بتوں کے نام کٹے ہوئے جانوروں کے نام؟ صحیح بخاری شریف میں حضرت سعید بن مسیب رحمتہ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ بحیرہ اس جانور کو کہتے ہیں جس کے بطن کا دودھ وہ لوگ اپنے بتوں کے نام کر دیتے تھے اسے کوئی دو ہتا نہ تھا سائبہ ان جانوروں کو کہتے تھے جنہیں وہ اپنے معبود باطل کے نام پر چھوڑ دیتے تھے سواری اور بوجھ سے آزاد کر دیتے تھے ، حضرت ابو ہریرہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے عمرو بن عامر خزاعی کو دیکھا کہ وہ جہنم میں اپنی آنتیں گھسیٹ رہا ہے اس نے سب سے پہلے یہ رسم ایجاد کی تھی ۔ وصیلہ وہ اونٹنی ہے جس کے پلوٹھے دو بچے اوپر تلے کے مادہ ہوں ان دونوں کے درمیان کوئی نر اونٹ پیدا نہ ہوا ہو اسے بھی وہ اپنے بتوں کے نام وقف کر دیتے تھے ۔ حام اس نر اونٹ کا نام تھا جس کی نسل سے کئی بچے ہو گئے ہوں پھر اسے بھی اپنے بزرگوں کے نام پر چھوڑ دیتے تھے اور کسی کام میں نہ لیتے تھے ، ایک حدیث میں ہے کہ میں نے جہنم کو دیکھا اس کا ایک حصہ دوسرے کو گویا کھائے جا رہا تھا اس میں میں نے عمرو کو دیکھا کہ اپنی آنتیں گھسیٹا پھرتا ہے اسی نے سائبہ کا رواج سب سے پہلے نکالا تھا ایک حدیث میں ہے حضور نے عمورو کا یہ ذکر حصرت اکتم بن جون رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کر کے فرمایا وہ صورت و شکل میں بالکل تیرے جسیا ہے اس پر حضرت اکتم نے فرمایا یا رسول اللہ کہیں یہ مشابہت مجھے نقصان نہ پہنچائے؟ آپ نے فرمایا نہیں بےفکر رہو وہ کافر تھا تم مسلمان ہو ۔ اسی نے حضرت ابراہیم کے دین کو سب سے پہلے بدلا اسی نے بحیرہ ، سائبہ اور حام کی رسم نکالی ، اسی نے بت پرستی دین ابراہیمی میں ایجاد کی ، ایک روایت میں ہے یہ بنو کعب میں سے ہے ، جہنم میں اس کے جلنے کی بد بو سے دوسرے جہنمیوں کو بھی تکلیف پہنچتی ہے ، بحیرہ کی رسم کو ایجاد کرنے والا بنو مدلج کا ایک شخص تھا اس کی دو انٹنیاں تھیں جن کے کان کاٹ دیئے اور دودھ حرام کر دیا پھر کچھ عرصہ کے بعد پینا شروع کر دیا ، میں نے اسے بھی دوزخ میں دیکھا دونوں اونٹنیاں اسے کاٹ رہی تھیں اور روند رہی تھیں یاد رہے کہ یہ عمر ولحی بن قمعہ کا لڑکا ہے جو خزاعہ کے سرداروں میں سے ایک تھا قبیلہ جرہم کے بعد بیت اللہ شریف کی تولیت انہی کے پاس تھی یہی شخص عرب میں بت لایا اور سفلے لوگوں میں ان کی عبادت جاری کی اور بہت سی بدعتیں ایجاد کیں جن میں سے چوپایوں کو الگ الگ طریقے سے بتوں کے نام کرنے کی رسم بھی تھی ۔ جس کی طرف اشارہ آیت آیت ( وَجَعَلُوْا لِلّٰهِ مِمَّا ذَرَاَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْاَنْعَامِ نَصِيْبًا فَقَالُوْا ھٰذَا لِلّٰهِ بِزَعْمِهِمْ وَھٰذَا لِشُرَكَاۗىِٕنَا ۚ فَمَا كَانَ لِشُرَكَاۗىِٕهِمْ فَلَا يَصِلُ اِلَى اللّٰهِ ۚ وَمَا كَانَ لِلّٰهِ فَهُوَ يَصِلُ اِلٰي شُرَكَاۗىِٕهِمْ ۭسَاۗءَ مَا يَحْكُمُوْنَ ) 6 ۔ الانعام:136 ) میں ہے ۔ ابن عباس سے مروی ہے کہ اونٹنی کے جب پانچ بچے ہوتے تو پانچواں اگر نر ہوتا تو اسے ذبح کر ڈالتے اور اس کا گوشت صرف مرد کھاتے عورتوں پر حرام جانتے اور اگر مادہ ہوتی تو اس کے کان کاٹ کر اس کا نام بحیرہ رکھتے ۔ سائبہ کی تفسیر میں مجاہد سے اسی کے قریب قریب بکریوں میں مروی ہے ۔ محمد بن اسحاق کا قول ہے کہ جس اونٹنی کے پے در پے دس اونٹنیاں پیدا ہوتیں اسے چھوڑ دیتے نہ سواری لیتے نہ بال کاٹتے نہ دودھ دوہتے اور اسی کا نام سائبہ ہے ۔ صرف مہمان کے لئے تو دودھ نکال لیتے ورنہ اس کا دودھ یونہی رکا رہتا ، ابو روق کہتے ہیں یہ نذر کا جانور ہوتا تھا جب کسی کی کوئی حاجت پوری ہو جاتی تو وہ اپنے بت اور بزرگ کے نام کوئی جانور آزاد کر دیتا پھر اس کی نسل بھی آزاد سمجھی جاتی ، سدی کہتے ہیں اگر کوئی شخص اس جانور کی بےحرمتی کرتا تو اسے یہ لوگ سزا دیتے ، ابن عباس سے مروی ہے کہ وصیلہ اس جانور کو کہتے ہیں کہ مثلاً ایک بکری کا ساتواں بچہ ہے اب اگر وہ نر ہے اور ہے مردہ تو اسے مرد عورت کھاتے اور اگر وہ مادہ ہے تو اسے زندہ باقی رہنے دیتے اور اگر نر مادہ دونوں ایک ساتھ ہوئے ہیں تو اس نر کو بھی زندہ رکھتے اور کہتے کہ اس کے ساتھ اس کی بہن ہے اس نے اسے ہم پر حرام کر دیا ۔ حضرت سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ جس اونٹنی کے مادہ پیدا ہو پھر دوسرا بچہ بھی مادہ ہو تو اسے وصیلہ کہتے تھے ، محمد بن اسحاق فرماتے ہیں جو بکری پانچ دفعہ دو دو مادہ بکریاں بچے دے اس کا نام وصیلہ تھا پھر اسے چھوڑ دیا جاتا تھا اس کے بعد اس کا جو بچہ ہوتا اسے ذبح کر کے صرف مرد کھا لیتے اور اگر مردہ پیدا ہوتا تو مرد عورت سب کا حصہ سمجھا جاتا ، ابن عباس فرماتے ہیں حام اس نر اونٹ کو کہتے ہیں جس کی نسل سے دس بچے پیدا ہو جائیں یہ بھی مردوی ہے کہ جس کے بچے سے کوئی بچہ ہو جائے اسے وہ آزاد کر دیتے نہ اس پر سواری لیتے نہ اس پر بوجھ لادتے ، نہ اس کے بال کام میں لیتے نہ کسی کھیتی یا چارے یا حوض سے اسے روکتے ، اور اقوال بھی ہیں ، حضرت مالک بن نفلہ فرماتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت میں پھٹے پرانے میلے کچیلے کپڑے پہنے ہوئے تھا آپ نے مجھے دیکھ کر فرمایا تیرے پاس کچھ مال بھی ہے؟ میں نے کہا ہاں ، فرمایا کس قسم کا کہا ہر قسم کا اونٹ بکریاں گھوڑے غلام وغیرہ آپ نے فرمایا پھر تو اللہ نے تجھے بہت کچھ دے رکھا ہے سن اونٹ کے جب بچہ ہوتا ہے تو صحیح سالم کان والا ہی ہوتا ہے؟ میں نے کہا ہاں آپ نے فرمایا پھر تو استرالے کر ان کے کان کاٹ دیتا ہے اور ان کا نام بحیرہ رکھ دیتا ہے؟ اور بعض کے کان چیر کر انہیں حرام سمجھنے لگتا ہے؟ میں نے کہا جی ہاں ۔ فرمایا خبردار ایسا نہ کرنا اللہ نے تجھے جتنے جانور دے رکھے ہیں سب حلال ہیں ۔ پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی ، بحیرہ وہ ہے جس کے کان کاٹ دیئے جاتے تھے پھر گھر والوں میں سے کوئی بھی اس سے کسی قسم کا فائدہ نہیں اٹھا سکتا تھا ہاں جب وہ مر جاتا تو سب بیٹھ کر اس کا گوشت کھا جاتے ، سائبہ اس جانور کو کہتے ہیں جسے اپنے معبودوں کے پاس لے جا کر ان کے نام کا کر دیتے تھے ۔ وصیلہ اس بکری کو کہتے تھے جس کے ہاں ساتویں دفعہ بچہ ہو اس کے کان اور سینگ کاٹ کر آزاد کر دیتے ، اس روایت کے مطابق تو حدیث ہی میں ان جانورون کی تفصیل ملی جلی ہے ایک روایت میں یہ بقول حضرت عوف بن مالک مروی ہے اور یہی زیادہ ٹھیک ہے پھر فرمان قرآن ہے کہ یہ نام اور چیزیں اللہ کی مقرر کردہ نہیں نہ اس کی شریعت میں داخل ہیں نہ ذریعہ ثواب ہیں یہ لوگ اللہ کی پاک صاف شریعت کی طرف دعوت دیئے جاتے ہیں تو اپنے باب دادوں کے طریقوں کو اس کے مقابلے میں پیش کرتے ہیں حالانکہ ان کے بڑے محض ناواقف اور بےراہ تھے ان کی تابعداری تو وہ کرے گا جو ان سے بھی زیادہ بہکا ہوا اور بےعقل ہو ۔
