دو متحارب مسلمان جماعتوں میں صلح کرانا ہر مسلمان کا فرض ہے یہاں حکم ہو رہا ہے کہ اگر مسلمانوں کی کوئی دو جماعتیں لڑنے لگ جائیں تو دوسرے مسلمانوں کو چاہیے کہ ان میں صلح کرا دیں آپس میں لڑنے والی جماعتوں کو مومن کہنا اس سے حضرت امام بخاری نے استدلال کیا ہے کہ نافرمانی گو کتنی ہی بڑی وہ انسان کو ایمان سے الگ نہیں کرتی ۔ خارجیوں کا اور ان کے موافق معتزلہ کا مذہب اس بارے میں خلاف حق ہے ، اسی آیت کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو صحیح بخاری وغیرہ میں مروی ہے کہ ایک مرتبہ رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر خطبہ دے رہے تھے آپ کے ساتھ منبر پر حضرت حسن بن علی بھی تھے آپ کبھی ان کی طرف دیکھتے کبھی لوگوں کی طرف اور فرماتے کہ میرا یہ بچہ سید ہے اور اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی دو بڑی بڑی جماعتوں میں صلح کرا دے گا ۔ آپ کی یہ پیش گوئی سچی نکلی اور اہل شام اور اہل عراق میں بڑی لمبی لڑائیوں اور بڑے ناپسندیدہ واقعات کے بعد آپ کی وجہ سے صلح ہو گئی ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے اگر ایک گروہ دوسرے گروہ پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑائی کی جائے تاکہ وہ پھر ٹھکانے آجائے حق کو سنے اور مان لے صحیح حدیث میں ہے اپنے بھائی کی مدد کر ظالم ہو تو مظلوم ہو تو بھی ۔ حضرت انس نے پوچھا کہ مظلوم ہونے کی حالت میں تو ظاہر ہے لیکن ظالم ہونے کی حالت میں کیسے مدد کروں ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے ظلم سے باز رکھو یہی اس کی اس وقت یہ مدد ہے مسند احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک مرتبہ کہا گیا کیا اچھا ہو اگر آپ عبداللہ بن ابی کے ہاں چلئے چنانچہ آپ اپنے گدھے پر سوار ہوئے اور صحابہ آپ کی ہمرکابی میں ساتھ ہو لیئے زمین شور تھی جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہاں پہنچے تو یہ کہنے لگا مجھ سے الگ رہیے اللہ کی قسم آپ کے گدھے کی بدبو نے میرا دماغ پریشان کر دیا ۔ اس پر ایک انصاری نے کہا واللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گدھے کی بو تیری خوشبو سے بہت ہی اچھی ہے اس پر ادھر سے ادھر کچھ لوگ بول پڑے اور معاملہ بڑھنے لگا بلکہ کچھ ہاتھا پائی اور جوتے چھڑیاں بھی کام میں لائی گئیں ۔ ان کے بارے میں یہ آیت اتری ہے ۔ حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں اوس اور خزرج قبائل میں کچھ چشمک ہو گئی تھی ان میں صلح کرا دینے کا اس آیت میں حکم ہو رہا ہے ۔ حضرت سدی فرماتے ہیں عمران نامی ایک انصاری تھے ان کی بیوی صاحبہ کا نام ام زید تھا اس نے اپنے میکے جانا چاہا خاوند نے روکا اور منع کر دیا کہ میکے کا کوئی شخص یہاں بھی نہ آئے ، عورت نے یہ خبر اپنے میکے کہلوا دی وہ لوگ آئے اور اسے بالا خانے سے اتار لائے اور لے جانا چاہا ان کے خاوند گھر پر تھے نہیں خاوند والوں نے اس کے چچا زاد بھائیوں کو اطلاع دے کر انہیں بلا لیا اب کھینچا تانی ہو نے لگی اور ان کے بارے میں یہ آیت اتری ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں طرف کے لوگوں کو بلا کر بیچ میں بیٹھ کر صلح کرا دی اور سب لوگ مل گئے پھر حکم ہوتا ہے دونوں فریقوں میں عدل کرو ، اللہ عادلوں کو پسند فرماتا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں دنیا میں جو عدل و انصاف کرتے رہے وہ موتیوں کے منبروں پر رحمن عزوجل کے سامنے ہوں گے اور یہ بدلہ ہو گا ان کے عدل و انصاف کا ( نسائی ) مسلم کی حدیث میں ہے یہ لوگ ان منبروں پر رحمن عزوجل کے دائیں جانب ہوں گے یہ اپنے فیصلوں میں اپنے اہل و عیال میں اور جو کچھ ان کے قبضہ میں ہے اس میں عدل سے کام لیا کرتے تھے ۔ پھر فرمایا کل مومن دینی بھائی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مسلمان مسلمان کا بھائی ہے اسے اس پر ظلم و ستم نہ کرنا چاہیے ۔ صحیح حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ بندے کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہے اور صحیح حدیث میں ہے جب کوئی مسلمان اپنے غیر حاضر بھائی مسلمان کے لئے اس کی پس پشت دعا کرتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے آمین ۔ اور تجھے بھی اللہ ایسا ہی دے ۔ اس بارے میں اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں صحیح حدیث میں ہے مسلمان سارے کے سارے اپنی محبت رحم دلی اور میل جول میں مثل ایک جسم کے ہیں جب کسی عضو کو تکلیف ہو تو سارا جسم تڑپ اٹھتا ہے کبھی بخار چڑھ آتا ہے کبھی شب بیداری کی تکلیف ہوتی ہے ۔ ایک اور حدیث میں ہے مومن مومن کے لئے مثل دیوار کے ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو تقویت پہنچاتا اور مضبوط کرتا ہے پھر آپ نے اپنی ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر بتایا مسند احمد میں ہے مومن کا تعلق اور اہل ایمان سے ایسا ہے جیسے سر کا تعلق جسم سے ہے ، مومن اہل ایمان کے لئے وہی درد مندی کرتا ہے جو درد مندی جسم کو سر کے ساتھ ہے ۔ پھر فرماتا ہے دونوں لڑنے والی جماعتوں اور دونوں طرف کے اسلامی بھائیوں میں صلح کرا دو اپنے تمام کاموں میں اللہ کا ڈر رکھو ۔ یہی وہ اوصاف ہیں جن کی وجہ سے اللہ کی رحمت تم پر نازل ہو گی پرہیز گاروں کے ساتھ ہی رب کا رحم رہتا ہے ۔
9۔ 1 اور اس صلح کا طریقہ یہ ہے کہ انہیں قرآن و حدیث کی طرف بلایا جائے یعنی ان کی روشنی میں ان کے اختلاف کا حل تلاش کیا جائے۔ 9۔ 2 یعنی اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکام کے مطابق اپنا اختلاف دور کرنے پر آمادہ نہ ہو بلکہ بغاوت کی روش اختیار کرے تو دوسرے مسلمانوں کی ذمے داری ہے کہ وہ سب مل کر بغاوت کرنے والے گروہ سے لڑائی کریں تاکہ وہ اللہ کے حکم کو ماننے کے لیے تیار ہوجائے۔ 9۔ 3 یعنی باغی گروہ بغاوت سے باز آجائے تو پھر عدل کے ساتھ یعنی قرآن و حدیث کی روشنی میں دونوں گروہوں کے درمیان صلح کرا دی جائے۔
[١٠] آپس میں لڑائی کرنا مومنوں کا کام نہیں :۔ اس جملہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ لڑنا مومنوں کا کام نہیں۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے بھی معلوم ہوتا ہے۔- (١) سیدنا ابوبکر صدیق (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ سے سنا آپ فرماتے تھے : جب دو مسلمان اپنی تلواریں لے کر لڑ پڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں دوزخی ہیں میں نے پوچھا : یہ تو رہا قاتل مگر مقتول کا کیا قصور ؟ فرمایا : وہ بھی تو اپنے ساتھی کے قتل پر حریص تھا (بخاری۔ کتاب الایمان۔ باب وان طائفتان۔۔ مسلم۔ کتاب الفتن۔ باب اذا توجہ المسلمان بسیفہما)- (٢) احنف بن قیس کہتے ہیں کہ میں اس شخص کی مدد کرنے چلا۔ (راستہ میں) مجھے ابو بکرہ ملے اور پوچھا : کہاں جاتے ہو ؟ میں نے کہا : اس شخص کی مدد کرنے ابو بکرہ کہنے لگے : واپس چلے جاؤ۔ کیونکہ میں نے رسول اللہ کو یہ کہتے سنا ہے کہ جب دو مسلمان اپنی تلواریں لے کر لڑ پڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں دوزخی ہیں میں نے پوچھا : یارسول اللہ یہ تو ہوا قاتل مگر مقتول کا کیا قصور ؟ فرمایا : وہ بھی تو اپنے ساتھی کے قتل پر حریص تھا (بخاری۔ کتاب الایمان۔ باب المعاصی من امرالجاہلیۃ) (مسلم۔ کتاب الفتن۔ باب اذا توجہ المسلمان بسیفہما)- [١١] طائفہ کا لغوی مفہوم :۔ یعنی ان پیش بندیوں کے باوجود اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں لڑ پڑیں تو پوری کوشش کرو کہ ان کا اختلاف رفع ہوجائے اور ان میں صلح ہوجائے۔ واضح رہے کہ یہاں طائفہ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اور طائفہ عموماً چھوٹی جماعت کو کہتے ہیں۔ حتیٰ کہ بعض مفسرین کے خیال کے مطابق اس لفظ کا اطلاق ایک فرد پر بھی ہوسکتا ہے۔ یعنی اگر دو مسلمانوں میں لڑائی ہو۔ تب بھی یہی حکم ہے اور یہ تو واضح ہے کہ صلح کرنے والا کوئی غیر جانبدار ہی ہوسکتا ہے۔ خواہ یہ ایک آدمی ہو یا کوئی جماعت ہو۔ پھر صلح کرانے والے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ فریقین پر اثر انداز ہوسکتا ہو۔ - [١٢] مسلمانوں میں صلح کرنا اور عدل کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے :۔ یعنی اگر کوئی شخص اکیلا فریقین پر اثر انداز ہونے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ تو باہم ملکر بھی تمہیں یہ کام کرنا چاہئے بیٹھ نہ رہنا چاہئے سب سے پہلے حالات اور اختلاف کا جائزہ لو اور دیکھو کہ کونسا فریق حق پر ہے اور کونسا زیادتی کر رہا ہے۔ اب یہ تو واضح ہے کہ تالی ایک ہاتھ سے کبھی نہیں بجتی۔ زیادتی کرنے والے کے پاس بھی کچھ تھوڑا بہت حق موجود ہوتا ہے اور جو حق پر ہے اس سے بھی کوئی نہ کوئی غلطی ضرور ہوئی ہے۔ لہذا پہلے یہ تشخیص کرنا ہوگی کہ زیادہ حق کس طرف ہے اور زیادتی کا مرتکب کون ہے ؟ پھر صلح کرانے والی جماعت کو زیادہ حق والے کا ساتھ دینا ہوگا اور اس طرح فریقین پر صلح کے لئے دباؤ ڈالنا ہوگا۔ اور زیادتی کرنے والے پر اتنا دباؤ ڈالنا ہوگا کہ وہ اپنی زیادتی کا اعتراف کرے اور اس سے رجوع کرکے حق بات تسلیم کرے۔ جب یہ مرحلہ طے ہوجائے تو پھر یہ نہ کرنا چاہئے کہ حق والے فریق میں یک طرفہ فیصلہ دے کر زیادتی کرنے والے فریق کو پوری طرح دبانے کی کوشش کی جائے۔ بلکہ عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا جائے اور زیادتی کرنے والے کے پاس بھی کچھ تھوڑا بہت حق تھا تو فیصلہ کے وقت ان باتوں کو ملحوظ رکھ کر فیصلہ کیا جائے۔ کیونکہ یہی بات اقرب الی الحق اور اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔- خ شماس بن قیس یہودی کا اوس وخزرج کو لڑانا :۔ واضح رہے کہ بسا اوقات دونوں ہی فریق حق پر ہوتے ہیں اور ان کی لڑائی کا سبب کوئی بیرونی دشمن یا بیرونی مداخلت ہوتی ہے۔ عہد نبوی میں اس کی ایک مثال یہ ہے کہ جب جنگ بدر میں مسلمانوں کو شاندار فتح نصیب ہوئی تو یہود مدینہ کو اس بات سے سخت صدمہ پہنچا۔ ایک بڈھے یہودی شماس بن قیس نے اس مصیبت کا یہ حل سوچا کہ اوس و خزرج میں از سر نو جنگ بپا کردی جائے۔ اس مقصد کے لئے اس نے ایک نوجوان یہودی کو تیار کیا کہ انصار کی مجالس میں جاکر جنگ بعاث کا ذکر چھیڑ دے اور اس سلسلہ میں اوس و خزرج کی طرف سے جو اشعار کہے گئے تھے انہیں پڑھ پڑھ کر سنائے اور جاہلی عصبیت کو ہوا دے۔ جب اس یہودی نے یہ اشعار پڑھے تو فوراً اوس اور خزرج کے جاہلی دور کے معاندانہ جذبات بھڑک اٹھے تو تو، میں میں شروع ہوگئی اور نوبت بایں جا رسید کہ ایک فریق دوسرے سے کہنے لگا : اگر تم چاہو تو ہم پھر اس جنگ کو جوان کرکے نمٹادیں۔ پھر ہتھیار کی آوازیں آنے لگیں اور قریب تھا کہ ایک خوفناک جنگ چھڑ جاتی۔ - خ آپ کا ان میں صلح کرانا :۔ رسول اللہ کو اس واقعہ کی خبر دی گئی تو آپ چند مہاجرین کو ساتھ لے کر فوراً موقعہ پر پہنچ گئے اور فرمایا : مسلمانو میری موجودگی میں جاہلیت کی یہ پکار اللہ تعالیٰ نے تمہیں اسلام کی طرف ہدایت دی اور تمہارے دلوں کو جوڑ دیا۔ پھر اب یہ کیا ماجرا ہے ؟ اس وقت ان لوگوں کو معلوم ہوا کہ وہ کس طرح شیطانی جال میں پھنس چکے تھے۔ ان کی آنکھیں کھل گئیں پھر اوس و خزرج کے لوگ آپس میں گلے ملنے اور رونے لگے۔- خ غزوہ بنی مصطلق میں عبداللہ بن ابی کا انصار و مہاجرین کو لڑانا :۔ اس کی دوسری مثال وہ فتنہ ہے جو غزوہ بنی مصطلق سے واپسی سفر کے درمیان عبداللہ بن ابی منافق نے مہاجرین اور انصار کے درمیان کھڑا کرکے ان کو باہم لڑ مرنے پر آمادہ کردیا تھا۔ اس واقعہ کی تفصیل سورة منافقون میں آئے گی۔ اس موقعہ پر بھی رسول اللہ نے فوراً موقع پر پہنچ کر معاملہ رفع دفع کرا کر صلح کرا دی تھی۔- خ اگر صلح نہ کر اسکے تو غیر جانبدار رہے :۔ اور اس آیت کا سب سے بڑا مصداق سیدنا علی (رض) اور سیدنا امیرمعاویہ کے درمیان جنگیں تھیں۔ اور ان جنگوں کا باعث ایک باغی فرقہ تھا۔ چونکہ یہ دونوں فریق سیاسی لحاظ سے بڑے طاقتور تھے۔ لہذا کوئی ایسی جماعت پیدا نہ ہوسکی جو ان میں صلح کرا سکتی۔ اس لئے بہت سے صحابہ کرام ایسے بھی تھے جو ان جنگوں میں غیر جانبدار رہنا ہی غنیمت سمجھتے تھے۔ جیسا کہ مندرجہ بالا دوسری حدیث سے سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کا اشارہ انہی جنگوں کی طرف معلوم ہوتا ہے۔ اور ان جنگوں میں بہت سے صحابہ غیر جانبدار رہے اور لڑائی میں حصہ نہیں لیا۔
(١) وان طآئفین من المومنین اقتلوا فاصلحوا بینھما : فاسق لوگوں کی خبر پر بلاتحقیق اعتماد کرلینے سے کئی دفعہ آپ س میں لڑائی ہوجاتی ہے اور کئی دفعہ ہر قسم کی پیش بندی کے باوجود لڑائی ہوجاتی ہے۔ اس آیت میں یہ بتایا کہ مسلمانوں کی باہمی لڑائی کے موقع پر ان لوگوں پر لازم ہے جو اس لڑائی میں شریک نہیں کہ لڑنے والوں کے درمیان صلح کروا دیں۔ ان کے لئے جائز نہیں کہ مسلمانوں کو لڑتے ہوئے ان کے حال پر چھوڑ دیں اور تماشا دیکھتے رہیں۔- (٢) سہل بن سعد (رض) سے روایت ہے :(ان اھل قباء اقتتلوا حتی تراموا بالحجارۃ فاخبر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بذلک فقال اذھبوا بنا نصلح بینھم) (بخاری، الصلح ، باب قول الامام لاصحابہ اذھبوا…: ٢٦٩٣)” قبا میں رہنے والے لڑ پڑے، حتیٰ کہ انہوں نے ایک دوسرے پر پتھر پھینکے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر لمی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔” ہمارے ساتھ چلو، تاکہ ہم ان کے درمیان صلح کروائیں۔ “ اور انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا گیا کہ اگر آپ عبداللہ بن ابی کے پاس جائیں تو بہتر ہے، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گدھے پر سوار ہو کر گئے، مسلمان بھی آپ کے ساتھ پیدل چلنے لگے۔ وہ زمین شور والی تھی، جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے پاس آئے تو وہ کہنے لگا :” مجھ سے دور رہو، اللہ کی قسم تمہارے گدھے کی بدبو سے مجھے تکلیف ہو رہی ہے۔ “ ایک انصاری صحابی نے کہا :” اللہ کی قسم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گدھے کی خوشبو تجھ سے اچھی ہے۔ “ عبداللہ بن ابی کی طرف سے اس کی قوم کا ایک آدمی غصے میں آگیا اور دونوں نے ایک دوسرے کو برا بھلا کہا، پھر دونوں طرف سے دونوں کے حمایتی مشتعل ہوگئے اور چھڑی، ہاتھوں اور جوتوں کے ساتھ ایک دوسرے کو مارنے لگے۔ ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ یہ آیت اس موقع پر نازل ہوئی :(وان طآئفتن من المومنین اقتتلوا فاصلحوا بینھا) (بخاری ، الصلح ، باب ما جاء فی الاصلاح بین الناس :2691)- (٣) قرطبی نے فرمایا :” طائقہ کا لفظ ایک آدمی پر، دو پر اور زیادہ پر بھی بولاجاتا ہے۔” طآئفتن “ میں لڑنے والے دو آدمی بھی شامل ہیں اور دو جماعتیں بھی، چھوٹی ہوں یا بڑی۔ آیت میں لڑنے والے فریقوں کے درمیان صلح کروانے کا حکم ہے، خواہ دو مسلمان آپس میں لڑر ہے ہوں یا زیادہ۔ “- (٤) بعض احادیث میں کسی مسلمان سے لڑنے کو کفر اور لڑنے والوں کو کافر کہا گیا ہے، جیسا کہ عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(سباب المسلم فسوق و قتالہ کفر) (بخاری، ایمان، باب خوف المومن من ان یحبط عملہ…:78)” مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے لڑنا کفر ہے۔ “ اور عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا :(لاترجعوا یعدی کفار یضرب بعضکم رقاب بعض) (بخاری، الفتن، باب قول النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ” لاترجعوا بعدی کفارا…“:8088)” میرے بعد پھر کافر نہ ہوجانا کہ دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔ “- امام بخاری اور دور سے ائمہ کرام نے فرمایا کہ آیت :(وان طآئفتن من المومنین) دلیل ہے کہ مسلمان ایک دوسرے سے لڑنے کے باوجود مسلمان ہی رہتے ہیں، اسلام سے خارج یا مرتد نہیں ہوجاتے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے لڑنے والے دونوں فریقوں کو مومن قرار دیا ہے اور اس سے اگلی آیت میں بھی فرمایا :(انما المومنون اخوۃ فاصلحوا بین اخویکم) (الحجرات : ١٠) ” مومن تو (آپس میں) بھائی ہی ہیں، سو اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کرا دو ۔ “ اسی طرح آیت قصاص میں قاتل کو مقتول کے وارث کا بھائی قرار دیا، فرمایا :(فمن عفی لہ من اخیہ شیء ف اتباع بالمعروف وادآء الیہ باحسان) (البقرۃ :188)” پھر جسے اس کے بھائی کی طرف سے کچھ بھی معاف کردیا جائے تو معروف طریقے سے پیچھا کرنا اور اچھے طریقے سے اس کے پاس پہنچا دینا (لازم ہے۔ “ رہا حدیث میں مسلمان سے لڑائی کو کفر قرار دینا تو اس سے وہ انسان اسلام سے خارج ہوتا ہے) سے کم تردرجے کا کفر ہے، کیونکہ گناہ کے تمام کام کفر اور جاہلیت ہیں اور ایسے شخص کو کافر کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس نے کفر کے کام کا ارتکاب کیا ہے، اس کا ایمان کامل نہیں بلکہ وہ ناقص الایمان مومن ہے، یہ نہیں کہ وہ ملت اسلام سے خارج ہوگیا ۔ دلیل اس کی زیر تفسیر آیت اور دوسری بہت سی آیات و احادیث ہیں جو امام بخاری نے اپنی صحیح کی ” کتاب الایمان “ میں اور دوسرے ائمہ نے اپنی تصانیف میں ب یان فرمایء ہیں۔ اس آیت سے خوارج کے عقیدے کی نفی ہوتی ہے جو کسی بھی کبیرہ گناہ کے مرتکب کو، جس نے توبہ نہ کی ہو، کافر اور ابدی جہنمی سمجھتے ہیں اور معتزلہ کے عقیدے کی بھی جو کہتے ہیں کہ کبیرہ گناہ کا مرتکب نہ مومن ہے نہ کافر۔ انجام کے لحاظ سے وہ بھی اسے ابدی جہنمی قرار دیتے ہیں۔- (٥) ان فقاتلوا التی تبعی : تو اس گروہ سے لڑو جو زیادتی کرتا ہے، کیونکہ اس لڑائی کا حکم اللہ نے دیا ہے، اس لئے یہ واجب ہے اور جہاد کے حکم میں ہے۔ اس حکم کے مخطاب وہ لوگ ہیں جو طاقت استعمال کر کے زیادتی کا ازالہ کرنے پر قادر ہوں۔- (٧) حتی تقی الی امر اللہ :” تقی “ ” فاء یفی فیئاً “ (ض) لوٹنا، پلٹنا، یہ واحد مونث غائب مضارع معلوم ہے۔ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آنے کا مطلب یہ ہے کہ جو بات کتاب و سنت کی رو سے حق ہے باغی گروہ اسے قبول کرنے پر آماد ہوجائے ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ باغی گروہ سے لڑتے وقت یہ بات مدنظر رکھنی چاہیے کہ لڑنے سے مقصود انہیں صلح پر مجبور کرنا ہے، انہیں ختم کر نا یا ان کا نام و نشان مٹانا مقصود نہیں۔- (٨) یہ آیت مسلمانوں کی باہمی جنگ کے بارے میں شرعی فیصلوں کی بنیاد ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں مسلمانوں کی آپس میں کوئی بڑی لڑائی نہیں ہوئی، چند موقعوں پر جھگڑا ہوا مگر نوبت ہاتھا پائی اور چھڑی جوتے سے آگے نہیں بڑھی۔ ان آیات کی عملی تفسیر اس وقت سامنے آئی جب علی (رض) کے عہد خلافت میں مسلمانوں کی آپ س میں لڑائیاں ہوئیں۔ اس وقت چونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تربیت یافتہ صحابہ کرام کثیر تعداد میں موجود تھے، جو قرآن و سنت کا علم بعد میں آنے والے کسی بھی شخص سے زیادہ رکھتے تھے، اس لئے ان کے عمل اور ان کے بیان کردہ احکام سے قیامت تک کے مسلمانوں کے لئے ایک اسوہ اور ضابطہ مرتبہ و گیا۔ اس طرح یہ جنگیں ناگوار اور نہایت تکلیف دہ ہونے کے باوجود خیر سے خالی نہیں رہیں، کیونکہ اگر یہ نہ ہوتیں تو اللہ بہتر جانتا ہے کہ بعد میں آنے والے مسلمان آپس کی لڑائیوں میں ایک دوسرے پر کیا کیا ظلم و ستم کرتے۔ اس ضابطے کا ضروری خلاصہ یہ ہے :- (١) جب لڑنے والے دو گروہ کسی مسلم حکومت کی رعایا ہوں اور عام مسلمان انہیں صلح پر آمادہ نہ کرسکیں تو ان کے درمیان صلح کرانا یا یہ فیصلہ کرنا کہ ان میں زیادتی کرنے والا گروہ کون ہے، پھر طاقتکے ذریعے سے اس کو حق پر مجبور کرنا حکومت کا فریضہ ہے۔ - (٢) لڑنے والے دونوں فریق بہت بڑے طاقتور گروہ ہوں، یا دو مسلمان حکومتیں ہوں اور دونوں کی لڑائی دنیا کی خاطر ہو تو اس صورت میں اہل ایمان کا کام یہ ہے کہ اس فتنے میں حصہ لینے سے قطعی اجتناب کریں اور دونوں فریقوں کو اللہ کا خوف دلا کر جنگ سے باز رکھنے کی کوشش کرتے رہیں۔- (٣) مسلم حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے رعایا کا کوئی گروہ اگر اس کے خلاف خروج کرے تو اس کی کئی قسمیں ہوسکتی ہیں، ایک یہ کہ مسلمانوں کا متفقہ حکمران موجود ہو اور اس کے خلاف خروج کرنے والوں کے پاس خروج کے لئے شرعی دلیل اور حکمران کا کفر بواح یعنی کھلم کھلا کافر ہوجانا موجود نہ ہو، ایسے گروہ کے خلاف حکومت کی جنگ بالاتفاق جائز ہے اور اس کا ساتھ دینا ایمان والوں پر واجب ہے۔ قطع نظر اس سے کہ حکومت عادل ہو یا نہ ہو، کیونکہ عادل نہ ہونے کا بہانہ بنا کر کوئی بھی گروہ کسی بھی وقت حکوت کے خلاف خروج کرسکتا ہے، جس کا نتیجہ افتراق و اتنشار اور کفار کو مسلمانوں پر حملے کی جرأت دلانے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔- دوسری قسم ظالم حکمران کے خلاف خروج ہے، جس کی امارت جبراً قائم ہوئی ہو اور جس کے امراء فاسق ہوں اور خروج کرنے والا گروہ عدل اور حدود اللہ کی اقامت کے لئے اٹھا ہو اور اس کا ظاہر حال یہ بتارہا ہو کہ وہ نیک لوگ ہیں۔ اہل سنت کا موقف یہ ہے کہ جس امیر کی امارت ایک دفعہ قائم ہوچکی ہو اور مملکت کا امن و امان اور نظم و نسق اس کے انتظام میں چل رہا ہو اس کے خلاف خرج کرنا حرام ہے، الایہ کہ وہ کفر بواح کا ارتکاب کرے، یعنی کھلم کھلا کافر ہوجائے۔ امام نووی نے اس پر اجماع کا ذکر فرمایا ہے۔ بعض لوگ ایسے حکمران کے خلاف خروج کو جائز قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں اور اس سلسلے میں اہل بیت کے بعض خروج کرنے والے حضرات کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں اور بعض فقہاء کا نام بیھ لیا جاتا ہے جنہوں نے مسلم حکمرانوں کے لخا تلوار اٹھانے کو جائز قرار دیا، مگر محدثین اور جمہور فقہاء ان کے اس موقف کو غلط قرار دیتے ہیں، بلکہ اسے یہ موقف رکھنے والوں کے لئے باعث طعن قرار دیتے ہیں کہ ” فلان کان بری السیف “ کہ فلاں صاحب مسلمانوں کے خلاف تلوار اٹھانے کو جائز قرار یدتے تھے۔ امام احمد ابن حنبل اور دوسرے محدثین نے حکمران کے بےحد ظلم و ستم کے باوجود ان کے لخاف نہ خر وج کیا نہ خروج کو جائز رکھا۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ پوری تاریخ اسلام پڑھ جائیں کسی خروج کے نتیجے میں مسلمانوں کو تشت و انتشار اور کفار سے جہاد کے رک جانے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا، خواہ حکمران عادل تھا یا ظالم ۔ اسی لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکمرانوں کے سامنے حق کہنے اور ان ک وصنیحت کرنے کی تلقین فرمائی، مگر ان کے خلاف خروج سے سختی کے ساتھ منع فرما دیا۔ چند احادیث ملاحظہ فرمائیں، ابن عباس (رض) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(من رای من امیرہ شیئاً یکرھہ فلیصبر، فانہ لیس احد یقارق الجماعۃ شبراً فیموت الا مات میتہ جاھلیۃ) (بخاری، الاحکام، باب السمع والطاعۃ للامام مالکم تکن معصیۃ :8133)” جو شخص اپنے امیر میں کوئی چیز دیکھے جو اسے بری لگے تو وہ صبر کرے، کیونکہ جو بھی شخص جماعت سے ایک بالشت جدا ہوا پھر فوت ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔ “ عبادہ بن صامت (رض) بیان کرتے ہیں :(دعانا النبی صلیا للہ علیہ وسلم فبایعناہ فقال فیما اخذ علینا ان بابعنا علی السمع والطاعۃ فی منشطنا ومکرھنا وعسرنا ویسرنا واثرہ علینا، وان لاننازع الامر اھلہ الا ان تروا کفرا بواحاً عندکم من اللہ فیہ برھان) (بخاری، الفتن، باب قول النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) :” سترون بعدی امور شکرونھا “:8066، 8056)” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں دعوت دی تو ہم نے آپ سے بیعت کی۔ آپ نے ہم سے جو عہد لیا اس میں یہ تھا کہ ہم نے بیعت کی سننے اور اطاعت کرنے پر ، اپنی خوشیا ور ناخوشی میں اور اپنی تن گی اور آسانی میں اور اپنے آپ پر دوسروں کو ترجیح دیئے جانے پر بھی اور اس بات پر کہ ہم صاحب امر (حکمران) سے امارت میں جھگڑا نہیں کریں گے، الایہ کہ تم صریح کفر دیکھو، جس کے متعلق تمہارے پاس اللہ کے ہاں واضح دلیل ہو۔ “- (٤) علی (رض) کا عمل اپنے خلاف جنگ کرنے والوں کو باغی سمجھنے اور ان سے لڑنے کے باوجود یہ تھا کہ وہ مسلمان ہیں، ان کے زخمیوں کو ق تل نہیں کیا جائے گا، ان کے بھگانے والوں کا پیچھا نہیں کیا جائے گا، ان کے اسیروں کو قتل نہیں کیا جائے گا، ان کی عورتوں اور بچوں کو لونڈی و غلام نہیں بنایا جائے گا، بلکہ ان کی آبرو کی حفاظت ک کی جائے گی اور ان کا مال غنیمت کے طور پر تقسیم نہیں کیا جائے گا۔ جنگ جمل اور جنگ صفین میں دونوں فریقف ایک دوسرے کو مسلمان سمجھتے اور ایک دوسرے کا جنازہ پڑھتے تھے۔ احکام یک تفصیل اور دلائل کے لئے دیکھیے ” المغنی “ از ابن قدامہ میں ” کتاب قتال اھل البغی “ اور دسویر کتب فقہ۔- (٩) فان فاء ت فاصلحوا بینھما بالعدل : زیادتی کرنے والے گروہ کے اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آنے پر دونوں گروہوں کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کروانے کا حکم دیا، یہ نہیں کہ کسی فریق کی بےجا رعایت کرکے اور دوسرے کو دبا کر صرف لڑائی روکنے کے لئے صلح کروئای جائے، کیونکہ ایسی صلح نہ پائیدار ہتوی ہے، نہ اس سے آئندہ کے لئے لڑائی کا دروازہ بند ہوتا ہے۔ اسلئے ایک فریق پر دوسرے کا جو حق ثابت ہوتا ہے وہ اسے دلا کر عدل کے ساتھ صلح کرواین چاہیے۔- ١٠۔ اقسطوا : یہاں ایک سوال ہے کہ اس سے پہلے فرمایا : دونوں کے درمیان انصاف کے ساتھ صلح کروا دو ، پھر دوبارہ ” اقسطوا “ کہنے میں کیا حکمت ہے ؟ اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ لڑائی کے موقع پر بعض لڑنے والوں کے لخاف دل میں شدید نفرت پیدا ہوجاتی ہے، جس کی وجہ سے انسان دسرت فیصلہ نہیں کرسکتا، اس لئے تاکید کے لئے دوبارہ انصاف کا حکم دیا اور انصاف کرن والوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی محبت کی نوید سنائی۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ پہلے جملے میں لڑنے والوں کے درمیان علد کے ساتھ صلح کروانے کا حکم ہے اور ” اقسطوا “ میں اپنے تمام معاملات میں اصناف سے کام لینے کا حکم ہے۔ انصاف کیا ہے ؟ اس کے لئے دیکھیے سورة نحل (٩٠) کی تفسیر۔- (١١) ان اللہ یحب المقسطین : ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(سبعۃ یظلھم اللہ تعالیٰ فی ظلہ یوم لا ظل الا ظلہ، امام عدل …) (بخاری، الزکوۃ، باب الصدقۃ بالیمین : ١٣٢٣)” سات آدمی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ اپنے سائے میں جگہ دے گا جس دن اس کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہیں ہوگا۔ (سب سے پہلے جس کا ذکر فرمایا وہ ہے) عادل حکمران…“ عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(ان المقسطین عند اللہ علی منابر من نور عن یمین الرحمن عزوجل وکلتا یدیہ یمین الذین یعدلون فی حکمھم واھلیھم وما ولوا) (مسلم، الامارۃ ، باب فضیلتۃ الامام العادل …:1828)” انصاف کرنے والے اللہ کے پاس نور کے منبروں پر رحمان عزو جل کی دائیں جابن ہوں گے اور اس کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے فیصلوں میں اور اپنے گھر والوں میں اور جس کے ذمہ دار ہیں سب میں انصاف کرتے ہیں۔ “
خلاصہ تفسیر - اور اگر مسلمانوں میں دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان اصلاح کردو (یعنی جھگڑے کی بنیاد کو رفع کر کے لڑائی موقوف کرا دو ) پھر اگر (اصلاح کی کوشش کے بعد بھی) ان میں کا ایک گروہ دوسرے پر زیادتی کرے (اور لڑائی بند نہ کرے) تو اس گروہ سے لڑو جو زیادتی کرتا ہے، یہاں تک کہ وہ خدا کے حکم کی طرف رجوع ہوجاوے (حکم خدا سے مراد لڑائی بند کرنا ہے) پھر اگر وہ (زیادتی کرنے والا فرقہ حکم خدا کی طرف) رجوع ہوجاوے (یعنی لڑائی بند کر دے) تو ان دونوں کے درمیان عدل کے ساتھ اصلاح کردو (یعنی حدود شرعیہ کے موافق اس معاملہ کو طے کردو محض لڑائی بند کرنے پر اکتفا نہ کرو اگر صلح مصالحت نہ ہوئی تو پھر بھی لڑائی کا احتمال رہے گا) اور انصاف کا خیال رکھو ( یعنی کسی نفسانی غرض کو غالب نہ ہونے دو ) بیشک اللہ تعالیٰ انصاف والوں کو پسند کرتا ہے (اور باہمی اصلاح کا حکم اس لئے دیا گیا ہے کہ) مسلمان تو سب (دینی اشتراک جو روحانی اور معنوی رشتہ ہے اس رشتہ سے ایک دوسرے کے) بھائی ہیں اس لئے اپنے دو بھائیوں کے درمیان اصلاح کردیا کرو (تاکہ یہ اسلامی برادری قائم رہے) اور (اصلاح کے وقت) اللہ سے ڈرتے رہا کرو (یعنی حدود شرعیہ کی رعایت رکھا کرو) تاکہ تم پر رحمت کی جاوے۔- معارف و مسائل - ربط :- سابقہ آیات میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حقوق اور آداب اور ایسے اعمال سے پرہیز کا بیان تھا جن سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذا پہنچے، آگے عام معاشرت کے آداب و احکام ہیں جن میں اجتماعی اور انفرادی دونوں طرح کے آداب اور باہمی حقوق کا بیان ہے اور سب میں قدر مشترک ایذا رسانی سے اجتناب ہے۔- سبب نزول :- ان آیات کے سبب نزول میں مفسرین نے متعدد واقعات بیان فرمائے ہیں جن میں خود مسلمانوں کے دو گروہوں میں باہم تصادم ہوا اور کوئی بعید نہیں کہ یہ سبھی واقعات کا مجموعہ سبب نزول ہوا ہو یا نزول کسی ایک واقعہ میں ہوا، دوسرے واقعات کو اس کے مطابق پا کر ان کو بھی سبب نزول میں شریک کردیا گیا، اس آیت کے اصل مخاطب وہ اولوالا مر اور ملوک ہیں جن کو قتال و جہاد کے وسائل حاصل ہیں (کذا قال ابوحیان فی البحر و اختارہ فی روح المعانی) اور بالواسطہ تمام مسلمان اس کے مخاطب ہیں کہ وہ اس معاملے میں اولوالامر کی اعانت کریں اور جہاں کوئی امام و امیر یا بادشاہ و رئیس نہیں وہاں حکم یہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہو دونوں کو فہمائش کر کے ترک قتال پر آمادہ کیا جائے اور دونوں نہ مانیں تو دونوں لڑنے والے فرقوں سے الگ رہے نہ کسی کے خلاف کرے نہ موافقت، کذافی بیان القرآن۔- مسائل متعلقہ :- مسلمانوں کے دو گروہوں کی باہمی لڑائی کی چند صورتیں ہوتی ہیں، ایک یہ کہ دونوں جماعتیں امام المسلمین کے تحت ولایت ہیں یا دونوں نہیں، یا ایک ہے ایک نہیں، پہلی صورت میں عام مسلمانوں پر لازم ہے کہ فہمائش کر کے ان کو باہمی جنگ سے روکیں، اگر فہمائش سے باز نہ آئیں تو امام المسلمین پر اصلاح کرنا واجب ہے اگر حکومت اسلامیہ کی مداخلت سے دونوں فریق جنگ سے باز آگئے تو قصاص و دیت کے احکام جاری ہوں گے اور باز نہ آئیں تو دونوں فریق کے ساتھ باغیوں کا سا معاملہ کیا جائے اور ایک باز آ گیا دوسرا ظلم وتعدی پر جما رہا تو دوسرا فریق باغی ہے اس کے ساتھ باغیوں کا معاملہ کیا جائے اور جس نے اطاعت قبول کرلی وہ فریق عادل کہلائے گا اور باغیوں کے احکام کی تفصیل کتب فقہ میں دیکھی جاسکتی ہے اور مختصر جامع حکم یہ ہے کہ قبل قتال ان کے ہتھیار چھین لئے جاویں گے اور ان کو گرفتار کر کے توبہ کرنے کے قوت تک قید رکھیں گے اور عین قتال کی حالت میں اور قتال کے بعد ان کی ذریت کو غلام یا لونڈی نہ بنادیں گے اور ان کا مال مال غنیمت نہیں ہوگا البتہ توبہ کرنے تک اموال کو محبوس رکھا جائے گا توبہ کے بعد واپس دے دیا جائے گا، آیات مذکورہ میں جو یہ ارشاد ہوا ہے (آیت) فَاِنْ فَاۗءَتْ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا بالْعَدْلِ وَاَقْسِطُوْا، یعنی اگر بغاوت کرنے والا فرقہ بغاوت اور قتال سے باز آجائے تو صرف جنگ بند کردینے پر اکتفا نہ کرو بلکہ اسباب جنگ اور باہمی شکایات کے ازالہ کی فکر کرو تاکہ دلوں سے بغض و عداوت نکل جاوے اور ہمیشہ کے لئے بھائی چارے کی فضا قائم ہوجائے اور چونکہ یہ لوگ امام المسلمین کے خلاف بھی جنگ کرچکے ہیں اس لئے ہوسکتا تھا کہ ان کے بارے میں پورا انصاف نہ ہو اس لئے قرآن نے تاکید فرمائی کہ دونوں فریق کے حقوق میں عدل و انصاف کی پابندی کی جائے (یہ سب تفصیل بیان القرآن سے لی گئی ہے اور اس میں ہدایہ کے حوالہ سے ہے)- مسئلہ : اگر مسلمان کی کوئی بڑی طاقتور جماعت امام المسلمین کی اطاعت سے نکل جائے تو امام المسلمین پر لازم ہے کہ اول ان کی شکایات سنے ان کو کوئی شبہ یا غلط فہمی پیش آئی ہے تو اس کو دور کرے اور اگر وہ اپنی مخالفت کی ایسی وجوہ پیش کریں جن کی بنا پر کسی امام و امیر کی مخالفت شرعاً جائز ہے یعنی جن سے خود امام المسلمین کا ظلم و جور ثابت ہو تو عام مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اس جماعت کی مدد کریں تاکہ امام اپنے ظلم سے باز آجائے بشرطیکہ اس کے ظلم کا ثبوت یقینی بلا کسی اشتباہ کے ثابت ہوجائے (کذا قال ابن الہمام، مظہری) اور اگر کوئی ایسی واضح وجوہ اپنی بغاوت اور عدم اطاعت کی بیان نہ کرسکیں اور امام المسلمین کے خلاف جنگ کے لئے تیار ہوجائیں تو مسلمانوں کو ان سے قتال کرنا حلال ہے اور امام شافعی نے فرمایا کہ جب تک وہ خود قتال شروع نہ کردیں اس وقت تک مسلمانوں کو ان سے قتال کی ابتدا کرنا جائز نہیں (مظہری) یہ حکم اس وقت ہے جبکہ اس جماعت کا باغی اور ظالم ہونا بالکل یقینی اور واضح ہو اور اگر صورت ایسی ہے کہ دونوں فریق کوئی شرعی حجت رکھتے ہیں اور یہ متعین کرنا مشکل ہے کہ ان میں کون باغی ہے کون عادل وہاں جس شخص کو کسی ایک کے عادل ہونے کا ظن غالب ہو وہ اس کی مدد کرسکتا ہے اور جس کو کسی جانب رجحان نہ ہو وہ دونوں سے الگ رہے جیسا کہ مشاجرات صحابہ کرام کے وقت جنگ جمل اور صفین میں پیش آیا۔- مشاجرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین :- امام ابوبکر بن العربی نے فرمایا کہ یہ آیت قتال بین المسلمین کی تمام صورتوں کو حاوی اور شامل ہے اس میں وہ صورت بھی داخل ہے جس میں دونوں فریق کسی حجت شرعی کے تحت جنگ کے لئے آمادہ ہوجاتے ہیں۔ صحابہ کرام کے مشاجرات اسی قسم میں داخل ہیں۔ قرطبی نے ابن عربی کا یہ قول نقل کر کے اس جگہ مشاجرات صحابہ جنگ جمل اور صفین وغیرہ کی اصل حقیقت بیان کی ہے اور مشاجرات صحابہ کے بارے میں بعد کے آنے والے مسلمانوں کے عمل کے متعلق ہدایات دی ہیں۔ احقر نے یہ سب مضامین احکام القرآن میں بزبان عربی اور بزبان اردو اپنے رسالہ مقام صحابہ میں تفصیل کے ساتھ لکھ دیئے ہیں یہاں اس کا خلاصہ جو تفسیر قرطبی ص 322 ج 16 کے حوالہ سے اس رسالہ میں دیا گیا ہے نقل کرنے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔- ” یہ جائز نہیں ہے کہ کسی بھی صحابی کی طرف قطعی اور یقینی طور پر غلطی منسوب کی جائے اس لئے کہ ان سب حضرات نے اپنے اپنے طرز عمل میں اجتہاد سے کام لیا تھا اور سب کا مقصد اللہ کی خوشنودی تھی، یہ سب حضرات ہمارے پیشوا ہیں اور ہمیں حکم ہے کہ ان کے باہمی اختلافات سے کف لسان کریں اور ہمیشہ ان کا ذکر بہترین طریقے پر کریں کیونکہ صحابیت بڑی حرمت کی چیز ہے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو برا کہنے سے منع فرمایا ہے اور یہ خبر دی کہ اللہ نے انہیں معاف کر رکھا ہے اور ان سے راضی ہے “ اس کے علاوہ متعدد سندوں سے یہ حدیث ثابت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت طلحہ کے بارے میں فرمایا۔- ان طلحة شھید یمشی علی وجہ الارض، یعنی طلحہ روئے زمین پر چلنے والے شہید ہیں۔- اب اگر حضرت علی کے خلاف حضرت طلحہ کا جنگ کے لئے نکلنا کھلا گناہ اور عصیان تھا تو اس جنگ میں مقتول ہو کر وہ ہرگز شہادت کا رتبہ حاصل نہ کرتے، اسی طرح حضرت طلحہ کا یہ عمل تاویل کی غلطی اور ادائے واجب میں کوتاہی قرار دیا جاسکتا تو بھی آپ کو شہادت کا مقام حاصل نہ ہوتا، کیونکہ شہادت تو صرف اس وقت حاصل ہوتی ہے جب کوئی شخص اطاعت ربانی میں قتل ہوا ہو۔ لہٰذا ان حضرات کے معاملہ کو اسی عقیدہ پر محمول کرنا ضروری ہے جس کا اوپر ذکر کیا گیا۔- اس بات کی دوسری دلیل وہ صحیح اور معروف و مشہور احادیث ہیں جو خود حضرت علی سے مروی ہیں اور جن میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ ” زبیر کا قاتل جہنم میں ہے “۔- نیز حضرت علی فرماتے ہیں کہ میں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ” صفیہ کے بیٹے کے قاتل کو جہنم کی خبر دے دو “ جب یہ بات ہے تو ثابت ہوگیا کہ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر اس لڑائی کی وجہ سے عاصی اور گنہگار نہیں ہوئے، اگر ایسا نہ ہوتا تو حضور حضرت طلحہ کو شہید نہ فرماتے اور حضرت زبیر کے قاتل کے بارے میں جہنم کی پیشین گوئی نہ کرتے۔ نیز ان کا شمار عشرہ مبشرہ میں ہے جن کے جنتی ہونے کی شہادت تقریباً متواتر ہے۔- اسی طرح جو حضرات صحابہ ان جنگوں میں کنارہ کش رہے، انہیں بھی تاویل میں خطا کار نہیں کہا جاسکتا، بلکہ ان کا طرز عمل بھی اس لحاظ سے درست تھا کہ اللہ نے ان کو اجتہاد میں اسی رائے پر قائم رکھا جب یہ بات ہے تو اس وجہ سے ان حضرات پر لعن طعن کرنا ان سے برات کا اظہار کرنا اور انہیں فاسق قرار دینا، ان کے فضائل و مجاہدات اور ان عظیم دینی مقامات کو کالعدم کردینا کسی طرح درست نہیں، بعض علماء سے پوچھا گیا کہ اس خون کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے جو صحابہ کرام کے باہمی مشاجرات میں بہایا گیا تو انہوں نے جواب میں یہ آیت پڑھ دی کہ (آیت) تلک امتہ قد خلت لھا ماکسبت ولکم ما کسبتم ولا تسئلون عما کانوا یعملون، یہ ایک امت تھی جو گزر گئی، اس کے اعمال اس لئے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لئے ہیں اور تم سے ان کے اعمال کے بارے میں سوال نہیں کیا جائے گا۔- کسی اور بزرگ سے یہی سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا ” ایسے خون ہیں کہ اللہ نے میرے ہاتھوں کو ان میں (رنگنے سے) بچایا، اب میں اپنی زبان کو ان سے آلودہ نہیں کروں گا “ مطلب یہی تھا کہ میں کسی ایک فریق کو کسی ایک معاملے میں یقینی طور پر خطا کار ٹھہرانے کی غلطی میں مبتلا نہیں ہونا چاہتا۔- علامہ ابن فورک فرماتے ہیں :۔- ” ہمارے بعض اصحاب نے کہا ہے کہ صحابہ کرام کے درمیان جو مشاجرات ہوئے ان کی مثال ایسی جیسے حضرت یوسف (علیہ السلام) اور ان کے بھائیوں کے درمیان پیش آنے والے واقعات کی، وہ حضرات آپس کے ان اختلافات کے باوجود ولایت اور نبوت کی حدود سے خارج نہیں ہوئے بالکل یہی معاملہ صحابہ کے درمیان پیش آنے والے واقعات کا بھی ہے “۔- اور حضرت محاسبی فرماتے ہیں کہ - ” جہاں تک اس خونریزی کا معاملہ ہے تو اس کے بارے میں ہمارا کچھ کہنا مشکل ہے، کیونکہ اس میں خود صحابہ کے درمیان اختلاف تھا “ اور حضرت حسن بصری سے صحابہ کے باہمی قتال کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ - ” ایسی لڑائی تھی جس میں صحابہ موجود تھے اور ہم غائب وہ پورے حالات کو جانتے تھے اور ہم نہیں جانتے، جس معاملہ پر تمام صحابہ کا اتفاق ہے ہم اس میں ان کی پیروی کرتے ہیں اور جس معاملہ میں ان کے درمیان اختلاف ہے اس میں سکوت اختیار کرتے ہیں “۔- حضرت محاسبی فرماتے ہیں کہ ہم بھی وہی بات کہتے ہیں جو حسن بصری نے فرمائی ہم جانتے ہیں کہ صحابہ کرام نے جن چیزوں میں دخل دیا ان سے وہ ہم سے کہیں بہتر طریقے پر واقف تھے لہٰذا ہمارا کام یہی ہے کہ جس پر وہ سب حضرات متفق ہوں اس کی پیروی کریں اور جس میں ان کا اختلاف ہو اس میں خاموشی اختیار کریں اور اپنی طرف سے کوئی نئی رائے پیدا نہ کریں ہمیں یقین ہے کہ ان سب نے اجتہاد سے کام لیا تھا اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی چاہی تھی اس لئے کہ دین کے معاملہ میں وہ سب حضرات شک و شبہ سے بالا تر ہیں۔
وَاِنْ طَاۗىِٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَيْنَہُمَا ٠ ۚ فَاِنْۢ بَغَتْ اِحْدٰىہُمَا عَلَي الْاُخْرٰى فَقَاتِلُوا الَّتِيْ تَبْغِيْ حَتّٰى تَفِيْۗءَ اِلٰٓى اَمْرِ اللہِ ٠ ۚ فَاِنْ فَاۗءَتْ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَہُمَا بِالْعَدْلِ وَاَقْسِطُوْا ٠ ۭ اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ ٩- طَّائِفَةُ- وَالطَّائِفَةُ من الناس : جماعة منهم، ومن الشیء : القطعة منه، وقوله تعالی:- فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ [ التوبة 122] ، قال بعضهم : قد يقع ذلک علی واحد فصاعدا وعلی ذلک قوله : وَإِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الحجرات 9] ، إِذْ هَمَّتْ طائِفَتانِ مِنْكُمْ [ آل عمران 122] ، والطَّائِفَةُ إذا أريد بها الجمع فجمع طَائِفٍ ، وإذا أريد بها الواحد فيصحّ أن يكون جمعا، ويكنى به عن الواحد، ويصحّ أن يجعل کراوية وعلامة ونحو ذلك .- الطائفۃ (1) لوگوں کی ایک جماعت (2) کسی چیز کا ایک ٹکڑہ ۔ اور آیت کریمہ : فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ [ التوبة 122] تویوں کیوں نہیں کیا کہ ہر ایک جماعت میں چند اشخاص نکل جاتے تاکہ دین کا علم سیکھتے ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ کبھی طائفۃ کا لفظ ایک فرد پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَإِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الحجرات 9] ، اور اگر مومنوں میں سے کوئی دوفریق ۔۔۔ اور آیت کریمہ :إِذْ هَمَّتْ طائِفَتانِ مِنْكُمْ [ آل عمران 122] اس وقت تم میں سے دو جماعتوں نے چھوڑ دینا چاہا ۔ طائفۃ سے ایک فرد بھی مراد ہوسکتا ہے مگر جب طائفۃ سے جماعت مراد لی جائے تو یہ طائف کی جمع ہوگا ۔ اور جب اس سے واحد مراد ہو تو اس صورت میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جمع بول کر مفر د سے کنایہ کیا ہو اور یہ بھی کہ راویۃ وعلامۃ کی طرح مفرد ہو اور اس میں تا برائے مبالغہ ہو )- قتل - أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] - ( ق ت ل ) القتل - ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144]- صلح - والصُّلْحُ يختصّ بإزالة النّفار بين الناس، يقال منه : اصْطَلَحُوا وتَصَالَحُوا، قال : أَنْ يُصْلِحا بَيْنَهُما صُلْحاً وَالصُّلْحُ خَيْرٌ [ النساء 128] - ( ص ل ح ) الصلاح - اور الصلح کا لفظ خاص کر لوگوں سے باہمی نفرت کو دورکر کے ( امن و سلامتی پیدا کرنے پر بولا جاتا ہے ) چناچہ اصطلحوا وتصالحوا کے معنی باہم امن و سلامتی سے رہنے کے ہیں قرآن میں ہے : أَنْ يُصْلِحا بَيْنَهُما صُلْحاً وَالصُّلْحُ خَيْرٌ [ النساء 128] کہ آپس میں کسی قرار داد پر صلح کرلیں اور صلح ہی بہتر ہے ۔- بين - بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے - بغي - البَغْي : طلب تجاوز الاقتصاد فيما يتحرّى،- والبَغْيُ علی ضربین :- أحدهما محمود، وهو تجاوز العدل إلى الإحسان، والفرض إلى التطوع .- والثاني مذموم، وهو تجاوز الحق إلى الباطل، أو تجاوزه إلى الشّبه، تعالی: إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ [ الشوری 42] - ( ب غ ی ) البغی - کے معنی کسی چیز کی طلب میں درمیانہ روی کی حد سے تجاوز کی خواہش کرنا کے ہیں ۔ - بغی دو قسم پر ہے ۔- ( ١) محمود - یعنی حد عدل و انصاف سے تجاوز کرکے مرتبہ احسان حاصل کرنا اور فرض سے تجاوز کرکے تطوع بجا لانا ۔- ( 2 ) مذموم - ۔ یعنی حق سے تجاوز کرکے باطل یا شبہات میں واقع ہونا چونکہ بغی محمود بھی ہوتی ہے اور مذموم بھی اس لئے آیت کریمہ : ۔ السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ ( سورة الشوری 42) الزام تو ان لوگوں پر ہے ۔ جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور ملک میں ناحق فساد پھیلاتے ہیں ۔- حَتَّى- حَتَّى حرف يجرّ به تارة كإلى، لکن يدخل الحدّ المذکور بعده في حکم ما قبله، ويعطف به تارة، ويستأنف به تارة، نحو : أكلت السمکة حتی رأسها، ورأسها، ورأسها، قال تعالی: لَيَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف 35] ، وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر 5] .- ويدخل علی الفعل المضارع فينصب ويرفع،- وفي كلّ واحد وجهان :- فأحد وجهي النصب : إلى أن .- والثاني : كي .- وأحد وجهي الرفع أن يكون الفعل قبله ماضیا، نحو : مشیت حتی أدخل البصرة، أي :- مشیت فدخلت البصرة .- والثاني : يكون ما بعده حالا، نحو : مرض حتی لا يرجونه، وقد قرئ : حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة 214] ، بالنصب والرفع «1» ، وحمل في كلّ واحدة من القراء تین علی الوجهين . وقیل : إنّ ما بعد «حتی» يقتضي أن يكون بخلاف ما قبله، نحو قوله تعالی: وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء 43] ، وقد يجيء ولا يكون کذلک نحو ما روي :- «إنّ اللہ تعالیٰ لا يملّ حتی تملّوا» «2» لم يقصد أن يثبت ملالا لله تعالیٰ بعد ملالهم - حتی ٰ ( حرف ) کبھی تو الیٰ کی طرح یہ حرف جر کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے مابعد غایت ماقبل کے حکم میں داخل ہوتا ہے اور کبھی عاطفہ ہوتا ہے اور کبھی استیناف کا فائدہ دیتا ہے ۔ جیسے اکلت السملۃ حتی ٰ راسھا ( عاطفہ ) راسھا ( جارہ ) راسھا ( مستانفہ قرآن میں ہے ليَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف 35] کچھ عرصہ کے لئے نہیں قید ہی کردیں ۔ وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر 5] طلوع صبح تک ۔۔۔۔ جب یہ فعل مضارع پر داخل ہو تو اس پر رفع اور نصب دونوں جائز ہوتے ہیں اور ان میں ہر ایک کی دو وجہ ہوسکتی ہیں نصب کی صورت میں حتی بمعنی (1) الی آن یا (2) گی ہوتا ہے اور مضارع کے مرفوع ہونے ایک صورت تو یہ ہے کہ حتی سے پہلے فعل ماضی آجائے جیسے ؛۔ مشیت حتی ادخل ۔ البصرۃ ( یعنی میں چلا حتی کہ بصرہ میں داخل ہوا ) دوسری صورت یہ ہے کہ حتیٰ کا مابعد حال واقع ہو جیسے مرض حتی لایرجون و دو بیمار ہوا اس حال میں کہ سب اس سے ناامید ہوگئے ) اور آیت کریمۃ ؛۔ حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة 214] یہاں تک کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پکار اٹھے ۔ میں یقول پر رفع اور نصب دونوں منقول ہیں اور ان ہر دو قرآت میں دونوں معنی بیان کئے گئے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حتیٰ کا مابعد اس کے ماقبل کے خلاف ہوتا ہے ۔ جیسا ک قرآن میں ہے : وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء 43] ۔ اور جنابت کی حالت میں بھی نماز کے پاس نہ جاؤ ) جب تک کہ غسل ( نہ ) کرو ۔ ہاں اگر بحالت سفر رستے چلے جارہے ہو اور غسل نہ کرسکو تو تیمم سے نماز پڑھ لو ۔ مگر کبھی اس طرح نہیں بھی ہوتا جیسے مروی ہے ۔ اللہ تعالیٰ لاتمل حتی تملو ا ۔ پس اس حدیث کے یہ معنی نہیں ہیں کہ تمہارے تھک جانے کے بعد ذات باری تعالیٰ بھی تھک جاتی ہے ۔ بلکہ معنی یہ ہیں کہ ذات باری تعالیٰ کو کبھی ملال لاحق نہیں ہوتا ۔- فيأ - الفَيْءُ والْفَيْئَةُ : الرّجوع إلى حالة محمودة . قال تعالی: حَتَّى تَفِيءَ إِلى أَمْرِ اللَّهِ فَإِنْ فاءَتْ [ الحجرات 9] ، وقال : فَإِنْ فاؤُ [ البقرة 226] ، ومنه : فَاءَ الظّلُّ ، والفَيْءُ لا يقال إلّا للرّاجع منه . قال تعالی: يَتَفَيَّؤُا ظِلالُهُ [ النحل 48] . وقیل للغنیمة التي لا يلحق فيها مشقّة : فَيْءٌ ، قال : ما أَفاءَ اللَّهُ عَلى رَسُولِهِ [ الحشر 7] ، وَما مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفاءَ اللَّهُ عَلَيْكَ [ الأحزاب 50] ، قال بعضهم : سمّي ذلک بِالْفَيْءِ الذي هو الظّلّ تنبيها أنّ أشرف أعراض الدّنيا يجري مجری ظلّ زائل، قال الشاعر : أرى المال أَفْيَاءَ الظّلال عشيّةوكما قال :إنّما الدّنيا كظلّ زائل والفِئَةُ : الجماعة المتظاهرة التي يرجع بعضهم إلى بعض في التّعاضد . قال تعالی:إِذا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا [ الأنفال 45] ، كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً [ البقرة 249] ، فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتا[ آل عمران 13] ، فِي الْمُنافِقِينَ فِئَتَيْنِ [ النساء 88] ، مِنْ فِئَةٍ يَنْصُرُونَهُ [ القصص 81] ، فَلَمَّا تَراءَتِ الْفِئَتانِ نَكَصَ عَلى عَقِبَيْهِ [ الأنفال 48] .