2۔ 1 اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے اس ادب و تعظیم اور احترام و تکریم کا بیان ہے جو ہر مسلمان سے مطلوب ہے پہلا ادب یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موجودگی میں جب تم آپس میں گفتگو کرو تو تمہاری آواز نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز سے بلند نہ ہو دوسرا ادب جب خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کلام کرو تو نہایت وقار اور سکون سے کرو اس طرح اونچی اونچی آواز سے نہ کرو جس طرح تم آپس میں بےتکلفی سے ایک دوسرے کے ساتھ کرتے ہو بعض نے کہا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یا محمد یا احمد نہ کہو بلکہ ادب سے یا رسول اللہ کہہ کر خطاب کرو اگر ادب و احترام کے ان تقاضوں کو ملحوظ نہ رکھو گے تو بےادبی کا احتمال ہے جس سے بےشعوری میں تمہاے عمل برباد ہوسکتے ہیں اس آیت کی شان نزول کے لیے دیکھئے صحیح بخاری تفسیر سورة الحجرات تاہم حکم کے اعتبار سے یہ عام ہے۔
[٢] یعنی جب تم نبی کی مجلس میں بیٹھے ہو تو ان کا ادب و احترام ملحوظ رکھو۔ اس آیت کا شان نزول درج ذیل حدیث میں ملاحظہ فرمائیے :- ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ کے سامنے آوازیں بلند کرنے کی بنا پر دو نیک ترین آدمی تباہ ہونے کو تھے یعنی سیدنا ابوبکر صدیق (رض) اور سیدنا عمر جبکہ بنی تمیم کا ایک وفد (٩ ھ) میں آپ کے پاس آیا (اور آپ سے درخواست کی کہ آپ ان کا کوئی سردار مقرر فرما دیں) ان دونوں میں سے ایک نے اقرع بن حابس کی (سرداری) کا مشورہ دیا جو بنی مجاشع (بنو تمیم کی ایک شاخ) میں سے تھا اور دوسرے نے کسی دوسرے (قعقاع بن معبد) کے متعلق مشورہ دیا۔ نافع بن عمر کہتے ہیں کہ مجھے اس کا نام یاد نہیں رہا۔ اس پر سیدنا ابوبکر صدیق (رض) سیدنا عمر سے کہنے لگے کہ : آپ تو مجھ سے اختلاف ہی کرنا چاہتے ہیں سیدنا عمر نے کہا : میں آپ سے اختلاف نہیں کرنا چاہتا (بلکہ یہ مصلحت کا تقاضا ہے) اس معاملہ میں دونوں کی آوازیں بلند ہوگئیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ سیدنا عبداللہ بن زبیر کہتے ہیں کہ جب سے یہ آیت نازل ہوئی تو سیدنا عمر اتنی آہستہ بات کرتے کہ آپ کو ان سے پوچھنے کی ضرورت پیش آتی۔ لیکن انہوں نے یہ بات اپنے نانا (سیدنا ابوبکر (رض) کے متعلق نقل نہیں کی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر)- یہ ادب اگرچہ نبی کی مجلس کے لئے سکھلایا گیا اور اس کے مخاطب صحابہ کرام یا وہ لوگ تھے جو آپ کے زمانہ میں موجود تھے اور یہ ادب اس لئے سکھایا گیا تھا کہ لوگ آپ کو ایک عام اور معمولی آدمی نہ سمجھیں بلکہ وہ یہ سمجھیں کہ وہ اللہ کے رسول کی مجلس میں بیٹھے ہیں۔ تاہم اس حکم کا اطلاق ایسے مواقع پر بھی ہوتا ہے۔ جہاں آپ کا ذکر ہو رہا ہو، یا آپ کا کوئی حکم سنایا جائے یا آپ کی احادیث بیان کی جائیں۔- [٣] آواز مقابلتاً پست ہونی چاہئے :۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگر نبی سے بات کرنا ہو تو بھی نبی کی آواز سے تمہاری آواز بلند نہ ہونا چاہئے۔ نیز مسجد نبوی میں کوئی بات عام آواز سے زیادہ اونچی آواز سے نہ کی جائے۔ اس بےادبی کی تمہیں یہ سزا مل سکتی ہے کہ تمہارے نیک اعمال برباد کردیئے جائیں۔ اس آیت کا جو اثر صحابہ کرام پر ہوا وہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے :- سیدنا انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے ثابت بن قیس (بن شماس) کو (کئی روز تک اپنی صحبت میں) نہ دیکھا۔ ایک شخص (سعدبن معاذ) کہنے لگے : یا رسول اللہ میں اس کا حال معلوم کرکے آپ کو بتاؤں گا چناچہ وہ گئے تو ثابت کو اپنے گھر سر جھکائے دیکھا اور پوچھا : کیا صورت حال ہے ؟ ثابت (رض) کہنے لگے : برا حال ہے میری تو آواز ہی نبی سے بلند ہوتی تھی میرے تو اعمال اکارت گئے اور اہل دوزخ سے ہوا سعد نبی اکرم کے پاس آئے اور بتایا کہ وہ تو یہ کچھ بتاتا ہے موسیٰ بن انس کہتے ہیں۔ پھر ایسا ہوا کہ سعد بن معاذ ایک بڑی بشارت لے کر دوسری بار ثابت بن قیس کے ہاں گئے۔ آپ نے خود سعد کو ثابت کے ہاں بھیجا اور کہا کہ اسے کہہ دو کہ : تم اہل دوزخ سے نہیں بلکہ اہل جنت سے ہو (بخاری۔ کتاب التفسیر)- یہ ثابت بن قیس خطیب انصار تھے۔ جب مسیلمہ کذاب مدینہ میں آپ سے کچھ لو اور کچھ دو کے اصول کے تحت سمجھوتہ کرنے کی غرض سے آیا تھا تو رسول اللہ نے انہی ثابت بن قیس کو اس سے گفتگو کے لئے مامور فرمایا تھا۔ ان کی آواز قدرتی طور پر بھاری اور بلند تھی۔ اس لئے آپ اس حکم سے ڈر گئے۔ آپ نے انہیں اس لئے اس حکم سے مستثنیٰ قرار دیا کہ وہ بےادبی یا عدم احترام کی وجہ سے آواز بلند نہیں کرتے تھے۔ بلکہ قدرتی طور پر ہی ان کی آواز بلند تھی۔
(١) یایھا الذین امنوا لاترفعوا اصواتکم فوق صوت النبی : آلوسی نے فرمایا کہ پچھلی آیت میں ایمان والوں کو اپنے قول یا فعل میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آگے بڑھنے سے منع فرمایا ، اس آیت میں آپ کے سامنے بولنے کی کیفیت میں بھی آپ سے بڑھنے کو منع فرما دیا۔ چناچہ فرمایا ہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موجودگی یا آپ کی مجلس میں ایک دوسرے سے بات کرتے ہوئے بھی اپنی آوازیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز سے اونچی نہ کریں۔ صحیح بخاری میں اس آیت کا سبب نزول بیان ہوا ہے، ابن ابی ملیکہ فرمایت ہیں :(کاج الخیران ان بھلکا، ابا بکر و عمر (رض) عنھما، رفعا اصواتھما عند النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حین قدم علیہ رکب بنی تمیم فاشار احدھما بالافرع بن حابین اخی بنی مجاشع واشار الآخر برجل آخر قال نافع لا احفظ اسمہ، فقال ابوبکر لعمر، ما اردت الا خلا فی قال ما اردث خلافک فارتفعت اصواتھما فی ذلک فانزل اللہ :(یایھا الذین امنوا لاترفعوا اصواتکم) (الآیۃ، قال ابن الزبیر فما کان عمر یسمع رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بعد ھذہ الآیۃ حتی یستفھمہ) (بخاری ، التفسیر، باب :(لاترفعوا اصواتکم فوق صورت النبی):3835)”’ و سب سے بہتر آدمی قریب تھے کہ ہلاک ہوجاتے، ابوبکر اور عمر (رض) دونوں نے اپنی آواز بلند کیں جب بنو تمیم کے شتر سوار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے۔ تو ان دونوں (بہترین آدمیوں ) میں سے ایک نے بنی مجاشع کے اقرع بن حابس (کو بنو تمیم کا امیر مقرر کرنے) کا اشارہ کیا اور دوسرے نے ایک اور کا اشارہ کیا۔ نافع نے کہا، مجھے اس کا نام یاد نہیں۔ تو ابوبکر (رض) نے عمر (رض) سے کہا :” تم نے صرف میری مخالفت کا ارادہ کیا ہے۔ “ انہوں نے کہا :” میں نیا پٓ کی مخالفت کا ارادہ نہیں کیا۔ “ اس میں دونوں کی آوازیں بلند ہوگئیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :(یایھا الذین امنوا لا ترفعوآ اصواتکم فوق صوت النبی)” اے لوگو جو ایمان لائے ہو اپنی آواز نبی کی آواز کے اوپر بلند نہ کرو۔ “ ابن زبیر (رض) نے فرمایا، پھر اس آیت کے بعد (رض) کی آواز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سنئای نہیں دیتی تھی جب تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے دوبارہ پوچھتے نہیں تھے۔ “- (٢) کسی مجلس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث بیان ہو تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ادب کا تقاضا ہے کہ اس کے مقابلے میں کسی شخص کو قول ذکر نہ کیا جائیا ور نہ اسے رد کرنے کے لئے کسی قسم کے عقلی ڈھکو سلے پیش کئے جائیں، کیونکہ یہ بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز سے اپنی آواز کو اونچا کرنا ہے، بلکہ مخالفت کی وجہ سے یہ اس سے بھی سنگین بےادبی ہے۔- (٣) بعض لوگوں کا معاملہ بڑا عجیب ہے کہ وہ لوگوں کو باور کرواتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی مجلس میں موجود ہیں، پھر اتنی اونچی آواز سے بولتے ہیں کہ سننے والوں کے کانوں کے پردے پھٹنے کے قریب ہوتے ہیں، اس کے باوجود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے محبت کے واحد اجارہ دار بھی بنے ہوئے ہیں ۔ حالانکہ نہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اب کسی مجلس میں موجود ہوتے یا تشریف لاتے ہیں اور نہ ہی آپ کو موجود سمجھتے ہوئے آپ کی محبت یا ادب میں اتنی بلند آواز کے ساتھ بولنے کی کوئی گنجائش ہے۔- (٤) ولا تجھروالہ بالقول : اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو اس ادب کی تعلیم اس لئے دی کہ بعض اکھڑ اعرابی آپ سے اسی طرح اونچی آواز میں بات کرتے اور آپ کو اسی طرح نام لے کر خطاب کرتے جس طرح وہ ایک دوسرے کے ساتھ بات کرتے یا مخاطب کرتے تھے۔ چناچہ فرمایا اور نہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس طرح اونچی آواز میں بات کرو جس طرح ایک دوسرے سے اونچی آواز میں بات کرتے ہو اور نہ ہی اس طرح آپ کو نام لے کر مخاطب کرو جس طرح ایک دوسرے کو مخطاب کرتے ہو بلکہ ” اے محمد “ کہنے کے بجائے ” اے اللہ کے رسول “ یا ” اے اللہ کے نبی “ وغیرہ کہا کرو۔ یہ ادب سورة نور میں بھی سکھایا گیا ہے۔ فرمایا :(لاتجعلوا دعآء الرسول بینکم کدعآء بعضکم بعضاً ) (النور : ٦٣)” رسول کے بلانے کو اپنے درمیان اس طرح نہ بنا لو جیسے تمہارے بعض کا بعض کو بلانا ہے۔ “ خود اللہ تعالیٰ نے پورے قرآن مجید میں کسی جگہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نام کے ساتھ مخاطب نہیں فرمایا، بلکہ مختلف القاب کے ساتھ ہی مخاطب فرمایا ہے، جیسے ” یایھا الرسول “ ، ” یایھا النبی “ ، ” یایھا المزمل “ ، اور ” یایھا المدثر “ وغیرہ۔ حالانکہ دوسرے انبیاء کو نام لے کر خطاب فرمایا ہے، جیسے ” یادم “ ، ” یا نوح “ ، ” یربرھیم “ ، ” یا موسیٰ “ ، ” یعیسی ابن مریم “ اور ” یداود “ وغیرہ۔ اس کے باوجود اکثر جاہل ” یا محمد “ کہنے اور لکھنے پر اصرار کرتے ہیں اور دعویٰ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے محبت کا رکھتے ہیں۔ اس آیت سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی توقیر و تعظیم کا اندازہ ہوتا ہے۔- (٥) ان تحبط اعمالکم وانتم لاتشعرون : اس سے معلوم ہوا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موجودگی میں آپ کی آواز سے آواز اونچی کرنا یا آپ سے ایسے لہجے میں بات کرنا جس سے آپ کی توقیر و تکریم میں فرق آتا ہو اعمال ضائع ہوجانے کا موجب ہے، خواہ یہ کام کا کوئی مومن ہی کیوں نہ کرے، کیونکہ ساتھ ہی فرمایا :(وانتم لاتشعرون)” اور تم شعور نہ رکھتے ہو۔ “ منافقین تو ایمان سے خالی تھے، اس لئے وہ جان بوجھ کر آپ سے گستاخی کے ساتھ پیش آتے تھے اور انہیں اپنے اعمال کے ضائع ہونے کی کوئی فکر بھی نہیں تھی۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بعض اعمال ایسے منحوس ہیں کہ وہ اعمال صالحہ کو بھی ضائع کرنے کا باعث بن جاتے ہیں، خصوصاً جن میں اللہ تعالیٰ یا رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بےادبی پائی جائے، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے غضب کا موجب ہوتے ہیں۔ ابن کثیر نے فرمایا :” ان تحبط اعمالکم و انتم لاتشعرون) یعنی مہ نے تمہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آواز بلند کرنے سے اس لئے منع کیا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ اس کی وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غصے میں ہوجائیں تو آپ کے غصے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ بھی غصے ہو اجئے اور اس شخص کے اعمال برباد کر دے جس نے آپ کو غصہ دلایا اور اسے معلوم بھی نہ ہو، جیسا کہ صحیح حدیث ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(ان العبد لیتکلم بالکلمۃ من رضوان اللہ لایلقی لھا بالا یرفع اللہ بھا درجات و ان العبد لیتکلم بالکلمۃ من سخط اللہ لایلقی لھا بالا یھوی بھا فی جھنم) (بخاری، الرقاق، باب حفظ اللسان :6388)” بندہ اللہ کو راضی کرنے والی کوئی بات کرتا ہے، جس کا ووہ کوئی دھیان نہیں کرتا، تو اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اسے کئی درجے بلند کردیتا ہے اور بندہ اللہ کو غصہ دلانے والی کوئی بات کرتا ہے، جس کا وہ دھیان نہیں کرتا، تو اس کی وجہ سے وہ جہنم میں گر جاتا ہے۔ “- (٦) اس آیت کے بعد صحابہ کرام (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آواز بلند کرنے سے کس قدر ڈرتے اور اس سے بچتے تھے اس کا اندازہ ایک تو عمر بن خطاب (رض) کے عمل سے ہوتا ہے جس کا تذکرہ اسی آیت کی تفسیر کے پہلے فائدے میں ہوا ہے، اس کے علاوہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خطیب ثابت بن قیس (رض) کا رویہ بھی اس کی ایک مثال ہے۔ انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں :” جب یہ آیت - اتری (یایھا الذین امنوا لاترفعوآ اصواتکم فوق صوت النبی ولا تجھروا لہ بالقول کجھر بعضکم لبعض ان تحبط اعمالکم و انتم لاتشعرون) اب ثابت بن قیس بن شماس (رض) کی آوازبہت بلند تھی تو وہ کہنے لگے :” میں ہی اپنی آواز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز سے بلند کیا کرتا تھا، میرا عمل تو ضائع ہوگیا ، میں اہل نار سے ہوں۔ “ اور وہ غمگین ہو کر گھر میں بیٹھ گئے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں نہ دیکھا تو ان کے بارے میں پوچھا۔ کچھ لوگ ان کے پاس گئے اور ان سے کہا : ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہیں تلاشک ر رہے تھے، تمہیں کیا ہوا ؟ “ کہنے لگے :” میں ہی ہوں جو اپنی آواز نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز سے بلند کرتا تھا اور اونچی آواز سے باتک رتا تھا، میرا عمل ضائع ہوگیا اور میں اہل نار سے ہوں۔ “ لوگوں نے آکر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کی بات بتائی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(لا، بل ھو من اھل الجنۃ)” نہیں، بلکہ وہ اہل جنت سے ہے۔ “ انس (رض) نے فرمایا :” پھر ہم انہیں اپنے درمیان چلتا پھرتا دیکھتے تھے اور جانتے تھے کہ وہ جنتی ہیں۔ تو جب یمامہ (مسلیمہ کذاب سے جنگ) کا دن ہوا تو ہم میں پیچھے ہٹنے کے کچھ آثار ظاہر ہوئے۔ ایسے میں ثابت بن قیس بن شماس (رض) آئے، انہوں نے میت والی خوشبو لگا رکھی تھی اور کفن پہنا ہوا تھا۔ کہنے لگے :” تم نے اپنے ساتھیوں کو (پیچھے ہٹنے کی) بہت بری عادل ڈال دی ہے۔ “ یہ کہہ کر لڑنے لگے، حتیٰ کہ قتل کر یدئے گئے۔ “ (مسند احمد : ٣ ١٣٨ ، ح : ١٢٣٠٨) اس کی سند صحیح ہے۔ تفسیر ابن کثیر کے محقق لکھتے ہیں کہ ثابت بن قیس (رض) کو یہ خیال اس لئے ہوا کہ بنو تمیم (جن کے بارے میں یہ آیات اتریں) ان کے سامنے (رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے) انہوں نے ہی خطبہ دیا تھا۔ دیکھیے البدایہ والنہایہ (٥ ٤٢) اور فتح الباری (٨ ٥٩١) ۔
(آیت) وَلَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ ، یہ دوسرا ادب مجلس نبوی کا بیان کیا گیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے آپ کی آواز سے زیادہ آواز بلند کرنا یا بلند آواز سے اس طرح گفتگو کرنا جیسے آپس میں ایک دوسرے سے بےمحابا کیا کرتے ہیں ایک قسم کی بےادبی گستاخی ہے، چناچہ اس آیت کے نزول سے صحابہ کرام کا یہ حال ہوگیا کہ حضرت ابوبکر نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قسم ہے کہ اب مرتے دم تک آپ سے اس طرح بولوں گا جیسے کوئی کسی سے سرگوشی کرتا ہو (در منشور عن البیہقی) اور حضرت عمر اس قدر آہستہ بولنے لگے کہ بعض اوقات دوبارہ پوچھنا پڑتا تھا (کذا فی الصحاح) اور حضرت ثابت بن قیس طبعی طور پر بہت بلند آواز تھے، یہ آیت سن کر وہ بہت ڈرے اور روئے اور اپنی آواز کو گھٹایا (بیان القرآن از در منشور)- روضہ اقدس کے سامنے بھی بہت بلند آواز سے سلام و کلام کرنا ممنوع ہے :- قاضی ابوبکر ابن عربی نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعظیم اور ادب آپ کی وفات کے بعد بھی ایسا ہی واجب ہے جیسا حیات میں تھا، اسی لئے بعض علماء نے فرمایا کہ آپ کی قبر شریف کے سامنے ہی زیادہ بلند آواز سے سلام و کلام کرنا ادب کے خلاف ہے، اسی طرح جس مجلس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی احادیث پڑھیں یا بیان کی جا رہی ہوں اس میں بھی شور و شغب کرنا بےادبی ہے کیونکہ آپ کا کلام جس وقت آپ کی زبان مبارک سے ادا ہو رہا ہو اس وقت سب کے لئے خاموش ہو کر اس کا سننا واجب و ضروری ہے اسی طرح بعد وفات جس مجلس میں آپ کا کلام سنایا جاتا ہو وہاں شور و شغب کرنا بےادبی ہے۔- مسئلہ : جس طرح تقدم علی النبی کی ممانعت میں علمائے دین بحیثیت وارث انبیاء ہونے کے داخل ہیں اسی طرح رفع صوت کا بھی یہی حکم ہے کہ اکابر علماء کی مجلس میں اتنی بلند آواز سے نہ بولے جس سے ان کی آواز دب جائے (قرطبی)- (آیت) اَنْ تَحْبَــطَ اَعْمَالُكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ ، لفظ ان تحبط مفعول ہے لا ترفعوا کا جس میں حکم کی علت بتلائی گئی ہے۔ بخدف مصدر یعنی خشیتہ ان تحبط معنے آیت کے یہ ہوئے کہ اپنی آواز کو نبی کی آواز پر بلند نہ کرو بسبب اس خطرہ اور خوف کے کہ کہیں تمہارے اعمال ضائع ہوجائیں اور تمہیں خبر بھی نہ اس جگہ کلیات شرعیہ اور اصول مسلمہ کے اعتبار سے چند سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ حبط اعمال یعنی اعمال صالحہ کو ضائع کردینے والی چیز تو باتفاق اہل سنت والجماعت صرف کفر ہے۔ کسی ایک معصیت اور گناہ سے دوسرے اعمال صالحہ ضائع نہیں ہوتے اور یہاں خطاب مومنین اور صحابہ کرام کو ہے اور لفظ یایھا الذین امنوا کے ساتھ ہے جس سے اس فعل کا کفر نہ ہونا ثابت ہوتا ہے تو حبط اعمال کیسے ہوا۔ دوسرے یہ کہ جس طرح ایمان ایک فعل اختیاری ہے جب تک کوئی شخص اپنے اختیار سے ایمان نہ لائے مومن نہیں ہوتا اسی طرح کفر بھی امر اختیاری ہے جب تک کوئی شخص اپنے قصد سے کفر کو اختیار نہ کرے وہ کافر نہیں ہوسکتا اور یہاں آیت کے آخر میں یہ تصریح ہے کہ انتم لاتشعرون، یعنی تمہیں خبر بھی نہ ہو تو حبط اعمال جو خالص کفر کی سزا ہے وہ کیسے جاری ہوئی۔- سیدی حضرت حکیم الامت نے بیان القرآن میں اس کی توجیہ ایسی بیان فرمائی ہے جس سے یہ سب اشکالات و سوالات ختم ہوجاتے ہیں وہ یہ ہے کہ معنی آیت کے یہ ہیں کہ مسلمانو تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز سے اپنی آواز بلند کرنے اور بےمحابا جہر کرنے سے بچو کیونکہ ایسا کرنے میں خطرہ ہے کہ تمہارے اعمال حبط اور ضائع ہوجائیں اور وہ خطرہ اس لئے ہے کہ رسول سے پیش قدمی یا ان کی آواز پر اپنی آواز کو بلند کر کے غالب کرنا ایک ایسا امر ہے جس سے رسول کی شان میں گستاخی اور بےادبی ہونے کا بھی احتمال ہے جو سبب ہے ایذائے رسول کا اگرچہ صحابہ کرام سے یہ وہم بھی نہیں ہوسکتا کہ وہ بالقصد کوئی ایسا کام کریں جو آپ کی ایذا کا سبب بنے لیکن بعض اعمال و افعال جیسے تقدم اور رفع صوت اگرچہ بقصد ایذا نہ ہوں پھر بھی ان سے ایذا کا احتمال ہے اسی لئے ان کو مطلقاً ممنوع اور معصیت قرار دیا ہے اور بعض معصیتوں کا خاصہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے کرنے والے سے توبہ اور اعمال صالحہ کی توفیق سلب ہوجاتی ہے اور وہ گناہوں میں منہمک ہو کر انجام کار کفر تک پہنچ جاتا ہے جو سبب ہے حبط اعمال کا، کسی اپنے دینی مقتداء استاد یا مرشد کی ایذا رسانی ایسی ہی معصیت ہے جس سے سلب توفیق کا خطرہ ہوتا ہے، اس طرح یہ افعال یعنی تقدم علی النبی اور رفع الصوت ایسی معصیت ٹھہریں کہ جن سے خطرہ ہے کہ توفیق سلب ہوجائے اور یہ خذلان آخر کار کفر تک پہنچا دے جس سے تمام اعمال صالحہ ضائع ہوجاتے ہیں اور کرنے والے نے چونکہ قصدا ایذا کا نہ کہا تھا اس لئے اس کو اس کی خبر بھی نہ ہوگی کہ اس ابتلاء کفر اور حبط اعمال کا اصل سبب کیا تھا۔ بعض علماء نے فرمایا ہے کہ اگر کسی صالح بزرگ کو کسی نے اپنا مرشد بنایا ہو اس کے ساتھ گستاخی و بےادبی کا بھی یہی حال ہے کہ بعض اوقات وہ سلب توفیق اور خذلان کا سبب بن جاتی ہے جو انجام کار متاع ایمان کو بھی ضائع کردیتی ہے نعوذ باللہ منہ۔
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْـہَرُوْا لَہٗ بِالْقَوْلِ كَجَــہْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ ٢- رفع - الرَّفْعُ في الأجسام الموضوعة إذا أعلیتها عن مقرّها، نحو : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ- [ البقرة 93] ، قال تعالی: اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّماواتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَها[ الرعد 2] - ( ر ف ع ) الرفع - ( ف ) کے معنی اٹھانے اور بلند کرنے کے ہیں یہ مادی چیز جو اپنی جگہ پر پڑی ہوئی ہو اسے اس کی جگہ سے اٹھا کر بلند کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة 93] اور ہم نے طو ر پہاڑ کو تمہارے اوپر لاکر کھڑا کیا ۔ اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّماواتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَها[ الرعد 2] وہ قادر مطلق ہے جس نے آسمان کو بدوں کسی سہارے کے اونچا بناکر کھڑا کیا ۔ - صوت - الصَّوْتُ : هو الهواء المنضغط عن قرع جسمین، وذلک ضربان : صَوْتٌ مجرّدٌ عن تنفّس بشیء کالصَّوْتِ الممتدّ ، وتنفّس بِصَوْتٍ ما .- والمتنفّس ضربان - : غير اختیاريّ : كما يكون من الجمادات ومن الحیوانات، واختیاريّ : كما يكون من الإنسان، وذلک ضربان : ضرب بالید کصَوْتِ العود وما يجري مجراه، وضرب بالفم .- والذي بالفم ضربان : نطق وغیر نطق، وغیر النّطق کصَوْتِ النّاي، والنّطق منه إما مفرد من الکلام، وإمّا مركّب، كأحد الأنواع من الکلام . قال تعالی: وَخَشَعَتِ الْأَصْواتُ لِلرَّحْمنِ فَلا تَسْمَعُ إِلَّا هَمْساً [ طه 108] ، وقال : إِنَّ أَنْكَرَ الْأَصْواتِ لَصَوْتُ الْحَمِيرِ [ لقمان 19] ، لا تَرْفَعُوا أَصْواتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِ [ الحجرات 2] ، و تخصیص الصَّوْتِ بالنّهي لکونه أعمّ من النّطق والکلام، ويجوز أنه خصّه لأنّ المکروه رفع الصَّوْتِ فوقه، لا رفع الکلام، ورجلٌ صَيِّتٌ: شدید الصَّوْتِ ، وصَائِتٌ: صائح، والصِّيتُ خُصَّ بالذّكر الحسن، وإن کان في الأصل انتشار الصَّوْتِ.- والإِنْصَاتُ :- هو الاستماع إليه مع ترک الکلام . قال تعالی: وَإِذا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا [ الأعراف 204] ، وقال : يقال للإجابة إِنْصَاتٌ ، ولیس ذلک بشیء، فإنّ الإجابة تکون بعد الإِنْصَاتِ ، وإن استعمل فيه فذلک حثّ علی الاستماع لتمکّن الإجابة .- ( ص و ت ) الصوات - ( آواز ) اس ہوا کو کہتے ہیں جو وہ جسموں کے ٹکرانے سے منضغظ یعنی دب جائے اس کی دو قسمیں ہیں ( 1 ) وہ صورت جو ہر قسم کے تنفس سے خالی ہوتا ہے جیسے صورت جو ہر قسم کے تنفس سے خالی ہوتا ہے جیسے صورت ممتد ( 2 ) وہ صورت جو تنفس کے ساتھ ملا ہوتا ہے پھر صورت متنفس دو قسم پر ہے ایک غیر اختیاری جیسا کہ جمادات حیوانات سے سرز د ہوتا ہے ۔ - دو م اختیاری - جیسا کہ انسان سے صادر ہوتا ہے جو صورت انسان سے صادر ہوتا ہے پھر دو قسم پر ہے ایک وہ جو ہاتھ کی حرکت سے پیدا ہو جیسے عود ( ستار ) اور اس قسم کی دوسری چیزوں کی آواز ۔ دوم وہ جو منہ سے نکلتا ہے اس کی پھر دو قسمیں ہیں ایک وہ جو نطق کے ساتھ ہو دوم وہ جو بغیر نطق کے ہو جیسے نے یعنی بانسری کی آواز پھر نطق کی دو صورتیں ہیں ایک مفرد دوم مرکب جو کہ انواع کلام میں سے کسی ایک نوع پر مشتمل ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَخَشَعَتِ الْأَصْواتُ لِلرَّحْمنِ فَلا تَسْمَعُ إِلَّا هَمْساً [ طه 108] اور خدا کے سامنے آوازیں لسبت ہوجائیں گی تو تم آواز خفی کے سوا کوئی اور آواز نہ سنو گے إِنَّ أَنْكَرَ الْأَصْواتِ لَصَوْتُ الْحَمِيرِ [ لقمان 19] ان انکر الا ضوات لصوات الحمیر کیوں کہ سب آوازوں سے بری آواز گدھوں کی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَرْفَعُوا أَصْواتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِ [ الحجرات 2] اپنی آوازیں پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز سے بلند کرنے سے منع کیا گیا ہے کیونکہ یہ نطق و کلام سے عام ہے اور ہوسکتا ہے کہ ممانعت کا تعلق صوت یعنی محض آواز کے ساتھ ہو نہ کہ بلند آؤاز کے ساتھ کلام کرنے سے نیز اس کی وجہ تخصیص یہ بھی ہوسکتی ہے کہ آنحضرت کے آواز سے بلند آواز کرنے کی کراہت ظاہر کرنا مقصود ہو اور مطلق بلند آوازو الا آدمی رجل صائت چیخنے والا الصیت کے اصل منعی مشہور ہونے کے ہیں مگر استعمال میں اچھی شہرت کے ستاھ مخصوص ہوچکا ہے - الانصات - کے معنی چپ کر کے توجہ کے کسی کی بات سننا کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا [ الأعراف 204] اور جب قرآن پڑھا جائے تو توجہ سے سنا کرو اور خاموش رہا کرو بعض نے کیا ہے کہ انصات کے معنی جواب دینا بھی آتے ہیں لیکن یہ آیت نہیں ہے کیونکہ جواب تو انصات یعنی بات سننے کے بعد ہوتا ہے اور اگر اس معنی میں استعمال بھی ہو تو آیت میں اس امر پر تر غیب ہو کی کہ کان لگا کر سنوتا کہ اسے قبول کرنے پر قوت حاصل ہو ۔- فوق - فَوْقُ يستعمل في المکان، والزمان، والجسم، والعدد، والمنزلة،- وذلک أضرب :- الأول : باعتبار العلوّ.- نحو : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة 63] ، مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر 16] ، وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت 10] ، ويقابله تحت . قال : قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام 65] - الثاني : باعتبار الصّعود والحدور - . نحو قوله :إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب 10] .- الثالث : يقال في العدد .- نحو قوله : فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء 11] .- الرابع : في الکبر والصّغر - مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] .- الخامس : باعتبار الفضیلة الدّنيويّة .- نحو : وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف 32] ، أو الأخرويّة : وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة 212] ، فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران 55] .- السادس : باعتبار القهر والغلبة .- نحو قوله : وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام 18] ، وقوله عن فرعون : وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف 127] - ( ف و ق ) فوق - یہ مکان ازمان جسم عدد اور مرتبہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے - اور کئی معنوں میں بولا جاتا ہے - اوپر جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة 63] اور کوہ طور کو تم پر اٹھا کھڑا کیا ۔ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر 16] کے اوپر تو آگ کے سائبان ہوں گے ۔ وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت 10] اور اسی نے زمین میں اس کے پہاڑ بنائے ۔ اس کی ضد تحت ہے جس کے معنی نیچے کے ہیں چناچہ فرمایا ۔ قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام 65] کہ وہ اس پر بھی قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے عذاب بھیجے - ۔ 2 صعود یعنی بلند ی کی جانب کے معنی میں - اس کی ضدا سفل ہے جس کے معنی پستی کی جانب کے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب 10] جب وہ تمہارے اوپر اور نیچے کی جانب سے تم پر چڑھ آئے - ۔ 3 کسی عدد پر زیادتی کے معنی - ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء 11] اگر اولاد صرف لڑکیاں ہی ہوں ( یعنی دو یا ) دو سے زیادہ - ۔ 4 جسمانیت کے لحاظ سے بڑا یا چھوٹا ہونے کے معنی - دیتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] مچھر یا اس سے بڑھ کر کسی چیز مثلا مکھی ۔ مکڑی کی مثال بیان فرمائے ۔- 5 بلحاظ فضیلت دنیوی کے استعمال ہوتا ہے - جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف 32] اور ایک دوسرے پر درجے بلند کئے ۔ اور کبھی فضلیت اخروی کے لحاظ سے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة 212] لیکن جو پرہیز گار ہیں وہ قیامت کے دن ان پر پر فائق ہوں گے ۔ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران 55] کافروں پر فائق ۔- 6 فوقیت معنی غلبہ اور تسلط - کے جیسے فرمایا : ۔ وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام 18] اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے ۔ وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف 127] فرعون سے اور بےشبہ ہم ان پر غالب ہیں ۔ - نبی - النبيُّ بغیر همْز، فقد قال النحويُّون : أصله الهمْزُ فتُرِكَ همزُه، واستدلُّوا بقولهم : مُسَيْلِمَةُ نُبَيِّئُ سَوْءٍ. وقال بعض العلماء : هو من النَّبْوَة، أي : الرِّفعة «2» ، وسمّي نَبِيّاً لرِفْعة محلِّه عن سائر الناس المدلول عليه بقوله : وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] . فالنَّبِيُّ بغیر الهمْز أبلغُ من النَّبِيء بالهمْز، لأنه ليس كلّ مُنَبَّإ رفیعَ القَدْر والمحلِّ ، ولذلک قال عليه الصلاة والسلام لمن قال : يا نَبِيءَ اللہ فقال : «لَسْتُ بِنَبِيءِ اللہ ولكنْ نَبِيُّ اللهِ» «3» لمّا رأى أنّ الرّجل خاطبه بالهمز ليَغُضَّ منه . والنَّبْوَة والنَّبَاوَة : الارتفاع، ومنه قيل : نَبَا بفلان مکانُهُ ، کقولهم : قَضَّ عليه مضجعه، ونَبَا السیفُ عن الضَّرِيبة : إذا ارتدَّ عنه ولم يمض فيه، ونَبَا بصرُهُ عن کذا تشبيهاً بذلک .- ( ن ب و ) النبی - بدون ہمزہ کے متعلق بعض علمائے نحو نے کہا ہے کہ یہ اصل میں مہموز ہے لیکن اس میں ہمزہ متروک ہوچکا ہے اور اس پر وہ مسلیمۃ بنی سوء کے محاورہ سے استدلال کرتے ہیں ۔ مگر بعض علما نے کہا ہے کہ یہ نبوۃ بمعنی رفعت سے مشتق ہے اور نبی کو نبی اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے اندر معزز اور بلند اقداد کا حامل ہوتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ :۔ وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] اور ہم نے ان کو بلند در جات سے نوازا کے مفہوم سے سمجھاتا ہے پس معلوم ہوا کہ نبی بدوں ہمزہ ( مہموز ) سے ابلغ ہے کیونکہ ہر منبا لوگوں میں بلند قدر اور صاحب مرتبہ نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ جب ایک شخص نے آنحضرت کو ارہ بغض ا نبی اللہ کہہ کر کر پکارا تو آپ نے فرمایا لست ینبی اللہ ولکن نبی اللہ کہ میں نبی اللہ نہیں ہوں بلکہ نبی اللہ ہوں ۔ النبوۃ والنباوۃ کے معنی بلندی کے ہیں اسی سے محاورہ ہے ۔ نبا بفلان مکا نہ کہ اسے یہ جگہ راس نہ آئی جیسا کہ قض علیہ مضجعۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی بےچینی سے کروٹیں لینے کے ہیں نبا السیف عن لضربیۃ تلوار کا اچٹ جانا پھر اس کے ساتھ تشبیہ دے کر نبا بصر ہ عن کذا کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے کرا ہت کرنے کے ہیں ۔- جهر - جَهْر يقال لظهور الشیء بإفراط حاسة البصر أو حاسة السمع .- أمّا البصر فنحو : رأيته جِهَارا، قال اللہ تعالی: لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً [ البقرة 55] ، أَرِنَا اللَّهَ جَهْرَةً [ النساء 153] - ( ج ھ ر ) الجھر - ( ف) اس کے اصل معنی کسی چیز کا حاسہ سمع یا بصر میں افراط کے سبب پوری طرح ظاہر اور نمایاں ہونے کے ہیں چناچہ حاسہ بصر یعنی نظروں کے سامنے کسی چیز کے ظاہر ہونے کے متعلق کہا جاتا ہے رایتہ جھرا کہ میں نے اسے کھلم کھلا دیکھا قرآن میں ہے :۔ لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً [ البقرة 55] کہ جب تک ہم خدا کو سامنے نمایاں طور پر نہ دیکھ لیں تم پر ایمان نہیں لائیں گے ۔ أَرِنَا اللَّهَ جَهْرَةً [ النساء 153] ہمیں نمایاں اور ظاہر طور پر خدا دکھا دو ۔- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- بعض - بَعْضُ الشیء : جزء منه، ويقال ذلک بمراعاة كلّ ، ولذلک يقابل به كلّ ، فيقال : بعضه وكلّه، وجمعه أَبْعَاض . قال عزّ وجلّ : بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] - ( ب ع ض ) بعض - الشئی ہر چیز کے کچھ حصہ کو کہتے ہیں اور یہ کل کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اسلئے کل کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے : بعضہ وکلہ اس کی جمع ابعاض آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ - حبط - وحَبْط العمل علی أضرب :- أحدها :- أن تکون الأعمال دنیوية فلا تغني في القیامة غناء، كما أشار إليه بقوله : وَقَدِمْنا إِلى ما عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْناهُ هَباءً مَنْثُوراً [ الفرقان 23] - والثاني :- أن تکون أعمالا أخروية، لکن لم يقصد بها صاحبها وجه اللہ تعالی، كما روي :- «أنه يؤتی يوم القیامة برجل فيقال له : بم کان اشتغالک ؟ قال : بقراءة القرآن، فيقال له : قد کنت تقرأ ليقال : هو قارئ، وقد قيل ذلك، فيؤمر به إلى النار» «1» .- والثالث :- أن تکون أعمالا صالحة، ولکن بإزائها سيئات توفي عليها، وذلک هو المشار إليه بخفّة المیزان .- وأصل الحبط من الحَبَطِ ، وهو أن تکثر الدابة أكلا حتی ينتفخ بطنها، وقال عليه السلام : «إنّ ممّا ينبت الربیع ما يقتل حبطا أو يلمّ» «2» . وسمّي الحارث الحَبَطَ «3» ، لأنه أصاب ذلك، ثم سمي أولاده حَبَطَات .- ( ح ب ط ) الحبط - حبط عمل کی تین صورتیں ہیں - ۔ ( 1) اول یہ کہ وہ اعمال دینوی ہوں - اس لئے قیامت کے دن کچھ کام نہین آئیں گے اسی کیطرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ۔ وَقَدِمْنا إِلى ما عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْناهُ هَباءً مَنْثُوراً [ الفرقان 23] اور جو انہوں نے عمل کئے ہوں گے ہم ان کی طرف متوجہ ہوں گے تو ان کو اڑتی خاک کردیں گے ۔ - اور جو انہوں نے عمل کئے ہوں گے ہم ان کی طرف متوجہ ہوں گے تو ان کو اڑتی خاک کردیں گے ۔ - ( 2 ) اعمال تو اخروی ہو - لیکن انہیں اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے نہ کیا گیا ہو جیسا کہ مروی ہے کہ قیامت کے دن آدمی لایا جائے گا اور اس سے پوچھا جائے گا کہ تو کس قسم کے عمل کرتا رہا وہ جواب دے گا کہ میں قرآن پاک پڑھتا رہا تو اس سے کہا جائے گا کہ تونے قرآن اس لئے پڑھا تھا کہ تجھے قاری کہا جائے سو لوگ تجھے قاری کہتے رہے حکم ہوگا کہ اس دوزخ میں لے جاؤ ۔- ( 3 ) تیسری صورت یہ ہے کہ اعمال صالحہ کئے ہوں گے - لیکن ان کے بالمقابل گناہ کا بارا ستقدر ہوگا کہ اعمال صالحہ بےاثر ہوکر رہ جائیں گے اور گناہوں کا پلہ بھاری رہے گا اسی کی طرف خفۃ المیزان سے اشارہ فرمایا گیا ہے ۔ اصل میں حبط کا لفظ حبط سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں کہ جانور اتنا زیادہ کھا جائے کہ اس کا پیٹ اپھر جائے ۔ حدیث میں ہے (70) ان مما ینبت الربیع مایقتل حبطا او یلم بعض اوقات موسم ربیع کی گھاس یا پیٹ میں ابھار کی وجہ سے قتل کردتی ہے اور یا بیمار کردیتی ہے ۔ ایک شخص حارث کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ وہ نفخ بطن سے مرگیا تھا تو اس کا نام الحدث الحبط پڑگیا اور اس کی اولاد کو حبطات کہا جاتا ہے ۔- عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - شعور - الحواسّ ، وقوله : وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات 2] ، ونحو ذلك، معناه : لا تدرکونه بالحواسّ ، ولو في كثير ممّا جاء فيه لا يَشْعُرُونَ : لا يعقلون، لم يكن يجوز، إذ کان کثير ممّا لا يكون محسوسا قد يكون معقولا .- شعور - حواس کو کہتے ہیں لہذا آیت کریمہ ؛ وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات 2] اور تم کو خبر بھی نہ ہو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم حواس سے اس کا ادرک نہیں کرسکتے ۔ اور اکثر مقامات میں جہاں لایشعرون کا صیغہ آیا ہے اس کی بجائے ۔ لایعقلون کہنا صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو محسوس تو نہیں ہوسکتی لیکن عقل سے ان کا ادراک ہوسکتا ہے ۔
حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعظیم ضروری ہے - قول باری ہے (یایھا الذین امنوا لا ترفعوا اصواتکم فوق صوت النبی ۔ اے ایمان لانے والو اپنی آوازوں کو پیغمبر کی آواز سے بلند نہ کیا کرو) اس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعظیم کرنے اور اپٓ کی توقیر بجا لانے کا حکم ہے۔ اس کی نظیر یہ قول باری ہے (لسومنوا باللہ ورسولہ وتعزروہ وتوقروہ ۔ تاکہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائو، اس کی مدد کرو اور اس کی توقیر بجا لائو)- ایک روایت کے مطابق آیت کا نزول ان لوگوں کے بارے میں ہوا تھا جن کی عادت یہ تھی کہ جب وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی بات پوچھی جاتی تو اس کے متعلق آپ سے پہلے ہی بول اٹھتے تھے۔ نیز ایک شخص کے بولنے کے دوران اگر آواز بلند کی جائے تو اس سے یہ لازم آتا ہے کہ متکلم کی ہیبت نظر انداز ہوجاتی ہے اور اس کے سامنے ایک قسم کی جرات کا مظاہرہ ہوتا ہے۔- اس لئے اللہ تعالیٰ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ہمیں اس طریق کار سے روک دیا کیونکہ ہمیں آپ کی تعظیم کرنے، آپ کی توقیر بجا لانے اور آپ کی ہیبت کو قائم رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔- قول باری ہے (ولا تجھروا لہ بالقول کجھر بعضکم لبعض۔ اور نہ ان سے ایسے کھل کر بولا کرو جیسے آپس میں کھل کر بولا کرتے ہو) آیت میں آواز بلند کرنے سے زائد بات کہی گئی ہے۔ وہ اس طرح کہ ہمیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ہماری آپس جیسی مخاطبت سے روک دیا گیا ہے اور یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہم جب آپ سے ہم کلام ہوں تو ہماری گفتگو کے انداز میں آپ کی تعظیم کا ایسا رنگ جھلکنا چاہیے جس کی بنا پر یہ دوسری تمام گفتگوئوں سے نمایاں نظر آئے جو ہم آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ کرتے ہیں۔- اس کی نظیر یہ قول باری ہے (لا تجعلوا دعاء الرسول بینکم کدعاء بعضکم بعضا۔ تم رسول کے بلاوے کو ایسا مت سمجھو جیسا تم آپس میں ایک دوسرے کو بلا لیتے ہو) اسی طرح قول باری ہے (ان الذین ینادونک من وراء الحجرات اکثرھم لا یعقلون۔ بیشک جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے آواز دیتے ہیں ان میں سے اکثر عقل سے کام نہیں لیتے)- ایک روایت کے مطابق اس آیت کا نزول بنو تمیم کے ایک گروہ کے سلسلے میں ہوا تھا جو آپ کی خدمت میں آیا تھا۔ آتے ہی ان لوگوں نے حجرے کے باہر سے آوازیں دینی شروع کردیں۔ ” محمد ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) ہمارے پاس باہر آئو۔ “ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کرکے ان لوگوں کے طرز عمل کی مذمت فرمائی۔ ان آیات کا نزول حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعظیم بجا لانے اور گفتگو وغیرہ میں دوسرے تمام لوگوں سے آپ کو ممتاز رکھنے کے ایجاب کے سلسلے میں ہوا ہے۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعظیم کے ضمن میں والدین، استاذ، علماء، بزرگ سب آجاتے ہیں - تاہم اس آیت کے ذریعے ہمیں ان لوگوں کی تعظیم بجا لانے کی بھی تعلیم دی گئی ہے جن کی تعظیم ہم پر واجب ہے۔ مثلاً باپ، استاد، عالعم دین ، عابد وزاہد، امرونہی کرنے والا نیز نیکی وتقویٰ رکھنے والا اور بڑی عمر کا انسان وغیرہ۔- ان لوگوں کی تعظیم بجا لانا بھی ہمارے لئے ضروری ہے ، مثلاً ان کے سامنے آواز اونچی نہ کی جائے، ان سے کھل کر بےتکلفانہ انداز میں گفتگو نہ کی جائے۔ بلکہ ان کی حیثیت ان تمام لوگوں سے نمایاں رکھی جائے جو ان کے مرتبہ اور مقام کے نہیں ہیں۔ نیز باہر سے کھڑے ہوکر انہیں آواز نہ دی جائے اور امر کے صیغے کے ساتھ انہیں خطاب نہ کیا جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بنو تمیم کے گروہ کی اس لئے مذمت کی تھی کہ انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حجرے کے باہر سے آواز دیتے ہوئے کہا تھا ” اخرج علینا “ (ہمارے پاس باہر آئو)- ہمیں عبداللہ بن محمد نے روایت بیان کی انہیں حسن جرجانی نے، انہیں عبدالرزاق نے معمر سے، انہوں نے زہری سے کہ حضرت ثابت بن قیس (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا : ” اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے خطرہ پیدا ہوگیا ہے کہ کہیں میں بربادنہ ہوجائوں۔ اللہ تعالیٰ نے آیت (لا ترفعوا اصواتکم فوق صوت النبی) نازل فرما کر ہمیں آپ کی آواز سے اپنی آواز بلند کرنے کی ممانعت کردی ہے میں ایک جہیر الصوت (ایسا شخص جس کی آواز پیدائشی طور پر بہت اونچی ہو) انسان ہوں۔- اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے کسی ناکردہ فعل پر تعریف وستائش پسند کرنے سے بھی روک دیا ہے جبکہ مجھے دوسروں کی زبان سے اپنی تعریف بہت پسند ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ نے ہمیں تکبر کرنے اور نازوانداز اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ جبکہ میری جمالیاتی حسن تیز ہے۔ “- یہ سن کر آپ نے فرمایا : ثابت کیا تم اس بات سے خوش نہیں ہوگے کہ ایک قابل تعریف زندگی گزارنے کے بعد اللہ کے راستے میں شہید ہوجائو اور پھر جنت میں داخل ہوجائو۔ “ چناچہ ایسا ہی ہوا، انہوں نے بڑی اچھی زندگی گزاری اور مسیلمہ کذاب کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔
اگلی آیت ثابت بن قیس بن شماس کے بارے میں نازل ہوئی ہے جس وقت وفد بنی تمیم آیا تو رسو اکرم کے سامنے اونچی آواز میں بات کر رہے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کو اس سے منع کردیا کہ اے ایمان والو یعنی اے ثابت تم اپنی آوازیں پیغمبر کی آواز سے بلند مت کیا کرو اور نہ آپ سے ایسے کھل کر بولا کرو جیسا آپس میں ایک دوسرے کا نام لے کر کھل کر بولا کرتے ہو۔- بلکہ تعطیم و توقیر اور احترام کے ساتھ آپ کہہ کر مخاطب کیا کرو یا نبی اللہ یا رسول اللہ وغیرہ الفاظ سے مخاطب کرو، یوں نہ ہو کہ کبھی ترک ادب و احترام نبی اکرم کی وجہ سے تمہارے نیک اعمال برباد ہوجائیں اور تمہیں ان کے برباد ہونے کی خبر بھی نہ ہو۔- شان نزول : لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ (الخ)- نیز قتادہ ہی سے روایت کیا ہے کہ کچھ لوگ آپ سے زور سے گفتگو کرتے تھے اور آپ کے سامنے آوازیں بلند کرتے تھے ان کے بارے میں یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی۔
آیت ٢ یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَـکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجْہَرُوْا لَہٗ بِالْقَوْلِ کَجَہْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ ” اے اہل ِایمان اپنی آواز کبھی بلند نہ کرنا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز پر اور نہ انہیں اس طرح آواز دے کر پکارنا جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے کو بلند آواز سے پکارتے ہو “- اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ ” مبادا تمہارے سارے اعمال ضائع ہوجائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔ “- خبردار نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعظیم و توقیر کا معاملہ بہت نازک اور حساس ہے۔ اس معاملے میں ہمیشہ چوکنا اور ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں کسی معمولی سی بےادبی سے تم میں سے کسی کے تمام نیک اعمال ضائع ہوجائیں اور وہ اسی زعم میں رہے کہ میں تو پکا سچا مسلمان ہوں ‘ ہمیشہ کبائر سے بچ کر رہتا ہوں ‘ میں نے کبھی چوری نہیں کی ‘ ڈاکا نہیں ڈالا ‘ اور کبھی زنا کاری کا نہیں سوچا۔
سورة الْحُجُرٰت حاشیہ نمبر :3 یہ وہ ادب ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھنے والوں اور آپ کی خدمت میں حاضر ہونے والوں کو سکھایا گیا تھا ۔ اس کا منشا یہ تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ملاقات اور بات چیت میں اہل ایمان آپ کا انتہائی احترام ملحوظ رکھیں ۔ کسی شخص کی آواز آپ کی آواز سے بلند تر نہ ہو ۔ آپ سے خطاب کرتے ہوئے لوگ یہ بھول نہ جائیں کہ وہ کسی عام آدمی یا اپنے برابر والے سے نہیں بلکہ اللہ کے رسول سے مخاطب ہیں ۔ اس لیے عام آدمیوں کے ساتھ گفتگو اور آپ کے ساتھ گفتگو میں نمایاں فرق ہونا چاہیے اور کسی کو آپ سے اونچی آواز میں کلام نہ کرنا چاہیے ۔ یہ ادب اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس کے لیے سکھایا گیا تھا اور اس کے مخاطب وہ لوگ تھے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں موجود تھے ، مگر بعد کے لوگوں کو بھی ایسے تمام مواقع پر یہی ادب ملحوظ رکھنا چاہیے جب آپ کا ذکر ہو رہا ہو ، یا آپ کا کوئی حکم سنایا جائے ، یا آپ کی احادیث بیان کی جائیں ۔ اس کے علاوہ اس آیت سے یہ ایماء بھی نکلتا ہے کہ لوگوں کو اپنے بزرگ تر اشخاص کے ساتھ گفتگو میں کیا طرز عمل اختیار کرنا چاہیے ۔ کسی شخص کا اپنے بزرگوں کے سامنے اس طرح بولنا جس طرح وہ اپنے دوستوں یا عام آدمیوں کے سامنے بولتا ہے ، دراصل اس بات کی علامت ہے کہ اس کے دل میں ان کے لیے کوئی احترام موجود نہیں ہے اور وہ ان میں اور عام آدمیوں میں کوئی فرق نہیں سمجھتا ۔ سورة الْحُجُرٰت حاشیہ نمبر :4 اس ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ دین میں ذات رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی عظمت کا کیا مقام ہے ۔ رسول پاک ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے سوا کوئی شخص ، خواہ بجائے خود کتنا ہی قابل احترام ہو ، بہرحال یہ حیثیت نہیں رکھتا کہ اس کے ساتھ بے ادبی خدا کے ہاں اس سزا کی مستحق ہو جو حقیقت میں کفر کی سزا ہے ۔ وہ زیادہ سے زیادہ ایک بد تمیزی ہے ، خلاف تہذیب حرکت ہے ۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احترام میں ذرا سی کمی بھی اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس سے آدمی کی عمر بھر کی کمائی غارت ہو سکتی ہے ۔ اس لیے آپ کا احترام دراصل اس خدا کا احترام ہے جس نے آپ کو اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے اور آپ کے احترام میں کمی کے معنی خدا کے احترام میں کمی کے ہیں ۔