Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

7۔ 1 جس کا تقاصا یہ ہے کہ ان کی تعظیم اور اطاعت کرو اس لیے کہ وہ تمہاے مصالح زیادہ بہتر جاتنے ہیں کیونکہ ان پر وحی اترتی ہے پس تر ان کے پیچھے چلو ان کو اپنے پیچھے چلانے کی کوشش مت کرو اس لیے کہ اگر وہ تمہاری پسند کی باتیں ماننا شروع کردیں تو اس سے تم خود ہی زیادہ مشقت میں پڑ جاو گے جیسے دوسرے مقام پر فرمایا (وَلَوِ اتَّبَـعَ الْحَقُّ اَهْوَاۗءَهُمْ لَــفَسَدَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِيْهِنَّ ) 23 ۔ المؤمنون :71) ۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨] اپنی خواہش کو حق کے پیچھے چلانے کی ادا سیکھو :۔ یعنی تم لوگوں کے درمیان اللہ کا رسول موجود ہے۔ ایسی خبریں تم ان تک پہنچا دو اور خود رائے زنی نہ کرنے لگ جاؤ۔ بلکہ ان کے پیچھے پیچھے چلو جو وہ کہیں اسے تسلیم کرو۔ اگر وہ تمہارا مشورہ قبول نہیں کرتے تو اس کا برا نہ مانو۔ اگر وہ تم سب کے مشورے اور آراء قبول کرنے لگیں تو تمہاری بھی آراء آپس میں مختلف اور متضاد ہوتی ہیں۔ اس صورت میں تو تم پر اور کئی مصیبتیں پڑجائیں گی۔ لہذا حق کو اپنی خواہشات کے پیچھے نہ چلاؤ۔ بلکہ اپنی خواہشات اور آراء کو حق کے تابع کردینے کی ادا سیکھو۔ - [٩] تم پر یہ اللہ کی خاص مہربانی ہے کہ تمہیں کفر اور اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کے کاموں سے نفرت ہوچکی ہے۔ اور اللہ اور اس کے رسول پر ایمان اور رسول کی اطاعت میں تم راحت اور خوشی محسوس کرتے ہو۔ لہذا معاشرتی آداب کے سلسلہ میں ان ہدایات کو بھی ملحوظ خاطر رکھا کرو جو تمہیں اب دی جارہی ہیں۔ اسی صورت میں تم ہدایت یافتہ ہوسکتے ہو۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) واعلموا ان فیکم رسول اللہ : ظاہر ہے کہ ہر صحابی یہ جانتا تھا کہ اللہ کا رسول ہم میں موجود ہے، اس کے باوجود فرمایا :” اور جان لو کہ تم میں اللہ کا رسول ہے۔ “ اس کی وجہ یہ ہے کہ زندگی میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بنفس نفیس موجود ہونے اور آپ کی وفات کے بعد کتاب و سنت کے موجود ہونے کے باوجود جو شخص اپنی رائے پر اصرار کرتا ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی حدیث سے رہنمائی حاصل کرنے کے بجائے اپنی بات منوانا چاہتا درحقیقت وہ اس بات سے جاہل ہے کہ ہم میں اللہ کا رسول موجود ہے، ہمیں ہر معاملے میں ان کی بات ماننی چاہیے، کیونکہ اگر اسے یہ بات معلوم ہوتی تو وہ رسول کی اطاعت کرتا اور رسول کو اپنی اطاعت کروانے کی کوشش نہ کرتا۔ سو جس طرح وہ شخص جاہل ہے جو چار دیواری کے باہر سے آپ کو آواز دیتا ہے اور وہ شخص جاہل ہے جو کسی فاسق کی لائی ہوئی خبر پر بلاتحقیق کا رروائی کر گزرتا ہے، اسی طرح وہ شخص بھی جاہل ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی حدیث کے ہوتے ہوئے اپنی بات منوانا چاہتا ہے۔ سالئے اسے یہ بتانے کی شدید ضرورت ہے کہ جان لو تم میں اللہ کا رسول موجود ہے۔- (٢) لویطیعکم فی کثیر من الامر لعنتم : یعنی رسول کے احکام چونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ علیم و حکیم ہے اور اس کا ہر حکم علم و حکمت اور رحمت و مصلحت پر مبین ہے اس لئے رسول کی اطاعت کرنے سے تم ہر طرح کی مشقت اور مصیبت سے بچے رہو گے، کیونکہ اللہ تعالیٰ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے، جیسا کہ فرمایا :(یرید اللہ بکم الیسر ولا یرید یکم العسر) (البقر ١: ١٨٥)” اللہ تمہارے ساتھ آسانی کا ارادہ رکھتا ہے اور تمہارے ساتھ تنگی کا ارادہ نہیں رکھتا۔ “ اور رسول کو بھی تمہارا مشقت میں پڑنا کسی صورت گوارا نہیں فرمایا :(عزیز علیہ ما عنثم حریص علیکم) (التوبۃ : ١٢٨” اس پر بہت شاق ہے کہ تم مشقت میں پڑو، تم پر بہت حصر رکھنے والا ہے۔ “ اس کے برعکس اگر رسول تمہاری اطاعت کرے تو تم مشقت میں پڑجاؤ گے، کیونکہ اول تو تمہاری سب کی بات ایک نہیں ہوگی، ہر شخص وہ بات منوانے کی کوشش کرے گا جو اس کے خیال میں اس کے فائدے کی ہے، تو رسول کس کس کی بات مانے گا اور کس کی بات کا امت کو حکم دے گا ؟ پھر تمہارا علم ناقص ہے، نہ تمہیں مستقبل کی کوئی خبر ہے نہ تم غیب کا علم رکھتے ہو، تمہیں کیا معلوم کہ تم جسے اپنے لئے فائدہ مند کو رہے اور وہ انجام کے لحا ظ سے کس قدر نقصان دہ ہے۔ اس لئے جس طرح کائنات کا نظام درست اس لئے چلر ہا ہے کہ وہ ایک اللہ کے حکم کے مطابق چل رہا ہے اسی طرح شریعت کا نظام بھی صرف رسول کی اطاعت سے صحیح چل سکتا ہے، کیونکہ اس کی اطاعت درحقیقت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے، فرمایا (ولو اثبع الحق اھوآء ھم لفسدت السموت والارض ومن فیھن) المومون : ٨١)” اور اگر حق ان کی خواہشوں کے پیچھے چلے تو سب آسمان اور زمین اور جو کوئی ان میں ہے، یقیناً بگڑ جائیں۔ “ - (٣) ” لو یطیعکم فی کثیر من الامر “ میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ رسول بعض تدبیری امور میں تمہارا مشورہ مان بھی لیتا ہے، کیونکہ اسے اللہ کی طرف سے مشورہ کا حکم دیا گیا ہے، چناچہ فرمایا :(فاعف عنھم واستغفر لھم و شاورھم فی الامر) (آل عمران : ١٥٩)” سو ان سے درگزر کر اور ان کے لئے بخشش کی دعا کر اور کام میں ان سے مشورہ کر۔ “ مگر یاد رکھو تمہارا کام حکم دینا نہیں، مشورہ دینا ہے، رسول مناسب سمجھے تو مان لے مناسب نہ سمجھے تو نہ مانے، آخری فیصلہ اللہ تعالیٰ کی راہنمئای کے ساتھ اسی نے کرنا ہے، جیسا کہ فرمایا :(فاذا عزمت فتوکل علی اللہ) (آل عمران :159)” پھر جب تو پختہ ارادہ کرے تو اللہ پر بھروسہ کرے۔ ‘- (٤) ولکن اللہ حبب الیکم الایمان : ایمان سے مراد یہاں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت ہے جس میں تصدیق بالقلب ، اقرار باللسان اور عمل بالارکان تینوں شامل ہیں۔ یعنی اگر رسول بہت سی باتوں میں تمہاری اطاعت کرے تو یقینا تم مشکل میں پڑجاؤ، لیکن اللہ تعالیٰ نے (تمہیں مشکل میں پڑنے سے بچا لیا اور ) ایمان یعنی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کو تمہارے لئے محبوب بنادیا اور اسے تمہارے دلوں میں ایسا مزین کردیا کہ تم خوش دلی سے رسول کی اطاعت پر کار بند ہوگئے۔ اس لئے بعض اوقات بتقاضیء بشریت تم سے غل طی ہوجاتی ہے مگر ایمان کی محبت اور کفر سے نفرت کی بدولت تم جلد ہی اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے ہو اور گناہوں سے باز رہتے ہو۔- (٥) وکرۃ الیکم الکفر والفسوق والعصیان : یعنی کفر، فسوقا ور عصیان کو تمہارے لئے نپاسندیدہ بنادیا۔ رازی نے فرمایا :” ایمان میں تصدیق بالقلب، اقرار باللسان اور عمل بالا ارکان تینوں شاملیں ۔ کفر دل کی تصدیق نہ ہونا ہے، فسوق زبان سے اقرار نہ کرنا ہے اور عصیان عمل نہ کرنا ہے۔ “ شیخ عبدالرحمان السعید نے فرمایا :”(کفر کا معنی تو ظاہر ہے) فسوق سے مراد بڑے گناہ (کبائر) اور عصیان سے مراد ان سے کم تر درجے کے گناہ ہیں۔ “ (واللہ العم)- (٦) اولئک ھم الرشدون : یعنی یہ لوگ جن کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایمان کو محبوب بنادیا ہے اور اسے ان کے دلوں میں مزین کردیا ہے اور کفر و فسوق و عصیان کو ان کے لئے ناپسندیدہ بنادیا ہے، یہی لوگ ہیں جو کامل ہدایت والے ہیں۔” الف لام “ بیان کمال کے لئے ہے اور حصر کا فائدہ بھی دے رہا ہے کہ صحابہ ہی ہدایت پر ہیں، ان کے دشمن اور مخلاف گمراہ ہیں۔ اس آیت میں صحابہ کرام کی بےحد فضیلت بیان ہوئی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے پہلے ان کے وہ اوصاف حمیدہ بیان کئے جو اس نے انہیں عطا فرمائے اور آخر میں صریح الفاظ میں ان کے راہ راست پر ہونے کی شہادت دی۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور جان رکھو کہ تم میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف فرما) ہیں ( جو خدا کی بڑی نعمت ہیں کما قال تعالیٰ (آیت) لقد من اللہ الخ اس نعمت کا شکر یہ ہے کہ کسی بات میں تم آپ کے خلاف مت کرو گو دنیوی ہی کیوں نہ ہو اور اس فکر میں مت پڑو کہ امور دنیویہ میں خود حضور ہماری رائے کی موافقت فرمایا کریں کیونکہ) بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ اگر وہ اس میں تمہارا کہنا مانا کریں تو تم کو بڑی مضرت پہنچے (کیونکہ وہ مصلحت کے خلاف ہو تو ضرور اس کے موافق عمل کرنے میں مضرت ہو بخلاف اس کے کہ آپ کی رائے پر عمل کیا جائے کیونکہ امر دنیوی ہونے کے باوجود اس میں خلاف مصلحت ہونے کا احتمال گو فی نفسہ مستبعد اور خلاف شان نبوت نہیں لیکن اول تو ایسے امور جن میں ایسا احتمال ہو شاذو نادر ہوں گے پھر اگر ہوں بھی اور ان میں مصلحت فوت ہو بھی جاوے تو یہ کتنی بڑی بات ہے کہ اس مصلحت کا نعم البدل یعنی اجر وثواب اطاعت رسول کا ضرور ہی میسر ہوگا بخلاف اس کے تمہاری رائے پر عمل ہو کہ گو شاذو نادر ایسے امور بھی نکلیں گے جن میں مصلحت تمہاری رائے کے موافق ہو لیکن متعین تو ہیں نہیں اور پھر بہت ہی کم ہوں گے زیادہ احتمال مضرت ہی کا ہے پھر اس مضرت کا کوئی تدارک نہیں اور اس تقریر سے فائدہ کثیر کی قید کا ہونا بھی معلوم ہوگیا، بہرحال اگر آپ تم لوگوں کی منافقت کرتے تو تم بڑی مصیبت میں پڑتے) لیکن اللہ تعالیٰ نے (تم کو مصیبت سے بچا لیا اس طرح سے کہ) تم کو ایمان (کامل) کی محبت دی اور اس (کی تحصیل) کو تمہارے دلوں میں مرغوب کردیا اور کفر و فسق (یعنی گناہ کبیرہ) اور (مطلق) عصیان (یعنی گناہ صغیرہ) سے تم کو نفرت دے دی (جس سے تم کو ہر وقت رضائے رسول کی جستجو رہتی ہے اور جس سے تم ان احکام کو مان لیتے ہو جو رضائے رسول کے موجبات ہیں چناچہ جب تم کو یہ معلوم ہوگیا کہ امور دنیویہ میں بھی اطاعت رسول کی واجب ہے اور بدون اطاعت مطلقہ کے ایمان کامل نہیں ہوتا اور ایمان کامل کی تحصیل کی رغبت پہلے سے موجود ہے پس تم نے فوراً اس حکم کو بھی قبول کرلیا اور قبول کر کے ایمان کی اور تکمیل کرلی) ایسے لوگ (جو کہ تکمیل ایمان کے محب ہیں) خدا تعالیٰ کے فضل اور انعام سے راہ راست پر ہیں اور اللہ تعالیٰ (نے جو یہ احکام فرمائے ہیں تو وہ ان کی مصلحتوں کو) جاننے والا ( ہے اور چونکہ) حکمت والا ہے (اس لئے ان احکام کو واجب کردیا ہے ) ۔- معارف و مسائل - اس سے پہلی آیت میں واقعہ حضرت ولید بن عقبہ اور قبیلہ بنی المصطلق کا مذکور تھا جس میں ولید بن عقبہ نے بنی المصطلق کے متعلق یہ خبر دی تھی کہ وہ مرتد ہوگئے اور زکوٰة دینے سے انکار کردیا اس پر صحابہ کرام میں بھی اشتعال پیدا ہوا، ان کی رائے یہ تھی کہ ان لوگوں پر جہاد کے لئے مجاہدین کو بھیج دیا جائے مگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ولید بن عقبہ کی خبر کو قرائن قویہ کے خلاف سمجھ کر قبول نہ کیا اور تحقیقات کے لئے حضرت خالد بن ولید کو مامور فرما دیا۔ پچھلی آیت میں قرآن کریم نے اس کو قانون بنادیا کہ جس شخص کی خبر میں قرائن قویہ سے کوئی شبہ ہوجاوے تو قبل از تحقیق اس پر عمل جائز نہیں۔ اس آیت میں صحابہ کرام کو ایک اور ہدایت کی گئی ہے کہ اگرچہ بنی المصطلق کے متعلق خبر ارتداد سن کر تمہارا جوش غیرت دینی کے سبب تھا مگر تمہاری رائے صحیح نہ تھی۔ اللہ کے رسول نے جو صورت اختیار کی وہ ہی بہتر تھی (مظہری)- مقصد یہ ہے کہ مشورہ طلب امور میں کوئی رائے دے دینا تو درست ہے لیکن یہ کوشش کرنا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہاری رائے کے مطابق ہی عمل کریں یہ درست نہیں کیونکہ امور دنیویہ میں اگرچہ شاذ و نادر رسول کی رائے خلاف مصلحت ہونے کا امکان ضرور ہے جو شان نبوت کے خلاف نہیں لیکن حق تعالیٰ نے جو فراست اور دانش اپنے رسول کو عنایت فرمائی ہے وہ تمہیں حاصل نہیں ہے اس لئے اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہاری رائے پر چلا کریں تو بہت سے معالات میں نقصان و مصیبت میں پڑجاؤ گے اور کہیں شاذ و نادر تمہاری رائے ہی میں مصلحت ہو اور تم اطاعت رسول کیلئے اپنی رائے کو چھوڑ دو جس سے تمہیں کچھ دنیوی نقصان بھی پہنچ جاوے تو اس میں اتنی مضرت نہیں جتنی تمہاری رائے کے تابع ہو کر چلنے میں ہے کیونکہ اس صورت میں اگر کچھ دنیوی نقصان ہو بھی گیا تو اطاعت رسول کا اجر وثواب اس کا بہتر بدل موجود ہے اور لفظ عنتم، عنت سے مشتق ہے جس کے معنی گناہ کے بھی آتے ہیں اور کسی مصیبت میں مبتلا ہونے کے بھی یہاں دونوں معنی مراد ہو سکتے ہیں (قرطبی)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ فِيْكُمْ رَسُوْلَ اللہِ۝ ٠ ۭ لَوْ يُطِيْعُكُمْ فِيْ كَثِيْرٍ مِّنَ الْاَمْرِ لَعَنِتُّمْ وَلٰكِنَّ اللہَ حَبَّبَ اِلَيْكُمُ الْاِيْمَانَ وَزَيَّنَہٗ فِيْ قُلُوْبِكُمْ وَكَرَّہَ اِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْيَانَ۝ ٠ ۭ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الرّٰشِدُوْنَ۝ ٧ ۙ- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا - رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ - لو - لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] .- ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ - طوع - الطَّوْعُ : الانقیادُ ، ويضادّه الكره قال عزّ وجلّ : ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت 11] ، وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران 83] ، والطَّاعَةُ مثله لکن أكثر ما تقال في الائتمار لما أمر، والارتسام فيما رسم . قال تعالی: وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء 81] ، طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد 21] ، أي : أَطِيعُوا، وقد طَاعَ له يَطُوعُ ، وأَطَاعَهُ يُطِيعُهُ «5» .- قال تعالی: وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن 12] ، مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء 80] ، وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب 48] ، وقوله في صفة جبریل عليه السلام : مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير 21] ، والتَّطَوُّعُ في الأصل : تكلُّفُ الطَّاعَةِ ، وهو في التّعارف التّبرّع بما لا يلزم کالتّنفّل، قال : فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة 184] ، وقرئ :( ومن يَطَّوَّعْ خيراً )- ( ط و ع ) الطوع - کے معنی ( بطیب خاطر ) تابعدار ہوجانا کے ہیں اس کے بالمقابل کرھ ہے جس کے منعی ہیں کسی کام کو ناگواری اور دل کی کراہت سے سر انجام دینا ۔ قرآن میں ہے : ۔ ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت 11] آسمان و زمین سے فرمایا دونوں آؤ دل کی خوشی سے یا ناگواري سے - وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران 83] حالانکہ سب اہل آسمان و زمین بطبیب خاطر یا دل کے جبر سے خدا کے فرمانبردار ہیں ۔ یہی معنی الطاعۃ کے ہیں لیکن عام طور طاعۃ - کا لفظ کسی حکم کے بجا لانے پر آجاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء 81] اور یہ لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم دل سے آپ کے فرمانبردار ہیں ۔ طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد 21]( خوب بات ) فرمانبردار ی اور پسندیدہ بات کہنا ہے ۔ کسی کی فرمانبرداری کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن 12] اور اس کے رسول کی فر مانبردار ی کرو ۔ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء 80] جو شخص رسول کی فرمانبردار ی کرے گا بیشک اس نے خدا کی فرمانبرداری کی ۔ وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب 48] اور کافروں کا کہا نہ مانو ۔ اور حضرت جبریل (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير 21] سردار اور امانتدار ہے ۔ التوطوع ( تفعل اس کے اصل معنی تو تکلیف اٹھاکر حکم بجالا نا کے ہیں ۔ مگر عرف میں نوافل کے بجا لانے کو تطوع کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة 184] اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے ۔ ایک قرات میں ومن یطوع خیرا ہے - كثر - الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] - ( ک ث ر )- کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔- أمر - الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :- إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود 123] - ( ا م ر ) الامر - ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔- وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے - عنت - الْمُعَانَتَةُ کالمعاندة لکن المُعَانَتَةُ أبلغ، لأنها معاندة فيها خوف وهلاك، ولهذا يقال : عَنَتَ فلان : إذا وقع في أمر يخاف منه التّلف، يَعْنُتُ عَنَتاً. قال تعالی: لِمَنْ خَشِيَ الْعَنَتَ مِنْكُمْ- [ النساء 25] ، وَدُّوا ما عَنِتُّمْ [ آل عمران 118] ، عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ [ التوبة 128] ، وَعَنَتِ الْوُجُوهُ لِلْحَيِّ الْقَيُّومِ «1» أي : ذلّت وخضعت، ويقال : أَعْنَتَهُ غيرُهُ. وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَأَعْنَتَكُمْ [ البقرة 220] ، ويقال للعظم المجبور إذا أصابه ألم فهاضه : قد أَعْنَتَهُ.- ( ع ن ت ) المعانتۃ - : یہ معاندۃ کے ہم معنی ہے معنیباہم عنا داوردشمنی سے کام لینا لیکن معانتۃ اس سے بلیغ تر ہے کیونکہ معانتۃ ایسے عناد کو کہتے ہیں جس میں خوف اور ہلاکت کا پہلو بھی ہو ۔ چناچہ عنت فلان ۔ ینعت عنتا اس وقت کہتے ہیں جب کوئی شخص ایسے معاملہ میں پھنس جائے جس میں تلف ہوجانیکا اندیشہ ہو ۔ قرآن پاک میں ہے لِمَنْ خَشِيَ الْعَنَتَ مِنْكُمْ [ النساء 25] اس شخص کو ہے جسے ہلاکت میں پڑنے کا اندیشہ ہو ۔ وَدُّوا ما عَنِتُّمْ [ آل عمران 118] اور چاہتے ہیں کہ ( جس طرح ہو ) تمہیں تکلیف پہنچے ۔ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ [ التوبة 128] تمہاری تکلیف ان کو گراں معلوم ہوتی ہے : اور آیت کریمہ : وَعَنَتِ الْوُجُوهُ لِلْحَيِّ الْقَيُّومِ «1»اور سب ( کے ) چہرے اس زندہ وقائم کے روبرو جھک جائیں گے ۔ میں عنت کے معنی ذلیل اور عاجز ہوجانے کے ہیں اور اعنتہ کے معنی تکلیف میں مبتلا کرنے کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَأَعْنَتَكُمْ [ البقرة 220] اور اگر خدا چاہتا تو تم کو تکلیف میں ڈال دیتا ۔ اور جس ہڈی کو جوڑا گیا ہو اگر اسے کوئی صدمہ پہنچے اور وہ دوبارہ ٹو ٹ جائے تو ایسے موقع پر بھی اعتتہ کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔- حب - والمحبَّة :- إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه :- محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه :- وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] .- ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه :- وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] .- ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم .- ( ح ب ب ) الحب والحبۃ - المحبۃ - کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں - اور محبت تین قسم پر ہے :- ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے - جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے - ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر - جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی - ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے - جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔ - أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] .- وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - زين - الزِّينَةُ الحقیقيّة : ما لا يشين الإنسان في شيء من أحواله لا في الدنیا، ولا في الآخرة، فأمّا ما يزينه في حالة دون حالة فهو من وجه شين، - ( زی ن ) الزینہ - زینت حقیقی ہوتی ہے جو انسان کے لئے کسی حالت میں بھی معیوب نہ ہو یعنی نہ دنیا میں اور نہ ہی عقبی ٰ میں اور وہ چیز جو ایک حیثیت سی موجب زینت ہو لیکن دوسری حیثیت سے موجب زینت نہ ہو وہ زینت حقیقی نہیں ہوتی بلکہ اسے صرف ایک پہلو کے اعتبار سے زینت کہہ سکتے ہیں - قلب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] .- ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ - كره - قيل : الْكَرْهُ والْكُرْهُ واحد، نحو : الضّعف والضّعف، وقیل : الكَرْهُ : المشقّة التي تنال الإنسان من خارج فيما يحمل عليه بِإِكْرَاهٍ ، والکُرْهُ :- ما يناله من ذاته وهو يعافه، وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة 33] - ( ک ر ہ ) الکرہ - ( سخت ناپسند یدگی ) ہم معنی ہیں جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے کہ کرۃ ( بفتح الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو انسان کو خارج سے پہنچے اور اس پر زبر دستی ڈالی جائے ۔ اور کرہ ( بضم الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو اسے نا خواستہ طور پر خود اپنے آپ سے پہنچتی ہے۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة 33] اور اگر چہ کافر ناخوش ہی ہوں ۔ - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- فسق - فَسَقَ فلان : خرج عن حجر الشّرع، وذلک من قولهم : فَسَقَ الرُّطَبُ ، إذا خرج عن قشره «3» ، وهو أعمّ من الکفر . والفِسْقُ يقع بالقلیل من الذّنوب وبالکثير، لکن تعورف فيما کان کثيرا، وأكثر ما يقال الفَاسِقُ لمن التزم حکم الشّرع وأقرّ به،- ( ف س ق ) فسق - فسق فلان کے معنی کسی شخص کے دائر ہ شریعت سے نکل جانے کے ہیں یہ فسق الرطب کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی گدری کھجور کے اپنے چھلکے سے باہر نکل آنا کے ہیں ( شرعا فسق کا مفہوم کفر سے اعم ہے کیونکہ فسق کا لفظ چھوٹے اور بڑے ہر قسم کے گناہ کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اگر چہ عرف میں بڑے گناہوں کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اور عام طور پر فاسق کا لفظ اس شخص کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو احکام شریعت کا التزام اور اقرار کر نیکے بعد تمام یا بعض احکام کی خلاف ورزی کرے۔- عصا - العَصَا أصله من الواو، وعَصَى عِصْيَاناً : إذا خرج عن الطاعة، وأصله أن يتمنّع بِعَصَاهُ. آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] . - ( ع ص ی ) العصا - ( لاٹھی ) یہ اصل میں ناقص وادی ہے۔ عصی عصیانا کے معنی اطاعت سے نکل جانے کے ہیں دراصل اس کے معنی ہیں اس نے لاٹھی ( عصا ) سے اپنا بچاؤ کیا ۔ قرآن میں ہے : آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] ( جواب ملا کہ ) اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ۔ - رشد - الرَّشَدُ والرُّشْدُ : خلاف الغيّ ، يستعمل استعمال الهداية، يقال : رَشَدَ يَرْشُدُ ، ورَشِدَ «5» يَرْشَدُ قال : لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ [ البقرة 186] - ( ر ش د ) الرشد - والرشد یہ غیٌ کی ضد ہے اور ہدایت کے معنی استعمال ہوتا ہے اور یہ باب نصرعلم دونوں سے آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ [ البقرة 186] تاکہ وہ سیدھے رستے پر لگ جائیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور اے گروہ مومنین جان لو کہ تم میں رسول اکرم موجود ہیں اور بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ اگر وہ اس میں تمہاری رائے پر عمل کرلیا کریں تو تمہیں بڑا نقصان پہنچے لیکن اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایمان کامل کی محبت دی ہے اور اس کو تمہارے دلوں میں مرغوب کردیا اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی مخالفت اور نفاق اور تمام گناہوں سے تمہیں نفرت دے دی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ فِیْکُمْ رَسُوْلَ اللّٰہِ ” اور جان لو کہ تمہارے مابین اللہ کا رسول موجود ہے۔ “- انسانی سطح پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مختلف لوگوں کے ساتھ مختلف رشتے تھے۔ مثلاً بعض خواتین کے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شوہر اور بعض کے باپ تھے۔ مردوں میں سے بعض کے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) داماد تھے ‘ بعض کے بھتیجے اور بعض کے سسر تھے۔ چناچہ اس حساس معاملے میں دو ٹوک انداز میں متنبہ کردیا گیا کہ خبردار تم میں سے کوئی کسی وقت یہ حقیقت نہ بھولنے پائے کہ محمد بن عبداللہ جو تمہارے درمیان موجود ہیں یہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ لہٰذا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ حیثیت تم میں سے ہر ایک کے سامنے ہر حال میں مقدم رہنی چاہیے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کوئی رشتہ دار محض اپنے کسی مخصوص رشتے کی بنا پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کوئی معاملہ کرنے کا کبھی خیال بھی ذہن میں نہ لائے۔- لَوْ یُطِیْعُکُمْ فِیْ کَثِیْرٍ مِّنَ الْاَمْرِ لَعَنِتُّمْ ” اگر وہ تمہارا کہنا مانا کریں اکثر معاملات میں تو تم لوگ مشکل میں پڑ جائو “- چناچہ تم ہر معاملے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مرضی اور منشاء کو پیش نظر رکھا کرو۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ توقع نہ رکھو کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فیصلے کرتے ہوئے تم لوگوں کی مرضی کا خیال رکھیں گے۔- وَلٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِلَیْکُمُ الْاِیْمَانَ وَزَیَّنَہٗ فِیْ قُلُوْبِکُمْ ” لیکن (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھیو ) اللہ نے تمہارے نزدیک ایمان کو بہت محبوب بنا دیا ہے اور اسے تمہارے دلوں کے اندر کھبا دیا ہے “- وَکَرَّہَ اِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْیَانَ ” اوراُس نے تمہارے نزدیک بہت ناپسندیدہ بنا دیا ہے کفر ‘ فسق اور نافرمانی کو۔ “- اُولٰٓئِکَ ہُمُ الرّٰشِدُوْنَ ” یہی لوگ ہیں جو صحیح راستے پر ہیں۔ “- صحابہ کرام (رض) کی شان کے حوالے سے قرآن کی یہ آیت خصوصی اہمیت اور عظمت کی حامل ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْحُجُرٰت حاشیہ نمبر :9 یہ بات سیاق و سباق سے بھی مترشح ہوتی ہے ، اور متعدد مفسرین نے بھی اس آیت سے یہ سمجھا ہے کہ بنی المصطلق کے معاملہ میں ولید بن عقبہ کی دی ہوئی اطلاع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے خلاف فوجی اقدام کرنے میں متأمل تھے ، مگر بعض لوگوں نے اصرار کیا کہ ان پر فوراً چڑھائی کر دی جائے ۔ اس پر ان لوگوں کو تنبیہ فرمائی گئی کہ تم اس بات کو بھول نہ جاؤ کہ تمہارے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں جو تمہارے مصالح کو تم سے زیادہ جانتے ہیں ۔ تمہارا یہ چاہنا کہ اہم معاملات میں جو رائے تمہیں مناسب نظر آتی ہے آپ اسی پر عمل کیا کریں ، سخت بے جا جسارت ہے ۔ اگر تمہارے کہنے پر عمل کیا جانے لگے تو بکثرت مواقع پر ایسی غلطیاں ہوں گی جن کا خمیازہ خود تم کو بھگتنا پڑے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

4: سورت کے شروع میں جو حکم دیا گیا تھا، اور جس کی تشریح اوپر حاشیہ نمبر 1 میں گذری ہے، اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ صحابہ کرام کبھی کوئی رائے ہی پیش نہ کریں، بلکہ رائے قائم کر کے اس پر اصرار سے منع فرمایا گیا تھا، اب یہ فرمایا جا رہا ہے کہ مناسب موقع پر کوئی رائے دینے میں تو کوئی حرج نہیں ہے، لیکن یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ آنحضرت صلی الله علیه وسلم کے لیے ضروری نہیں ہے کہ تمہاری ہر رائے پر عمل ضرور کریں، بلکہ آپ مصلحت کے مطابق فیصلہ فرمائیں گے، اور اگر وہ تمہاری رائے کے خلاف ہو، تب بھی تمہیں اس پر راضی رہنا چاہئے، کیونکہ تمہاری ہر بات پر عمل کرنے سے خود تمہیں نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے، جیسا کہ حضرت ولید بن عقبہ کے واقعے میں ہوا کہ وہ تو یہ سمجھے ہوئے تھے کہ بنو مصطلق لڑائی پر آمادہ ہیں، اس لیے ان کی رائے تو یہی ہوگی کہ ان سے جہاد کیا جائے، لیکن اگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی رائے پر عمل کرتے تو خود مسلمانوں کو نقصان پہنچتا۔ چنانچہ آگے اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں ایمان کی محبت ڈال دی ہے، اس لیے وہ اطاعت کے اسی اسول پر عمل کرتے ہیں۔