Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

7۔ 1 اللہ تعالیٰ اپنے دشمنوں کو ہر طرح ہلاک کرنے پر قادر ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اپنی حکمت ومشیت کے تحت ان کو جتنی چاہے مہلت دے دے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧] یہ لشکر فرشتے ہوں یا ہوائیں ہوں غرضیکہ جتنے بھی باطنی اسباب ہیں۔ سب اللہ کے قبضہ میں ہیں وہ ان سے یہ کام بھی لے سکتا ہے کہ میدان جنگ میں ان سے مسلمانوں کی مدد کرے اور کافروں کو پٹوا دے اور یہ کام بھی لے سکتا ہے کہ بدکردار لوگوں کے مکر و فریب کی چالوں کو انہی پر الٹ دے اور حالات ہی ایسے پیدا کردے کہ وہ خود ہی اپنے پھیلائے ہوئے جال میں پھنس جائیں۔ اور یہ سب کچھ اس کی اپنی حکمت اور صوابدید پر منحصر ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

واللہ جنود السموت والارض …: یہ جملہ پہلے بھی گزر چکا ہے، یہاں اللہ کے جنود سے ڈرانا اور کفار و منافقین کو عذاب، غضب اور لعنت کی وعید سنانا مقصود ہے، جس کیساتھ عزیز کی صفت مناسبت رکھتی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ جیسے عذاب دینا چاہے یا ذلیل و رسوا کرنا چاہے کوئی اسے روک نہیں سکتا اور نہ ہی کوئی اس کے مقابلے میں غالب آسکتا ہے، مگر حکیم بھی ہے، اسلئے اپنی حکمت کے تقاضے کے مطابق نافرمانوں کو فوراً نہیں پکڑتا، بلکہ انہیں ملہت دیتا ہے، تاکہ وہ باز آجائیں، مگر جب پکڑتا ہے تو اس کی گرفت بہت سخت ہوتی ہے جس سے بچ کر کوئی نکل نہیں سکتا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلِلہِ جُنُوْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝ ٠ ۭ وَكَانَ اللہُ عَزِيْزًا حَكِــيْمًا۝ ٧- جند - يقال للعسکر الجُنْد اعتبارا بالغلظة، من الجند، أي : الأرض الغلیظة التي فيها حجارة ثم يقال لكلّ مجتمع جند، نحو : «الأرواح جُنُودٌ مُجَنَّدَة» «2» . قال تعالی: إِنَّ جُنْدَنا لَهُمُ الْغالِبُونَ [ الصافات 173] - ( ج ن د ) الجند - کے اصل معنی سنگستان کے ہیں معنی غفلت اور شدت کے اعتبار سے لشکر کو جند کہا جانے لگا ہے ۔ اور مجازا ہر گروہ اور جماعت پر جند پر لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے ( حدیث میں ہے ) کہ ارواح کئ بھی گروہ اور جماعتیں ہیں قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ جُنْدَنا لَهُمُ الْغالِبُونَ [ الصافات 173] اور ہمارا لشکر غالب رہے گا ۔- سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه،- قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- عزیز - ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] - ( ع ز ز ) العزیز - العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ ) - حكيم - والحِكْمَةُ : إصابة الحق بالعلم والعقل، فالحکمة من اللہ تعالی:- معرفة الأشياء وإيجادها علی غاية الإحكام، ومن الإنسان : معرفة الموجودات وفعل الخیرات . وهذا هو الذي وصف به لقمان في قوله عزّ وجلّ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان 12] ، ونبّه علی جملتها بما وصفه بها، فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم «2» ، فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس 1] - ( ح ک م ) الحکمتہ - کے معنی علم وعقل کے ذریعہ حق بات دریافت کرلینے کے ہیں ۔ لہذا حکمت الہی کے معنی اشیاء کی معرفت اور پھر نہایت احکام کے ساتھ انکو موجود کرتا ہیں اور انسانی حکمت موجودات کی معرفت اور اچھے کو موں کو سرانجام دینے کا نام ہے چناچہ آیت کریمہ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان 12] اور ہم نے لقمان کو دانائی بخشی ۔ میں حکمت کے یہی معنی مراد ہیں جو کہ حضرت لقمان کو عطا کی گئی تھی ۔ لهذا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور فرشتوں اور مومنین کا سب لشکر اللہ ہی کا ہے ان کے زریعہ سے اپنے بندوں میں جسکی چاہے وہ مدد کرے اور وہ کفار اور منافقین کو سزا دینے میں زبردست اور مسلمانوں کو بزرگی اور فضیلت عطا کرنے میں حکمت والا ہے یا یہ کہ اپنی بادشاہت اور سلطنت میں غالب اور اپنے حکم و فیصلہ اور اپنے نبی کی مدد فرمانے میں حکمت والا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧ وَلِلّٰہِ جُنُوْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَکَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا ” اور آسمانوں اور زمین کے لشکر ُ کل کے کل اللہ ہی کے اختیار میں ہیں۔ اور اللہ زبردست ہے ‘ کمال حکمت والا۔ “- آیت ٤ کے آخر پر بھی ہو بہو یہی الفاظ آئے ہیں۔ صرف یہ فرق ہے کہ آیت ٤ کا اختتام ” علیمًا حکیمًا “ پر ہوتا ہے ‘ جبکہ یہ آیت ” عزیزًا حکیمًا “ پر ختم ہو رہی ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :13 یہاں اس مضمون کو ایک دوسرے مقصد کے لیے دہرایا گیا ہے ۔ آیت نمبر 4 میں اسے اس غرض کے لیے بیان کیا گیا تھا کہ اللہ تعالی نے کفار کے مقابلے میں لڑنے کا کام اپنے فوق الفطری لشکروں سے لینے کے بجائے مومنین سے اس لیے لیا ہے کہ وہ ان کو نوازنا چاہتا ہے ۔ اور یہاں اس مضمون کو دوبارہ اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالی جس کو سزا دینا چاہے اس کی سرکوبی کے لیے وہ اپنے بے شمار لشکروں میں سے جس کو چاہے استعمال کر سکتا ہے ، کسی میں یہ طاقت نہیں ہے کہ اپنی تدبیروں سے وہ اس کی سزا کو ٹال سکے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani