ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو اپنے نبی کے آداب سکھاتا ہے کہ تمہیں اپنے نبی کی توقیر و احترام عزت و عظمت کا خیال کرنا چاہیے تمام کاموں میں اللہ اور رسول کے پیچھے رہنا چاہیے ، اتباع اور تابعداری کی خو ڈالنی چاہیے حضرت معاذ کو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کی طرف بھیجا تو دریافت فرمایا اپنے احکامات کے نفاذ کی بنیاد کسے بناؤ گے جواب دیا اللہ کی کتاب کو فرمایا اگر نہ پاؤ ؟ جواب دیا سنت کو فرمایا اگر نہ پاؤ ؟ جواب دیا اجتہاد کروں گا تو آپ نے ان کے سینے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا اللہ کا شکر ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد کو ایسی توفیق دی جس سے اللہ کا رسول خوش ہو ( ابو داؤد و ترمذی ابن ماجہ ) یہاں اس حدیث کے وارد کرنے سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ حضرت معاذ نے اپنی رائے نظر اور اجتہاد کو کتاب و سنت سے مؤخر رکھا پس کتاب و سنت پر رائے کو مقدم کرنا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے بڑھنا ہے ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ کتاب و سنت کے خلاف نہ کہو ۔ حضرت عوفی فرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کے سامنے بولنے سے منع کر دیا گیا مجاہد فرماتے ہیں کہ جب تک کسی امر کی بابت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کچھ نہ فرمائیں تم خاموش رہو حضرت ضحاک فرماتے ہیں امر دین احکام شرعی میں سوائے اللہ کے کلام اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے تم کسی اور چیز سے فیصلہ نہ کرو ، حضرت سفیان ثوری کا ارشاد ہے کسی قول و فعل میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر پہل نہ کرو امام حسن بصری فرماتے ہیں مراد یہ ہے کہ امام سے پہلے دعا نہ کرو ۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ لوگ کہتے ہیں اگر فلاں فلاں میں حکم اترے تو اس طرح رکھنا چاہیے اسے اللہ نے ناپسند فرمایا ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ حکم اللہ کی بجاآوری میں اللہ کا لحاظ رکھو اللہ تمہاری باتیں سن رہا ہے اور تمہارے ارادے جان رہا ہے پھر دوسرا ادب سکھاتا ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر اپنی آواز بلند کریں ۔ یہ آیت حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کے بارے میں نازل ہوئی ۔ صحیح بخاری شریف میں حضرت ابن ابی ملیکہ سے مروی ہے کہ قریب تھا کہ وہ بہترین ہستیاں ہلاک ہو جائیں یعنی حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر فاروق ان دونوں کی آوازیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بلند ہوگئیں جبکہ بنو تمیم کا وفد حاضر ہوا تھا ایک تو اقرع بن حابس کو کہتے تھے جو بنی مجاشع میں تھے اور دوسرے شخص کی بابت کہتے تھے ۔ اس پر حضرت صدیق نے فرمایا کہ تم تو میرے خلاف ہی کیا کرتے ہو فاروق اعظم نے جواب دیا نہیں نہیں آپ یہ خیال بھی نہ فرمائیے اس پر یہ آیت نازل ہوئی حضرت ابن زبیر فرماتے ہیں اس کے بعد تو حضرت عمر اس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نرم کلامی کرتے تھے کہ آپ کو دوبارہ پوچھنا پڑتا تھا ۔ اور روایت میں ہے کہ حضرت ابو بکر فرماتے تھے قعقاع بن معبد کو اس وفد کا امیر بنائیے اور حضرت عمر فرماتے تھے نہیں بلکہ حضرت اقرع بن حابس کو اس اختلاف میں آوازیں کچھ بلند ہوگئیں جس پر آیت ( يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُـقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَيِ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ Ǻ ) 49- الحجرات:1 ) نازل ہوئی اور آیت ( وَلَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُجَ اِلَيْهِمْ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ ۭ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ Ĉ ) 49- الحجرات:5 ) ، مسند بزار میں ہے آیت ( يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْـهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَــهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَــطَ اَعْمَالُكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ Ą ) 49- الحجرات:2 ) ، کے نازل ہونے کے بعد حضرت ابو بکر نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قسم اللہ کی اب تو میں آپ سے اس طرح باتیں کروں گا جس طرح کوئی سرگوشی کرتا ہے صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت ثابت بن قیس کئی دن تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں نظر نہ آئے اس پر ایک شخص نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اس کی بابت آپ کو بتاؤں گا چنانچہ وہ حضرت ثابت کے مکان پر آئے دیکھا کہ وہ سر جھکائے ہوئے بیٹھے ہیں ۔ پوچھا کیا حال ہے ۔ جواب ملا برا حال ہے میں تو حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر اپنی آواز کو بلند کرتا تھا میرے اعمال برباد ہوگئے اور میں جہنمی بن گیا ۔ یہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور سارا واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہہ سنایا پھر تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے ایک زبردست بشارت لے کر دوبارہ حضرت ثابت کے ہاں گئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم جاؤ اور ان سے کہو کہ تو جہنمی نہیں بلکہ جنتی ہے مسند احمد میں بھی یہ واقعہ ہے اس میں یہ بھی ہے کہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تھا کہ ثابت کہاں ہیں نظر نہیں آتے ۔ اس کے آخر میں ہے حضرت انس فرماتے ہیں ہم انہیں زندہ چلتا پھرتا دیکھتے تھے اور جانتے تھے کہ وہ اہل جنت میں سے ہیں ۔ یمامہ کی جنگ میں جب کہ مسلمان قدرے بد دل ہوگئے تو ہم نے دیکھا کہ حضرت ثابت خوشبو ملے ، کفن پہنے ہوئے دشمن کی طرف بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور فرما رہے ہیں مسلمانو تم لوگ اپنے بعد والوں کے لئے برا نمونہ نہ چھوڑ جاؤ یہ کہہ کر دشمنوں میں گھس گئے اور بہادرانہ لڑتے رہے یہاں تک کہ شہید ہوگئے رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے آپ نے جب انہیں نہیں دیکھا تو حضرت سعد سے جو ان کے پڑوسی تھے دریافت فرمایا کہ کیا ثابت بیمار ہیں ؟ لیکن اس حدیث کی اور سندوں میں حضرت سعد کا ذکر نہیں اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ روایت معطل ہے اور یہی بات صحیح بھی ہے اس لئے کہ حضرت سعد بن معاذ اس وقت زندہ ہی نہ تھے بلکہ آپ کا انتقال بنو قریظہ کی جنگ کے بعد تھوڑے ہی دنوں میں ہو گیا تھا اور بنو قریظہ کی جنگ سنہ ٥ ہجری میں ہوئی تھی اور یہ آیت وفد بنی تمیم کی آمد کے وقت اتری ہے اور وفود کا پے درپے آنے کا واقعہ سنہ ٩ ہجری کا ہے واللہ اعلم ۔ ابن جریر میں ہے جب یہ آیت اتری تو حضرت ثابت بن قیس راستے میں بیٹھ گئے اور رونے لگے حضرت عاصم بن عدی جب وہاں سے گزرے اور انہیں روتے دیکھا تو سبب دریافت کیا جواب ملا کہ مجھے خوف ہے کہ کہیں یہ آیت میرے ہی بارے میں نازل نہ ہوئی ہو میری آواز بلند ہے حضرت عاصم یہ سن کر چلے گئے اور حضرت ثابت کی ہچکی بندھ گئی دھاڑیں مار مار کر رونے لگے اور اپنی بیوی صاحبہ حضرت جمیلہ بنت عبداللہ بن ابی سلول سے کہا میں اپنے گھوڑے کے طویلے میں جارہا ہوں تم اس کا دروازہ باہر سے بند کر کے لوہے کی کیل سے اسے جڑ دو ۔ اللہ کی قسم میں اس میں سے نہ نکلوں گا یہاں تک کہ یا مر جاؤں یا اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مجھ سے رضامند کر دے ۔ یہاں تو یہ ہوا وہاں جب حضرت عاصم نے دربار رسالت میں حضرت ثابت کی حالت بیان کی تو رسالت مآب نے حکم دیا کہ تم جاؤ اور ثابت کو میرے پاس بلا لاؤ ۔ لیکن عاصم اس جگہ آئے تو دیکھا کہ حضرت ثابت وہاں نہیں مکان پر گئے تو معلوم ہوا کہ وہ تو گھوڑے کے طویلے میں ہیں یہاں آکر کہا ثابت چلو تم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یاد فرما رہے ہیں ۔ حضرت ثابت نے کہا بہت خوب کیل نکال ڈالو اور دروازہ کھول دو ، پھر باہر نکل کر سرکار میں حاضر ہوئے تو آپ نے رونے کی وجہ پوچھی جس کا سچا جواب حضرت ثابت سے سن کر آپ نے فرمایا کیا تم اس بات سے خوش نہیں ہو کہ تم قابل تعریف زندگی گزارو اور شہید ہو کر مرو اور جنت میں جاؤ ۔ اس پر حضرت ثابت کا سارا رنج کافور ہو گیا اور باچھیں کھل گئیں اور فرمانے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اللہ تعالیٰ کی اور آپ کی اس بشارت پر بہت خوش ہوں اور اب آئندہ کبھی بھی اپنی آواز آپ کی آواز سے اونچی نہ کروں گا ۔ اس پر اس کے بعد کی آیت ( اِنَّ الَّذِيْنَ يَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰى ۭ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّاَجْرٌ عَظِيْمٌ Ǽ ) 49- الحجرات:3 ) الخ ، نازل ہوئی ، یہ قصہ اسی طرح کئی ایک تابعین سے بھی مروی ہے ۔ الغرض اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آواز بلند کرنے سے منع فرما دیا امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب نے دو شخصوں کی کچھ بلند آوازیں مسجد نبوی میں سن کر وہاں آکر ان سے فرمایا تمہیں معلوم ہے کہ تم کہاں ہو ؟ پھر ان سے پوچھا کہ تم کہاں کے رہنے والے ہو ؟ انہوں نے کہا طائف کے آپ نے فرمایا اگر تم مدینے کے ہوتے تو میں تمہیں پوری سزا دیتا ۔ علماء کرام کا فرمان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر شریف کے پاس بھی بلند آواز سے بولنا مکروہ ہے جیسے کہ آپ کی حیات میں آپ کے سامنے مکروہ تھا اس لئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح اپنی زندگی میں قابل احترام و عزت تھے اب اور ہمیشہ تک آپ اپنی قبر شریف میں بھی باعزت اور قابل احترام ہی ہیں ۔ پھر آپ کے سامنے آپ سے باتیں کرتے ہوئے جس طرح عام لوگوں سے باآواز بلند باتیں کرتے ہیں باتیں کرنی منع فرمائیں ، بلکہ آپ سے تسکین و وقار ، عزت و ادب ، حرمت و عظمت سے باتیں کرنی چاہیں ۔ جیسے اور جگہ ہے آیت ( لَا تَجْعَلُوْا دُعَاۗءَ الرَّسُوْلِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاۗءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا ۭ قَدْ يَعْلَمُ اللّٰهُ الَّذِيْنَ يَتَسَلَّـلُوْنَ مِنْكُمْ لِوَاذًا ۚ فَلْيَحْذَرِ الَّذِيْنَ يُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِهٖٓ اَنْ تُصِيْبَهُمْ فِتْنَةٌ اَوْ يُصِيْبَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ 63 ) 24- النور:63 ) اے مسلمانو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح نہ پکارو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو ، پھر فرماتا ہے کہ ہم نے تمہیں اس بلند آواز سے اس لئے روکا ہے کہ ایسا نہ ہو کسی وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہو جائیں اور آپ کی ناراضگی کی وجہ سے اللہ ناراض ہو جائے اور تمہارے کل اعمال ضبط کر لے اور تمہیں اس کا پتہ بھی نہ چلے ۔ چنانچہ صحیح حدیث میں ہے کہ ایک شخص اللہ کی رضامندی کا کوئی کلمہ ایسا کہہ گزرتا ہے ۔ کہ اس کے نزد یک تو اس کلمہ کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ۔ لیکن اللہ کو وہ اتنا پسند آتا ہے ۔ کہ اس کی وجہ سے وہ جنتی ہو جاتا ہے اسی طرح انسان اللہ کی ناراضگی کا کوئی ایسا کلمہ کہہ جاتا ہے کہ اس کے نزدیک تو اس کی کوئی وقعت نہیں ہوتی لیکن اللہ تعالیٰ اسے اس ایک کلمہ کی وجہ سے جہنم کے اس قدر نیچے کے طبقے میں پہنچا دیتا ہے کہ جو گڑھا آسمان و زمین سے زیادہ گہرا ہے پھر اللہ تبارک وتعالیٰ آپ کے سامنے آواز پست کرنے کی رغبت دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ جو لوگ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی آوازیں دھیمی کرتے ہیں انہیں اللہ رب العزت نے تقوے کے لئے خالص کر لیا ہے اہل تقویٰ اور محل تقویٰ یہی لوگ ہیں ۔ یہ اللہ کی مغفرت کے مستحق اور اجر عظیم کے لائق ہیں امام احمد نے کتاب الزہد میں ایک روایت نقل کی ہے کہ حضرت عمر سے ایک تحریراً استفتاء لیا گیا کہ اے امیرالمومنین ایک وہ شخص جسے نافرمانی کی خواہش ہی نہ ہو اور نہ کوئی نافرمانی اس نے کی ہو وہ اور وہ شخص جسے خواہش معصیت ہے لیکن وہ برا کام نہیں کرتا تو ان میں سے افضل کون ہے ؟ آپ نے جواب میں لکھا کہ جنہیں معصیت کی خواہش ہوتی ہے پھر نافرمانیوں سے بچتے ہیں یہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ تعالیٰ نے پرہیز گاری کے لئے آزما لیا ہے ان کے لئے مغفرت ہے اور بہت بڑا اجر و ثواب ہے ۔
1۔ 1 اس کا مطلب ہے کہ دین کے معاملے میں اپنے طور پر کوئی فیصلہ نہ کرو نہ اپنی سمجھ اور رائے کو ترجیح دو ، بلکہ اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو۔ اپنی طرف سے دین میں اضافہ یا بد عات کی ایجاد، اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آگے بڑھنے کی ناپاک جسارت ہے جو کسی بھی صاحب ایمان کے لائق نہیں۔ اسی طرح کوئی فتوٰی قرآن و حدیث میں غور و فکر کے بغیر نہ دیا جائے۔ مومن کی شان تو اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کردینا ہے نہ کہ ان کے مقابلے میں اپنی بات پر یا کسی امام کی رائے پر اڑے رہنا۔
[١] آپ کا ادب و احترام :۔ یعنی اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو بلکہ ان کے پیچھے پیچھے چلو۔ اگر ابھی تک اللہ اور اس کے رسول نے کسی امر کا فیصلہ نہیں کیا تو اپنی رائے سے کوئی فیصلہ نہ کرو۔ اور اگر فیصلہ کردیا ہے تو اسی کی اطاعت کرو۔ اس کے علاوہ دوسری راہیں نہ سوچو۔ - خ اجتہاد صرف اس وقت جائز ہے جب نص نہ ہو :۔ اس آیت سے علماء نے یہ مسئلہ مستنبط کیا ہے کہ جب کسی بات کے متعلق کتاب و سنت میں کوئی حکم مل جائے تو اس کے بعد اجتہاد کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ اجتہاد صرف انہی امور میں ہوسکتا ہے کہ جب کتاب و سنت میں کوئی واضح حکم موجود نہ ہو۔
(١) یا یھا الذین امنوا : رازی نے فرمایا :” اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو مکارم اخلاق کا سبق دیا ہے، ان کا تعلق یا تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاملے میں ہوگا یا اس کے رسول کے ساتھ یا فاسق لوگوں کے ساتھ یا ان ایمان والوں کے ساتھ جو حاضر ہوں یا ان ایمان والوں کے ساتھ جو غائب ہوں اور پانچوں قسموں میں سے ہر ایک کی ابتداء ” یا یھا الذین امنوا “ کے ساتھ کی ہے۔ “- (٢) لاتقدموا بین یدی اللہ و رسولہ :” لاتقدموا “ باب تفعیل ہے، جس کا مجرد ” قدم یقدم “ (ن) آتا ہے، جس کا معنی ”’ دوسرے کے آگے چلنا “ ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرعون کے متعلق فرمایا :(یقدم قومہ یوم القیمۃ) (ھود : ٩٨)” وہ قیامت کے دن اپنی قوم کے آگے ہوگا۔ “ (تقدم یتقدم “ (تفعل) کا معنی بھی ” آگے بڑھنا “ ہے۔ باب تفعیل کے لحاظ سے اس کا معنی ” آگے کرنا “ ہوگا، یعنی اپنی کوئی بات یا کوئی فعل اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ کرو۔ بعض اوقات ” قدم “ ” تقدم “ کے معنی میں بھی آجاتا ہے، یعنی وہ آگے بڑھا، جیسے ” کانہ قدم نفسہ “ ” گویا اس نے اپنے آپ کو آگے بڑھا لیا۔ “ اس صورت میں آیت کا معنی ہوگا :” اللہ اور اس کے رسول سے آگے مت بڑھو۔ “ اور یہاں یہی معنی راجح ہے۔ اسی سے ” مقدمۃ الجیش “ (لشکر کا سب سے اگلا حصہ ) ہے۔ باب تفعیل باب تفعل کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، جیسے ” وجہ ای توجہ “ اور ” بین ای تبین “ آیت میں اس شخص کو جو اللہ اور اس کے رسول کی اجازت یا حکم کے بغیر کوئی کام یا بات کرتا ہے اس شخص کی حالت کے ساتھ تشبیہ دی ہے جو کسی دوسرے کو پیچھے چھوڑ کر اس سے آگے بڑھ جاتا ہے۔ (ابن عاشور)- (٣)” لاتقدموا بین یدی اللہ و رسولہ “ میں اللہ اور اس کے رسول کو اکٹھا ذکر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ رسول سے آگے بڑھنا درحقیقت اللہ تعالیٰ سے آگے بڑھنا ہے، کیونکہ رسول وہی کہتا اور کرتا ہے جس کی وحی اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے، فرمایا :(وما ینطق عن الھوی، ان ھو الا وحی یوحی ) (النجم : ٣، ٣)” اور نہ وہ اپنی خواہش سے بولتا ہے۔ وہ تو صرف وحی ہے جو نازل کی جاتی ہے۔ “- (٤) اس آیت میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے کا بنیادی تقاضا بیان کیا گیا ہے کہ جب تم اللہ کو اپنا رب اور رسول کو اپنا ہادی اور رہبر مانتے ہو تو پھر ان کے پیچھے چلو، آگے مت بڑھو اپنے فیصلے خود ہی نہ کرلو، بلکہ پہلے یہ دیکھو کہ اللہ اور اس کے رسول کا حکم کیا ہے۔ یہ حکم سورة احزاب میں م وجود حکم سے بھی ایک قدم آگے ہے، فرمایا :(وما کان لمومن ولا مومنۃ اذا قضی اللہ و رسولہ امراً ان یکون لھم الخیرۃ من امرھم ومن یعص اللہ و رسولہ فقد ضل ضلاً مبیناً (الاحزاب : ٣٦)” اور کبھی بھی نہ کسی مومن مرد کا حق ہے اور نہ کسی مومت عورت کا کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کردیں کہ ان کے لئے ان کے معاملے میں اختیار ہو اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے سو یقیناً وہ گمراہ ہوگیا ، واضح گمراہ ہونا۔ “ یعنی سورة احزاب میں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کردیں تو کسی ایمان والے مرد یا ایمان والی عورت کو خود کوئی فیصلہ کرنے کا اختیار بقای نہیں رہتا اور یہاں فرمایا کہ ایمان والوں کو پہل کرتے ہوئے اپنے فیصلے خود نہیں کرلینے چاہئیں، بلکہ پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ ان کے متعلق اللہ اور اس کے رسول کا حکم کیا ہے۔ یہ حکم مسلمانوں کے انفرادی معاملات میں بھی ہے اور اجتماعی معاملات میں بھی۔ کسی بھی شخص کو خواہ وہ کوئی عالم ہو یا امام یا پیر فقیر، یہ حق حاصل نہیں اور نہ ہی کسی جماعت یا پارلیمنٹ کا حق ہے کہ وہ اپنی طرف سے شریعت بنائے، کسی کام کو حلال یا حرام کہے، یا باعث ثواب یا گناہ قرار دے۔ اگر کوئی کسی کو یہ حق دیتا ہے تو وہ اسے اپنا رب بناتا ہے۔ مزید دیکھیے سورة توبہ کی آیت (٣١): (واتخذوا احبارھم و رھبانھم ارباباً من دون اللہ) کی تفسیر۔- (٥) اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ کتاب و سنت سے آگے مت بڑھو، ان کے پیچھے پیچھے چلو۔ چناچہ طبری نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ابن عباس (رض) کی تفسیر نقل فرمائی ہے :(لاتقدموا بین یدی اللہ ورستولہ) یقول لاتقولوا خلاف الکتاب والسنۃ) (طبری :31928) یعنی اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ کتاب و سنت کے خلاف کوئی بات نہ کہو۔ بعض مفسرین نے اس آیتل کی شان نزول رمضان سے ایک دو دن پہلے روزہ رکھنا بیان کی ہے اور بعض نے عید الاضحیٰ کی نماز سے پہلے قربانی کرنا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کے تمام کام اس آیت کے مضمون میں شامل ہیں البتہ یہ بات ثابت نہیں کہ یہ آیت خاص ان کے بارے میں اتری ہے۔- (٨) واثقوا للہ ان اللہ سمیع :” ان “ تعلیل یعنی پہلی بات کی وجہ بیان کرنے کے لئے ہوتا ہے۔ یعنی اللہ سے ڈرتے ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر بات کو سننے والا اور ہر کام ک جاننے والا ہے، خواہ وہ سب کے سامنے کیا جائے یا چھپ کر عمل، میں آچکا ہو یا دل میں اس کا ارادہ ہو ، اگر تم اللہ اور اس کے رسول سے آگے بڑھو گے تو اس سے تمہارا جرم چھپا نہیں رہے گا اور وہ تمہیں اس کی سزا دے گا۔
خلاصہ تفسیر - ربط سورت و شان نزول :- اس سے پہلی دو سورتوں میں جہاد کے احکام تھے جس سے اصلاح عام و آفاق مقصود ہے۔ اس سورت میں اصلاح نفس کے احکام و آداب مذکور ہیں، خصوصاً وہ احکام جو آداب معاشرت سے تعلق رکھتے ہیں اور قصہ ان آیتوں کے نزول کا یہ ہے کہ ایک مرتبہ قبیلہ بنو تمیم کے لوگ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے یہ بات زیر غور تھی کہ اس قبیلہ پر حاکم کس کو بنایا جائے۔ حضرت ابوبکر صدیق نے قعقاع ابن معبد کی نسبت رائے دی اور حضرت عمر نے اقرع بن حابس کے متعلق رائے دی، اس معاملہ میں حضرت ابوبکر و عمر (رض) کے مابین آپ کی مجلس میں گفتگو ہوگئی اور گفتگو بڑھ کر دونوں کی آوازیں بلند ہوگئیں اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔ (رواہ البخاری)- اے ایمان والو اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (کی اجازت) سے پہلے تم (کسی قول یا فعل میں) سبقت نہ کیا کرو (یعنی جب تک قرائن قویہ سے یا بالتصریح گفتگو کی اجازت نہ ہو گفتگو مت کرو جیسا کہ واقعہ مذکورہ جو سبب نزول ان آیات کا ہوا اس میں انتظار کرنا چاہئے تھا کہ یا تو آپ خود کچھ فرماتے یا آپ حاضرین مجلس سے پوچھتے بدون انتظار کے از خود گفتگو شروع کردینا درست نہیں تھا کیونکہ گفتگو کا جواز اذن شرعی پر موقوف تھا خواہ یہ اذن قطعی ہو یعنی صریح طور پر یا ظنی قرائن قویہ کے ذریعہ غلطی یہ ہوئی انتظار نہیں کیا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی) اور اللہ سے ڈرتے رہو بیشک اللہ تعالیٰ (تمہارے سب اقوال کو) سننے والا (اور تمہارے افعال کو) جاننے والا ہے (اور) اے ایمان والو تم اپنی آوازیں پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز سے بلند مت کیا کرو اور نہ ان سے ایسے کھل کر بولا کرو جیسے آپس میں کھل کر ایک دوسرے سے بولا کرتے ہو (یعنی نہ بلند آواز سے بولو جبکہ آپ کے سامنے آپس میں کوئی بات کرنا ہو اور نہ برابر کی آواز سے بولو جبکہ خود آپ سے خطاب کرنا ہو) کبھی تمہارے اعمال برباد ہوجاویں اور تم کو خبر بھی نہ ہو (اس کا مطلب یہ ہے کہ آواز کا بلند کرنا جو صورةً بےباکی اور بےپروائی ہے اور بلند آواز سے اس طرح باتیں کرنا جیسے آپس میں ایک دوسرے سے بےتکلف باتیں کرتے ہیں یہ ایک قسم کی گستاخی ہے اپنے تابع اور خادم سے اس طرح کی گفتگو ناگوار اور ایذادہ ہو سکتی ہے اور اللہ کے رسول کو ایذا پہنچانا تمام اعمال خیر کو برباد کردینے والا ہے۔ البتہ بعض اوقات جبکہ طبیعت میں زیادہ انبساط ہو یہ امور ناگوار نہیں ہوتے اس وقت عدم ایذا رسول کی وجہ سے یہ گفتگو حبط اعمال کا موجب نہیں ہوگی، لیکن متکلم کو یہ معلوم کرنا کہ اس وقت ہماری ایسی گفتگو ناگوار خاطر اور موجب ایذا نہیں ہوگی آسان نہیں ہوسکتا ہے کہ متکلم تو یہ سمجھ کر کلام کرے کہ اس سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذا نہیں ہوگی مگر واقع میں اس سے ایذا پہنچ جائے تو گفتگو اس کے اعمال کو حبط اور برباد کر دے گی اگرچہ اس کو گمان بھی نہ ہوگا کہ میری اس گفتگو سے مجھے کتنا بڑا خسارہ ہوگیا، اس لئے آواز بلند کرنے اور جہربالقول کو مطلقاً ممنوع کردیا گیا کیونکہ ایسی گفتگو کے بعض افراد اگرچہ موجب ایذا و حبط اعمال نہیں ہوں گے مگر اس کی تعیین کیسے ہوگی اس لئے مطلقاً جہر بالقول کے تمام افراد کو ترک کردینا چاہئے یہاں تک تو آواز بلند کرنے سے ڈرایا گیا ہے آگے آواز پست کرنے کی ترغیب ہے - بیشک جو لوگ اپنی آوازوں کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے پست رکھتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کے قلوب کو اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کے لئے خالص کردیا ہے (یعنی ان کے قلوب میں تقویٰ کے خلاف کوئی چیز آتی ہی نہیں، مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس خاص معاملہ میں یہ حضرات کمال تقویٰ کے ساتھ متصف ہیں کیونکہ ترمذی کی حدیث مرفوع میں کمال تقویٰ کا بیان ان الفاظ میں آیا ہے لایبلغ العبد ان یکون من المتقین حتی یدع ما لا باس بہ حذراً لما بہ باس، یعنی بندہ کمال تقویٰ کو اس وقت تک نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ وہ کچھ ایسی چیزوں کو بھی جن میں کوئی گناہ نہیں اس احتیاط کی بناء پر چھوڑ دے کہ یہ جائز کام کہیں مجھے کسی ناجائز کام میں مبتلا نہ کردے۔ مراد وہ مشتبہ امور ہیں جن میں گناہ کا خطرہ اور شبھہ ہو، جیسا کہ آواز بلند کرنے کی ایک فرد ایسی ہے جس میں گناہ نہیں، یعنی وہ جس میں مخاطب کو ایذا نہ ہو اور ایک فرد وہ ہے جس میں گناہ ہے یعنی جس سے ایذا پہنچے، تو کمال تقویٰ اس میں ہے کہ آدمی مطلقاً آواز بلند کرنے کو چھوڑ دے، آگے ان کے عمل کے اخروی فائدہ کا بیان ہے) ان لوگوں کے لئے مغفرت اور اجر عظیم ہے اور اگلی آیتوں کا قصہ یہ ہے کہ وہ ہی بنو تمیم آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ باہر تشریف فرما نہ تھے بلکہ ازواج مطہرات کے حجرات میں سے کسی مکان میں تھے۔ یہ لوگ غیر مہذب گاؤں والے تھے باہر ہی سے کھڑے ہو کر آپ کا نام لے کر پکارنے لگے کہ یا محمد اخرج الینا، یعنی اے محمد ہمارے لئے باہر آئیے، اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں (کذافی الدرا لمنثور بروایتہ ابن اسحاق عن ابن عباس) جو لوگ حجروں کے باہر سے آپ کو پکارتے ہیں ان میں اکثروں کو عقل نہیں ہے (کہ عقل ہوتی تو آپ کا ادب کرتے اس طرح نام لے کر باہر سے پکارنے کی جرات نہ کرتے اور اکثرہم فرمانے کی وجہ یا تو یہ ہے کہ بعض پکارنے والے فی نفسہ جری نہ ہوں گے، دوسروں کے ساتھ دیکھا دیکھی لگ گئے اس طرح ان سے بھی یہ غلطی ہوگئی اور یا اگرچہ سب ایک ہی طرح کے ہوں مگر اکثرہم کا لفظ فرمانے سے کسی کو اشتعال نہیں ہوگا کیونکہ ہر شخص یہ خیال کرسکتا ہے کہ شاید مجھ کو کہنا مقصود نہ ہو وعظ و نصیحت کا یہی طریقہ ہے کہ ایسے کلمات سے احتیاط کی جائے جن سے مخاطب کو اشتعال پیدا ہو) اور اگر یہ لوگ (ذرا) صبر (اور انتظار) کرتے یہاں تک کہ آپ خود باہر ان کے پاس آجاتے تو یہ ان کے لئے بہتر ہوتا (کیونکہ یہ ادب کی بات تھی) اور (اگر اب بھی توبہ کرلیں تو معاف ہوجاوے کیونکہ) اللہ غفور رحیم ہے۔