اپنی اصلاح آپ کرو اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ خود اپنی اصلاح کریں اور اپنی طاقت کے مطابق نیکیوں میں مشغول رہیں ، جب وہ خود ٹھیک ٹھاک ہو جائیں گے تو برے لوگوں کا ان پر کوئی بوجھ نہیں پڑے گا خواہ وہ رشتے دار اور قریبی ہوں خواہ اجنبی اور دور کے ہوں ۔ حضرت ابن عباس اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عامل ہو جائے برائیوں سے بچ جائے تو اس پر گنہگار لوگوں کے گناہ کا کوئی بوجھ بار نہیں ۔ مقاتل سے مروی ہے کہ ہر عامل کو اس کے عمل کا بدلہ ملتا ہے بروں کو سزا اچھوں کو جزا ، اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ اچھی بات کا حکم اور بری باتوں سے منع بھی نہ کرے ، کیونکہ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے خطبے میں فرمایا لوگو تم اس آیت کو پڑھتے ہو اور اس کا مطلب غلط لیتے ہو سنو میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ لوگ جب بری باتوں کو دیکھتے ہوئے انہیں نہیں روکیں گے تو بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی عام عذاب آ جائے ، امیر المومنین کا یہ فرمان بھی ہے کہ جھوٹ سے بچو جھوٹ ایمان کی ضد ( سننن اربعہ ) حضرت ابو ثعلبہ خشنی سے اس آیت کی بابت سوال ہوا تو آپ نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں سوال کیا تھا تو آپ نے فرمایا نہیں بلکہ تم بھلائی کا حکم اور برائی سے ممانعت کرتے رہو یہاں تک کہ بخیلی کی پیروی اور خواہش نفس کی اتباع اور دنیا کی پسندیدگی اور ہر شخص کا اپنی رائے پر پھولنا عام نہ ہو جائے اس وقت تم صرف اپنی اصلاح میں مشغول ہو جاؤ اور عام لوگوں کو چھوڑ دو ، یاد رکھو تمہارے پیچھے صبر کے دن آ رہے ہیں اس وقت دین اسلام پر جما رہنے والا ایسا ہو گا جیسے کوئی انگارے کو مٹھی میں لئے ہوئے ہو اس وقت عمل کرنے والے کو مثل پچاس شخصوں کے عمل کا اجر ملے گا جو بھی اچھے اعمال کرے گا ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ مثل پچاس شخصوں کے ان میں سے یا ہم میں سے؟ آپ نے فرمایا نہیں بلکہ تم میں سے ( ترمذی ) حضرت ابن مسعود سے بھی جب اس آیت کا مطلب دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا یہ وہ وقت نہیں آج تو تمہاری باتیں مان لی جاتی ہیں لیکن ہاں ایک زمانہ ایسا بھی آنے والا ہے کہ نیک باتیں کہنے اور بھلائی کا حکم کرنے والوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کی جائے گی اور اس کی بات قبول نہ کی جائے گی اس وقت تم صرف اپنے نفس کی اصلاح میں لگ جانا ، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مجلس میں کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے دو شخصوں میں کچھ جھگڑا ہو گیا اور وہ آمنے سامنے کھڑے ہو گئے تو ایک نے کہا میں اٹھتا ہوں اور انہیں نیکی کا حکم کرتا ہوں اور برائی سے روکتا ہوں تو دوسرے نے کہا مجھے کیا پڑی؟ تو اپنی اصلاح میں لگا رہ ، پھر یہی آیت تلاوت کی اسے سن کر حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا چپ رہ اس آیت کے عمل کا یہ وقت نہیں قرآن میں کئی طرح کی آیتیں ہیں بعض تو وہ ہیں جن کے مضامین گزر چکے بعض وہ ہیں جن کے واقعات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہو گئے ، بعض کے واقعات حضور کے بعد ہوئے بعض قیامت کے دن ہوں گے مثلاً جنت دوزخ وغیرہ ، سنو جب تک تمہارے دل نہ پھٹیں تمہارا مقصود ایک ہی ہو تم میں پھوٹ نہ پڑی ہو تم میں لڑائی دنگے شروع نہ ہوئے ہوں تم اچھی باتوں کی ہدایت کرتے رہو اور بری باتوں سے روکتے رہو ۔ ہاں جب دلوں میں جدائی ہو جائے ۔ آپ میں اختلاف پڑ جائیں لڑائیاں شروع ہو جائیں اس وقت صرف اپنے تیئس پابند شریعت رکھنا کافی ہے اور وہی وقت ہے اس آیت کے عمل کا ( ابن جریر ) حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا گیا کہ ان دنوں تو آپ اگر اپنی زبان روک لیں تو اچھا ہو آپ کو کیا پڑی کوئی کچھ ہی کرے آپ نہ کسی کو روکیں نہ کچھ کہیں دیکھئے قرآن میں بھی تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم اپنے تئیں سنبھا لو گمراہوں کی گمراہی کا وبال تم پر نہیں جبکہ تم خود راہ راست پر ہو ۔ تو حضرت ابن عمر نے کہا یہ حکم میرے اور میرے ساتھیوں کیلئے نہیں اس لئے کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا ہے خبردار ہر موجود شخص غیر موجود لوگوں کو پہنچا دے ۔ پس ہم موجود تھے اور تم غیر موجود تھے ۔ یہ آیت تو ان لوگوں کے حق میں ہے جو بعد میں آئیں گے وہ لوگوں کو نیک باتیں کہیں گے لیکن ان کی بات قبول نہ کی جائے گی ( ابن جریر ) حضرت ابن عمر کی مجلس میں ایک صاحب آئے بڑے غصیل اور تیز زبان ، کہنے لگے سنیئے جناب چھ شخص ہیں سب قرآن پڑھے ہوئے جاننے بوجھنے والے مجہتد سمجھدار لیکن ہر ایک دوسرے کو مشرک بتلاتا ہے ، اس نے کہا میں تم سے نہیں پوچھتا میں تو حضرت ابن عمر سے سوال کرتا ہوں اور پھر وہی بات دوہرا دی تو حضرت عبداللہ نے فرمایا شاید تو یہ چاہتا ہے کہ میں تجھے یہ کہدوں کہ جا انہی قتل کر ڈال نہیں میں کہتا ہوں جا انہیں نصیحت کر انہیں برائی سے روک نہ مانیں تو اپنی راہ لگ ، پھر آپ نے یہی آیت تلاوت کی ، خلیفہ ثالث حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں حضرت ابن مازن مدینے میں آتے ہیں یہاں مسلمانوں کا ایک مجمع جمع تھا جس میں سے ایک شخص نے اسی آیت کی تلاوت کی تو اکثر لوگوں نے کہا اس کے عمل کا وقت ابھی تک نہیں آیا ۔ حضرت جبیر بن نفیر کہتے ہیں میں ایک مجلس میں تھا جس میں بہت سے صحابہ کرام موجود تھے یہی ذکر ہو رہا تھا کہ اچھی باتوں کا حکم کرنا چاہیے اور بری باتوں سے روکنا چاہیے میں اس مجلس میں سب سے چھوٹی عمر کا تھا لیکن جرات کر کے یہ آیت پڑھ دی اور کہا کہ پھر اس کا کیا مطلب ہو گا ؟ تو سب نے ایک زبان ہو کر مجھے جواب دیا کہ اس کا صحیح مطلب تمہیں معلوم نہیں اور جو مطلب تم لے رہے ہو بالکل غلط ہے مجھے بڑا افسوس ہوا ، پھر وہ اپنی باتوں میں مشغول ہو گئے جب اٹھنے کا وقت آیا تو مجھ سے فرمایا تم ابھی بچے ہو بےموقعہ آیت پڑھ دیتے ہو اصلی مطلب تک نہیں پہنچتے بہت ممکن ہے کہ تم اس آیت کے زمانے کو پالو یہ حکم اس وقت ہے جب بخیلی کا دور دورہ ہو خواہش پرستی عام ہو ہر شخص اپنی سمجھ پر نازاں ہو اس وقت انسان خود نیکیوں اور بھلائیوں میں مشغول رہے گمراہوں کی گمراہی اسے کوئی نقصان نہیں پہنچائے گی ۔ حضرت حسن نے اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا اس پر بھی اللہ کا شکر ہے اگلے اور پچھلے مومنوں کے ساتھ منافق ضرور رہے جو ان کے اعمال سے بیزار ہی رہے ، حضرت سعید بن مسیب رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں جب تم نے اچھی بات کی نصیحت کر دی اور بری بات سے روک دیا پھر بھی کسی نے برائیاں کیں نیکیاں چھوڑیں تو تمہیں کوئی نقصان نہیں ۔ حضرت حذیفہ بھی یہی فرمائے ہیں حضرت کعب فرماتے ہیں اس کا وقت وہ ہے جب مسجد دمشق کا کلیسا ڈھا دیا جائے اور تعصب بڑھ جائے ۔