103۔ 1 یہ ان جانوروں کی قسمیں ہیں جو اہل عرب اپنے بتوں کی نذر کردیا کرتے تھے۔ ان کی مختلف تفسریں کی گئی ہیں۔ حضرت سعید بن مسیب (رض) سے صحیح بخاری میں اس کی تفسیر حسب ذیل نقل کی گئی ہے وہ جانور جس کا دودھ دوہنا چھوڑ دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ بتوں کے لئے ہے۔ چناچہ کوئی شخص اس کے تھنوں کو ہاتھ نہ لگاتا، وہ جانور، جسے بتوں کے لئے آزاد چھوڑ دیتے تھے اسے نہ سواری کے لئے استعمال کرتے اور نہ بار برداری کے لئے، جس سے پہلی دفعہ مادہ پیدا ہوتی اور اس کے بعد دوبارہ بھی مادہ ہی پیدا ہوتی یعنی ایک مادہ کے بعد دوسری مادہ مل گئی، ان کے درمیان کسی نر سے تفریق نہیں ہوئی، ایسی اونٹنی کو بھی بتوں کے لئے آزاد چھوڑ دیتے تھے، بتوں کے لئے یہ نذر نیاز پیش کرنے کا سلسلہ آج بھی مشرکوں میں بلکہ بہت سے نام نہاد مسلمانوں میں بھی قائم و جاری ہے۔
[١٥١] بحیرہ سائبہ وصیلہ حام کی رسوم :۔ سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ بحیرہ وہ دودھ دینے والا جانور ہے جس کا دودھ بتوں کے نام پر روک دیا جائے کہ کوئی اس کا دودھ نہ دوہے۔ سائبہ وہ جانور ہے جسے بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے اس پر کوئی نہ بوجھ لادتا نہ سواری کرتا (یعنی سانڈ) وصیلہ وہ اونٹنی ہے جو پہلی بار بھی مادہ جنے اور دوسری بار بھی ایسی اونٹنی کو بھی وہ بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے تھے اور حام وہ نر اونٹ ہے جس کے نطفہ سے دس بچے پیدا ہوچکے ہوں۔ اسے بھی بتوں کے نام پر بطور سانڈ چھوڑ دیا جاتا تھا۔ سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ سیدنا ابوہریرہ (رض) نے کہا کہ آپ نے فرمایا میں نے عمرو بن عامر خزاعی کو دیکھا کہ وہ دوزخ میں اپنی انتڑیاں گھسیٹتا پھرتا ہے۔ سانڈ کی رسم سب سے پہلے اسی نے نکالی تھی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر)- جس عمرو بن عامر خزاعی کا نام اس حدیث میں آیا ہے ایک دوسری روایت میں اس کا نام عمرو بن لحی خزاعی بھی مذکور ہے۔ یہ شخص آپ کی بعثت سے تقریباً تین سو سال پہلے مکہ کا فرمانروا بن گیا تھا۔ اس نے دین ابراہیمی میں بہت سی خرافات شامل کردیں۔ بہت سی حلال چیزوں کو حرام اور حرام چیزوں کو حلال کردیا۔ مکہ مکرمہ میں بت پرستی کو بھی اسی نے رواج دیا تھا۔ اور ہوتا یہ ہے کہ امراء و سلاطین یا بڑے لوگ بد رسمیں ایجاد کرتے ہیں اور ان کے زیر لوگ انہیں قبول اور پسند کرنے لگتے ہیں۔ پھر آہستہ آہستہ یہی بد رسوم دین کا حصہ سمجھی جانے لگتی ہیں۔- مزید ستم ظریفی یہ تھی کہ ایسی مشرکانہ رسوم کی ایجاد تو ان کے بڑے بزرگ کرتے تھے مگر ان کے پچھلے اسے اللہ سے منسوب کردیتے کہ اللہ نے ایسا حکم دیا ہے اور جہلاء جن کی ہر معاشرہ میں عموماً اکثریت ہوتی ہے ان کے اس افتراء کو تسلیم کرلیتے تھے اس طرح ایسی رسوم رواج پا جاتی تھیں۔ اسی بات کی تردید میں اللہ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔
مَا جَعَلَ اللّٰهُ مِنْۢ بَحِيْرَةٍ ۔۔ : اوپر کی آیات میں ایسی باتوں کو کرید کرنے اور ایسے سوال کرنے سے منع فرمایا جو لوگوں پر لازم نہیں کی گئیں، اب اس آیت میں ایسے کام اپنے اوپر لازم کرلینے سے منع فرمایا جو اللہ کی طرف سے لازم نہ ہوں۔ (کبیر) - اہل عرب زمانۂ جاہلیت میں بتوں کے نام پر جانور چھوڑ دیتے، پھر ان سے فائدہ اٹھانا حرام سمجھتے۔ یہاں چار قسم کے جانور بیان کیے ہیں، سعید بن مسیب (رض) فرماتے ہیں : 1 ” بحیرہ “ وہ جانور ہے جس کا دودھ بتوں کے لیے روک لیا جاتا، پھر لوگوں میں سے کوئی اسے نہیں دوھتا تھا۔ 2 ” سائبہ “ وہ جسے وہ اپنے معبودوں کے لیے کھلا چھوڑ دیتے اور اس پر کوئی چیز نہیں لادی جاتی تھی۔ 3 ” وصیلہ “ وہ اونٹنی جو پہلی دفعہ مادہ بچہ دیتی، پھر دوسری بار بھی مادہ بچہ دیتی، وہ اسے اپنے بتوں کے نام پر آزاد چھوڑ دیتے ( کیونکہ وصیلہ وصل سے نکلا ہے) یہ نام اس لیے رکھتے کہ اس نے دو مادہ بچے یکے بعد دیگرے جنے ہیں، بیچ میں نر نہیں ہے۔ 4 ” حام “ وہ سانڈ اونٹ جس کے جفتی کرنے سے اونٹنیوں کی ایک مخصوص تعداد حاملہ ہوتی، اسے وہ اپنے بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے اور اس پر کوئی چیز نہ لادتے اور اس کا نام ” حامی “ رکھتے۔ سعید بن مسیب (رض) ابوہریرہ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” میں نے عمرو بن عامر خزاعی کو دیکھا کہ وہ اپنی انتڑیاں آگ میں کھینچ رہا تھا، یہ پہلا شخص تھا جس نے سائبہ چھوڑنے کی رسم نکالی تھی۔ “ [ بخاری، التفسیر، باب : ( ما جعل اللہ من بحیرۃ ۔۔ ) : ٤٦٢٣ ] بحیرہ، سائبہ وغیرہ کی یہ تفسیر سعید بن مسیب (رض) نے کی ہے، مشرکین عرب کسی ایک دین پر تو متفق تھے نہیں، خصوصاً بدعات ہر قبیلے کی الگ الگ ہوتی ہیں، اس لیے تابعین سے ان چاروں کی تفسیر اور بھی آئی ہے، چناچہ بعض نے فرمایا کہ بحیرہ وہ ہے جس کا کان بتوں کے نام پر پھاڑا ہوا ہو۔ یہ ” بحر “ سے ” فَعِیْلَۃٌ“ بمعنی ” مَفْعُوْلَۃٌ“ ہے، جس کا معنی شق یعنی پھاڑنا ہے۔ سائبہ آزاد چھوڑی ہوئی، جس اونٹنی کے پیٹ سے دس بچے سب کے سب مؤنث پیدا ہوتے تو اسے چھوڑ دیتے، نہ اس پر سواری کی جاتی نہ اس کے بچے اور مہمان کے سوا کوئی اس کا دودھ پیتا۔ وصیلہ دو مادہ بچے سات مرتبہ یکے بعد دیگرے لانے والی۔ حامی یعنی اپنی حفاظت کرنے والا، جس اونٹ کی پشت سے دس بچے پیدا ہوجاتے اسے سانڈ بنا کر چھوڑ دیتے کہ اس نے اپنی پشت محفوظ کرلی ہے، پھر اس پر نہ سواری کی جاتی نہ بوجھ لادا جاتا نہ اسے پانی یا چارے سے روکا جاتا۔ مزید ظلم یہ کرتے کہ ایسا کرنے کو اللہ کا حکم قرار دیتے۔ اللہ نے اس کی تردید ” مَا جَعَلَ اللّٰه “ کہہ کر فرمائی۔ ان کی دوسری تشریحات بھی تفسیر کی کتابوں میں مذکور ہیں اور اس کی وجہ اوپر گزر چکی کہ عرب کے جاہلوں میں سے ہر ایک کا الگ ہی طریقہ تھا۔ غیر اللہ کے نام پر جانور چھوڑنے کا یہ سلسلہ اب بھی کفار کے علاوہ نام نہاد مسلمانوں میں جاری ہے، مثلاً پیروں کی گائیں، یا مختلف درباروں کے نام کے جانور جہاں چاہیں پھریں، انھیں کچھ نہیں کہا جاتا۔