- معارف و مسائل - ان آیات کے نزول کے متعلق روایات حدیث میں بقول قرطبی چھ واقعات منقول ہیں اور قاضی ابوبکر بن عربی نے فرمایا کہ سب واقعات صحیح ہیں کیونکہ وہ سب واقعات مفہوم آیات کے عموم میں داخل ہیں ان میں سے ایک واقعہ وہ ہے جو خلاصہ تفسیر میں بروایت بخاری ذکر کیا گیا ہے۔- (آیت) يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُـقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَيِ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ، بین الیدین کے اصل معنے دو ہاتھوں کے درمیان کے ہیں مراد اس سے سامنے کی جہت ہے یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے تقدم اور پیش قدمی نہ کرو کس چیز میں پیش قدمی کو منع فرمایا ہے قرآن کریم نے اس کو ذکر نہیں کیا جس میں اشارہ عموم کی طرف ہے کہ کسی قول یا فعل میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پیش قدمی نہ کرو بلکہ انتظار کرو کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا جواب دیتے ہیں، ہاں آپ ہی کسی کو جواب کے لئے مامور فرما دیں تو وہ جواب دے سکتا ہے۔ اسی طرح اگر آپ چل رہے ہیں تو کوئی آپ سے آگے نہ بڑھے، کھانے کی مجلس ہے تو آپ سے پہلے کھانا شروع نہ کرے مگر یہ کہ آپ تصریح یا قرائن قویہ سے یہ ثابت ہوجائے کہ آپ خود ہی کسی کو آگے بھیجنا چاہتے ہیں جیسے سفر اور جنگ میں کچھ لوگوں کو آگے چلنے پر مامور کیا جاتا تھا۔- علمائے دین اور دینی مقتداؤں کے ساتھ بھی یہی ادب ملحوظ رکھنا چاہئے :- بعض علماء نے فرمایا ہے کہ علماء و مشائخ دین کا بھی یہی حکم ہے کیونکہ وہ وارث انبیاء ہیں اور دلیل اس کی یہ واقعہ ہے کہ ایک دن حضرت ابوالدردا کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیکھا کہ حضرت ابوبکر کے آگے چل رہے ہیں تو آپ نے تنبیہ فرمائی اور فرمایا کہ کیا تم ایسے شخص کے آگے چلتے ہو جو دنیا و آخرت میں تم سے بہتر ہے اور فرمایا کہ دنیا میں آفتاب کا طلوع و غروب کسی ایسے شخص پر نہیں ہوا جو انبیاء کے بعد ابوبکر سے بہتر و افضل ہو (روح البیان ازکشف الاسرار) اس لئے علماء نے فرمایا کہ اپنے استاد اور مرشد کے ساتھ بھی یہی ادب ملحوظ رکھنا چاہئے۔
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُـقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَيِ اللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَاتَّقُوا اللہَ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ ١- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - لا - «لَا» يستعمل للعدم المحض . نحو : زيد لا عالم، وذلک يدلّ علی كونه جاهلا، وذلک يكون للنّفي، ويستعمل في الأزمنة الثّلاثة، ومع الاسم والفعل غير أنه إذا نفي به الماضي، فإمّا أن لا يؤتی بعده بالفعل، نحو أن يقال لك : هل خرجت ؟ فتقول : لَا، وتقدیره : لا خرجت .- ويكون قلّما يذكر بعده الفعل الماضي إلا إذا فصل بينهما بشیء . نحو : لا رجلا ضربت ولا امرأة، أو يكون عطفا . نحو : لا خرجت ولَا رکبت، أو عند تكريره . نحو : فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة 31] أو عند الدّعاء . نحو قولهم : لا کان، ولا أفلح، ونحو ذلك . فممّا نفي به المستقبل قوله : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ 3] وفي أخری: وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس 61] وقد يجيء «لَا» داخلا علی کلام مثبت، ويكون هو نافیا لکلام محذوف وقد حمل علی ذلک قوله : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة 1] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج 40] ، فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة 75] ، فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء 65] لا وأبيك ابنة العامريّ- «1» وقد حمل علی ذلک قول عمر رضي اللہ عنه۔ وقد أفطر يوما في رمضان فظنّ أنّ الشمس قد غربت ثم طلعت۔: لا، نقضيه ما تجانفنا لإثم فيه، وذلک أنّ قائلا قال له قد أثمنا فقال لا، نقضيه . فقوله : «لَا» ردّ لکلامه قد أثمنا، ثم استأنف فقال : نقضيه «2» . وقد يكون لَا للنّهي نحو : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات 11] ، وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات 11] ، وعلی هذا النّحو : يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] ، وعلی ذلك : لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل 18] ، وقوله : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة 83] فنفي قيل تقدیره : إنهم لا يعبدون، وعلی هذا : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة 84] وقوله :- ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء 75] يصحّ أن يكون «لا تقاتلون» في موضع الحال «3» : ما لکم غير مقاتلین . ويجعل «لَا» مبنيّا مع النّكرة بعده فيقصد به النّفي . نحو : فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة 197] ، [ وقد يكرّر الکلام في المتضادّين ويراد إثبات الأمر فيهما جمیعا . نحو أن يقال : ليس زيد بمقیم ولا ظاعن . أي : يكون تارة كذا وتارة كذا، وقد يقال ذلک ويراد إثبات حالة بينهما . نحو أن يقال : ليس بأبيض ولا أسود ] «4» ، وإنما يراد إثبات حالة أخری له، وقوله : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] .- فقد قيل معناه : إنها شرقيّة وغربيّة «5» . وقیل معناه :- مصونة عن الإفراط والتّفریط . وقد يذكر «لَا» ويراد به سلب المعنی دون إثبات شيء، ويقال له الاسم غير المحصّل . نحو : لا إنسان، إذا قصدت سلب الإنسانيّة، وعلی هذا قول العامّة :- لا حدّ. أي : لا أحد .- ( لا ) حرف ) لا ۔ یہ کبھی عدم محض کے لئے آتا ہے ۔ جیسے : زید عالم یعنی جاہل ہے اور کبھی نفی کے لئے ہوتا ہے ۔ اور اسم و فعل دونوں کے ساتھ ازمنہ ثلاثہ میں نفی کے معنی دیتا ہے لیکن جب زمانہ ماضی میں نفی کے لئے ہو تو یا تو اس کے بعد فعل کو ذکر ہی نہیں کیا جاتا مثلا اگر کوئی ھل خرجت کہے تو اس کے جواب میں صرف ، ، لا ، ، کہ دنیا کافی ہے یعنی لاخرجت اور اگر نفی فعل مذکور بھی ہوتا ہے تو شاذو نا در اور وہ بھی اس وقت (11) جب لا اور فعل کے درمیان کوئی فاعل آجائے ۔ جیسے لارجل ضربت ولا امرءۃ (2) جب اس پر دوسرے فعل کا عطف ہو جیسے ۔ لا خرجت ولاضربت اور یا (3) لا مکرر ہو جیسے ؛فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة 31] اس ناعاقبت اندیش نے نہ تو کلام خدا کی نعمتوں کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی ۔ اور یا (4) جملہ دعائیہ میں جیسے لا کان ( خدا کرے ایسا نہ ہو ) لا افلح ( وہ کامیاب نہ ہوا وغیرہ ۔ اور زمانہ مستقبل میں نفی کے متعلق فرمایا : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ 3] ذرہ پھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں ۔ اور کبھی ، ، لا ، ، کلام مثبت پر داخل ہوتا ہے اور کلام محذوف کی نفی کے لئے آتا ہے ۔ جسیے فرمایا : وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس 61] اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ آسمان میں ۔۔۔ اور مندرجہ ذیل آیات میں بھی بعض نے لا کو اسی معنی پر حمل کیا ہے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة 1] ہم کو روز قیامت کی قسم ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج 40] میں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم کھاتا ہوں ۔ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء 65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ مومن نہیں ہوں گے ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ اور اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( المتقارب ) (388) لاوابیک ابتہ العامری نہیں تیرے باپ کی قسم اسے عامری کی بیٹی ۔ اور مروی ہے (105) کہ ا یک مرتبہ حضرت عمر نے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا ہے روزہ افطار کردیا اس کے بعد سورج نکل آیا تو آپ نے فرمایا : لانقضیہ ماتجالفنا الاثم فیہ اس میں بھی لا کلام محذوف کی نفی کے لئے ہے یعنی اس غلطی پر جب لوگوں نے کہا کہ آپ نے گناہ کا ارتکاب کیا تو اس کی نفی کے لئے انہوں نے لا فرمایا ۔ یعنی ہم گنہگار نہیں ہیں ۔ اس کے بعد تفضیہ سے از سر نو جملہ شروع کیا ہے ۔ اور کبھی یہ لا نہی کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات 11] کوئی قوم کسی قوم سے تمسخرنہ کرے ولا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات 11] اور نہ ایک دوسرے کا برنام رکھو ۔ اور آیت ؛ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکادے ۔ اور نیزلا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل 18] ایسانہ ہو ک سلمان اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں ۔۔۔ میں بھی لا نہی کے لئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة 83] اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سو اکسی کی عبادت نہ کرنا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لانا فیہ یعنی خبر ہے یعنی وہ اللہ کے سو ا کسی کی عبادت نہیں کریں گے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة 84] اور جب ہم نے تم سے عہد لیا ک تم آپس میں کشت وخون نہیں کروگے ۔ میں بھی لانفی پر محمول ہے اور فرمان باری تعالیٰ ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء 75] تمہیں کیا ہوا کہ خدا کی راہ میں نہیں لڑتے ۔ میں ہوسکتا ہے کہ لاتقاتلو ن موضع حال میں ہو ۔ اور معنی ی ہو مالکم غیر مقاتلین یعنی تمہیں کیا ہوا اور آنحالیکہ لڑنے والے نہیں ہو ۔ اور لا کے بعد اسم نکرہ آجائے تو وہ مبنی بر فتحہ ہوتا ہے اور لا لفی کے مبنی دیتا ہے جیسے فرمایا : نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے ۔ فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة 197] اور کبھی دو متضادمعنوں کے درمیان لا مکرر آجاتا ہے ۔ اور دونوں کا اثبات مقصود ہوتا ہے جیسے : لا زید بمقیم ولا ظاعن نہ زید مقیم ہے اور نہ ہی مسافر یعن کبھی مقیم ہے اور کبھی سفر پر اور کبھی متضاد مقصود ہوتا ہے جیسے ۔ لیس ابیض ولااسود سے مراد ہے کہ وہ ان دونوں رنگوں کے درمیان ہے یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے ہے کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا رنگ ہو چناچہ آیت کریمہ : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] یعنی زیتون کی نہ مشرق کی طرف منسوب اور نہ مغرب کیطر کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ بیک وقت مشرقی بھی ہے اور غربی بھی ۔ اور بعض نے اس کا افراط اور تفریط سے محفوظ ہونا مراد لیا ہے ۔ کبھی لا محض سلب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس سے ایک شے کی نفی کرکے دوسری کا اثبات مقصود نہیں ہوتا مثلا لا انسان کہہ کہ صرف انسانیت کی نفی کا قصد کیا جائے اور عامی محاورہ لاحد بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔- قدم - وأكثر ما يستعمل القدیم باعتبار الزمان نحو : كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ [يس 39] ، وقوله : قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ [يونس 2] ، أي : سابقة فضیلة، وهو اسم مصدر، وقَدَّمْتُ كذا، قال : أَأَشْفَقْتُمْ أَنْ تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْواكُمْ صَدَقاتٍ [ المجادلة 13] وقوله : لا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ الحجرات 1] ، قيل : معناه لا تَتَقَدَّمُوهُ. وتحقیقه : لا تسبقوه بالقول والحکم بل افعلوا ما يرسمه لکم كما يفعله العباد المکرمون، وهم الملائكة حيث قال : لا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ [ الأنبیاء 27]- ( ق د م ) القدم - عموما القدیم کا لفظ قدم باعتبار زمانہ یعنی پرانی چیز کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ [يس 39] کھجور کی پرانی شاخ کی طرح ۔ اور آیت کریمہ : قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ [يونس 2] ان کے پروردگار کے ہاں ان کا سچا درجہ ہے ۔ میں قدم صدق سے سابقہ فضیلت مراد ہے ۔ اور یہ اسم مصدر ہے اور قدمت کذا کے معنی پہلے کسی کوئی کام کرچکنے یا بھیجنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : أَأَشْفَقْتُمْ أَنْ تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْواكُمْ صَدَقاتٍ [ المجادلة 13] کیا تم اس سے کہ پیغمبر کے کان میں کوئی بات کہنے سے پہلے خیرات دیا کرو، ڈرگئے ہو اور آیت کریمہ : لا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ الحجرات 1] خدا اور اس کے رسول سے پہلے نہ بول اٹھا کرو ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لاتقدموا بمعنی لاتتقدموا کے ہے اور اس کے اصل معنی یہ ہیں ۔ کہ قول وحکم میں پیغمبر سے سبقت نہ کرو بلکہ وہی کام کرو جس کا تمہیں حکم دیتے ہیں ۔ جیسا کہ اللہ کے مکرم بندوں یعنی فرشتوں کا کردار بیان کرتے ہوئے فرمایا : لا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ [ الأنبیاء 27] اس کے آگے بڑھ کر بول نہیں سکتے۔- «بَيْن»يدي - و «بَيْن» يستعمل تارة اسما وتارة ظرفا، فمن قرأ : بينكم [ الأنعام 94] ، جعله اسما، ومن قرأ : بَيْنَكُمْ جعله ظرفا غير متمکن وترکه مفتوحا، فمن الظرف قوله : لا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ الحجرات 1] ، وقوله : فَقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْواكُمْ صَدَقَةً [ المجادلة 12] ، فَاحْكُمْ بَيْنَنا بِالْحَقِّ [ ص 22] ، وقوله تعالی: فَلَمَّا بَلَغا مَجْمَعَ بَيْنِهِما [ الكهف 61] ، فيجوز أن يكون مصدرا، أي :- موضع المفترق . وَإِنْ كانَ مِنْ قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِيثاقٌ [ النساء 92] . ولا يستعمل «بين» إلا فيما کان له مسافة، نحو : بين البلدین، أو له عدد ما اثنان فصاعدا نحو : الرجلین، وبین القوم، ولا يضاف إلى ما يقتضي معنی الوحدة إلا إذا کرّر، نحو : وَمِنْ بَيْنِنا وَبَيْنِكَ حِجابٌ [ فصلت 5] ، فَاجْعَلْ بَيْنَنا وَبَيْنَكَ مَوْعِداً [ طه 58] ، ويقال : هذا الشیء بين يديك، أي : متقدما لك، ويقال : هو بين يديك أي :- قریب منك، وعلی هذا قوله : ثُمَّ لَآتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ [ الأعراف 17] ، ولَهُ ما بَيْنَ أَيْدِينا وَما خَلْفَنا [ مریم 64] ، وَجَعَلْنا مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا [يس 9] ، مُصَدِّقاً لِما بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْراةِ [ المائدة 46] ، أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص 8] ، أي : من جملتنا، وقوله : وَقالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَنْ نُؤْمِنَ بِهذَا الْقُرْآنِ وَلا بِالَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ [ سبأ 31] ، أي : متقدّما له من الإنجیل ونحوه، وقوله : فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذاتَ بَيْنِكُمْ [ الأنفال 1] ، أي : راعوا الأحوال التي تجمعکم من القرابة والوصلة والمودة .- ويزاد في بين «ما» أو الألف، فيجعل بمنزلة «حين» ، نحو : بَيْنَمَا زيد يفعل کذا، وبَيْنَا يفعل کذا،- بین کا لفظ یا تو وہاں استعمال ہوتا ہے ۔ جہاں مسافت پائی جائے جیسے ( دو شہروں کے درمیان ) یا جہاں دو یا دو سے زیادہ چیزیں موجود ہوں جیسے اور واھد کی طرف مضاف ہونے کی صورت میں بین کو مکرر لانا ضروری ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَمِنْ بَيْنِنا وَبَيْنِكَ حِجابٌ [ فصلت 5] اور ہمارے اور تمہارے درمیان پردہ ہے فَاجْعَلْ بَيْنَنا وَبَيْنَكَ مَوْعِداً [ طه 58] ۔ تو ہمارے اور اپنے درمیان ایک وقت مقرر کرلو ۔ اور کہا جاتا ہے : یعنی یہ چیز تیرے قریب اور سامنے ہے ۔ اسی معنی میں فرمایا : ۔ ثُمَّ لَآتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ [ الأعراف 17] پھر ان کے آگے ۔۔۔۔۔ ( غرض ہر طرف سے ) آؤنگا ۔ ولَهُ ما بَيْنَ أَيْدِينا وَما خَلْفَنا [ مریم 64] جو کچھ ہمارے آگے ہے اور جو پیچھے ۔۔۔ سب اسی کا ہے ۔ وَجَعَلْنا مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا [يس 9] اور ہم نے ان کے آگے بھی دیوار بنادی ۔ اور ان کے پیچھے بھی ۔ مُصَدِّقاً لِما بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْراةِ [ المائدة 46] جو اپنے سے پہلے کی کتاب تورات کی تصدیق کرتے تھے ۔ أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص 8] کیا ہم سب میں سے اسی نصیحت ۃ ( کی کتاب ) اتری ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَقالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَنْ نُؤْمِنَ بِهذَا الْقُرْآنِ وَلا بِالَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ [ سبأ 31] اور جو کافر ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نہ تو اس قرآن کو مانیں گے اور نہ ان کتابوں ) کو جو اس سے پہلے کی ہیں ۔ میں سے انجیل اور دیگر کتب سماویہ مراد ہیں اور آیت کریمہ : ۔ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذاتَ بَيْنِكُمْ [ الأنفال 1] خدا سے ڈرو اور آپس میں صلح رکھو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ صلہ رحمی ، قرابت ، دوستی وغیرہ باہمی رشتوں کا لحاظ کرد جو باہم تم سب کے درمیان مشترک ہیں اور بین کے م، ابعد یا الف کا اضافہ کرکے حین کے معنی میں استعمال کرلینے ہیں - الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة «3» لاتخاذهم إياها معبودا .- وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ.- فالإله علی هذا هو المعبود «4» . وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»- وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها «2» ، وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] وقرئ :- ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر «5» ، مركّب تركيب حيّهلا .- ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم )- رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ - تَّقْوَى- والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، ثمّ يسمّى الخوف تارة تَقْوًى، والتَّقْوَى خوفاً حسب تسمية مقتضی الشیء بمقتضيه والمقتضي بمقتضاه، وصار التَّقْوَى في تعارف الشّرع حفظ النّفس عمّا يؤثم، وذلک بترک المحظور، ويتمّ ذلک بترک بعض المباحات لما روي : «الحلال بيّن، والحرام بيّن، ومن رتع حول الحمی فحقیق أن يقع فيه» قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] ، إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا - [ النحل 128] ، وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر 73] ولجعل التَّقْوَى منازل قال : وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة 281] ، واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء 1] ، وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ [ النور 52] ، وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسائَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحامَ [ النساء 1] ، اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران 102] . و تخصیص کلّ واحد من هذه الألفاظ له ما بعد هذا الکتاب . ويقال : اتَّقَى فلانٌ بکذا : إذا جعله وِقَايَةً لنفسه، وقوله : أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر 24] تنبيه علی شدّة ما ينالهم، وأنّ أجدر شيء يَتَّقُونَ به من العذاب يوم القیامة هو وجوههم، فصار ذلک کقوله : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم 50] ، يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر 48] . التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز سے بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ جس طرح کہ سبب بول کر مسبب اور مسبب بولکر سبب مراد لیا جاتا ہے اور اصطلاح شریعت میں نفس کو ہر اس چیز سے بچا نیکا نام تقوی ہے جو گناہوں کا موجب ہو ۔ اور یہ بات محظو رات شرعیہ کے ترک کرنے سے حاصل ہوجاتی ہے مگر اس میں درجہ کمال حاصل کرنے کے لئے بعض مباحات کو بھی ترک کرنا پڑتا ہے ۔ چناچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے ۔ ( 149 ) الحلال بین واحرام بین ومن وقع حول الحمی فحقیق ان یقع فیہ کہ حلال بھی بین ہے اور حرام بھی بین ہے اور جو شخص چراگاہ کے اردگرد چرائے گا تو ہوسکتا ہے کہ وہ اس میں داخل ہوجائے ( یعنی مشتبہ چیزیں اگرچہ درجہ اباحت میں ہوتی ہیں لیکن ورع کا تقاضا یہ ہے کہ انہیں بھی چھوڑ دایا جائے ) قرآن پاک میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا[ النحل 128] کچھ شک نہیں کہ جو پرہیز گار ہیں اللہ ان کا مدد گار ہے ۔ وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر 73] اور جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کو گروہ بناکر بہشت کی طرف لے جائیں گے ۔ پھر تقویٰ کے چونکہ بہت سے مدارج ہیں اس لئے آیات وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة 281] اور اس دن سے ڈرو جب کہ تم خدا کے حضور میں لوٹ کر جاؤ گے ۔ واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء 1] اپنے پروردگار سے ڈرو ۔ اور اس سے ڈرے گا ۔ اور خدا سے جس کا نام کو تم اپنی حاجت برآری کا ذریعہ بناتے ہو ڈرو ۔ اور قطع مودت ارجام سے ۔ اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران 102] خدا سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے ۔ میں ہر جگہ تقویٰ کا ایک خاص معنی مراد ہے جس کی تفصیل اس کتاب کے اور بعد بیان ہوگی ۔ اتقٰی فلان بکذا کے معنی کسی چیز کے ذریعہ بچاؤ حاصل کرنے کے ہیں ۔ اور آیت : ۔ أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر 24] بھلا جو شخص قیامت کے دن اپنے منہ سے برے عذاب کو روکتا ہوا ۔ میں اس عذاب شدید پر تنبیہ کی ہے جو قیامت کے دن ان پر نازل ہوگا اور یہ کہ سب سے بڑی چیز جس کے ذریعہ وہ و عذاب سے بچنے کی کوشش کریں گے وہ ان کے چہرے ہی ہوں گے تو یہ ایسے ہی ہے جیسے دوسری جگہ فرمایا : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم 50] اور ان کے مونہوں کو آگ لپٹ رہی ہوگی ۔ يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر 48] اس روز منہ کے بل دوزخ میں گھسٹیے جائیں گے ۔- إِنَّ وأَنَ- إِنَّ أَنَّ ينصبان الاسم ويرفعان الخبر، والفرق بينهما أنّ «إِنَّ» يكون ما بعده جملة مستقلة، و «أَنَّ» يكون ما بعده في حکم مفرد يقع موقع مرفوع ومنصوب ومجرور، نحو : أعجبني أَنَّك تخرج، وعلمت أَنَّكَ تخرج، وتعجّبت من أَنَّك تخرج . وإذا أدخل عليه «ما» يبطل عمله، ويقتضي إثبات الحکم للمذکور وصرفه عمّا عداه، نحو : إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ- [ التوبة 28] تنبيها علی أنّ النجاسة التامة هي حاصلة للمختص بالشرک، وقوله عزّ وجل : إِنَّما حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ [ البقرة 173] أي : ما حرّم ذلك إلا تنبيها علی أنّ أعظم المحرمات من المطعومات في أصل الشرع هو هذه المذکورات .- وأَنْ علی أربعة أوجه :- الداخلة علی المعدومین من الفعل الماضي أو المستقبل، ويكون ما بعده في تقدیر مصدر، وينصب المستقبل نحو : أعجبني أن تخرج وأن خرجت .- والمخفّفة من الثقیلة نحو : أعجبني أن زيدا منطلق .- والمؤكّدة ل «لمّا» نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] . والمفسّرة لما يكون بمعنی القول، نحو : وَانْطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ أَنِ امْشُوا وَاصْبِرُوا [ ص 6] أي : قالوا : امشوا .- وكذلك «إِنْ» علی أربعة أوجه : للشرط نحو : إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبادُكَ [ المائدة 118] ، والمخفّفة من الثقیلة ويلزمها اللام نحو : إِنْ كادَ لَيُضِلُّنا [ الفرقان 42] ، والنافية، وأكثر ما يجيء يتعقّبه «إلا» ، نحو : إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا [ الجاثية 32] ، إِنْ هذا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ [ المدثر 25] ، إِنْ نَقُولُ إِلَّا اعْتَراكَ بَعْضُ آلِهَتِنا بِسُوءٍ [هود 54] .- والمؤكّدة ل «ما» النافية، نحو : ما إن يخرج زيد - ( ان حرف ) ان وان - ( حرف ) یہ دونوں اسم کو نصب اور خبر کو رفع دیتے ہیں اور دونوں میں فرق یہ ہے کہ ان جملہ مستقل پر آتا ہے اور ان کا مابعد ایسے مفرد کے حکم میں ہوتا ہے جو اسم مرفوع ، منصوب اور مجرور کی جگہ پر واقع ہوتا ہے جیسے اعجبنی انک تخرج وعجبت انک تخرج اور تعجب من انک تخرج جب ان کے بعد ما ( کافہ ) آجائے تو یہ عمل نہیں کرتا اور کلمہ حصر کے معنی دیتا ہے ۔ فرمایا :۔ إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ ( سورة التوبة 28) ۔ مشرک تو پلید ہیں (9 ۔ 