Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨] اس آیت کی تشریح کے لئے سورة احزاب کی آیت نمبر ٤٥ کے حواشی ملاحظہ فرما لیجئے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

انا ارسلنک شاھداً و مبشراً و نذیراً : سورت کے شروع سے یہاں تک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مومنوں کے لئے فتح و نصرت، مغفرت، تکفیر سیئات اور نجت میں داخلے کی بشارت اور وعدے کا بیان ہے، جس کے ساتھ منافقین و کفار کے لئے عذاب، غضب، لعنت اور جہنم میں داخلے کی وعید کا بیان ہے۔ اب یہاں سے اس فتح مبین کے مختلف پہلوؤں کی تفصیل کا آغاز ہوتا ہے جس کی تمہید کے طور پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مقام و منصب بیان فرمایا، تاکہ مسلمان اسے پہچانیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت اور جاں نثاری میں کوئی دریغ نہ کریں۔ چناچہ فرمایا کہ ہم نے آپ کو جن یا میں لوگوں کے سامنے حق کی شہادت دینے والا، اسے تمام لوگوں تک پہنچا دینے والا، آخرت میں ان پر پیغام حق پہنچا دینے کی شہادت دینے والا، فرماں بر داروں کو بشارت دینے والا اور نافرمانوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ اس مقام پر اصل مقصود فتح کی بشارت اور اس سے متعلقہ معاملات ہیں، سالئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعریف میں صرف تین الفاظ ” شاھداً “ ، ” مبشرا “ اور ” نذیراً “ بیان فرمائے، جبکہ سورة احزاب میں مقصود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اپنے متنبیٰ زید (رض) کی مطلقہ زینب (رض) سے نکاح اور دوسرے معاملات پر منافقین کی اڑائی ہوئی گرد سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دامن پاک کرنا ہے، اس لئے وہاں سورة احزاب (٤٦) میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زیادہ تعریف فرمایء اور ان تینوں اوصاف کے ساتھ ” وداعیا الی اللہ باذنہ و سراجاً منیراً “ (اور اللہ کی طرف بلانے والا اس کے اذان سے اور روشنی کرنے والا چراغ) بھی فرمایا۔ (ابن عاشور)” شاھدا “ کی تفسیر کے لئے مزید دیکھیے سورة احزاب (٤٥) ، بقرہ (١٤٣) اور سورة نسائ (٤١) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے آپ کو (اعمال امت پر قیامت کے دن) گواہی دینے والا (عموماً ) اور (دنیا میں خصوصاً مسلمانوں کے لئے) بشارت دینے والا اور (کافروں کے لئے) ڈرانے والا کر کے بھیجا ہے (اور اے مسلمانو ہم نے ان کو اس لئے رسول بنا کر بھیجا ہے) تاکہ تم لوگ اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس (کے دین) کی مدد کرو اور اس کی تعظیم کرو (عقیدة بھی کہ اللہ تعالیٰ کو تمام کمالات کے ساتھ موصوف اور تمام نقائص اور عیوب سے پاک سمجھو اور عملاً بھی کہ اس کی اطاعت کرو) اور صبح و شام اس کی تسبیح (و تقدیس) میں لگے رہو (اگر اس تسبیح کی تفسیر نماز سے کے جائے تو صبح شام کی فرض نمازیں مراد ہوں گی ورنہ مطلق ذکر اگرچہ مستحب ہی ہوا مراد ہوگا آگے بعض حقوق خاصہ کے متعلق ارشاد ہے کہ) جو لوگ آپ سے (حدیبیہ کے روز اس بات پر) بیعت کر رہے ہیں (یعنی بیعت کرچکے ہیں کہ جہاد سے بھاگیں گے نہیں) تو وہ (واقع میں) اللہ تعالیٰ سے بیعت کر رہے ہیں (کیونکہ مقصود آپ سے اس پر بیعت کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام بجا لاویں گے اور جب یہ بات ہے تو گویا) خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے پھر (بیعت کے بعد) جو شخص عہد توڑے گا (یعنی بجائے اطاعت کے مخالفت کرے گا) تو اس کے عہد توڑنے کا وبال اسی پر پڑے گا اور جو شخص اس بات کو پورا کرے گا جس پر (بیعت میں) خدا سے عہد کیا ہے تو عنقریب خدا اس کو بڑا اجر دے گا۔