بحیرہ سائبہ وغیرہ کی تعریف - بحیرہ، سائبہ وصیلہ، حامی، یہ سب زمانہ جاہلیت کے رسوم و شعائر سے متعلق ہیں، مفسرین نے ان کی تفسیر میں بہت اختلاف کیا ہے، ممکن ہے ان میں سے ہر ایک لفظ کا اطلاق مختلف صورتوں پر ہوتا ہو، ہم صرف سعید بن المسیب کی تفسیر صحیح بخاری سے نقل کرتے ہیں۔- بحیرہ : جس جانور کا دودھ بتوں کے نام پر وقف کردیتے تھے، کوئی اپنے کام میں نہ لاتا تھا۔- سائبہ : جو جانور بتوں کے نام پر ہمارے زمانہ کے سانڈ کی طرح چھوڑ دیا جاتا تھا۔- حامی : نر اونٹ جو ایک خاص عدد سے جفتی کرچکا ہو، اسے بھی بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے تھے۔- وصیلہ : جو اونٹنی مسلسل مادہ بچہ جنے درمیان میں نر بچہ پیدا نہ ہو اسے بھی بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے تھے۔- علاوہ اس کے کہ یہ چیزیں شعائر شرک میں سے تھیں جس جانور کے گوشت یا دودھ یا سواری وغیرہ سے منتفع ہونے کو حق تعالیٰ نے جائز رکھا اس کی حلت و حرمت پر اپنی طرف سے قیود لگانا گویا اپنے لئے منصب تشریع تجویز کرنا تھا، اور بڑی ستم ظریفی یہ تھی کہ اپنی ان مشرکانہ رسوم کو حق تعالیٰ کی خوشنودی اور قربت کا ذریعہ تصور کرتے تھے، اس کا جواب دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے ہرگز یہ رسوم مقرر نہیں کیں ان کے بڑوں نے خدا پر یہ بہتان باندھا، اور اکثر بےعقل عوام نے اسے قبول کرلیا، الغرض یہاں یہ تنبیہ کی گئی کہ جس طرح فضول و بےکار سوالات کرکے احکام شرعیہ میں تنگی اور سختی کرنا جرم ہے اس سے کہیں بڑھ کر یہ جرم ہے کہ بدون حکم شارع کے محض اپنی آراء و ہواء سے حلال و حرام تجویز کر لئے جائیں (فوائد عثمانی رحمة اللہ علیہ)
مَا جَعَلَ اللہُ مِنْۢ بَحِيْرَۃٍ وَّلَا سَاۗىِٕبَۃٍ وَّلَا وَصِيْلَۃٍ وَّلَا حَامٍ ٠ۙ وَّلٰكِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا يَفْتَرُوْنَ عَلَي اللہِ الْكَذِبَ ٠ۭ وَاَكْثَرُہُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ ١٠٣- بحر - أصل البَحْر : كل مکان واسع جامع للماء الکثير، هذا هو الأصل، ثم اعتبر تارة سعته - المعاینة، فيقال : بَحَرْتُ كذا : أوسعته سعة البحر، تشبيها به، ومنه : بَحرْتُ البعیر : شققت أذنه شقا واسعا، ومنه سمیت البَحِيرَة . قال تعالی: ما جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ [ المائدة 103] ، وذلک ما کانوا يجعلونه بالناقة إذا ولدت عشرة أبطن شقوا أذنها فيسيبونها، فلا ترکب ولا يحمل عليها، وسموا کلّ متوسّع في شيء بَحْراً ، حتی قالوا : فرس بحر، باعتبار سعة جريه، وقال عليه الصلاة والسلام في فرس ركبه : «وجدته بحرا» «1» وللمتوسع في علمه بحر، وقد تَبَحَّرَ أي : توسع في كذا، والتَبَحُّرُ في العلم : التوسع واعتبر من البحر تارة ملوحته فقیل : ماء بَحْرَانِي، أي : ملح، وقد أَبْحَرَ الماء . قال الشاعر :- 39-- قد عاد ماء الأرض بحرا فزادني ... إلى مرضي أن أبحر المشرب العذب - «2» وقال بعضهم : البَحْرُ يقال في الأصل للماء الملح دون العذب «3» ، وقوله تعالی: مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هذا عَذْبٌ فُراتٌ وَهذا مِلْحٌ أُجاجٌ [ الفرقان 53] إنما سمي العذب بحرا لکونه مع الملح، كما يقال للشمس والقمر : قمران، وقیل السحاب الذي كثر ماؤه : بنات بحر «4» . وقوله تعالی: ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ- [ الروم 41] قيل : أراد في البوادي والأرياف لا فيما بين الماء، وقولهم : لقیته صحرة بحرة، أي : ظاهرا حيث لا بناء يستره .- ( ب ح ر) البحر - ( سمندر ) اصل میں اس وسیع مقام کو کہتے ہیں جہاں کثرت سے پانی جمع ہو پھر کبھی اس کی ظاہری وسعت کے اعتبار سے بطور تشبیہ بحرت کذا کا محارہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی سمندر کی طرح کسی چیز کو وسیع کردینا کے ہیں اسی سے بحرت البعیر ہے یعنی میں نے بہت زیادہ اونٹ کے کان کو چیز ڈالا یا پھاڑ دیا اور اس طرح کان چر ہے ہوئے اونٹ کو البحیرۃ کہا جا تا ہے قرآن میں ہے ما جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ [ المائدة 103] یعنی للہ تعالیٰ نے بحیرہ جانور کا حکم نہیں دیا کفار کی عادت تھی کہ جو اونٹنی دس بچے جن چکتی تو اس کا کان پھاڑ کر بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے نہ اس پر سواری کرتے اور نہ بوجھ لادیتے ۔ اور جس کو کسی صنعت میں وسعت حاصل ہوجائے اسے بحر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ بہت زیادہ دوڑ نے والے گھوڑے کو بحر کہہ دیا جاتا ہے ۔ آنحضرت نے ایک گھوڑے پر سواری کے بعد فرمایا : ( 26 ) وجدتہ بحرا کہ میں نے اسے سمندر پایا ۔ اسی طرح وسعت علمی کے اعتبار سے بھی بحر کہہ دیا جاتا ہے اور تبحر فی کذا کے معنی ہیں اس نے فلاں چیز میں بہت وسعت حاصل کرلی اور البتحرفی العلم علم میں وسعت حاصل کرنا ۔ اور کبھی سمندر کی ملوحت اور نمکین کے اعتبار سے کھاری اور کڑوے پانی کو بحر انی کہد یتے ہیں ۔ ابحرالماء ۔ پانی کڑھا ہوگیا ۔ شاعر نے کہا ہے : ( 39 ) قدعا دماء الا رض بحر فزادنی الی مرض ان ابحر المشراب العذاب زمین کا پانی کڑوا ہوگیا تو شریں گھاٹ کے تلخ ہونے سے میرے مرض میں اضافہ کردیا اور آیت کریمہ : مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هذا عَذْبٌ فُراتٌ وَهذا مِلْحٌ أُجاجٌ [ الفرقان 53] بحرین ھذا عذاب فرات ولھذا وھذا ملح اجاج ( 25 ۔ 53 ) دو دریا ایک کا پانی شیریں ہے پیاس بجھانے والا اور دوسرے کا کھاری ہے چھاتی جلانے والا میں عذاب کو بحر کہنا ملح کے بالمقابل آنے کی وجہ سے ہے جیسا کہ سورج اور چاند کو قمران کہا جاتا ہے اور بنات بحر کے معنی زیادہ بارش برسانے والے بادلوں کے ہیں ۔ اور آیت : ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ الروم 41] کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ بحر سے سمندر مراد نہیں ہے بلکہ بر سے جنگلات اور بحر سے زرخیز علاقے مراد ہیں ۔ لقیتہ صحرۃ بحرۃ میں اسے ایسے میدان میں ملا جہاں کوئی اوٹ نہ تھی ؟ - ( سائبة)- ، لفظة اسم فاعل من ساب يسيب بمعنی جری، وقیل هو فاعلة بمعنی مفعولة أي مسيّبة، كما قيل ماء دافق بمعنی مدفوق .- ( وصیلة)- ، صفة مشبّهة باسم الفاعل، وزنها فعیلة وهي من الشاة أو الإبل علی خلاف .- وقوله : ما جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ وَلا سائِبَةٍ وَلا وَصِيلَةٍ وَلا حامٍ- [ المائدة 103] وهو أنّ أحدهم کان إذا ولدت له شاته ذکرا وأنثی قالوا : وَصَلَتْ أخاها، فلا يذبحون أخاها من أجلها، وقیل : الوَصِيلَةُ : العمارة والخصب،- اور آیت : ۔ وَلا وَصِيلَةٍ وَلا حامٍ [ المائدة 103] اور نہ وصیلہ ہے ۔ میں وصیلہ سے مراد وہ بکری ہے جو دو دومادینہ بچے دینے کے بعد ساتویں بطن میں ایک نر اور ایک مادہ بچہ دے ۔ ( جاہلیت میں ) اس مادہ کی وجہ سے زبچہ کو بھی ذبحہ نہ کرتے اور کہتے کہ وصلت اخاھا کہ یہ اپنے بھائی سے مل گئی ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ الوصلۃ کے معنی آبادی اور زرخیزی کے ہیں اور وسیع زمین کو بھی الوصیلۃ کہا جاتا ہے ۔ محاورہ ہے : ۔ ھذا وصل ھذا ۔ یعنی ( یہ اس کی مثل ہے یہ اس کا صلہ ہے - ( حام)- ، اسم فاعل من حمی يحمي أي منع، وفيه إعلال بالحذف لأنه اسم منقوص حذف منه لامه للتنوین، وزنه فاع . وقوله عزّ وجل : وَلا حامٍ [ المائدة 103] ، قيل : هو الفحل إذا ضرب عشرة أبطن كأن يقال : حَمَى ظَهْرَه فلا يركب وأحماء المرأة : كلّ من کان من قبل زوجها وذلک لکونهم حُمَاة لها، وقیل : حَمَاهَا وحَمُوهَا وحَمِيهَا، وقد همز في بعض اللغات - اور آیت کریمہ ؛۔ وَلا حامٍ [ المائدة 103] اور نہ حام ۔ میں بعض کے نزدیک حام سے وہ نرا اونٹ مراد ہے جس کی پشت سے دن بچے پیدا ہوچکے ہوں ( اس کے متعلق ) کہہ دیا جاتا تھا حمی ظھرہ فلا یرکب اس کی پشت محفوظ لہذا اس پر کوئی سوار نہ ہو۔ احماء المرءۃ خاوند کی طرف سے عورت کے رشتہ دار کیونکہ وہ اس کی حفاظت کرتے ہیں اضافت کے وقت تینوں حالتوں میں حماھا وحموھا وحمیھا کہاجاتا ہے بعض حما ( مہموز ) بھی بولتے ہیں جیسا کہ کما ہے ۔- فری - الفَرْيُ : قطع الجلد للخرز والإصلاح، والْإِفْرَاءُ للإفساد، والِافْتِرَاءُ فيهما، وفي الإفساد أكثر، وکذلک استعمل في القرآن في الکذب والشّرک والظّلم . نحو : وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء 48] ، - ( ف ری ) الفری ( ن )- کے معنی چمڑے کو سینے اور درست کرنے کے لئے اسے کاٹنے کے ہیں اور افراء افعال ) کے معنی اسے خراب کرنے کے لئے کاٹنے کے ۔ افتراء ( افتعال کا لفظ صلاح اور فساد دونوں کے لئے آتا ہے اس کا زیادہ تر استعمال افسادی ہی کے معنوں میں ہوتا ہے اسی لئے قرآن پاک میں جھوٹ شرک اور ظلم کے موقعوں پر استعمال کیا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔- وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء 48] جس نے خدا کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا ۔ - كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے - عقل - العَقْل يقال للقوّة المتهيّئة لقبول العلم، ويقال للعلم الذي يستفیده الإنسان بتلک القوّة عَقْلٌ ، وهذا العقل هو المعنيّ بقوله : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] ،- ( ع ق ل ) العقل - اس قوت کو کہتے ہیں جو قبول علم کے لئے تیار رہتی ہے اور وہ علم جو اس قوت کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی عقل کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] اور سے توا ہل دانش ہی سمجھتے ہیں
قول باری ہے (ماجعل اللہ من بحیرۃ ولا سائبۃ ولا وصیلۃ ولا حام، اللہ تعالیٰ نے نہ کوئی بحیرہ مقرر کیا ہے نہ سائبہ نہ وصیلہ اور نہ حام) زہری کا قول ہے کہ بحیرہ اس اونٹنی کو کہتے تھے جس کا دودھ خدائوں کے نام کردیا جاتا تھا۔ سائبہ اس اونٹنی یا اونٹ کو کہتے تھے جسے خدائوں کے نام پر آزاد چھوڑ دیاجاتا تھا۔- وصیلہ اس اونٹنی کا نام تھا جو پہلی دفعہ مادہ بچہ جنتی پھر دوسری دوسری بار بھی مادہ بچہ جنتی، ایسی اونٹنی کا نام وصیلہ رکھتے اور کہتے کہ اس نے پے در پے دو دفعہ مادہ بچہ جنا ہے جن کے درمیان کوئی نر بچہ نہیں جنا گیا پھ روہ اسے اپنے خدائوں کے نام ذبح کردیتے۔ حامی اس نر اونٹ کو کہتے تھے جو ایک خاص عدد تک مادہ سے جفتی ہوتا جب وہ اتنی تعداد پوری کرلیتا تو کہا جاتا کہ اس نے اپنی پشت کو اب محفوظ کر یا ہے پھر اسے چھوڑ دیا جاتا اور اسے حامی کے نام سے پکارا جاتا۔ اہل لغت کا قول ہے کہ بحیرہ اس اونٹنی کو کہتے ہیں جس کے کان پھاڑ دیئے جاتے۔ محاورہ ہے ” بحرت اذن الناقۃ، الحرھا یحرنا (میں نے اونٹنی کے کان پھاڑ دیئے) ایسی اونٹنی مبحور ہ ہوتی۔- بحیرہ اس وقت کہلاتی جب اس کے کان ذرا کشادہ کر کے پھاڑ دیئے جاتے۔ اسی سے بحر کا اسم نکلا ہے۔ اسے اس کی وسعت اور کشادگی کی بنا پر بحر یعنی سمندر کہتے ہیں۔ اہل لغت کا قول ہے کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ بحیرہ کی تحریم و تعظیم کے قائل تھے۔- بحیرہ پانی دفعہ بچے جنتی اور آخری دفعہ پیدا ہونے والا بچہ نر ہوتا تو اس اونٹنی کے کان پھاڑ کر اسے چھوڑ دیتے ۔ پھر اس پر سواری کرنے اور اسے ذبح کرنے سے باز رہتے۔ اسے کسی چراگاہ میں چرنے سے اور کسی گھاٹ میں پانی پینے سے روکا نہیں جاتا۔ اگر کوئی لاچار و درماندہ انسان بھی اسے دیکھ لیتا تو اس پر سواری نہ کرتا۔- اہل لغت کے قول کے مطابق سائبہ اس اونٹنی کا نام ہے جسے آزاد چھوڑ دیا جاتا۔ زمانہ جاہلیت میں یہ دستور تھا کہ جب کوئی شخص سفر سے واپس یا بیماری سے صحت یابی کی نذر مان لیتا یا اس قسم کی کوئی اور نذر اپنے اوپر لازم کرلیتا تو کہہ دیتا کہ میری اونٹنی سائبہ ہے پھر یہ اونٹنی بحیرہ کی طرح ہوجاتی یہ آزادانہ طور پر پھرتی رہتی، اس کی سواری، اس کا دودھ وغیرہ ممنوع ہوتا۔- اسی طرح اگر کوئی شخص غلام آزاد کرتے وقت کہہ دیتا کہ یہ سائبہ ہے تو پھر آقا اور آزاد کردہ غلام کے درمیان نہ ولاء ہوتی نہ ایک دوسرے کی وراثت حاصل کرسکتے اور نہ ہی ایک دوسرے کے جرم کا تاوان بھرتے۔- وصیلہ کے متعلق بعض اہل لغت کا قول ہے کہ یہ بکری یا بھیڑ کے مادہ بچے کا نام ہے۔ جو نر بچے کے ساتھ پیدا ہوتی اس وقت لوگ کہتے کہ یہ مادہ اپنے نر بھائی کے ساتھ آئی ہے پھر وہ اس نر کو ذبح نہ کرتے۔ ایک قول یہ ہے کہ بکری جب مادہ بچہ دیتی تو اسے رکھ لیتے اور جب نر بچہ دیتی تو اسے خدائوں کے نام پر ذبح کردیتے۔- اہل لغت کا قول ہے کہ حامی اس اونٹ کو کہتے ہیں جس کے نطفے سے دس بچے پیدا ہوچکے ہوں۔ اس وقت لوگ یہ کہتے کہ اس اونٹ نے اب اپنی پشت محفوظ کرلی ہے ۔ پھر اس کی سواری نہ کی جاتی نہ ہی اسے گھاٹ میں پانی پینے اور کسی چراگاہ میں چرنے سے روکا جاتا۔- اللہ تعالیٰ نے بحیرہ اور سائبہ وغیرہ کے متعلق اہل جاہلیت کے من گھڑت عقائد کی خبر دی ہے۔ یہ آیت کسی غلام کو سائبہ کے طور پر آزاد کردینے کے بطلان پر دلالت کرتی ہے۔ اس سے ان لوگوں کا قول بھی باطل ہوجاتا ہے کہ جو یہ کہتے ہیں کہ جس شخص نے اپنا غلام بطور سائبہ آزاد کردیا تو اسے اس کی دلاء حاصل نہیں ہوگی بلکہ اس کی ولاء مسلمانوں کو حاصل ہوگی۔ یہ بات اس لئے غلط ہے کہ اہل جاہلیت یہی عقیدہ رکھتے تھے جسے اللہ تعالیٰ نے باطل قرار دیا اور ارشاد ہوا (ولا سائبۃ) پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد (الولاء ملن اعتق ولاء ولاء اسے حاصل ہوگی جس نے آزادی دی ہو) اس کی مزید تاکید کرتا ہے۔- امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا بیان - ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی فرصیت کی اپنی کتاب میں کئی مواقع پر تاکید فرمائی ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے روایات متواترہ میں اسے بیان فرمایا ہے۔ سلف اور فقہاء امصار کا اس کے وجوب پر اجماع ہے۔ اگرچہ بعض دفعہ ایسے حالات پیش آ جائیں جن میں جان بچانے کی خاطر خاموشی کی گنجائش بھی نکل اتٓی ہے۔- اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے لقمان (علیہ السلام) کی بات نقل کرتے ہوئے فرمایا (یا بنی اقم الصلوۃ و امر بالمعروف وانہ عن المنکر واصبر علی ما اصبک ، اے میرے بیٹے نماز قائم کرو، نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکو اور جو تکلیف تمہیں پہنچے اس پر صبر کرو۔ )- یعنی … واللہ اعلم … امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے سلسلے میں جو تکالیف تمہیں پیش انہیں برداشت کرلو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندے کی یہ بات ہم سے اس لئے نقل کی ہے کہ ہم بھی اس کی پر یوی کریں اور اس طریق کار کو اپنا لیں۔ اللہ تعالیٰ نے سلف صالحین یعنی صحابہ کرام کی مدح سرائی کرتے ہوئے فرمایا۔- (التائبون العابدون، یہ توبہ کرنے والے ہیں، عبادت گذار ہیں) تاقول باری (الا مرون بالمعروف والناھون عن المنکروا الحافظون لحدود اللہ، نیکی کا حکم دینے والے برائی سے روکنے والے اور اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے ہیں)- نیز قول باری ہے (کانوا لایتناھون عن منکر فعلوہ لبئس ماکانوا یفعلون جس برائی کا یہ ارتکاب کرتے اس سے ایک دوسرے کو منع نہ کرتے۔ بہت ہی بری تھی وہ بات جو یہ کرتے تھے۔ - ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابو دائود نے، انہیں محمد بن علاء اور ھناد بن السری نے، انہیں ابو معاویہ نے اعمش سے، انہوں نے اسمایعل بن رجاء سے، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے ابو سعید اور قیس بن مسلم سے، انہوں نے طارق بن شہاب سے، انہوں نے حضرت ابو سعید خدری سے، انہوں نے فرمایا کہ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ - (من رأی منکم منکراً فا ستطاع ان یغیرہ یدہ فلیغیرہ بیدہ فان لم یتطع فبلسانہ فان لم یستطع فبقلبہ و ذاکاضعف الایمان تم میں سے کوئی جب کوئی برائی دیکھے اور اسے اپنی ہاتھ یعنی قوت سے دور کرسکتا ہو تو اسے ہاتھ سے دو کر دے ۔ اگر اس سے اس کی طاقت نہ ہو تو اپنی زبان سے اسے دور کر دے ۔ اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو اپنے دل سے دور کر دے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔ )- ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے ، انہیں مسدد نے ، انہیں ابو الاحوض نے انہیں ابو اسحقٰ نے ابن جریر سے، انہوں نے حضرت جریر سے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا کہ - (مامن رجل یکون فی قوم یعمل فیھم بالمعاصی یقدرون علی ان یغیروا علیہ فلافیغیروا الا اصابھم اللہ بعذاب من قبل ان یموتوا ، جو شخص بھی کسی قوم کے اندر رہ کر معاصی کا ارتکاب کرتا ہو اور وہ قوم اسے ان معاصی سے روک دینے کی قدتر رکھتے ہوں اور پھر بھی نہ روکیں تو اللہ تعالیٰ انہیں ان کی موت سے پہلے عذاب میں مبتلا کر دے گا۔ )- اللہ تعالیٰ نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی فرضیت کو پانی کتاب میں اور اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے محکم اور پختہ کردیا۔ بعض ناسمجھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ یہ حکم منسوخ ہوچکا ہے یا کم از کم اس کا حکم خاص حالات تک محدود ہے، اس سلسلے میں انہوں نے قول باری (یایھا الذین امنوا علیکم انفسکم لا یضرکم من ضل اذا اھتدیتم، اے ایمان لانے والو اپنی جانوں کی فکر کرو، جو شخص گمراہ ہوجائے اس کا تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا جبکہ تم خود ہدایت پر ہو گے ) سے استدلال کیا ہے۔- اس آیت کی وہ تاویل نہیں ہے جو ان لوگوں نے اختیار کی ہے، اگر آیت کو قرینے سے الگ رکھا جائے وہ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (علیکم انفسکم) یعنی اپنی جانوں کی حفاظت کرو۔ جب تم ہدایت پر ہو گے تو گمراہ ہونے والا شخص تمہیں کوئی ضرر نہیں پہنچا سکے گا۔ ہدایت پر ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ ہم اپنی ذات کے لحاظ سے اللہ کے حکموں کی پیروی کریں۔ اس لئے آیت میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی فرضیت کے سقوط پر کوئی دلالت نہیں ہے۔- تاہم اس آیت کی تاویل میں مختلف روایات منقول ہیں جن میں اگرچہ ظاہراً اختلاف ہے لیکن معنی اور مفہوم کے لحاظ سے ان میں یکسانیت رہے۔ ایک روایت ہمیں جعفر بن محمد الواسطی نے بیان کی، انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے، انہیں ابوعبید نے، انہیں محمد بن زید الواسطی نے اسماعیل بن ابی خالد سے، انہوں نے قیس بن ابی حازم سے، انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت ابوبکر کو منبر پر یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ ” لوگو میں دیکھ رہا ہوں کہ تم اس آیت کا غلط مفہوم لیتے ہو میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے۔ آپ نے فرمایا تھا۔- (ان الناس اذا عمل فیھم بالمعاصی ولم یغیروا اوشک ان یعمھم اللہ بعقابہ، لوگوں کے اندر جب معاصی کا ارتکاب ہونے لگے اور وہ انہیں بدل نہ ڈالیں تو قریب ہے کہ اللہ انہیں ایسی سزا دے جس کی لپیٹ میں تمام لو گ آ جائیں۔ “- حضرت ابوبکر نے یہ بتایا کہ اس آی ت میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک کردینے کی کوئی رخصت موجود نہیں ہے۔ نیز یہ کہ جو شخص امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ کو ادا کرتے ہوئے ہدایت کی راہ پر ہو اسے کسی اور کی گمراہی کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔- ہمیں جعفر بن محمد نے روایت بیان کی، انہیں جعفر بن محمد بن الیما ن نے، انہیں ابو عبیدہ نے انہیں ہشیم نے ابوبشر انہوں نے سعید بن جبیر سے اس آیت کے بارے میں ان کا یہ قول نقل کیا کہ (من ضل) سے مراد اہل کتاب ہیں۔- ابوعبید نے کہا کہ ہمیں حجاج نے ابن جریج سے اور انہوں نے مجاہد سے اس آیت کے بارے میں بیان کیا کہ یہاں یہود و نصاریٰ اور ان کے سوا دوسرے گمراہ لوگ مراد ہیں۔ گویا سعید بن جبیر اور مجاہد نے یہ مسلک اختیار کیا کہ یہود و نصاریٰ سے جزیہ لے کر ان کے کفر پر انہیں بقررار رکھا گیا ہے اس لیء ان کا کفر ہمیں کوئی نقصا ن نہیں پہنچ سکتا کیونکہ خود ہم نے ان سے یہ عہد کیا ہے کہ ہم ان کے معتقدات سے تعرض نہیں کریں گے۔ اب ہمارے لئے انہیں اسلام لانے پر مجبور کرنا درست نہیں ہوگا۔ اس لئے ہم اگر ان سے پہلو تہی کریں تو اس سے ہمیں کوئی نقصان نہیں ہوگا ۔ لیکن معاصی، ظلم و جور اور فسق و فجور کے لئے انہیں کھلی چھٹی دے دینا تو اس کا کوئی جواز نہیں ہے۔ بلکہ تمام مسلمانوں پر انہیں دور کرنا اور مٹانا اور ان کا ارتکاب کرنے والوں پر اس طریقے سے نکیر کرنا فرض ہے جس کا ذکر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابو سعید خدری کی روایت میں کیا ہے ہم اس حدیث کا ذکر پہلے کر آئے ہیں۔- ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابو دائود نے، انہیں ابوالربیع سلیمان بن دائود العتکی نے انہیں ابن المبارک نے عتبہ بن حکیم سے، انہیں عمرو بن جاریہ اللخمی نے، انہیں ابوامیہ شعبانی نے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوثعلبہ الخثنی سے اس آی تکے متعلق ان کی رائے پوچھی، انہوں نے جواب میں فرمایا۔- ” تم نے یہ بات ایک ایسے شخص سے پوچھی ہے جسے اس آیت کے مفہوم و معنی کی پوری خبر ہے۔ یعنی میں اس کے مفہوم سے بخوبی وقاف ہوں، میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس آیت کے بارے میں پوچھا تھا تو آپ نے فرمایا تھا۔