Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

معتبر گواہی کی شرائط بعض لوگوں نے اس آیت کے عزیز حکم کو منسوخ کہا ہے لیکن اکثر حضرات اس کے خلاف ہیں اثنان خبر ہے ، اس کی تقدیر شھداۃ اثنین ہے مضاف کو حذف کر کے مضاف الیہ اس کے قائم مقام کر دیا گیا ہے یا دلالت کلام کی بنا پر فعل محذوف کر دیا گیا ہے یعنی ان یشھد اثنان ، ذواعدل صفت ہے ، منکم سے مراد مسلمانوں میں سے ہونا یا وصیت کرنے والے کے اہل میں سے ہونا ہے ، من غیر کم سے مراد اہل کتاب ہیں ، یہ بھی کہا گیا ہے کہ منکم سے مراد قبیلہ میں اور من غیر کم سے مراد اس کے قبیلے کے سوا ، شرطیں دو ہیں ایک مسافر کے سفر میں ہونے کی صورت میں موت کے وقت وصیت کے لیے غیر مسلم کی گواہی چل سکتی ہے ، حضرت شریح سے یہی مروی ہے ، امام احمد بھی یہی فرماتے ہیں اور تینوں امام خلاف ہیں ، امام ابو حنیفہ ذمی کافروں کی گواہی آپس میں ایک دوسرے پر جائز مانتے ہیں ، زہری کا قول ہے کہ سنت جاری ہو چکی ہے کہ کافر کی شہادت جائز نہیں نہ سفر میں نہ حضر میں ۔ ابن زید کہتے ہیں کہ یہ آیت اس شخص کے بارے میں اتری ہے جس کی موت کے وقت اس کے پاس کوئی مسلمان نہ تھا یہ ابتدائے اسلام کا وقت تھا جبکہ زمین کافروں سے بھری تھی اور وصیت سے ورثہ بٹتا تھا ، ورثے کے احکام نازل نہیں ہوئے تھے ، پھر وصیت منسوخ ہو گئی ورثے کے احکام اترے اور لوگوں نے ان پر عمل درآمد شروع کر دیا ، پھر یہ بھی کہ ان دونوں غیر مسلموں کو وصی بنایا جائے گا یا گواہ؟ حضرت ابن مسعود کا قول ہے کہ یہ حکم اس شخص کے بارے میں ہے جو سفر میں ہو اور وہیں اجل آ جائے اور مال اس کے پاس ہو پس اگر دو مسلمان اسے مل جائیں تو انہیں اپنا مال سونپ دے اور دو گواہ مسلمان مقرر کر لے ، اس قول کے مطابق تو یہ دونوں وصی ہوئے ، دوسرا قول یہ ہے کہ یہ دونوں گواہ ہوں گے ، آیت کے الفاظ کا ظاہر مطلب بھی یہی معلوم ہوتا ہے ، ہاں جس صورت میں ان کے ساتھ اور گواہ نہ ہوں تو یہی وصی ہوں گے اور یہی گواہ بھی ہوں گے امام ابن جریر نے ایک مشکل اس میں یہ بیان کی ہے کہ شریعت کے کسی حکم میں گواہ پر قسم نہیں ۔ لیکن ہم کہتے ہیں یہ ایک حکم ہے جو مستقل طور پر بالکل علیحدہ صورت میں ہے اور احکام کا قیاس اس پر جاری نہیں ہے ، یہ ایک خاص شہادت خاص موقعہ کی ہے اس میں اور بھی بہت سی ایسی باتیں جو دوسرے احکام میں نہیں ۔ پس شک کے قرینے کے وقت اس آیت کے حکم کے مطابق ان گواہوں پر قسم لازم آتی ہے ، نماز کے بعد ٹھہرا لو سے مطلب نماز عصر کے بعد ہے ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ نماز سے مراد مسلمانوں کی نماز ہے ۔ تیسرا قول یہ ہے کہ ان کے مذہب کی نماز ، مقصود یہ ہے کہ انہیں نماز کے بعد لوگوں کی موجودگی میں کھڑا کیا جائے اور اگر خیانت کا شک ہو تو ان سے قسم اٹھوائی جائے وہ کہیں کہ اللہ کی قسم ہم اپنی قسموں کو کسی قیمت بیچنا نہیں چاہتے ۔ دنیوی مفاد کی بنا پر جھوٹی قسم نہیں کھاتے چاہے ہماری قسم سے کسی ہمارے قریبی رشتہ دار کو نقصان پہنچ جائے تو پہنچ جائے لیکن ہم جھوٹی قسم نہیں کھائیں گے اور نہ ہم سچی گواہی چھپائیں گے ، اس گواہی کی نسبت اللہ کی طرف اس کی عزت و عظمت کے اظہار کیلئے ہے بعض نے اسے قسم کی بنا پر مجرور پڑھا ہے لیکن مشہور قرأت پہلی ہی ہے وہ ساتھ ہی یہ بھی کہیں کہ اگر ہم شہادت کو بدلیں یا الٹ پلٹ کریں یا کچھ حصہ چھپالیں تو ہم بھی گنہگار ، پھر اگر یہ مشہور ہو یا ظاہر ہو جائے یا اطلاع مل جائے کہ ان دونوں نے مرنے والے کے مال میں سے کچھ چرا لیا یا کسی قسم کی خیانت کی ۔ اولیان کی دوسری قرأت اولان بھی ہے مطلب یہ ہے کہ جب کسی خبر صحیح سے پتہ چلے کہ ان دونوں نے کوئی خیانت کی ہے تو میت کے وارثوں میں سے جو میت کے زیادہ نزدیک ہوں وہ دو شخص کھڑے ہوں اور حلیفہ بیان دیں کہ ہماری شہادت ہے کہ انہوں نے چرایا اور یہی زیادہ حق زیادہ صحیح اور پوری سچی بات ہے ، ہم ان پر جھوٹ نہیں باندھتے اگر ہم ایسا کریں تو ہم ظالم ، یہ مسئلہ اور قسامت کا مسئلہ اس بارے میں بہت ملتا جلتا ہے ، اس میں بھی مقتول کے اولیاء قسمیں کھاتے ہیں ، تمیم داری سے منقول ہے کہ اور لوگ اس سے بری ہیں صرف میں اور عدی بن بداء اس سے متعلق ہیں ، یہ دونوں نصرانی تھے اسلام سے پہلے ملک شام میں بغرض تجارت آتے جاتے تھے ابن سہم کے مولی بدیل بن ابو مریم بھی مال تجارت لے کر شام کے ملک گئے ہوئے تھے ان کے ساتھ ایک چاندی کا جام تھا ، جسے وہ خاص بادشاہ کے ہاتھ فروخت کرنے کیلئے لے جا رہے تھے ۔ اتفاقاً وہ بیمار ہو گئے ان دونوں کو وصیت کی اور مال سونپ دیا کہ یہ میرے وارثوں کو دے دینا اس کے مرنے کے بعد ان دونوں نے وہ جام تو مال سے الگ کر دیا اور ایک ہزار درہم میں بیچ کر آدھوں آدھ بانٹ لئے باقی مال واپس لا کر بدیل کے رشتہ داروں کو دے دیا ، انہوں نے پوچھا کہ چاندی کا جام کیا ہوا ؟ دونوں نے جواب دیا ہمیں کیا خبر؟ ہمیں تو جو دیا تھا وہ ہم نے تمہیں دے دیا ۔ حضرت تمیم داری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینے میں آئے اور اسلام نے مجھ پر اثر کیا ، میں مسلمان ہو گیا تو میرے دل میں خیال آیا کہ یہ انسانی حق مجھ پر رہ جائے گا اور اللہ تعالیٰ کے ہاں میں پکڑا جاؤں گا تو میں بدیل کے وارثان کے پاس آیا اور اس سے کہا پانچ سو درہم جو تو نے لے لئے ہیں وہ بھی واپس کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اس سے قسم لی جائے اس پر یہ آیت اتری اور عمرو بن عاص نے اور ان میں سے ایک اور شخص نے قسم کھائی عدی بن بداء کو پانچ سو درہم دینے پڑے ( ترمذی ) ایک روایت میں ہے کہ عدی جھوٹی قسم بھی کھا گیا تھا اور روایت میں ہے کہ اس وقت ارض شام کے اس حصے میں کوئی مسلمان نہ تھا ، یہ جام چاندی کا تھا اور سونے سے منڈھا ہوا تھا اور مکے میں سے جام خریدا گیا تھا جہاں سے ملا تھا انہوں نے بتایا تھا کہ ہم نے اسے تمیم اور عدی سے خریدا ہے ، اب میت کے دو وارث کھڑے ہوئے اور قسم کھائی ، اسی کا ذکر اس آیت میں ہے ایک روایت میں ہے کہ قسم عصر کی نماز کے بعد اٹھائی تھی ابن جریر میں ہے کہ ایک مسلمان کی وفات کا موقعہ سفر میں آیا ، جہاں کوئی مسلمان اسے نہ ملا تو اس نے اپنی وصیت پر دو اہل کتاب گواہ رکھے ، ان دونوں نے کوفے میں آ کر حضرت ابو موسیٰ اشعری کے سامنے شہادت دی وصیت بیان کی اور ترکہ پیش کیا حضرت ابو موسیٰ اشعری نے فرمایا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ واقعہ پہلا ہے پس عصر کی نماز کے بعد ان سے قسم لی کہ نہ انہوں نے خیانت کی ہے ، نہ جھوٹ بولا ہے ، نہ بدلا ہے ، نہ چھپایا ہے ، نہ الٹ پلٹ کیا ہے بلکہ سچ وصیت اور پورا ترکہ انہوں نے پیش کر دیا ہے آپ نے ان کی شہادت کو مان لیا ، حضرت ابو موسیٰ کے فرمان کا مطلب یہی ہے کہ ایسا واقعہ حضور کے زمانے میں تمیم اور عدی کا ہوا تھا اور اب یہ دوسرا اس قسم کا واقع ہے ، حضرت تمیم بن داری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اسلام سنہ ۹ہجری کا ہے اور یہ آخری زمانہ ہے ۔ سدی فرماتے ہیں لازم ہے کہ موت کے وقت وصیت کرے اور دو گواہ رکھے اگر سفر میں ہے اور مسلمان نہیں ملتے تو خیر غیر مسلم ہی سہی ۔ انہیں وصیت کرے اپنا مال سونپ دے ، اگر میت کے وارثوں کو اطمینان ہو جائے تو خیر آئی گئی بات ہوئی ورنہ سلطان اسلام کے سامنے وہ مقدمہ پیش کر دیا جائے ، اوپر جو واقعہ بیان ہوا اس میں یہ بھی ہے کہ جب حضرت ابو موسیٰ نے ان سے عصر کے بعد قسم لینی چاہی تو آپ سے کہا گیا کہ انہیں عصر کے بعد کی کیا پرواہ؟ ان سے ان کی نماز کے وقت قسم لی جائے اور ان سے کہا جائے کہ اگر تم نے کچھ چھپا یا یا خیانت کی تو ہم تمہیں تمہاری قوم میں رسوا کر دیں گے اور تمہاری گواہی کبھی بھی قبول نہ کی جائے گی اور تمہیں سنگین سزا دی جائے گی ، بہت ممکن ہے کہ اس طرح ان کی زبان سے حق بات معلوم ہو جائے پھر بھی اگر شک شبہ رہ جائے اور کسی اور طریق سے ان کی خیانت معلوم ہو جائے تو مرحوم کے دو مسلمان وارث قسمیں کھائیں کہ ان کافروں کی شہادت غلط ہے تو ان کی شہادت غلط مان لی جائے گی اور ان سے ثبوت لے کر فیصلہ کر دیا جائے گا پھر بیان ہوتا ہے کہ اس صورت میں فائدہ یہ ہے کہ شہادت ٹھیک ٹھیک آ جائے گی ایک تو اللہ کی قسم کا لحاظ ہو گا دوسرے لوگوں میں رسوا ہونے کا ڈر رہے گا ، لوگو اللہ تعالیٰ سے اپنے سب کاموں میں ڈرتے رہو اس کی باتیں سنتے رہو اور مانتے چلے جاؤ ، جو لوگ اس کے فرمان سے ہٹ جائیں اور اس کے احکام کے خلاف چلیں وہ راہ راست نہیں پاتے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

106۔ 1 تم میں سے ہوں کا مطلب بعض نے یہ بیان کیا ہے کہ مسلمانوں میں سے ہوں اور بعض نے کہا ہے (وصیت کرنے والے) کے قبیلے سے ہوں، اسی طرح (آخران من غيرکم) میں دو مفہوم ہونگے۔ یعنی من غیرکم سے مراد یا غیر مسلم اہل کتاب ہوں گے یا موصی کے قبیلے کے علاوہ کسی اور قبیلے سے۔ 106۔ 2 یعنی سفر میں کوئی ایسا شدید بیمار ہوجائے کہ جسے زندہ بچنے کی امید نہ ہو تو وہ سفر میں دو عادل گواہ بنا کر جو وصیت کرنا چاہے، کر دے۔ 106۔ 3 یعنی مرنے والے موصی کے ورثا کو شک پڑجائے کہ ان اوصیا نے مال میں خیانت یا تبدیلی کی ہے تو نماز کے بعد یعنی لوگوں کی موجودگی میں ان سے قسم لیں اور وہ قسم کھا کے کہیں ہم اپنی قسم کے عوض دنیا کا کوئی فائدہ حاصل نہیں کر رہے ہیں۔ یعنی جھوٹی قسم نہیں کھا رہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٥٤] سیدنا ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ بنو سہم کا ایک آدمی تمیم داری اور عدی کے ساتھ سفر پر نکلا اور یہ سہمی ایسی جگہ مرگیا جہاں کوئی مسلمان نہ تھا۔ تمیم داری اور عدی اس کا ترکہ لے کر آئے تو سہمی کے وارثوں نے اس میں ایک پیالہ نہ پایا جو چاندی کا تھا اور سونے سے مرصع تھا۔ رسول اللہ نے تمیم اور عدی سے قسم کھانے کو کہا اور وہ قسم کھا گئے کہ (پیالہ ان کے پاس نہیں) پھر وہ پیالہ بازار مکہ سے مل گیا۔ اور انہوں نے کہا کہ ہم نے تمیم داری اور عدی سے خریدا ہے۔ اب سہمی کے وارثوں سے دو شخص کھڑے ہوئے اور اللہ کی قسم کھا کر گواہی دی کہ یہ پیالہ ہمارے ہی آدمی کا ہے اور یہ کہ ہماری گواہی ان دونوں سے زیادہ سچی ہے۔ یہ آیت اسی سلسلہ میں نازل ہوئی۔ (بخاری۔ کتاب الوصایا۔ باب قول اللہ تعالیٰ یٰاایہا الذین آمنوا شھادۃ۔۔ )- چوری کے پیالہ کا مقدمہ :۔ یہ واقعہ جو دور نبوی میں ہوا تھا اس کی کچھ تفصیل تو مندرجہ بالا حدیث میں آگئی ہے تاہم اختصار کی وجہ سے کئی پہلو تشنہ رہ گئے ہیں جو ہم یہاں بیان کریں گے تاکہ بات پوری طرح سمجھ میں آجائے۔ ہوا یہ تھا کہ بنو سہم کا ایک مسلمان، جس کا نام بدیل تھا۔ اپنے دو ساتھیوں تمیم اور عدی کے ساتھ، جو نصرانی تھے اور ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ شام کی طرف ایک تجارتی سفر پر روانہ ہوئے۔ بدیل وہاں شام جا کر بیمار پڑگیا جس سے اسے افاقہ ہوتا نظر نہیں آ رہا تھا۔ اس نے اپنا اثاثہ باندھا اور اپنے ان دونوں ساتھیوں کے حوالہ کردیا۔ اور تاکید کی کہ یہ سامان میرے وارثوں کے حوالہ کردیں۔ اس نے یہ عقلمندی کی کہ چپکے سے اپنے سامان کی ایک فہرست تیار کر کے سامان میں کسی محفوظ جگہ رکھ دی اور اپنے ساتھیوں کو اس کی خبر نہ کی۔ اس سامان میں ایک قیمتی پیالہ تھا جو چاندی کا تھا اور اس پر سونے کا پانی چڑھا ہوا اور نقش و نگار بنے ہوئے تھے۔ ان نصرانیوں نے اس کے مرنے کے بعد جب سامان دیکھا تو ان کی نیت میں فتور آگیا اور یہ پیالہ سامان میں سے چرا لیا۔ جب وہ واپس آئے تو سامان بدیل کے ورثاء کے حوالہ کردیا اور پیالہ بازار میں کسی سنار کے پاس فروخت کردیا۔ ورثاء نے جب سامان کھولا تو اس میں سامان کی فہرست بھی ملی۔ اس کے مطابق سامان چیک کیا تو وہ قیمتی پیالہ ندارد تھا۔ انہوں نے سامان لانے والے ساتھیوں سے پوچھا کہ مرنے والے نے اپنی کوئی چیز فروخت تو نہیں کی تھی ؟ ممکن ہے اسے بیماری کے علاج معالجہ کے لیے ضرورت پڑگئی ہو اور اس نے کچھ سامان بیچ ڈالا ہو ؟ انہوں نے اس کا جواب نفی میں دیا۔ یہ تسلی کرلینے کے بعد ورثاء نے یہ مقدمہ عدالت نبوی میں پیش کردیا۔ آپ نے تمیم اور عدی دونوں کو بلا کر بیان لیا تو وہ کہنے لگے کہ ہمیں اس پیالہ کا کچھ علم نہیں اور قسمیں کھا کر اپنے بیان کی توثیق کی۔ اب چونکہ اس بات کا امکان تھا کہ سامان کی فہرست تیار کرنے کے بعد میت نے وہ پیالہ اپنی ضرورت سے بیچ دیا ہو اور شرعی شہادات پوری نہیں ہو رہی تھیں لہذا آپ نے ان نصرانیوں کو بری قرار دے دیا۔ کچھ مدت بعد بدیل کے وارثوں نے وہی پیالہ ایک سنار کے پاس دیکھ لیا تو اس سے پوچھا کہ یہ پیالہ تم نے کہاں سے لیا ہے ؟ اس نے کہا میں نے یہ تمیم اور عدی سے خریدا ہے۔ چناچہ مدعی دوبارہ یہ مقدمہ آپ کی عدالت میں لے گئے۔ آپ نے پھر نصرانیوں کو بلایا اور ان کے سامنے وارثوں میں سے دو گواہوں نے قسم اٹھا کر گواہی دی کہ یہ پیالہ ہمارے ہی آدمی کا ہے نصرانی اپنی قسم میں جھوٹے ہیں اور ہم اللہ سے ڈرتے ہوئے بالکل صحیح اور سچی گواہی دے رہے ہیں۔ یہ گواہیاں میت کے نہایت قریبی وارثوں کی تھیں جو مسلمان تھے۔ نیز یہ گواہیاں نماز عصر کے بعد قسم کے بعد مسجد میں ہوئی تھیں لہذا آپ نے میت کے وارثوں کے حق میں فیصلہ دے دیا اور نصرانیوں سے اس پیالہ کی قیمت (ایک ہزار درہم) میت کے وارثوں کو دلائی گئی۔ اس وقت یہ آیات نازل ہوئیں۔ پھر کچھ عرصہ بعد جب ان دونوں نصرانیوں میں سے تمیم نے اسلام قبول کرلیا تو اس نے اعتراف کیا کہ واقعی اس نے جھوٹی قسم کھائی تھی اور جو کچھ اس بارے میں رسول اللہ نے فیصلہ کیا تھا وہ درست تھا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا شَهَادَةُ بَيْنِكُمْ ۔۔ : ان آیات میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے مسلمانو جب تم سفر کی حالت میں ہو اور تم پر موت کے آثار ظاہر ہونے لگیں اور تمہارے پاس کوئی مال یا اثاثہ ہو تو اللہ کا حکم یہ ہے کہ مسلمانوں یا غیر مسلموں میں سے دو عدل و صدق والے آدمیوں کو اس پر گواہ بنادو ۔ جو میت کے وارثوں کے پاس مرنے والے کا سامان پہنچا دیں، اگر ان دونوں گواہوں کے بارے میں میت کے ورثا کو شبہ ہوجائے کہ انھوں نے خیانت کی ہے اور میت کا کچھ مال چھپالیا ہے تو انھیں نماز کے بعد حلف اٹھانے کے لیے روک لیا جائے گا، پھر وہ اللہ کی قسم کھائیں گے اور کہیں گے کہ ہم مال کی وجہ سے اللہ کی جھوٹی قسم نہیں کھائیں گے، چاہے جسے فائدہ پہنچانے کے لیے ہم قسم کھا رہے ہیں وہ ہمارا رشتے دار ہی کیوں نہ ہو اور جس گواہی کا اللہ نے حکم دیا ہے اسے نہیں چھپائیں گے، اگر ہم ایسا کریں تو یقیناً گناہ گاروں میں سے ہوں گے۔ اگر ان دونوں کے قسم کھا لینے کے بعد پتا چل جائے کہ انھوں نے خیانت کی ہے تو میت کے رشتے داروں میں سے دو قریبی رشتے دار آگے بڑھیں گے اور حلف اٹھائیں گے کہ ہم دونوں کی گواہی کہ ان دونوں نے خیانت کی ہے اور جھوٹی قسم کھائی ہے، ان دونوں کی گواہی سے زیادہ قابل قبول ہے اور یہ کہ ہم نے ان پر خیانت کی جو شہادت دی ہے تو اس میں ہم نے ان پر زیادتی نہیں کی، اگر ہم نے زیادتی کی ہے تو یقیناً ہم ظالموں میں سے ہوں گے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس طرح حلف لینے کی حکمت و مصلحت بیان فرمائی کہ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ گواہ آخرت کے عذاب سے ڈرتے ہوئے امر واقع میں کوئی تبدیلی لائے بغیر گواہی دیں گے اور خیانت کی شکل میں دو قریبی رشتہ داروں سے حلف لینے کی حکمت یہ ہے کہ حالت سفر کے گواہ ڈریں گے کہ اگر ہم نے جھوٹی قسم اٹھائی تو وہ رد کردی جائے گی، کیونکہ قریبی رشتہ دار قسم کھائیں گے اور ہمارا جھوٹ لوگوں کے سامنے ظاہر ہوجائے گا۔ - ان آیات کی شان نزول یہ ہے کہ عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ بنو سہم قبیلے کا ایک (مسلم) شخص تمیم داری اور عدی بن بداء کے ساتھ سفر کے لیے نکلا۔ ( یہ دونوں اس وقت نصرانی تھے) سہمی کو اس سر زمین پر موت آئی جہاں کوئی مسلمان نہ تھا جسے وہ وصیت کرتا، لہٰذا اس نے اپنا سامان تمیم داری اور عدی کے حوالے کردیا، پھر جب وہ دونوں اس کے ترکے کے ساتھ واپس آئے تو ورثا نے دیکھا کہ چاندی کا ایک جام، جس پر سونے کے نقش و نگار بنے ہوئے تھے، غائب ہے۔ (مقدمہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچ گیا) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمیم داری اور عدی سے قسم لی ( اور انھیں چھوڑ دیا) بعد میں وہ جام مکہ میں ملا، ان لوگوں نے ( جن کے پاس سے وہ جام ملا تھا) کہا کہ ہم نے اسے تمیم اور عدی بن بداء سے خریدا ہے، پھر اس سہمی کے ورثا میں سے دو آدمی کھڑے ہوئے اور انھوں نے گواہی دی کہ یقیناً یہ جام ہمارے قریبی رشتے دار، یعنی سہمی کا جام ہے، چناچہ یہ آیت انھی کے بارے میں نازل ہوئی : (يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا شَهَادَةُ بَيْنِكُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ حِيْنَ الْوَصِيَّةِ اثْنٰنِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنْكُمْ ) [ المائدۃ : ١٠٦ ] [ بخاری، الوصایا، باب قول اللہ عزوجل : ( یایھا الذین اٰمنوا شھادۃ بینکم۔۔ ) : ٢٧٨ ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ربط آیات - اوپر مصالح دینیہ کے متعلق احکام تھے، آگے مصالح دنیویہ کے متعلق بعض احکام کا ذکر کیا گیا ہے، اور اس میں اشارہ کردیا کہ حق تعالیٰ اپنی رحمت سے مثل اصلاح معاد کے اپنے بندوں کی معاش کی اصلاح بھی فرماتے ہیں (بیان القرآن)- شان نزول - آیات مذکورہ کے نزول کا واقعہ یہ ہے کہ ایک شخص ” بُدیل “ نامی جو مسلمان تھا دو شخصوں تمیم و عدی کے ساتھ جو اس وقت نصرانی تھے۔ بغرض تجارت ملک شام کی طرف گیا، شام پہنچ کر بدیل بیمار ہوگیا، اس نے اپنے مال کی فہرست لکھ کر اسباب میں رکھ دی، اور اپنے دونوں رفیقوں کو اطلاع نہ کی، مرض جب زیادہ بڑھا، تو اس نے دونوں نصرانی رفقاء کو وصیت کی کہ کل سامان میرے وارثوں کو پہنچا دینا۔ انہوں نے سب سامان لاکر وارثوں کے حوالہ کردیا، مگر چاندی کا ایک پیالہ جس پر سونے کا ملمع یا نقش ونگار تھا اس میں سے نکال لیا، وارثوں کو فہرست اسباب میں سے دستیاب ہوئی۔ انہوں نے اوصیا سے پوچھا کہ میّت نے کچھ مال فروخت کیا تھا یا کچھ زیادہ بیمار رہا کہ معالجہ وغیرہ میں خرچ ہوا ہو۔ ان دونوں نے اس کا جواب نفی میں دیا، آکر معاملہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عدالت میں پیش ہوا، چونکہ وارثوں کے پاس گواہ نہ تھے تو ان دونوں نصرانیوں سے قسم لی گئی کہ ہم نے میّت کے مال میں کسی طرح کی خیانت نہیں کی، نہ کوئی چیز اس کی چھپائی، آخر قسم پر فیصلہ ان کے حق میں کردیا گیا، کچھ مدت کے بعد ظاہر ہوا کہ وہ پیالہ ان دونوں نے مکہ میں کسی سنار کے ہاتھ فروخت کیا ہے، جب سوال ہوا تو کہنے لگے کہ ہم نے میّت سے خرید لیا تھا، چونکہ خریداری کے گواہ موجود نہ تھے اس لئے ہم نے پہلے اس کا ذکر نہیں کیا، مبادا ہماری تکذیب کردی جائے۔- میّت کے وارثوں نے پھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف رجوع کیا، اب پہلی صورت کے برعکس اوصیا خریداری کے مدعی اور وارث منکر تھے، شہادت موجود نہ ہونے کی وجہ سے وارثوں میں سے دو شخصوں نے جو میّت سے قریب تر تھے قسم کھائی کہ پیالہ میّت کی ملک تھا، اور یہ دونوں نصرانی اپنی قسم میں جھوٹے ہیں۔ چناچہ جس قیمت پر انہوں نے فروخت کیا تھا (ایک ہزار درہم پر) وہ وارثوں کو دلائی گئی۔