105۔ 1 بعض لوگوں کے ذہن میں ظاہری الفاظ سے یہ شبہ پیدا ہوا کہ اپنی اصلاح اگر کرلی جائے تو کافی ہے۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر ضروری نہیں ہے۔ لیکن یہ مطلب صحیح نہیں ہے کیونکہ امر بالمعروف کا فریضہ بھی نہایت اہم ہے۔ اگر ایک مسلمان یہ فریضہ ہی ترک کر دے گا تو اسکا تارک ہدایت پر قائم رہنے والا کب رہے گا ؟ جب کہ قرآن نے (جب تم خود ہی ہدایت پر چل رہے ہو) کی شرط عائد کی ہے۔ اس لئے جب حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے علم میں یہ بات آئی تو انہوں نے فرمایا لوگو تم آیت کو غلط جگہ استعمال کر رہے ہو، میں نے تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ، جب لوگ برائی ہوتے ہوئے دیکھ لیں اور اسے بدلنے کی کوشش نہ کریں تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے عذاب کی گرفت میں لے لے۔ اس لئے آیت کا صحیح مطلب یہ ہے کہ تمہارے سمجھانے کے باوجود اگر لوگ نیکی کا راستہ اختیار نہ کریں یا برائی سے باز نہ آئیں تو تمہارے لئے یہ نقصان دہ نہیں ہے جب کہ تم خود نیکی پر قائم اور برائی سے مجتنب ہو۔ البتہ ایک صورت میں امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا ترک جائز ہے کہ جب کوئی شخص اپنے اندر اس کی طاقت نہ پائے اور اس سے اس کی جان کو خطرہ ہے اس صورت میں فان لم یستطع فبقلبہ وذلک اضعف الایمان کے تحت اس کی گنجائش ہے آیت بھی اس صورت کی متحمل ہے۔
[١٥٣] سب سے پہلے اپنی اصلاح ضروری ہے :۔ یعنی تمہیں سب سے پہلے اپنے نفس کی اصلاح کرنی چاہیے۔ یہ نہ دیکھنا چاہیے کہ دوسرا کیا کر رہا ہے۔ بلکہ اپنے عقائد، اپنے کردار، اخلاق و اعمال کی اصلاح کتاب و سنت کی روشنی میں کرنی چاہیے۔ دوسروں کی کجروی اور گمراہی تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ یعنی سب سے پہلے تمہیں اپنی دینی بنیادیں اس قدر مضبوط بنانا چاہئیں کہ دوسرے لوگوں کی ضلالت تم پر کسی طرح اثر انداز نہ ہو سکے۔ پھر اس کے بعد تمہیں بگڑے ہوئے دوسرے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرنا چاہیے۔ یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دوسرے جو کچھ بھی کرتے رہیں، تمہیں ان سے بےنیاز ہو کر بس اپنی ہی فکر کرنا چاہئے۔ کیونکہ (اَمَرْ بالْمَعْرُوْفِ ) اور (نَھَی عَنِ الْمُنْکَرِ ) کا فریضہ اس قدر اہم ہے کہ بعض علماء کے نزدیک یہ فرض عین ہے۔ اور ہر شخص کو اپنی قوت، اپنے علم، اپنی استعداد کے مطابق اپنے حلقہ اثر میں یہ فرض ضرور سر انجام دینا چاہیے۔ پھر بھی اگر کوئی شخص روکنے کے باوجود باز نہ آئے۔ تو روکنے والے پر کچھ الزام نہ ہوگا۔
يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا عَلَيْكُمْ اَنْفُسَكُمْ ۚ۔۔ : یعنی توحید اور شریعت کے احکام کی اس قدر وضاحت اور بار بار ترغیب دلانے اور اللہ کے احکام کی نافرمانی اور اس کے عذاب سے ڈرانے کے باوجود اگر یہ لوگ اپنی جہالت پر اصرار کریں تو تم ان کی گمراہی اور جہالت کی پروا نہ کرو، خود سیدھے راستے پر رہو گے تو ان لوگوں کی جہالت کا تم پر کوئی وبال نہیں ہوگا۔ یعنی اپنی اصلاح کی سب سے پہلے فکر کرو، ایسا نہ ہو کہ دوسروں کی غلطیوں اور عیوب کی فکر میں لگ کر اپنی اصلاح کو بھول ہی جاؤ۔ اگر تم سیدھے راستے پر ہو گے تو گمراہ لوگ تمہارا کچھ نقصان نہیں کرسکیں گے۔ خود سیدھے راستے اور ہدایت پر رہنے میں یہ بھی شامل ہے کہ نیکی کا حکم دیتے رہو گے اور برائی سے منع کرتے رہو گے تو ان کی گمراہی قطعاً تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گی۔ بعض لوگوں نے اس آیت سے یہ سمجھ لیا ہے کہ انسان بس اپنی نجات کی فکر کرے، دوسروں کی اصلاح ضروری نہیں۔ چناچہ اس غلط فہمی کا ازالہ کرتے ہوئے ابوبکر صدیق (رض) نے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا : ” لوگو تم اس آیت کو پڑھتے ہو اور اس کا غلط مطلب لیتے ہو، میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ کہتے سنا ہے : ” جب لوگ ظالم کو دیکھیں، پھر اس کا ہاتھ نہ روکیں تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب پر عذاب لے آئے۔ “ اسی حدیث میں ہے : ” کوئی قوم ایسی نہیں جن میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں پر عمل کیا جاتا ہو، پھر وہ طاقت رکھتے ہوں کہ اسے بدل دیں، مگر وہ نہ بدلیں مگر قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے ان سب کو عذاب کی لپیٹ میں لے لے۔ “ [ أبو داوٗد، الملاحم، باب الأمر والنہی : ٤٣٣٨ ] ” َ اِذَا اهْتَدَيْتُمْ “ کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ باوجود تمہارے امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکے لوگ باز نہ آئیں تو امر بالمعروف کرنے والوں پر کچھ بوجھ نہیں ہوگا۔ (ابن کثیر)
اصلاح خلق کی فکر کرنے والوں کو ایک تسلی - دوسری آیت میں اصلاح خلق کی فکر میں سب کچھ قربان کرنے والے مسلمانوں کو تسلی دی گئی ہے کہ جب تم نے حق کی تبلیغ وتعلیم میں مقدوربھر کوشش کرلی، اور نصیحت و خیر خواہی کا حق ادا کردیا، تو پھر بھی اگر کوئی گمراہی پر جما رہے تو تم اس کی فکر میں نہ پڑو، اس حالت میں دوسروں کی گمراہی یا غلط کاری سے تمہارا کوئی نقصان نہ ہوگا، ارشاد فرمایا :- يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا عَلَيْكُمْ اَنْفُسَكُمْ ، یعنی اے مسلمانوں تم اپنی فکر کرو، جب تم راہ پر چل رہے تو جو شخص گمراہ رہے تو اس سے تمہارا کوئی نقصان نہیں۔- اس آیت کے ظاہری الفاظ سے چونکہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہر انسان کو صرف اپنے عمل اور اپنی اصلاح کی فکر کافی ہے، دوسرے کچھ بھی کرتے رہیں اس پر دھیان دینے کی ضرورت نہیں، اور یہ بات قرآن کریم کی بیشمار تصریحات کے خلاف ہے، جن میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو اسلام کا اہم فریضہ اور اس امت کی امتیازی خصوصیات قرار دیا ہے، اسی لئے اس آیت کے نازل ہونے پر کچھ لوگوں کو شبہات پیش آئے، رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوالات کئے گئے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے توضیع فرمائی، کہ یہ آیت احکام امر بالمعروف کے منافی نہیں، امر بالمعروف کو چھوڑ دو گے تو مجروموں کے ساتھ تم بھی ماخوذ ہوگے، اسی لئے تفسیر بحر محیط میں حضرت سعید ابن جبیر رحمة اللہ علیہ سے آیت کی یہ تفسیر نقل کی ہے کہ تم اپنے واجبات شرعیہ کو ادا کرتے رہو جن میں جہاد اور امر بالمعروف بھی داخل ہے، یہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی جو لوگ گمراہ رہیں تو تم پر کوئی نقصان نہیں، قرآن کریم کے الفاظ اِذَا اهْتَدَيْتُمْ میں غور کریں، تو یہ تفسیر خود واضح ہوجاتی ہے، کیونکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ جب تم راہ پر چل رہے ہو تو دوسروں کی گمراہی تمہارے لئے مضر نہیں، اور ظاہر ہے کہ جو شخص امر بالمعروف کے فریضہ کو ترک کردے وہ راہ پر نہیں چل رہا ہے۔