- معارف و مسائل - سابقہ آیات میں اللہ تعالیٰ کے ان انعامات کا ذکر تھا جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی امت پر خصوصاً بیعت رضوان کے شرکاء پر مبذول ہوئے اور چونکہ ان انعامات کا عطا کرنے والا اللہ اور واسطہ عطا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اس کی مناسبت سے آیات مذکورہ میں ان کے حقوق اور تعظیم و تکریم کا ذکر ہے اول رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کر کے آپ کی تین صفات بیان فرمائیں۔ شاہد، بشیر، نذیر، شاہد کے معنی گواہ کے ہیں مراد اس کی وہی ہے جو سورة نسا کی (آیت) فکیف اذا جئنا من کل امة بشھید وجئنابک علیٰ ھولا شھیدا۔ کی تفسیر میں معارف القرآن جلد دوم صفحہ 419 میں گزر چکی ہے کہ ہر نبی اپنی امت کی بابت اس بات کی گواہی دے گا کہ اس نے اللہ کا پیغام امت کو پہنچا دیا پھر کسی نے اطاعت کی کسی نے نافرمانی۔ اسی طرح نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی امت کے متعلق گواہی دیں گے۔ سورة نساء کی آیت کی تفسیر میں قرطبی نے لکھا ہے کہ انبیاء کی یہ گواہی اپنے زمانے کے موجودہ لوگوں کے متعلق ہوگی کہ ان کی دعوت حق کو کس نے قبول کیا اور کس نے نافرمانی کی، اسی طرح رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ گواہی اپنے زمانے کے لوگوں کے متعلق ہوگی اور بعض حضرات نے فرمایا کہ یہ گواہی تمام امت کے اعمال اطاعات و سیئات پر ہوگی کیونکہ بعض روایات کے مطابق امت کے اعمال صبح شام رسول اللہ کے سامنے فرشتے پیش کرتے ہیں اس لئے آپ تمام امت کے اعمال سے باخبر ہوں گے (ذکرہ القرطبی عن سعید بن المسیب) اور بشیر کے معنی بشارت دینے والا، نذیر کے معنی ڈرانے والا، مراد یہ ہے کہ آپ امت کے مومنین اور اطاعت کرنے والوں کو جنت کی بشارت دینے والے ہیں اور کفار فجار کو عذاب سے ڈرانے والے ہیں آگے رسول کو بھیجنے کا مقصد یہ بتلایا گیا کہ تم لوگ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور ایمان کے ساتھ مزید تین اوصاف کا ذکر فرمایا ہے جو مومنین میں ہونے چاہئیں تعزروہ۔ تو قروہ اور تسبحوہ، تعزروہ، تعزیر سے مشتق ہے جس کے معنی مدد کرنے کے ہیں اور سزا کو جو تعزیر کہا جاتا ہے وہ بھی اس لئے کہ مجرم کی مدد حقیقی اس میں ہے کہ اس پر سزا جاری کی جائے (مفردات القرآن راغب) اور تو قروہ، توقیر سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں تعظیم، اور تسبحوہ، تسبیح سے مشتق ہے جس کے معنی پاکی بیان کرنے کے ہیں ان میں آخری لفظ تو متعین ہے کہ اللہ ہی کے لئے ہوسکتا ہے اس لئے تسجوہ کی ضمیر میں بجز اس کے کوئی احتمام نہیں کہ حق تعالیٰ کی طرف راجع ہو اسی لئے اکثر حضرات نے پہلے دونوں جملوں کی ضمیریں بھی اللہ تعالیٰ کی طرف راجع کر کے معنی یہ قرار دیئے ہیں کہ ایمان لاؤ اور اللہ کی یعنی اس کے دین اور رسول کی مدد کرو اور اس کی تعظیم کرو اور اس تسبیح کرو اور بعض حضرات نے پہلے دو جملوں کی ضمیر رسول کی طرف راجع کر کے مطلب یہ قرار دیا کہ رسول کی مدد کرو اور تعظیم کرو اور اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرو مگر بعض مفسرین نے فرمایا کہ اس میں انتشار ضمائر لازم آتا ہے جو بلاغت کے خلاف ہے واللہ اعلم۔ اس کے بعد اس بیعت کا ذکر ہے جس کا واقعہ قصہ حدیبیہ کے جزو دہم میں گزر چکا ہے۔ اس بیعت کے متعلق حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ جن لوگوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ پر یہ بیعت کی چونکہ مقصود اس سے اللہ کے حکم کی تعمیل اور رضا جوئی ہے اس لئے گویا خود اللہ تعالیٰ سے بیعت کی اور جب انہوں نے رسول کے ہاتھ میں ہاتھ دیا تو گویا اللہ کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔ اللہ کا ہاتھ متشابہات میں سے ہے جس کی کیفیت اور حقیقت نہ کسی کو معلوم ہے نہ معلوم کرنے کی فکر میں رہنا درست ہے، اس بیعت کی فضیلت آگے بھی آ رہی ہے۔- لفظ بیعت دراصل کسی خاص کام پر عہد لینے کا نام ہے اس کا قدیم اور مسنون طریقہ باہم عہد کرنے والوں کا ہاتھ پر ہاتھ رکھنا ہے اگرچہ ہاتھ پر ہاتھ رکھنا شرط اور ضروری نہیں۔ بہرحال جس کام کا کسی سے عہد کیا جائے اس کی پابندی شرعاً واجب و ضروری ہے اور خلاف ورزی حرام ہے اسی لئے آگے فرمایا کہ جو شخص اس عہد بیعت کو توڑے گا تو کچھ اپنا ہی نقصان کرے گا اللہ اور اس کے رسول کو اس سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا اور جو اس عہد کو پورا کرے گا تو اس کو اللہ تعالیٰ بڑا اجر دینے والے ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا۝ ٨ ۙ- رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ - شاهِدٌ- وقد يعبّر بالشهادة عن الحکم نحو : وَشَهِدَ شاهِدٌ مِنْ أَهْلِها[يوسف 26] ، وعن الإقرار نحو : وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَداءُ إِلَّا أَنْفُسُهُمْ فَشَهادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهاداتٍ بِاللَّهِ [ النور 6] ، أن کان ذلک شَهَادَةٌ لنفسه . وقوله وَما شَهِدْنا إِلَّا بِما عَلِمْنا [يوسف 81] أي : ما أخبرنا، وقال تعالی: شاهِدِينَ عَلى أَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ [ التوبة 17] ، أي : مقرّين . لِمَ شَهِدْتُمْ عَلَيْنا [ فصلت 21] ، وقوله : شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لا إِلهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلائِكَةُ وَأُولُوا الْعِلْمِ [ آل عمران 18] ، فشهادة اللہ تعالیٰ بوحدانيّته هي إيجاد ما يدلّ علی وحدانيّته في العالم، وفي نفوسنا کما قال الشاعر : ففي كلّ شيء له آية ... تدلّ علی أنه واحدقال بعض الحکماء : إنّ اللہ تعالیٰ لمّا شهد لنفسه کان شهادته أن أنطق کلّ شيء كما نطق بالشّهادة له، وشهادة الملائكة بذلک هو إظهارهم أفعالا يؤمرون بها، وهي المدلول عليها بقوله :- فَالْمُدَبِّراتِ أَمْراً [ النازعات 5] ، اور کبھی شہادت کے معنی فیصلہ اور حکم کے ہوتے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَشَهِدَ شاهِدٌ مِنْ أَهْلِها[يوسف 26] اس کے قبیلہ میں سے ایک فیصلہ کرنے والے نے فیصلہ کیا ۔ اور جب شہادت اپنی ذات کے متعلق ہو تو اس کے معنی اقرار کے ہوتے ہیں ۔ جیسے فرمایا وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَداءُ إِلَّا أَنْفُسُهُمْ فَشَهادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهاداتٍ بِاللَّهِ [ النور 6] اور خود ان کے سوا ان کے گواہ نہ ہو تو ہر ایک کی شہادت یہ ہے کہ چار بار خدا کی قسم کھائے ۔ اور آیت کریمہ : ما شَهِدْنا إِلَّا بِما عَلِمْنا [يوسف 81] اور ہم نے تو اپنی دانست کے مطابق ( اس کے لے آنے کا ) عہد کیا تھا ۔ میں شھدنا بمعنی اخبرنا ہے اور آیت کریمہ : شاهِدِينَ عَلى أَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ [ التوبة 17] جب کہ وہ اپنے آپ پر کفر کی گواہی دے رہے ہوں گے ۔ میں شاھدین بمعنی مقرین ہے یعنی کفر کا اقرار کرتے ہوئے ۔ لِمَ شَهِدْتُمْ عَلَيْنا [ فصلت 21] تم نے ہمارے خلاف کیوں شہادت دی ۔ اور ایت کریمہ ؛ شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لا إِلهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلائِكَةُ وَأُولُوا الْعِلْمِ [ آل عمران 18] خدا تو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتے اور علم والے لوگ ۔ میں اللہ تعالیٰ کے اپنی وحدانیت کی شہادت دینے سے مراد عالم اور انفس میں ایسے شواہد قائم کرنا ہے جو اس کی وحدانیت پر دلالت کرتے ہیں ۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ۔ (268) ففی کل شیئ لہ آیۃ تدل علی انہ واحد ہر چیز کے اندر ایسے دلائل موجود ہیں جو اس کے یگانہ ہونے پر دلالت کر رہے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ باری تعالیٰ کے اپنی ذات کے لئے شہادت دینے سے مراد یہ ہے کہ اس نے ہر چیز کو نطق بخشا اور ان سب نے اس کی وحدانیت کا اقرار کیا ۔ اور فرشتوں کی شہادت سے مراد ان کا ان افعال کو سر انجام دینا ہے جن پر وہ مامور ہیں ۔ جس پر کہ آیت ؛فَالْمُدَبِّراتِ أَمْراً [ النازعات 5] پھر دنیا کے کاموں کا انتظام کرتے ہیں ۔ دلاکت کرتی ہے ۔- بشر - واستبشر :- إذا وجد ما يبشّره من الفرح، قال تعالی: وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران 170] ، يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران 171] ، وقال تعالی: وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر 67] . ويقال للخبر السارّ : البِشارة والبُشْرَى، قال تعالی: هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس 64] ، وقال تعالی: لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان 22] ، وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود 69] ، يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف 19] ، وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال 10] .- ( ب ش ر ) البشر - التبشیر - کے معنی ہیں اس قسم کی خبر سنانا جسے سن کر چہرہ شدت فرحت سے نمٹما اٹھے ۔ مگر ان کے معافی میں قدر سے فرق پایا جاتا ہے ۔ تبیشتر میں کثرت کے معنی ملحوظ ہوتے ہیں ۔ اور بشرتہ ( مجرد ) عام ہے جو اچھی وبری دونوں قسم کی خبر پر بولا جاتا ہے ۔ اور البشرتہ احمدتہ کی طرح لازم ومتعدی آتا ہے جیسے : بشرتہ فابشر ( یعنی وہ خوش ہوا : اور آیت کریمہ : إِنَّ اللهَ يُبَشِّرُكِ ( سورة آل عمران 45) کہ خدا تم کو اپنی طرف سے بشارت دیتا ہے میں ایک قرآت نیز فرمایا : لا تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ عَلِيمٍ قالَ : أَبَشَّرْتُمُونِي عَلى أَنْ مَسَّنِيَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ قالُوا : بَشَّرْناكَ بِالْحَقِّ [ الحجر 53- 54] مہمانوں نے کہا ڈریے نہیں ہم آپ کو ایک دانشمند بیٹے کی خوشخبری دیتے ہیں وہ بولے کہ جب بڑھاپے نے آپکڑا تو تم خوشخبری دینے لگے اب کا ہے کی خوشخبری دیتے ہو انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو سچی خوشخبری دیتے ہیں ۔ فَبَشِّرْ عِبَادِ ( سورة الزمر 17) تو میرے بندوں کو بشارت سنادو ۔ فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ ( سورة يس 11) سو اس کو مغفرت کے بشارت سنادو استبشر کے معنی خوش ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران 170] اور جو لوگ ان کے پیچھے رہ گئے ( اور شہید ہوکر ) ان میں شامل ہیں ہوسکے ان کی نسبت خوشیاں منا رہے ہیں ۔ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران 171] اور خدا کے انعامات اور فضل سے خوش ہورہے ہیں ۔ وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر 67] اور اہل شہر ( لوط کے پاس ) خوش خوش ( دورے ) آئے ۔ اور خوش کن خبر کو بشارۃ اور بشرٰی کہا جاتا چناچہ فرمایا : هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس 64] ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی ۔- لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان 22] اس دن گنہگاروں کے لئے کوئی خوشی کی بات نہیں ہوگی ۔- وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود 69] اور جب ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری سے کرآئے ۔ يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف 19] زہے قسمت یہ تو حسین ) لڑکا ہے ۔ وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال 10] اس مدد کو تو خدا نے تمہارے لئے رذریعہ بشارت ) بنایا - النذیر - والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح 2] - ( ن ذ ر ) النذیر - النذیر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اے محمد ہم نے آپ کو تبلیغ امت پر گواہی دینے والا اور مومنین کو جنت کی بشارت دینے والا اور کفاروں کو دوزخ سے ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٨ اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) ہم نے آپ کو بھیجا ہے گواہی دینے والا ‘ بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا بنا کر۔ “- یعنی محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قیامت کے دن اللہ کی عدالت میں استغاثہ کے گواہ ( ) کے طور پر پیش ہو کر گواہی دیں گے کہ اے اللہ تیرا دین جو مجھ تک پہنچا تھا میں نے وہ اپنی امت کے لوگوں تک پہنچا دیا تھا ‘ اب یہ لوگ اس کے بارے میں خود جوابدہ ہیں۔ اس عدالت اور اس میں ہونے والی گواہیوں کا نقشہ سورة النساء میں اس طرح کھینچا گیا ہے : فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍم بِشَہِیْدٍ وَّجِئْنَا بِکَ عَلٰی ہٰٓؤُلَآئِ شَہِیْدًا۔ ” تو اس دن کیا صورت حال ہوگی جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ کھڑا کریں گے اور (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) آپ کو لائیں گے ان پر گواہ بنا کر “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :14 شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ صاحب نے شاہد کا ترجمہ اظہار حق کنندہ فرمایا ہے اور دوسرے مترجمین اس کا ترجمہ گواہی دینے والا کرتے ہیں ۔ شہادت کا لفظ ان دونوں مفہومات پر حاوی ہے ۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو: تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، تفسیر سورہ احزاب ، حاشیہ نمبر 82 ۔ سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :15 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، تفسیر سورہ احزاب ، حاشیہ 83 ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani