Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

فاسق کی خبر پر اعتماد نہ کرو اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ فاسق کی خبر کا اعتماد نہ کرو جب تک پوری تحقیق و تفتیش سے اصل واقعہ صاف طور پر معلوم نہ ہو جائے کوئی حرکت نہ کرو ممکن ہے کہ کسی فاسق شخص نے کوئی جھوٹی بات کہدی ہو یا خود اس سے غلطی ہوئی ہو اور تم اس کی خبر کے مطابق کوئی کام کر گذرو تو اصل اس کی پیروی ہو گی اور مفسد لوگوں کی پیروی حرام ہے اسی آیت کو دلیل بنا کر بعض محدثین کرام نے اس شخص کی روایت کو بھی غیر معتبر بتایا ہے جس کا حال نہ معلوم ہو اس لئے کہ بہت ممکن ہے یہ شخص فی الواقع فاسق ہو گو بعض لوگوں نے ایسے مجہول الحال راویوں کی روایت لی بھی ہے ، اور انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں فاسق کی خبر قبول کرنے سے منع کیا گیا ہے اور جس کا حال معلوم نہیں اس کا فاسق ہونا ہم پر ظاہر نہیں ہم نے اس مسئلہ کی پوری وضاحت سے صحیح بخاری شریف کی شرح میں کتاب العلم میں بیان کر دیا ہے فالحمد للہ ۔ اکثر مفسرین کرام نے فرمایا ہے کہ یہ آیت ولید بن عقبہ بن ابو معیط کے بارے میں نازل ہوئی ہے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں قبیلہ بنو مصطلق سے زکوٰۃ لینے کے لئے بھیجا تھا ۔ چنانچہ مسند احمد میں ہے حضرت حارث بن ضرار خزاعی جو ام المومنین حضرت جویریہ کے والد ہیں فرماتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ نے مجھے اسلام کی دعوت دی جو میں نے منظور کر لی اور مسلمان ہو گیا ۔ پھر آپ نے زکوٰۃ کی فرضیت سنائی میں نے اس کا بھی اقرار کیا اور کہا کہ میں واپس اپنی قوم میں جاتا ہوں اور ان میں سے جو ایمان لائیں اور زکوٰۃ ادا کریں میں انکی زکوۃٰ جمع کرتا ہوں اتنے اتنے دنوں کے بعد آپ میری طرف کسی آدمی کو بھیج دیجئے میں اس کے ہاتھ جمع شدہ مال زکوٰۃ آپ کی خدمت میں بھجوا دوں گا ۔ حضرت حارث نے واپس آکر یہی کیا مال زکوٰۃ جمع کیا ، جب وقت مقررہ گذر چکا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کوئی قاصد نہ آیا تو آپ نے اپنی قوم کے سرداروں کو جمع کیا اور ان سے کہا یہ تو ناممکن ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے وعدے کے مطابق اپنا کوئی آدمی نہ بھیجیں مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں کسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے ناراض نہ ہوگئے ہوں ؟ اور اس بنا پر آپ نے اپنا کوئی قاصد مال زکوٰۃ لے جانے کے لئے نہ بھیجا ہو اگر آپ لوگ متفق ہوں تو ہم اس مال کو لے کر خود ہی مدینہ شریف چلیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیں یہ تجویز طے ہوگئی اور یہ حضرات اپنا مال زکوٰۃ ساتھ لے کر چل کھڑے ہوئے ادھر سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ولید بن عقبہ کو اپنا قاصد بنا کر بھیج چکے تھے لیکن یہ حضرت راستے ہی میں سے ڈر کے مارے لوٹ آئے اور یہاں آ کر کہدیا کہ حارث نے زکوٰۃ بھی روک لی اور میرے قتل کے درپے ہو گیا ۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوئے اور کچھ آدمی تنبیہ کے لئے روانہ فرمائے مدینہ کے قریب راستے ہی میں اس مختصر سے لشکر نے حضرت حارث کو پا لیا اور گھیر لیا ۔ حضرت حارث نے پوچھا آخر کیا بات ہے ؟ تم کہاں اور کس کے پاس جا رہے ہو؟ انہوں نے کہا ہم تیری طرف بھیجے گئے ہیں پوچھا کیوں ؟ کہا اس لئے کہ تو نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد ولید کو زکوٰۃ نہ دی بلکہ انہیں قتل کرنا چاہا ۔ حضرت حارث نے کہا قسم ہے اس اللہ کی جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا رسول بنا کر بھیجا ہے نہ میں نے اسے دیکھا نہ وہ میرے پاس آیا چلو میں تو خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو رہا ہوں یہاں آئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا کہ تو نے زکوٰۃ بھی روک لی اور میرے آدمی کو بھی قتل کرنا چاہا ۔ آپ نے جواب دیا ہرگز نہیں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قسم ہے اللہ کی جس نے آپ کو سچا رسول بنا کر بھیجا ہے نہ میں نے انہیں دیکھا نہ وہ میرے پاس آئے ۔ بلکہ قاصد کو نہ دیکھ کر اس ڈر کے مارے کہ کہیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے ناراض نہ ہوں گئے ہوں اور اسی وجہ سے قاصد نہ بھیجا ہو میں خود حاضر خدمت ہوا ، اس پر یہ آیت ( حکیم ) تک نازل ہوئی طبرانی میں یہ بھی ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد حضرت حارث کی بستی کے پاس پہنچا تو یہ لوگ خوش ہو کر اس کے استقبال کیلئے خاص تیاری کر کے نکلے ادھر ان کے دل میں یہ شیطانی خیال پیدا ہوا کہ یہ لوگ مجھ سے لڑنے کے لئے آرہے ہیں تو یہ لوٹ کر واپس چلے آئے انہوں نے جب یہ دیکھا کہ آپ کے قاصد واپس چلے گئے تو خود ہی حاضر ہوئے اور ظہر کی نماز کے بعد صف بستہ کھڑے ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ آپ نے زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے اپنے آدمی کو بھیجا ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوئیں ہم بیحد خوش ہوئے لیکن اللہ جانے کیا ہوا کہ وہ راستے میں سے ہی لوٹ گئے تو اس خوف سے کہ کہیں اللہ ہم سے ناراض نہ ہو گیا ہو ہم حاضر ہوئے ہیں اسی طرح وہ عذر معذرت کرتے رہے عصر کی اذان جب حضرت بلال نے دی اس وقت یہ آیت نازل ہوئی ، اور روایت میں ہے کہ حضرت ولید کی اس خبر پر ابھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سوچ ہی رہے تھے کہ کچھ آدمی ان کی طرف بھیجیں جو ان کا وفد آگیا اور انہوں نے کہا آپ کا قاصد آدھے راستے سے ہی لوٹ گیا تو ہم نے خیال کیا کہ آپ نے کسی ناراضگی کی بنا پر انہیں واپسی کا حکم بھیج دیا ہوگا اس لئے حاضر ہوئے ہیں ، ہم اللہ کے غصے سے اور آپ کی ناراضگی سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری اور اس کا عذر سچا بتایا ۔ اور روایت میں ہے کہ قاصد نے یہ بھی کہا تھا کہ ان لوگوں نے تو آپ سے لڑنے کے لئے لشکر جمع کر لیا ہے اور اسلام سے مرتد ہوگئے ہیں چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خالد بن ولید کی زیر امارت ایک فوجی دستے کو بھیج دیا لیکن انہیں فرما دیا تھا کہ پہلے تحقیق و تفتیش اچھی طرح کر لینا جلدی سے حملہ نہ کر دینا ۔ اسی کے مطابق حضرت خالد نے وہاں پہنچ کر اپنے جاسوس شہر میں بھیج دئیے وہ خبر لائے کہ وہ لوگ دین اسلام پر قائم ہیں مسجد میں اذانیں ہوئیں جنہیں ہم نے خود سنا اور لوگوں کو نماز پڑھتے ہوئے خود دیکھا ، صبح ہوتے ہی حضرت خالد خود گئے اور وہاں کے اسلامی منظر سے خوش ہوئے واپس آکر سرکار نبوی میں ساری خبر دی ۔ اس پر یہ آیت اتری ۔ حضرت قتادہ جو اس واقعہ کو بیان کرتے ہیں کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ تحقیق و تلاش بردباری اور دور بینی اللہ کی طرف سے ہے ۔ اور عجلت اور جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے ۔ سلف میں سے حضرت قتادہ کے علاوہ اور بھی بہت سے حضرات نے یہی ذکر کیا ہے جیسے ابن ابی لیلیٰ ، یزید بن رومان ، ضحاک ، مقاتل بن حیان وغیرہ ۔ ان سب کا بیان ہے کہ یہ آیت ولید بن عقبہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے واللہ اعلم ۔ پھر فرماتا ہے کہ جان لو کہ تم میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں ان کی تعظیم و توقیر کرنا عزت وادب کرنا ان کے احکام کو سر آنکھوں سے بجا لانا تمہارا فرض ہے وہ تمہاری مصلحتوں سے بہت آگاہ ہیں انہیں تم سے بہت محبت ہے وہ تمہیں مشقت میں ڈالنا نہیں چاہتے ۔ تم اپنی بھلائی کے اتنے خواہاں اور اتنے واقف نہیں ہو جتنے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہیں چنانچہ اور جگہ ارشاد ہے آیت ( اَلنَّبِيُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَاَزْوَاجُهٗٓ اُمَّهٰتُهُمْ ۭ وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُهٰجِرِيْنَ اِلَّآ اَنْ تَفْعَلُوْٓا اِلٰٓى اَوْلِيٰۗىِٕكُمْ مَّعْرُوْفًا ۭ كَانَ ذٰلِكَ فِي الْكِتٰبِ مَسْطُوْرًا Č۝ ) 33- الأحزاب:6 ) یعنی مسلمانوں کے معاملات میں ان کی اپنی بہ نسبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لئے زیادہ خیر اندیش ہیں ۔ پھر بیان فرمایا کہ لوگو تمہاری عقلیں تمہاری مصلحتوں اور بھلائیوں کو نہیں پاسکتیں انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پا رہے ہیں ۔ پس اگر وہ تمہاری ہر پسندیدگی کی رائے پر عامل بنتے رہیں تو اس میں تمہارا ہی حرج واقع ہو گا ۔ جیسے اور آیت میں ہے ( وَلَوِ اتَّبَـعَ الْحَقُّ اَهْوَاۗءَهُمْ لَــفَسَدَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِيْهِنَّ ۭ بَلْ اَتَيْنٰهُمْ بِذِكْرِهِمْ فَهُمْ عَنْ ذِكْرِهِمْ مُّعْرِضُوْنَ 71؀ۭ ) 23- المؤمنون:71 ) یعنی اگر سچا رب ان کی خوشی پر چلے تو آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی ہر چیز خراب ہو جائے یہ نہیں بلکہ ہم نے انہیں ان کی نصیحت پہنچا دی ہے لیکن یہ اپنی نصیحت پر دھیان ہی نہیں دھرتے ۔ پھر فرماتا ہے کہ اللہ نے ایمان کو تمہارے نفسوں میں محبوب بنا دیا ہے اور تمہارے دلوں میں اس کی عمدگی بٹھا دی ہے مسند احمد میں ہے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اسلام ظاہر ہے اور ایمان دل میں ہے پھر آپ اپنے سینے کی طرف تین بار اشارہ کرتے اور فرماتے تقویٰ یہاں ہے پرہیز گاری کی جگہ یہ ہے ۔ اس نے تمہارے دلوں میں کبیرہ گناہ اور تمام نافرمانیوں کی عداوت ڈال دی ہے اس طرح بتدریج تم پر اپنی نعمتیں بھرپور کر دی ہیں ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے جن میں یہ پاک اوصاف ہیں انہیں اللہ نے رشد نیکی ہدایت اور بھلائی دے رکھی ہے مسند احمد میں ہے احد کے دن جب مشرکین ٹوٹ پڑے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا درستگی کے ساتھ ٹھیک ٹھاک ہو جاؤ تو میں نے اپنے رب عزوجل کی ثنا بیان کروں پس لوگ آپ کے پیچھے صفیں باندھ کر کھڑے ہوگئے اور آپ نے یہ دعا پڑھی ( اللھم لک الحمد کلہ اللھم لا قابض لما بسطت ولا باسط لما قبضت ولا ھادی لمن اضللت ولا مضل لمن ھدیت ولا معطی لما منعت ولا مانع لما اعطیت ولا مقرب لما باعدت ولا مباعد لما قربت ۔ اللھم ابسط علینا من برکاتک ورحمتک وفضلک ورزقک ۔ اللھم انی اسألک النعیم المقیم الذی لا یحول ولا یزل اللھم انی اسألک النعیم یوم العلیۃ ولا امن یوم الخوف اللھم انی عائذبک من شر ما اعطیتنا ومن شر ما منعتنا اللھم حبب الینا الایمان وزینہ فی قلوبنا وکرہ الینا الکفر والفسوق والعصیان واجعلنا من الراشدین اللھم توفنا مسلمین واحینا مسلمین والحقنا بالصالحین غیر خزایا والا مفتونین اللھم قاتل الکفرۃ الذین یکذبون رسلک ویصدون عن سبیلک واجعل علیھم وجزک وعذابک اللھم قاتل الکفرۃ الذین اوتوا الکتاب الہ الحق ( نسائی ) یعنی اے اللہ تمام تر تعریف تیرے ہی لئے ہے تو جسے کشادگی دے اسے کوئی تنگ نہیں کر سکتا اور جس پر تو تنگی کرے اسے کوئی کشادہ نہیں کر سکتا تو جسے گمراہ کرے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا اور جسے تو ہدایت دے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا جس سے تو روک لے اسے کوئی دے نہیں سکتا اور جسے تو دے اس سے کوئی باز نہیں رکھ سکتا جسے تو دور کر دے اسے قریب کرنے والا کوئی نہیں اور جسے تو قریب کر لے اسے دور ڈالنے والا کوئی نہیں اے اللہ ہم پر اپنی برکتیں رحمتیں فضل اور رزق کشادہ کر دے اے اللہ میں تجھ سے وہ ہمیشہ کی نعمتیں چاہتا ہوں جو نہ ادھر ادھر ہوں ، نہ زائل ہوں ۔ اللہ فقیری اور احتیاج والے دن مجھے اپنی نعمتیں عطا فرمانا اور خوف والے دن مجھے امن عطا فرمانا ۔ پروردگار جو تو نے مجھے دے رکھا ہے اور جو نہیں دیا ان سب کی برائی سے تیری پناہ مانگتا ہوں ۔ اے میرے معبود ہمارے دلوں میں ایمان کی محبت ڈال دے اور اسے ہماری نظروں میں زینت دار بنا دے اور کفر بدکاری اور نافرمانی سے ہمارے دل میں دوری اور عداوت پیدا کر دے اور ہمیں راہ یافتہ لوگوں میں کر دے ۔ اے ہمارے رب ہمیں اسلام کی حالت میں فوت کر اور اسلام پر ہی زندہ رکھ اور نیک کار لوگوں سے ملا دے ہم رسوا نہ ہوں ہم فتنے میں نہ ڈالے جائیں ۔ اللہ ان کافروں کا ستیاناس کر جو تیرے رسولوں کو جھٹلائیں اور تیری راہ سے روکیں تو ان پر اپنی سزا اور اپنا عذاب نازل فرما ۔ الہی اہل کتاب کے کافروں کو بھی تباہ کر ، اے سچے معبود ۔ یہ حدیث امام نسائی بھی اپنی کتاب عمل الیوم واللہ میں لائے ہیں ۔ مرفوع حدیث میں ہے جس شخص کو اپنی نیکی اچھی لگے اور برائی اسے ناراض کرے وہ مومن ہے پھر فرماتا ہے یہ بخشش جو تمہیں عطا ہوئی ہے یہ تم پر اللہ کا فضل ہے اور اس کی نعمت ہے اللہ مستحقین ہدایت کو اور مستحقین ضلالت کو بخوبی جانتا ہے وہ اپنے اقوال و افعال میں حکیم ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

6 ۔ 2 یہ آیت اکثر مفسرین کے نزدیک حضرت ولید بن عقبہ (رض) کے بارے میں نازل ہوئی ہے جنہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو المصطلق کے صدقات وصول کرنے کے لیے بھیجا تھا لیکن انہوں نے آ کر یوں ہی رپورٹ دے دی کہ انہوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا جس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے خلاف فوج کشی کا ارادہ فرما لیا تاہم پھر پتہ لگ گیا کہ یہ بات غلظ تھی اور ولید (رض) تو وہاں گئے ہی نہیں لیکن سند اور امر واقعہ دونوں اعتبار سے یہ روایت صحیح نہیں ہے اس لیے اسے ایک صحابی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر چسپاں کرنا صحیح نہیں ہے تاہم شان نزول کی بحث سے قطع نظر اس میں ایک نہایت ہی اہم اصول بیان فرمایا گیا ہے جس کی انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر نہایت اہمیت ہے ہر فرد اور ہر حکومت سے تو پہلے اس کی تحقیق کی جائے تاکہ غلظ فہمی میں کسی کے خلاف کوئی کاروائی نہ ہو۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧] خبر کی تحقیق کی ضرورت اس صورت میں ہے جب خبردینے والے کا کردار پوری طرح معلوم نہ ہو :۔ بعض مفسرین لکھتے ہیں کہ قبیلہ بنی مصطلق جب مسلمان ہوا تو رسول اللہ نے ولید بن عقبہ کو ان سے زکوٰۃ لینے کے لئے بھیجا۔ ولید بن عقبہ کے قبیلہ اور بنی مصطلق میں پہلے سے دشمنی چلی آرہی تھی۔ جب ولید بن عقبہ ان کے ہاں گئے تو کسی وجہ سے ڈر گئے اور واپس آکر آپ سے کہہ دیا کہ وہ زکوٰۃ دینے سے انکاری ہیں۔ بلکہ وہ تو مجھے بھی قتل کردینا چاہتے تھے۔ بعض لوگوں نے یہ رائے دی کہ ان لوگوں کی سرکوبی کے لئے ان پر چڑھائی کرنا چاہئے مگر آپ اس معاملہ میں متأمل تھے۔ اسی دوران بنی مصطلق کا سردار حارث بن ضرار (ام المومنین سیدنا جویریہ کا والد) اتفاق سے آپ کے ہاں آئے۔ تو انہوں نے بتایا کہ ولید بن عقبہ تو ہمارے ہاں گئے ہی نہیں تو ان کے قتل کا سوال کیسے پیدا ہوسکتا ہے ؟ ہم مسلمان ہیں اور زکوٰۃ دینے کو تیار ہیں۔ اسی سلسلہ میں یہ آیت نازل ہوئی۔- ہمیں یہ روایت درست تسلیم کرنے میں تأمل ہے۔ کیونکہ آیت میں فاسق کا لفظ آیا ہے تو کیا ولید بن عقبہ فاسق (جس کا اگر نرم سے نرم زبان میں بھی ترجمہ کیا جائے تو ناقابل اعتماد آدمی ہی ہوسکتا ہے) تھے ؟ اور اگر ایسی ہی بات تھی تو آپ انہیں زکوٰۃ کا محصل بنا کر کیسے بھیج سکتے تھے ؟ لہذا اگر اس آیت اور اس واقعہ میں نسبت قائم نہ کی جائے تو بہتر ہے۔ نیز اس واقعہ کے بغیر بھی اس آیت کا مفہوم صاف سمجھ میں آرہا ہے۔ کیونکہ اکثر تنازعات اور لڑائی جھگڑوں کی ابتدا جھوٹی خبروں اور بےبنیاد افواہوں سے ہوتی ہے۔ اور جو لوگ جھوٹی خبر دیں، یا ان کی بلا تحقیق تشہیر کریں وہ فاسق ہیں۔ سچے مومن ایسے کام نہیں کرسکتے۔ لہذا جس شخص کی ذات پر اس کے سچا اور راست باز ہونے کا پورا اعتماد ہو اس کی خبر کو قبول کیا جاسکتا ہے۔ لیکن جو لوگ ناواقف ہوں اور ان پر اعتماد کرنے کے ذرائع موجود نہ ہوں۔ ان کی خبر کو تحقیق کے بغیر تسلیم نہیں کرنا چاہئے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو بعض دفعہ انسان ایسے فتنوں میں پڑجاتا ہے۔ جن پر بعد میں پچھتانا بھی پڑتا ہے۔ اور نقصان بھی بہت ہوجاتا ہے اپنا بھی اور دوسروں کا بھی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) یایھا الذین امنوا ان جآء کم فاسق بنبا فتبینوا : ” فاسق “ جو دین کی کسی حد سے یا تمام حدوں سے نکل جائے، جن کی پابندی لازم ہے۔ اس کا اشتقاق ” فسق الرطب “ (تازہ کھجور چھلکے سے باہر نکل گئی، یعنی پھٹ گئی) سے ہے۔ اس کا اکثر استعمال نافرمانی کے مرتکب مسلمان پر ہوتا ہے، کافر پر بھی یہ لفظ بول لیا جاتا ہے، جیسا کہ فرمایا :(افمن کان مومنا کمن کان فاسقاً لایستون) (السجدۃ :18)” تو کیا وہ شخص جو مومن ہو وہ اس کی طرح ہے جو نافرمان ہو ؟ برابر نہیں ہوتے۔ “” نبا “ کوئی اہم خبر۔ راغب نے فرمایا :” خبر کو ” نبا “ اس وقت کہتے ہیں جب اس سے کوئی عظیم فائدہ حاصل ہوتا ہو، ایسی ہی خبر سے کسی بات کا یقین یا غلبہ ظن حاصل ہوتا ہے۔ “ ‘” فتبینوا “ ” تبین یتبین “ (تفغل) لازم بھی آتا ہے، یعنی کسی چیز کا خوب واضح ہوجانا اور متعدی بھی، یعنی کسی چیز پر پوری طرح غور و فکر اور اس کی تحقیق کرنا، اس کی حقیقت معلوم کرلینا، یہاں متعدی کے معنی میں ہے۔ اکثر قراءتوں میں ” فتبینوا “ ہے، حمزہ اور کسائی کی قرأت میں ” فتبنوا “ ہے، معنی دونوں کا ایک ہی ہے۔- (٢) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایسے ادب کی تعلیم دی ہے جس کا اہتمام ان کے دین و دنیا کے معاملات میں نہایت ضروری ہے اور جس کی پابندی نہ کرنے سے بےپناہ نقصان کا اندیشہ ہے۔ وہ یہ کہ جب ان کے پاس کوئی فاسق، جو کھلم کھلا دین کی حد پامال کرنے والا ہے، کوئی اہم خبر لے کر آئے تو اسے سنتے ہی سچا نہ سمجھ لیں اور نہ ہی پوری تحقیق کے بغیر اس کی بات کا اعتبار کریں، کیونکہ جو فسق سے پرہیز نہیں کرتا وہ جھوٹ بھی بول سکتا ہے۔- (٢) ان تصیبوا قوماً بجھالۃ : اس سے معلوم ہوا کہ فاسق کی خبر پر بلاتحقیق عمل کرنا جہالت ہے، جو خطا سے بڑھ کر ہے، کیونکہ مجتہد اگر غلطی کرے تو اسے مخطی کہہ سکتے ہیں، جاہل نہیں، جب کہ بلاتحقیق فاسق کے قول پر فیصلہ کرنے والا اگر غلط فیصلہ کرے تو وہ جاہل ہے۔ (رازی) یعنی ایسا نہ ہو کہ تم کسی فاسق کی خبر پر بلاتحقیق کوئی کاروائی کر گزرو اور لاعلمی میں کچھ لوگوں کو نقصان پہنچا دو ، ان پر حملہ کر کے انہیں زخمی یا قتلک ردو، ان کی غیبت کر بیٹھو یا ان سے قطع تعلق کرلو، غرض تمہاری طرف سے انہیں کوئی بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ کتنے ہی فتنے اور فساد ہیں جو بلاتحقیق ایسی خبروں پر عمل کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں اور بات بگڑ کر کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہے۔- (٤) فتصبحوا علی مافعلتم ندمین : پھر تم اس پر پشیمان ہوجاؤ، کیونکہ جلد بازی اور بلاتحقیق کام کا نتیجہ پشیمانی ہی ہے۔- (٥) یہ آیت اس عظیم الشان علم کی بنیاد ہے جسے اصول حدیث کہا جاتا ہے، جو ہماری امت کی خصوصیت ہے اور جس کی وجہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے افعال و اقوال اور احوال و تقریرات محفوظ طریقے سے ہم تک پہنچے ہیں اور قیامت تک پہنچتے جائیں گے۔ اس علم کی تکمیل کے لئے امت مسلمہ نے ایک لاکھ سے زیادہ راویوں کے حالات زندگی، ان کا صدق و کذب، عدالت و فسق حافظ ہونا یا نہ ہونا وغیرہ سب کچھ محفوظ کردیا ہے۔ اس میں سب سے پہلے دیکھا جاتا ہے کہ کوئی خبر بیان کرنے والا فاسق ہے یا عادل اگر فاسق ہے تو اس کی خبر کی تحقیق کی جائے گی، اگر کسی دوسرے ذریعے سے اس کا درست ہونا ثابت ہوجائے تو اسے مانل یا جائے گا ورنہ اسے قبول نہیں کیا جائے گا اور اگر خبر دینے والا عادل ہے تو مزید تحقیق کی ضرورت نہیں اور اس کی خبر قبول کی جائے گی، خواہ خبر دینے والا ایک ہی ہو۔ اصطلاح میں کہا جاتا ہے کہ خبر واحد حجت ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مجہول آدمی کی خبر بھی بلاتحقیق قبول نہیں کی جائے گی، کیونکہ اس کے فاسق ہونے کا احتمال ہے۔- (٦) آیت کے الفاظ میں ” فاسق “ اور ” بنیا “ دونوں نکرہ ہیں، اس میں کسی خاص شخص کو متعین نہیں کیا گیا، بلکہ ایک عام قاعدہ بیان کیا گیا ہے کہ کوء فاسق کوئی بھی خبر لے کر تمہارے پاس آئے تو اس کی تحقیق کرلو۔ بہت سے مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ آیت ولید بن عقبہ (رض) کے بارے میں نازل ہوئی، جنہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبیلہ بنو مصطلق سے زکوۃ وصول کرنے کے لئے بھیجا۔ یہ عثمان بن عفان (رض) کے ماں کی طرف سے بھایء تھے۔ بنو مطلق اور ان کے قبیلہ میں اسلام سے پہلے سے دشمنی چلی آرہی تھی، وہ لوگ مسلح ہو کر استقبال کیلئے آئے تو یہ ڈر گئے کہ شاید یہ لوگ مجھے قتل کرنا چاہتے ہیں اور وہیں سے واپس آکر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ش کیا ت کی کہ بنو مصطلق نے زکوۃ دینے سے انکار کردیا ہے، بلکہ وہ مجھے قتل کرنا چاہتے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ سن کر بنو مصطلق کی طرف ایک لشکر روانہ فرمایا، ابھی یہ لشکر راستے میں تھا کہ ادھر سے بنو مصطلق کے سردار حارث بن ضرار (رض) (ام المومنین جویریہ (رض) کے والد) اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ آتے نظر آئے۔ قریب پہنچ کر انہوں نے لشکر والوں سے دریافت کیا کہ آپ لوگ کدھر جا رہے ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ تمہاری طرف ہی جا رہے ہیں۔ انہوں نے سبب پوچھا تو لشکروں والوں نے بتایا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ولید بن عقبہ (رض) کو تمہارے پاس بھیجا اور تم نے زکوۃ دینے سے انکار کردیا، بلکہ اسے قتل کرنے پر آمادہ ہوگئے۔ انہوں نے کہا، اس ذات کی قسم جس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حق دے کر مبعوث کیا ہے ولید نہ ہمارے پاس آیا اور نہ ہم نے اس کی شکل دیکھی۔ پھر یہی بات انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر کہی اور مزید کہا کہ ہم تو خود آپ کی خدمت میں اس لئے حاضر ہوئے ہیں کہ آپ کی طرف سے کوئی زکوۃ وصول کرنے نہیں پہنچا اور ہم ڈر گئیک ہ کہیں آپ ہم سے ناراض نہ ہوگئیہوں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ یہ ان روایات کا خلاصہ ہے جو ابن کثیر وغیرہ نے قنل فرمائی ہیں۔- ٧۔ عام مفسرین نے اس واقعہ کو بنیاد بنا کر ولید بن عقبہ (رض) کو فاسق اور ان کی خبر کو تحقیق کے بغیر ناقابل قبول قرار دیا ہے۔ بعض کج دماغوں نے اسے اس مسلم قاعدے پر طعن کا ذریعہ بنایا ہے کہ اصحاب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب کے سب عادل ہیں اور کسی سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جھوٹ ثابت نہیں، اس لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا صحابی کوئی بھی ہو اس کی بیان کردہ ہر روایت معتبر ہے۔- حقیقت یہ ہے کہ اس آیت کو ولید بن عقبہ (رض) سے متعلق قرار دینے والی کسی بھی روایت کی سند صحیح نہیں۔ ابن کثیر (رح) نے اس مقام پر چادر روایتیں نقل کی ہیں اور ان میں سب سے بہتر حارث بن ضرار خزاعی (رض) کی روایت کو قرار دیا ہے۔ اس کی سند یہ ہے :” قال الامام احمد فی مسندہ حدثنا محمد بن سابق حدثنا عیسیٰ بن دینار حدثنا ابی انہ سمع الحارث بن ضرار الخراعی قال “ (مسند احمد :289 3، ح :18359) تفسیر ابن کثیر کے محقق سامی بن محمد سلامہ لکھتے ہیں :” بہت سے مفسرین اس قول کی طرف گئے ہیں (کہ یہ آیت ولید بن عقبہ (رض) کے بارے میں نازل ہوئی ہے) حالانکہ اس قول میں نظر ہے، کیونکہ جتنی بھی روایات میں یہ قصہ بیان ہوا ہے وہ سب معلول ہیں (ان میں خرابی ہے) ان میں سب سے بہتر امام احمد کی حارث بن ضرار خزاعی (رض) سے روایت ہے ۔ اس کی سند میں ایک مجہول راوی ہے اور قاضی ابوبکر بن العربی نے اپنی کتاب ” العواصم من القواصم (ص : ١٠٢) “ میں اس قصے کا انکار کیا ہے۔ “- تفسیر ابن کثیر کی تخریج ” ھدایۃ المستنیر “ (تالیف ابو عبدالرحمٰن عادل بن یوسف العزازی) میں ہے :” اس روایت میں دینار کوفی ہے، حافظ نے فرمایا، مقبول ہے، یعنی جب اس کی کوئی متابعت موجود ہو۔ “ ظاہر ہے یہاں کسی نے اس کی متابعت نہیں کی، اس لئے اس کی یہ روایت قبول نہیں۔ مسند احمد کے محققین نے اس روایت پر لکھا ہے :” حارث بن ضرار کے اسلام کا قصہ چھوڑ کر باقی روایت اپنے شواہد کی وجہ سے حسن ہے اور یہ سند ضعیف ہے، کیونکہ عیسیٰ کا والد دینار مجہول ہے۔ وہ کوفے کا رہنے والا ہے اور عمرو بن حارث کا مولیٰ ہے، اس سے اس کے بیٹے عیسیٰ نے اکیلے ہی یہ روایت بیان کی ہے اور ابن المدینی نے فرمایا :” لا اغرفہ “ (میں اسے نہیں پہچانتا) اس کے باوجود ابن حبان نے اس کا ذکر ” الثقات “ میں کیا ہے۔ “- اس آیت کے ولید بن عقبہ (رض) کے متعلق نازل ہونے کی دوسری روایت ابن کثیر نے ام سلمہ (رض) کو بیان کی ہے۔ سے ضعیف ہے۔ “ ابن کثیر میں اس مفہوم کی تیسری روایت ابن عباس (رض) سے مروی ہے، جو عوفی کی وجہ سے ضعیف ہے۔ چوتھی روایت مجاہد اور قتادہ نے بیان کی ہے جو تابعی ہیں اور ان کی روایت مرسل ہے جو حجت نہیں۔ آپ غور فرمائیں یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس کی سب سے بہتر روایت کو حسن کہنے والے بھی اس کی سند کے ضعیف ہونے کا اعتراف کرتے ہیں، حسن صرف شواہد کی وجہ سے کہتے ہیں اور شواہد بھی ایسے کہ سب کی سند ضعیف ہے۔ ایسی کمزور روایت کے ساتھ ایک صحابی کو فاسق قرار دینا کیسے درست ہوسکتا ہے، جو اس جماعت کا فرد ہے جسے اللہ تعالیٰ کی رضا کی سند حاصل ہوچکی ہے۔- (٨) اگر اس قصے کو درست مان لیا جائے تو بھی اس سے ولید بن عقبہ (رض) کا فاسق ہونا لازم نہیں آتا۔ سب سے پہلے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا صدقات کی وصولی کے لئے ان کا انتخاب ان کے فاسق ہونے کی نفی کرتا ہے، کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایسے اعمال کو صدقات وغیرہ کی وصولی پر مقرر فرماتے تھے جو نہایت امین ہوتے تھے، جیسا کہ ابوعبیدہ امین ہذہ الامہ کو یمن کی طرف بھیجنے سے ظاہر ہے۔ پھر ولید (رض) کو یہ کہنا کہ بنو مصطلق نے زکوۃ دینے سے انکار کردیا ہے اور میرے قتل کا ارادہ کیا ہے، اس کی وجہ خود اس روایت میں موجود ہے کہ ان کے درمیان سابقہ دشمین موجود تھی اور مسلح افراد کی بہت بڑی تعداد کو دیکھ کر ان کے دل میں یہ خیال پیدا ہوگیا کہ یہ مجھے قتل کرنے آئے ہیں اور زکوۃ دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ایسا گمان پیدا ہونا فطری بات ہے۔ آپ اسے گمان کی غلطی کہہ سکتے ہیں مگر جھوٹ یا فسق نہیں کہہ سکتے۔ رہا آیت کا نزول تو اس میں نہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ولید فاسق ہے نہ اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرمایا۔ آیت میں مسلمانوں کو ایک حکم دیا گیا ہے کہ ان کے پاس کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کرلیا کریں، اندھا دھند اس پر کارروائی نہ کریں۔- (٩) شیخ عبدالرحمان معلی یمانی نے ” الانوار الکاشفہ (ص : ٢٦٣) “ میں ولید بن عقبہ (رض) کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ثابت کیا ہے کہ ولید بن عقبہ (رض) سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کوئی حدیث منقول ہی نہیں، اس لئے اس واقعہ سے کسی صحابی کی نقل کردہ روایت کا مردود ہونا لازم ہی نہیں آتا، کیونکہ انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی روایت نقل ہی نہیں کی۔ شیخ معلمی نے ان سے مروی دوسری روایات کے علاوہ اس روایت کی بھی نفی کی ہے جو مسند احمد میں ہے کہ ولید (رض) بیان کرتے ہیں :(لما فتح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ جعل اھل مکہ یاتونہ بصبیانھم فیمسع علی رؤوسھم ویدعولھم، فجی بی الیہ وانی مطلب بالخلوق، فلم یمس علی راسی ، ولم یمنعہ من ذلک الا ان امی خلقتنی، بالخلوق فلم یمشنی من اجل الخلوق) (مسند احمد :32 3، ح :16389)” جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ فتح کیا تو اہل مکہ اپنے بچے لے کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آنے لگے، آپ ان کے سر پر ہاتھ پھیرتے اور ان کے لئے برکت کی دعا کرتے۔ مجھے بھی آپ کے پاس لایا گیا مگر آپ نے میرے سر پر ہاتھ نہیں پھیرا اور آپ کے ہاتھ نہ پھیرنے کی وجہ یہی بنی کہ میری ماں نے مجھے خلوق (زعفران سے مرکب ایک خوشبو) لگائی تھی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خلوق کی وجہ سے مجھے ہاتھ نہیں لگایا۔ “ مسند احمد کے محققین نے لکھا :” اس کی سند عبداللہ ہمدانی کے مجہول ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے، کنیت اس کی ابو موسیٰ ہے۔ اس سے روایت میں ثابت بن حجاج الکلابی منفرد ہے اور ذہبی اور ابن حجر نے تقریب میں اسے مجہول کہا ہے۔ بخاری نے ” تاریخ کبیر “ (٥ ٢٢٤) میں کہا ہے :” لایصخ حدیثہ “ (اس کی حدیث صحیح نہیں) اور ابن عبدالبر نے کہا ہے کہ یہ ابو موسیٰ مجہول ہے اور یہ خبر منکر ہے، صحیح نہیں۔ “ اگر اس روایت کو صحیح مانا جائے تو ولید بن عقبہ (رض) کو فاسق کہنے کی بنیادی ختم ہوجاتی ہے، کیونکہ اس سے فتح مکہ کے موقع پر ولید کا بچہ ہونا ثابت ہوتا ہے، جسے صدقات کا عامل بنا کر بھیجنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔- ١٠۔ بعض لوگوں نے صحیح مسلم (١٧٠٧) وغیرہ کی اس روایت کی وجہ سے ولید بن عقبہ (رض) کو فاسق قرار دیا ہے جس میں ہے کہ انہوں نے شراب پی کر صبح کی جماعت دو رکعتیں پڑھانے کے بعد کہا کہ مزید پڑھاؤں، جس پر عثمان (رض) نے ان پر شراب کی حد لگائی۔ واضح رہے کہ بعض روایات میں دو کے بجائے چار رکعتیں پڑھانے کا ذکر ہے مگر ان میں سے کوئی روایت بھی صحیح نہیں۔ بعض اہل علم نے لکھا :” علامہ آلوسی نے روح المعانی میں فرمایا :” اس معاملے میں حق بات ہے وہ جس کی طرف جمہور علماء گئے ہیں کہ صحابہ کرام معصوم نہیں ہیں، ان سے گناہ کبیرہ بھی سر زد ہوسکتا ہے جو فسق ہے اور اس گناہ کے وقت ان کے ساتھ وہی معاملہ کیا جائے گا جس کے وہ مستحق ہیں، یعنی شرعی سزا جاری کی جائے گی، لیکن اہل سنت و الجماعہ کا عقیدہ قرآن و سنت کی نصوص کی بنا پر یہ ہے کہ صحابی سے گناہ تو ہوسکتا ہے مگر کوئی صحابی ایسا نہیں جو گناہ سے توبہ کر کے پاک نہ ہوگیا ہو۔ قرآن کریم نے علی الاطلاق ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی رضا کا فیصلہ فرما دیا ہے : فرمایا :(رضی اللہ عنھم و رضواعنہ واعدالھم جنت تجری تحتھا الانھر خلدین فیھا ابداً ذلک الفوز العظیم) (التوبۃ : ١٠٠)” اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اس سے راضی ہوگئے اور اس نے ان کے لئے ایسے باغات تیار کئے ہیں جن کے تلے نہریں بہتی ہیں، ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں ہمیشہ۔ یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔ “ اور اللہ تعالیٰ ک ی رضا گناہ کے معاف ہونے کے بغیر نہیں ہوتی، جیسا کہ قاضی ابویعلیٰ نے فرمایا :” رضا اللہ تعالیٰ کی ایک صفت قدیمہ ہے، وہ پانی رضا کا اعلان صرف انہی کے لئے فرماتے ہیں جن کے متعلق وہ جانتے ہیں کہ ان کی وفات ان کاموں پر ہوگی جن پر اللہ تعالیٰ راضی ہے۔ “ (کذا فی الصارم المسلول لابن تیمیۃ) خلاصہ یہ ہے کہ صحابہ کرام (رض) کی عظیم الشان جماعت میں سے اگر کسی سے کبھی کوئی گناہ سر زد ہوا بھی ہے تو اسے فوراً توبہ کی توفیق نصیب ہوئی ہے۔ حق تعالیٰ نے ان کو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت کی برکت سے ایسا بنادیا تھا کہ شریعت ان کی طبیعت بن گئی تھی، خلاف شرع کوئی کام یا گناہ سر زد ہونا انتہائی شاذ و نادر تھا۔ ان کے اعمال صالحہ، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور سالام پر اپنی جانیں قربان کرنا اور ہر کام میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اتباع کو وظیفہ زندگی بنانا اور اس کیلئے ایسے مجاہدات کرنا جن کی نظیر پچھلی امتوں میں نہیں ملت، ی ان بیشمار اعمال صالحہ اور فضائل و کمالات کے مقابلے میں عمر بھر میں کسی گناہ کا سرزد ہوجانا اس کو خود ہی کالعدم کردیتا ہے۔ دوسرے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت و عظمت اور ادنیٰ سے گناہ کے وقت ان کا خوف ، خشیت اور فوراً توبہ کرنا بلکہ اپنے آپ کو سزا کے لئے خود پیش کردینا روایات حدیث میں مشوہر و معروف ہے اور بحکم حدیث گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہوجاتا ہے جیسے گناہ کیا ہی نہیں۔ تیسرے قرآن کے ارشاد کے مطابق اعمال صالحہ اور حسنات خود بھی گناہوں کا کفار ہ ہوجاتے ہیں، جیسا کہ فرمایا :(ان الحسنت یذھبن السیات) (ھود : ١١٣)” بیشک نیکیاں برائیوں کو لے جاتی ہیں۔ “ خصوصاً جب ان کی حسنات عام نقل کیا ہے، وہ فرماتے ہیں :(المشھد رجل منھم مع رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یعبر فیہ وجھہ خیر من عمل احدکم عمرہ ولو عمر عمر نوح) (ابوداؤد، السنتہۃ باب فی الخلفاء : ٣٦٥٠ قال الالبانی صحیح) ” اللہ کی قسم ان میں سے کسی شخص کا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کسی جہاد میں شریک ہونا جس میں ان کے چہرے پر غبار پڑگیا ہو، تم میں سے کسی شخص کی عمر بھر کی عبادت و اطاعت سے افضل ہے۔ اگرچہ اس کو نوح (علیہ السلام) کی عمر دے دی گئی ہو۔ “ اس لئے ان سے صدور گناہ کے وقتا گرچہ سزا وغیرہ میں معاملہ وہی کیا گیا جو اس جرم کے لئے مقرر تھا، مگر اس کے باوجود بعد میں کسی کے لئے جائز نہیں کہ ان میں سے کسی کو فاسق قرار دے۔ اس لئے اگر بنی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں کسی صحابی سے کوئی گناہ موجب فسق سرزد بھی ہو اور اس وقت ان کو فاسق کہا بھی گیا ہو تو اس سے یہ جائز نہیں ہوجاتا کہ اس فسق کو ان کے لئے ہمیشہ کا حکم سمجھ کر معاذ اللہ فاسق کہا جائے۔ “ (کذافی الروح)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اے ایمان والو اگر کوئی شریر آدمی تمہارے پاس کوئی خبر لائے ( جس میں کسی کی شکایت ہو) تو (بدون تحقیق کے اس پر عمل نہ کیا کرو بلکہ اگر عمل کرنا مقصود ہو تو) خوب تحقیق کرلیا کرو کبھی کسی قوم کو نادانی سے کوئی ضرر نہ پہنچا دو پھر اپنے کئے پر پچھتانا پڑے۔- معارف و مسائل - شان نزول :- اس آیت کے نزول کا واقعہ ابن کثیر نے بحوالہ مسند احمد یہ نقل کیا ہے کہ قبیلہ بنی المصطلق کے رئیس حارث بن ضرار بن ابی ضرار جن کی صاحبزادی حضرت جویریہ بنت حارث امہات المومنین میں سے ہیں یہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے مجھے اسلام کی دعوت دی اور زکوٰة ادا کرنے کا حکم دیا، میں نے اسلام کو قبول کیا اور زکوٰة ادا کرنے کا اقرار کیا اور عرض کیا کہ اب میں اپنی قوم میں جا کر ان کو بھی اسلام اور ادائے زکوٰة کی طرف دعوت دوں گا۔ جو لوگ میری بات مان لیں گے اور زکوٰة ادا کریں گے میں ان کی زکوٰة جمع کرلوں گا اور آپ فلاں مہینہ کی فلاں تاریخ تک اپنا کوئی قاصد میرے پاس بھیج دیں تاکہ جو رقم زکوٰة کی میرے پاس جمع ہوجائے اس کو سپرد کر دوں، پھر جب حارث نے حسب وعدہ ایمان لانے والوں کی زکوٰة جمع کرلی اور وہ مہینہ اور تاریخ جو قاصد بھیجنے کے لئے طے ہوئی تھی گزر گئی اور آپ کا کوئی قاصد نہ پہنچا تو حارث کو یہ خطرہ پیدا ہوا کہ شاید رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم سے کسی بات پر ناراض ہیں ورنہ یہ ممکن نہیں تھا کہ آپ وعدے کے مطابق اپنا آدمی نہ بھیجتے۔ حارث نے اس خطرہ کا ذکر اسلام قبول کرنے والوں کے سرداروں سے کیا اور ارادہ کیا کہ یہ سب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوجاویں۔ ادھر واقعہ یہ ہوا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مقررہ تاریخ پر ولید بن عقبہ کو اپنا قاصد بنا کر زکوٰة وصول کرنے کے لئے بھیج دیا تھا مگر ولید بن عقبہ کو راستہ میں یہ خیال آیا کہ اس قبیلہ کے لوگوں سے میری پرانی دشمنی ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ مجھے قتل کر ڈالیں اس خوف کے سبب وہ راستہ ہی سے واپس ہوگئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جا کر یہ کہا کہ ان لوگوں نے زکوٰة دینے سے انکار کردیا اور میرے قتل کا ارادہ کیا اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غصہ آیا اور حضرت خالد بن ولید کی سر کردگی میں ایک دستہ مجاہدین کا روانہ کیا، ادھر یہ دستہ مجاہدین کا روانہ ہوا ادھر سے حارث مع اپنے ساتھیوں کے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضری کے لئے نکلے، مدینہ کے قریب دونوں کی ملاقات ہوئی۔ حارث نے ان لوگوں سے پوچھا کہ آپ کن لوگوں کی طرف بھیجے گئے ہو۔ ان لوگوں نے کہا کہ ہم تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں۔ حارث نے سبب پوچھا تو ان کو واقعہ ولید بن عقبہ کے بھیجنے کا اور ان کی واپسی کا بتلایا گیا اور یہ کہ ولید بن عقبہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے یہ بیان دیا ہے کہ بنی المصطلق نے زکوٰة دینے سے انکار کردیا اور میرے قتل کا منصوبہ بنایا۔ حارث نے یہ سن کر کہا کہ قسم ہے اس ذات کی جس نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رسول برحق بنا کر بھیجا ہے میں نے ولید بن عقبہ کو دیکھا تک نہیں اور نہ وہ میرے پاس آئے۔ اس کے بعد حارث جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ کیا تم نے زکوٰة دینے سے انکار کیا اور میرے قاصد کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ حارث نے کہا کہ ہرگز نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو پیغام حق دے کر بھیجا ہے نہ وہ میرے پاس آئے نہ میں نے ان کو دیکھا۔ پھر جب مقررہ وقت پر آپ کا قاصد نہ پہنچا تو مجھے خطرہ ہوا کہ شاید مجھ سے کوئی قصور ہوا جس پر حضور ناراض ہوئے اس لئے میں حاضر خدمت ہوا۔ حارث فرماتے ہیں کہ اس پر سورة حجرات کی آیت نازل ہوئی (ابن کثیر) - اور بعض روایات میں ہے کہ ولید بن عقبہ حسب الحکم بنی المصطلق میں پہنچے، اس قبیلہ کے لوگوں کو چونکہ یہ معلوم تھا کہ اس تاریخ پر حضور کا قاصد آوے گا یہ تعظیماً بستی سے باہر نکلے کہ ان کا استقبال کریں۔ ولید بن عقبہ کو شبہ ہوگیا کہ یہ شاید پرانی دشمنی کی وجہ سے مجھے قتل کرنے آئے ہیں یہیں سے واپس ہوگئے اور جا کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنے گمان کے مطابق یہ عرض کردیا کہ وہ لوگ زکوٰة دینے کے لئے تیار نہیں، بلکہ میرے قتل کے در پے ہوئے۔ اس پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت خالد بن ولید کو بھیجا اور یہ ہدایت فرمائی کہ خوب تحقیق کرلیں اس کے بعد کوئی اقدام کریں۔ خالد بن ولید نے بستی سے باہر رات کو پہنچ کر قیام کیا اور تحقیق حال کے لئے چند آدمی بطور جاسوس کے خفیہ بھیج دیئے۔ ان لوگوں نے آ کر خبر دی کہ یہ سب لوگ اسلام و ایمان پر قائم، نماز و زکوٰة کے پابند ہیں اور کوئی بات خلاف اسلام نہیں پائی گئی، خالد بن ولید نے واپس آ کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ سارا واقعہ بتلایا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی (یہ ابن کثیر کی متعدد روایات کا خلاصہ ہے )- اس آیت سے یہ ثابت ہوا کہ کوئی شریر فاسق آدمی اگر کسی شخص یا قوم کی شکایت کرے ان پر کوئی الزام لگائے تو اس کی خبر یا شہادت پر بغیر مکمل تحقیق کے عمل کرنا جائز نہیں - آیت سے متعلقہ احکام و مسائل :- امام جصاص نے احکام القرآن میں فرمایا کہ اس آیت سے ثابت ہوا کہ کسی فاسق کی خبر کو قبول کرنا اور اس پر عمل کرنا اس وقت تک جائز نہیں جب تک دوسرے ذرائع سے تحقیق کر کے اس کا صدق ثابت نہ ہوجائے، کیونکہ اس آیت میں ایک قرات تو فتثبتوا کی ہے جس کے معنی ہیں کہ اس پر عمل کرنے اور اقدام میں جلدی نہ کرو بلکہ ثابت قدم رہو جب تک دوسرے ذرائع سے اس کا صدق ثابت نہ ہوجائے اور جب فاسق کی خبر کو قبول کرنا جائز نہ ہوا تو شہادت کو قبول کرنا بدرجہ اولیٰ ناجائز ہوگا کیونکہ ہر شہادت ایک خبر ہوتی ہے جو حلف و قسم کے ساتھ موکد کی جاتی ہے، اسی لئے جمہور علماء کے نزدیک فاسق کی خبر یا شہادت شرعاً مقبول نہیں، البتہ بعض معاملات اور حالات میں فاسق کی خبر اور شہادت کو بھی قبول کرلیا جاتا ہے وہ اس حکم سے مستثنیٰ ہیں کیونکہ آیت قرآن میں اس حکم کی ایک خاص علت منصوص ہے یعنی اَنْ تُصِيْبُوْا قَوْمًۢا بِجَــهَالَةٍ ، تو جن معاملات میں یہ علت موجود نہیں وہ آیت کے حکم میں داخل نہیں یا مستثنیٰ ہیں۔ مثلاً یہ کہ کوئی فاسق بلکہ کافر بھی کوئی چیز لائے اور یہ کہے کہ فلاں شخص نے یہ آپ کو ہدیہ بھیجا ہے تو اس کی خبر پر عمل جائز ہے اس کی مزید تفصیل کتب فقہ معین الحکام وغیرہ میں ہے اور احقر نے احکام القرآن عربی ضرب سادس میں اس کی تفصیل لکھ دی ہے اہل علم اس میں دیکھ سکتے ہیں۔- ایک اہم سوال و جواب متعلقہ عدالت صحابہ :- اس آیت کا ولید بن عقبہ کے متعلق نازل ہونا صحیح روایات سے ثابت ہے اور آیت میں ان کو فاسق کہا گیا ہے اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ میں کوئی فاسق بھی ہوسکتا ہے اور یہ اس مسلمہ اور متفق علیہ ضابطہ کے خلاف ہے کہ الصحابة کلہم عدول، یعنی صحابہ کرام سب کے سب ثقہ ہیں ان کی کسی خبر و شہادت پر کوئی گرفت نہیں کی جاسکتی۔ علامہ آلوسی نے روح المعانی میں فرمایا کہ اس معاملے میں حق بات وہ ہے جس کی طرف جمہور علماء گئے ہیں کہ صحابہ کرام معصوم نہیں ان سے گناہ کبیرہ بھی سر زد ہوسکتا ہے جو فسق ہے اور اس گناہ کے وقت ان کے ساتھ وہی معاملہ کیا جائے گا جس کے وہ مستحق ہیں یعنی شرعی سزا جاری کی جائے گی اور اگر کذب ثابت ہوا تو ان کی خبر و شہادت رد کردی جائے گی لیکن عقیدہ اہل سنت والجماعت کا نصوص قرآن و سنت کی بنا پر یہ ہے کہ صحابی سے گناہ تو ہوسکتا ہے مگر کوئی صحابی ایسا نہیں جو گناہ سے توبہ کر کے پاک نہ ہوگیا ہو۔ قرآن کریم نے علی الاطلاق ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی رضا کا فیصلہ صادر فرما دیا ہے (رض) و رضواعنہ الآیتہ، اور رضائے الٰہی گناہ ہونے کی معافی کے بغیر نہیں ہوتی، جیسا کہ قاضی ابویعلی نے فرمایا کہ رضا اللہ تعالیٰ کی ایک صفت قدیمہ ہے وہ اپنی رضا کا اعلان صرف انہی کے لئے فرماتے ہیں جن کے متعلق وہ جانتے ہیں کہ ان کی وفات موجبات رضا پر ہوگی (کذا فی الصارم المسلول الابن تیمیہ)- خلاصہ یہ ہے کہ صحابہ کرام کی عظیم الشان جماعت میں سے گنے چنے چند آدمیوں سے کبھی کوئی گناہ سرزد بھی ہوا ہے تو ان کو فوراً توبہ نصیب ہوئی ہے۔ حق تعالیٰ نے ان کو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت کی برکت سے ایسا بنادیا تھا کہ شریعت ان کی طبیعت بن گئی تھی۔ خلاف شرع کوئی کام یا گناہ سرزد ہونا انتہائی شاذ و نادر تھا ان کے اعمال صالحہ، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اسلام پر اپنی جانیں قربان کرنا اور ہر کام میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اتباع کو وظیفہ زندگی بنانا اور اس کے لئے ایسے مجاہدات کرنا جن کی نظیر پچھلی امتوں میں نہیں ملتی۔ ان بیشمار اعمال صالحہ اور فضائل و کمالات کے مقابلے میں عمر بھر میں کسی گناہ کا سرزد ہوجانا اس کو خود ہی کالعدم کردیتا ہے۔ دوسرے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت و عظمت اور ادنیٰ سے گناہ کے وقت ان کا خوف خشیت اور فوراً توبہ کرنا بلکہ اپنے آپ کو سزا کے لئے خود پیش کردینا، کہیں اپنے آپ کو مسجد کے ستون سے باندھ دیا وغیرہ روایات حدیث میں معروف مشہور ہیں اور بحکم حدیث گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہوجاتا ہے کہ جیسے گناہ کیا ہی نہیں۔ تیسرے حسب ارشاد قرآن اعمال صالحہ اور حسنات خود بھی گناہوں کا کفارہ ہوجاتے ہیں (آیت) ان الحسنت یذھبن السیات خصوصاً جبکہ ان کے حسنات عام لوگوں کی طرح نہیں بلکہ ان کا حال وہ ہے جو ابوداؤ و ترمذی نے حضرت سعید بن زید سے نقل کیا ہے کہ (آیت) واللہ لمشھد رجل منھم مع النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یغبر فیہ وجھہ خیر من عمل احدکم و لو عمر عمر نوح، یعنی خدا کی قسم ان میں سے کسی شخص کا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کسی جہاد میں شریک ہونا جس میں ان کے چہرہ پر غبار پڑگیا ہو تمہاری عمر بھر کی اطاعت و عبادت سے افضل ہے اگرچہ اس کو عمر نوح (علیہ السلام) دے دیگئی ہو۔ اس لئے ان سے صدور گناہ کے وقت اگرچہ سزا وغیرہ میں معاملہ وہی کیا گیا جو اس جرم کے لئے مقرر تھا مگر اس کے باوجود بعد میں کسی کے لئے جائز نہیں کہ ان میں سے کسی کو فاسق قرار دے، اس لئے اگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں کسی صحابی سے کوئی گناہ موجب فسق سر زد بھی ہو اور اس وقت ان کو فاسق کہا بھی گیا تو اس سے یہ جائز نہیں ہوجاتا کہ اس فسق کو ان کے لئے مستمر سمجھ کر معاذ اللہ فاسق کہا جائے (کذافی الروح)- اور آیت مذکورہ میں تو قطعاً یہ ضروری نہیں کہہ ولید بن عقبہ کو فاسق کہا گیا ہو سبب نزول خواہ ان کا معاملہ ہی سہی مگر لفظ فاسق ان کے لئے استعمال کیا گیا یہ ضروری نہیں، وجہ یہ ہے کہ اس واقعہ سے پہلے تو ولید بن عقبہ سے کوئی ایسا کام ہوا نہ تھا جس کے سبب ان کو فاسق کہا جائے اور اس واقعہ میں بھی جو انہوں نے بنی المصطلق کے لوگوں کی طرف ایک بات غلط منسوب کی وہ بھی اپنے خیال کے مطابق صحیح سمجھ کر کی اگرچہ واقع میں غلط تھی اس لئے آیت مذکورہ کا مطلب بےتکلف وہ بن سکتا ہے جو خلاصہ تفسیر میں اوپر گزرا ہے کہ اس آیت نے قاعدہ کلیہ فاسق کی خبر کے نامقبول ہونے کے متعلق بیان کیا ہے اور واقعہ مذکورہ پر اس آیت کے نزول سے اس کی مزید تاکید اس طرح ہوگئی کہ ولید بن عقبہ اگرچہ فاسق نہ تھے مگر ان کی خبر قرائن قویہ کے اعتبار سے ناقابل قبول نظر آئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے محض ان کی خبر پر کسی اقدام سے گریز کر کے خالد بن ولید کو تحقیقات پر مامور فرما دیا تو جب ایک ثقہ اور صالح آدمی کی خبر میں قرائن کی بنا پر شبہ ہوجانے کا معاملہ یہ ہے کہ اس پر قبل از تحقیق عمل نہیں کیا گیا تو فاسق کی خبر کو قبول نہ کرنا اور اس پر عمل نہ کرنا اور زیادہ واضح ہے۔ عدالت صحابہ کی مکمل بحث احقر نے اپنی کتاب مقام صحابہ میں بیان کردی جو شائع ہوچکی ہے اور اس کا کچھ حصہ اگلی آیت (آیت) وان طآئفتن من المومنین الآیة کے تحت میں بھی آجائے گا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَاۗءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوْٓا اَنْ تُصِيْبُوْا قَوْمًۢا بِجَــہَالَۃٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰي مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِيْنَ۝ ٦- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] .- وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - جاء - جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، - ( ج ی ء ) جاء ( ض )- جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔- فسق - فَسَقَ فلان : خرج عن حجر الشّرع، وذلک من قولهم : فَسَقَ الرُّطَبُ ، إذا خرج عن قشره «3» ، وهو أعمّ من الکفر . والفِسْقُ يقع بالقلیل من الذّنوب وبالکثير، لکن تعورف فيما کان کثيرا، وأكثر ما يقال الفَاسِقُ لمن التزم حکم الشّرع وأقرّ به،- ( ف س ق ) فسق - فسق فلان کے معنی کسی شخص کے دائر ہ شریعت سے نکل جانے کے ہیں یہ فسق الرطب کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی گدری کھجور کے اپنے چھلکے سے باہر نکل آنا کے ہیں ( شرعا فسق کا مفہوم کفر سے اعم ہے کیونکہ فسق کا لفظ چھوٹے اور بڑے ہر قسم کے گناہ کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اگر چہ عرف میں بڑے گناہوں کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اور عام طور پر فاسق کا لفظ اس شخص کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو احکام شریعت کا التزام اور اقرار کر نیکے بعد تمام یا بعض احکام کی خلاف ورزی کرے۔- نبأ - خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی - يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص 67 68] ، - ( ن ب ء ) النبا ء - کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے - مبینبَيَان - والبَيَان : الکشف عن الشیء، وهو أعمّ من النطق، لأنّ النطق مختص بالإنسان، ويسمّى ما بيّن به بيانا . قال بعضهم : - البیان يكون علی ضربین :- أحدهما بالتسخیر، وهو الأشياء التي تدلّ علی حال من الأحوال من آثار الصنعة .- والثاني بالاختبار، وذلک إما يكون نطقا، أو کتابة، أو إشارة . فممّا هو بيان بالحال قوله : وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف 62] ، أي : كونه عدوّا بَيِّن في الحال . تُرِيدُونَ أَنْ تَصُدُّونا عَمَّا كانَ يَعْبُدُ آباؤُنا فَأْتُونا بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [إبراهيم 10] .- وما هو بيان بالاختبار فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 43- 44] ، وسمّي الکلام بيانا لکشفه عن المعنی المقصود إظهاره نحو : هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران 138] .- وسمي ما يشرح به المجمل والمبهم من الکلام بيانا، نحو قوله : ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنا بَيانَهُ [ القیامة 19] ، ويقال : بَيَّنْتُهُ وأَبَنْتُهُ : إذا جعلت له بيانا تکشفه، نحو : لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 44] ، وقال : نَذِيرٌ مُبِينٌ [ ص 70] ، وإِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات 106] ، وَلا يَكادُ يُبِينُ [ الزخرف 52] ، أي : يبيّن، وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف 18] .- البیان کے معنی کسی چیز کو واضح کرنے کے ہیں اور یہ نطق سے عام ہے ۔ کیونکہ نطق انسان کے ساتھ مختس ہے اور کبھی جس چیز کے ذریعہ بیان کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی بیان کہہ دیتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ بیان ، ، دو قسم پر ہے ۔ ایک بیان بالتحبیر یعنی وہ اشیا جو اس کے آثار صنعت میں سے کسی حالت پر دال ہوں ، دوسرے بیان بالا ختیار اور یہ یا تو زبان کے ذریعہ ہوگا اور یا بذریعہ کتابت اور اشارہ کے چناچہ بیان حالت کے متعلق فرمایا ۔ وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف 62] اور ( کہیں ) شیطان تم کو ( اس سے ) روک نہ دے وہ تو تمہارا علانیہ دشمن ہے ۔ یعنی اس کا دشمن ہونا اس کی حالت اور آثار سے ظاہر ہے ۔ اور بیان بالا ختیار کے متعلق فرمایا : ۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ اگر تم نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ اور ان پیغمروں ( کو ) دلیلیں اور کتابیں دے کر ( بھیجا تھا ۔ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 43- 44] اور ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو ( ارشادات ) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ اور کلام کو بیان کہا جاتا ہے کیونکہ انسان اس کے ذریعہ اپنے مافی الضمیر کو ظاہر کرتا ہے جیسے فرمایا : ۔ هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران 138] ( قرآن لوگوں کے لئے بیان صریح ہو ۔ اور مجمل مہیم کلام کی تشریح کو بھی بیان کہا جاتا ہے جیسے ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنا بَيانَهُ [ القیامة 19] پھر اس ( کے معافی ) کا بیان بھی ہمارے ذمہ ہے ۔ بینہ وابنتہ کسی چیز کی شروع کرنا ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 44] تاکہ جو ارشادت لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ ص 70] کھول کر ڈرانے والا ہوں ۔إِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات 106] شیہ یہ صریح آزمائش تھی ۔ وَلا يَكادُ يُبِينُ [ الزخرف 52] اور صاف گفتگو بھی نہیں کرسکتا ۔ وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف 18] . اور جهگڑے کے وقت بات نہ کرسکے ۔- ( صاب) مُصِيبَةُ- والمُصِيبَةُ أصلها في الرّمية، ثم اختصّت بالنّائبة نحو : أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران 165] ، فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌالنساء 62] ، وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 166] ، وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری 30] ، وأصاب : جاء في الخیر والشّرّ. قال تعالی:إِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِنْ تُصِبْكَ مُصِيبَةٌ [ التوبة 50] ، وَلَئِنْ أَصابَكُمْ فَضْلٌ مِنَ اللَّهِ [ النساء 73] ، فَيُصِيبُ بِهِ مَنْ يَشاءُ وَيَصْرِفُهُ عَنْ مَنْ يَشاءُ [ النور 43] ، فَإِذا أَصابَ بِهِ مَنْ يَشاءُ مِنْ عِبادِهِ [ الروم 48] ، قال :- الإِصَابَةُ في الخیر اعتبارا بالصَّوْبِ ، أي : بالمطر، وفي الشّرّ اعتبارا بِإِصَابَةِ السّهمِ ، وکلاهما يرجعان إلى أصل .- مصیبۃ اصل میں تو اس تیر کو کہتے ہیں جو ٹھیک نشانہ پر جا کر بیٹھ جائے اس کے بعد عرف میں ہر حادثہ اور واقعہ کے ساتھ یہ لفظ مخصوص ہوگیا ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران 165]( بھلا یہ ) کیا بات ہے کہ ) جب ( احد کے دن کفار کے ہاتھ سے ) تم پر مصیبت واقع ہوئی حالانکہ ( جنگ بدر میں ) اس سے دو چند مصیبت تمہارے ہاتھ سے انہیں پہنچ چکی تھی ۔ فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ [ النساء 62] تو کیسی ( ندامت کی بات ہے کہ جب ان پر کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے ۔ وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 166] اور جو مصیبت تم پر دونوں جماعتوں کے مابین مقابلہ کے دن واقع ہوئی ۔ وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری 30] اور جو مصیبت تم پر واقع ہوتی ہے سو تمہارے اپنے اعمال سے ۔ اور اصاب ( افعال ) کا لفظ خیرو شر دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِنْ تُصِبْكَ مُصِيبَةٌ [ التوبة 50] اے پیغمبر اگر تم کو اصائش حاصل ہوتی ہے تو ان کی بری لگتی ہے اور اگر مشکل پڑتی ہے ۔ وَلَئِنْ أَصابَكُمْ فَضْلٌ مِنَ اللَّهِ [ النساء 73] ، اور اگر خدا تم پر فضل کرے فَيُصِيبُ بِهِ مَنْ يَشاءُ وَيَصْرِفُهُ عَنْ مَنْ يَشاءُ [ النور 43] تو جس پر چاہتا ہے اس کو برسادیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے پھیر دیتا ہے ۔ فَإِذا أَصابَ بِهِمَنْ يَشاءُ مِنْ عِبادِهِ [ الروم 48] پھر جب وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اسے برسا دیتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ جباصاب کا لفظ خیر کے معنی میں استعمال ہوتا ہے تو یہ صوب بمعنی بارش سے مشتق ہوتا ہے اور جب برے معنی میں آتا ہے تو یہ معنی اصاب السمھم کے محاورہ سے ماخوز ہوتے ہیں مگر ان دونوں معانی کی اصل ایک ہی ہے ۔- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - جهل - الجهل علی ثلاثة أضرب :- الأول : وهو خلوّ النفس من العلم، هذا هو الأصل، وقد جعل ذلک بعض المتکلمین معنی مقتضیا للأفعال الخارجة عن النظام، كما جعل العلم معنی مقتضیا للأفعال الجارية علی النظام .- والثاني : اعتقاد الشیء بخلاف ما هو عليه .- والثالث : فعل الشیء بخلاف ما حقّه أن يفعل، سواء اعتقد فيه اعتقادا صحیحا أو فاسدا، كمن يترک الصلاة متعمدا، وعلی ذلک قوله تعالی: قالُوا : أَتَتَّخِذُنا هُزُواً ؟ قالَ : أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة 67]- ( ج ھ ل ) الجھل - ۔ ( جہالت ) نادانی جہالت تین قسم پر ہے - ۔ ( 1) انسان کے ذہن کا علم سے خالی ہونا اور یہی اس کے اصل معنی ہیں اور بعض متکلمین نے کہا ہے کہ انسان کے وہ افعال جو نظام طبعی کے خلاف جاری ہوتے ہیں ان کا مقتضی بھی یہی معنی جہالت ہے ۔- ( 2) کسی چیز کے خلاف واقع یقین و اعتقاد قائم کرلینا ۔ - ( 3) کسی کام کو جس طرح سر انجام دینا چاہئے اس کے خلاف سر انجام دنیا ہم ان سے کہ متعلق اعتقاد صحیح ہو یا غلط مثلا کوئی شخص دیا ۔ دانستہ نماز ترک کردے چناچہ اسی معنی کے اعتبار سے آیت : أَتَتَّخِذُنا هُزُواً ؟ قالَ : أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة 67] میں ھزوا کو جہالت قرار دیا گیا ہے ۔- صبح - الصُّبْحُ والصَّبَاحُ ، أوّل النهار، وهو وقت ما احمرّ الأفق بحاجب الشمس . قال تعالی: أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ [هود 81] ، وقال : فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات 177] ، والتَّصَبُّحُ : النّوم بالغداة، والصَّبُوحُ : شرب الصّباح، يقال : صَبَحْتُهُ : سقیته صبوحا، والصَّبْحَانُ : الْمُصْطَبَحُ ، والْمِصْبَاحُ : ما يسقی منه، ومن الإبل ما يبرک فلا ينهض حتی يُصْبَحَ ، وما يجعل فيه الْمِصْبَاحُ ، قال : مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكاةٍ فِيها مِصْباحٌ الْمِصْباحُ فِي زُجاجَةٍ [ النور 35] ، ويقال للسّراج : مِصْبَاحٌ ، والْمِصْبَاحُ : مقرّ السّراج، والْمَصَابِيحُ : أعلام الکواكب . قال تعالی: وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّماءَ الدُّنْيا بِمَصابِيحَ [ الملک 5] ، وصَبِحْتُهُمْ ماء کذا : أتيتهم به صَبَاحاً ، والصُّبْحُ : شدّة حمرة في الشّعر، تشبيها بالصّبح والصّباح، وقیل : صَبُحَ فلان أي : وَضُؤَ - ( ص ب ح) الصبح والصباح دن کا ابتدائی حصہ جبکہ افق طلوع آفتاب کی وجہ سے سرخ ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ [هود 81] کیا صبح کچھ دور ہے ۔ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات 177] تو جن کو ڈرسنا یا گیا ہے ۔ ان کے لئے برادن ہوگا ۔ التصبح صبح کے وقت سونا ۔ الصبوح صبح کی شراب کو کہتے ہیں اور صبحتہ کے معنی صبح کی شراب پلانے کے ہیں ۔ الصبحان صبح کے وقت شراب پینے والا ( مونث صبحیٰ ) المصباح (1) پیالہ جس میں صبوحی پی جائے (2) وہ اونٹ جو صبح تک بیٹھا رہے (3) قندیل جس میں چراغ رکھا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكاةٍ فِيها مِصْباحٌ الْمِصْباحُ فِي زُجاجَةٍ [ النور 35] اس کے نور کی مثال ایسی ہے گویا ایک طاق ہے جس میں چراغ اور چراغ ایک قندیل میں ہے ۔ اور چراغ کو بھی مصباح کہاجاتا ہے اور صباح کے معنی بتی کی لو کے ہیں ۔ المصا بیح چمکدار ستارے جیسے فرمایا : وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّماءَ الدُّنْيا بِمَصابِيحَ [ الملک 5] اور ہم نے قریب کے آسمان کو تاروں کے چراغوں سے زینت دی ۔ صبحتم ماء کذا میں صبح کے وقت انکے پاس فلاں پانی پر جاپہنچا اور کبھی صبیح یا صباح کی مناسبت سے بالوں کی سخت سرخی کو بھی صبح کہا جاتا ہے ۔ صبح فلان خوبصورت اور حسین ہونا ۔- فعل - الفِعْلُ : التأثير من جهة مؤثّر، وهو عامّ لما کان بإجادة أو غير إجادة، ولما کان بعلم أو غير علم، وقصد أو غير قصد، ولما کان من الإنسان والحیوان والجمادات، والعمل مثله، - ( ف ع ل ) الفعل - کے معنی کسی اثر انداز کی طرف سے اثر اندازی کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ تاثیر عمدگی کے ساتھ ہو یا بغیر عمدگی کے ہو اور علم سے ہو یا بغیر علم کے قصدا کی جائے یا بغیر قصد کے پھر وہ تاثیر انسان کی طرف سے ہو یا دو سے حیوانات اور جمادات کی طرف سے ہو یہی معنی لفظ عمل کے ہیں ۔ - ندم - النَّدْمُ والنَّدَامَةُ : التَّحَسُّر من تغيُّر رأي في أمر فَائِتٍ. قال تعالی: فَأَصْبَحَ مِنَ النَّادِمِينَ- [ المائدة 31] وقال : عَمَّا قَلِيلٍ لَيُصْبِحُنَّ نادِمِينَ [ المؤمنون 40] وأصله من مُنَادَمَةِ الحزن له . والنَّدِيمُ والنَّدْمَانُ والْمُنَادِمُ يَتَقَارَبُ. قال بعضهم : المُنْدَامَةُ والمُدَاوَمَةُ يتقاربان . وقال بعضهم : الشَّرِيبَانِ سُمِّيَا نَدِيمَيْنِ لما يتعقّبُ أحوالَهما من النَّدَامَةِ علی فعليهما .- ( ن د م ) الندم واندامۃ کے معنی فوت شدہ امر پر حسرت کھانیکے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَأَصْبَحَ مِنَ النَّادِمِينَ [ المائدة 31] پھر وہ پشیمان ہوا ۔ عَمَّا قَلِيلٍ لَيُصْبِحُنَّ نادِمِينَ [ المؤمنون 40] تھوڑے ہی عرصے میں پشیمان ہو کر رہ جائنیگے ۔ اس کے اصل معنی حزن کا ندیم جا نیکے ہیں اور ندیم ندمان اور منادم تینوں قریب المعنی ہیں بعض نے کہا ہے کہ مند نۃ اور مداومۃ دونوں قریب المعنی میں ۔ اور بقول بعض اہم پیالہ ( شراب نوش ) کو ندیمان اسلئے کہا جاتا ہے ۔ کہ انجام کا ر وہ اپنے فعل پر پشیمان ہوتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

فاسق کی دی ہوئی خبر کا حکم - قول باری ہے (یایھا الذین امنوا ان جآء کم فاسق بنبا فتبینوا ان تصیبوا قوما بجھالۃ۔ اے ایمان لانے والو اگر فاسق شخص تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تم تحقیق کرلیا کرو ایسا نہ ہو کہ کہیں تم نادانی سے کسی قوم کو ضرر پہنچادو) تا آخر آیت۔- ہمیں عبداللہ بن محمد نے روایت بیان کی۔ انہیں حسن بن ابی الربیع نے، انہیں عبدالرزاق نے معمر سے اور انہوں نے قتادہ سے اس آیت کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ولید (رض) بن عقبہ کو بنو المصطلق کی طرف بھیجا۔ ولید (رض) ان کے پاس پہنچے تو وہ لوگ انہیں خوش آمدید کہنے کے لئے باہر نکل آئے۔ یہ دیکھ کر ولید (رض) ڈر گئے اور واپس حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آگئے اور آکر یہ بتایا کہ وہ لوگ تو مرتد ہوگئے ہیں۔- اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت خالد بن الولید کو ان کی طرف بھیجا۔ حضرت خالد (رض) جب ان کے علاقے کے قریب پہنچے تو ان کے متعلق درست معلومات حاصل کرنے کی خاطر رات کے وقت کچھ آدمی ادھر بھیج دیے، ان آدمیوں نے جاکر دیکھا تو یہ لوگ باقاعدہ اذان دیتے اور نمازیں پڑھتے تھے، حضرت خالد (رض) کو جب حقیقت حال کا علم ہوگیا تو وہ اپنے آدمیوں سمیت ان کے پاس پہنچ گئے وہاں انہیں بھلائی نیز اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کے سوا اور کوئی بات نظر نہ آئی۔- حضرت خالد (رض) نے واپس جاکر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان تمام باتوں سے آگاہ کیا۔ معمر کہتے ہیں کہ اس موقعہ پر قتادہ نے یہ آیت تلاوت کی (لو یطیعکم فی کثیر من الامر لعنتم۔ بہت سی باتیں ایسی ہیں کہ ان میں اگر وہ تمہارا کہنا مان لیں تو تم کو تکلیف پہنچے) پھر قتادہ اپنے مخاطبین کو کہنے لگے۔” تم لوگوں کی رائے تو اور زیادہ گری ہوئی اور تمہارے خیالات تو اور زیادہ بےوقعت ہیں۔ وہ لوگ یعنی صحابہ کرام تو ایسے تھے کہ اللہ کی کتاب سے نصیحت حاصل کرتے۔ “- حسن سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا تھا۔” خدا کی قسم اگر آیت (وان جاء کم فاسق) کسی خاص شخص کے متعلق نازل ہوئی تھی تو بھی قیامت تک اس کا حکم باقی رہے گا اور کسی اور حکم کی بنا پر منسوخ نہیں ہوا۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ آیت کا مقتضیٰ یہ ہے کہ فاسق کی دی ہوگی خبر کو چھان بین کر ناواجب ہے ، اور تحقیق وتفتیش کے بغیر نیز اس کے مدلول کی صحت کا علم حاصل کیے بغیر اس خبر کو قبول کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی ممانعت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آیت میں دو قرات ہیں (فتثبتوا) تثبت یعنی چھان بین کرنے کے معنی ادا کرتا ہے۔ دوسری قرات (فتبینوا) کی ہے۔ دونوں الفاظ خبر کی صحت کا علم حاصل کیے بغیر اسے قبول کرنے کی ممانعت کرتے ہیں۔ کیونکہ پہلی قرات کے لحاظ سے تثبت کا حکم دیا گیا ہے یعنی چھان بین کرلی جائے تاکہ نادانی کی وجہ سے کسی قوم کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے۔- دوسری قرات کی بنا پر تبین کے معنی علم کے ہیں اس لئے آیت اس امر کی مقتضی ہوگی کہ فاسق کی دی ہوئی خبر پر اس کے متعلق معلومات حاصل کیے بغیر کوئی قدم اٹھانا جائز نہیں ہے۔ یہ چیز فاسق کی گواہی مطلقاً قبول نہ کرنے کی مقتضی ہے۔ کیونکہ لواہی خبر ہوتی ہے۔ اسی طرح فاسق کی دی ہوئی تمام خبروں کا یہی حکم ہوگا۔ اسی بنا پر ہم نے یہ کہا ہے کہ حقوق کے اندر فاسق کی کوئی گواہی قابل قبول نہیں ہوگی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی روایات کے اندر فاسق کی خبر کا بھی یہی حکم ہے۔ نیز دین سے تعلق رکھنے والے ہر ایسے معاملے میں اس کی خبر کا یہی حکم ہوگا جس کے ذریعے کوئی شرعی حکم یا کسی انسان پر کوئی حق ثابت کیا گیا ہو۔- تاہم چند امور میں فاسق کی خبر قبول کرنے پر اہل علم کا اتفاق ہے۔ معاملات کے اندر فاسق کی دی ہوئی خبر قبول کی جائے گی۔ مثلاً ہدیہ کے متعلق اگر فاسق یہ کہے کہ ” فلاں شخص نے یہ ہدیہ تمہارے لئے بھیجا ہے۔ “ تو اس کی خبر کو قبول کرتے ہوئے اس ہدیہ کو اپنے قبضے میں لے لینا جائز ہوگا۔ اسی طرح اگر وہ یہ کہے ” مجھے فلاں شخص نے اپنے اس غلام کو فروخت کرنے کے لئے وکیل بنایا ہے۔ “ تو اس غلام کی خریداری جائز ہوگی۔ اسی طرح کسی گھر میں داخل ہونے کی اجازت کے سلسلے میں اگر کوئی کہے کہ ” داخل ہوجائو “ تو اس کی یہ بات قبول کرلی جائے گی اور اس میں قائل کی عدالت یعنی فاسق نہ ہونے کی حالت کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔- یہی حکم معاملات سے تعلق والی تمام خبروں کا ہے۔ ان تمام امور میں غلام، ذمی اور بچے کی خبر بھی قبول کرلی جائے گی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی لونڈی بریرہ (رض) کی اس خبر کو قبول کرلیا تھا کہ ” فلاں چیز مجھے بطور صدقہ دی گئی تھی اور اسے آپ کو بطور ہدیہ دیتی ہوں۔ “ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس موقعہ پر فرمایا تھا (ھی لھا صدقۃ ولنا ھدیۃ یہ چیز بریرہ کے لئے صدقہ اور ہمارے لئے ہدیہ ہے ) اس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بریرہ (رض) کی یہ خبر قبول کرلی تھی کہ یہ چیز اسے بطور صدقہ ملی تھی اور صدقہ کرنے والے کی ملکیت اب بریرہ (رض) کی طرف منتقل ہوگئی تھی۔- ایک اور صورت میں بھی فاسق کی بات اور اس کی گواہی قبول کرلی جاتی ہے۔ وہ یہ کہ فاسق کا فسق دین کی جہت سے کسی خاص مذہب اور مسلک کے اعتقاد پر مبنی ہو۔ یہ اہل اہواء فاسق کہلاتے ہیں اور ان کی گواہی قابل قبول ہوتی ہے۔ اہل اہواء کی گواہی اور احادیث کی روایت میں ان کی خبروں کو قبول کرنے کے معاملہ میں سلف کا بھی یہی طریق کار تھا۔ دینداری کی جہت سے ان کا فسق ان کی گواہی قبول کرنے میں مانع نہیں تھا۔- اہل ذمہ کی آپس میں ایک دوسرے پر گواہی بھی قابل قبول ہے۔ ہم نے اس کتاب کے پچھلے صفحات میں اس پر روشنی ڈالی ہے۔ غرض یہ تین صورتیں ہیں جن میں فاسق کی خبر قابل قبول ہے اور یہ صورتیں قول باری (ان جاء کم فاسق بنبا فتبینوا) سے ان دلائل کی بنا پر مستثنیٰ ہیں جو اس سلسلے میں قائم ہوچکی ہیں۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ آیت کی مراد کا تعلق گواہیوں ، حقوق کے اثبات یا احکام دین کے ایجاب سے ہے نیز فسق کی اس صورت سے ہے جو دین اور اعتقاد کی جہت سے نہ ہو۔- آیت میں یہ دلالت بھی موجود ہے کہ خبر واحد علم کی موجب نہیں ہوتی۔ کیونکہ یہ اگر کسی حالت میں بھی علم کی موجب ہوتی تو اس کی چھان بین کی ضرورت پیش نہ آتی۔ بعض لوگ اس سے ایک عادل آدمی کی خبر کو قبول کرلینے کے جواز استدلال کرتے ہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ ایٓت میں فاسق کی دی ہوئی خبر کی چھان بین کی تخصیص کی گئی ہے اس لئے عادل انسان کی دی ہوئی خبر کی چھان بین درست نہیں ہے۔ لیکن یہ بات غلط ہے کیونکہ ایک چیز کا اگر تخصیص کے ساتھ ذکر کردیا جائے تو اس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ اس کے ماسوا چیزوں کا حکم لازماً اس کے خلاف ہوگا۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

یہ آیت بھی ایک واقعہ کے تحت نازل ہوئی ہے وہ یہ کہ رسول اکرم نے ولید بن عقبہ بن ابی معیط کو بنی مصطلق سے زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا، یہ راستہ ہی سے واپس آگئے اور اپنے خیال کے مطابق کہ دیا کہ وہ لوگ تو میرے قتل کا ارادہ رکھتے ہیں یہ سن کر رسول اکرم اور صحابہ کرام نے ان لوگوں سے لڑائی کا ارادہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے منع فرما دیا اور یہ حکم دیا کہ اے ایمان والو اگر کوئی شریر آدمی تمہارے پاس کوئی خبر لائے جیسا کہ ولید بن مصطلق کی خبر لایا ہے تو اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو کہ صحیح ہے یا غلط، کہیں کسی قوم کو اپنی نادانی سے کوئی نقصان نہ پہنچا دو پھر اس لیے پچھتانا پڑے۔- شان نزول : يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَاۗءَكُمْ فَاسِقٌۢ (الخ)- امام احمد نے سند جید کے ساتھ ابن ضرور خزاعی سے روایت کیا ہے بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ نے مجھے اسلام کی دعوت دی میں نے اسلام قبول کرلیا اور اسلام میں داخل ہوگیا اور آپ نے مجھے زکوٰۃ کا حکم دیا میں نے اس کو بھی قبول کرلیا اور عرض کیا یا رسول اللہ میں اپنی قوم کی طرف جاتا ہوں اور اسے اسلام اور زکوٰۃ ادا کرنے کی دعوت دیتا ہوں، تو جو میری بات قبول کرلے گا اس کی زکوٰۃ میں جمع کرلوں گا تو آپ فلاں وقت میرے پاس قاصد بھیج دیں تاکہ میں نے جو زکوٰۃ کا مال جمع کیا ہو آپ کے پاس لے آئے۔ چناچہ جب حارث نے زکوٰۃ کا مال جمع کرلیا اور وہ وقت مقررہ بھی آگیا تو قاصد ان کے پاس نہ پہنچا تو حارث یہ سمجھے کہ کچھ ناراضگی پیش آگئی تو انہوں نے اپنی کے سرداروں کو جمع کرکے ان سے کہا کہ رسول اکرم نے ایک وقت طے کیا تھا تاکہ اس وقت آپ قاصد بھیجیں کہ زکوٰۃ میرے پاس جمع ہوئی ہے وہ لے جائے، اور رسول اکرم کا یہاں کوئی خلیفہ بھی نہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ رسول اکرم نے ناراضگی کی وجہ سے اپنے قاصد کو نہیں بھیجا، لہذا تم تیار ہوجاؤ تاکہ خود رسول اکرم کی خدمت میں پہنچیں۔- اور دوسری طرف رسول اکرم نے ولید بن عقبہ کو ان کے پاس زکوٰۃ کا مال لینے کے لیے بھیجا اور چناچہ جب ولید روانہ ہوئے تو ان سے ڈرے اور واپس آکر اپنے خیال کے مطابق کہہ دیا کہ حارث نے زکوٰۃ کا مال نہیں دیا اور میرے قتل کا ارادہ کیا۔- یہ سن کر رسول اکرم نے حارث کی طرف ایک جماعت روانہ کی جب حارث نے وہ جماعت آتی دیکھی تو اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس کا استقبال کیا اور بولے کہ تم لوگ کہاں بھیجے گئے ہو انہوں نے کہا کہ آپ کی طرف آئے ہیں، حارث بولے کیوں ؟ انہوں نے کہا کہ رسول اکرم نے تمہاری طرف ولید بن عقبہ کو بھیجا ان کا خیال ہے کہ تم نے انہیں زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا اور قتل کرنا چاہا، حارث بولے ہرگز نہیں قسم ہے اس ذات کی جس نے محمد کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے نہ میں نے ان کو دیکھا اور نہ وہ میرے پاس آئے ہیں۔- چناچہ جب حارث رسول اکرم کے پاس آئے تو آپ نے ان سے فرمایا کہ تم نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا اور میرے قاصد کو قتل کرنا چاہا، حارث بولے ہرگز نہیں قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو مبعوث کیا ہے تب یہ آیت نازل ہوئی، یعنی اے ایمان والو اگر کوئی شریر آدمی (الخ) اس سند کے رجال ثقہ ہیں۔- اور امام طبرانی نے اسی طرح جریر بن عبداللہ اور علقمہ بن ناجیہ اور ام سلمہ سے اور ابن جریر نے عوفی کے طریق سے ابن عباس اور دوسرے مرسل طریقہ سے روایت کی ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آئندہ آیات میں آٹھ خصوصی احکام کا ذکر ہے۔ ان میں دو بڑے احکام ہیں اور چھ چھوٹے۔ بڑے اور چھوٹے کی یہ تقسیم میں نے اس بنیاد پر کی ہے کہ ان میں دو احکام ایسے ہیں جن میں سے پہلے حکم کے لیے تین اور دوسرے کے لیے دو آیات مختص کی گئی ہیں ‘ جبکہ بعد کے چھ احکام مجموعی طور پر دو آیات میں بیان ہوئے ہیں ‘ یعنی ان میں سے تین تین احکام کو ایک ایک آیت میں جمع کردیا گیا ہے۔ ان تمام احکام کا تعلق اسلامی معاشرے اور غلبہ دین کے لیے کھڑی ہونے والی تنظیم کو مضبوط اور مربوط رکھنے سے ہے۔ اگر کوئی تنظیم خود مضبوط و مربوط نہیں ہوگی تو ظاہر ہے اس کی جدوجہد بھی کمزور اور غیر موثر رہے گی۔ بہر حال ان آٹھ احکام میں ایسے اصول دے دیے گئے ہیں جو کسی معاشرے اور جماعت کے لیے مفید ہوسکتے ہیں اور ان باتوں سے بچنے کی ترغیب دی گئی ہے جن سے کسی معاشرہ یا تنظیم کی وحدت میں رخنے پڑ سکتے ہیں۔ دو بڑے احکام میں سے پہلا حکم یہ ہے :- آیت ٦ یٰٓـاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَآئَ کُمْ فَاسِقٌم بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْٓا ” اے اہل ِایمان اگر تمہارے پاس کوئی فاسق شخص کوئی بڑی خبر لے کر آئے تو تم تحقیق کرلیا کرو “- اگر خبر دینے والا شخص تمہارے خیال کے مطابق ” متقی “ نہیں ہے تو اس خبر کے مطابق کوئی اقدام کرنے سے پہلے اچھی طرح سے تحقیق کرلیا کرو۔ ہوسکتا ہے اس نے آپ کو غلط اطلاع دی ہو کہ فلاں قبیلہ تم لوگوں پر حملے کی تیاری کر رہا ہے اور آپ تحقیق کیے بغیر اس قبیلے پر خواہ مخواہ چڑھائی کر دو ۔- اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًام بِجَہَالَۃٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ ” مبادا کہ تم جا پڑو کسی قوم پر نادانی میں اور پھر تمہیں اپنے کیے پر نادم ہونا پڑے۔ “- تاریخ ِعالم گواہ ہے کہ افواہوں کی بنیاد پر کیے گئے اکثر اقدامات سے قوموں اور ملکوں کے مابین بڑے بڑے جھگڑوں نے جنم لیا ہے۔ اس لیے افواہوں کی بنیاد پر کوئی اقدام نہیں کرنا چاہیے۔ ہاں اگر خبر لانے والا شخص صاحب ِتقویٰ اور قابل اعتماد ہو تو دوسری بات ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْحُجُرٰت حاشیہ نمبر :8 اکثر مفسرین کا بیان ہے کہ یہ آیت ولید بن عقبہ بن ابی معیط کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ اس کا قصہ یہ ہے کہ قبیلہ بنی المصطلِق جب مسلمان ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ولید بن عقبہ کو بھیجا تاکہ ان لوگوں سے زکوٰۃ وصول کر لائیں ۔ یہ ان کے علاقے میں پہنچے تو کسی وجہ سے ڈر گئے اور اہل قبیلہ سے ملے بغیر مدینہ واپس جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کر دی کہ انہوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا ہے اور وہ مجھے قتل کرنا چاہتے تھے ۔ حضور یہ خبر سن کر سخت ناراض ہوئے اور آپ نے ارادہ کیا کہ ان لوگوں کی سرکوبی کے لیے ایک دستہ روانہ کریں بعض روایات میں آیا ہے کہ آپ نے وہ دستہ روانہ کر دیا تھا اور بعض میں یہ بیان ہوا ہے کہ آپ روانہ کرنے والے تھے ۔ بہرحال اس بات پر سب متفق ہیں کہ بنی المصطلق کے سردار حارث بن ضرار ( ام المومنین حضرت جویریہ کے والد ) اس دوران میں خود ایک وفد لے کر حضور کی خدمت میں پہنچ گئے اور انہوں نے عرض کیا کہ خدا کی قسم ہم نے تو ولید کو دیکھا تک نہیں کجا کہ زکوٰۃ دینے سے انکار اور ان کے قتل کے ارادے کا کوئی سوال پیدا ہو ، ہم ایمان پر قائم ہیں اور ادائے زکوٰۃ سے ہمیں ہرگز انکار نہیں ہے ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ تھوڑے سے لفظی اختلاف کے ساتھ اس قصے کو امام احمد ، ابن ابی حاتم ، طبرانی اور ابن جریر نے حضرت عبداللہ بن عباس ، حارث بن ضرار ، مجاہد ، قتادہ ، عبدالرحمان بن ابی لیلیٰ ، یزید بن رومان ، ضحاک اور مقاتل بن حیان سے نقل کیا ہے ۔ حضرت ام سلمہ کی روایت میں یہ پورا قصہ بیان تو اسی طرح ہوا ہے مگر اس میں ولید کے نام کی تصریح نہیں ہے ۔ اس نازک موقع پر جبکہ ایک بے بنیاد خبر پر اعتماد کر لینے کی وجہ سے ایک عظیم غلطی ہوتے ہوتے رہ گئی ، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ اصولی ہدایت دی کہ جب کوئی اہمیت رکھنے والی خبر ، جس پر کوئی بڑا نتیجہ مترتب ہوتا ہو ، تمہیں ملے تو اس کو قبول کرنے سے پہلے یہ دیکھ لو کہ خبر لانے والا کیسا آدمی ہے ۔ اگر وہ کوئی فاسق شخص ہو ، یعنی جس کا ظاہر حال یہ بتا رہا ہو کہ اس کی بات اعتماد کے لائق نہیں ہے ، تو اس کی دی ہوئی خبر پر عمل کرنے سے پہلے تحقیق کر لو کہ امر واقعہ کیا ہے ۔ اس حکم ربانی سے ایک اہم شرعی قاعدہ نکلتا ہے جس کا دائرہ اطلاق بہت وسیع ہے ۔ اس کی رو سے مسلمانوں کی حکومت کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ کسی شخص یا گروہ یا قوم کے خلاف کوئی کاروائی ایسے مخبروں کی دی ہوئی خبروں کی بنا پر کر ڈالے جن کی سیرت بھروسے کے لائق نہ ہو ۔ اسی قاعدے کی بنا پر محدثین نے علم حدیث میں جرح و تعدیل کا فن ایجاد کیا تاکہ ان لوگوں کے حالات کی تحقیق کریں جن کے ذریعہ سے بعد کی نسلوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث پہنچی تھیں ، اور فقہاء نے قانون شہادت میں یہ اصول قائم کیا کہ کسی ایسے معاملہ میں جس سے کوئی شرعی حکم ثابت ہوتا ہو ، یا کسی انسان پر کوئی حق عائد ہوتا ہو ، فاسق کی گواہی قابل قبول نہیں ہے ۔ البتہ اس امر پر اہل علم کا اتفاق ہے کہ عام دنیوی معاملات میں ہر خبر کی تحقیق اور خبر لانے والے کے لائق اعتماد ہونے کا اطمینان کرنا ضروری نہیں ہے ، کیونکہ آیت میں لفظ نَبَأ استعمال ہوا ہے جس کا اطلاق ہر خبر پر نہیں ہوتا بلکہ اہمیت رکھنے والی خبر پر ہوتا ہے اس لیے فقہاء کہتے ہیں کہ عام معاملات میں یہ قاعدہ جاری نہیں ہوتا ۔ مثلاً آپ کسی کے ہاں جاتے ہیں اور گھر میں داخل ہونے کی اجازت طلب کرتے ہیں ۔ اندر سے کوئی آ کر کہتا ہے کہ آ جاؤ ۔ آپ اس کے کہنے پر اندر جا سکتے ہیں قطع نظر اس سے کہ صاحب خانہ کی طرف سے اِذن کی اطلاع دینے والا فاسق ہو یا صالح ۔ اسی طرح اہل علم کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ جن لوگوں کا فسق جھوٹ اور بد کرداری کی نوعیت کا نہ ہو ، بلکہ فساد عقیدہ کی بنا پر وہ فاسق قرار پاتے ہوں ، ان کی شہادت بھی قبول کی جا سکتی ہے اور روایت بھی ۔ محض ان کے عقیدے کی خرابی ان کی شہادت یا روایت قبول کر نے میں مانع نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

3: اِس آیت کے شان نزول میں حافظ ابن جریرؒ اور دوسرے مفسرین نے ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ حضرت ولید بن عقبہؓ کو حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے قبیلہ بنومصطلق کے پاس زکوٰۃوصول کرنے کے لئے بھیجا تھا۔ جب یہ اُن کی بستی کے قریب پہنچے تو وہ لوگ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بھیجے ہوئے ایلچی کے استقبال کے لئے بڑی تعداد میں بستی کے باہر جمع ہوگئے۔ ولید بن عقبہؓ یہ سمجھے کہ یہ لوگ لڑائی کے لئے باہر نکل آئے ہیں۔ بعض روایات میں یہ بھی مذکور ہے کہ اُن کے اور بنو مصطلق کے درمیان جاہلیت کے زمانے میں کچھ دُشمنی بھی تھی۔ اس لئے حضرت ولیدؓ کو یہ خطرہ ہوا کہ وہ لوگ اس پرانی دُشمنی کی بنا پر ان سے لڑنے کے لئے نکل آئے ہیں، چنانچہ وہ بستی میں داخل ہونے کے بجائے وہیں سے واپس لوٹ گئے، اور جا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا کہ بنو مصطلق کے لوگوں نے زکوٰۃدینے سے انکار کردیا ہے، اور وہ لڑائی کے لئے نکلے ہوئے ہیں۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت خالد بن ولید رضی اﷲ عنہ کو مقرر فرمایا کہ واقعے کی تحقیق کے بعد اگر واقعی اُن لوگوں کی سرکشی ثابت ہو تو اُن سے جہاد کریں۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ لوگ تو استقبال کے لئے جمع ہوئے تھے، اور اُنہوں نے زکوٰۃدینے سے انکار نہیں کیا۔ اِس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ان روایات کی بنا پر بعض حضرات نے یہ فرمایا ہے کہ آیت میں جو ’’فاسق‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے، اُس سے مراد ولید بن عقبہؓ ہیں، پھر اُس پر جو اِشکال ہوتا ہے کہ ایک صحابی کو ’’فاسق‘‘ قرار دینا بظاہر عدالتِ صحابہؓ کے منافی ہے، اُس کا یہ جواب دیا ہے کہ بعض صحابہؓ سے گناہ سرزَد ہوئے ہیں، لیکن اﷲ تعالیٰ نے اُنہیں توبہ کی توفیق عطا فرما دی، اس لئے بحیثیتِ مجموعی اُن کی عدالت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس واقعے کے بیان میں جو روایتیں آئی ہیں، اول تو وہ سند کے اعتبار سے مضبوط نہیں ہیں، اور اُن میں تعارض و اختلاف بھی پایا جاتا ہے، دوسرے اس واقعے کی بنا پر حضرت ولیدؓ کو فاسق قرار دینے کی کوئی معقول وجہ بھی سمجھ میں نہیں آتی، کیونکہ اِس واقعے میں اُنہوں نے جان بوجھ کر کوئی جھوٹ نہیں بولا، بلکہ جو کچھ کیا، غلط فہمی کی وجہ سے کیا، جس کی وجہ سے کسی کو فاسق نہیں کہا جاسکتا۔ اِس لئے بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جب حضرت ولیدؓ بستی کے قریب پہنچے، اور قبیلے کے لوگ بڑی تعداد میں وہاں جمع ہورہے تھے تو کسی شریر آدمی نے اُن سے یہ کہا ہوگا کہ یہ لوگ آپ سے لڑنے کے لئے نکلے ہیں۔ اُس شریر آدمی کو آیت میں فاسق قرار دیا گیا ہے، اور حضرت ولیدؓ کو یہ تنبیہ کی گئی ہے کہ تنہا اُس شریر آدمی کی خبر پر بھروسہ کر کے کوئی اقدام کرنے کے بجائے پہلے اُس خبر کی تحقیق کرنی چاہئے تھی۔ اِس خیال کی تائید ایک روایت سے بھی ہوتی ہے جو حافظ ابن جریرؒ نے نقل کی ہے، اور اُس میں یہ الفاظ ہیں کہ ’’فحدّثہ الشّیطان اِنَّھُمْ یُرِیْدُوْنَ قَتْلَہ‘‘ (تفسیر ابن جریر ج : 22 ص 286) یعنی شیطان نے اُنہیں یہ بتایا کہ وہ لوگ انہیں قتل کرنا چاہتے ہیں۔ ظاہر یہی ہے کہ شیطان نے کسی اِنسان کی شکل میں آ کر انہیں یہ جھوٹی خبر دی ہوگی۔ اس لئے آیت کے لفظ ’’فاسق‘‘ کو خواہ مخواہ ایک صحابی پر چسپاں کرنے کی کیا ضرورت ہے جبکہ اُنہوں نے جو کچھ کیا غلط فہمی میں کیا۔ اِس کے بجائے اِسے اُس مخبر پر چسپاں کرنا چاہئے جس نے حضرت ولیدؓ کو یہ غلط خبر دی تھی۔ بہرحال واقعہ کچھ بھی ہو، قرآنِ کریم کا اُسلوب یہ ہے کہ اِس کی آیتیں چاہے کسی خاص موقع پر نازل ہوئی ہوں، اکثر اُن کے الفاظ عام ہوتے ہیں، تاکہ اُن سے ایک اُصولی حکم معلوم ہوسکے۔ چنانچہ یہ ایک عام حکم ہے کہ کسی فاسق کی خبر پر بغیر تحقیق کے اعتماد نہیں کرنا چاہئے، خاص طور پر جب اِس خبر کے نتیجے میں کسی کو کوئی نقصان پہنچ سکتا ہو۔