- (بل ائتمروا بالمعروف و تنا ھوا عن المنکر حتی اذا لایت شحا مطاعاً و ھوی متیعاد دینا و ثرۃ و اعجاب کل ذی رأی برأیہ فعلیک نفسک ودع عنک العوام وان من ورائکم ایام الصبر، الصبرفیہ کقبض علی الجمرلہ مل فیھا مثل اجر خمسین رجلا یعملون مثل عملہ۔- بلکہ تم آپ س میں ایک دوسرے کو نیکی کا حکم دیتے رہو اور ایک دوسرے کو برائیوں کا حکم دیتے رہو یہاں تک کہ جب دیکھو کہ بخل کی ہمنوائی کی جاتی ہے ، خواہشات کی پیروی ہوتی ہے ، دنیا کو ترجیح دی جاتی ہے، نیز ہر شخص کو پانی رائے اور اپنا رویہ پسند ہے تو پھر اس وقت اپنی جان کی فکر کرو اور اپنے آپ کو سنبھالا دو ، عوام کی فکر چھوڑ دو ۔ اس لئے کہ تم لوگوں پر صبر والے دن آنے والے ہیں۔ لیکن ان ایام میں صرب کرنا اور اپنے آپ کو قابو میں رکھنا اتنا ہی مشکل ہوگا جتنا انگاروں کو ہاتھ سے پکڑ لینا مشکل ہے۔ ان دنوں میں شریعت پر عامل انسان کو پچاس آدمیوں کے برابر اجر ملے گا جو اس کی طرح عمل کرتے ہوں گے۔ “- حضرت ابو ثعلبہ نے مزید فرمایا :” ایک دوسرے صاحب نے مزید سوال کیا کہ اللہ کے رسول جن پچاس آدمیوں کا اجر اس شخص کو ملے گا وہ ان میں سے ہوں گے ؟ “ آپ نے فرمایا :” نہیں تم میں سے پچاس آدمیوں کے اجر کے برابر اسے اجر ملے گا۔ “- اس حدیث میں امر بالمعروف کی فرضیت کے سقوط پر کوئی دلالت نہیں ہے جبکہ حالات ایسے ہوں جن کا حدیث میں ذکر ہے اس لئے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ان حالات کی نشاندہی کرنا اس پر دلالت کرتا ہے کہ معاشرہ میں فساد پھیل جانے اور عوام الناس پر اس کے غلبہ کی وجہ سے ہاتھ اور زبان سے برائی کو دور کرنا مشکل ہوجائے گا۔- ایسے حالات میں نہی عن المنکر کی فرضیت اس صورت میں یہ ہوگی کہ دل سے اسے برا سمجھے جس طرح آپ کا ارشاد ہے۔ (فلیغیرہ بیدہ فان لم یستطع فبلسانہ فان لم یستطع فبقلبہ)- جب حالات میں بگاڑ اس درجے تک پہنچ جائے جس کی طرف حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اشارہ فرمایا ہے تو پھر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی فرضیت کا تعلق دل کے ساتھ ہوگا۔- یعنی ایک برائی کو دل سے برا سمجھا جائے جب جان کا خطرہ ہو اور اس برائی کو بدل ڈالنا مشکل ہو۔ ایمان کو پوشیدہ رکھنا اور اس کا اظہار نہ کرنا ایسی صورت میں جائز ہوتا ہے جب جان کا خطرہ ہو۔ بشرطیکہ متعلقہ شخص کا دل ایمان پر پوری طرح مطمئن ہ۔- قول باری ہے (الا من اکرہ وقلبہ مطئمن بالایمان ) مگر وہشخص جسے کفر پر مجبور کیا جائے جبکہ اس کا دل ایمان پر پوری طر ح مطمئن ہو) امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا یہ مرتبہ اور مقام ہے ۔ اس سلسلے میں ایک اور پہلو سے بھی روایت موجود ہے۔- ہمیں جعفر بن محمد نے روایت کی ، انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے، انہیں ابو عبید نے، انہیں ابو مسہر نے عباد الخواص سے ، انہیں یحییٰ بن ابی عمرو الشیبانی نے وہ کہتے ہیں :” حضرت ابوالدرداء اور حضرت کعب جابیہ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک شخص ان کے پاس آ کر کہنے لگا کہ میں نے آج ایک ایسی بری بات دیکھی ہے کہ جو شخص اسے دیکھ لے اس پر اسے مٹانا فرض ہوجاتا ہے۔ یہ سن کر ساتھ بیٹھے ہوئے ایک شخص نے کہا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (یا یھا الذین امنوا علیکم انفسکم لا یضرکم من ضل اذا اھتدیتم)- حضرت کعب یہ سن کر کہنے لگے :” اس شخص نے کوئی پتے کی بات نہیں کی۔ “ پھر سائل سے مخاطب ہو کر کہا :” اے اللہ تعالیٰ کی حرمتوں کا دفاع کرتے رہو جس طرح تم اپنے خاندان کا دفاع کرتے ہو، یہاں تک کہ اس آی تپر عمل کرنے کا وقت آ جائے۔ “ یہ سن کر حضرت ابوالدرداء کے کان کھڑے ہوگئے آپ نے پوچھا ۔” وہ وقت کب آئے گا ؟ “ حضرت کعب کہنے لگے :” جب دمشق کا کنینسہ مسمار کردیا جائے گا اور اس کی جگہ مسجد تعمیر کردی جائے گی تو پھر اس آیت پر عمل کا وقت آ جائے گا۔ “- حضرت کعب نے مزید کہا :” جب تم ایسی عورتیں دیکھو جن کے بدن پر کپڑے ہوں گے لیکن اس کے باوجود وہ تن برہنہ ہوں گی تو پھر اس آیت پر عمل کا وقت آ جائے گا۔ “ راوی کہتے ہیں کہ حضرت کعب نے ایک تیسری بات کا بھی ذکر کیا تھا جسے میں یاد نہ رکھ سکا۔- ابو مسہر کہتے ہیں کہ خلیفہ ولید بن عبدالملک کے عہد میں شام کا گرجا مسمار کردیا گیا۔ ولید نے گرجا کی جگہ مسجد میں شامل کردی اور اس کے ذریعے مسجد کشاد ہ ہوگئی تھی ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ یہ …بھی پہلے حدیث کے مفہوم پر بایں معنی محمول ہے کہ جب ہاتھ اور زبان سے برائی کو دور کرنے میں کا خطرہ ہو تو ایسی صورت میں برائی کو دل سے برا سمجھا جائے۔- حجاج ایک ظالم حکمران تھا - ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ میں اپنی جان کی قسم کھا کہہ سکتا ہوں کہ عبدالملک ، حجاج، ولید اور ان جیسے دوسرے حکمرانوں کے عہد میں ہاتھ اور زبان سے ان حکمرانوں کو ٹوکنے کی فرضیت ساقط ہوگئی تھی اس لئے کہ ان کے ظلم و ستم ک یبنا پر جا ن کے خوف سے یہ کام انتہائی مشکل ہوگیا تھا۔ جب حجاج کی وفات ہوئی تو بیان کیا جات ا ہے کہ حسن بصری نے یہ دعا کی :” اے اللہ تو نے اسے اٹھا لیا ہے تو اب اس کے ظلم و ستم کے طریق کار کو بھی ہم سے دور کر دے اس لئے کہ جب یہ ہم پر حاکم بن کر آیا تھا تو اس کی حالت یہ تھی کہ آنکھیں چندھائی ہوئی تھیں، آنکھوں میں بینائی برائے نام تھی جب ہاتھ آگے کرتا تو انگلیوں کے پورے انتہائی چھوٹے نظر آتے تھے، بخدا اللہ کے راستے میں کبھی کسی سواری کی لگام کو ان پوروں کا پسینہ نہیں لگا سر کے لمبے لمبے بالوں میں کنگھی کرتا تھا اور چلتے وقت لڑکھڑاتا تھا، منبر پر بیٹھ کر اول فول بکتا تھا حتی کہ نماز کا وقت نکل جاتا تھا۔ نہ اللہ سے ڈرتا تھا نہ مخلوق کی شرم کرتا تھا۔- اس کے اوپر اللہ کی ذات ہوتی اور اس کے نیچے ایک لاکھ یا اس سے زائد سپاہ ہوتی ، اس سے کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ ” اے شخص نماز کا وقت جا رہا ہے۔ “ حسن بصری نے مزید کہا :” افسوس اسے ٹوکنے کی راہ میں تلوار اور کوڑا دونوں حائل ہوگئے تھے۔ “- عبدالملک بن عمیر کہتے ہیں :” حجاج جمعہ کے دن خطبہ دینے کے لئے منبر پر بیٹھ گیا اس وقت عین دوپہر تھی، اپنے خطاب میں کبھی اہل شام کی تعریفیں کرنے لگتا اور کبھی اہل عراق کی مذمت شروع کردیتا۔ اسی طرح وہ خطبہ دینے میں مصروف رہا حتیٰ کہ ہمیں مسجد کی بلند ی پر سورج کی تھوڑی بہت سرخی نظر آنے لگی۔ اس نے مئوذن کو اذان دینے کا حکم دیا اور جمعہ کی نماز پڑھا دی، پھر دوبارہ اذان کہلوائی اور عصر کی نماز پڑھنا دی ۔ پھر تیسری مرتبہ اذان کہلوا کر مغرب کی نماز پڑھادی۔ اس دن اس نے تینوں نمازیں اکٹھی پڑھا دیں۔- سلف حضرات ایسے خراب حالات میں زبان یا ہاتھ سے اسے ٹوکنے پر صحیح معنوں میں معذرت کے قابل تھے۔ فقہاء تابعین اور انکے ساتھ اس زمانے کے قراء نے ابن الاشوات کی سرکردگی میں حجاج کے خلاف اس کے کافرانہ رویے پر عمل بغاوت بلند کردیا تھا جس کے نتیجے میں بڑے بڑے خونریز معرکے ہوئے ان حضرات میں سے بیشمار لگو شید ہوئے۔- حجاج نے شا میوں کی مدد سے ان سب کو پیش کر رک دیا تھا حتیٰ کہ ایک شخص بھی ایسا نہیں بچا جو اس کی ظالمانہ حرکتوں کے خلاف آواز اٹھا سکتا ہے ، بس دل سے ہی سب لوگ اسے برا سمجھتے رہے۔- مذکورہ آیہ کی مزید تشریحات - اس آیت کی تفسیر کے سلسلے میں حضرت ابن مسعود سے بھی روایت منقول ہے ہمیں جعفر بن محمد نے روایت سنائی ، انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے، انہیں ابوعبید نے ۔ انہیں حجاج نے ابو جعفر رازی سے انہوں نے ربیع بن انس سے ۔ انہوں نے ابو العالیہ سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے کہ آپ کے سامنے اس آیت کا تذکرہ ہوا۔ آپ نے فرماا :” ابھی اس کی تاویل کا وقت نہیں آیا۔ قرآن کا نزول تو ہوگیا اس کی بعض آیتوں کی تاویل اس وقت گذر گئی جبکہ یہ آیتیں ابھی نازل بھی نہیں ہوئی تھیں حضرت ابن مسعود کا اشارہ ا ن آیات کی طرف تھا جن کا تعلق گزشت قوموں سے تھا۔ )- بعض آیتیں ایسی تھیں جن کی تاویل یعنی مصداق کا ظہور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں بھی ہوگیا تھا، بعض آیات کی تاویل کی ایک جھلک حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد ظہور میں آئی ہعے۔ بعض کو تاویل آج کے بعد وقوع پذیر و گی اور بعض کی قیامت کے وقت ہوگی جبکہ بعض کی ” تاویل حساب کے دن جنت اور دوزخ کی شکل میں اظہر و گی۔- اس لئے جب تک تمہارے قلوب متحد ہو اور تمہاری خواہشات ایک جیسی ہیں۔ تمہیں گروہ بندی نہیں ہوئی اور تم نے ایک دوسرے کو اپنی طاقت کا مزدہ نہیں چکھایا اس وقت تک ایک دوسرے کو نیکی کرنے کا حکم دیتے رو اور برائی سے روکتے ہو۔- پھر جب تمہارے دلوں میں ایک دوسرے کی مخالفت گھر کر جائے۔ تمہارے خیالات بٹ جائیں تم گروہوں میں تقسیم ہو جائو اور ایک دوسرے کو اپنی طاقت و قوت کا مزہ چکھانے لگو اور ہر شخص کو اپنی فکر دامن گیر ہوجائے تو پھر سمجھ لینا کہ اس آیت کی تاویل یعنی اس پر عمل کا وقت آگیا۔ “- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود کے اس قول کا کہ ” ابھی اس کی تاویل نہیں آئی۔ “ مفہوم یہ ہے کہ ا ن کے زمانے میں حکمرانوں کی نیکی، عوام الناس کی دینداری، نیکوں کی بدوں کے مقابلے میں اکثریت کی بنا پر لوگوں کے لئے بدی کو بدل ڈالنا اور مٹا دینا ممکن تھا اس لئے ہاتھ اور زبان کے ساتھ ام بالمعروف اور نہی عن المنکر ترک کرنے پر کسی کی قابل قبول نہ تھی۔- پھر جب ایسا زمانہ آ جائے کہ لوگوں کو اپنے بچائو کی فکر دامن گیر ہوجائے۔ لوگوں میں نیکی کی باتوں کو قوبل کرنے کا رجحان ختم ہوجائے، معاشرے میں فاسق و فاجر قسم کے لوگوں کا غلبہ ہوجائے تو ان حالات میں سکوت اختیار کرنے کی گنجائش ہوگی البتہ بدی کو دل سے برا سمجھنا ضروری ہوگا۔ سکوت اختیار کرنے کی گنجائش اس وقت بھی ہوتی ہے جب منکر کے مرتکب کو اس بات کا علم ہو کہ وہ ممنوع فعل کا ارتکاب کر رہا ہے اسے ہاتھ سے روکنا ممکن نہ ہو اور غالب گمان یہ ہو کہ اگر اسے قتل بھی کردیا جائے تو بھی وہ اس برائی سے باز نہ آئے۔ ایسے موقع پر سکوت کی گنجائش ہوتی ہے۔- آیت زیر بحث کی تاویل میں حضرت ابن مسعود سے اسی قسم کی روایت منقول ہے۔ ہمیں جعفر بن محمد نے روایت بیان کی، انہیں جعفر بن الیمان نے، انہیں ابو عبید نے ، انہیں ہشیم نے انہیں یونس نے حسن سے انہوں نے حضرت ابن مسعود سے آیت (علیکم انفسکم) کی تفسیر میں روایت بیان کی کہ - ” لوگوں سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے سلسلے میں اس وقت تک باتیں کرتے رہو جب تک تمہاری باتیں تسلیم کی جاتی رہیں۔ لیکن جب تمہاری باتیں رد کردی جائیں تو بس اپنی فکر رکھو۔ “- حضرت ابن مسعود نے یہ بتایا کہ جب لوگ باتیں سننے کے لئے تیار نہ ہوں اور انہیں قبول کرنے سے انکار کردیں تو پھر سکوت اختیار کرنے کی گنجائش ہے، یعنی سکوت کا راستہ اس وقت اختیار کرنا چاہیے جب منکر کو ہاتھ سے بدل ڈالنا ممکن نہ ہو۔ اس لئے کہ جب منکر کو مٹانا اور بدل ڈالنا ممکن ہو تو حضرت ابن مسعود کے درج بالا قول سے یہ گمان کرنا درست نہیں ہوگا کہ اس وقت نہی عن المنکر سے پہلو تہی مباح اور جائز ہوجائے گی۔- ہمیں جعفر بن محمد نے روایت بیا ن کی۔ انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے، انہیں ابو عبید نے انہیں اسماعیل بن جعفر نے عمرو بن ابی عمرو سے، انہوں نے عبداللہ بن عبدالرحمٰن الاشہلی نے حضرت حذیفہ بن الیمان سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔- (والذی نفسنی بیدہ لتامرن بالمعروف ولتنھون عن المنکر او لیعمکم اللہ بعقاب من عندہ ثم لتدعتہ فلا یستجب لکم، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تم نیکی کا حکم دیتے رہو اور بدی سے روکتے رہو ورنہ اللہ تعالیٰ اپنے پاس سے ایسا عذاب بھیج دے گا جس کی لپیٹ میں تم سب آ جائو گے پھر تم دعائیں مانگو گے لیکن تمہاری قبول نہیں کرے گا۔ )- ابو عبید کہتے ہیں کہ ہمیں حجاج نے حمزہ زیات سے روایت سنائی، انہوں نے ابوسفیان سے اور انہوں نے ابوالنضرہ سے کہ ایک شخص حضرت عمر کے پاس آ کر کہنے لگا کہ میں نیکیوں کے تمام اعمال کرتا ہوں ۔ لیکن دو نیکیاں مجھ سے نہیں ہوتیں ، میں امر بالمعروف نہیں کرتا اور نہ ہی کسی کو برائی سے روکتا ہوں۔ یہ سن کر حضرت عمر نے فرمایا :” تم نے اسلام کے تیروں میں سے دو تیر بیکار کردیئے اب اللہ چاہے تو تمہیں بخش بھی سکتا ہے اور چاہے تو تمہیں عذاب بھی دے سکتا ہے۔ “- ابوعبید کہتے ہیں کہ ہمیں محمد بن یزید نے جویبر سے روایت سنائی اور انہوں نے ضحاک سے انہوں نے فرمایا :” امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اللہ کے مقرر کردہ فرائض میں سے دو فرائض ہیں۔ اللہ نے ہم پر انہیں لکھ دیا ہے۔ “- ابوعبید کہتے ہیں کہ مجھے راویوں نے سفیان بن عینیہ سے بتایا ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن شبرمہ سے حضرت ابن عباس کی یہ روایت بیان کی :” جو شخص دو آدمیوں کے مقابلہ کی تاب نہ لا کر بھاگ کھڑا ہو وہ حقیقت میں بھگوڑا شمار ہوتا ہے البتہ جو تین کے مقابلہ سے راہ فرار اختیار کرت ا ہے وہ بھگوڑا نہیں ہوتا۔- میں تو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو بھی اسی طرح خیال کرتا ہوں، کیا کوئی شخص اتنا بےبس اور عاجز ہوتا ہے کہ وہ آدمیوں کو بھی نیکی کا حکم نہ دے سکے اور برائی سے نہ روک سکے۔ “- حضرت ابن عباس کا اشارہ اس آیت کی طرف تھا (فان یکن منکم مائہ صابرہ یغلبو مائتین و ان یکن منکم الف یغلبوا الفین باذن اللہ واللہ مع الصابرین، اگر تم میں سے سو ثابت قدم ہوں تو وہ دو سو پر غالب آ جائیں گے۔ اگر تم میں سے ہزار ہوں گے تو وہ اللہ کے حکم سے دو ہزار پر غالب آ جائیں گے، اللہ تعالیٰ ثابت قدم رہنے والوں کے ساتھ ہے۔ )- ہدی کو مٹانے کے لزوم میں اگر اسی چیز کو بنیاد تسلیم کرلیا جائے تو ایسا کرنا جائز ہوگا۔ قول باری (علیکم انفسکم) کی تفسیم میں مکحول کا قول ہے کہ ” جب نصیحت کرنے والا ڈر جائے اور نصیحت سننے والا انکار کر دے تو اس وقت بس تم اپنی فکر رکھو، اس وقت اگر تم ہدایت پر ہو گے تو کسی شخص کی گمراہی سے تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ “ واللہ الموفق۔
