[١٥٢] تقلید آباد کی مذمت :۔ تقلید آباء بھی دراصل شرک ہی کی ایک قسم ہے کیونکہ ایسی صورت میں اللہ اور رسول کے احکام کے مقابلہ میں دین آباء کو ترجیح دی جاتی ہے اور اس کی ابتدا یوں ہوتی ہے کہ ہر شخص فطرتاً اپنے بزرگوں سے اچھا گمان رکھتا ہے اور ان سے محبت کی بنا پر اس کا یہ گمان عقیدہ کی شکل اختیار کرجاتا ہے۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ ہمارے بزرگ ہم سے بہت زیادہ نیک، عالم اور دین کو سمجھنے والے تھے۔ حالانکہ یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ انبیاء کے علاوہ کوئی شخص معصوم نہیں ہوتا۔ اور ہر شخص سے دانستہ یا نادانستہ طور پر غلطی کا صدور ممکن ہے اور تقلید آباء کی صورت میں یہ غلطی نسل در نسل منتقل ہوتی چلی جاتی ہے چناچہ ہر عقیدہ اور عمل کی صحت معلوم کرنے کا صرف یہ طریقہ ہے کہ اسے کتاب و سنت پر پیش کیا جائے ورنہ محض تقلید آباء کا منطقی نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ گمراہی کی طرف دھکیل دے گی۔
وَاِذَا قِيْلَ لَهُمْ تَعَالَوْا۔۔ : اس آیت میں اگرچہ عرب کے مشرکین کی بات ہو رہی ہے مگر لفظ عام ہیں جن میں ان تمام لوگوں کی مذمت کی جا رہی ہے جو حق بات پر غور و فکر کرنے اور اسے مان لینے کے بجائے اپنے باپ دادا کے رسم و رواج یا مذہبی پیشواؤں کی تقلید کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بہت سی آیات میں ایسے لوگوں کی مذمت کی ہے۔ دیکھیے سورة بقرہ (١٧٠) ۔
ربط آیات - اوپر رسم پرست کفار کی ایک جہالت کا ذکر تھا، اور ایسی ایسی جہالتیں ان کی بہ کثرت تھیں، جن کو سن کر مؤمنین کو رنج اور افسوس ہوتا تھا، اس لئے آگے مؤمنین کو اس کے متعلق ارشاد ہے کہ تم کیوں اس غم میں پڑے ہو، تم کو اپنی اصلاح کا اور دوسرے کی اصلاح میں بقدر وسعت وقدرت کوشش کرنے کا حکم ہے، باقی کوشش پر ثمرہ مرتب ہونا تمہارے اختیار سے خارج ہے، اس لئے ” کار خودکن کار بےگانہ مکن “ پر عمل کرو۔ - خلاصہ تفسیر - جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو احکام نازل فرمائے ہیں ان کی طرف اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف (جن پر وہ احکام نازل ہوئے ہیں) رجوع کرو (جو امر اس سے حق ثابت ہو حق سمجھو اور جو باطل ہو باطل سمجھو) تو کہتے ہیں کہ ہم کو (ان احکام اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ضرورت نہیں ہم کو) وہی (طریقہ) کافی ہے جس پر ہم نے اپنے بڑوں کو دیکھا ہے (حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ) کیا (وہ طریقہ ان کے لئے ہر حال میں کافی ہے) اگرچہ ان کے بڑے (دین کی) نہ کچھ سمجھ رکھتے ہوں اور نہ (کسی آسمانی کتاب کی) ہدایت رکھتے ہوں، اے ایمان والو اپنی (اصلاح کی) فکر کرو (اصل کام تمہارے ذمہ یہ ہے، باقی دوسروں کی اصلاح کے متعلق یہ ہے کہ جب تم اپنی طرف سے اپنی قدرت کے مطابق اصلاح کی سعی کر رہے ہو مگر دوسرے پر اثر نہیں ہوتا تو تم اثر مرتب نہ ہونے کی فکر میں نہ پڑو کیونکہ) جب تم (دین کی) راہ پر چل رہے ہو (اور واجبات دین کو ادا کر رہے ہو اس طرح کہ اپنی بھی اصلاح کر رہے ہو اور دوسروں کی اصلاح میں بھی کوشش کر رہے ہو) تو جو شخص (باوجود تمہاری سعی اصلاح کے بھی) گمراہ رہے تو اس (کے گمراہ رہنے) سے تمہارا کوئی نقصان نہیں (اور جیسا اصلاح وغیرہ میں حد سے زیادہ فکر و غم سے منع کیا جاتا ہے ایسے ہی ہدایت سے ناامید ہونے کی صورت میں غصہ میں آکر دنیا ہی میں ان پر سزا نازل ہونے کی تمنا بھی ممنوع ہے، کیونکہ حق و باطل کا مکمل فیصلہ تو آخرت میں ہوگا، چنانچہ) اللہ ہی کے پاس تم سب کو جانا ہے پھر وہ تم سب کو بتلا دیں گے جو کچھ تم سب کیا کرتے تھے (اور جتلا کر حق پر ثواب اور باطل پر عذاب کا حکم نافذ فرما دیں گے) ۔- معارف ومسائل - آیات کا شان نزول - جاہلیت کی رسموں میں ایک تقلید آباء بھی تھی، جس نے ان کو ہر برائی میں مبتلا اور ہر بھلائی سے محروم رکھا تھا، تفسیر درمنثور میں بحوالہ ابن ابی حاتم نقل کیا ہے کہ ان میں سے کوئی خوش نصیب اگر حق بات کو مان کر مسلمان ہوجاتا تو اس کو یوں عار دلائی جاتی تھی کہ تو نے اپنے باپ دادوں کو بیوقوف ٹھہرایا، کہ ان کے طریق کو چھوڑ کر دوسرا طریق اختیار کرلیا۔ ان کی اس گمراہی در گمراہی پر یہ آیت نازل ہوئی، وَاِذَا قِيْلَ لَهُمْ تَعَالَوْا یعنی جب ان کو کہا جاتا کہ تم اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ حقائق اور احکام اور رسول کی طرف رجوع کرو جو ہر حیثیت سے حکمت و مصلحت اور تمہارے لئے صلاح و فلاح کے ضامن ہیں تو ان کے پاس اس کے سوا کوئی جواب نہیں ہوتا کہ ہم کو تو وہی طریقہ کافی ہے، جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو دیکھا۔- یہ وہ شیطانی استدلال ہے جس نے لاکھوں انسانوں کو معمولی سمجھ بوجھ اور علم و ہنر رکھنے کے باوجود گمراہ کیا، قرآن کریم نے اس کے جواب میں ارشاد فرمایا : اَوَلَوْ كَانَ اٰبَاۗؤ ُ هُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ شَـيْــــًٔـا وَّلَا يَهْتَدُوْنَ ، غور کرنے والوں کے لئے قرآن کے اس ایک جملہ نے کسی شخص یا جماعت کی اقتداء کرنے کا ایک صحیح اصول بیان کرکے اندھوں کے لئے بینائی کا اور جاہل و غافل کے لئے انکشاف حقیقت کا مکمل سامان فراہم کردیا ہے، وہ یہ کہ یہ بات تو معقول ہے کہ نہ جاننے والے جاننے والوں کی، ناواقف لوگ واقف کاروں کی پیروی کریں، جاہل آدمی عالم کی اقتداء کرے لیکن یہ کوئی معقول بات نہیں کہ علم و عقل اور ہدایت کے معیار سے ہٹ کر اپنے باپ دادا یا کسی بھائی بند کی اقتداء کو اپنا طریقہ کار بنا لیا جائے، اور بغیر یہ جانے ہوئے کہ یہ مقتداء خود کہاں جا رہا ہے، اور ہمیں کہاں پہنچائے گا اس کے پیچھے لگ لیا جائے۔- اسی طرح بعض لوگ کسی کی اتباع و اقتداء کا معیار لوگوں کی بھیڑ کو بنا لیتے ہیں جس طرف یہ بھیڑ دیکھی اسی طرف چل پڑے، یہ بھی ایک نامعقول حرکت ہے، کیونکہ اکثریت تو ہمیشہ دنیا میں بیوقوفوں یا کم عقلوں کی اور عمل کے لحاظ سے بدعملوں کی رہتی ہے، اس لئے لوگوں کی بھیڑ حق و ناحق یا بھلے برے کی تمیز کا معیار نہیں ہوسکتی۔