28) یعنی نجاست تامہ تو مشرکین کے ساتھ مختص ہے ۔ نیز فرمایا :۔ إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ ( سورة البقرة 173) اس نے تم امر ہوا جانور اور لہو حرام کردیا ہے (2 ۔ 173) یعنی مذکورہ اشیاء کے سوا اور کسی چیز کو حرام قرار نہیں دیا اس میں تنبیہ ہے کہ معلومات میں سے جو چیزیں اصول شریعت میں حرام ہیں ان میں سے - یہ چیزیں سب سے بڑھ کر ہیں ۔- ( ان )- یہ چار طرح پر استعمال ہوتا ہے (1) ان مصدریہ ۔ یہ ماضی اور مضارع دونوں پر داخل ہوتا ہے اور اس کا مابعد تاویل مصدر میں ہوتا ہے ۔ ایسی صورت میں یہ مضارع کو نصب دیتا ہے جیسے :۔ اعجبنی ان تخرج وان خرجت ۔ ان المخففہ من المثقلۃ یعنی وہ ان جو ثقیلہ سے خفیفہ کرلیا گیا ہو ( یہ کسی شے کی تحقیق اور ثبوت کے معنی دیتا ہے جیسے ۔ اعجبنی ان زید منطلق ان ( زائدہ ) جو لما کی توکید کے لئے آتا ہے ۔ جیسے فرمایا فَلَمَّا أَنْ جَاءَ الْبَشِيرُ ( سورة يوسف 96) جب خوشخبری دینے والا آپہنچا (12 ۔ 92) ان مفسرہ ۔ یہ ہمیشہ اس فعل کے بعد آتا ہے جو قول کے معنیٰ پر مشتمل ہو ( خواہ وہ لفظا ہو یا معنی جیسے فرمایا :۔ وَانْطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ ( سورة ص 6) ان امشوا اور ان میں جو معزز تھے وہ چل کھڑے ہوئے ( اور بولے ) کہ چلو (38 ۔ 6) یہاں ان امشوا ، قالوا کے معنی کو متضمن ہے ان ان کی طرح یہ بھی چار طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ ان شرطیہ جیسے فرمایا :۔ إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ ( سورة المائدة 118) اگر تو ان کو عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں (5 ۔ 118) ان مخففہ جو ان ثقیلہ سے مخفف ہوتا ہے ( یہ تا کید کے معنی دیتا ہے اور ) اس کے بعد لام ( مفتوح ) کا آنا ضروری ہے جیسے فرمایا :۔ إِنْ كَادَ لَيُضِلُّنَا ( سورة الفرقان 42) ( تو ) یہ ضرور ہم کو بہکا دیتا ہے (25 ۔ 42) ان نافیہ اس کے بعداکثر الا آتا ہے جیسے فرمایا :۔ إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا ( سورة الجاثية 32) ۔۔ ،۔ ہم اس کو محض ظنی خیال کرتے ہیں (45 ۔ 32) إِنْ هَذَا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ ( سورة المدثر 25) (ٌپھر بولا) یہ ( خدا کا کلام ) نہیں بلکہ ) بشر کا کلام سے (74 ۔ 25) إِنْ نَقُولُ إِلَّا اعْتَرَاكَ بَعْضُ آلِهَتِنَا بِسُوءٍ ( سورة هود 54) ۔ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے کسی معبود نے تمہیں آسیب پہنچا ( کر دیوانہ کر ) دیا ہے (11 ۔ 54) ان ( زائدہ ) جو ( ما) نافیہ کی تاکید کے لئے آتا ہے جیسے : مان یخرج زید ۔ زید باہر نہیں نکلے گا ۔
اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول سے پہلے تم کسی قول یا فعل میں سبقت مت کیا کرو اس وقت تک کہ رسول اکرم ہی تمہیں کسی چیز کا حکم دیں یا روکیں اور نہ کسی قتل میں اور یوم النحر میں قربانی کے جانور ذبح کرنے میں یا یہ کہ نہ اللہ تعالیٰ کی مخالفت کیا کرو اور نہ رسول اللہ کی یا یہ کہ نہ کتاب اللہ کی مخالفت کیا کرو اور نہ سنت رسول کی اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو۔ کہ کہیں تم کوئی قول و فعل بغیر حکم الہی اور حکم رسول کے کرو اور ڈرتے رہو اس بات سے کہ کہیں تم کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی مخالفت کرو اللہ تعالیٰ تمہارے سب اقوال کو سننے والا اور جاننے والا ہے۔- یہ آیت اصحاب رسول اکرم میں سے تین لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے، انہوں نے اللہ اور رسول کی جانب سے پہلے بنی سلیم کے دو افراد کو جن سے رسول اکمر کی صلح ہوئی تھی مار ڈالا تھا اللہ تعالیٰ نے انہیں اس چیز سے منع کردیا کہ بغیر اللہ اور رسول کی اجازت کے کچھ مت کرو اللہ تعالیٰ ان دونوں کی باتوں کو سننے والا ہے اور ان کے احوال سے واقف ہے اور ان کی باتیں یہ تھیں کہ اگر ایسا ہوگا تو ایسا ہوگا۔- شان نزول : يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا (الخ)- امام بکاری نے ابن جریج عن ابن ابی ملیکہ کے طریق سے روایت کیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن زبیر نے بیان کیا ہے کہ بنی تمیم کے کچھ سوار رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوئے، حضرت ابوبکر نے عرض کی کہ ان پر قعقاع بن معبد کو امیر بنا دیجیے، حضرت عمر نے کہا کہ بلکہ اقرع بن حابس کو امیر بنا دیجیے، ابوبکر صدیق نے کہا کہ تم میری مخالفت کرنا چاہتے ہو، عمر بولے میں نے تمہاری مخالفت کا ارادہ نہیں کیا، غرض کہ دونوں میں تیز کلامی ہوئی حتی کہ دونوں کی آوازیں بلند ہوگئیں اس بارے میں آیت نمبر ١ تا ٥ نازل ہوئیں۔- اور ابن منذر نے حسن سے روایت کیا ہے کہ یوم النحر کو کچھ لوگوں نے رسول اکرم سے پہلے قربانیاں ذبح کرلیں، چناچہ ان کو دوبارہ قربانیاں ذبح کرنے کا حکم دیا اور اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور ابن ابی الدنیا نے کتاب الاضاحی میں ان الفاظ کے ساتھ روایت نقل کی ہے کہ ایک شخص نے نماز سے پہلے قربانی ذبح کرلی تھی اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔- اور امام طبرانی نے حضرت عائشہ سے روایت کیا ہے کہ کچھ لوگ مہینہ پہلے شروع کرلیتے تھے اور رسول اکرم سے پہلے روزہ رکھنا شروع کردیتے تھے اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔- اور ابن جریر نے قتادہ سے روایت کیا ہے بیان کرتے ہیں کہ ہم سے بیان کیا گیا کہ کچھ لوگوں نے کہا کاش ہم پر یہ حکم نازل ہوتا اس وقت یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی۔
آیت ١ یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ” اے اہل ِایمان مت آگے بڑھو اللہ اور اس کے رسول سے اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ یقینا اللہ سب کچھ سننے والا ‘ سب کچھ جاننے والا ہے۔ “- یہ آیت گویا اسلامی ریاست کے آئین کی بنیاد ہے۔ اسلامی ریاست کے آئین کی پہلی شق یہ ہے کہ حاکمیت اللہ کی ہے اوراقتدارِ مطلق کا مالک صرف اکیلا وہ ہے۔ اس نظری و اعتقادی حقیقت کی تعمیل و تنفیذ کا طریقہ اس آیت میں بتایا گیا ہے۔ یعنی اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو حدود قائم کردی ہیں ان حدود سے کسی بھی معاملے میں تجاوز نہیں ہوگا۔ اس آیت کے مفہوم کو پاکستان کے ہر دستور میں ان الفاظ کے ساتھ شامل رکھا گیا ہے : ۔ یہ شق گویا اسلامی ریاست کے آئین کے لیے اصل الاصول کا درجہ رکھتی ہے۔ چناچہ آئین پاکستان میں اس شق کے شامل ہونے سے اصولی طور پر تو پاکستان ایک اسلامی ریاست بن گیا ‘ لیکن عملی طور پر اس ” ذمہ داری “ سے جان چھڑانے کے لیے کمال یہ دکھایا گیا کہ ان الفاظ کے ساتھ ایک ہاتھ سے آئین کے اندر اسلام داخل کر کے دوسرے ہاتھ سے نکال لیا گیا۔ آئین پاکستان کو قرآن و سنت کے مطابق بنانے کے مقصد کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل ( ) تشکیل دی گئی اور اسے بظاہر یہ اہم اور مقدس فریضہ سونپا گیا کہ وہ پارلیمنٹ کی ” قانون سازی “ پر گہری نظر رکھے گی اور اس ضمن میں کسی کوتاہی اور غلطی کی صورت میں حکومت کو رپورٹ پیش کرے گی۔ یہاں تک تو معاملہ ٹھیک تھا ‘ لیکن اس میں منافقت یہ برتی گئی کہ آئین کی رو سے حکومت کو نظریاتی کونسل کی سفارشات پر عمل کرنے کا پابند نہیں کیا گیا۔ چناچہ کونسل نے اقتصادیات اور غیر سودی بینکاری کے حوالے سے بہت مفید سفارشات مرتب کی ہیں۔ بہت سے دوسرے معاملات میں بھی تحقیقاتی رپوٹیں حکومتوں کو بھجوائی ہیں۔ کونسل کی سفارشات جمع ہوتے ہوتے الماریاں بھر گئیں ‘ لیکن کسی حکومت نے ان میں سے کسی ایک سفارش کو بھی تنفیذ کے حوالے سے لائق اعتناء نہ سمجھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کونسل کی تمام تحقیقات اور سفارشات کلی طور پر لاحاصل مشق ( ) ثابت ہوئیں۔- بہر حال زیر مطالعہ آیت کی رو سے جب کسی ریاست کے آئین میں مذکورہ شق شامل کرلی جائے گی تو اصولی طور پر وہ ریاست اسلامی ریاست بن جائے گی۔ اس کے بعداس ریاست کے قانون ساز ادارے کو چاہے پارلیمنٹ کہیں ‘ مجلس ملی کہیں یا کانگرس کا نام دیں ‘ اس کی قانون سازی کا دائرئہ اختیار ( ) قرآن وسنت کی بالادستی کے باعث محدود ہوجائے گا۔ یعنی اس ” قدغن “ کے بعد وہ مقننہ اپنے ملک کے لیے صرف قرآن و سنت کے دائرے کے اندر رہ کر ہی قانون سازی کرسکے گی۔ اس دائرے کے اندر جو قانون سازی کی جائے گی وہ جائز اور مباح ہوگی اور اس دائرے کی حدود سے متجاوز ہوتا ہوا کوئی بھی قانون ناجائز اور ممنوع قرار پائے گا ‘ چاہے اس قانون کو مقننہ کے تمام ارکان ہی کی حمایت حاصل کیوں نہ ہو۔ اسلامی مقننہ کی اس ” محدودیت “ کو اس مثال سے سمجھیں کہ کسی دعوت میں بلائے گئے مہمانوں کی تواضع روح افزا شربت سے کی جائے ‘ سیون اَپ سے یا دودھ سوڈا وغیرہ سے ‘ اس بارے میں فیصلہ تو کثرت رائے سے کیا جاسکتا ہے ‘ لیکن تمام میزبان اپنے سو فیصد ووٹوں سے بھی مہمانوں کو کوئی ایسا مشروب پلانے کا فیصلہ نہیں کرسکتے جس کا پینا قرآن و سنت میں ممنوع قرار دیا جا چکا ہے۔ اس نکتے کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس مثال کے ذریعے نہایت عمدگی سے واضح فرمایا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (مَثَلُ الْمُؤْمِنِ وَمَثَلُ الْاِیْمَانِ کَمَثَلِ الْفَرَسِ فِیْ آخِیَّتِہٖ ، یَجُوْلُ ثُمَّ یَرْجِعُ اِلٰی آخِیَّتِہٖ …) (١) یعنی ” مومن کی مثال اور ایمان کی مثال اس گھوڑے کی سی ہے جو اپنے کھونٹے کے ساتھ بندھا ہوا ہے۔ وہ گھومنے پھرنے کے بعد پھر اپنے کھونٹے پر واپس لوٹ آتا ہے…“ ظاہر ہے مومن تو وہی ہے جو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان رکھتا ہے اور ان کے احکام کو مانتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکام کے کھونٹے سے بندھ چکا ہے ‘ اب وہ اس کھونٹے کے گردا گرد ایک دائرے میں اپنی مرضی سے چرچگ ُ سکتا ہے ‘ لیکن اس دائرے کی حدود کا تعین اس کھونٹے کی رسی (حدود اللہ) کے اندر موجود گنجائش کی بنیاد پر ہی ہوگا۔ اس کے برعکس ایک وہ شخص ہے جو مادر پدر آزاد ہے۔ وہ نہ اللہ کو مانتا ہے ‘ نہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جانتا ہے اور نہ ہی ان کے احکام کو پہچانتا ہے ‘ وہ اپنی مرضی کا مالک ہے ‘ جو چاہے کرے اور جس چیز کو چاہے اپنے لیے ” جائز “ قرار دے لے۔ چناچہ ایسے افراد اگر کسی ملک یا ریاست کے قانون ساز ادارے میں بیٹھے ہوں گے تو وہ کثرت رائے سے اپنی ریاست اور قوم کے لیے جو قانون چاہیں منظور کرلیں۔ وہ چاہیں تو ہم جنس پرستی کو جائز قرار دے دیں اور چاہیں تو مرد کی مرد سے شادی کو قانونی حیثیت دے دیں۔- اب اس کے بعد جو چار آیات آرہی ہیں وہ اہل ایمان پر اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حقوق کا تعین کرتی ہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعظیم ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اتباع کا جذبہ گویا ایک مسلمان معاشرے کی تہذیب اور اس کے تمدن کی بنیاد ہے۔ اس بارے میں ایک عمومی حکم وَتُعَزِّرُوْہُ وَتُوَقِّرُوْہُ ہم سورة الفتح میں پڑھ آئے ہیں۔ اس حکم کی شرح گویا اب اگلی آیات میں بیان ہو رہی ہے۔
سورة الْحُجُرٰت حاشیہ نمبر :1 یہ ایمان کا اولین اور بنیادی تقاضا ہے ۔ جو شخص اللہ کو اپنا رب اور اللہ کے رسول کو اپنا ہادی و رہبر مانتا ہو ، وہ اگر اپنے اس عقیدے میں سچا ہے تو اس کا یہ رویہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ اپنی رائے اور خیال کو اللہ اور رسول کے فیصلے پر مقدم رکھے یا معاملات میں آزادانہ رائے قائم کرے اور ان کے فیصلے بطور خود کر ڈالے بغیر اس کے کہ اسے یہ معلوم کر نے کی فکر ہو کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان معاملات میں کوئی ہدایت دی ہے یا نہیں اور دی ہے تو وہ کیا ہے ۔ اسی لیے ارشاد ہوا ہے کہ اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول کے آگے پیش قدمی نہ کرو ، یعنی ان سے آگے بڑھ کر نہ چلو ، پیچھے چلو ۔ مقدم نہ بنو ، تابع بن کر رہو ۔ یہ ارشاد اپنے حکم میں سورہ احزاب کی آیت 36 سے ایک قدم آگے ہے ۔ وہاں فرمایا گیا تھا کہ جس معاملہ کا فیصلہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کر دیا ہو اس کے بارے میں کسی مومن کو خود کوئی فیصلہ کرنے کا اختیار باقی نہیں رہتا ۔ اور یہاں فرمایا گیا ہے کہ اہل ایمان کو اپنے معاملات میں پیش قدمی کر کے بطور خود فیصلے نہیں کر لینے چاہئیں بلکہ پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت میں ان کے متعلق کیا ہدایات ملتی ہیں ۔ یہ حکم مسلمانوں کے محض انفرادی معاملات تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ان کے جملہ اجتماعی معاملات پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ در حقیقت یہ اسلامی آئین کی بنیادی دفعہ ہے جس کی پابندی سے نہ مسلمانوں کی حکومت آزاد ہو سکتی ہے ، نہ ان کی عدالت اور نہ پارلیمنٹ ۔ مسند احمد ، ابوداؤد ، ترمذی اور ابن ماجہ میں یہ روایت صحیح سندوں کے ساتھ منقول ہوئی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب حضرت معاذ بن جبل کو یمن کا حاکم عدالت بنا کر بھیج رہے تھے تو آپ نے ان سے پوچھا کہ تم کس چیز کے مطابق فیصلے کرو گے؟ انہوں نے عرض کیا کتاب اللہ کے مطابق ۔ آپ نے پوچھا اگر کتاب اللہ میں کسی معاملے کا حکم نہ ملے تو کس چیز کی طرف رجوع کرو گے؟ انہوں نے کہا سنت رسول اللہ کی طرف آپ نے فرمایا اگر اس میں بھی کچھ نہ ملے؟ انہوں نے عرض کیا پھر میں خود اجتہاد کروں گا ۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سینے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا شکر ہے اس خدا کا جس نے اپنے رسول کے نمائندے کو وہ طریقہ اختیار کرنے کی توفیق بخشی جو اس کے رسول کو پسند ہے ۔ یہ اپنے اجتہاد پر کتاب اللہ و سنت رسول کو مقدم رکھنا اور ہدایت حاصل کرنے کے لیے سب سے پہلے ان کی طرف رجوع کرنا ہی وہ چیز ہے جو ایک مسلمان جج اور ایک غیر مسلم جج کے درمیان وجہ امتیاز ہے ۔ اسی طرح قانون سازی کے معاملہ میں یہ بات قطعی طور پر متفق علیہ ہے کہ اولین ماخذ قانون خدا کی کتاب ہے اور اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ۔ پوری امت کا اجماع تک ان دونوں کے خلاف یا ان سے آزاد نہیں ہو سکتا کجا کہ ِافرادِ امّت کا قیاس و اجتہاد ۔ سورة الْحُجُرٰت حاشیہ نمبر :2 یعنی اگر کبھی تم نے اللہ کے رسول سے بے نیاز ہو کر خود مختاری کی روش اختیار کی یا اپنی رائے اور خیال کو ان کے حکم پر مقدم رکھا تو جان رکھو کہ تمہارا سابقہ اس خدا سے ہے جو تمہاری سب باتیں سن رہا ہے اور تمہاری نیتوں تک سے واقف ہے ۔
1: سورت کی یہ ابتدائی پانچ آیتیں ایک خاص موقع پر نازل ہوئی تھیں، حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس عرب کے قبائل کے بہت سے وفد آتے رہتے تھے، اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان میں سے کسی کو آئندہ کے لئے قبیلے کا امیر مقرر فرمادیتے تھے، ایک مرتبہ قبیلہ تمیم کا ایک وفد آپ کی خدمت میں آیا، ابھی آپ نے ان میں سے کسی کو امیر نہیں بنایا تھا، اور نہ اس سلسلے میں کوئی بات کی تھی، لیکن آپ کی موجودگی میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر (رض) نے یہ مشورہ شروع کردیا کہ ان میں سے کس کو امیر بنایاجائے، حضرت ابوبکر نے ایک نام لیا اور حضرت عمر نے دوسرا، پھر ان دونوں بزرگوں نے اپنی اپنی رائے کی تائید اس طرح شروع کردی کہ کچھ بحث کاسا انداز پیدا ہوگیا، اور اس میں دونوں کی آوازیں بلند ہوگئیں، اس پر پہلی تین آیتیں نازل ہوئیں، پہلی آیت میں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ جن معاملات کا فیصلہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کرنا ہو اور آپ نے ان کے بارے میں کوئی مشورہ بھی طلب نہ فرمایا ہو ان معاملات میں آپ سے پہلے ہی کوئی رائے قائم کرلینا اور اس پر اصرار یا بحث کرنا آپ کے ادب کے خلاف ہے، اگرچہ یہ پہلی آیت اس خاص واقعے میں نازل ہوئی تھی لیکن الفاظ عام استعمال فرمائے گئے ہیں تاکہ یہ اصولی ہدایت دی جائے کہ کسی بھی معاملے میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آگے بڑھنا مسلمانوں کے لئے درست نہیں ہے، اس میں یہ بات بھی داخل ہے کہ اگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ چلنا ہو تو آپ سے آگے نہ بڑھنا چاہئیے، نیز آپ نے زندگی کے مختلف شعبوں میں جو حدود مقرر فرمائے ہیں ان سے آگے نکلنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئیے، اس کے بعد دوسری اور تیسری آیتوں میں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ آپ کی مجلس میں بیٹھ کر اپنی آواز آپ کی آواز سے بلند نہیں کرنی چاہیے، اور آپ سے کوئی بات کہنی ہو تو وہ بھی بلند آواز سے نہیں کہنی چاہئیے ؛ بلکہ آپ کی مجلس میں آواز پست رکھنے کا اہتمام ضروری ہے۔