- تفسیر درمنثور میں حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کا واقعہ نقل کیا ہے کہ ان کے سامنے کسی نے یہ سوال کیا کہ فلاں فلاں حضرات میں باہمی سخت جھگڑا ہے، ایک دوسرے کو مشرک کہتے ہیں، تو ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ کیا تمہارا خیال ہے کہ تمہیں کہہ دوں گا کہ جاؤ ان لوگوں سے قتال کرو، ہرگز نہیں، جاؤ ان کو نرمی کے ساتھ سمجھاؤ، قبول کریں تو بہتر اور نہ کریں تو ان کی فکر چھوڑ کر اپنی فکر میں لگ جاؤ، پھر یہی آیت آپ نے جواب کی شہادت میں تلاوت فرمائی۔- گناہوں کی روک تھام کے بارے میں حضرت صدیق اکبر (رض) کا ایک خطبہ - آیت کے ظاہری الفاظ سے سرسری نظر میں جو شبہ ہوسکتا تھا اس کے پیش نظر حضرت صدیق اکبر (رض) نے ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا کہ تم لوگ اس آیت کو پڑھتے ہو اور اس کو بےموقع استعمال کرتے ہو، کہ امر بالمعروف کی ضرورت نہیں خوب سمجھ لو کہ میں نے خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ جو لوگ کوئی گناہ ہوتا ہوا دیکھیں اور (مقدوربھر) اس کو روکنے کی کوشش نہ کریں تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ مجرموں کے ساتھ ان دوسرے لوگوں کو بھی عذاب میں پکڑلے۔- یہ روایت ترمذی، ابن ماجہ میں موجود ہے اور ابوداؤد کے الفاظ میں اس طرح ہے کہ جو لوگ کسی ظالم کو ظلم کرتے ہوئے دیکھیں اور اس کو ظلم سے (اپنی قدرت کے موافق) نہ روکیں تو اللہ تعالیٰ سب کو عذاب میں پکڑ لیں گے۔- معروف اور منکر کے معنی - گزشتہ تفصیل سے یہ بات معلوم ہوچکی کہ ہر مسلمان پر یہ لازم ہے کہ وہ منکر یعنی ناجائز امور کی روک تھام کرے یا کم از کم ان سے اظہار نفرت کرے، اب یہ معلوم کیجئے کہ معروف اور منکر کس کو کہتے ہیں۔- لفظ معروف، معرفہ سے اور منکر انکار سے ماخوذ ہے، معرفہ کہتے ہیں کسی چیز کو غور وفکر کرکے سمجھنے یا پہچاننے کو، اس کے بالمقابل انکار کہتے ہیں نہ سمجھنے یا نہ پہچاننے کو، یہ دونوں لفظ متقابل سمجھے جاتے ہیں، قرآن کریم میں ایک جگہ ارشاد ہے : (آیت) یعرفون نعمت اللّٰہ ثم ینکرونھا، یعنی اللہ کی قدرت کاملہ کے مظاہر دیکھ کر اس کی نعمتوں کو پہچانتے ہیں مگر پھر ازروئے عناد انکار کرتے ہیں، گویا ان نعمتوں کو جانتے نہیں، اس سے معلوم ہوا کہ لغوی معنی کے اعتبار سے معروف و منکر کے یہ معنی بیان فرمائے ہیں کہ معروف ہر اس فعل کو کہا جاتا ہے جس کا مستحسن یعنی اچھا ہونا عقل یا شرع سے پہچانا ہوا ہو، اور منکر ہر اس فعل کا نام ہے جو ازروئے عقل و شرع اوپر اور نہ پہچانا ہوا ہو، یعنی برا سمجھا جاتا ہو، اس لئے امر بالمعروف کے معنی اچھے کام کی طرف بلانے کے اور نہی عن المنکر کے معنی برے کام سے روکنے کے ہوگئے۔- ائمہ مجتہدین کے مختلف اقوال میں کوئی منکر شرعی نہیں ہوتا - لیکن اس جگہ گناہ وثواب یا اطاعت و معصیت کے بجائے معروف و منکر کا لفظ استعمال کرنے میں شاید اس طرف اشارہ ہو کہ وہ دقیق اور اجتہادی مسائل جن میں قرآن و سنت کے اجمال یا ابہام کی وجہ سے دو رائیں ہو سکتی ہیں، اور اسی بناء پر ان میں فقہاء امت کے اقوال مختلف ہیں، وہ اس دائرہ سے خارج ہیں، ائمہ مجتہدین جن کی شان اجتہاد علماء امت میں مسلم ہے، اگر کسی مسئلہ میں ان کے دو مختلف قول ہوں تو ان میں سے کسی کو بھی منکر شرعی نہیں کہا جاسکتا۔ بلکہ اس کی دونوں جانبیں معروف میں داخل ہیں، ایسے مسائل میں ایک رائے کو راجح سمجھنے والے کے لئے یہ حق نہیں ہے کہ دوسرے پر ایسا انکار کرے جیسا کہ گناہ پر کیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ صحابہ وتابعین میں بہت سے اجتہادی اختلافات اور متضاد اقوال کے باوجود یہ کہیں منقول نہیں کہ وہ ایک دوسرے پر ایسا انکار کرے جیسا کہ کیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ صحابہ وتابعین میں بہت سے اجتہادی اختلافات اور متضاد اقوال کے باوجود یہ کہیں منقول نہیں کہ وہ ایک دوسرے پر فاسق یا گنہگار ہونے کا فتویٰ لگاتے ہوں، بحث و تمحیص اور مناظرے و مکالمے سب کچھ ہوتے تھے، اور ہر ایک اپنی رائے کی ترجیح کی وجوہ بیان کرتا اور دوسرے پر اعتراض کرتا تھا۔ لیکن کوئی کسی کو اس اختلاف کی وجہ سے گنہگار نہ سمجھتا تھا۔- خلاصہ یہ ہے کہ اجتہادی اختلاف کے موقع پر یہ تو ہر ذی علم کو اختیار ہے کہ جس جانب کو راجح سمجھے اسے اختیار کرے، لیکن دوسرے کے فعل کو منکر سمجھ کر اس پر انکار کرنے کا کسی کو حق نہیں ہے، اس سے واضح ہوا کہ اجتہادی مسائل میں جنگ و جدل یا منافرت پھیلانے والے مقالات و مضامین امر بالمعروف یا نہی عن المنکر میں داخل نہیں اس مسائل کو محاذ جنگ بنانا صرف ناواقفیت یا جہالت ہی کی وجہ سے ہوتا ہے۔
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا عَلَيْكُمْ اَنْفُسَكُمْ ٠ۚ لَا يَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اہْتَدَيْتُمْ ٠ۭ اِلَى اللہِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيْعًا فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ١٠٥- نفس - الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، - ( ن ف س ) النفس - کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے - ضر - الضُّرُّ : سوءُ الحال، إمّا في نفسه لقلّة العلم والفضل والعفّة، وإمّا في بدنه لعدم جارحة ونقص، وإمّا في حالة ظاهرة من قلّة مال وجاه، وقوله : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء 84] ، فهو محتمل لثلاثتها،- ( ض ر ر) الضر - کے معنی بدحالی کے ہیں خواہ اس کا تعلق انسان کے نفس سے ہو جیسے علم وفضل اور عفت کی کمی اور خواہ بدن سے ہو جیسے کسی عضو کا ناقص ہونا یا قلت مال وجاہ کے سبب ظاہری حالت کا برا ہونا ۔ اور آیت کریمہ : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء 84] اور جوان کو تکلیف تھی وہ دورکردی ۔ میں لفظ ضر سے تینوں معنی مراد ہوسکتے ہیں - ضل - الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] ويقال الضَّلَالُ لكلّ عدولٍ عن المنهج، عمدا کان أو سهوا، يسيرا کان أو كثيرا، فإنّ الطّريق المستقیم الذي هو المرتضی - صعب جدا، قال النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : «استقیموا ولن تُحْصُوا» - ( ض ل ل ) الضلال - ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ اور ضلال کا لفظ ہر قسم کی گمراہی پر بولا جاتا ہے یعنی وہ گمراہی قصدا یا سہوا معمول ہو یا زیادہ کیونکہ طریق مستقیم ۔ جو پسندیدہ راہ ہے ۔۔ پر چلنا نہایت دشوار امر ہے ۔ جیسا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(11) استقیموا ولن تحصوا کہ استقامت اختیار کرو اور تم پورے طور پر اس کی نگہداشت نہیں کرسکوگے ۔ - رجع - الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، - ( ر ج ع ) الرجوع - اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے - نبأ - خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی - يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص 67 68] ، - ( ن ب ء ) النبا ء - کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے
(١٠٥) اپنے نفسوں کی فکر کرو کیوں کہ جب تم ایمان پر قائم ہوگے تو کسی گمراہ کی گمراہی جب تم ان سے اس گمراہی کو بیان کر دو گے تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچائے گی، مرنے کے بعد وہ رب کریم تمہاری نیکیاں اور سب تمہیں جتلا دیں گے، یہ آیت مشرکین مکہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے، جس وقت اہل کتاب نے جزیہ دینا قبول کرلیا تھا اور ان لوگوں نے نہیں قبول کیا تھا۔
آیت ١٠٥ (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْکُمْ اَنْفُسَکُمْ ج) (لاَ یَضُرُّکُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اہْتَدَیْتُمْ ط) ( اِلَی اللّٰہِ مَرْجِعُکُمْ جَمِیْعًا فَیُنَبِّءُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ) - یہ آیت اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اس کا ایک غلط مطلب اور مفہوم دور صحابہ (رض) میں ہی بعض لوگوں نے نکال لیا تھا۔ وہ یہ کہ دعوت و تبلیغ کی کوئی ذمہ داری ہم پر نہیں ہے ‘ ہر ایک پر اپنی ذات کی ذمہ داری ہے ‘ کوئی کیا کرتا ہے اس سے کسی دوسرے کو کچھ غرض نہیں ہونی چاہیے۔ قرآن جو کہہ رہا ہے کہ تم پر ذمہ داری صرف اپنی جانوں کی ہے۔ اگر تم ہدایت پر ہو تو جو گمراہ ہوا وہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑے گا۔ لہٰذا ہر کسی کو بس اپنا عمل درست رکھنا چاہیے ‘ کوئی دوسرا شخص اگر غلط کام کرتا ہے تو اسے خواہ مخواہ روکنے ٹوکنے ‘ اس کی ناراضگی مول لینے ‘ اَمر با لمعروف اور نہی عن المنکر کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس طرح کی باتیں جب حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے علم میں آئیں تو آپ (رض) نے باقاعدہ ایک خطبہ دیا کہ لوگو میں دیکھ رہا ہوں کہ تم اس آیت کا مطلب غلط سمجھ رہے ہو۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ تمہاری ساری تبلیغ ‘ کوشش ‘ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے باوجود اگر کوئی شخص گمراہ رہتا ہے تو اس کا تم پر کوئی وبال نہیں۔ سورة البقرۃ میں ہم پڑھ چکے ہیں : (وَّلاَ تُسْءَلُ عَنْ اَصْحٰبِ الْجَحِیْمِ ۔ ) (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) آپ سے کوئی باز پرس نہیں ہوگی جہنمیوں کے بارے میں۔ یعنی ہم یہ نہیں پوچھیں گے کہ ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بشیر و نذیر بنا کر بھیجا تھا اور پھر بھی یہ لوگ جہنّم میں کیوں چلے گئے ؟ لیکن جہاں تک دعوت و تبلیغ ‘ نصیحت و موعظت ‘ امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکا تعلق ہے ‘ یہ تو فرائض میں سے ہیں۔ اس آیت کی رو سے یہ فرائض ساقط نہیں ہوتے۔ بلکہ اس کا درست مفہوم یہ ہے کہ تمہاری ساری کوشش کے باوجود اگر کوئی شخص نہیں مانتا تو اب تمہاری ذمہ داری پوری ہوگئی۔ فرض کیجیے کہ کسی کا بچہ آوارہ ہوگیا ہے ‘ والد اپنی امکانی حد تک کوشش کیے جارہا ہے مگر بچہ راہ راست پر نہیں آ رہا ‘ تو ظاہر بات ہے کہ اگر اس نے بچے کی تربیت اور اصلاح میں کوئی کوتاہی نہیں چھوڑی تو اللہ کی طرف سے اس کی گمراہی کا وبال والد پر نہیں آئے گا۔ لیکن اپنا فرض ادا کرنا بہر حال لازم ہے۔
سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :119 یعنی بجائے اس کے کہ آدمی ہر وقت یہ دیکھتا رہے کہ فلاں کیا کر رہا ہے اور فلاں کے عقیدے میں کیا خرابی ہے اور فلاں کے اعمال میں کیا برائی ہے ، اسے یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ خود کیا کر رہا ہے ۔ اسے فکر اپنے خیالات کی ، اپنے اخلاق اور اعمال کی ہونی چاہیے کہ وہ کہیں خراب نہ ہوں ۔ اگر آدمی خود اللہ کی اطاعت کر رہا ہے ، خدا اور بندوں کے جو حقوق اس پر عائد ہوتے ہیں انہیں ادا کر رہا ہے ، اور راست روی و راست بازی کے مقتضیات پورے کر رہا ہے ، جن میں لازماً امر بالمعروف و نہی عن المنکر بھی شامل ہے ، تو یقیناً کسی شخص کی گمراہی و کج روی اس کے لیے نقصان دہ نہیں ہوسکتی ۔ اس آیت کا یہ منشاء ہرگز نہیں ہے کہ آدمی بس اپنی نجات کی فکر کرے ، دوسروں کی اصلاح کی فکر نہ کرے ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس غلط فہمی کی تردید کرتے ہوئے اپنے ایک خطبہ میں فرماتے ہیں: ”لوگو تم اس آیت کو پڑھتے ہو اور اس کی غلط تاویل کرتے ہو ۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب لوگوں کا حال یہ ہوجائے کہ وہ برائی کو دیکھیں اور اسے بدلنے کی کوشش نہ کریں ، ظالم کو ظلم کرتے ہوئے پائیں اور اس کا ہاتھ نہ پکڑیں ، تو بعید نہیں کہ اللہ اپنے عذاب میں سب کو لپیٹ لے ۔ خدا کی قسم تم کو لازم ہے کہ بھلائی کا حکم دو اور برائی سے روکو ، ورنہ اللہ تم پر ایسے لوگوں کو مسلط کر دے گا جو تم میں سب سے بدتر ہوں گے اور وہ تم کو سخت تکلیفیں پہنچائیں گے ، پھر تمہارے نیک لوگ خدا سے دعائیں مانگیں گے مگر وہ قبول نہ ہوں گی ۔
72: کفار کی جوگمراہیاں پیچھے بیان ہوئی ہیں، ان کی وجہ سے مسلمانوں کو صدمہ ہوتا تھا کہ اپنی ان گمراہیوں کے خلاف واضح دلائل آجانے کے بعد اور آنحضرتﷺ کی طرف سے بار بار سمجھانے کے باوجود یہ لوگ اپنی گمراہیوں پر جمے ہوئے ہیں، اس آیت نے ان حضرات کو تسلی دی ہے کہ تبلیغ کا حق ادا کرنے کے بعد تمہیں ان کی گمراہیوں پر زیادہ صدمہ کرنے کی ضرورت نہیں، اور اب زیادہ فکر خود اپنی اصلاح کی کرنی چاہئے۔ لیکن جس بلیغ انداز میں یہ بات ارشاد فرمائی گئی ہے، اس میں ایک تو ان لوگوں کے لئے ہدایت کا بڑا سامان ہے جو ہر وقت دوسروں پر تنقید کرنے اور ان کے عیب تلاش کرنے میں تو بڑے شوق سے مشغول رہتے ہیں، مگر خود اپنے گریبان میں منہ ڈالنے کی زحمت نہیں اٹھاتے۔ ان کو دوسروں کا تو چھوٹے سے چھوٹا عیب آسانی سے نظر آجاتا ہے مگر خود اپنی بڑی سے بڑی بُرائی کا احساس نہیں ہوتا۔ ہدایت یہ دی گئی ہے کہ اگر بالفرض تمہاری تنقید صحیح بھی ہو، اور دوسرے لوگ گمراہ بھی ہوں تب بھی تمہیں تو اپنے اعمال کا جواب دینا ہے، اس لئے اپنی فکر کرو اور دوسروں پر تنقید کی فکر میں نہ پڑو۔ اس کے علاوہ جب معاشرے میں بد عملی کا چلن عام ہوجائے، تو اس وقت اصلاح کی طرف لوٹنے کا بھی بہترین نسخہ یہی ہے کہ ہر شخص دوسروں کے طرز عمل کو دیکھنے کے بجائے اپنی اصلاح کی فکر میں لگ جائے۔ جب افراد میں اپنی اصلاح کی فکر پیدا ہوگی تو چراغ سے چراغ جلے گا، اور رفتہ رفتہ معاشرہ بھی اصلاح کی طرف لوٹے گا۔