- ( ف ی ء )- الفیئی والفیئۃ کے معنی اچھی حالت کی طرف لوٹ آنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى تَفِيءَ إِلى أَمْرِ اللَّهِ فَإِنْ فاءَتْ [ الحجرات 9] یہاں تک کہ وہ خدا کے حکم کی طرف رجوع لائے پس جب وہ رجوع لائے ۔ فَإِنْ فاؤُ [ البقرة 226] اور اسی سے فاء الظل ہے جس کے معنی سیایہ کے ( زوال کے بعد ) لوٹ آنے کے ہیں اور فئی اس سایہ کو کہا جاتا ہے ۔ ( جو زوال کے ) بعد لوت کر آتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَتَفَيَّؤُا ظِلالُهُ [ النحل 48] جنکے سائے لوٹتے ہیں ۔ اور جو مال غنیمت بلا مشقت حاصل ہوجائے اسے بھی فیئ کہا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ ما أَفاءَ اللَّهُ عَلى رَسُولِهِ [ الحشر 7] جو مال خدا نے اپنے پیغمبر کو دلوایا ۔ مِمَّا أَفاءَ اللَّهُ عَلَيْكَ [ الأحزاب 50] جو خدا نے تمہیں ( کفار سے بطور مال غنیمت ) دلوائی ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ مال غنیمت کوئی بمعنی سایہ کے ساتھ تشبیہ دے کر فے کہنے میں اس امر پر تنبیہ ہے کہ دنیا کا بہترین سامان بھی بمنزلہ ظل زائل کے ہے شاعر نے کہا ہے ( اما دی المال افیاء الظلال عشیۃ اے مادی ماں شام کے ڈھلتے ہوئے سایہ کیطرح ہے ۔ دوسرے شاعر نے کا ہ ہے ( 349 ) انما الدنیا اظل زائل کہ دنیا زائل ہونے والے سایہ کی طرح ہے ۔ الفئۃ اس جماعت کو کہتے ہیں جس کے افراد تعاون اور تعاضد کے لئے ایک دوسرے کیطرف لوٹ آئیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا [ الأنفال 45] جب ( کفار کی ) کسی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو ۔ كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً [ البقرة 249] بسا اوقات تھوڑی سی جماعت نے بڑی جماعت پر فتح حاصل کی ۔ فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتا[ آل عمران 13] دو گر ہوں میں جو ( جنگ بدد میں ) آپس میں بھڑ گئے ۔ فِي الْمُنافِقِينَ فِئَتَيْنِ [ النساء 88] کہ تم منافقوں کے بارے میں دو گر وہ ۔ مِنْ فِئَةٍ يَنْصُرُونَهُ [ القصص 81] کوئی جماعت اس کی مددگار نہ ہوسکی فَلَمَّا تَراءَتِ الْفِئَتانِ نَكَصَ عَلى عَقِبَيْهِ [ الأنفال 48] جب یہ دونوں فوجیں ایک دوسرے کے مقابلے میں صف آر ہوئیں - إلى- إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، وأَلَوْتُ في الأمر : قصّرت فيه، هو منه، كأنه رأى فيه الانتهاء، وأَلَوْتُ فلانا، أي : أولیته تقصیرا نحو : کسبته، أي : أولیته کسبا، وما ألوته جهدا، أي : ما أولیته تقصیرا بحسب الجهد، فقولک : «جهدا» تمييز، وکذلك : ما ألوته نصحا . وقوله تعالی: لا يَأْلُونَكُمْ خَبالًا[ آل عمران 118] منه، أي : لا يقصّرون في جلب الخبال، وقال تعالی: وَلا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ [ النور 22] قيل : هو يفتعل من ألوت، وقیل : هو من : آلیت : حلفت . وقیل : نزل ذلک في أبي بكر، وکان قد حلف علی مسطح أن يزوي عنه فضله وردّ هذا بعضهم بأنّ افتعل قلّما يبنی من «أفعل» ، إنما يبنی من «فعل» ، وذلک مثل : کسبت واکتسبت، وصنعت واصطنعت، ورأيت وارتأيت . وروي : «لا دریت ولا ائتلیت»وذلک : افتعلت من قولک : ما ألوته شيئا، كأنه قيل : ولا استطعت .- الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے ۔ ( ا ل و ) الوت فی الامر کے معنی ہیں کسی کام میں کو تا ہی کرنا گو یا کوتاہی کرنے والا سمجھتا ہے کہ اس امر کی انتہا یہی ہے ۔ اور الوت فلانا کے معنی اولیتہ تقصیرا ( میں نے اس کوتاہی کا والی بنا دیا ) کے ہیں جیسے کسبتہ ای اولیتہ کسبا ( میں نے اسے کسب کا ولی بنا دیا ) ماالوتہ جھدا میں نے مقدر پھر اس سے کوتاہی نہیں کی اس میں جھدا تمیز ہے جس طرح ماالوتہ نصحا میں نصحا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا ( سورة آل عمران 118) یعنی یہ لوگ تمہاری خرابی چاہنے میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے ۔ اور آیت کریمہ : وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ ( سورة النور 22) اور جو لوگ تم میں سے صاحب فضل داور صاحب وسعت ) ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ الوت سے باب افتعال ہے اور بعض نے الیت بمعنی حلفت سے مانا ہے اور کہا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر کے متعلق نازل ہوئی تھی جب کہ انہوں نے قسم کھائی تھی کہ وہ آئندہ مسطح کی مالی امداد نہیں کریں گے ۔ لیکن اس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ فعل ( مجرد ) سے بنایا جاتا ہے جیسے :۔ کبت سے اکتسبت اور صنعت سے اصطنعت اور رایت سے ارتایت اور روایت (12) لا دریت ولا ائتلیت میں بھی ماالوتہ شئیا سے افتعال کا صیغہ ہے ۔ گویا اس کے معنی ولا استطعت کے ہیں ( یعنی تونے نہ جانا اور نہ تجھے اس کی استطاعت ہوئ ) اصل میں - أمر - الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :- إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود 123] - ( ا م ر ) الامر - ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔- وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے - عدل - العَدَالَةُ والمُعَادَلَةُ : لفظٌ يقتضي معنی المساواة، ويستعمل باعتبار المضایفة، والعَدْلُ والعِدْلُ يتقاربان، لکن العَدْلُ يستعمل فيما يدرک بالبصیرة كالأحكام، وعلی ذلک قوله : أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة 95] ، والعِدُل والعَدِيلُ فيما يدرک بالحاسّة، کالموزونات والمعدودات والمکيلات، فالعَدْلُ هو التّقسیط علی سواء، وعلی هذا روي : «بالعَدْلِ قامت السّموات والأرض» «5» تنبيها أنه لو کان رکن من الأركان الأربعة في العالم زائدا علی الآخر، أو ناقصا عنه علی مقتضی الحکمة لم يكن العالم منتظما .- والعَدْلُ ضربان :- مطلق : يقتضي العقل حسنه، ولا يكون في شيء من الأزمنة منسوخا، ولا يوصف بالاعتداء بوجه، نحو : الإحسان إلى من أحسن إليك، وكفّ الأذيّة عمّن كفّ أذاه عنك .- وعَدْلٌ يُعرَف كونه عَدْلًا بالشّرع، ويمكن أن يكون منسوخا في بعض الأزمنة، کالقصاص وأروش الجنایات، وأصل مال المرتدّ. ولذلک قال : فَمَنِ اعْتَدى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ [ البقرة 194] ، وقال : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُها [ الشوری 40] ، فسمّي اعتداء وسيئة، وهذا النحو هو المعنيّ بقوله : إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسانِ- [ النحل 90] ، فإنّ العَدْلَ هو المساواة في المکافأة إن خيرا فخیر، وإن شرّا فشرّ ، والإحسان أن يقابل الخیر بأكثر منه، والشرّ بأقلّ منه، ورجلٌ عَدْلٌ: عَادِلٌ ، ورجالٌ عَدْلٌ ، يقال في الواحد والجمع، قال الشاعر : 311-- فهم رضا وهم عَدْلٌ«1» وأصله مصدر کقوله : وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ- [ الطلاق 2] ، أي : عَدَالَةٍ. قال تعالی: وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ [ الشوری 15] ، وقوله : وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّساءِ [ النساء 129] ، فإشارة إلى ما عليه جبلّة النّاس من المیل، فالإنسان لا يقدر علی أن يسوّي بينهنّ في المحبّة، وقوله : فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَواحِدَةً- [ النساء 3] ، فإشارة إلى العَدْلِ الذي هو القسم والنّفقة، وقال : لا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا[ المائدة 8] ، وقوله : أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة 95] ، أي : ما يُعَادِلُ من الصّيام الطّعام، فيقال للغذاء : عَدْلٌ إذا اعتبر فيه معنی المساواة . وقولهم :«لا يقبل منه صرف ولا عَدْلٌ» «2» فالعَدْلُ قيل : هو كناية عن الفریضة، وحقیقته ما تقدّم، والصّرف : النّافلة، وهو الزّيادة علی ذلک فهما کالعَدْلِ والإحسان . ومعنی أنه لا يقبل منه أنه لا يكون له خير يقبل منه، وقوله : بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ [ الأنعام 1] ، أي : يجعلون له عَدِيلًا فصار کقوله : هُمْ بِهِ مُشْرِكُونَ [ النحل 100] ، وقیل : يَعْدِلُونَ بأفعاله عنه وينسبونها إلى غيره، وقیل : يَعْدِلُونَ بعبادتهم عنه تعالی، وقوله : بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ [ النمل 60] ، يصحّ أن يكون من قولهم : عَدَلَ عن الحقّ : إذا جار عُدُولًا، وأيّام مُعْتَدِلَاتٌ: طيّبات لِاعْتِدَالِهَا، وعَادَلَ بين الأمرین : إذا نظر أيّهما أرجح، وعَادَلَ الأمرَ : ارتبک فيه، فلا يميل برأيه إلى أحد طرفيه، وقولهم : ( وضع علی يدي عَدْلٍ ) فمثل مشهور «1» .- ( ع د ل ) العدالۃ والمعادلۃ - کے لفظ میں مساوات کے معنی پائے جاتے ہیں اور معنی اضافی کے اعتبار سے استعمال ہوتا ہے یعنی ایک دوسرے کے ہم وزن اور برابر ہوتا اور عدل عدل کے قریب قریب ایک ہی معنی ہیں لیکن عدل کا لفظ معنوی چیزوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے احکام شرعیہ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : ۔ أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة 95] او عدل ذلک صیاما یا اس کے برابر روزے رکھنا اور عدل وعدیل کے الفاظ ان چیزوں کے لئے بولے جاتے ہیں جن کا اور اک حواس ظاہرہ سے ہوتا ہے جیسے وہ چیزیں جن کا تعلق ماپ تول یا وزن سے ہوتا ہے پس عدل کے معنی دو چیزوں کا برابر ہونا کے ہیں چناچہ اسی معنی میں مروی ہے بالعدل قامت السموت والاارض کہ عدل ہی سے آسمان و زمین قائم ہیں یعنی اگر عناصر اربعہ جن کائنات نے ترکیب پائی ہے میں سے ایک عنصر میں بھی اس کی معینہ مقدار سے کمی یا بیشی ہوجائے تو نظام کائنات قائم نہیں رہ سکتا ،- العدل دو قسم پر ہے - عدل مطلق - جو عقلا مستحن ہوتا ہے یہ نہ تو کسی زمانہ میں منسوخ ہوا ہے اور نہ ہی کسی اعتبار سے تعدی کے ساتھ متصف ہوسکتا ہے مثلا کیسی کے احسان کے بدلہ میں اس پر احسان کرنا اور جو تمہیں تکلف نہ دے اسے ایزا رسانی باز رہنا قغیرہ ۔ - دوم عدل شرعی - جسے شریعت نے عدل کہا ہے اور یہ منسوخ بھی ہوسکتا ہے جیسے قصاص جنایات کی دیت اور مال مرتد کی اصل وغیرہ چناچہ آیات : ۔ فَمَنِ اعْتَدى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ [ البقرة 194] پس اگر کوئی تم پر زیادتی کرے تو جیسی زیادتی وہ تم پر کرے ۔ واپس ہی تم اس پر کرو ۔ وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُها [ الشوری 40] اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے ۔ میں زیادتی اور برائی کی سزا کا کام بھی زیادتی اور برائی ہی قرار دیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسانِ [ النحل 90] خدا تم کو انصاف اور احسان کرنے کا حکم دیتا ہے ۔ میں عدل کے یہی معنی مراد کیونکہ کسی چیز کے برابر اس کا بدلہ دینے کا نام عدل یعنی نیکی کا بدلہ نیکی سے اور برائی کا بدلہ برائی سے اور نیکی کے مقابلہ میں زیادہ نیکی اور شر کے مقابلہ میں مسامحت سے کام لینے کا نام احسان ہے اور لفظ عدل واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے رجل عدل عادل ورجال عدل شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) ( 303 ) فھم رضا وھم عدل وہ راضی رہنے والے اور عدال ہیں ۔ دراصل عدل کا لفظ مصدر ہے چناچہ آیت : ۔ وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ [ الطلاق 2] اور اپنے میں سے دو منصب مردوں کو گواہ بنالو میں عدل کے معنی عدالہ ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ [ الشوری 15] اور مجھے حکم ہوا کہ تم میں انصاف کروں لا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا[ المائدة 8] اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر امادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو ۔ انصاف کیا کرو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّساءِ [ النساء 129] اور تم خواہ کتنا ہی چاہو عورتوں میں ہر گز برابری نہیں کرسکو گے ۔ میں انسان کے طبعی میلان کی طرف اشارہ ہے کہ تمام بیویوں سے برابر وجہ کی محبت اس کی قدرت سے باہر ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَواحِدَةً [ النساء 3] اگر اس بات کا اندیشہ ہو کہ سب عورتوں سے یکساں سلوک نہ کرسکو گے تو ایک عورت کانی ہے ۔ میں عدل سے نان ونفقہ اور ازواجی تعلقات میں برابر ی مرادی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة 95] اس کے برابر روزے رکھنا ۔ میں عدل سے مراد یہ ہے کہ وہ روزے طعام سے فدیہ کے برابر ہوں کیونکہ فدیہ میں مساوت کے معنی ملحوظ ہوں تو اسے بھی عدل کہہ دیا جاتا ہے اور ( 33 ) لایقبل منہ صرف ولا عدل میں بعض نے کہا ہے کہ عدل کا لفظ فریضہ سے کنایہ ہے مگر اس کے اصل معنی وہی ہیں جو ہم بیان کرچکے ہیں اور صرف کا لفظ نافلۃ سے اور یہ اصل فرض سے بڑھ کر کام کرنے کا نام ہے لہذا یہ باہم تقابل کے اعتبار سے عدل اور احسان کے ہم مثل ہیں اور لایقبل منہ کے معنی یہ ہیں کہ اسکے پاس کسی قسم کی نیکی ہوگی جو قبول کی جائے اور یہ آیت : ۔ بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ [ الأنعام 1] کے معنی یہ ہیں کہ وہ دوسروں کو خدا کی مثل اور نظیر قرار دیتے ہیں ۔ لہذا یہ آیت : ۔ هُمْ بِهِ مُشْرِكُونَ [ النحل 100] کے ہم معنی ہوگی بعض نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ وہ افعال الہیہ کو دوسروں کی طرف منسوب کرتے ہیں بعض نے اللہ تعالیٰ کی عبادت سے عدول کرنا مراد لیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ [ النمل 60] بلکہ یہ لوگ رستے سے الگ ہورہے ہیں ۔ بھی اسی معنی پر محمول ہوسکتی ہے یعنی اس کے معنی یعدلون بہ کے ہیں ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ عدل عن الحق سے مشتق ہو جس کے معنی حق سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ ایام معتد لات معتدل زمانہ یعنی جب رات دن برابر ہوتے ہیں ۔ عادل بین الامرین اس نے دو چیزوں کے درمیان موازنہ کیا عادل الامر کسی معاملہ میں پھنس گیا اور کسی ایک جانب فیصلہ نہ کرسکا اور جب کسی شخص کی زندگی سے مایوسی ہوجائے تو اس کے متعلق کہا جاتا ہے : ۔ یعنی اب وہ زندہ نہیں رہ سکتا ۔- قسط - الْقِسْطُ : هو النّصيب بالعدل کالنّصف والنّصفة . قال تعالی: لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ بِالْقِسْطِ [يونس 4] ، وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ [ الرحمن 9] والقِسْطُ : هو أن يأخذ قسط غيره، وذلک جور، والْإِقْسَاطُ : أن يعطي قسط غيره، وذلک إنصاف، ولذلک قيل : قَسَطَ الرّجل : إذا جار، وأَقْسَطَ : إذا عدل . قال : أَمَّا الْقاسِطُونَ فَكانُوا لِجَهَنَّمَ حَطَباً- [ الجن 15] وقال : وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ- [ الحجرات 9] ، وتَقَسَّطْنَا بيننا، أي : اقتسمنا، والْقَسْطُ : اعوجاج في الرّجلین بخلاف الفحج، والقِسْطَاسُ : المیزان، ويعبّر به عن العدالة كما يعبّر عنها بالمیزان، قال : وَزِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقِيمِ [ الإسراء 35] .- ( ق س ط ) القسط ( اسم )- ( ق س ط ) القسط ( اسم ) نصف ومصفۃ کی طرح قسط بھی مبنی بر عدل حصہ کو کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ بِالْقِسْطِ [يونس 4] تاکہ ایمان والوں اور نیک کام کرنے والوں کو انصاف کے ساتھ بدلہ دے ۔ وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ [ الرحمن 9] اور قسط کے معنی دوسرے کا حق مررنا بھیآتے ہیں اس لئے یہ ظلم اور جو رے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے القسط پاؤں میں ٹیڑھا پن یہ افجع کی ضد ہے جس کے نزدیک اور ایڑیوں کی جانب سے دور ہو نیکے ہیں ۔ الا قساط اس کے اصل معنی کسی کو اس کا حق دینے کے ہیں اسی چیز کا نام انصاف ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے کہ قسط الرجل فھو قاسط ) کے معنی ظلم کرنے اوراقسط کے معنی انصاف کرنے کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ أَمَّا الْقاسِطُونَ فَكانُوا لِجَهَنَّمَ حَطَباً [ الجن 15] اور گنہگار ہوئے وہ دوزخ کا ایندھن بنے وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ [ الحجرات 9] اور انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔ فقسطنا بیننا ہم نے ( کسی چیز کو آپس میں برا بر تقسیم کرلیا چناچہ القسطاس تراز دکو کہتے ہیں اور لفظ میزان کی طرح اس سے بھی عدل ونصاف کے معنی مراد لئے جاتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَزِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقِيمِ [ الإسراء 35] اور جب تول کر دو تو ترا زو سیدھی رکھ کر تولا کرو ۔- حب - والمحبَّة :- إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه :- محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه :- وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] .- ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه :- وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] .- ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم .- ( ح ب ب ) الحب والحبۃ - المحبۃ - کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں - اور محبت تین قسم پر ہے :- ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے - جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے - ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر - جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی - ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے - جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔
باغیوں کے خلاف قتال کا بیان - قول باری ہے (وان طائفتان من المومنین اقتتلوا فاصلحو ا بینھما۔ اور اگر اہل ایمان کے دو گروہ آپس میں برسرپیکار ہوجائیں تو ان کے درمیان اصلاح کرادو) ہمیں عبداللہ بن محمد نے روایت بیان کی ، انہیں حسن بن ابی الربیع نے، انہیں عبدالرزاق نے معمر سے، انہوں نے حسن بصری سے کہ مسلمانوں کے کچھ افراد کے درمیان کوئی تنازعہ تھا جو سلجھ نہ سکا اور پھر یہ لوگ ہاتھا پابی اور جو تم پیزار پر اتر آئے، اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی۔- معمر کہتے ہیں کہ قتادہ نے کہا ہے کہ دو شخصوں کے درمیان کسی حق کے سلسلے میں کوئی جھگڑا تھا۔ یہ دونوں اس کے متعلق ٹال مٹول سے کام لیتے رہے۔ پھر ایک نے کہا میں زبردستی اپنا حق لے لوں گا۔ اس نے یہ بات اس لئے کہی تھی کہ اس کے خاندان کے افراد کی تعداد زیادہ تھی۔ دوسرے نے اس کے جواب میں کہا کہ میرے اور تمہارے درمیان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ تنازعہ بڑھ جانے پر یہ دونوں ہاتھا پائی اور جو تم پیزار پر اتر آئے۔- سعید بن جبیر اور شعبی سے مروی ہے کہ انہوں نے ڈنڈوں اور جوتوں سے ایک دوسرے کی پٹائی شروع کردی۔ مجاہد کا قول ہے کہ یہ اوس اور خزرج کے قبیلے تھے۔ ان کے درمیان ڈنڈوں سے لڑائی ہوئی تھی۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ظاہر آیت باغی گروہ کے خلاف جنگ کرنے کے امر کا مقتضی ہے حتیٰ کہ یہ اللہ کے حکم کی طرف آئے۔ آیت میں قتال کی تمام صورتوں کے لئے عموم ہے اگر باغی گروہ جوتوں اور ڈنڈوں کے ساتھ قتال کے ذریعے حق کی طرف لوٹ آئے تو اس صورت میں جوتوں اور ڈنڈوں سے بات آگے نہیں بڑھائی جائے گی۔- اگر وہ جوتوں اور ڈنڈں سے سیدھے نہ ہوں تو ان کے خلاف تلوار سے جنگ کی جائے گی۔ جیسا کہ ظاہر آیت اس چیز کو متضمن ہے۔ اگر باغی گروہ اپنی بغاوت پر ڈٹا رہے اور حق کی طرف رجوع نہ کرے تو اس صورت میں صرف ڈنڈوں پر اکتفا کرنا کسی کے لئے جائز نہیں ہوگا بلکہ اس صورت میں اگر ہتھیار اٹھانے کی ضرورت ہوگی تو ہتھیار بھی اٹھا لئے جائیں گے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی یہ بھی ایک صورت ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (من رای منکم منکرا فلیغایرہ بیدہ فان لم یستطع فبلسانہ فان لم یستطع فبقلبہ وذاک ضعف الایمان۔ تم میں سے کوئی شخص اگر غلط بات دیکھے توا سے اپنے ہاتھ سے بدل ڈالے، اگر وہ اس کی طاقت نہیں رکھتا تو اپنی زبان سے اسے بدلنے کی کوشش کرے اگر وہ اس کی بھی طاقت نہیں رکھتا تو اپنے دل سے اسے برا سمجھے یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے)- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہاتھ سے برائی کے ازالے کا حکم دیا اور اس میں ہتھیار اور غیر ہتھیار کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا۔ اس لئے ظاہر حدیث منکر کے ازالے کا مقتضی ہے خواہ وہ جس طریقے سے بھی ہو۔ کچھ بیکار قسم کے لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ باغیوں کی سرکوبی صرف ڈنڈوں اور جوتوں نیز ہتھیاروں سے کم چیزوں کے ذریعے کی جائے۔ ان کے خلاف ہتھیاروں کے ساتھ جنگ نہیں کی جائے گی۔ انہوں نے اس واقعہ سے استدلال کیا ہے جو ہم نے آیت کے نزول کے سلسلے میں بیان کیا ہے نیز یہ کہ اس میں جوتوں اور ڈنڈوں کے ذریعے لڑائی ہوئی تھی۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ان لوگوں نے جو بات بیان کی ہے اس پر اس واقعہ کی کوئی دلالت نہیں ہے۔ کیونکہ اس واقعہ میں لوگ ڈنڈوں کے ساتھ لڑے تھے یعنی اس لڑائی میں ہتھیاروں کے سوا دوسری چیزیں استعمال کی گئی تھیں اللہ تعالیٰ نے ان دونوں فریقوں میں سے باغی اور سرکش فریق کے خلاف جنگ کرنے کا حکم دیا اور یہ تخصیص نہیں کی کہ اس کے خلاف ہماری جنگ ہتھیاروں کے سوا دوسری چیزوں کے ساتھ ہونی چاہیے۔ ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ اہل بغی کے خلاف جنگ کرنے کی جو صورت مناسب ہوگی ہوگی وہ ہم اختیار کریں گے۔ اگر ہتھیاروں کے ساتھ جنگ کرنے کی ضرورت پیش آئے گی تو ہم ہتھیار استعمال کریں گے اور اس کے بغیر دوسری چیز مثلاً ڈنڈوں وغیرہ سے کام چل سکتا ہو تو ڈنڈوں سے کام چلائیں گے یہاں تک کہ باغی گروہ حق کی طرف لوٹ آئے اور اپنی سرکشی سے دست بردار ہوجائے۔- آیت کا نزول جس واقعہ کے تحت ہوا ہے اس میں ڈنڈوں اور جوتوں سے لڑائی ہوئی تھی لیکن اس سے لازم نہیں آتا کہ آیت میں ہمیں ان کے خلاف قتال کا جو حکم دیا گیا ہے وہ صرف ڈنڈوں اور جوتوں کے استعمال تک محدود رہے۔ جب کہ آیت کا عموم ہتھیار اور ہتھیار سے کم چیزوں کے ساتھ قتال کا مقتضی ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر اللہ کا حکم یہ ہوتا کہ ” جو شخص تمہارے ساتھ ڈنڈے کے ساتھ لڑائی کرے تم اس کے ساتھ ہتھیار سے لڑو۔ “ تو اس صورت میں اس حکم کے اندر کوئی تناقض نہ ہوتا۔ یہی صورت اس حکم کی ہے جو اللہ نے ہمیں اہل بغی کے خلاف قتال کے سلسلے میں دیا ہے کیونکہ اس کا عموم ہتھیار اور غیر ہتھیار دونوں کا مقتضی ہے۔- اس لئے اسے عموم کی صورت میں باقی رکھنا واجب ہے۔ حضرت علی (رض) نے بھی ہتھیاروں کے ساتھ باغیوں کے خلاف جنگ کی تھی۔ آپ کے ساتھ جلیل القدر صحابہ کرام تھے جن میں بدریین (غزوہ بدر میں شرکت کرنے والے) بھی تھے۔ حضرت علی (رض) ان باغیوں کے خلاف جنگ کرنے میں برحق تھے۔ کسی نے آپ کی مخالفت نہیں کی صرف یہ باغی گروہ اور اس کے ہمنوا جن کا آپ نے مقابلہ کیا تھا اس معاملے میں آپ کے مخالف تھے۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمار (رض) سے فرمایا تھا (تقتلک الفئۃ الباغیۃ۔ تمہیں باغی گروہ قتل کردے گا) یہ حدیث تواتر کی بنا پر خبر مقبول کا درجہ رکھتی ہے حتیٰ کہ حضرت معاویہ (رض) کو بھی اس کے انکار کی ہمت نہیں ہوئی۔ جب حضرت ابن عمر (رض) نے ان سے اسے بیان کیا اس موقعہ پر انہوں نے صرف اتنا ہی کہا : ” عمار کو دراصل اس نے قتل کیا جو انہیں اپنے ساتھ لے کر آیا تھا (اشارہ حضرت علی (رض) کی طرف ہے) اور پھر انہیں ہمارے نیزوں کے درمیان پھینک گیا۔ “ اس حدیث کی اہل کو فراء اہلی بصرہ، اہل حجاز اور اہل شام سب نے روایت کی ہے۔- یہ حدیث حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی نشانیوں میں سے ایک بڑی نشانی ہے کیونکہ یہ آئندہ رونما ہونے والے واقعہ کے متعلق اطلاع ہے جس کا علم صرف علام الغیوب کی طرف سے اس کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیا گیا تھا۔ خوارج کے خلاف جنگ کرنے اور انہیں قتل کرنے کے ایجاب کی بہت سی روایتیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہیں جو حد تواتر کو پہنچتی ہیں۔- حضرت انس (رض) اور حضرت ابوسعید (رض) نے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” میری امت میں عنقریب اختلاف پیدا ہوجائے گا۔ ایک گروہ ایسا ہوگا جو باتیں تو بڑی اچھی کرے گا لیکن اس کے اعمال بہت برے ہوں گے، وہ دین سے اس طرح نکل جائے گا جس طرح تیرا پنے نشانے سے پار نکل جاتا ہے۔ یہ لوگ واپس نہیں ہوں گے جب تک کہ تیرواپس نہ آجائے (اور یہ محال ہے) یہ لوگ بدترین مخلوق ہیں۔ سعادت ہے اس شخص کے لئے جو انہیں قتل کرے یا ان کے ہاتھوں قتل ہوجائے ۔ یہ لوگ کتاب اللہ کی طرف بلائیں گے لیکن کتاب اللہ کے ساتھ خود ان کا کوئی تعلق نہیں ہوگا جو شخص انہیں قتل کرے گا وہ ان کی بہ نسبت اللہ سے زیادہ قریب ہوگا۔ “ صحابہ (رض) نے عرض کیا ” اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی نشانی کیا ہوگی ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” تحلیق “ یعنی ان کے سر مونڈے ہوں گے۔- اعمش نے خیثمہ سے اور انہوں نے سوید بن غفلہ سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی (رض) کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ ” لوگو جب میں تمہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کوئی حدیث سنائوں تو یادرکھو کہ میرے لئے آسمان سے اسی طرح نیچے گر جانا کہ فضا میں پرندے مجھے اچک لیں زیادہ پسند ہے بہ نسبت اس کے کہ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی جھوٹی حدیث بیان کروں اور جب میں تم سے موجودہ حالات کے بارے میں گفتگو کروں تو اس کے متعلق یادرکھو کہ جنگ ایک چال ہوتی ہے۔ “ یعنی ہوسکتا ہے کہ کسی مصلحت کی خاطر میں تم سے کھل کر بات نہ کروں۔- آپ نے مزید فرمایا، میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ زمانہ نبوت کے آخر پر کچھ لوگ ابھریں گے جن کی عمریں کم ہوں گی جو سمجھ بوجھ کے لحاظ سے بیوقوف ہوں گے۔ باتیں تو وہ بہترین کریں گے لیکن ایمان ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ وہ لوگ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر اپنے نشانے کے پار نکل جاتا ہے۔ اگر تمہارا ان کے ساتھ آمنا سامنا ہو تو ان کی گردنیں اڑادو۔ انہیں قتل کرنے والوں کو قیامت کے دن اجر ملے گا۔ “- باغی سے جنگ کرکے اسے قتل کیا جاسکتا ہے - باغی گروہ کو راہ راست پر لانے کے لئے تلوار سے کم کوئی چیز اگر کارگر نہ ہو تو ان کے خلاف جنگ کے وجوب پر صحابہ کرام کے درمیان کوئی اختلاف رائے نہیں ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ تمام صحابہ کرام خوارج کے خلاف جنگ کے قائل تھے، اگر یہ حضرات ان کے خلاف جنگ نہ کرتے بلکہ مقابلہ سے بیٹھ رہتے تو خوارج ان سب کو قتل کردیتے اور ان کے بچوں اور عورتوں کو گرفتار کرلیتے اور انہیں برباد کرکے رکھ دیتے۔- اگر یہ کہا جائے کہ صحابہ کرام کی ایک جماعت نے حضرت علی (رض) کا ساتھ نہیں دیا تھا۔ ان میں حضرت سعد (رض) ، محمد بن مسلمہ (رض) ، اسامہ بن زید (رض) اور حضرت ابن عمر (رض) شامل تھے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ انہوں نے اس لئے ساتھ نہیں دیا تھا کہ وہ باغی گروہ کے خلاف جنگ کے قائل نہیں تھے بلکہ ممکن ہے کہ انہوں نے اس بناء پر عملی طور پر جنگ میں حصہ نہیں لیا تھا کہ ان کے خیال میں امام المسلمین یعنی حضرت علی (رض) کا ان کے خلاف اپنے رفقاء کے ساتھ نبردآزما ہونا کافی تھا اور ان کی ضرورت نہیں تھی اس لئے انہوں نے جنگ میں شرکت نہ کرنے کی اجازت حاصل کرلی تھی۔- آپ نہیں دیکھتے کہ خوارج کے خلاف ان حضرات نے جنگوں میں حصہ نہیں لیا تھا اس کے یہ معنی نہیں تھے کہ ان کے نزدیک خوارج کے خلاف قتال واجب نہیں تھا بلکہ جب انہوں نے یہ دیکھا کہ جنگ میں ان کی ضرورت نہیں ہے دوسرے لوگ کافی ہیں تو انہوں نے عملی طور پر ان جنگوں میں حصہ لینا مناسب نہیں سمجھا۔- اگر ہمارے مخالفین اس روایت سے استدلال کریں جس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا (ستکون فتنۃ القائم فیھا اخیر من الماشی والقاعد فیھا خیر ھن القائم۔ عنقریب فتنہ وفساد برپا ہوگا اس میں کھڑا رہنے والا چلنے والے سے بہتر ہوگا اور بیٹھارہنے والا چلنے والے سے بہتر ہوگا) اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ آپ نے اس سے وہ فتنہ مراد لیا ہے جس میں لوگ دنیا کی طلب اور عصبیت کی بنا پر ایک دوسرے کا گلا کاٹیں گے۔- اس میں امام المسلمین کے ساتھ جس کی اطاعت واجب ہوتی ہے مل کر قتال نہیں ہوگا لیکن جب یہ ثابت ہوجائے گا کہ فریقین میں سے ایک گروہ باغی اور دوسرا گروہ عادل اور امام المسلمین کا ساتھ دینے والا ہے تو اس صورت میں امام المسلمین اور اس کے ہمنوائوں کے ساتھ مل کر باغی گروہ کی سرکوبی واجب ہوگی اور ایسی جنگ میں حصہ لینے والا اللہ کے نزدیک اجر کا مستحق ہوگا۔- کلمہ توحید کے قائل کو ناحق قتل کرنا ممنوع ہے - اگر یہ کہا جائے کہ ایک فوجی مہم میں حضرت اسامہ (رض) نے ایسے شخص کو قتل کردیا تھا جس نے کلمہ طیبہ کا اقرار کیا تھا۔ حضرت اسامہ (رض) کو شک لھا کہ اس نے اپنی جان بچانے کے لئے کلمہ طیبہ کا اقرار کیا ہے، لیکن جب یہ بات حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معلوم ہوئی تو آپ کو انتہائی صدمہ پہنچا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت اسامہ (رض) سے فرمایا۔” تم نے اسے مار ڈالا جب کہ اس نے لا الہ الا اللہ کہہ دیا تھا۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فقرہ کئی بار دہرایا۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ جو شخص کلمہ گو ہو اس کے خلاف نہ تو جنگ کی جائے اور نہ ہی اسے قتل کیا جائے۔- اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ان کے خلاف اس لئے جنگ کی جاتی تھی کہ وہ مشرک تھے، ان کے خلاف جنگ کے خاتمے کی شرط یہ تھی کہ وہ کلمہ توحید کا اقرار کرلیں۔ جس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (امرت ان اقاتل الناس حتی یقولوالا الہ الا اللہ ، فاذاقا لوھا عصموا منی دماء ھم واموالھم الا بحقھا۔ مجھے حکمی دیا گیا ہے کہ جب تک لوگ لا الہ الا اللہ نہ کہہ دیں اس وقت تک میں ان کے خلاف جنگ کرتا رہوں۔ جب وہ یہ کلمہ کہہ دیں گے تو میرے ہاتھوں سے اپنی جان اور اپنا مال محفوظ کرلیں گے سوائے اس صورت کے جب ان کی جان یا ان کا مال کسی حق کے بدلے میں لیا جائے)- یہ مشرکین جب کلمہ توحید کا اقرار کرلیتے تو ان تمام باتوں کو قبول کرلیتے جن کی طرف انہیں بلایا جاتا یعنی بت پرستی چھوڑ کر توحید کا اقرار کرلیتے۔ اس کی نظیر وہ صورت ہے جب باغی بغاوت سے کنارہ کش ہوکر حق کی طرف لوٹ آئیں تو ان کے خلاف قتال کا حکم ساقط ہوجاتا ہے۔ ان کے خلاف جنگی کاروائی صرف اس بنا پر کی جاتی ہے کہ وہ اہل عدل یعنی امام المسلمین کے وفادار لوگوں کے خلاف ہتھیار اٹھائے ہوتے ہیں۔- اس لئے جب وہ اس حرکت سے باز آجائیں گے تو ان کے خلاف جنگی کاروائی بھی رک جائے گی۔ جس طرح مشرکین سے اس لئے قتال کیا جاتا ہے کہ وہ اسلام کا اقرار کرلیں۔ جب وہ اسلام کا اظہار کردیں گے تو قتال کا حکم ان سے زائل ہوجائے گا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ رہزنوں اور امام المسلمین کے خلاف برسر پیکار لوگوں کے خلاف جنگی کاروائی کی جاتی تھی حالانکہ وہ لوگ لا الہ الا اللہ کے قائل ہوتے تھے۔- باغیوں کے خلاف اقدام کی ابتدا کیسے کی جائے ؟- قول باری ہے (وان طائفتان من المومنین اقتتلوا فاصلحوا بینھما۔ اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں جنگ کرنے لگیں تو ان کے درمیان اصلاح کرادو) ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے دو گروہوں کے درمیان جنگ شروع ہوجانے کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے ان کے درمیان اصلاح کرانے کا حکم دیا ہے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ دونوں گروہوں کو صلاح اور حق کی طرف تیز کتاب وسنت کے حکم اور ترک بغاوت کی طرف بلایا جائے (فان بغت احداھما علی الاخری۔ پھر اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے کے ساتھ زیادتی کرے) یعنی۔ واللہ اعلم۔- اگر ایک گروہ حق کی طرف لوٹ آئے اور اصلاح کا ارادہ کرلے لیکن دوسرا گروہ بغاوت اور سرکشی پر اڑا رہے اور حق کی طرف رجوع کرلینے سے باز رہے تو اس صورت میں دوسرے گروہ کے خلاف جنگ کی جائے یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے۔ اللہ تعالیٰ نے جنگ سے پہلے حق کی طرف بلانے کا حکم دیا ہے۔ اس کے بعد بھی اگر وہ لوٹنے سے انکار کردے تو اس کے خلاف جنگی کاروائی کی جائے گی۔- حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے بھی یہی طریق کار اختیار کیا تھا۔ آپ نے سب سے پہلے باغی گروہ کو حق کی طرف لوٹ آنے کی دعوت دی اور ان پر حجت تمام کردی لیکن جب انہوں نے آپ کی بات ماننے سے انکار کردیا تو آپ نے ان کے خلاف جنگ شروع کی۔ آیت میں اس بات پر دلالت موجود ہے کہ فساد عقائد کی بنا پر باغیوں سے جنگ نہیں کی جائے گی جب تک وہ خود قتال کی ابتداء نہ کریں کیونکہ قول باری ہے (فان بغت احداھما علی الاخری فقاتلوا التی تبغی حتی تقیء الی امر اللہ۔ پھر اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے پر زیادتی کرے تو اس سے لڑو جو زیادتی کررہا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف رجوع کرلے) ان سے لڑائی کرنے کا حکم صرف اسی صورت میں دیا گیا ہے۔- جب وہ دوسروں کے خلاف جنگ کرکے ان کے ساتھ زیادتی کریں۔- حضرت علی (رض) نے بھی خوارج کے ساتھ یہی طریقہ کار اختیار کیا تھا۔ خوارج جب حضرت علی (رض) کے لشکر سے الگ ہوگئے تو آپ نے ان کی طرف حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کو بھیجا، انہوں نے جاکر انہیں واپس آجانے کی دعوت دی لیکن انہوں نے اس دعوت کو قبول نہ کیا۔ پھر آپ خود ان کے پاس گئے اور ان کے ساتھ سوال وجواب کیا جس کے نتیجے میں ایک گروہ واپس ہوگیا لیکن دوسرا گروہ اپنی بغاوت پر ڈٹارہا۔- جب یہ لوگ کوفہ میں داخل ہوئے تو حضرت علی (رض) کے خطبے کے دوران مسجد کے ایک گوشے سے ” ان الحکم الا اللہ “ (فیصلہ کرنے کا اختیار صرف اللہ کو ہے) کا نعرہ بلند کیا۔ حضرت علی (رض) نے یہ سن کر فرمایا : ” کلمۃ حق ارید بھا الباطل (یہ کلمہ حق ہے لیکن اس کا ایک غلط مفہوم لیا گیا ہے) پھر آپ نے یہ اعلان کیا۔ انہیں تین حقوق حاصل رہیں گے، ہم انہیں اللہ کی مسجدوں میں اس کا نام لینے سے نہیں روکیں گے، جب تک ان کے ہاتھ ہمارے ہاتھوں میں ہوں گے اس وقت تک فی یعنی مال غنیمت وغیرہ میں ان کا حق انہیں دیتے رہیں گے اور جب تک یہ ہمارے خلاف جنگ نہیں کریں گے اس وقت تک ہم ان کے خلاف جنگی کاروائی نہیں کریں گے۔- باغیوں سے چھینے ہوئے مال کا حکم - ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اس مسئلے میں اہل علم کے مابین اختلاف رائے ہے۔ امام محمد نے مبسوط میں کہا ہے کہ یہ مال مال غنیمت نہیں ہوگا۔ البتہ ان سے چھینے ہوئے ہتھیار اور گھوڑے ، خچر وغیرہ ان کے خلاف جنگ میں استعمال کیے جائیں گے۔ جب جنگ کا خاتمہ ہوجائے گا تو ان کا مال انہیں واپس کردیا جائے گا اور جب ایک بھی باغی باقی نہیں رہے گا ان کے گھوڑے وغیرہ بھی انہیں واپس کردیئے جائیں گے۔ جو چیزیں استعمال میں آکر ختم ہوچکی ہوں گی ان کے بدلے میں کوئی چیز نہیں دی جائے گی۔- ابراہیم بن الجراح نے امام ابویوسف سے ذکر کیا ہے کہ باغیوں کے قبضے میں جتنا ہتھیار اور گھوڑے، گدھے نیز خچر وغیرہ ہوں گے وہ فی شمار ہوں گے انہیں مال غنیمت کی طرح تقسیم کیا جائے گا اور خمس بھی نکالا جائے گا۔ پھر جب یہ لوگ توبہ کرلیں گے تو ان سے کسی خون کا بدلہ نہیں لیا جائے گا اور نہ ہی اس مال کا معاوضہ لیا جائے گا جو یہ اپنے استعمال میں لاکر ختم کرچکے ہوں گے۔- امام مالک کا قول ہے کہ خوارج نے جو جانیں لی ہوں گی یا جو مال انہوں نے ختم کیا ہوگا توبہ کرلینے پر ان سے ان چیزوں کا حساب نہیں لیا جائے گا۔ البتہ اگر کوئی مال بعینہ موجود ہوگا وہ واپس کرایا جائے گا۔ اوزاعی اور امام شافعی کا بھی یہ قول ہے۔ - حسن بن صالح کا قول ہے کہ مسلح چوروں سے لڑائی کی صورت میں اگر انہیں قتل کرنے کے بعد ان کے مال پر قبضہ کرلیاجائے گا تو یہ مال لڑائی میں حصہ لینے والوں کے لئے مال غنیمت شمار ہوگا۔ البتہ اس سے خمس پہلے نکال لیا جائے گا۔ ہاں اگر کوئی چیز ایسی ہوگی جس کے بارے میں یہ علم ہو کہ انہوں نے اسے لوگوں کے گھروں سے چرایا تھا تو اس صورت میں وہ چیز مال غنیمت شمار نہیں ہوگی۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اس بارے میں حضرت علی (رض) سے منقول روایتوں میں اختلاف ہے۔ فطر بن خلیفہ نے منذر بن یعلیٰ سے روایت کی ہے اور انہوں نے محمد بن الحنفیہ سے کہ امیر المومنین حضرت علی (رض) نے جنگ جمل کے دن ہاتھ آنے والے ہتھیاروں اور گھوڑوں ، خچروں وغیرہ کو اپنے رفقاء کے درمیان مال غنیمت کے طور پر تقسیم کردیا تھا۔ اس روایت سے ان لوگوں نے استدلال کیا ہے جو ایسے مال کو مال غنیمت قرار دینے کے قائل ہیں۔ لیکن اس میں یہ دلالت موجود نہیں ہے کہ یہ مال غنیمت تھا کیونکہ ہوسکتا ہے کہ حضرت علی (رض) نے ہاتھ آنے والے ہتھیاروں اور جانوروں کو اس بنا پر تقسیم کردیا ہو کہ جنگ کے خاتمے سے پہلے انہیں جنگی کاروائیوں میں استعمال کیا جائے۔ آپ نے یہ چیزیں اپنے رفقاء کی ملکیت میں نہیں دی تھیں جیسا کہ امام محمد نے مبسوط میں کہا ہے۔- عکرمہ بن عمار نے اوزمیل سے روایت کی ہے، انہوں نے عبداللہ بن الدولی سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہ خوارج کو حضرت علی (رض) پر اس بات کا غصہ تھا کہ آپ نے جنگ جمل میں باغیوں کی عورتوں اور بچوں کو گرفتار نہیں کیا تھا اور نہ ہی ان کے مال کو مال غنیمت قرار دیا۔ اس پر حضرت علی (رض) نے ان سے یہ کہا تھا ” کیا پھر تم اپنی ماں عائشہ (رض) کو گرفتار کرتے اور ان سے اسی طرح پیش آتے جس طرح قیدی لونڈیوں سے پیش آتے ہو، اگر تم ایسا کرتے تو تم یقینا کافر ہوجاتے۔- ابو معاویہ نے صلت بن بہرام سے روایت کی ہے، انہوں نے ابو وائل سے۔ ابن بہرام کہتے ہیں کہ میں نے ابو وائل سے پوچھا کہ آیا حضرت علی (رض) نے جنگ جمل میں چھینے ہوئے اموال کا خمس نکالا تھا ؟ انہوں نے نفی میں اس کا جواب دیا۔- زہری کہتے ہیں کہ جب خانہ جنگی کا فتنہ اٹھ کھڑا ہوا تو اس وقت صحابہ کرام کی بڑی تعداد موجود تھی۔ ان سب کا اس پر اتفاق تھا کہ اس فتنہ کے دوران تاویل کی بنا پر بہنے والے خون اور استعمال شدہ مال کا کوئی تاوان نہیں۔ باغیوں کے مال کو مال غنیمت شمار نہیں کیا جائے گا اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ وہ اپنے گھروں میں جو کچھ مال چھوڑ کر آئے ہیں اسے مال غنیمت شمار نہیں کیا جاتا خواہ وہ سب قتل کیوں نہ ہوجائیں۔ اسی طرح جو مال وہ اپنے ساتھ لے کر میدان جنگ میں آتے ہیں اسے بھی مال غنیمت شمار نہیں کیا جائے گا۔- آپ نہیں دیکھتے کہ اہل حرب کے اموال کو مال غنیمت شمار کیا جاتا ہے خواہ یہ اموال ان سے میدان جنگ میں چھینے گئے ہوں یا ان کے گھروں میں موجود ہوں۔ مال غنیمت ہونے کے لحاظ سے ان اموال میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ بلکہ ان کا جو مال بھی ہمارے قبضے میں آجاتا ہے وہ مال غنیمت شمار ہوتا ہے۔ نیز اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ باغیوں کی عورتوں اور بچوں کو قیدی نہیں بنایا جائے گا اور نہ ہی ان کی گردنوں کی ملکیت حاصل ہوگی اسی طرح ان کے مال کا بھی مسئلہ ہے کہ اسے مال غنیمت نہیں بنایا جائے گا۔- اگر یہ کہا جائے کہ عرب کے مشرکین کی گردنوں کی ملکیت حاصل نہیں ہوتی لیکن اس کے باوجود ان کا مال مال غنیمت شمار ہوتا ہے اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ان کی گردنوں کی ملکیت اس لئے حاصل نہیں ہوتی کہ گرفتار ہوجانے پر اگر وہ اسلام نہ لائیں تو انہیں قتل کردیا جاتا ہے اور ان کی عورتوں اور بچوں کو قیدی بنا لیا جاتا ہے اسی لئے ان کے مال کو مال غنیمت قرار دیا جاتا ہے۔- اس کے برعکس خوارج کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر ان کی طاقت وقوت بکھر چکی ہو تو اس صورت میں ان کے قیدیوں کو قتل نہیں کیا جائے گا اور ان کی عورتوں اور بچوں کو کسی صورت میں قیدی نہیں بنایا جائے گا۔ اسی طرح ان کے مال کو بھی مال غنیمت قرار نہیں دیا جائے گا۔- باغیوں کے قیدیوں اور زخمیوں کا حکم - کوثر بن حکیم نے نافع سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” ام عبد کے بیٹے اس امت میں جو لوگ بغاوت کریں ان کے متعلق اللہ کا کیا حکم ہے ؟ “ حضرت ابن عمر نے جواب دیا۔ اللہ اور اس کے رسول کو بہتر علم ہے۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا : ” باغیوں میں سے جو لوگ زخمی ہوں گے انہیں ہلاک نہیں کیا جائے گا، ان کے گرفتار شدہ قیدیوں کو قتل نہیں کیا جائے گا اور بھاگنے والوں کا تعاقب نہیں کیا جائے گا۔ “- عطاء بن السائب نے ابو النجتری اور عامر سے روایت کی ہے جنگ جمل میں حضرت علی (رض) کو جب فتح ہوگئی تو آپ نے حکم جاری کیا ” بھاگنے والوں کا تعاقب نہ کرو ۔ اور زخمی کو ہلاک نہ کرو۔ “ شر کی نے سدی سے اور انہوں نے عبد خیر سے روایت کی ہے کہ حضرت علی (رض) نے جنگ جمل کے دن اعلان کیا کسی قیدی کو قتل نہ کرو، کسی زخمی کو ہلاک نہ کرو، جو شخص ہتھیار پھینک دے اسے امان مل جائے گی۔ “- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ یہ حضرت علی (رض) کا فیصلہ تھا اور ہمیں سلف میں سے کسی کے متعلق اس فیصلے سے اختلاف کا کوئی علم نہیں۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ باغیوں کی جتھا بندی اگر ختم ہوجائے اور ان کا ٹولہ باقی نہ رہے تو اس صورت میں ان کے زخمی کو نہ تو ہلاک کیا جائے گا نہ قیدی کو قتل کیا جائے گا اور نہ ہی بھاگنے والے کا تعاقب کیا جائے گا۔ اگر ان کی جتھا بندی قائم ہوگی تو امام المسلمین کی صوابدید کے مطابق ان کے قیدی کو قتل کیا جاسکے گا اور ان کے زخمی کو ہلاک اور بھاگنے والے کا تعاقب کیا جاسکے گا۔- حضرت علی (رض) کا درج بالا قول اس صورت پر محمول ہے جب کہ باغیوں کی جتھا بندی ختم ہوجائے۔ کیونکہ آپ نے یہ بات جنگ جمل کے موقعہ پر فرمائی تھی اور ظاہر ہے کہ شکست کھانے کے بعد ان کا کوئی جتھا باقی نہیں رہا تھا۔- اس کی دلیل یہ ہے کہ جنگی کاروائیوں کے دوران حضرت علی (رض) نے ابن یثریٰ کو گرفتار کرلیا تھا اور جنگ جمل کے دن اسے قتل کردیا تھا۔ اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ پہلے قول سے آپ کی مراد یہ تھی کہ باغیوں کی گروہ بندی جب ختم ہوجائے اور ان کا جتھا باقی نہ رہے تو اس صورت میں مذکورہ احکام جاری ہوں گے۔- باغیوں کے فیصلوں کے متعلق بیان - امام ابویوسف نے رسالہ البرم کی میں کہا ہے کہ مرکز کے وفادار مسلمانوں کے قاضی کے لئے باغیوں کے قاضی کے فیصلہ نامے، اس کی لی ہوئی گواہی اور اس کے فیصلے کو جائز قرار دینا مناسب نہیں ہے۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ امام محمد کا بھی یہی قول ہے۔ انہوں نے یہ کہا ہے کہ اگر خوارج اپنوں میں سے کسی کو قاضی مقرر کردیں اور وہ کوئی فیصلہ جاری کرے پھر یہ فیصلہ اہل عدل یعنی وفادار مسلمانوں کے قاضی کے سامنے پیش کیا جائے تو وہ اسے نافذ نہ کرے۔ البتہ اگر یہ فیصلہ اس کی رائے کے موافق ہو تو صرف اس پر صادر نہ کرے بلکہ اپنی طرف سے اسے نئے سرے سے جاری کرے۔ امام محمد نے یہ بھی کہا ہے کہ خوارج اگر اہل عدل میں سے کسی کو قاضی مقرر کریں اور اس نے کوئی فیصلہ کیا ہو پھر یہ فیصلہ اہل عدل کے قاضی کے سامنے پیش کیا جائے تو وہ اس فیصلے کو اسی طرح نافذکردے گا جس طرح وہ اہل عدل کے کسی اور قاضی کے فیصلے کو نافذ کرتا ہے۔- امام مالک کا قول ہے کہ باغی جو فیصلے کریں گے ان کی چھان بین کی جائے گی، اور اس کے بعد ان کا جو فیصلہ شرعی لحاظ سے درست ہوگا اہل عدل کا قاضی اسے نافذ کردے گا۔ امام شافعی کا قول ہے کہ اگر خوارج کسی شہر پر قبضہ کرلیں اور اس شہر کے باشندوں سے زکوٰۃ وغیرہ وصول کرلیں اور ان پر حدود وغیرہ قائم کریں تو اس صورت میں ان شہریوں سے نہ تو دوبارہ زکوٰۃ وصول کی جائے گی اور نہ ہی ان پر کوئی حد دوبارہ قائم کی جائے گی۔ نیز ان کے مقرر کردہ قاضی کے درست فیصلوں کو رد نہیں کیا جائے گا۔- البتہ اس کے غلط فیصلے اس طرح رد کردیے جائیں گے جس طرح اہل عدل کے قاضی کے غلط فیصلے رد کردیے جاتے ہیں۔ اگر کسی شخص کی جان یا اس کے مال کے متعلق خوارج کے مقرر کردہ قاضی کی رائے قابل اطمینان نہ ہو تو اس کا فیصلہ نافذ نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی اس کا فیصلہ نامہ قابل قبول ہوگا۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ باغی جب قتال پر اتر آئیں اور اہل عدل کے ساتھ ان کی زیادتی واضح ہوجائے تو اس صورت میں ان کے خلاف جنگ کرنا اور انہیں قتل کرنا واجب ہوجاتا ہے اس لئے ایسے لوگوں کی گواہی قبول کرنا جائز نہیں ہوگا کیونکہ بغاوت کا اظہار اور اہل عدل سے جنگ فعل کی جہت سے فسق ہے اور فعل کی جہت سے فسق کا ظہور گواہی قبول کرنے میں مانع ہوتا ہے جس طرح زانی، چور اور شرابی کی گواہی قابل قبول نہیں ہوتی۔- اگر یہ کہا جائے کہ آپ باغیوں کی گواہی قبول کرتے ہیں تو پھر ان کے فیصلے کیوں نہیں نافذ کرتے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ امام محمد بن الحسن نے یہ کہا ہے کہ باغیوں کی گواہی اس وقت تک قابل قبول ہوگی جب تک وہ اہل عدل کے خلاف جنگ کریں۔ لیکن جب وہ جنگ شروع کردیں تو امام محمد کے قول کے مطابق ان کی گواہی قابل قبول نہ ہوگی۔- امام محمد نے ان کے فیصلوں اور ان کی گواہی کو یکساں درجے پر رکھا ہے۔ انہوں نے اس بارے میں ہمارے اصحاب کے درمیان کسی اختلاف رائے کا ذکر بھی نہیں کیا ہے۔ یہ ایک ٹھوس بات ہے اور اس کی علت وہی ہے جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے۔- اگر یہ کہا جائے کہ فقہاء کا قول ہے کہ خوارج اگر کسی علاقے پر قبضہ کرلیں اور وہاں کے لوگوں سے مویشیوں اور پھلوں کی زکوٰۃ اور عشر وصول کرلیں تو اس صورت میں ان لوگوں سے دوبارہ زکوٰۃ اور عشر وصول نہیں کیا جائے گا اس طرح فقہاء نے خوارج کی اس وصولی کو اہل عدل کی وصولی کی طرح قرار دے دیا ہے۔- اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ خوارج کی طرف سے وصول کی بنا پر لوگوں سے زکوٰۃ اور عشر ساقط نہیں ہوگا کیونکہ فقہاء نے یہ کہا ہے کہ ایسے لوگوں پر اپنے طور پر زکوٰۃ کی دوبارہ ادائیگی واجب ہوگی۔ یہ معاملہ ان کے اور اللہ کے درمیان رہے گا یعنی اللہ کے سامنے بری الذمہ ہونے کے لئے انہیں دوبارہ زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی۔- خوارج کی طرف سے زکوٰۃ وصول کرلیے جانے کی صورت میں انہوں نے زکوٰۃ کی ادائیگی کے وجوب کے ساقط نہیں کیا بلکہ صرف یہ کہا ہے کہ ایسی صورت میں امام المسلمین کی طرف سے اس کی وصولی کا حق ساقط ہوجاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امام المسلمین کو اس کی وصولی کا حق صرف اس بنا پر حاصل ہوتا ہے کہ وہ زکوٰۃ دینے والوں کی حفاظت اور ان کے دفاع کا ذمہ دار ہوتا ہے۔