- خلاصہ تفسیر - اے ایمان والو تمہارے آپس (کے معاملات) میں (مثلاً ورثا کو مال سپرد کرنے کے لئے) دو شخص وصی ہونا مناسب ہے (گو بالکل وصی نہ بنانا بھی جائز ہے) جب تم میں سے کسی کو موت آنے لگے (یعنی) جب وصیت کرنے کا وقت ہو (اور) وہ دو شخص ایسے ہوں کہ دیندار ہوں اور تم میں سے (یعنی مسلمانوں میں سے) ہوں یا غیر قوم کے دو شخص ہوں اگر (مسلمان نہ ملیں مثلاً ) تم کہیں سفر میں گئے ہو پھر تم پر واقعہ موت کا پڑجائے (اور یہ سب امور واجب نہیں، مگر مناسب اور بہتر ہیں، ورنہ جس طرح بالکل وصی نہ بنانا جائز ہے اسی طرح اگر ایک وصی ہو یا عادل نہ ہو یا حضر میں غیر مسلم کو بنا دے سب جائز ہے، پھر ان اوصیاء کا یہ حکم ہے کہ) اگر (کسی وجہ سے ان پر) تم کو (اے ورثاء) شبہ ہو تو (اے احکام مقدمہ اس طرح فیصل کرو کہ اول ورثاء سے چونکہ وہ مدعی ہیں اس امر پر گواہ طلب کرلو کہ انہوں نے فلاں چیز مثلاً جام لے لیا ہے، تو جھوٹی قسم کھانے والا کچھ نہ کچھ شرماتا ہے، نیز وقت بھی معظم ہے، کچھ اس کا بھی خیال ہوتا ہے، اور مقصود اس سے تغلیظ یمین کی ہے، زمان متبرک و مکان اجتماع خلق کے ساتھ) پھر دونوں (اس طرح) خدا کی قسم کھا دیں کہ (صیغہ حلف کے ساتھ یہ کہیں کہ) ہم اس قسم کے عوض کوئی (دنیا) کا نفع نہیں لینا چاہتے (کہ دنیا کا نفع حاصل کرنے کے لئے قسم میں سچ بولنے کو چھوڑ دیں) اگرچہ (اس واقعہ میں ہمارا) کوئی قرابت دار بھی (کیوں نہ) ہوتا (جس کی مصلحت کو اپنی مصلحت سمجھ کر ہم جھوٹی قسم کھاتے اور اب تو کوئی ایسا بھی نہیں، جب دوہری مصلحتوں کی وجہ سے بھی ہم جھوٹ نہ بولتے تو ایک مصلحت کے لئے تو ہم کیوں ہی جھوٹ بولیں گے) اور اللہ کی (طرف سے جس) بات (کہنے کا حکم ہے اس) کو ہم پوشیدہ نہ کریں گے (ورنہ) ہم (اگر ایسا کریں تو) اس حالت میں سخت گنہگار ہوں گے (یہ تغلیظ قولی ہے جس سے مقصود استحضار ہے وجوب صدق و حرمت کذب و عظمت الٓہیہ کا جو مانع ہو دروغ حلفی سے، اب ان دونوں تغلیظ کے بعد اگر حاکم کی رائے ہو تو بلا تغلیظ اصل مضمون کی قسم کھاویں، مثلاً ہم کو میّت نے پیالہ نہیں دیا، اور اس پر مقدمہ فیصل کردینا چاہئے، چناچہ اس آیت کے واقعہ میں ایسا ہی ہوا) پھر (اس کے بعد) اگر (کسی طریق سے ظاہراً ) اس کی اطلاع ہو کہ وہ دونوں وصی کسی گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں (مثلاً واقعہ آیت میں جس کو پہلے ذکر کردیا گیا ہے، جب پیالہ مکہ میں ملا اور دونوں وصیوں نے دریافت کرنے پر میّت سے خریدنے کا دعویٰ کیا جس سے میّت سے لے لینے کا اقرار لازم آتا ہے۔ اور وہ ان کے پہلے قول کا مخالف ہے، جس میں مطلقاً لینے ہی سے انکار کیا تھا، چونکہ اقرار بالمضر حجت ہے، اس لئے ظاہراً ان کا خائن اور کاذب ہونا معلوم ہوا) تو (ایسی صورت میں مقدمہ کا رخ بدل جائے گا، وصی جو کہ پہلے مدعا علیہ تھے اب خریدنے کے مدعی ہوگئے اور ورثاء جو کہ پہلے مدعی خیانت کے تھے اب مدعا علیہ ہوگئے، اس لئے اب فیصلہ کی یہ صورت ہوگئی کہ اول وصیوں سے گواہ خریدنے کے طلب کئے جائیں، اور جب وہ گواہ پیش نہ کرسکیں تو) ان (وارث) لوگوں میں سے جن کے مقابلہ میں (ان اوصیاء کی جانب سے) گناہ (مذکور) کا ارتکاب ہوا تھا اور (جو کہ شرعاً مستحق میراث ہوں مثلاً صورت واقعہ آیت میں) دو شخص (تھے) جو سب (ورثہ) میں باعتبار (استحقاق میراث) قریب تر ہیں جہاں (حلف کے لئے) وہ دونوں (اس طرح) خدا کی قسم کھاویں کہ (صیغہ حلف کے ساتھ یہ کہیں کہ) بالیقین ہماری یہ قسم (بوجہ اس کے کہ بالکل اشتباہ سے ظاہراً و حقیقتا پاک ہے) ان دونوں (اوصیاء) کی اس قسم سے زیادہ راست ہے (کیونکہ اس کی حقیقت کا گو ہم کو علم نہیں، لیکن ظاہراً تو وہ مشتبہ ہوگئی) اور ہم نے (حق سے) ذرا تجاوز نہیں کیا (ورنہ) ہم (اگر ایسا کریں تو) اس حالت میں سخت ظالم ہوں گے (کیونکہ پرایا مال جان بوجھ کر بلا اجازت لے لینا ظلم ہے، یہ بھی تغلیظ ہے، جو حاکم کی رائے پر ہے، پھر اصل مضمون پر قسم لی جائے، جس کا صیغہ بوجہ اس کے کہ فعل غیر پر ہے یہ ہوگا کہ خدا کی قسم ہمارے علم میں میّت نے ان مدعیوں کے ہاتھ جام فروخت نہیں کیا، اور چونکہ علم کی واقعیت و عدم واقعیت کی کوئی ظاہری سبیل نہیں ہوسکتی، اس لئے اس کی واقعیت پر زیادہ موکد قسم لی گئی، جیسا لفظ احق دال ہے، جس کا حاصل یہ ہوا کہ اس کا مدار چونکہ میرے ہی اوپر ہے اس لئے قسم کھاتا ہوں کہ جیسا اس میں کذب ظاہری کا ثبوت نہیں ہوسکتا اسی طرح حقیقت میں کذب بھی نہیں ہے، اور یہ قرینہ مفید ہے کہ یہاں حلف علم پر ہے، اور چونکہ اس کا کذب بلا اقرا کبھی ثابت نہیں ہوسکتا، اس لئے اس میں جو حق تلفی ہوگی وہ اشد درجہ کا ظلم ہوگا، عجب نہیں کہ یہاں ظالمین اس لئے کہا گیا ہو) یہ (قانون جو مجموعہ آیتین میں مذکور ہوا) بہت قریب ذریعہ ہے اس امر کا کہ وہ (اوصیاء) لوگ واقعہ کو ٹھیک طور پر ظاہر کریں (اگر سپردگی مال زائد کی نہیں ہوئی قسم کھالیں، اور اگر ہوئی ہے تو گناہ سے ڈر کر انکار کردیں، یہ حکمت تو تحلیف اوصیاء میں ہے) یا اس بات سے ڈر (کر قسم کھانے سے رک) جائیں کہ ان سے قسم لینے کے بعد (ورثا پر) قسمیں متوجہ کی جائیں گی (پھر ہم کو خفیف ہونا پڑے گا، یہ حکمت تحلیف ورثا میں ہے، اور ان سب شقوق میں حق دار کو اس کا حق پہنچایا ہے کہ جو مشروع و مطلوب ہے، کیونکہ اگر تخلیف اوصیاء مشروع نہ ہوتا اور اوصیاء مال کے سپرد کرنے میں سچے ہوتے تو ان کی تہمت رفع کرنے کا کوئی طریقہ نہ ہوتا۔ اور اگر وہ چھوٹے ہوتے تو ورثاء کے اثباتِ حق کا کوئی طریقہ نہ ہوتا۔ اور اب سچے ہونے کے وقت براءة کا حق ثابت ہوجاتا ہے، اور اگر تحلیف ورثاء مشروع نہ ہوتا اور شرعاً انکا حق ہوتا تو اثباتِ حق کی کوئی صورت نہ تھی۔ اور اگر شرعاً انکا حق نہ ہوتا تو اوصیاء کے اثباتِ حق کا کوئی طریقہ نہ تھا، اور اب ورثاء کا حق ہونے کے وقت ان کا اثباتِ حق ہوسکتا ہے، اور حق نہ ہونے کے وقت قسم کے انکار سے اوصیاء کا حق ثابت ہوجائے گا۔ پس دو شقیں تحلیف ورثاء کی حکمت میں ہیں، اور (آیت) یاتوا بالشھادة۔ دونوں کو شامل ہے اور دو شقیں تحلیف ورثاء کی حکمت میں ہیں، جن میں سے دوسری شق تو تحلیف اوصیاء کی پہلی شق میں متداخل ہے اور پہلی شق او یخافوا کی مدلول ہے، پس مجموعہ ہر دو تحلیف میں سب شقوق کی رعایت ہوگئی) اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو (اور معاملات و حقوق میں جھوٹ مت بولو) اور (ان کے احکام کو) سنو (یعنی مانو) اور (اگر خلاف کرو گے تو فاسق ہوجاؤ گے) اللہ تعالیٰ فاسق لوگوں کو (قیامت کے روز فرمانبرداروں کے درجات کی طرف) رہنمائی نہ کریں گے (بلکہ نجات پانے کے وقت بھی ان سے کم رہیں گے تو ایسا خسارہ کیوں گوارا کرتے ہو) ۔ - - معارف و مسائل - مسئلہ ١: میّت جس شخص کو مال سپرد کرکے اس کے متعلق کسی کو دینے دلانے کیلئے کہہ جاوے وہ وصی ہے، اور وصی ایک شخص بھی ہوسکتا ہے، اور زیادہ بھی۔- مسئلہ ٢: وصی کا مسلمان اور عادل ہونا خواہ حالت سفر ہو یا حضر افضل ہے لازم نہیں۔- مسئلہ ٣: نزاع میں جو امر زائد کا مثبت ہو وہ مدعی اور دوسرا مدعا علیہ کہلاتا ہے۔- مسئلہ ٤: اوّل مدعی سے گواہ لئے جاتے ہیں، اگر موافق ضابطہ شرعی کے پیش کردے، مقدمہ وہ پاتا ہے، اور اگر پیش نہ کرسکے تو مدعا علیہ سے قسم لی جاتی ہے اور مقدمہ وہ پاتا ہے، البتہ اگر قسم سے انکار کر جائے تو پھر مدعی مقدمہ پالیتا ہے۔- مسئلہ ٥: قسم کی تغلیظ زمان یا مکان کے ساتھ جیسا کہ آیت مذکورہ میں کی گئی ہے، حاکم کی رائے پر ہے، لازم نہیں، اس آیت سے بھی لزوم ثابت نہیں ہوتا اور دوسری آیات و روایات سے اطلاق ثابت ہے۔- مسئلہ ٦: اگر مدعا علیہ کسی غیر کے فعل کے متعلق قسم کھاوے تو الفاظ یہ ہوتے ہیں کہ مجھ کو اس فعل کی اطلاع نہیں۔- مسئلہ ٧: اگر میراث کے مقدمہ میں وارث مدعا علیہ ہوں تو جن کو شرعاً میراث پہنچتی ہے ان پر قسم آوے گی خواہ وہ واحد ہو یا متعدد اور جو وارث نہیں ان پر قسم نہ ہوگی (بیان القرآن) ۔- ایک کافر کی شہادت دوسرے کافر کے معاملہ میں قابل قبول ہے - (قولہ تعالیٰ ) يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا شَهَادَةُ بَيْنِكُمْ (الی قولہ) اَوْ اٰخَرٰنِ مِنْ غَيْرِكُمْ ، اس آیت میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت آنے لگے تو دو ایسے آدمیوں کو وصی بناؤ جو تم میں سے ہوں اور نیک ہوں اور اگر اپنی قوم کے آدمی نہیں ہیں تو غیر قوم (یعنی کافر) سے بناؤ۔- اس سے امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ نے یہ مسئلہ استنباط کیا ہے کہ کفار کی شہادت بعض کی بعض سے جائز ہے، کیونکہ اس آیت میں کفار کی شہادت مسلمانوں پر جائز قرار دی ہے، جیسا کہ اَوْ اٰخَرٰنِ مِنْ غَيْرِكُمْ ، سے ظاہر ہے تو کفار کی شہادت بعض کی بعض پر بطرق اولیٰ جائز ہے، لیکن بعد میں (آیت) یایھا الذین امنوا اذا تداینتم بدین، سے کفار کی بعض کی بعض پر اسی طرح باقی ہے (قرطبی، احکام القرآن للجصّاص) ۔ - امام صاحب کے مسلک کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ ایک یہودی نے زنا کرلیا تو اس کے لوگوں نے اس کا چہرہ سیاہ کرکے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دربار میں پیش کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی حالت دیکھ کر وجہ دریافت فرمائی تو انہوں نے کہا کہ اس نے زنا کیا ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گواہوں کی شہادت کے بعد اس کو رجم کرنے کا حکم دیا (جصاص) - جس شخص پر کسی کا حق ہو وہ اس کو قید کرا سکتا ہے - (قولہ تعالیٰ ) تَحْبِسُوْنَهُمَا، اس آیت سے ایک اصول معلوم ہوا کہ جس آدمی پر کسی کا کوئی حق واجب ہو اس کو اس حق کی خاطر ضرورت کے وقت قید کیا جاسکتا ہے (قرطبی) - (قولہ تعالیٰ ) مِنْۢ بَعْدِ الصَّلٰوة (صلوٰة سے عصر کی نماز مراد ہے، اس وقت کو اختیار کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت کی تعظیم اہل کتاب بہت کرتے تھے، جھوٹ بولنا ایسے وقت میں خصوصاً ان کے ہاں ممنوع تھا، اس سے معلوم ہوا کہ قسم میں کسی خاص وقت یا خاص مقام وغیرہ کی قید لگا کر تغلیظ کرنا جائز ہے (قرطبی)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا شَہَادَۃُ بَيْنِكُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ حِيْنَ الْوَصِيَّۃِ اثْنٰنِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنْكُمْ اَوْ اٰخَرٰنِ مِنْ غَيْرِكُمْ اِنْ اَنْتُمْ ضَرَبْتُمْ فِي الْاَرْضِ فَاَصَابَتْكُمْ مُّصِيْبَۃُ الْمَوْتِ۝ ٠ۭ تَحْبِسُوْنَہُمَا مِنْۢ بَعْدِ الصَّلٰوۃِ فَيُقْسِمٰنِ بِاللہِ اِنِ ارْتَبْتُمْ لَا نَشْتَرِيْ بِہٖ ثَـمَنًا وَّلَوْ كَانَ ذَا قُرْبٰى۝ ٠ۙ وَلَا نَكْتُمُ شَہَادَۃَ۝ ٠ۙ اللہِ اِنَّآ اِذًا لَّمِنَ الْاٰثِمِيْنَ۝ ١٠٦- شهد - وشَهِدْتُ يقال علی ضربین :- أحدهما - جار مجری العلم، وبلفظه تقام الشّهادة، ويقال : أَشْهَدُ بکذا، ولا يرضی من الشّاهد أن يقول : أعلم، بل يحتاج أن يقول :- أشهد . والثاني يجري مجری القسم،- فيقول : أشهد بالله أنّ زيدا منطلق، فيكون قسما، ومنهم من يقول : إن قال : أشهد، ولم يقل : بالله يكون قسما، - ( ش ھ د ) المشھود والشھادۃ - شھدت کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔- ( 1) علم کی جگہ آتا ہے اور اسی سے شہادت ادا ہوتی ہے مگر اشھد بکذا کی بجائے اگر اعلم کہا جائے تو شہادت قبول ہوگی بلکہ اشھد ہی کہنا ضروری ہے ۔ ( 2) قسم کی جگہ پر آتا ہے چناچہ اشھد باللہ ان زید ا منطلق میں اشھد بمعنی اقسم ہے - بين - بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے - حضر - الحَضَر : خلاف البدو، والحَضَارة والحِضَارَة : السکون بالحضر، کالبداوة والبداوة، ثمّ جعل ذلک اسما لشهادة مکان أو إنسان أو غيره، فقال تعالی: كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ البقرة 180] ، نحو : حَتَّى إِذا جاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ الأنعام 61] ، وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ [ النساء 8]- ( ح ض ر ) الحضر - یہ البدو کی ضد ہے اور الحضارۃ حاد کو فتحہ اور کسرہ دونوں کے ساتھ آتا ہے جیسا کہ بداوۃ وبداوۃ اس کے اصل شہر میں اقامت کے ہیں ۔ پھر کسی جگہ پر یا انسان وگیرہ کے پاس موجود ہونے پر حضارۃ کا لفظ بولاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ البقرة 180] تم پر فرض کیا جاتا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت کا وقت آجائے ۔ وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ [ النساء 8] اور جب تم میراث کی تقسیم کے وقت ۔۔۔ آمو جود ہوں ۔ - - موت - أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة :- فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات - . نحو قوله تعالی:- يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] .- الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا - [ مریم 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] .- الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة .- نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] .- الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة،- وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ- بِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] .- الخامس : المنامُ ،- فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] - ( م و ت ) الموت - یہ حیات کی ضد ہے - لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں - ۔ اول قوت نامیہ - ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔- دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں - ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ - سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے - چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔- چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے - چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی مینٍ مراد ہیں ۔- پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے - اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے - وصی - الوَصِيَّةُ : التّقدّمُ إلى الغیر بما يعمل به مقترنا بوعظ من قولهم : أرض وَاصِيَةٌ: متّصلة النّبات، ويقال : أَوْصَاهُ ووَصَّاهُ. قال تعالی: وَوَصَّى بِها إِبْراهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ [ البقرة 132] وقرئ :- وأَوْصَى - ( و ص ی ) الوصیۃ - : واقعہ پیش آنے سے قبل کسی کو ناصحانہ انداز میں ہدایت کرنے کے ہیں اور یہ ارض واصیۃ کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی پیوستہ گیا ہ یعنی باہم گھتی ہوئی گھاس والی زمین کے ہیں اور اوصاہ ووصا کے معنی کسی کو وصیت کرنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَوَصَّى بِها إِبْراهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ [ البقرة 132] اور ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے بیٹوں کو اس بات کی وصیت کی اور یعقوب (علیہ السلام) نے بھی ۔ ایک قرات میں اوصی ہے ۔ - ذو - ذو علی وجهين : أحدهما : يتوصّل به إلى الوصف بأسماء الأجناس والأنواع، ويضاف إلى الظاهر دون المضمر، ويثنّى ويجمع، ويقال في المؤنّث : ذات، وفي التثنية : ذواتا، وفي الجمع : ذوات، ولا يستعمل شيء منها إلّا مضافا، قال : وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة 251] ، وقال : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم 6] ، وَذِي الْقُرْبى [ البقرة 83] ، وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود 3] ، ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة 177] ، إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ- [ الأنفال 43] ، وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف 18] ، وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال 7] ، وقال : ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن 48] ، وقد استعار أصحاب المعاني الذّات، فجعلوها عبارة عن عين الشیء، جو هرا کان أو عرضا، واستعملوها مفردة ومضافة إلى المضمر بالألف واللام، وأجروها مجری النّفس والخاصّة، فقالوا : ذاته، ونفسه وخاصّته، ولیس ذلک من کلام العرب . - والثاني في لفظ ذو :- لغة لطيّئ، يستعملونه استعمال الذي، ويجعل في الرفع، والنصب والجرّ ، والجمع، والتأنيث علی لفظ واحد نحو : وبئري ذو حفرت وذو طویت - ( ذ و ) ذو ( والا ۔ صاحب )- یہ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے - ( 1) اول یہ کہ اسماء اجناس وانوع کے ساتھ توصیف کے لئے اسے ذریعہ بنایا جاتا ہے ۔ اس صورت میں اسم ضمیر کیطرف مضاف نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ اسم ظاہر کی طرف مضاف ہوتا ہے اور اس کا تنثیہ جمع بھی آتا ہے ۔ اور مونث کے لئے ذات کا صیغہ استعمال ہوتا ہے اس کا تثنیہ ذواتا اور جمع ذوات آتی ہے ۔ اور یہ تمام الفاظ مضاف ہوکر استعمال ہوتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة 251] لیکن خدا اہل عالم پر بڑا مہرابان ہے ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم 6] ( یعنی جبرئیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے ۔ وَذِي الْقُرْبى [ البقرة 83] اور رشتہ داروں ۔ وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود 3] اور ہر ساحب فضل کو اسکی بزرگی ( کی داو ) دیگا ۔ ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة 177] رشتہ داروں اور یتیموں ۔ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال 43] تو دلوں تک کی باتوں سے آگاہ ہے ۔ وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف 18] اور ہم ان کو دائیں اور بائیں کروٹ بدلاتے ہیں ۔ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال 7] اور تم چاہتے تھے کہ جو قافلہ بےشان و شوکت ( یعنی بےہتھیار ) ہے وہ تمہارے ہاتھ آجائے ۔ ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن 48] ان دونوں میں بہت سے شاخیں یعنی قسم قسم کے میووں کے درخت ہیں ۔ علمائے معانی ( منطق وفلسفہ ) ذات کے لفظ کو بطور استعارہ عین شے کے معنی میں استعمال کرتے ہیں اور یہ جو ہر اور عرض دونوں پر بولاجاتا ہے اور پھر کبھی یہ مفرد یعنی بدون اضافت کت استعمال ہوتا ہے ۔ اور کبھی اسم ضمیر کی طرف مضاف ہو کر اور کبھی معرف بلالم ہوکر ۔ اور یہ لفظ بمنزلہ نفس اور خاصہ کے بولا جاتا ہے ۔ اور نفسہ وخاصتہ کی طرح ذاتہ بھی کہاجاتا ہے ۔ مگر یہ عربی زبان کے محاورات سے نہیں ہے - ( 2 ) دوم بنی طیی ذوبمعنی الذی استعمال کرتے ہیں اور یہ رفعی نصبی جری جمع اور تانیث کی صورت میں ایک ہی حالت پر رہتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع ( الوافر ) یعنی کنواں جسے میں نے کھودا اور صاف کیا ہے ۔- عدل - العَدَالَةُ والمُعَادَلَةُ : لفظٌ يقتضي معنی المساواة، ويستعمل باعتبار المضایفة، والعَدْلُ والعِدْلُ يتقاربان، لکن العَدْلُ يستعمل فيما يدرک بالبصیرة كالأحكام، وعلی ذلک قوله : أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة 95] ، والعِدُل والعَدِيلُ فيما يدرک بالحاسّة، کالموزونات والمعدودات والمکيلات، فالعَدْلُ هو التّقسیط علی سواء، وعلی هذا روي : «بالعَدْلِ قامت السّموات والأرض» «5» تنبيها أنه لو کان رکن من الأركان الأربعة في العالم زائدا علی الآخر، أو ناقصا عنه علی مقتضی الحکمة لم يكن العالم منتظما .- والعَدْلُ ضربان :- مطلق : يقتضي العقل حسنه، ولا يكون في شيء من الأزمنة منسوخا، ولا يوصف بالاعتداء بوجه، نحو : الإحسان إلى من أحسن إليك، وكفّ الأذيّة عمّن كفّ أذاه عنك .- وعَدْلٌ يُعرَف كونه عَدْلًا بالشّرع، ويمكن أن يكون منسوخا في بعض الأزمنة، کالقصاص وأروش الجنایات، وأصل مال المرتدّ. ولذلک قال : فَمَنِ اعْتَدى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ [ البقرة 194] ، وقال : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُها [ الشوری 40] ، فسمّي اعتداء وسيئة، وهذا النحو هو المعنيّ بقوله : إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسانِ- [ النحل 90] ، فإنّ العَدْلَ هو المساواة في المکافأة إن خيرا فخیر، وإن شرّا فشرّ ، والإحسان أن يقابل الخیر بأكثر منه، والشرّ بأقلّ منه، ورجلٌ عَدْلٌ: عَادِلٌ ، ورجالٌ عَدْلٌ ، يقال في الواحد والجمع، قال الشاعر : 311-- فهم رضا وهم عَدْلٌ«1» وأصله مصدر کقوله : وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ- [ الطلاق 2] ، أي : عَدَالَةٍ. قال تعالی: وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ [ الشوری 15] ، وقوله : وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّساءِ [ النساء 129] ، فإشارة إلى ما عليه جبلّة النّاس من المیل، فالإنسان لا يقدر علی أن يسوّي بينهنّ في المحبّة، وقوله : فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَواحِدَةً- [ النساء 3] ، فإشارة إلى العَدْلِ الذي هو القسم والنّفقة، وقال : لا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا[ المائدة 8] ، وقوله : أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة 95] ، أي : ما يُعَادِلُ من الصّيام الطّعام، فيقال للغذاء : عَدْلٌ إذا اعتبر فيه معنی المساواة . وقولهم :«لا يقبل منه صرف ولا عَدْلٌ» «2» فالعَدْلُ قيل : هو كناية عن الفریضة، وحقیقته ما تقدّم، والصّرف : النّافلة، وهو الزّيادة علی ذلک فهما کالعَدْلِ والإحسان . ومعنی أنه لا يقبل منه أنه لا يكون له خير يقبل منه، وقوله : بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ [ الأنعام 1] ، أي : يجعلون له عَدِيلًا فصار کقوله : هُمْ بِهِ مُشْرِكُونَ [ النحل 100] ، وقیل : يَعْدِلُونَ بأفعاله عنه وينسبونها إلى غيره، وقیل : يَعْدِلُونَ بعبادتهم عنه تعالی، وقوله : بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ [ النمل 60] ، يصحّ أن يكون من قولهم : عَدَلَ عن الحقّ : إذا جار عُدُولًا، وأيّام مُعْتَدِلَاتٌ: طيّبات لِاعْتِدَالِهَا، وعَادَلَ بين الأمرین : إذا نظر أيّهما أرجح، وعَادَلَ الأمرَ : ارتبک فيه، فلا يميل برأيه إلى أحد طرفيه، وقولهم : ( وضع علی يدي عَدْلٍ ) فمثل مشهور «1» .