وہ سراسر حمیت جاہلی تھی۔ ان کے دلوں میں قوم پرستی ‘ آباء پرستی اور روایت پرستی کا تعصب کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ اسی تعصب کی بنا پر انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ ان لوگوں کو عمرہ ادا کرنے کی اجازت نہیں دیں گے جو اپنے باپ دادا کے دین سے ِپھر کر ” بےدین “ ہوچکے تھے۔- فَاَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلٰی رَسُوْلِہٖ وَعَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ ” تو اللہ نے سکینت نازل کردی اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اور اہل ایمان پر “- وَاَلْزَمَہُمْ کَلِمَۃَ التَّقْوٰی وَکَانُوْٓا اَحَقَّ بِہَا وَاَہْلَہَا ” اور اس نے لازم کردیا ان پر تقویٰ کی بات کو اور وہ اس کے زیادہ حق دار بھی ہیں اور اس کے اہل بھی ہیں۔ “- وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمًا ” اور اللہ ہرچیز کا علم رکھتا ہے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :45 جاہلانہ حمیت سے مراد یہ ہے کہ ایک شخص محض اپنی ناک کی خاطر یا اپنی بات کی پچ میں جان بوجھ کر ایک ناروا کام کرے ۔ کفار مکہ خود جانتے اور مانتے تھے کہ ہر شخص کو حج اور عمرے کے لیے بیت اللہ کی زیارت کا حق حاصل ہے ، اور کسی کو اس مذہبی فریضے سے روکنے کا حق نہیں ہے ۔ یہ عرب کا قدیم ترین مسلم آئین تھا ۔ لیکن اپنے آپ کو سراسر ناحق پر اور مسلمانوں کو بالکل برسرحق جاننے کے باوجود انہوں نے محض اپنی ناک کی خاطر مسلمانوں کو عمرے سے روکا ۔ خود مشرکین میں سے جو راستی پسند تھے وہ بھی یہ کہہ رہے تھے کہ جو لوگ احرام باندھ کر ہدی کے اونٹ ساتھ لیے ہوئے عمرہ کرنے آئے ہیں ان کو روکنا ایک بے جا حرکت ہے ۔ مگر قریش کے سردار صرف اس خیال سے مزاحمت پر اڑے رہے کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم اتنی بڑی جمیعت کے ساتھ مکہ میں داخل ہو گئے تو تمام عرب میں ہماری ناک کٹ جائے گی ۔ یہی ان کی حمیت جاہلیہ تھی ۔ سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :46 یہاں سکینت سے مراد ہے صبر اور وقار جس کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں نے کفار قریش کی اس جاہلانہ حمیت کا مقابلہ کیا ۔ وہ ان کی اس ہٹ دھرمی اور صریح زیادتی پر مشتعل ہو کر آپے سے باہر نہ ہوئے ، اور ان کے جواب میں کوئی بات انہوں نے ایسی نہ کی جو حق سے متجاوز اور راستی کے خلاف ہو ، یا جس سے معاملہ بخیر و خوبی سلجھنے کے بجائے اور زیادہ بگڑ جائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

27: قریش اگرچہ آخر کار صلح پر راضی ہوگئے تھے، لیکن جب صلح نامہ لکھنے کا وقت آیا تو انہوں نے محض اپنے تکبر اور اپنی جاہلانہ حمیت کی وجہ سے کچھ ایسی باتوں پر اصرار کیا جو صحابہ کرام کو بہت ناگوار ہوئیں۔ مثلاً صلح نامے کے شروع میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم لکھوایا تو انہوں نے اس پر اعتراض کیا اور اس کے بجائے باسمک اللہم لکھوانے پر زور دیا۔ نیز آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نام نامی کے ساتھ رسول اللہ لکھا گیا تھا، انہوں نے اسے مٹانے پر اصرار کیا۔ ان باتوں کی وجہ سے صحابہ کرام کو بہت غصہ تھا، لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ کو صلح منظور تھی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کے دلوں میں تحمل پیدا فرما دیا، اسی تحمل کو یہاں سکینت سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ 28: تقویٰ کی بات یہی تھی کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کی اطاعت کی جائے، چاہے وہ بات نفس کو کتنی ناگوار معلوم ہو رہی ہو۔ صحابہ کرام نے اسی پر عمل فرمایا۔