- نااہل کو مقتداء بنانا ہلاکت کو دعوت دینا ہے - قرآن کریم کے اس جملہ نے سب کو ایک واضح حکمت کا سبق دیا کہ ان میں سے کوئی چیز مقتداء و پیشواء بنانے کے لئے ہرگز کافی نہیں، بلکہ ہر انسان پر سب سے پہلے تو یہ لازم ہے کہ اپنی زندگی کا مقصد اور اپنے سفر کا رخ متعین کرے، پھر اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے یہ دیکھے کہ کون ایسا انسان ہے جو اس مقصد کا راستہ جاننے والا بھی ہو، اور اس راستہ پر چل بھی رہا ہو، جب کوئی ایسا انسان مل جائے تو بیشک اس کے پیچھے لگ لینا اس کو منزل مقصود پر پہنچا سکتا ہے، یہی حقیقت ہے ائمہ مجتہدین کی تقلید کی کہ وہ دین کو جاننے والے بھی ہیں اور اس پر عمل پیرا بھی، اس لئے نہ جاننے والے ان کا اتباع کرکے دین کے مقصد یعنی اتباع خدا اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حاصل کرسکتے ہیں اور جو گم کردہ راہ ہو، منزل مقصود کو خود ہی نہ جانتا ہو، یا جان بوجھ کر منزل کے خلاف سمت چل رہا ہو اس کے پیچھے چلنا ہر عقل مند کے نزدیک اپنی سعی و عمل کو ضائع کرنا، بلکہ اپنی ہلاکت کو دعوت دینا ہے، اس علم و حکمت اور روشن خیالی کے زمانہ میں بھی افسوس ہے کہ لکھے پڑھے ہوش و عقل والے لوگ اس حقیقت کو نظر انداز کئے ہوئے ہیں اور آج کی بربادی اور تباہی کا سب سے بڑا سبب نااہل اور غلط مقتداؤں اور لیڈروں کے پیچھے چلنا ہے۔- اقتداء کا معیار - قرآن کریم کے اس جملہ نے اقتداء کا نہایت معقول اور واضح معیار دو چیزوں کو بنایا ہے، علم اور اہتداء، علم سے مراد منزل مقصود اور اس تک پہنچنے کے طریقوں کا جاننا ہے اور اہتداء سے مراد اس مقصد کی راہ پر چلنا، یعنی صحیح علم پر عمل مستقیم۔- خلاصہ یہ ہوا کہ جس شخص کو مقتداء بناؤ تو پہلے یہ دیکھو کہ جس مقصد کے لئے اس کو مقتداء بنایا ہے وہ اس مقصد اور اس کے طریق سے پوری طرح واقف بھی ہے یا نہیں، پھر یہ دیکھو کہ وہ اس کی راہ پر چل بھی رہا ہے ؟ اور اس کا عمل اپنے علم کے مطابق ہے یا نہیں ؟- غرض کسی کو مقتداء بنانے کے لئے علم صحیح اور عمل مستقیم کے معیار سے جانچنا ضروری ہے، محض باپ دادا ہونا یا بہت سے لوگوں کا لیڈر ہونا، یا صاحب مال و دولت ہونا یا صاحب حکومت و سلطنت ہونا ان میں سے کوئی چیز بھی ایسی نہیں جس کو معیار اقتداء سمجھا جائے۔- کسی پر تنقید کرنے کا مؤ ثر طریقہ - قرآن کریم نے اس جگہ تقلید آبائی کے خوگر لوگوں کی غلطی کو واضح فرمایا، اور اس کے ساتھ ہی کسی دوسرے پر تنقید اور اس کی غلطی ظاہر کرنے کا ایک خاص مؤ ثر طریقہ بھی بتلا دیا، جس سے مخاطب کی دل آزاری یا اس کو اشتعال نہ ہو، کیونکہ دین آبائی کی تقلید کرنے والوں کے جواب میں یوں نہیں فرمایا کہ تمہارے باپ دادا جاہل یا گمراہ ہیں، بلکہ ایک سوالیہ عنوان بنا کر ارشاد فرمایا کہ کیا باپ دادا کی پیروی اس حالت میں بھی کوئی معقول بات ہوسکتی ہے جب کہ باپ دادا، نہ علم رکھتے ہوں نہ عمل۔
وَاِذَا قِيْلَ لَہُمْ تَعَالَوْا اِلٰى مَآ اَنْزَلَ اللہُ وَاِلَى الرَّسُوْلِ قَالُوْا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَيْہِ اٰبَاۗءَنَا ٠ۭ اَوَلَوْ كَانَ اٰبَاۗؤُہُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ شَـيْــــًٔـا وَّلَا يَہْتَدُوْنَ ١٠٤- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔- (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی)- (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ)- (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔- مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔- (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) - (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن)- (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی)- تَعالَ- قيل : أصله أن يدعی الإنسان إلى مکان مرتفع، ثم جعل للدّعاء إلى كلّ مکان، قال بعضهم : أصله من العلوّ ، وهو ارتفاع المنزلة، فكأنه دعا إلى ما فيه رفعة، کقولک : افعل کذا غير صاغر تشریفا للمقول له . وعلی ذلک قال : فَقُلْ تَعالَوْا نَدْعُ أَبْناءَنا[ آل عمران 61] ، تَعالَوْا إِلى كَلِمَةٍ [ آل عمران 64] ، تَعالَوْا إِلى ما أَنْزَلَ اللَّهُ [ النساء 61] ، أَلَّا تَعْلُوا عَلَيَّ [ النمل 31] ، تَعالَوْا أَتْلُ [ الأنعام 151] . وتَعَلَّى: ذهب صعدا . يقال : عَلَيْتُهُ فتَعَلَّى- تعالٰی ۔ اس کے اصل معنی کسی کو بلند جگہ کی طرف بلانے کے ہیں پھر عام بلانے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے بعض کہتے ہیں کہ کہ یہ اصل میں علو ہے جس کے معنی بلند مر تبہ کے ہیں لہذا جب کوئی شخص دوسرے کو تعال کہہ کر بلاتا ہے تو گویا وہ کسی رفعت کے حصول کی طرف وعورت دیتا ہے جیسا کہ مخاطب کا شرف ظاہر کرنے کے لئے افعل کذا غیر صاغر کہا جاتا ہے چناچہ اسی معنی میں فرمایا : ۔ فَقُلْ تَعالَوْا نَدْعُ أَبْناءَنا[ آل عمران 61] تو ان سے کہنا کہ آ ؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں ۔ تَعالَوْا إِلى كَلِمَةٍ [ آل عمران 64] تعالو ا الیٰ کلمۃ ( جو ) بات ( یکساں تسلیم کی گئی ہے اس کی ) طرف آؤ تَعالَوْا إِلى ما أَنْزَلَ اللَّهُ [ النساء 61] جو حکم خدا نے نازل فرمایا ہے اس کی طرف رجوع کرو ) اور آؤ أَلَّا تَعْلُوا عَلَيَّ [ النمل 31] مجھ سے سر کشی نہ کرو ۔ تَعالَوْا أَتْلُ [ الأنعام 151] کہہ کہ ( لوگو) آؤ میں ( تمہیں ) پڑھ کر سناؤں ۔ تعلیٰ بلندی پر چڑھا گیا ۔ دور چلا گیا ۔ کہا جاتا ہے علیتہ متعلٰی میں نے اسے بلند کیا ۔ چناچہ وہ بلند ہوگیا - نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - حسب ( گمان)- والحِسبةُ : فعل ما يحتسب به عند اللہ تعالی. الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت 1- 2] ، أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ [ العنکبوت 4] ، وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم 42] ، فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم 47] ، أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة 214] - ( ح س ب ) الحساب - اور الحسبة جس کا معنی ہے گمان یا خیال کرنا اور آیات : ۔ الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت 1- 2] کیا لوگ یہ خیال کئے ہوئے ہیں ۔ کیا وہ لوگ جو بڑے کام کرتے ہیں یہ سمجھے ہوئے ہیں : وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم 42] اور ( مومنو ) مت خیال کرنا کہ یہ ظالم جو عمل کررہے ہیں خدا ان سے بیخبر ہے ۔ فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم 47] تو ایسا خیال نہ کرنا کہ خدا نے جو اپنے پیغمبروں سے وعدہ کیا ہے اس کے خلاف کرے گا : أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة 214] کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ( یوں ہی ) جنت میں داخل ہوجاؤ گے ۔ - وجد - الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه . ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] . - ( و ج د ) الو جود - ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔- لو - لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] .- ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ - اهْتِدَاءُ- يختصّ بما يتحرّاه الإنسان علی طریق الاختیار، إمّا في الأمور الدّنيويّة، أو الأخرويّة قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام 97] ، وقال : إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ لا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا[ النساء 98] ويقال ذلک لطلب الهداية نحو : وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة 53] ، - الاھتداء ( ہدایت پانا ) کا لفظ خاص کر اس ہدایت پر بولا جاتا ہے جو دینوی یا اخروی کے متعلق انسان اپنے اختیار سے حاصل کرتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام 97] اور وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے ستارے بنائے تاکہ جنگلوں اور در یاؤ کے اندھیروں میں ان سے رستہ معلوم کرو
(١٠٤) اور جس وقت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان مشرکین مکہ سے کہتے ہیں، کہ جن چیزوں کی حلت (جائز ہوتا) اللہ تعالیٰ قرآن حکیم میں بیان کی ہے اور جن کی حلت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تم سے بیان کی، اس کی طرف رجوع کرو تو جوابا اپنے بڑوں کی حرمت کا ثبوت دیتے ہیں، اور جب کہ ان کے آباؤ اجداد دین کی کسی چیز سے واقف نہیں تھے اور نہ کسی نبی کی سنت پر عمل کرتے تھے تو پھر کیسے یہ لوگ ان کو اپنا رہنما تسلیم کرتے ہیں۔
آیت ١٠٤ (وَاِذَا قِیْلَ لَہُمْ تَعَالَوْا اِلٰی مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَاِلَی الرَّسُوْلِ ) - اس حکم (کہ آؤ اللہ کے رسول کی طرف) کی ترجمانی علامہ اقبال نے کیا خوبصورت الفاظ میں کی ہے : - بمصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست - اگر باو نرسیدی تمام بولہبیست - ( قَالُوْا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَیْہِ اٰبَآءَ نَا ط) - یعنی ہمارے آباء و اجداد جو اتنے عرصے سے ان چیزوں پر عمل کرتے چلے آ رہے تھے تو کیا وہ جاہل تھے ؟ یہی باتیں آج بھی سننے کو ملتی ہیں۔ کسی رسم کے بارے میں آپ کسی کو بتائیں کہ اس کی دین میں کوئی سند نہیں ہے اور صحابہ (رض) کے ہاں اس کا کوئی وجود نہ تھا تو اس کا جواب ہوگا کہ ہم نے تو اپنے باپ دادا کو یونہی کرتے دیکھا ہے۔ - (اَوَلَوْکَانَ اٰبَآؤُہُمْ لاَ یَعْلَمُوْنَ شَیْءًا وَّلاَ یَہْتَدُوْنَ ) - جیسے تم اللہ کی مخلوق ہو ویسے ہی وہ بھی مخلوق تھے۔ جیسے تم غلط کام کرسکتے ہو اور غلط آراء قائم کرسکتے ہو ‘ ویسے ہی وہ بھی غلط کار ہوسکتے تھے۔