(١٠٣) اور اللہ تعالیٰ نے نہ بحیرہ کو شرع کے موافق کیا ہے اور نہ سائبہ کو اور نہ وصیلہ کو اور نہ حام کو۔- بحیرہ اونٹوں سے ہوتی تھا کہ جس وقت اونٹنی بچے جن دیتی تو پانچویں بچہ کو دیکھتے اگر وہ نر ہوتا تو اس کو ذبح کردیتے تھے اور مرد و عورت مل کر سب اس کا گوشت کھاتے اور اگر وہ پانچواں بچہ مادہ ہوتی تو اس کا کان چاک کردیتے اور اسے بحیرہ بولتے تھے اور اس کے منافع اور دودھ صرف مردوں کے لیے ہوتے تاوقتیکہ یہ مرتی اور جب یہ مرجاتی تو مرد و عورت سب مل کر اس کا گوشت کھاتے۔- سائبہ، آدمی اپنے مال میں سے جو چاہتا بتوں کے نام کردیتا اور اسے لے جا کر بتوں کی دیکھ بھال کرنیوالے کے سپرد کردیتا تو اگر وہ مال حیوان ہوتا تو یہ منتظمین اسے لوگوں کے سپرد کردیتے، جسے مسافر مرد کھا سکتے تھے اور عورتوں کے لیے اس کا کھانا ممنوع تھا اور اگر وہ جانور ذبح کیے بغیر خود بخود مرجاتا تو اسے عورت اور مرد دونوں کھا سکتے تھے۔- وصیلہ۔ جب بکری سات بچے جن دیتی تو ساتواں بچہ اگر نرہوتا تو اسے ذبح کردیتے اور مرد و عورت سب مل کر کھالیتے تھے اور اگر مادہ ہوتی تو اس کے مرنے تک عورتیں اس سے کسی قسم کا فائدہ حاصل نہیں کرسکتی تھیں جب وہ مرجاتی تو مرد و عورت سب مل کر اسے کھالیتے تھے اور اگر بکری ایک ساتھ نر و مادہ دونوں جنتی تھی تو دونوں کو زندہ رہنے دیتے اور ذبح نہیں کرتے اور کہتے کہ ہم نے بھائی بہن کو ملا دیا ہے اور ان کے مرنے تک ان کا نفع صرف مردوں کے ہوتا اور جس وقت یہ مرجاتے تو ان کے کھانے میں مرد و عورت دونوں شریک ہوجاتے۔- حام۔ جس وقت اونٹ اپنی پوتی پر سوار ہوتا تو کہتے کہ اس کی پشت محفوظ ہوگئی ہے تو اسے ویسے ہی چھوڑ دیتے نہ اس پر سواری کرتے اور نہ کچھ بوجھ لادتے تھے اور اسے پانی پینے اور چرنے سے نہیں روکتے تھے اور جو بھی اونٹ اس کے پاس آتا تو اسے بھگا دیتے تھے، پھر جس وقتو وہ بوڑھا ہوجاتا یا مرجاتا تو اس کے کھانے میں مرد و عورت سب شریک ہوجاتے تھے، اسی کو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس نے ان میں سے کسی چیز کو حرام نہیں کیا ہے مگر عمرو بن لحی (مکہ کا ایک بڑا مشرک تھا) اور اس کے ساتھی ان کو اپنے اوپر حرام کرنے میں اللہ تعالیٰ پر افتراء پردازی کرتے ہیں اور یہ سب احکام خداوندی اور حلال و حرام سے ناواقف ہیں۔
آیت ١٠٣ (مَا جَعَلَ اللّٰہُ مِنْم بَحِیْرَۃٍ وَّلاَ سَآءِبَۃٍ وَّلاَ وَصِیْلَۃٍ وَّلاَحَامٍ ) - ان چیزوں کے تقدس کی اللہ کے طرف سے کوئی سند نہیں۔ بحیرہ ‘ سائبہ ‘ وصیلہ اور حام کے بارے میں بہت سے اقوال ہیں ‘ لیکن جلیل القدر تابعی حضرت سعید بن مسیب (رض) نے ان الفاظ کی جو تفصیل بیان کی ہے ‘ وہ صحیح بخاری (کتاب تفسیر القرآن) میں وارد ہوئی ہے۔ مولانا تقی عثمانی صاحب نے بھی اسے اپنے حواشی میں نقل کیا ہے۔ بحیرہ : ایسا جانور جس کا دودھ بتوں کے نام کردیا جاتا تھا اور کوئی اسے اپنے کام میں نہ لاتا تھا۔ سائبہ : وہ جانورجو بتوں کے نام پر ‘ ہمارے زمانے کے سانڈ کی طرح ‘ چھوڑ دیا جاتا تھا۔ وصیلہ : جو اونٹنی مسلسل مادہ بچوں کو جنم دیتی اور درمیان میں کوئی نر بچہ پیدا نہ ہوتا ‘ اسے بھی بتوں کے نام پر چھوڑ دیا جاتا تھا۔ حام : نر اونٹ جو ایک خاص تعداد میں جفتی کرچکا ہوتا ‘ اسے بھی بتوں کے نام پر چھوڑ دیا جاتا تھا۔ اس طرح کے جانوروں کو بتوں کے نام منسوب کر کے آزاد چھوڑ دیا جاتا تھا کہ اب انہیں کوئی ہاتھ نہ لگائے ‘ کوئی ان سے استفادہ نہ کرے ‘ کوئی ان کا گوشت کھائے نہ صدقہ دے ‘ نہ ان سے کوئی خدمت لے ‘ بس ان کا احترام کیا جائے۔ لہٰذا واضح کردیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسے کوئی احکام نہیں دیے گئے ‘ بلکہ فرمایا :- (وَّلٰکِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَط وَاَکْثَرُہُمْ لاَ یَعْقِلُوْنَ ) - یہ لوگ بغیر سوچے سمجھے اللہ کے ذمے جھوٹی باتیں لگاتے رہتے ہیں۔
سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :118 جس طرح ہمارے ملک میں گائے ، بیل اور بکرے خدا کے نام پر یا کسی بت یا قبر یا دیوتا یا پیر کے نام پر چھوڑ دیے جاتے ہیں ، اور ان سے کوئی خدمت لینا یا انہیں ذبح کرنا یا کسی طور پر ان سے فائدہ اٹھانا حرام سمجھا جاتا ہے ، اسی طرح زمانہ جاہلیت میں اہل عرب بھی مختلف طریقوں سے جانوروں کو ین کرکے چھوڑ دیا کرتے تھے اور ان طریقوں سے چھوڑے ہوئے جانوروں کے الگ الگ نام رکھتے تھے ۔ بحیرہ: اس اونٹنی کو کہتے تھے جو پانچ دفعہ بچے جن چکی ہو اور آخری بار اس کے ہاں نر بچہ ہوا ہو ۔ اس کا کان چیر کر اسے آزاد چھوڑ دیا جاتا تھا ۔ پھر نہ کوئی اس پر سوار ہوتا ، نہ اس کا دودھ پیا جاتا ، نہ اسے ذبح کیا جاتا ، نہ اس کا اون اتارا جاتا ۔ اسے حق تھا کہ جس کھیت اور جس چراگاہ میں چاہے چرے اور جس گھاٹ سے چاہے پانی پیے ۔ سائبہ: اس اونٹ یا اونٹنی کو کہتے تھے جسے کسی منت کے پورا ہو نے یا کسی بیماری سے شفا پانے یا کسی خطرے سے بچ جانے پر بطور شکرانہ کے پن کر دیا گیا ہو ۔ نیز جس اونٹنی نے دس مرتبہ بچے دیے ہوں اور ہر بار مادہ ہی جنی ہو اسے بھی آزاد چھوڑ دیا جاتا تھا ۔ وصیلہ: اگر بکری کا پہلا بچہ نر ہوتا تو وہ خداؤں کے نام پر ذبح کر دیا جاتا ، اور اگر وہ پہلی بار مادہ جنتی تو اسے اپنے لیے رکھ لیا جاتا تھا ۔ لیکن اگر نر اور مادہ ایک ساتھ پیدا ہوتے تو نر کو ذبح کر نے کے بجائے یونہی خداؤں کے نام پر چھوڑ دیا جاتا تھا اور اس کا نام وصیلہ تھا ۔ حام : اگر کسی اونٹ کا پوتا سواری دینے کے قابل ہو جاتا تو اس بوڑھے اونٹ کو آزاد چھوڑ دیا جاتا تھا ۔ نیز اگر کسی اونٹ کے نطفہ سے دس بچے پیدا ہو جاتے تو اسے بھی آزادی مل جاتی ۔
71: یہ مختلف قسم کے نام ہیں جو زمانہ جاہلیت کے مشرکین نے رکھے ہوئے تھے۔ بحیرہ اس جانور کو کہتے تھے جس کے کان چیر کر اس کا دودھ بتوں کے نام پر وقف کردیا جاتا تھا۔ سائبہ وہ جانور تھا جو بتوں کے نام کر کے آزاد چھوڑ دیا جاتا تھا، اس سے کسی قسم کا فائدہ اٹھانا حرام سمجھا جاتا تھا۔ وصیلہ اس اونٹنی کو کہتے تھے جو لگاتار مادہ بچے جنے، بیچ میں کوئی نر نہ ہو۔ ایسی اونٹنی کو بھی بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے تھے۔ اور حامی وہ نر اونٹ ہوتا تھا جو ایک خاص تعداد میں جفتی کرچکا ہو۔ اسے بھی بتوں کے نام پر چھوڑ دیا جاتا تھا۔