آداب خطاب ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی مذمت بیان کرتا ہے جو آپ کے مکانوں کے پیچھے سے آپ کو آوازیں دیتے اور پکارتے ہیں جس طرح اعراب میں دستور تھا تو فرمایا کہ ان میں سے اکثر بےعقل ہیں پھر اس کی بابت ادب سکھاتے ہوئے فرماتا ہے کہ چاہیے تھا کہ آپ کے انتظار میں ٹھہر جاتے اور جب آپ مکان سے باہر نکلتے تو آپ سے جو کہنا ہوتا کہتے ۔ نہ کہ آوازیں دے کر باہر سے پکارتے ۔ دنیا اور دین کی مصلحت اور بہتری اسی میں تھی پھر حکم دیتا ہے کہ ایسے لوگوں کو توبہ استغفار کرنا چاہیے کیونکہ اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ یہ آیت حضرت اقرع بن حابس تمیمی کے بارے میں نازل ہوئی ہے مسند احمد میں ہے کہ ایک شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا آپ کا نام لے کر پکارا یا محمد یا محمد آپ نے اسے کوئی جواب نہ دیا تو اس نے کہا سنئے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرا تعریف کرنا بڑائی کا سبب ہے اور میرا مذمت کرنا ذلت کا سبب ہے آپ نے فرمایا ایسی ذات محض اللہ تعالیٰ کی ہی ہے ۔ بشر بن غالب نے حجاج کے سامنے بشر بن عطارد وغیرہ سے کہا کہ تیری قوم بنو تمیم کے بارے میں یہ آیت اتری ہے ۔ جب حضرت سعید بن جبیر سے اس کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا اگر وہ عالم ہوتے تو اس کے بعد کی آیت ( يَمُنُّوْنَ عَلَيْكَ اَنْ اَسْلَمُوْا ۭ قُلْ لَّا تَمُنُّوْا عَلَيَّ اِسْلَامَكُمْ ۚ بَلِ اللّٰهُ يَمُنُّ عَلَيْكُمْ اَنْ هَدٰىكُمْ لِلْاِيْمَانِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ 17 ) 49- الحجرات:17 ) پڑھ دیتے وہ کہتے کہ ہم اسلام لائے اور بنو اسد نے آپ کو تسلیم کرنے میں کچھ دیر نہیں کی حضرت زید بن ارقم فرماتے ہیں کہ کچھ عرب جمع ہوئے اور کہنے لگے ہمیں اس شخص کے پاس لے چلو اگر وہ سچا نبی ہے تو سب سے زیادہ اس سے سعادت حاصل کرنے کے مستحق ہم ہیں اور اگر وہ بادشاہ ہے تو ہم اس کے پروں تلے پل جائیں گے میں نے آکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ واقعہ بیان کیا پھر وہ لوگ آئے اور حجرے کے پیچھے سے آپ کا نام لے کر آپ کو پکارنے لگے اس پر یہ آیت اتری حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا کان پکڑ کر فرمایا اللہ تعالیٰ نے تیری بات سچی کر دی اللہ تعالیٰ نے تیری بات سچی کر دی ، ( ابن جریر )
4۔ 1 یہ آیت قبیلہ بنو تمیم کے بعض اعرابیوں (گنوار قسم کے لوگوں) کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے ایک روز دوپہر کے وقت، جو کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قیلولے کا وقت تھا، حجرے سے باہر کھڑے ہو کر عامیانہ انداز میں یا محمد یا محمد کی آوازیں لگائیں تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باہر تشریف لے آئیں (مسند احمد 84۔ 318) اللہ تعالیٰ نے فرمایا ان کی اکثریت بےعقل ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اداب و احترام کے تقاضوں کا خیال نہ رکھنا، بےعقلی ہے۔
(١) ان الذین ینادونک من ورآء الحجرت :” حجرۃ “ زمین کا وہ قطعہ جس کے گرد دیوار بنی ہوئی ہو، گھر کے صحن کی چار دیواری۔ طبری نے فرمایا :” حجرۃ “ کی جمع ” حجر “ ہے اور اس کی جمع ” حجرات “ ہے۔ “ روح المعانی میں ان حجرات کی کیفیت بیان کی گئی ہے :” یہ نو حجرے تھے، ہر بیوی کے پاس ایک حجرہ تھا اور جیسا کہ ابن سعد نے عطاء خراسانی سے روایت کی ہے، یہ کھجور کی ٹہنیوں سے بنے ہوئے تھے، ان کے دروازوں پر سیاہ بالوں کے ٹاٹ کے پردے تھے۔ بخاری نے ” الادب المفرد “ میں اور ابن ابی الدنیا اور بیہقی نے داؤد بن قیس سے بیان کیا ہے، انہوں نے فرمایا :” میں نے وہ حجرے دیکھے ہیں، کھجور کی ٹہنیوں سے بنے ہوئے تھے، جنہیں باہر کی جانب سے بالوں کے ٹاٹوں سے ڈھانپا ہوا تھا اور میرا گمان ہے کہ صحن کے دروازے سے کمرے کے دروازے تک چھ یا سات ہاتھ (نو یا ساڑھے دس فٹ) کا فاصلہ تھا اور کمرے کا اندرونی حصہ دس ہاتھ (پندرہ فٹ) تھا اور میرا گمان ہے کہ گھر کی چوڑائی سات آٹھ ہاتھ (ساڑھے دس بارہ فٹ) کے درمیان تھی۔ “ اور حسن سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا :” میں عثمان بن عفان (رض) کی خلافت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویوں کے کمروں میں جایا کرتا تھا تو ان کی چھت کو ہاتھ لگا لیتا تھا۔ ولید بن عبدالملک (رح) کے عہد میں ان کے حکم سے ان گھروں کو مسجد نبوی میں شامل کرلیا گیا جس پر لوگ بہت روئے۔ “ اورس عید بن مسیب نے فرمایا :” اللہ کی قسم مجھے پسند تھا کہ ان حجروں کو ان کی حالت پر رہنے دیا جاتا، تاکہ اہل مدینہ کے بچے بڑے ہوتے اور تمام دنیا سے آنے والے آتے تو دیکھتے کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی زندگی میں کیسے گھروں پر اکتفا کیا ہے۔ اس سے ان کے دلوں میں ایک دوسرے سے بڑھ کر دنیا حاصل کرنے کی حرص اور اس پر فخر کے بجائے زہد اور دنیا سے بےرغبتی پیدا ہوتی ہے۔ “ اور ابوامامہ بن سہل بن حنیف نے بھی ایسی ہی بات فرمائی۔ “ (روح المعانی)- گزشتہ آیات میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موجودگی میں آپ کے ادب کا بیان تھا، ان آیات میں اس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ادب کو ملحوظ رکھنے کا بیان ہے جب آپ گھر میں ہوں۔ آیت کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ کچھ اعرابی لوگوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھروں کی چار دیواری کے باہر کھڑے ہو کر آپ کو بلانے کے لئے آوازیں دیں، تو اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو ” لایعقلون “ قرار دیا۔” لایعقلون “ قرار دینے سے مقصود انہیں ڈانٹنا اور تمام مسلمانوں کو آپ کے ادب کی تعلیم دینا ہے۔- (٢) اکثرھم لایعقلون : ابن جزی (صاحب التسہیل) نے فرمایا :” اس میں دو وجہیں ہیں، ایک یہ کہ ان میں کچھ لوگ عقل رکھنے والے بھی تھے، اس لئے ان کے اکثر کو ” لایعقلون “ فرمایا، سب کو نہیں۔ دوسری یہ کہ مراد سب ہی کو ” لایعقلون “ قرار دینا ہے، عقل والوں کو کم قرار دینے سے مراد ان کی نفی ہے۔ الفاظ کے مطابق پہلی وجہ زیادہ ظاہر ہے، دوسری میں زیادہ بلیغ طریقے سے سب کی مذمت کا بیان ہے۔ “
(آیت) اِنَّ الَّذِيْنَ يُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَاۗءِ الْحُـجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ ، اس آیت میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک تیسرا ادب سکھلایا گیا ہے کہ جس وقت آپ اپنے مکان اور آرام گاہ میں تشریف فرما ہوں اس وقت باہر کھڑے ہو کر آپ کو پکارنا خصوصاً گنوارپن کے ساتھ کہ نام لے کر پکارا جائے یہ بےادبی ہے عقل والوں کے لیے یہ کام نہیں۔ حجرات، حجرہ کی جمع ہے اصل لغت میں حجرہ ایک چار دیواری سے گھرے ہوئے مکان کو کہتے ہیں جس میں کچھ صحن ہو کچھ مسقف عمارت ہو۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات مدینہ طیبہ میں نو تھیں ان میں سے ہر ایک کے لئے ایک حجرہ الگ الگ تھا جن میں آپ باری باری تشریف فرما ہوتے تھے۔- حجرات امہات المومنین :- ابن سعد نے بروایت عطا خراسانی لکھا ہے کہ یہ حجرات کھجور کی شاخوں سے بنے ہوئے تھے اور ان کے دروازوں پر موٹے سیاہ اون کے پردے پڑے ہوئے تھے۔ امام بخاری نے ادب المفرد میں اور بیہقی نے داؤد بن قیس سے روایت کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے ان حجرات کی زیارت کی ہے میرا گمان یہ ہے کہ حجرہ کے دروازہ سے مسقف بیت تک چھ سات ہاتھ ہوگا اور بیت (کمرہ) دس ہاتھ اور چھت کی اونچائی سات آٹھ ہاتھ ہوگی۔ یہ حجرات امہات المومنین ولید بن عبدالملک کی حکومت میں ان کے حکم سے مسجد نبوی میں شامل کردیئے گئے۔ مدینہ میں اس روز لوگوں پر گریہ و وبکا طاری تھی۔- سبب نزول :- امام بغوی نے بروایت قتادہ ذکر کیا ہے کہ قبیلہ بنو تمیم کے لوگ جو آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے جن کا ذکر اوپر آیا ہے۔ یہ دوپہر کے وقت مدینہ میں پہنچے جبکہ آپ کسی حجرہ میں آرام فرما رہے تھے۔ یہ لوگ اعراب آداب معاشرت سے ناواقف تھے۔ انہوں نے حجرات کے باہر ہی سے پکارنا شروع کردیا، اخرج الینا یا محمد اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں اس طرح پکارنے کی ممانعت اور انتظار کرنے کا حکم دیا گیا۔ مسند احمد۔ ترمذی وغیرہ میں بھی یہ روایت مختلف الفاظ سے آئی ہے (مظہری)- تنبیہ :- صحابہ وتابعین نے اپنے علماء و مشائخ کے ساتھ بھی اسی ادب کا استعمال کیا ہے۔ صحیح بخاری وغیرہ میں حضرت ابن عباس سے منقول ہے کہ جب میں کسی عالم صحابی سے کوئی حدیث دریافت کرنا چاہتا تھا تو ان کے مکان پر پہنچ کر ان کو آواز یا دروازہ پر دستک دینے سے پرہیز کرتا اور دروازہ کے باہر بیٹھ جاتا تھا کہ جب وہ خود ہی باہر تشریف لاویں گے اس وقت ان سے دریافت کروں گا، وہ مجھے دیکھ کر فرماتے کہ اے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا زاد بھائی، آپ نے دروازہ پر دستک دے کر کیوں نہ اطلاع کردی تو ابن عباس نے فرمایا کہ عالم اپنی قوم میں مثل نبی کے ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے نبی کی شان میں یہ ہدایت فرمائی ہے کہ ان کے باہر آنے کا انتظار کیا جائے۔ حضرت ابوعبیدہ نے فرمایا کہ میں نے کبھی کسی عالم کے دروازہ پر جا کر دستک نہیں دی بلکہ اس کا انتظار کیا کہ وہ خود ہی جب باہر تشریف لاویں گے اس وقت ملاقات کروں گا (روح المعانی)- مسئلہ : آیت مذکورہ میں حتی تخرج الیہم میں الیہم کی قید بڑھانے سے یہ ثابت ہوا کہ صبر و انتظار اس وقت تک کرنا ہے جب تک کہ آپ لوگوں سے ملاقات و گفتگو کے لئے باہر تشریف لائیں، اس سے معلوم ہوا کہ آپ کا باہر تشریف لانا کسی دوسری ضرورت سے ہو اس وقت بھی آپ سے اپنے مطلب کی بات کرنا مناسب نہیں بلکہ اس کا انتظار کریں کہ جب آپ ان کی طرف متوجہ ہوں اس وقت بات کریں
اِنَّ الَّذِيْنَ يُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَاۗءِ الْحُـجُرٰتِ اَكْثَرُہُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ ٤- ندا - النِّدَاءُ : رفْعُ الصَّوت وظُهُورُهُ ، وقد يقال ذلک للصَّوْت المجرَّد، وإيّاه قَصَدَ بقوله : وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] أي : لا يعرف إلّا الصَّوْت المجرَّد دون المعنی الذي يقتضيه تركيبُ الکلام . ويقال للمرکَّب الذي يُفْهَم منه المعنی ذلك، قال تعالی: وَإِذْ نادی رَبُّكَ مُوسی[ الشعراء 10] وقوله : وَإِذا نادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة 58] ، أي : دَعَوْتُمْ ، وکذلك : إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ- [ الجمعة 9] ونِدَاءُ الصلاة مخصوصٌ في الشَّرع بالألفاظ المعروفة، وقوله : أُولئِكَ يُنادَوْنَمِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت 44] فاستعمال النّداء فيهم تنبيها علی بُعْدهم عن الحقّ في قوله : وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ مِنْ مَكانٍ قَرِيبٍ [ ق 41] ، وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم 52] ، وقال : فَلَمَّا جاءَها نُودِيَ [ النمل 8] ، وقوله : إِذْ نادی رَبَّهُ نِداءً خَفِيًّا [ مریم 3] فإنه أشار بِالنِّدَاء إلى اللہ تعالی، لأنّه تَصَوَّرَ نفسَهُ بعیدا منه بذنوبه، وأحواله السَّيِّئة كما يكون حال من يَخاف عذابَه، وقوله : رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ- [ آل عمران 193] فالإشارة بالمنادي إلى العقل، والکتاب المنزَّل، والرّسول المُرْسَل، وسائر الآیات الدَّالَّة علی وجوب الإيمان بالله تعالی. وجعله منادیا إلى الإيمان لظهوره ظهورَ النّداء، وحثّه علی ذلك كحثّ المنادي . وأصل النِّداء من النَّدَى. أي : الرُّطُوبة، يقال : صوت نَدِيٌّ رفیع، واستعارة النِّداء للصَّوْت من حيث إنّ من يَكْثُرُ رطوبةُ فَمِهِ حَسُنَ کلامُه، ولهذا يُوصَفُ الفصیح بکثرة الرِّيق، ويقال : نَدًى وأَنْدَاءٌ وأَنْدِيَةٌ ، ويسمّى الشَّجَر نَدًى لکونه منه، وذلک لتسمية المسبَّب باسم سببِهِ وقول الشاعر :- 435-- كَالْكَرْمِ إذ نَادَى مِنَ الكَافُورِ- «1» أي : ظهر ظهورَ صوتِ المُنادي، وعُبِّرَ عن المجالسة بالنِّدَاء حتی قيل للمجلس : النَّادِي، والْمُنْتَدَى، والنَّدِيُّ ، وقیل ذلک للجلیس، قال تعالی: فَلْيَدْعُ نادِيَهُ- [ العلق 17] ومنه سمّيت دار النَّدْوَة بمكَّةَ ، وهو المکان الذي کانوا يجتمعون فيه . ويُعَبَّر عن السَّخاء بالنَّدَى، فيقال :- فلان أَنْدَى كفّاً من فلان، وهو يَتَنَدَّى علی أصحابه . أي : يَتَسَخَّى، وما نَدِيتُ بشیءٍ من فلان أي : ما نِلْتُ منه نَدًى، ومُنْدِيَاتُ الكَلِم : المُخْزِيَات التي تُعْرَف .- ( ن د ی ) الندآ ء - کے معنی آواز بلند کرنے کے ہیں اور کبھی نفس آواز پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] جو لوگ کافر ہیں ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ میں اندر سے مراد آواز و پکار ہے یعنی وہ چو پائے صرف آواز کو سنتے ہیں اور اس کلام سے جو مفہوم مستناد ہوتا ہے اسے ہر گز نہیں سمجھتے ۔ اور کبھی اس کلام کو جس سے کوئی معنی مفہوم ہوتا ہو اسے ندآء کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے ۔ وَإِذْ نادی رَبُّكَ مُوسی[ الشعراء 10] اور جب تمہارے پروردگار نے موسیٰ کو پکارا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذا نادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة 58] اور جب تم لوگ نماز کے لئے اذان دیتے ہو ۔ میں نماز کے لئے اذان دینا مراد ہے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ۔ إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ [ الجمعة 9] جب جمعے کے دن نماز کے لئے اذان دی جائے ۔ میں بھی نداء کے معنی نماز کی اذان دینے کے ہیں اور شریعت میں ند اء الصلوۃ ( اذان ) کے لئے مخصوص اور مشہور کلمات ہیں اور آیت کریمہ : ۔ أُولئِكَ يُنادَوْنَ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت 44] ان کو گویا دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے : ۔ میں ان کے متعلق نداء کا لفظ استعمال کر کے متنبہ کیا ہے کہ وہ حق سے بہت دور جا چکے ہیں ۔ نیز فرمایا ۔ وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ مِنْ مَكانٍ قَرِيبٍ [ ق 41] اور سنو جس دن پکارنے والا نزدیک کی جگہ سے پکارے گا ۔ وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم 52] اور ہم نے ان کو طور کے ذہنی جانب سے پکارا فَلَمَّا جاءَها نُودِيَ [ النمل 8] جب موسیٰ ان ان کے پاس آئے تو ندار آئی ۔ ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِذْ نادی رَبَّهُ نِداءً خَفِيًّا [ مریم 3] جب انہوں نے اپنے پروردگار کو دبی آواز سے پکارا میں اللہ تعالیٰ کے متعلق نادی کا لفظ استعمال کرنے سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ زکریا (علیہ السلام) نے اپنے گناہ اور احوال سینہ کے باعث اس وقت اپنے آپ کو حق اللہ تعالیٰ سے تصور کیا تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرنے والے کی حالت ہوتی ہے اور آیت کریمہ ؛ ۔ رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ [ آل عمران 193] اے پروردگار ہم نے ایک ندا کرنے والے کو سنا ۔ جو ایمان کے لئے پکاررہا تھا ۔ میں منادیٰ کا لفظ عقل کتاب منزل رسول مرسل اور ان آیات الہیہ کو شامل ہے جو ایمان باللہ کے وجوب پر دلالت کرتی ہیں اور ان چیزوں کو منادی للا یمان اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ ندا کی طرح ظاہر ہوتی ہیں اور وہ پکارنے والے کی طرح ایمان لانے کی طرف دعوت دے رہی ہیں ۔ اصل میں نداء ندی سے ہے جس کے معنی رطوبت نمی کے ہیں اور صوت ندی کے معنی بلند آواز کے ہیں ۔ اور آواز کے لئے نداء کا استعارہ اس بنا پر ہے کہ جس کے منہ میں رطوبت زیادہ ہوگی اس کی آواز بھی بلند اور حسین ہوگی اسی سے فصیح شخص کو کثرت ریق کے ساتھ متصف کرتے ہیں اور ندی کے معنی مجلس کے بھی آتے ہیں اس کی جمع انداء واندید آتی ہے ۔ اور در خت کو بھی ندی کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ وہ نمی سے پیدا ہوتا ہے اور یہ تسمیۃ المسبب با سم السبب کے قبیل سے ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 420 ) کالکرم اذا نادٰی من الکافور جیسا کہ انگور کا خوشہ غلاف ( پردہ ) سے ظاہر ہوتا ہے ۔ جیسا کہ منادی کرنے والے کی آواز ہوتی ہے ۔ کبھی نداء سے مراد مجالست بھی ہوتی ہے ۔ اس لئے مجلس کو النادی والمسدیوالندی کہا جاتا ہے اور نادیٰ کے معنی ہم مجلس کے بھی آتے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ فَلْيَدْعُ نادِيَهُ [ العلق 17] تو وہ اپنے یاران مجلس کو بلالے ۔ اور اسی سے شہر میں ایک مقام کا نام درا لندوۃ ہے ۔ کیونکہ اس میں مکہ کے لوگ جمع ہو کر باہم مشورہ کیا کرتے تھے ۔ اور کبھی ندی سے مراد مخاوت بھی ہوتی ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ فلان اندیٰ کفا من فلان وپ فلاں سے زیادہ سخی ہے ۔ ھو یتندٰی علیٰ اصحابہ ۔ وہ اپنے ساتھیوں پر بڑا فیاض ہے ۔ ما ندیت بشئی من فلان میں نے فلاں سے کچھ سخاوت حاصل نہ کی ۔ مندیات الکلم رسوا کن باتیں مشہور ہوجائیں ۔- وراء - ( وَرَاءُ ) إذا قيل : وَرَاءُ زيدٍ كذا، فإنه يقال لمن خلفه . نحو قوله تعالی:- وَمِنْ وَراءِ إِسْحاقَ يَعْقُوبَ [هود 71] ،- ( و ر ی ) واریت - الورآء کے معنی خلف یعنی پچھلی جانب کے ہیں مثلا جو زہد کے پیچھے یا بعد میں آئے اس کے متعلق ورآء زید کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْ وَراءِ إِسْحاقَ يَعْقُوبَ [هود 71] اور اسحاق کے بعد یعقوب کی خوش خبری دی ۔ - حجر - الحَجَر : الجوهر الصلب المعروف، وجمعه :- أحجار وحِجَارَة، وقوله تعالی: وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجارَةُ [ البقرة 24]- ( ح ج ر ) الحجر - سخت پتھر کو کہتے ہیں اس کی جمع احجار وحجارۃ آتی ہے اور آیت کریمہ : وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجارَةُ [ البقرة 24] جس کا اندھن آدمی اور پتھر ہوں گے ۔ - كثر - الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] - ( ک ث ر )- کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔- عقل - العَقْل يقال للقوّة المتهيّئة لقبول العلم، ويقال للعلم الذي يستفیده الإنسان بتلک القوّة عَقْلٌ ، وهذا العقل هو المعنيّ بقوله : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] ،- ( ع ق ل ) العقل - اس قوت کو کہتے ہیں جو قبول علم کے لئے تیار رہتی ہے اور وہ علم جو اس قوت کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی عقل کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] اور سے توا ہل دانش ہی سمجھتے ہیں
جو لوگ ازواج مطہرات کے حجروں کے باہر سے آپ کو پکارتے ہیں وہ حکم الہی اور توحید الہی اور رسول اکرم کے احترام کو نہیں سمجھتے۔- شان نزول : اِنَّ الَّذِيْنَ يُنَادُوْنَكَ (الخ)- امام طبرانی نے اور ابو یعلی نے سند حسن کے ساتھ زید بن ارقم سے روایت کیا کہ عربوں میں سے کچھ لوگ رسول اکرم کے حجروں پر آئے اور آکر یا محمد یا محمد کہہ کر پکارنے لگے، اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔- اور عبدالرزاق نے بواسطہ معمر قتادہ سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا اے محمد میری تعریف شاندار ہے اور میری مذمت بری ہے، آپ نے فرمایا یہ شان اللہ تعالیٰ کی ہے اس وقت یہ آیت نازل ہوئی، یہ روایت مرسل ہے اور اس کے ترمذی میں بغیر ذکر نزول آیت براء بن عازب وغیرہ کی روایت سے بہت سے مرفوع شواہد موجود ہیں۔ اور ابن جریر نے حسن سے اسی طرح روایت کی ہے۔- اور امام احمد نے سند صحیح کے ساتھ اقرع بن حابس سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے حجروں کے باہر سے رسول اکرم کو پکارا آپ نے کچھ جواب نہیں دیا تب بولے اے محمد میری مدح قابل ستائش ہے اور میری مذمت بہت بری ہے تب آپ نے فرمایا یہ شان صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔- اور ابن جریر نے اقرع سے روایت کیا ہے کہ وہ رسول اکرم کی خدمت میں آئے اور بولے اے محمد ہماری طرف آیے اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔
آیت ٤ اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَکَ مِنْ وَّرَآئِ الْحُجُرٰتِ اَکْثَرُہُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ ” بیشک وہ لوگ جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پکارتے ہیں حجروں کے پیچھے سے ان میں سے اکثر وہ ہیں جو عقل نہیں رکھتے۔ “- بعض اوقات جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے حجرہ مبارک میں تشریف فرما ہوتے تو بدو ّقسم کے لوگ باہر کھڑے ہو کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آوازیں دینا شروع کردیتے : ” یَا مُحَمَّد اُخْرُجْ اِلَیْنَا “۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر تشریف لے جانے ‘ آرام فرمانے اور گھر سے باہر رونق افروز ہونے کے اپنے معمولات تھے۔ لہٰذا یہاں دو ٹوک انداز میں بتادیا گیا کہ وقت بےوقت گھر سے باہر کھڑے ہو کر لوگوں کا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بےباکانہ انداز میں آوازیں دینے کا یہ طرز عمل اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے۔ کسی کو گھر سے باہر بلانے کا یہ انداز اور طریقہ عام معاشرتی آداب کے بھی خلاف ہے۔
2: تمیم کے جس وفد کا ابھی ذکر کیا گیا، وہ دوپہر کے وقت مدینہ منورہ پہنچا تھا جبکہ حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آرام فرما رہے تھے۔ یہ لوگ آداب سے واقف نہیں تھے، اس لیے ان میں سے کچھ لوگوں نے آپ کے گھر کے باہر ہی سے آپ کو پکارنا شروع کردیا۔ اس پر اس آیت میں تنبیہ فرمائی گئی ہے۔