- ( ع د ل ) العدالۃ والمعادلۃ - کے لفظ میں مساوات کے معنی پائے جاتے ہیں اور معنی اضافی کے اعتبار سے استعمال ہوتا ہے یعنی ایک دوسرے کے ہم وزن اور برابر ہوتا اور عدل عدل کے قریب قریب ایک ہی معنی ہیں لیکن عدل کا لفظ معنوی چیزوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے احکام شرعیہ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : ۔ أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة 95] او عدل ذلک صیاما یا اس کے برابر روزے رکھنا اور عدل وعدیل کے الفاظ ان چیزوں کے لئے بولے جاتے ہیں جن کا اور اک حواس ظاہرہ سے ہوتا ہے جیسے وہ چیزیں جن کا تعلق ماپ تول یا وزن سے ہوتا ہے پس عدل کے معنی دو چیزوں کا برابر ہونا کے ہیں چناچہ اسی معنی میں مروی ہے بالعدل قامت السموت والاارض کہ عدل ہی سے آسمان و زمین قائم ہیں یعنی اگر عناصر اربعہ جن کائنات نے ترکیب پائی ہے میں سے ایک عنصر میں بھی اس کی معینہ مقدار سے کمی یا بیشی ہوجائے تو نظام کائنات قائم نہیں رہ سکتا ،- العدل دو قسم پر ہے - عدل مطلق - جو عقلا مستحن ہوتا ہے یہ نہ تو کسی زمانہ میں منسوخ ہوا ہے اور نہ ہی کسی اعتبار سے تعدی کے ساتھ متصف ہوسکتا ہے مثلا کیسی کے احسان کے بدلہ میں اس پر احسان کرنا اور جو تمہیں تکلف نہ دے اسے ایزا رسانی باز رہنا قغیرہ ۔ - دوم عدل شرعی - جسے شریعت نے عدل کہا ہے اور یہ منسوخ بھی ہوسکتا ہے جیسے قصاص جنایات کی دیت اور مال مرتد کی اصل وغیرہ چناچہ آیات : ۔ فَمَنِ اعْتَدى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ [ البقرة 194] پس اگر کوئی تم پر زیادتی کرے تو جیسی زیادتی وہ تم پر کرے ۔ واپس ہی تم اس پر کرو ۔ وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُها [ الشوری 40] اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے ۔ میں زیادتی اور برائی کی سزا کا کام بھی زیادتی اور برائی ہی قرار دیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسانِ [ النحل 90] خدا تم کو انصاف اور احسان کرنے کا حکم دیتا ہے ۔ میں عدل کے یہی معنی مراد کیونکہ کسی چیز کے برابر اس کا بدلہ دینے کا نام عدل یعنی نیکی کا بدلہ نیکی سے اور برائی کا بدلہ برائی سے اور نیکی کے مقابلہ میں زیادہ نیکی اور شر کے مقابلہ میں مسامحت سے کام لینے کا نام احسان ہے اور لفظ عدل واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے رجل عدل عادل ورجال عدل شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) ( 303 ) فھم رضا وھم عدل وہ راضی رہنے والے اور عدال ہیں ۔ دراصل عدل کا لفظ مصدر ہے چناچہ آیت : ۔ وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ [ الطلاق 2] اور اپنے میں سے دو منصب مردوں کو گواہ بنالو میں عدل کے معنی عدالہ ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ [ الشوری 15] اور مجھے حکم ہوا کہ تم میں انصاف کروں لا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا[ المائدة 8] اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر امادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو ۔ انصاف کیا کرو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّساءِ [ النساء 129] اور تم خواہ کتنا ہی چاہو عورتوں میں ہر گز برابری نہیں کرسکو گے ۔ میں انسان کے طبعی میلان کی طرف اشارہ ہے کہ تمام بیویوں سے برابر وجہ کی محبت اس کی قدرت سے باہر ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَواحِدَةً [ النساء 3] اگر اس بات کا اندیشہ ہو کہ سب عورتوں سے یکساں سلوک نہ کرسکو گے تو ایک عورت کانی ہے ۔ میں عدل سے نان ونفقہ اور ازواجی تعلقات میں برابر ی مرادی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة 95] اس کے برابر روزے رکھنا ۔ میں عدل سے مراد یہ ہے کہ وہ روزے طعام سے فدیہ کے برابر ہوں کیونکہ فدیہ میں مساوت کے معنی ملحوظ ہوں تو اسے بھی عدل کہہ دیا جاتا ہے اور ( 33 ) لایقبل منہ صرف ولا عدل میں بعض نے کہا ہے کہ عدل کا لفظ فریضہ سے کنایہ ہے مگر اس کے اصل معنی وہی ہیں جو ہم بیان کرچکے ہیں اور صرف کا لفظ نافلۃ سے اور یہ اصل فرض سے بڑھ کر کام کرنے کا نام ہے لہذا یہ باہم تقابل کے اعتبار سے عدل اور احسان کے ہم مثل ہیں اور لایقبل منہ کے معنی یہ ہیں کہ اسکے پاس کسی قسم کی نیکی ہوگی جو قبول کی جائے اور یہ آیت : ۔ بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ [ الأنعام 1] کے معنی یہ ہیں کہ وہ دوسروں کو خدا کی مثل اور نظیر قرار دیتے ہیں ۔ لہذا یہ آیت : ۔ هُمْ بِهِ مُشْرِكُونَ [ النحل 100] کے ہم معنی ہوگی بعض نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ وہ افعال الہیہ کو دوسروں کی طرف منسوب کرتے ہیں بعض نے اللہ تعالیٰ کی عبادت سے عدول کرنا مراد لیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ [ النمل 60] بلکہ یہ لوگ رستے سے الگ ہورہے ہیں ۔ بھی اسی معنی پر محمول ہوسکتی ہے یعنی اس کے معنی یعدلون بہ کے ہیں ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ عدل عن الحق سے مشتق ہو جس کے معنی حق سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ ایام معتد لات معتدل زمانہ یعنی جب رات دن برابر ہوتے ہیں ۔ عادل بین الامرین اس نے دو چیزوں کے درمیان موازنہ کیا عادل الامر کسی معاملہ میں پھنس گیا اور کسی ایک جانب فیصلہ نہ کرسکا اور جب کسی شخص کی زندگی سے مایوسی ہوجائے تو اس کے متعلق کہا جاتا ہے : ۔ یعنی اب وہ زندہ نہیں رہ سکتا ۔- غير - أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] ،- ( غ ی ر ) غیر - اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے - ضَّرْبُ ( چلنا)- والضَّرْبُ في الأَرْضِ : الذّهاب فيها وضَرْبُهَا بالأرجلِ. قال تعالی: وَإِذا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ [ النساء 101] ، وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ إِذا ضَرَبُوا فِي الْأَرْضِ [ آل عمران 156] ، وقال : لا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْباً فِي الْأَرْضِ [ البقرة 273]- ضرب فی الارض کے معنی سفر کرنے کے ہیں ۔ کیونکہ انسان پیدل چلتے وقت زمین پر پاؤں رکھتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَإِذا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ [ النساء 101] اور جب سفر کو جاؤ ۔ وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ إِذا ضَرَبُوا فِي الْأَرْضِ [ آل عمران 156] اور ان کے مسلمان بھائی جب خدا کی راہ میں سفر کریں ۔۔۔۔ تو ان کی نسبت کہتے ہیں ۔ لا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْباً فِي الْأَرْضِ [ البقرة 273] اور ملک میں کسی طرف جانے کی طاقت نہیں رکھتے ۔ اور یہی معنی آیت : فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيقاً فِي الْبَحْرِ [ طه 77] کے ہیں یعنی انہیں سمندر میں ( خشک راستے سے لے جاؤ ۔- ( صاب) مُصِيبَةُ- والمُصِيبَةُ أصلها في الرّمية، ثم اختصّت بالنّائبة نحو : أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران 165] ، فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌالنساء 62] ، وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 166] ، وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری 30] ، وأصاب : جاء في الخیر والشّرّ. - مصیبۃ اصل میں تو اس تیر کو کہتے ہیں جو ٹھیک نشانہ پر جا کر بیٹھ جائے اس کے بعد عرف میں ہر حادثہ اور واقعہ کے ساتھ یہ لفظ مخصوص ہوگیا ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران 165]( بھلا یہ ) کیا بات ہے کہ ) جب ( احد کے دن کفار کے ہاتھ سے ) تم پر مصیبت واقع ہوئی حالانکہ ( جنگ بدر میں ) اس سے دو چند مصیبت تمہارے ہاتھ سے انہیں پہنچ چکی تھی ۔ فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ [ النساء 62] تو کیسی ( ندامت کی بات ہے کہ جب ان پر کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے ۔ وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 166] اور جو مصیبت تم پر دونوں جماعتوں کے مابین مقابلہ کے دن واقع ہوئی ۔ وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری 30] اور جو مصیبت تم پر واقع ہوتی ہے سو تمہارے اپنے اعمال سے ۔ اور اصاب ( افعال ) کا لفظ خیرو شر دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ - صلا - أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] - والصَّلاةُ ،- قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] - وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق :- تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة 157] ، - ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار،- كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة،- أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103]- ( ص ل ی ) الصلیٰ- ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ - الصلوۃ - بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، - جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔- اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں - چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔- قْسَمَ ( حلف)- حلف، وأصله من الْقَسَامَةُ ، وهي أيمان تُقْسَمُ علی أولیاء المقتول، ثم صار اسما لكلّ حلف . قال : وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ الأنعام 109] ، أَهؤُلاءِ الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ [ الأعراف 49] ، وقال : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ وَلا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ [ القیامة 1- 2] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج 40] ، إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّها مُصْبِحِينَ [ القلم 17] ، فَيُقْسِمانِ بِاللَّهِ [ المائدة 106]- اقسم - ( افعال کے معنی حلف اٹھانے کے ہیں یہ دروصل قسامۃ سے مشتق ہے اور قسیا مۃ ان قسموں کو کہا جاتا ہے جو او لیائے مقتول پر تقسیم کی جاتی ہیں پھر مطلق کے معنی استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ الأنعام 109] اور یہ خدا کی سخت سخت قسمیں کھاتے ہیں ۔ - أَهؤُلاءِ الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ [ الأعراف 49] کیا یہ وہی لوگ ہیں جن کے مارے میں تم قسمیں کھایا کرتی تھے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ وَلا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ [ القیامة 1- 2] ہم کو روز قیامت کی قسم اور نفس لوامہ کی ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج 40] ہمیں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم ۔ إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّها مُصْبِحِينَ [ القلم 17] جب انہوں نے قسمیں کھا کھا کر کہا کہ ہم صبح ہوتے اس کا میوہ توڑلیں گے ۔ فَيُقْسِمانِ بِاللَّهِ [ المائدة 106] اور دونوں خدا کی قسمیں کھائیں ۔ ماسمعتہ وتقاسما باہم قسمیں اٹھانا ۔ قرآن میں ہے : وَقاسَمَهُما إِنِّي لَكُما لَمِنَ النَّاصِحِينَ [ الأعراف 21] اور ان کی قسم کھاکر کہا کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں ۔ - ارْتِيابُ- والارْتِيابُ يجري مجری الْإِرَابَةِ ، قال : أَمِ ارْتابُوا أَمْ يَخافُونَ [ النور 50] ، وَتَرَبَّصْتُمْ وَارْتَبْتُمْ [ الحدید 14] ، ونفی من المؤمنین الِارْتِيَابَ فقال : وَلا يَرْتابَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتابَ وَالْمُؤْمِنُونَ [ المدثر 31] ، - اور ارتیاب ( افتعال ) ارابہ کے ہم معنی ہے جس کے معنی شک و شبہ میں پڑنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ؛َ أَمِ ارْتابُوا أَمْ يَخافُونَ [ النور 50] یا شک میں پڑے ہوئے ہیں ۔ اور اس بات سے ڈرتے ہیں ۔ وَتَرَبَّصْتُمْ وَارْتَبْتُمْ [ الحدید 14] اور اس بات کے منتظر رہے ( کہ مسلمانوں پر کوئی آفت نازل ہو ) اور ( اسلام کی طرف سے ) شک میں پڑے رہے ۔ اور مؤمنین سے ارتیاب کی نفی کرتے ہوئے فرمایا ولا يَرْتابَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتابَ وَالْمُؤْمِنُونَ [ المدثر 31] اور اہل کتاب اور مسلمان ( ان باتوں میں کسی طرح کا ) شک و شبہ نہ لائیں - شری - الشِّرَاءُ والبیع يتلازمان، فَالْمُشْتَرِي دافع الثّمن، وآخذ المثمن، والبائع دافع المثمن، وآخذ الثّمن . هذا إذا کانت المبایعة والْمُشَارَاةُ بناضّ وسلعة، فأمّا إذا کانت بيع سلعة بسلعة صحّ أن يتصور کلّ واحد منهما مُشْتَرِياً وبائعا، ومن هذا الوجه صار لفظ البیع والشّراء يستعمل کلّ واحد منهما في موضع الآخر . وشَرَيْتُ بمعنی بعت أكثر، وابتعت بمعنی اشْتَرَيْتُ أكثر، قال اللہ تعالی: وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف 20] ، أي : باعوه،- ( ش ر ی ) شراء - اور بیع دونوں لازم ملزوم ہیں ۔ کیونکہ مشتری کے معنی قیمت دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لینے والے کے ہیں ۔ اور بائع اسے کہتے ہیں جو چیز دے کہ قیمت لے اور یہ اس وقت کہا جاتا ہے جب ایک طرف سے نقدی اور دوسری طرف سے سامان ہو لیکن جب خریدو فروخت جنس کے عوض جنس ہو ۔ تو دونوں میں سے ہر ایک کو بائع اور مشتری تصور کرسکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بیع اور شراء کے الفاظ ایک دوسرے کی جگہ استعمال ہوتے ہیں اور عام طور پر شربت بمعنی بعت اور ابتعت بمعنی اشتریت آتا ہے قرآن میں ہے ۔ وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف 20] اور اس کو تھوڑی سی قیمت پر بیچ ڈالا ۔- ثمن - قوله تعالی: وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف 20] . الثَّمَنُ : اسم لما يأخذه البائع في مقابلة البیع، عينا کان أو سلعة . وکل ما يحصل عوضا عن شيء فهو ثمنه . قال تعالی:- إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمانِهِمْ ثَمَناً قَلِيلًا [ آل عمران 77] ،- ( ث م ن ) الثمن - اصل میں ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو فروخت کرنے والا اپنی چیز کے عوض خریدار سے وصول کرتا ہے خواہ وہ زر نقد ہو یا سامان ۔ قرآن میں ہے :۔ وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف 20] اور اسے تھوڑی سی قیمت یعنی چند درہموں پر بیچ ڈالا ۔ - قربی - وفي النّسبة نحو : وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى[ النساء 8] ، وقال : الْوالِدانِ وَالْأَقْرَبُونَ [ النساء 7] ، وقال : وَلَوْ كانَ ذا قُرْبى [ فاطر 18] ، وَلِذِي الْقُرْبى [ الأنفال 41] ، وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى [ النساء 36] ، يَتِيماً ذا مَقْرَبَةٍ [ البلد 15]- اور قرب نسبی کے متعلق فرمایا : وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى[ النساء 8] اور جب میراث کی تقسیم کے وقت ( غیر وارث ) رشتے دار آجائیں ۔ الْوالِدانِ وَالْأَقْرَبُونَ [ النساء 7] ماں باپ اور رشتے دار ۔ وَلَوْ كانَ ذا قُرْبى [ فاطر 18] گوہ وہ تمہاری رشتے دار ہو ۔ وَلِذِي الْقُرْبى [ الأنفال 41] اور اہل قرابت کا ۔ وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى [ النساء 36] اور رشتے در ہمسایوں يَتِيماً ذا مَقْرَبَةٍ [ البلد 15] یتیم رشتے دار کو اور قرب بمعنی کے اعتبار سے کسی کے قریب ہونا - كتم - الْكِتْمَانُ : ستر الحدیث، يقال : كَتَمْتُهُ كَتْماً وكِتْمَاناً. قال تعالی: وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهادَةً عِنْدَهُ مِنَ اللَّهِ [ البقرة 140] ، - ( ک ت م ) کتمہ ( ن ) کتما وکتما نا کے معنی کوئی بات چھپانا کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهادَةً عِنْدَهُ مِنَ اللَّهِ [ البقرة 140] اور اس سے بڑھ کر ظالم کون جو خدا کی شہادت کو جو اس کے پاس کتاب اللہ میں موجود ہے چھپائے - إثم - الإثم والأثام : اسم للأفعال المبطئة عن الثواب وجمعه آثام، ولتضمنه لمعنی البطء قال الشاعرجماليّةٍ تغتلي بالرّادفإذا کذّب الآثمات الهجير وقوله تعالی: فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنافِعُ لِلنَّاسِ [ البقرة 219] أي : في تناولهما إبطاء عن الخیرات .- ( ا ث م ) الاثم والاثام ۔ وہ اعمال وافعال جو ثواب سے روکتے اور پیچھے رکھنے والے ہوں اس کی جمع آثام آتی ہے چونکہ اس لفظ میں تاخیر اور بطء ( دیرلگانا ) کا مفہوم پایا جاتا ہے اس لئے شاعر نے اونٹنی کے متعلق کہا ہے ۔ ( المتقارب ) (6) جمالیۃ تغتلی بالرادف اذا کذب الآثمات الھجیرا وہ اونٹ کی طرح مضبوط ہے جب سست رفتار اونٹنیاں دوپہر کے وقت چلنے سے عاجز ہوجاتی ہیں تو یہ ردیف کو لے کر تیز رفتاری کے ساتھ چلتی ہے اور آیت کریمہ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ ( سورة البقرة 219) میں خمر اور میسر میں اثم کبیر کے یہ معنی ہیں کہ ان کا تناول ( اور ارتکاب ) انسان کو ہر قسم کے افعال خیر سے روک لیتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

سفر کے اندر وصیت پر گواہی قائم کرنے کا بیان - قول باری ہے (یایھا الذین امنوا شھادۃ بینکم، اے ایمان لانے والو تمہارے درمیان شادت کا نصاب یہ ہے) اس آیت میں شہادت یعنی گواہی کے متعلق اختلاف رائے ہے۔ کچھ لوگوں کا قول ہے کہ ا س سے مراد سفر کے اندر وصیت پر گواہی قائم کرنا ہے ۔ اس بنا پر انہوں نے سفر کے اندر مسلمان کی وصیت پر اہل ذمہ کی گواہی کو جائز قرار دیا ہے۔- شعبی نے ابو موسیٰ سے روایت کی ہے کہ ایک مسلمان دقوقا کے مقام پر وفات پا گیا۔ جب موت کا وقت آگیا تو اسے اپنی وصیت پر گواہ بنانے کے لئے کوئی مسلمان نہیں ملا۔ اس نے دو اہل کتاب کو گواہ بنا لیا۔- حضرت ابو موسیٰ نے ان دونوں سے عصر کے بعد حلفاً یہ بیان لیا کہ نہ انہوں نے کذب بیانی کی۔ نہ بددیانتی کی، نہ کوئی رد و بدل کیا، نہ کوئی بات چھپائی اور نہ ہی کوئی ہیرا پھیری کی۔ نیز یہ کہ یہ اس شخص کی وصیت ہے اور یہ اس ترکہ ہے جب ان دونوں نے حلفاً یہ بیان دے دیا تو حضرت ابو موسیٰ نے ان کی گواہی تسلیم کرلی اور فرمایا :” یہ ایسی بات ہے جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں ایک دفعہ پیش آنے کے بعد ابھی تک پیش نہیں آئی تھی۔ “- کچھ دوسرے حضرات کا قول ہے کہ (شھادۃ بینکم) سے ان دونوں شخصوں کا حاضر ہونا مراد ہے جنہیں گواہی دینے کی وصیت کی گئی تھی۔ آپ کہتے ہیں ” شھدتہ “ اس کے معنی ہیں ” میں اس کے پاس حاضر ہوا۔” چند حضرات کا قول ہے کہ یہاں شہادت سے مراد یہ ہے کہ جب ورثاء کو ان دونوں گواہوں کے متعلق شبہ پید اہو جائے اس وقت وصیت کے بارے میں اللہ کی قسمیں کھائی جائیں۔ یعنی شہادت سے گواہی مراد نہیں بلکہ قسمیں مراد ہیں۔- مجاہد کا یہی قول ہے حضرت ابو موسیٰ نے یہ مسلک اختیار کیا ہے کہ آیت میں مذکورہ شہادت سے مراد وہ گواہی ہے جو وصیت پر دی جائے اور جس کے ذریعے حکام کے نزدیک وصیت ثابت ہوجائے۔ نیز یہ کہ یہ حکم ثابت ہے منسوخ نہیں ہے۔ شریح سے بھی اسی قسم کی روایت ہے، سفیا ن ثوری، ابن ابی لیلی اور اوزاعی کا بھی یہی قول ہے۔ حضرت ابن عباس، سعید بن المسیب، سعید بن جبیر، ابن سیرین، عبیدہ، قاضی شریح اور شعبی سے قول باری (اواخران من غیر کم ، یا تمہارے غیروں میں سے دو گواہ) کے متعلق مروی ہے کہ ” غیر مسلموں میں سے دو گواہ “ حسن اور زہری سے مروی ہے کہ ” تمہارے غیر قبیلے میں سے دو گواہ۔ “- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جن حضرات نے شہادت سے قسم مراد لی ہے۔ گواہی مراد نہیں لی ہے جو حکام کے سامنے پیش کی جائے تو ان کا یہ قول زیادہ پسندیدہ نہیں ہے اگرچہ قسم کو بھی کبھی گواہی کے نام سے موسوم کردیا جاتا ہے۔ مثلاً یہ قول باری ہے (فشھادۃ احدھم اربع شھادات باللہ ، تو ان میں سے ایک کی گواہی چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر گواہی دینا ہے۔ )- ہمارے درج بالا قول کی یہ ہے کہ شہادت کا جب علی الاطلاق ذکر ہوتا ہے تو اس سے متعارف گواہی مراد ہوتی ہے جس طرح درج ذیل آیات سے ظاہر ہے۔ ارشاد باری ہے (واقیموا الشھادۃ للہ، اللہ کے لئے گواہی قائم کرو) نیز فرمایا (واستشھا واشھیدین من رجالکم) اپنے مردوں میں سے دو گواہ بنا لو۔ )- نیز ارشاد ہوا (ولا یاب الشھداء اذا مادعوا ، جب گواہوں کو بلایا جائے تو وہ انکار نہ کریں ) نیز فرمایا (واشھدوا ذوی عدل منکم، اپنے دو عادل آدمیوں کو گواہ بنا لو) ان تمام آیات سے حقوق پر گواہی کا مفہوم سمجھ میں آتا ہے۔ قسموں کا مفہوم سمجھ میں نہیں آتا۔- اسی طرح یہ قول باری ہے (شھادۃ بینکم) اس سے بھی متعارف گواہی کا مفہوم سمجھ میں آتا ہے۔ اس پر یہ قول باری دلالت کرتا ہے (اذا حضر احدکم الموت، جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آ جائے) یہ مراد لینا بہت بعید ہے کہ جب موت کا وقت آ جائے تو تمہارے درمیان قسمیں یہ ہیں … اس لئے کہت کی حالت میں قس اٹھانے کی گنجائش نہیں ہوتی۔- پھر یہ فرما کر اس بات کی اور وضاحت کردی (اثنان ذواعدل منکم اوخران من غیرکم) تم میں سے دو عادل آدمی یا غیر مسلموں میں سے دو آدمی) یعنی … واللہ اعلم …… جب تم میں سے دو عادل آدمی نہ میسر ہوں جبکہ یہ بات واضح ہے کہ دو عادل کی موجودگی اور عدم موجودگی سے قسم کے حکم میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔- قول باری (ولا نکتم شھادۃ اللہ ، نہ خدا واسطے کی گواہی کو ہم چھپانے والے ہیں) بھی اس پر دلالت کرتا ہے اس لئے کہ قسم تو موجود اور ظاہر ہے ، پوشیدہ نہیں ہے پھر میت کے مال کے بارے میں ان دونوں شخصوں کے اختلاف کے بعد جنہیں گواہی کی وصیت کی گئیھی۔ ورثاء کی قسم کا ذکر فرمایا۔ وہ گواہی جو حقیقت میں قسم ہے اس کا ذکر اس قول باری میں کیا گیا ہے (لشھادتنا احق من شھادتھما ہماری شہادت ان کی شہادت سے زیادہ برحق ہے۔ )- پھر فرمایا (ذلک ادنیٰ ان یا توا بالشھادۃ علی وجھھا اس طریقے سے زیادہ توقع کی جاسکتی ہے کہ ٹھیک ٹھیک گواہی دیں گے) یعنی وصیت پر ٹھیک ٹھیک گواہی۔ کیونکہ یہ کنا نا مناسب ہوگا کہ ٹھیک ٹھیک قسمیں کھائو۔- قول باری (اویخافو ا ان ترد ایمان بعد ایمانھم، یا کم از کم اس بات کا خوف کریں گے کہ ان کی قسموں کے بعد دوسری قسموں سے کہیں ان کی تردید نہ ہوجائے بھی اس پر دلالت کرتا ہے کہ پہلے جس چیز کا ذکر ہوا ہے وہ گواہی ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے گواہی اور قسم دونوںں کا ذکر ان کے حقیقی الفاظ کے تحت کیا ہے۔- جن لوگوں نے قول باری (او اخران من غیر کم) کی یہ تاویل کی ہ کہ دو آدمی تمہارے غیر قبیلے کے ہوں، ان کی یہ تاویل بےمعنی ہے۔ اس لئے کہ آیت کی دلالت اس کے خلاف ہے کیونکہ ان سے لفظ ایمان کے ساتھ خطاب کیا گیا ہے اس میں قبیلہ کا ذکر نہیں ہے جیسا کہ ارشاد ہے (یایھا الذین امنوا شھادۃ بینکم) پھر فرمایا (اواخران من غیرکم) یغنی غیر مسلم اس دوران قبیلہ کا کوئی ذکر نہیں آیا جس کی بنا پر کنایہ اس ذکر کی طرف راجع ہو سکے۔ یہ بات تو واضح ہے کہ کنایہ یا تو کسی ایسے لفظ کی طرف راجع ہوتا ہے۔ جو ظاہراً مذکور ہو یا دلالت حال کی بنا پر معلوم ہو۔- جب یہاں کوئی دلالت حال بھی نہیں ہے جس کی طرف کنایہ راجع ہوجائے تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ کنایہ اہل ایمان کی طرف راجع ہے جن کا ذکر خطاب کے اندر پہلے ہوچکا ہے اور یہ بات دسرت ہوگئی کہ غیر سے مراد غیر مسلم ہیں۔ اس طرح آیت سفر کے اندر مسلمان کی وصیت پر اہل ذمہ کی گواہی کے جواز کی مقتضی ہوگئی۔- آیت زیر بحث کی تاویل میں حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت ابو مسویٰ ، قاضی شریح، عکرمہ اور قتادہ سے مختلف روایات منقول ہیں۔ آیت کے مفہوم کی مناسب روایت وہ ہے جو ہمیں محمد بن بکر نے بیان کی، انہیں ابو دائود نے ، انہیں حسن بن علی نے، انہیں یحییٰ بن آدم نے ، انہیں ابن ابی زائدہ نے محمد بن ابی القاسم سے انہوں نے عبدالملک بن سعید بن جبیر سے، انہوں نے اپنے والد سعید بن جبیر سے، انہوں نے حضرت ابن عباس سے ، انہوں نے فرمایا کہ - بنو سہم کا ایک شخص تمیم الداری اور عدی بن بدا کے ساتھ سفر پر نکلا۔ اس شخص کی وفات ایسی سر زمین میں ہوئی جہاں کوئی مسلمان نہیں رہتا تھا، جب یہ دونوں اس مرحوم کا ترکہ لے کر مدینہ پہنچے تو اس کے سامان میں چاندی کا ایک پیالہ جس پر سونے کے پترے چڑھے ہوئے تھے۔ گم پایا گیا۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دونوں قسم لی، پھ ریہی پیالہ مکہ میں موجود پای اگیا۔ اور جن لوگوں کے پاس یہ تھا انہوں نے کہا کہ ہم نے یہ پیالہ تمیم اور عدی سے خریدا تھا۔ اس مرحوم سہمی کے رشتہ داروں میں سے دو آدمیوں نے قسم کھا کر کہا کہ ہماری گواہی ان کی گواہی سے زیادہ برحق ہے اور یہ کہ پیالہ ان کے مرحوم رشتہ دار کا ہے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ اس موقع پر ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔- پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمیم اور عدیے نئے سرے سے حلف اٹھوایا اس لئے کہ میت کے ورثاء نے ان دونوں پر پیالہ دبا لینے کی تہمت لگائی تھی۔ پھر جب ان دونوں نے یہ دعویٰ کیا کہ انہوں نے یہ پیالہ میت سے خرید لیا تھا تو آپ نے ورثاء سے حلف اٹھوایا اور ان کے حلف پر فیصلہ سنا دیا کہ میت نے یہ پیالہ فروخت نہیں کیا تھا۔ چناچہ انہوں نے یہ پیالہ اپنے قبضے میں کرلیا۔- ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابو موسیٰ نے سفر میں مسلمان کی وصیت پر دو ذمیوں کی گواہی قبول کرلینے کے متعلق جو کچھ کہا تھا نیز یہ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زمانے سے لے کر آج تک ایسا نہیں ہوا تھا اس کا تعلق شاید اسی واقعہ کے ساتھ تھا جو حضرت ابن عباس کی اس روایت میں مذکور ہے۔ عکرمہ نے بھی تمیم الداری کے واقعہ کے متعلق حضرت ابن عباس کی روایت سے ملتی جلتی روایت کا ذکر کیا ہے۔ - سفر کے اندر مسلمان کی وصیت پر اہل ذمہ کی گواہی کے جواز کا حکم باقی ہے یا منسوخ ہوچکا ہے اس بارے میں اختلاف رائے ہے۔ حضرت ابو موسیٰ اور شریح کے قول کے مطابق یہ حکم ثابت ہے۔ منسوخ نہیں ہوا۔ حضرت ابن عباس اور وہ حضرات جن کے نزدیک قول باری (اوخران من غیر کم) سے مراد غیر مسلم ہیں۔- ان سب کا قول اس پر دلالت کرتا ہے کہ انہوں نے آیت کی تاویل سفر میں مسلمان کی وصیت پر اہل ذمہ کی گواہی کی کے جواز پر کی ہے۔ لیکن ان حضرات سے اس حکم کے بقایا منسوخت کے بارے میں کوئی روایت محفوظ نہیں ہے۔- زید بن اسلم سے قول باری (شھادۃ بینکم) کی تفسیر میں منقول ہے کہ یہ آیت اس شخص کے بارے میں تھی جس کی وفات کے وقت اس کے پاس کوئی مسلمان شخص موجود نہ ہوتا۔ یہ صورتحال اسلام کے ابتدائی زمانے میں پیش آتی تھی جبکہ ساری زمین دارالحرب تھی اور تمام لوگ کافر ہوتے۔ - لیکن چونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ منورہ میں تھے اس لئے لوگ مدینہ کے اندر وصیت کے ذریعے ایک دوسرے کے وارث بن جاتے تھے پھر وصیت کا حکم منسوخ ہوگیا اور ورثاء کے لئے فرائض یعنی حصے مقرر کردیئے گئے اور اس کے بعد مسلمانوں کا اسی پر عمل رہا۔- ابراہیم نخعی سے مروی ہے کہ یہ آیت منسوخ ہوچکی ہے اسے قول باری (واشھد و اذوی غدل منکم) نے منسوخ کردیا ہے۔ حضرت ضمرہ بن جندب اور عطیہ بن قیس سے مروی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے۔- (المائدۃ من آخرا لقران تزولا فاحلوا حلالھا و حرمواحرامھا سورة مائدہ کا نزول سب سے آخر میں ہوا ہے اس لئے اس میں حلال کردہ چیزوں کو حلال اور حرام کردہ چیزوں کو حرام سمجھو)- جبیربن نفیر نے حضرت عائشہ سے روایت کی ہے کہ ” قرآن کی آخری صورت جو نازل ہوئی وہ سورة مائدہ ہے اس میں جو اشیاء تمہیں حلال ملیں انہیں حلال جانور جو حرام ملیں انہیں حرام سمجھو۔ “- ابو اسحاق نے ابو میسرہ سے روایت کی ہے کہ ” سورة مائدہ میں اٹھارہ فرائض ہیں اور کوئی فریضہ بھی منسوخ نہیں ہے۔ “ حسن کا قول ہے کہ سورة مائدہ کا کوئی حکم منسوخ نہیں ہوا۔ اس طرح ان حضرات کا مسلک یہ ہے کہ آیت زیر بحث کا حکم منسوخ نہیں ہوا۔- آیت جس امر کی مقتضی ہے وہ یہ ہے کہ سفر کے اندر مسلمان کی وصیت پر اہل ذمہ کی گواہی جائز ہے خواہ وصیت کسی خرید و فروخت کے بارے میں ہو یا کسی قرض کے اقرار کی صورت میں ہو یا کسی چیز کی وصیت یا ہبہ یا صدقہ کی شکل میں ہو۔ یہ تمام چیزیں لفظ وصیت کے تحت آ جاتی ہیں جب بیماری کے اندر کوئی شخص ان میں سے کسی چیز کے متعلق کوئی قدم اٹھا لے۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے وصیت کے وقت اہل ذمہ میں سے دو آدمیوں کی گواہی کو جائز قرار دیا ہے تو اس نے اس جواز کے ساتھ صرف وصیت کی صورت کی تخصیص نہیں کی کہ درج بالا دوسری صورتیں اس سے خارج ہوجائیں۔ اس لئے کہ وصیت کے وقت جو بات کہی جائے گی وہ بعض دفعہ قرض کے اقرار کی صورت میں ہوسکتی ہے یا مال کی شکل میں خواہ وہ مال عین ہو یا غیر عین یعنی خواہ وہ مکیل و موزون کے تحت آنے والی چیز ہو یا نہ ہو۔ آیت نے ان صورتوں میں سے کسی صورت کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا۔- ایک روایت یہ بھی ہے کہ دین کی آیت قرآن کے اندر سب سے آخر میں نازل ہوئی اگرچہ کچھ لوگوں کا قول ہے کہ سورة مائدہ سب سے آخر میں نازل ہوئی تھی۔ لیکن اس میں کوئی امتناع نہیں کہ جن حضرات نے یہ کہا کہ سورة مائدہ سب سے آخر میں نازل ہوئی ان کی اس سے وہ سورت مراد ہو جو فی الجملہ سب سے آخر میں نازل ہوئی ، یہ مراد نہ ہو کہ اس کی ہر آیت سب سے آخر میں نازل ہوئی ہے۔- اگر یہ بات درست ہے تو پھر آیت دین نے لا محالہ سفر میں مسلمان کی وصیت پر اہل ذمہ کی گواہی کے جواز کو منسوخ کردیا ہے کیونکہ قول باری ہے (اذا تداینتم بدین الی اجل مسمی) تا قول باری (واستشھدوا شھیدین من رجالکم) اس سے لامحالہ مسلمان مراد ہیں اس لئے کہ آیت میں ان سے ہی خطاب کیا گیا ہے اور اس کے لئے ایمان کا اسم استعمال کیا گیا ہے۔- آیت میں وصیت کی حالت کی تخصیص نہیں کی گئی ہے کہ باقی ماندہ حالتیں اس سے خارج سمجھی جائیں اس لئے آیت تمام صورتوں کے لئے عام ہے۔ پھر فرمایا (ممن ترضون من اشھداء ) اور ظاہر ہے کہ مسلمانوں پر گواہی دینے کے لئے اہل کفر کبھی پسندیدہ نہیں قرار دیئے جاسکتے۔ اس طرح آیت دین سفر نیز حضر اور وصیت وغیروصیت میں مسلمانوں کی وصیت پر اہل ذمہ کی گواہی کے جواز کی منسوخیت کو متضمن ہے جبکہ آیت زیر بحث مسلمان کی وصیت پر اہل ذمہ کی گواہی کے جواز پر مشتمل ہے۔- پھر یہ جس طرح حالت سفر میں مسلمان کی وصیت پر اہل ذمہ کی گواہی کے جواز پر دلال ہے اسی طرح یہ ذمی کی وصیت پر اہل ذمہ کی گواہی کے جواز پر بھی دال ہے۔ پھر آیت دین کی وجہ سے پہلی بات منسوخ ہوگئی یعنی مسلمان کی وصیت پر اہل ذمہ کی گواہی کا جواز منسوخ ہوگیا لیکن دوسری صورت باقی رہ گئی یعنی سفر یا غیر سفر کی حالت میں ذمی کی وصیت پر اہل ذمہ کی گواہی درست ہے۔- اس لئے کہ گواہیوں کے حکم کے لحاظ سے سفر اور حضر دونوں حالتیں یکساں ہوتی ہیں۔ اسی طرح میت کی وصیت کے سلسلے میں اگر دو افراد کو گواہی دینے کی وصیت کی گئی ہو تو ان کی گواہی کے جواز پر بھی آیت کا حکم باقی ہے۔ اس لئے کہ آیت کے نزول کے پس منظر اور تفسیر میں جو واقعہ بیان کیا گیا ہے اس میں یہ ہے کہ مرنے والے نے اپنے دونوں ہمسفروں کو گواہی دینے کی وصیت کی تھی اور ان دونوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے میت کی وصیت کے سلسلے میں گواہی بھی دی تھی۔- آیت اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ جس شخص کو گواہی دینے کی وصیت کی گئی ہو اس کے ہاتھ میں میت کی جو چیز ہو اس چیز کے متعلق اس گواہی دینے والے کا قول تسلیم کیا جائے گا البتہ اس سے قسم بھی لی جائے گی اس لئے کہ متعلقہ واقعہ میں ان دونوں افراد سے اس سلسلے میں حلف لیا گیا تھا۔- نیز آیت کی اس پر بھی دلالت ہے کہ ان دونوں کا یہ دعویٰ کہ انہوں نے میت سے کوئی چیز خرید لی تھی ثبوت اور گواہی کے بغیر قابل قبول نہ ہوگا۔ نیز یہ کہ اس سلسلے میں اگر ورثاء قسم کھا کر یہ بیان دے دیں کہ میت نے ان کے ہاتھوں کوئی چیز فروخت نہیں کی ہے تو ان کی یہ بات تسلیم کرلی جائے گی۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٠٦) حضر ہو یا سفر مرنے والے کی وصیت کے وقت تم میں سے دو آدمیوں کا وصی ہونا جو کہ آزاد ہوں اور تمہاری قوم میں سے ہوں یا غیر دین یا تمہاری قوم کے علاوہ ہوں یا مقیم نہ ہوں، بلکہ کہیں سفر میں ہوں۔- یہ آیت تین اشخاص کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو شام کی طرف سامان تجارت لے کر جارہے تھے ان میں سے ایک بدیل بن ابی ماریہ مولی عمرو بن العاص مسلمان تھے، ان کا انتقال ہوگیا، انہوں نے اپنے ساتھیوں عدی بن بداء اور تمیم بن اوس جو کہ نصرانی تھے، اپنے انتقال کے وقت وصیت کی، مگر ان دونوں نے وصیت میں خیانت کی تو اللہ تعالیٰ میت کے وارثوں سے فرماتے ہیں کہ ان دونوں نصرانیوں کو عصر کی نماز کے بعد روک لو اور ان سے قسم لو، اگر تمہیں اس بات میں شک ہو کہ جتنا میت کا مال انہوں نے پہنچایا ہے مال اس سے زیادہ تھا۔- اور وہ دونوں یہ کہیں کہ ہم اس قسم کے عوض کوئی دنیاوی نفع نہیں لینا چاہتے، اگرچہ مرنے والا ہمارا قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوتا، اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے جس بات کی باز پرس پر گواہی دینے کا ہمیں حکم ہوا ہے ہم اس کو پوشیدہ رکھیں گے تو ہم گناہگار ہوں گے۔- شان نزول : (آیت) ” یایہا الذین امنو ا شہادۃ “۔ (الخ)- امام ترمذی (رح) وغیرہ نے بواسطہ ابن عباس (رض) تمیم داری سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے، میرے علاوہ اور عدی بن بداء کے علاوہ سب نے اس سے جرأت ظاہر کی، یہ دونوں نصرانی تھے، اسلام سے پہلے ملک شام جایا کرتے تھے ،- چناچہ اپنی تجارت کے لیے یہ شام گئے اور ان کے پاس بدیل بن ابی مریم مولی بنی سہم بھی آگئے اور ان کے ساتھ ایک چاندی کا جام تھا وہ بیمار ہوئے تو انہوں نے ان دونوں کو وصیت کی اور حکم دیا کہ ان کا ترکہ ان کے وارثوں تک پہنچا دینا تمیم بیان کرتے ہیں کہ ان کے انتقال کے بعد ہم نے اس جام کو لے لیا اور ایک ہزار درہم میں فروخت کرکے وہ قیمت میں نے اور عدی بن بداء نے آپس میں بانٹ لی۔- چناچہ جب ہم ان کے گھروالوں کے پاس آئے تو جو کچھ ان کا سامان ہمارے پاس تھا وہ ہم نے انکودے دیا تو انہوں نے اس جام کو دیکھ کر اس کے بارے میں ہم سے دریافت کیا، ہم نے کہا کہ اس کے علاوہ انہوں نے اور کوئی مال نہیں چھوڑا اور نہ ہمیں دیا ہے، جب میں مشرف باسلام ہوگیا تو مجھے اس کا خوف ہوا، چناچہ میں ان کے گھر والوں کے پاس گیا اور انھیں پورا واقعہ سنا کر پانچ سو درہم ان کو دے دیے اور ان کو بتادیا کہ اتنی اور رقم میرے ساتھی کے پاس بھی موجود ہے، چناچہ وہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے گواہوں کا مطالبہ کیا، وہ گواہ نہ پیش کرسکے، آپ نے انھیں قسم کھانے کا حکم دیا، چناچہ وہ اس کے لیے تیار ہوگئے اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اے ایمان والو تمہارے آپس میں دو شخص وصی ہونا مناسب ہے۔ (الخ) ۔- چناچہ حضرت عمر و بن العاص اور ایک شخص نے کھڑے ہو کر قسم کھالی اور پانچ سو بقیہ درہم عدی بن بداء سے نکلوائے۔- فائدہ :- حافظ ذہبی نے اس چیز پر اعتماد کیا ہے کہ جس تمیم کا اس روایت میں ذکر ہے وہ تمیم داری نہیں ہیں اور اس چیز کو انہوں مقاتل بن جان کی طرف منسوب کیا ہے اور حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ اس روایت میں داری کی تصریح کرنا اچھا نہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٦ (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا شَہَادَۃُ بَیْنِکُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ حِیْنَ الْوَصِیَّۃِ اثْنٰنِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنْکُمْ ) - یعنی موت سے قبل وصیت کے وقت اپنے لوگوں میں سے دو گواہ (مرد) مقرر کرلو۔ واضح رہے کہ وصیت کل ترکے کے ایک تہائی حصے سے زیادہ کی نہیں ہوسکتی۔ اگر جائیداد زیادہ ہے تو اس کا ایک تہائی حصہ بھی خاصا زیادہ ہوسکتا ہے۔ ُ - (اَوْ اٰخَرٰنِ مِنْ غَیْرِکُمْ اِنْ اَنْتُمْ ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَاَصَابَتْکُمْ مُّصِیْبَۃُ الْمَوْتِ ط) یا دوسرے دو آدمی تمہارے غیروں میں سے اگر تم زمین میں سفر پر (نکلے ہوئے) ہو اور (حالت سفر میں) تمہیں موت کی مصیبت پیش آجائے۔- یعنی حالت سفر میں اگر کسی کی موت کا وقت آپہنچے اور وہ وصیت کرنا چاہتا ہو تو ایسی صورت میں گواہان غیر قوم ‘ کسی دوسری بستی ‘ کسی دوسری برادری اور دوسرے قبیلے سے بھی مقرر کیے جاسکتے ہیں ‘ مگر عام حالات میں اپنی بستی ‘ اپنے خاندان میں رہتے ہوئے کوئی شخص انتقال کر رہا ہے تو اسے وصیّت کے وقت اپنے لوگوں ‘ رشتہ داروں اور قرابت داروں میں سے ہی دو معتبر آدمیوں کو گواہ بنانا چاہیے۔- (تَحْبِسُوْنَہُمَا مِنْم بَعْدِ الصَّلٰوۃِ ) - یعنی جب وصیت کے بارے میں متعلقہ لوگ پوچھیں اور اس میں کچھ شک کا احتمال ہو تو نماز کے بعد ان دونوں گواہوں کو مسجد میں روک لیا جائے۔- (فَیُقْسِمٰنِ باللّٰہِ اِنِ ارْتَبْتُمْ ) - اگر تمہیں ان کے بارے میں کوئی شک ہو کہ کہیں یہ وصیّت کو بدل نہ دیں ‘ کہیں ان سے غلطی نہ ہوجائے تو تم ان سے قسم اٹھوا لو۔ وہ نماز کے بعد مسجد میں حلف کی بنیاد پر شہادت دیں ‘ اور اس طرح کہیں :- (لاَ نَشْتَرِیْ بِہٖ ثَمَنًا وَّلَوْ کَانَ ذَا قُرْبٰی) ہم اس کی کوئی قیمت وصول نہیں کریں گے ‘ اگرچہ کوئی قرابت دار ہی کیوں نہ ہو - یعنی ہم اس شہادت سے نہ تو خود کوئی ناجائز فائدہ اٹھائیں گے ‘ نہ کسی کے حق میں کوئی ناانصافی کریں گے اور نہ ہی کسی رشتہ دار عزیز کو کوئی ناجائز فائدہ پہنچائیں گے۔- (وَلاَ نَکْتُمُ شَہَادَۃَ اللّٰہِ ) - غور کریں گواہی اتنی عظیم شے ہے کہ اسے شَھَادَۃَ اللّٰہِ ‘ کہا گیا ہے ‘ یعنی اللہ کی گواہی ‘ اللہ کی طرف سے ‘ امانت۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :120 یعنی دیندار ، راست باز اور قابل اعتماد مسلمان ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :121 اس سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے معاملات میں غیر مسلم کو شاہد بنانا صرف اس حالت میں درست ہے جبکہ کوئی مسلمان گواہ بننے کے لیے میسر نہ آسکے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

73: یہ آیات ایک خاص واقعے کے پس منظر میں نازل ہوئی ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ ایک مسلمان جس کا نام بُدیل تھا، تجارت کی غرض سے اپنے دو عیسائی ساتھیوں تمیم اور عدی کے ساتھ شام گیا۔ وہاں پہنچ کر وہ بیمار ہوگیا، اور اسے اندازہ ہوگیا کہ وہ بچ نہیں سکے گا۔ چنانچہ اس نے اپنے دوساتھیوں کو وصیت کی کہ میرا سارا سامان میرے وارثوں کو پہنچادینا۔ ساتھ ہی اس نے یہ ہوشیاری کی کہ سارے سامان کی ایک فہرست بناکر خفیہ طور سے اسی سامان کے اندر چھپادی۔ عیسائی ساتھیوں کو فہرست کا پتہ نہ چل سکا۔ انہوں نے سامان وارثوں کو پہنچایا، مگر اس میں ایک چاندی کا پیالہ تھا جس پر سونے کا ملمع چڑھا ہوا تھا، اور جس کی قیمت ایک ہزار درہم بتائی گئی ہے، وہ نکال کر اپنے پاس رکھ لیا۔ جب وارثوں کو بدیل کی بنائی ہوئی فہرست سامان میں سے ہاتھ لگی توان کو اس پیالے کا پتہ چلا، اور انہوں نے تمیم اور عدی سے مطالبہ کیا، انہوں نے صاف قسم کھالی کہ ہم نے سامان میں سے کوئی چیز نہ لی، نہ چھپائی ہے۔ لیکن کچھ عرصے کے بعد بدیل کے وارثوں کو پتہ چلا کہ وہ پیالہ انہوں نے مکہ مکرَّمہ میں ایک سنار کو فروخت کیا ہے۔ اس پر تمیم اور عدی نے اپنا موقف بدلا اور کہا کہ دراصل یہ پیالہ ہم نے بدیل سے خرید لیا تھا اور چونکہ خریداری کا کوئی گواہ ہمارے پاس نہیں تھا اس لئے ہم نے پہلے اس بات کا ذکر نہیں کیا تھا۔ اب چونکہ وہ خریداری کے مدعی تھے، اور مدعی پر لازم ہوتا ہے کہ وہ گواہ پیش کرے، اور یہ پیش نہ کرسکے توقاعدے کے مطابق وارثوں میں سے بدیل کے قریب ترین دو عزیزوں نے قسم کھائی کہ پیالہ بدیل کی ملکیت تھا اور یہ عیسائی جھوٹ بول رہے ہیں اس پر آنحضرتﷺ نے ان کے حق میں فیصلہ کردیا اور عیسائیوں کو پیالے کی قیمت دینی پڑی، یہ فیصلہ اسی آیتِ کریمہ کی روشنی میں ہوا جس میں اس قسم کی صورت حال کے لئے ایک عام حکم بھی بتادیا گیا۔