- جب امام المسلمین انہیں باغیوں کے ہاتھوں سے بچا نہیں سکے گا تو اسے ان لوگوں سے زکوٰۃ کی وصولی کا کوئی حق نہیں ہوگا اور اس حق کے سقوط کے باب میں باغیوں کی طرف سے اس کی وصولی اما المسلمین کی طرف سے وصولی قرار دی جائے گی۔ آپ نہیں دیکھتے کہ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر اہل عدل کا کوئی فرد باغیوں کے کسی عاشر کے پاس سے مال لے کر گزرے اور وہ اس سے عشر وصول کرلے تو امام المسلمین اس وصولی کو کسی حساب میں شمار نہیں کرے گا اس لئے جب یہ شخص اپنا مال لے کر اہل عدل کے عاشر کے پاس سے گزرے گا تو وہ اس سے عشر وصول کرلے گا۔- اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ معترض نے فقہاء کی جو بات نقل کی ہے اس کا مفہوم یہ ہے کہ وصولی کے سلسلے میں امام کا حق ساقط ہوجائے گا یہ مفہوم نہیں ہے کہ فقہاء نے باغیوں کے فیصلوں اور احکام کو اہل عدل کے فیصلوں اور احکام کی طرح قرار دیا ہے۔ اگر باغیوں کا مقرر کردہ قاضی اہل عدل میں سے ہو تو اس صورت میں فقہاء نے اس کے فیصلوں کو جائز قرار دیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ قاضی کے فیصلے کے نفاذ کی صحت کے لئے جس بات کی ضرورت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ قاضی فی نفسہٖ عادل ہو نیز اس کے لئے پوری قوت کے ساتھ اپنے فیصلوں کو نافذ کرنا اور لوگوں کو ان فیصلوں پر چلانا ممکن ہو خواہ اس قاضی کو عہدہ قضا پر مامور کرنے والا شخص خود عادل ہو یا باغی۔- آپ نہیں دیکھتے کہ اگر کسی شہر میں کوئی حاکم نہ ہو اور وہاں کے لوگ متفقہ طور پر کسی شخص کو قاضی مقرر کردیں تو ان کا یہ اقدام جائز ہوگا اور ان کے متعلق اس کے فیصلے نافذ العمل ہوں گے۔ اسی طرح وہ شخص جسے باغیوں نے قضا کے عہدے پر مامور کردیا ہو اگر فی نفسہٖ عادل ہو تو اس کے دیے ہوئے احکامات نافذ العمل ہوں گے۔- جو لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ تعزیری سزا حد کی سزا سے بڑھ سکتی ہے۔ وہ قول باری (فان بغت احداھما علی الاخریٰ فقاتلوا التی تبغی حتی لفیء الی امر اللہ) سے استدلال کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے بغاوت پر ڈٹے رہنے والے گروہ کے خلاف اس وقت تک جنگ جاری رکھنے کا حکم دیا ہے جب تک وہ حق کی طرف رجوع نہ کرلیں۔- یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ تعزیری سزا اس وقت تک جاری اور واجب رہتی ہے جب تک یہ معلوم نہ ہوجائے کہ مجرم نے جرم سے توبہ کرکے مکمل طور پر اس سے باز آگیا ہے کیونکہ تعزیر جرائم کے انسداد اور لوگوں کو ان سے باز رکھنے کی خاطر ہوتی ہے اور عرف میں اس سزا کی کوئی حد مقرر نہیں ہوتی جس طرح باغیوں کے خلاف جنگ بغاوت کے انسداد کی خاطر ہوتی ہے۔ اس کا اس وقت تک جاری رہنا واجب ہے، جب تک باغی بغاوت سے باز نہ آجائیں اور ان کا مکمل طور پر انسداد نہ ہوجائے۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ جو حضرات اس بات کے قائل ہیں کہ تعزیری سزا حد کے تحت ملنے والی سزا تک پہنچنی نہیں چاہیے بلکہ اس کی مقدار اس سے کم ہونی چاہیے۔ انہوں نے اس سلسلے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد (من بلغ حدا فی غیر حد فھو من المعتدین، جو شخص غیر حد میں کسی جرم پر حد کے برابر سزا دیتا ہے وہ حد سے تجاوز کرنے والا شمار ہوتا ہے) سے استدلال پر اکتفا کیا ہے۔
اور اگر مسلمانوں میں دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں کتاب اللہ کے ذریعے صلح کردو۔ عبداللہ بن ابی بن سلول منافق اور اس کے ساتھی اور حضرت عبد اللہ بن رواحہ اور ان کی جماعت ان دونوں گروہوں کی تیز کلامی پر کچھ لڑائی ہوگئی تھی اللہ تعالیٰ نے ان کو اس بات سے منع کردیا اور صلح کا حکم دیا کہ پھر بھی اگر ابن سلول منافق کا گروہ دوسرے پر یعنی حضرت عبداللہ بن رواحہ کی جماعت پر زیادتی کرے اور حکم الہی کے مطابق صلح پر آمادہ نہ ہو تو اس گروہ سے لڑو جو کہ طلم و زیادتی کرتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے فیصلہ پر آمادہ ہوجائے۔- شان نزول : وَاِنْ طَاۗىِٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ (الخ)- بخاری و مسلم نے حضرت انس سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم اپنے گدھے پر سوار ہو کر عبداللہ بن ابی منافق کے پاس سے گزرے۔ وہ بدبخت کہنے لگا کہ اپنے گدھے کو مجھ سے دور کرو کیونکہ آپ کے گدھے کی بدبو نے مجھے پریشان کردیا یہ سن کر ایک انصاری بولے اللہ کی قسم تجھ سے زیادہ آپ کا گدھا پاکیزہ اور خوشبو والا ہے، تو عبداللہ منافق کی حمایت میں اس کی قوم میں سے ایک شخص غصہ ہوا غرض یہ کہ ان میں سے ہر ایک جماعت میں سے ان کے ساتھی غصہ ہوئے اور دونوں جماعتوں میں کھجوروں کی شاخوں، جوتوں اور ہاتھوں سے ایک دوسرے کی خوب پٹائی ہوئی، ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔- اور سعید بن منصور اور ابن جریر نے ابی مالک سے روایت کیا ہے کہ مسلمانوں میں سے دو اشخاص میں باہم گالم گلوچ ہوئی اور دونوں میں سے ہر ایک کی قوم اس کی حمایت میں غصہ ہوئی، چناچہ دونوں جماعتوں میں ہاتھوں اور جوتوں کے ساتھ خوب لڑائی ہوئی تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔- اور ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے سدی سے روایت کیا ہے کہ عمران نامی ایک شخص انصار میں سے تھا اس کے نکاح میں ایک عورت ام زید نامی تھی اس نے اپنے گھر والوں سے ملنا چاہا تو اس کے خاوند نے اس کو جانے سے منع کیا اور اپنے مکان کے بالاخانے میں بند کردیا اس عورت نے اپنے گھر والوں کے پاس قاصد بھیج دیا اس کی قوم نے آکر اسے اتار لیا اور لے جانا چاہا اس شخص نے بھی باہر نکل کر گھر والوں کو بلایا تو اس کے چچا زاد بھائی چلے آئے اور انہوں نے چاہا کہ عورت اور اس کے گھر والوں کے درمیان رکاوٹ کردیں، غرض یہ کہ انہوں نے اس کی قوم کو ہٹانا چاہا اور آپس میں مار پٹائی ہوئی تو ان لوگوں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ چناچہ رسول اکرم نے ان کے پاس ایک قاصد بھیجا اس نے جاکر ان کے درمیان صلح کرائی اور وہ سب حکم خداوندی کی طرف لوٹ آئے۔- اور ابن جریر نے حسن سے روایت کیا ہے کہ دو قبیلوں میں باہم لڑائی تھی، انہیں فصیل کی طرف بلایا جاتا تھا وہ اس کی بات ماننے سے انکار کرتے تھے تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔- اور نیز قتادہ سے روایت کیا ہے کہ بیان کرتے ہیں کہ ہم سے بیان کیا گیا ہے کہ یہ آیت دو انصاری افراد کے بارے میں نازل ہوئی ہے دونوں کے درمیان کسی بات پر جھگڑا تھا، چناچہ ان میں سے ایک نے دوسرے سے اپنے خانداد کی کثرت کی وجہ سے کہا کہ میں تجھ سے زبردستی لے لوں گا اور دوسرے نے اسے اس بات کی دعوت دی کہ اس معاملہ میں رسول اکرم سے فیصلہ کرالیں مگر اس نے اس چیز کو نہیں مانا غرضیکہ جھگڑا چلتا رہا، یہاں تک کہ دونوں میں جوتوں اور ہاتھوں کے ساتھ مار پٹائی ہوئی، البتہ تلواروں سے کسی قسم کی لڑائی نہیں ہوئی۔
آیت ٩ وَاِنْ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا ” اور اگر اہل ِایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرا دیا کرو۔ “- اہل ایمان بھی تو آخر انسان ہیں۔ ان کے درمیان بھی اختلافات ہوسکتے ہیں اور کسی خاص صورت حال میں اختلافات بڑھ کر جنگ اور قتال پر بھی منتج ہوسکتے ہیں۔ جیسے کہ حضرت علی (رض) اور حضرت عائشہ (رض) کے درمیان یا حضرت علی (رض) اور امیر معاویہ (رض) کے درمیان اختلافات جنگ کی شکل اختیار کر گئے تھے۔ چناچہ اگر کہیں ایسی صورت حال پیدا ہو تو امت مسلمہ کے تمام افراد پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ متحارب فریقین کے درمیان صلح کروائیں۔ اگر مسلمانوں کے دو فریق آپس میں لڑ رہے ہوں تو باقی مسلمان خاموش تماشائی بن کر نہیں بیٹھ سکتے ‘ کیونکہ اگر ان کے درمیان صلح نہ کرائی گئی تو مسلمانوں کی جمعیت اور طاقت میں رخنہ پڑے گا جس کی وجہ سے بالآخر مسلمانوں کی مجموعی طاقت اور غلبہ دین کی جدوجہد کو نقصان پہنچے گا۔ اس لحاظ سے کسی بھی ملک یا خطہ کے مسلمانوں کے باہمی جھگڑوں کو ختم کرانا باقی مسلمانوں کا دینی فریضہ ہے۔- فَاِنْم بَغَتْ اِحْدٰٹہُمَا عَلَی الْاُخْرٰی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ ” پھر اگر ان میں سے ایک فریق دوسرے پر زیادتی کر رہا ہو تو تم جنگ کرو اس کے ساتھ جو زیادتی کر رہا ہے “- اگر فریقین میں صلح کرا دی گئی ‘ لیکن اس کے بعد بھی ان میں سے ایک فریق اس صلح کی پابندی نہیں کر رہا اور دوسرے فریق پر زیادتی کیے جا رہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پوری امت مسلمہ پر زیادتی کر رہا ہے اور پوری ملت اسلامیہ کو چیلنج کر رہا ہے۔ لہٰذا ایسی صورت میں پوری ملت کی ذمہ داری ہے کہ وہ زیادتی کرنے والے فریق کے خلاف بھر پور طاقت استعمال کرے۔- حَتّٰی تَفِیْٓئَ اِلٰٓی اَمْرِ اللّٰہِ ” یہاں تک کہ وہ لوٹ آئے اللہ کے حکم کی طرف۔ “- فَاِنْ فَآئَ تْ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا بِالْعَدْلِ وَاَقْسِطُوْا اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ ” پھر اگر وہ لوٹ آئے تو ان دونوں کے درمیان صلح کرا دو عدل کے ساتھ اور دیکھو انصاف کرنا۔ بیشک اللہ انصاف کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے۔ “- کہیں ایسا نہ ہو کہ زیادتی کرنے والے فریق کے خلاف طاقت کے استعمال کے دوران تم لوگ انصاف کا دامن ہاتھ سے چھوڑ بیٹھو۔ ایسا ہرگز نہیں ہوناچاہیے۔ طاقت کا یہ استعمال صرف انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی حد تک ہو۔ ظاہر ہے ایک زیادتی کو روکنے کے لیے مزید کسی زیادتی کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
سورة الْحُجُرٰت حاشیہ نمبر :12 یہ نہیں فرمایا کہ جب اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑیں ، بلکہ فرمایا یہ ہے کہ اگر اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ جائیں ۔ ان الفاظ سے یہ بات خود بخود نکلتی ہے کہ آپس میں لڑنا مسلمانوں کا معمول نہیں ہے اور نہیں ہونا چاہیے ۔ نہ ان سے یہ امر متوقع ہے کہ وہ مومن ہوتے ہوئے آپس میں لڑا کریں گے ۔ البتہ اگر کبھی ایسا ہو جائے تو اس صورت میں وہ طریق کار اختیار کرنا چاہیے جو آگے بیان کیا جا رہا ہے ۔ علاوہ بریں گروہ کے لیے بھی فرقہ کے بجائے طائفہ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔ عربی زبان میں فرقہ بڑے گروہ کے لیے اور طائفہ چھوٹے گروہ کے لیے بولا جاتا ہے اس سے بھی یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں یہ ایک انتہائی ناپسندیدہ حالت ہے جس میں مسلمانوں کی بڑی بڑی جماعتوں کا مبتلا ہو جانا متوقع نہیں ہونا چاہیے ۔ سورة الْحُجُرٰت حاشیہ نمبر :13 اس حکم کے مخاطب وہ تمام مسلمان ہیں جو ان دونوں گروہوں میں شامل نہ ہوں ، اور جن کے لیے ان کے درمیان صلح کی کوشش کرنا ممکن ہو ۔ دوسرے الفاظ میں ، اللہ تعالیٰ کے نزدیک مسلمانوں کا یہ کام نہیں ہے کہ ان کی اپنی ملت کے دو گروہ آپس میں لڑ رہے ہوں اور وہ بیٹھے ان کی لڑائی کا تماشا دیکھتے رہیں ۔ بلکہ یہ افسوسناک صورت حال جب بھی پیدا ہو ، تمام اہل ایمان کو اس پر بے چین ہو جانا چاہیے اور ان کے باہمی معاملات کی اصلاح کے لیے جس کے بس میں جو کوشش بھی ہو وہ اسے صرف کر ڈالنی چاہیے ۔ فریقین کو لڑائی سے باز رہنے کی تلقین کی جائے ۔ انہیں خدا سے ڈرایا جائے ۔ با اثر لوگ فریقین کے ذمہ دار آدمیوں سے جا کر ملیں ۔ نزاع کے اسباب معلوم کریں ۔ اور اپنی حد تک ہر وہ کوشش کریں جس سے ان کے درمیان مصالحت ہو سکتی ہو ۔ سورة الْحُجُرٰت حاشیہ نمبر :14 یعنی مسلمانوں کا یہ کام بھی نہیں ہے کہ وہ زیادتی کرنے والے کو زیادتی کرنے دیں اور جس پر زیادتی کی جارہی ہو اسے اس کے حال پر چھوڑ دیں ، یا الٹا زیادتی کرنے والے کا ساتھ دیں ۔ بلکہ ان کا فرض یہ ہے کہ اگر لڑنے والے فریقین میں صلح کرانے کی تمام کوششیں ناکام ہو جائیں ، تو پھر یہ دیکھیں کہ حق پر کون ہے اور زیادتی کرنے والا کون ۔ جو حق پر ہو اس کا ساتھ دیں اور جو زیادتی کرنے والا ہو اس سے لڑیں ۔ اس لڑائی کا چونکہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اس لیے یہ واجب ہے اور جہاد کے حکم میں ہے اس کا شمار اس فتنے میں نہیں ہے جس کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ القائم فیھَا خیرٌ من الماشی والقاعد فیھا خیر من القائم ( اس میں کھڑا رہنے والا چلنے والے سے ، اور بیٹھ جانے والا کھڑا رہنے والے سے بہتر ہے ) ۔ کیونکہ اس فتنے سے مراد تو مسلمانوں کی وہ باہمی لڑائی ہے جس میں فریقین عصبیت اور حمیت جاہلیہ اور طلب دنیا کے لیے لڑ رہے ہوں اور دونوں میں سے کوئی بھی حق پر نہ ہو ۔ رہی یہ لڑائی جو زیادتی کرنے والے گروہ کے مقابلہ میں برسر حق گروہ کی حمایت کے لیے لڑی جائے ، تو یہ فتنے میں حصہ لینا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل ہے ۔ تمام فقہاء کا اس کے وجوب پر اتفاق ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں اس کے واجب ہونے پر کوئی اختلاف نہ تھا ( احکام القرآن للجصاص ) ۔ بلکہ بعض فقہاء تو اسے جہاد سے بھی افضل قرار دیتے ہیں اور ان کا استدلال یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنا پورا زمانہ خلافت کفار سے جہاد کرنے کے بجائے باغیوں سے لڑنے میں صرف کر دیا ( روح المعانی ) ۔ اس کے واجب نہ ہونے پر اگر کوئی شخص اس بات سے استدلال کرے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ان لڑائیوں میں حضرت عبداللہ بن عمر اور بعض دوسرے صحابہ نے حصہ نہیں لیا تھا تو وہ غلطی پر ہے ۔ ابن عمر خود فرماتے ہیں کہ :ما وجدت فی نفسی من شئ ما وجدت من ھٰذہِ الاٰیۃ اَنّی لم اقاتل ھٰذہ الفئۃ الباغیۃ کما امرنی اللہ تعالیٰ ، ( المستدرک للحاکم ، کتاب معرفۃ الصحابہ ، باب الدفع عمن قعدوا عن بیعۃ علی ) مجھے اپنے دل میں کسی بات پر اتنی زیادہ کھٹک نہیں ہوئی جتنی اس آیت کی وجہ سے ہوئی کہ میں نے اللہ کے حکم کے مطابق اس باغی گروہ سے جنگ نہ کی زیادتی کرنے والے گروہ سے قتال کرنے کا حکم لازماً یہی معنی نہیں رکھتے کہ اس کے خلاف ہتھیاروں سے جنگ کی جائے اور ضرور اس کو قتل ہی کیا جائے ۔ بلکہ اس سے مراد اس کے خلاف طاقت کا استعمال کرنا چاہیے ، اور اصل مقصود اس کی زیادتی کا ازالہ ہے ۔ اس مقصد کے لیے جس طاقت کا استعمال ناگزیر ہو اسے استعمال کرنا چاہیے اور جتنی طاقت کا استعمال کافی ہو ، نہ اس سے کم استعمال کرنی چاہیے نہ اس سے زیادہ ۔ اس حکم کے مخاطب وہ لوگ ہیں جو طاقت استعمال کر کے زیادتی کا ازالہ کرنے پر قادر ہوں ۔ سورة الْحُجُرٰت حاشیہ نمبر :15 اس سے معلوم ہوا کہ یہ لڑائی باغی ( زیادتی کرنے والے گروہ ) کو بغاوت ( زیادتی ) کی سزا دینے کے لیے نہیں ہے بلکہ اسے اللہ کے حکم کی طرف پلٹنے پر مجبور کرنے کے لیے ہے ۔ اللہ کے حکم سے مراد یہ ہے کہ کتاب اللہ و سنت رسول اللہ کی رو سے جو بات حق ہو اسے یہ باغی گروہ قبول کر لینے پر آمادہ ہو جائے اور جو طرز عمل اس میزان حق کی رو سے زیادتی قرار پاتا ہے اس کو چھوڑ دے ۔ جونہی کہ کوئی باغی گروہ اس حکم کی پیروی پر راضی ہو جائے ، اس کے خلاف طاقت کا استعمال بند ہو جانا چاہیے ، کیونکہ یہی قتال کا مقصود اور اس کی آخری حد ہے ۔ اس کے بعد مزید دست درازی کرنے والا خود زیادتی کا مرتکب ہو گا ۔ اب رہی یہ بات کہ کتاب اللہ و سنت رسول اللہ کی رو سے ایک نزاع میں حق کیا ہے اور زیادتی کیا ، تو لا محالہ اس کو طے کرنا ان لوگوں کا کام ہے جو امت میں اور علم اور بصیرت کے لحاظ سے اس کی تحقیق کرنے کے اہل ہوں ۔ سورة الْحُجُرٰت حاشیہ نمبر :16 محض صلح کرا دینے کا حکم نہیں ہے بلکہ عدل و انصاف کے ساتھ صلح کرانے کا حکم ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں وہ صلح کوئی قابل قدر چیز نہیں ہے جو حق اور باطل کے فرق کو نظر انداز کر کے محض لڑائی روکنے کے لیے کرائی جائے اور جس میں برسر حق گروہ کو دبا کر زیادتی کرنے والے گروہ کے ساتھ بے جا رعایت برتی جائے ۔ صلح وہی صحیح ہے جو انصاف پر مبنی ہو ۔ اسی سے فساد ٹلتا ہے ، ورنہ حق والوں کو دبانے اور زیادتی کرنے والوں کی ہمت افزائی کرنے کا نتیجہ لازماً یہ ہوتا ہے کہ خرابی کے اصل اسباب جوں کے توں باقی رہتے ہیں ، بلکہ ان میں اور اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے ، اور اس سے بار بار فساد برپا ہونے کی نوبت پیش آتی ہے ۔ سورة الْحُجُرٰت حاشیہ نمبر :17 یہ آیت مسلمانوں کی باہمی جنگ کے بارے میں شرعی قانون کی اصل بنیاد ہے ۔ ایک حدیث کے سوا جس کا ہم آگے ذکر کریں گے ، اس قانون کی کوئی تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں نہیں ملتی ، کیونکہ حضور کے زمانے میں مسلمانوں کے درمیان جنگ کی کبھی نوبت ہی نہیں آئی کہ آپ کے عمل اور قول سے اس کے احکام کی تفصیلات معلوم ہوتیں ۔ بعد میں اس قانون کی مستند تشریح اس وقت ہوئی جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں خود مسلمانوں کے درمیان لڑائیاں ہوئیں ۔ اس وقت چونکہ بکثرت صحابہ کرام موجود تھے ، اس لیے ان کے عمل اور ان کے بیان کردہ احکام سے اسلامی قانون کے اس شعبے کا مفصل ضابطہ مرتب ہوا ۔ خصوصیت کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اسوہ اس معاملہ میں تمام فقہاء کا اصل مرجع ہے ۔ ذیل میں ہم اس ضابطہ کا ایک ضروری خلاصہ درج کرتے ہیں: 1 ) ۔ مسلمانوں کی باہمی جنگ کی کئی صورتیں ہیں جن کے حکم الگ الگ ہیں ۔ ( الف ) لڑنے والے دونوں گروہ کسی مسلمان حکومت کی رعایا ہوں ۔ اس صورت میں ان کے درمیان صلح کرانا ، یا یہ فیصلہ کرنا کہ ان میں سے زیادتی کرنے والا کون ہے ، اور طاقت سے اس کو حق کی طرف رجوع پر مجبور کرنا حکومت کا فریضہ ہے ۔ ( ب ) لڑنے والے فریقین دو بہت بڑے طاقتور گروہ ہوں ، یا دو مسلمان حکومتیں ہوں ، اور دونوں کی لڑائی دنیا کی خاطر ہوں ۔ اس صورت میں اہل ایمان کا کام یہ ہے کہ اس فتنے میں حصہ لینے سے قطعی اجتناب کریں اور فریقین کو خدا کا خوف دلا کر جنگ سے باز رہنے کی نصیحت کرتے رہیں ۔ ( ج ) لڑنے والے وہ فریقین جن کا اوپر ( ب ) میں ذکر کیا گیا ہے ، ان میں سے ایک حق پر ہو اور دوسرا زیادتی کر رہا ہو ، اور نصیحت سے اصلاح پر آمادہ نہ ہو رہا ہو ۔ اس صورت میں اہل ایمان کا کام یہ ہے کہ زیادتی کرنے والے فریق کے خلاف برسر حق فریق کا ساتھ دیں ۔ ( د ) فریقین میں سے ایک گروہ رعیت ہو اور اس نے حکومت ، یعنی مسلم حکومت کے خلاف خروج کیا ہو ۔ فقہاء اپنی اصلاح استعمال کرتے ہیں ۔ 2 ) ۔ باغی ، یعنی حکومت کے خلاف خروج کرنے والے گروہ بھی متعدد اقسام کے ہو سکتے ہیں: ( الف ) وہ جو محض فساد برپا کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور اپنے اس خروج کے لیے ان کے پاس کوئی شرعی تاویل نہ ہو ۔ ان کے خلاف حکومت کی جنگ بالاتفاق جائز ہے اور اس کا ساتھ دینا اہل ایمان پر واجب ہے ، قطع نظر اس سے کہ حکومت عادل ہو یا نہ ہو ۔ ( ب ) وہ جو حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے خروج کریں ، اور ان کے پاس کوئی شرعی تاویل نہ ہو ، بلکہ ان کا ظاہر حال بتا رہا ہو کہ وہ ظالم و فاسق ہیں ۔ اس صورت میں اگر حکومت عادل ہو تب تو اس کا ساتھ دینا بلا کلام واجب ہے ، لیکن اگر وہ عادل نہ بھی ہو تو اس حکومت کو برقرار رکھنے کے لیے لڑنا واجب ہے جس کے ذریعہ سے فی الحال مملکت کا نظم قائم ہے ۔ ( ج ) وہ جو کسی شرعی تاویل کی بنا پر حکومت کے خلاف خروج کریں ، مگر ان کی تاویل باطل اور ان کا عقیدہ فاسد ہو مثلاً خوارج ۔ اس صورت میں بھی ، مسلم حکومت ، خواہ وہ عادل ہو یا نہ ہو ، ان سے جنگ کرنے کا جائز حق رکھتی ہے اور اس کا ساتھ دینا واجب ہے ۔ ( د ) وہ جو ایک عادل حکومت کے خلاف خروج کریں جبکہ اس کے سربراہ کی امارت جائز طور پر قائم ہو چکی ہو ۔ اس صورت میں خواہ ان کے پاس کوئی شرعی تاویل ہو یا نہ ہو ، بہرحال ان سے جنگ کرنے میں حکومت حق بجانب ہے اور اس کا ساتھ دینا واجب ۔ ( ھ ) وہ جو ایک ظالم حکومت کے خلاف خروج کریں جس کی امارت جبراً قائم ہوئی ہو اور جس کے امراء فاسق ہوں ، اور خروج کرنے والے عدل اور حدود اللہ کی اقامت کے لیے اٹھے ہوں اور ان کا ظاہر حال یہ بتا رہا ہو کہ وہ خود صالح لوگ ہیں ۔ اس صورت میں ان کو باغی یعنی زیادتی کرنے والا گروہ قرار دینے اور ان کے خلاف جنگ کو واجب قرار دینے میں فقہاء کے درمیان سخت اختلاف واقع ہو گیا ہے ، جسے مختصراً ہم یہاں بیان کرتے ہیں ۔ جمہور فقہاء اور اہل الحدیث کی رائے یہ ہے کہ جس امیر کی امارت ایک دفعہ قائم ہو چکی ہو اور مملکت کا امن و امان نظم و نسق اس کے انتظام میں چل رہا ہو ، وہ خواہ عادل ہو یا ظالم ، اور اس کی امارت خواہ کسی طور پر قائم ہوئی ہو ، اس کے خلاف خروج کرنا حرام ہے ، الا یہ کہ وہ کفر صریح کا ارتکاب کرے ۔ امام سرخسی لکھتے ہیں کہ جب مسلمان ایک فرمانروا پر مجتمع ہوں اور اس کی بدولت ان کو امن حاصل ہو اور راستے محفوظ ہوں ، ایسی حالت میں اگر مسلمانوں کا کوئی گروہ اس کے خلاف خروج کرے تو جو شخص بھی جنگ کی طاقت رکھتا ہو اس پر واجب ہے کہ مسلمانوں کے اس فرمانروا کے ساتھ مل کر خروج کرنے والوں کے خلاف جنگ کرے ( البسوط ، باب الخوارج ) ۔ امام ، لودِی شرح مسلم میں کہتے ہیں کہ ائمہ ، یعنی مسلمان فرمانرواؤں کے خلاف خروج اور قتال حرام ہے ، خواہ وہ فاسق اور ظالم ہی کیوں نہ ہوں ۔ اس پر امام نووی اجماع کا دعویٰ کرتے ہیں ۔ لیکن اس پر اجماع کا دعویٰ صحیح نہیں ہے ۔ فقہائے اسلام کا ایک بڑا گروہ ، جس میں اکابر اہل علم شامل ہیں ، خروج کرنے والوں کو صرف اس صورت میں باغی قرار دیتا ہے جبکہ وہ امام عادل کے خلاف خروج کریں ۔ ظالم و فاسق امراء کے خلاف صلحاء کے خروج کو وہ قرآن مجید کی اصطلاح کے مطابق بغاوت کا مصداق نہیں ٹھہراتے ، اور نہ ان کے خلاف جنگ کو واجب قرار دیتے ہیں ۔ امام ابو حنیفہ کا مسلک ظالم امراء کے خلاف قتال کے معاملہ میں اہل علم کو معلوم ہے ۔ ابوبکر جصاص احکام القرآن میں صاف لکھتے ہیں کہ امام صاحب اس قتال کو نہ صرف جائز ، بلکہ سازگار حالات میں واجب سمجھتے تھے ( جلد اول ، ص 81 ۔ جلد دوم ، ص 39 ) بنی امیہ کے خلاف زید بن علی کے خروج میں انہوں نے نہ صرف خود مالی مدد دی ، بلکہ دوسروں کو بھی اس کی تلقین فرمائی ( الجصاص ، ج 1 ص 81 ) ۔ منصور کے خلاف نفس زکیہ کے خروج میں وہ پوری سرگرمی کے ساتھ نفس زکیہ کی حمایت کرتے رہے اور اس جنگ کو انہوں نے کفار کے خلاف جہاد سے افضل قرار دیا ( الجصاص ، ج1 ، ص 81 ۔ مناقب ابی حنیفہ للکردری ، ج2 ، ص71 ۔ 72 ) ۔ پھر فقہائے حنفیہ کا بھی متفقہ مسلک وہ نہیں ہے جو امام سرخسی نے بیان کیا ہے ۔ ابن ہُمام ہدایہ کی شرح فتح القدیر میں لکھتے ہیں کہ الباغی فی عرف الفقھاْء الخارج عن طاعۃ امام الحق ، فقہاء کے عرف میں باغی وہ ہے جو امام حق کی اطاعت سے نکل جائے ۔ حنابلہ میں سے ابن عقیل اور ابن الجوزی امام غیر عادل کے خلاف خروج کو جائز ٹھہراتے ہیں اور اس پر حضرت حسین کے خروج سے استدلال کرتے ہیں ( الانصاف ، ج 10 ، باب قتال اہل البغی ) ۔ امام شافعی کتاب الام میں باغی اس شخص کو قرار دیتے ہیں جو امام عادل کے خلاف جنگ کرے ( ج 4 ، ص135 ) ۔ امام مالک کا مسلک المدونہ میں یہ نقل کیا گیا ہے کہ خروج کرنے والے اگر امام عدل کے خلاف جنگ کرنے کے لیے نکلیں تو ان کے خلاف مقاتلہ کیا جائے ( جلد اول ، ص 407 ) ۔ قاضی ابوبکر ابن العربی احکام القرآن میں ان کا یہ قول نقل کرتے ہیں: جب کوئی شخص عمر بن عبدالعزیز جیسے امام عدل کے خلاف خروج کرے تو اس کی دفع کرنا واجب ہے ، رہا کسی دوسری قسم کا امام تو اسے اس کے حال پر چھوڑ دو ، اللہ کسی دوسرے ظالم کے ذریعہ سے اس کو سزا دے گا اور پھر کسی تیسرے ظالم کے ذریعہ سے ان دونوں کو سزا دے گا ۔ ایک اور قول امام مالک کا انہوں نے یہ نقل کیا ہے : جب ایک امام سے بیعت کی جا چکی ہو اور پھر اس کے بھائی اس کے مقابلے پر کھڑے ہو جائیں تو ان سے جنگ کی جائے گی اگر وہ امام عادل ہو ۔ رہے ہمارے زمانے کے ائمہ تو ان کے لیے کوئی بیعت نہیں ہے ، کیونکہ ان کی بیعت زبردستی لی گئی ہے پھر مالکی علماء کا جو مسلک سَحْنون کے حوالہ سے قاضی صاحب نے بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ جنگ تو صرف امام عدل کے ساتھ مل کر کی جائے گی ، خواہ پہلا امام عادل ہو یا وہ شخص جس نے اس کے خلاف خروج کیا ہو ۔ لیکن اگر دونوں عادل نہ ہوں تو دونوں سے الگ رہو ۔ البتہ اگر تمہاری اپنی جان پر حملہ کیا جائے یا مسلمان ظلم کے شکار ہو رہے ہوں تو مدافعت کرو ۔ یہ مسالک نقل کرنے کے بعد قاضی ابو بکر کہتے ہیں : لا نقاتل الا مع امامٍ عادل یقدمہ اھل الحق لانفسہم ۔ ہم جنگ نہیں کریں گے مگر اس امام عادل کے ساتھ جسے اہل حق نے اپنی امامت کے لیے آگے بڑھایا ہو ۔ 3 ) ۔ خروج کرنے والے اگر قلیل التعداد ہوں اور ان کی پشت پر کوئی بڑی جماعت نہ ہو ، نہ وہ کچھ زیادہ جنگی سر و سامان رکھتے ہوں ، تو ان پر قانون بغاوت کا اطلاق نہ ہوگا ، بلکہ ان کے ساتھ عام قانون تعزیرات کے مطابق برتاؤ کیا جائے گا ، یعنی وہ قتل کریں گے تو ان سے قصاص لیا جائے گا اور مال کا نقصان کریں گے تو اس کا تاوان ان پر عائد ہوگا ۔ قانون بغاوت کا اطلاق صرف ان باغیوں پر ہوتا ہے جو کوئی بڑی طاقت رکھتے ہوں ، اور کثیر جمیعت اور جنگی سرو سامان کے ساتھ خروج کریں ۔ 4 ) ۔ خروج کرنے والے جب تک محض اپنے فاسد عقائد ، یا حکومت اور اس کے سربراہ کے خلاف باغیانہ اور معاندانہ خیالات کا اظہار کرتے رہیں ، ان کو قتل یا قید نہیں کیا جا سکتا ۔ جنگ ان کے خلاف صرف اس وقت کی جائے گی جب وہ عملاً مسلح بغاوت کر دیں اور خونریزی کی ابتدا کر بیٹھیں ۔ ( المبسوط ، باب الخوارج ۔ فتح القدیر ، باب البغاۃ ۔ احکام القرآن للجصاص ) ۔ 5 ) ۔ باغیوں کے خلاف جنگ کا آغاز کرنے سے پہلے ان کو قرآن مجید کی ہدایت کے مطابق دعوت دی جائے گی کہ وہ بغاوت کی روش چھوڑ کر عدل کی راہ اختیار کریں ۔ اگر ان کے کچھ شبہات و اعتراضات ہوں تو انہیں سمجھانے کی کوشش کی جائے گی ۔ اس پر بھی وہ باز نہ آئیں اور مقاتلہ کا آغاز ان کی طرف سے ہو جائے ، تب ان کے خلاف تلوار اٹھائی جائے گی ۔ ( فتح القدیر ۔ احکام القرآن للجصاص ) ۔ 6 ) ۔ باغیوں سے لڑائی میں جن ضوابط کو ملحوظ رکھا جائے گا وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد پر مبنی ہیں جسے حضرت عبداللہ بن عمر کے حوالہ سے حاکم ، بزار اور الجصاص نے نقل کیا ہے ۔ : حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے پوچھا اے ابن ام عبد ، جانتے ہو اس امت کے باغیوں کے بارے میں اللہ کا کیا حکم ہے؟ انہوں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے ۔ فرمایا ان کے زخمیوں پر ہاتھ نہیں ڈالا جائے گا ، ان کے اسیر کو قتل نہیں کیا جائے گا ، ان کے بھاگنے والے کا پیچھا نہیں کیا جائے گا ، اور ان کا مال غنیمت کے طور پر تقسیم نہیں کیا جائے گا ۔ اس ضابطہ کا دوسرا ماخذ ، جس پر تمام فقہائے اسلام نے اعتماد کیا ہے ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول اور عمل ہے ۔ آپ نے جنگ جمَل میں فتح یاب ہونے کے بعد اعلان کیا کہ بھاگنے والے کا تعاقب نہ کرو ، زخمی پر حملہ نہ کرو ، گرفتار ہو جانے والوں کو قتل نہ کرو ، جو ہتھیار ڈال دے اس کو امان دو ، لوگوں کے گھروں میں نہ گھسو ، اور عورتوں پر دست درازی نہ کرو ، خواہ وہ تمہیں گالیاں ہی کیوں نہ دے رہی ہوں ۔ آپ کی فوج کے بعض لوگوں نے مطالبہ کیا کہ مخالفین کو اور ان کے بال بچوں کو غلام بنا کر تقسیم کر دیا جائے ۔ اس پر غضب ناک ہو کر آپ نے فرمایا ۔ تم میں سے کون امّ المومنین عائشہ کو اپنے حصہ میں لینا چاہتا ہے؟ 7 ) ۔ باغیوں کے اموال کا حکم ، جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اسوہ حسنہ سے ماخوذ ہے ، یہ ہے کہ ان کا کوئی مال ، خواہ وہ ان کے لشکر میں ملا ہو یا ان کے پیچھے ان کے گھروں پر ہو ، اور وہ خواہ زندہ ہوں یا مارے جا چکے ہوں ، بہرحال اسے مال غنیمت قرار دیا جائے گا اور نہ فوج میں تقسیم کیا جائے گا ۔ البتہ جس مال کا نقصان ہو چکا ہو ، اسکا کوئی ضمان لازم نہیں آتا ۔ جنگ ختم ہونے اور بغاوت کا زور ٹوٹ جانے کے بعد ان کے مال ان ہی کو واپس دے دیے جائیں گے ۔ ان کے اسلحہ اور سواریاں جنگ کی حالت میں اگر ہاتھ آ جائیں تو انہیں ان کے خلاف استعمال کیا جائے گا ، مگر فاتحین کی ملکیت بنا کر مال غنیمت کے طور پر تقسیم نہیں کیا جائے گا ، اور اگر ان سے پھر بغاوت کا اندیشہ نہ ہو تو ان کی یہ چیزیں بھی واپس دے دی جائیں گی ۔ صرف امام ابو یوسف کی رائے یہ ہے کہ حکومت اسے غنیمت قرار دے گی ( المبسوط ، فتح القدیر ۔ الحصاص ) ۔ 8 ) ۔ ان کے گرفتار شدہ لوگوں کو یہ عہد لے کر کہ وہ پھر بغاوت نہ کریں گے ، رہا کر دیا جائے گا ۔ ( المبسوط ) ۔ 9 ) ۔ باغی مقتولوں کے سر کاٹ کر گشت کرانا سخت مکروہ فعل ہے ، کیونکہ یہ مُثلہ ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے ۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس رومی بطیق کا سر کاٹ کر لایا گیا تو آپ نے اس پر شدید ناراضی کا اظہار کیا اور فرمایا ہمارا کام رومیوں اور ایرانیوں کی پیروی کرنا نہیں ہے ۔ یہ معاملہ جب کفار تک سے کرنا روا نہیں ہے تو مسلمانوں کے ساتھ تو یہ بدرجہ اولیٰ ممنوع ہونا چاہیے ۔ ( المبسوط ) ۔ 10 ) ۔ جنگ کے دوران میں باغیوں کے ہاتھوں جان و مال کا جو نقصان ہوا ہو ، جنگ ختم ہونے اور امن قائم ہو جانے کے بعد اس کا کوئی قصاص اور ضمان ان پر عائد نہ ہوگا ۔ نہ کسی مقتول کا بدلہ ان سے لیا جائے گا اور نہ کسی مال کا تاوان ان پر ڈالا جائے گا ، تاکہ فتنے کی آگ پھر نہ بھڑک اٹھے ۔ صحابہ کرام کی باہمی لڑائیوں میں یہی ضابطہ ملحوظ رکھا گیا تھا ( المبسوط ۔ الجصاص ۔ احکام القرآن ابن العرنی ) ۔ 11 ) ۔ جن علاقوں پر باغیوں کا قبضہ ہو گیا ہو اور وہاں انہوں نے اپنا نظم و نسق قائم کر کے زکوٰۃ اور دوسرے محصولات وصول کر لیے ہوں حکومت ان علاقہ پر دوبارہ قبضہ کرنے کے بعد لوگوں سے از سرنو اس زکوٰۃ اور ان محصولات کا مطالبہ نہیں کرے گی ۔ اگر باغیوں نے یہ اموال شرعی طریقے پر صرف کر دیے ہوں گو عند اللہ بھی وہ ادا کرنے والوں پر سے ساقط ہو جائیں گے ۔ لیکن اگر انہوں نے غیر شرعی طریقے پر تصرف کیا ہو ، تو یہ ادا کرنے والوں کے اور ان کے خدا کے درمیان معاملہ ہے ۔ وہ خود چاہیں تو اپنی زکوٰۃ دوبارہ ادا کر دیں ( فتح القدیر ۔ الجصاص ۔ ابن العربی ) ۔ 12 ) ۔ باغیوں نے اپنے زیر تصرف علاوہ میں جو عدالتیں قائم کی ہوں ، اگر ان کے قاضی اہل عدل میں سے ہوں اور شریعت کے مطابق انہوں نے فیصلے کیے ہوں ، تو وہ بر قرار رکھے جائیں گے اگرچہ ان کے مقرر کرنے والے بغاوت کے مجرم ہی کیوں نہ ہوں ۔ البتہ اگر ان کے فیصلے غیر شرعی ہوں اور بغاوت فرو ہونے کے بعد وہ حکومت کی عدالتوں کے سامنے لائے جائیں تو وہ نافذ نہیں کیے جائیں گے ۔ علاوہ بریں باغیوں کی قائم کی ہوئی عدالتوں کی طرف سے کوئی وارنٹ یا پروانہ امر حکومت کی عدالتوں میں قبول نہ کیا جائے گا ( المبسوط ۔ الجصاص ) ۔ 13 ) ۔ باغیوں کی شہادت اسلامی عدالتوں میں قابل قبول نہ ہو گی کیونکہ اہل عدل کے خلاف جنگ کرنا فسق ہے ۔ امام محمد کہتے ہیں کہ جب تک وہ جنگ نہ کریں اور اہل عدل کے خلاف عملاً خروج کے مرتکب نہ ہوں ، ان کی شہادت قبول کی جائے گی ، مگر جب وہ جنگ کر چکے ہوں تو پھر میں ان کی شہادت قبول نہ کروں گا ( الجصاص ) ۔ ان احکام سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کفار کے خلاف جنگ اور مسلمان باغیوں کے خلاف جنگ کے قانون میں کیا فرق ہے ۔