Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

102۔ 1 کہیں اس کوتاہی کے مرتکب تم بھی ہوجاؤ۔ جس طرح ایک مرتبہ نبی نے فرمایا اللہ نے تم پر حج فرض کیا ہے ایک شخص نے سوال کیا کیا ہر سال ـ آپ خاموش رہے، اس نے تین مرتبہ سوال دہرایا پھر آپ نے فرمایا اگر میں ہاں کہہ دیتا تو حج ہر سال فرض ہوجاتا اور اگر ایسا ہوجاتا تو ہر سال حج کرنا تمہارے لئے ممکن نہ ہوتا تمہیں جن چیزوں کی بابت نہیں بتایا گیا، تم مجھ سے ان کی بابت سوال مت کرو، اس لئے کہ تم سے پہلی امتوں کی ہلاکت کا سبب ان کا کثرت سوال اور اپنے انبیاء سے اختلاف بھی تھا ۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٥٠] شریعت کے اجمالی حکم کی جزئیات کا قیاس نہ کیا جائے :۔ یہ یہود تھے جنہوں نے سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) سے سوال کر کر کے انہیں پریشان کر رکھا تھا جیسا کہ سورة بقرہ کی آیت نمبر ١٠٨ سے واضح ہوتا ہے۔ کہ جب انہیں گائے ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تو انہوں نے پے در پے سوالات شروع کردیئے کہ ہمیں اللہ سے پوچھ کر بتاؤ کہ اس گائے کی عمر کیا ہو، اس کا رنگ کیسا ہو اس کی کیفیت کیسی ہے ؟ وغیرہ وغیرہ۔ حالانکہ اگر وہ کوئی بھی سوال نہ کرتے تو کوئی سی گائے ذبح کرنے میں آزاد تھے۔ مگر پے در پے سوال کرنے سے اپنے آپ پر پابندی ہی بڑھاتے گئے اور یہی زیادہ سوال کرنے کا نقصان ہوتا ہے۔ شریعت اگر ایک حکم اجمالاً بیان کرے تو اس کے اجمال سے فائدہ اٹھانے میں بھی مسلمانوں کے لئے آسانی ہے۔ اجتہاد و استنباط کر کے اس کی تفصیلات معین کر کے مسلمانوں کے لئے مشکلات کا یا الجھنوں کا سبب نہ بننا چاہیے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قَدْ سَاَلَهَا قَوْمٌ مِّنْ قَبْلِكُمْ ۔۔ : یہ بنی اسرائیل کی طرف اشارہ ہے، کیونکہ ان کا حال یہ تھا کہ اپنے انبیاء سے ایک چیز خواہ مخواہ کرید کرید کر دریافت کرتے اور جب وہ حرام قرار دے دی جاتی تو بجا نہ لاتے، اس طرح دونوں حالتوں میں نافرمان ٹھہرتے۔ یہ ساری آفت بلا ضرورت کثرت سوال سے پیش آتی۔ ان کی اس روش کی متعدد مثالیں سورة بقرہ میں گزر چکی ہیں۔ ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا : ” لوگو اللہ نے تم پر حج فرض کیا ہے، لہٰذا حج کرو۔ “ تو ایک آدمی نے کہا : ” یا رسول اللہ کیا ہر سال ؟ “ آپ خاموش رہے، یہاں تک کہ اس نے تین بار یہی بات کہی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اگر میں ہاں کہہ دیتا تو فرض ہوجاتا اور تم نہ کرسکتے۔ “ پھر فرمایا : ” مجھے چھوڑے رکھو جب تک میں تمہیں چھوڑے رکھوں، کیونکہ تم سے پہلے لوگ اپنے سوالوں کی کثرت اور انبیاء سے اختلاف کی وجہ ہی سے ہلاک ہوئے، تو جب میں تمہیں کسی چیز کا حکم دوں تو اس میں سے جتنا کرسکو کرو اور جب میں تمہیں کسی چیز سے منع کر دوں تو اسے چھوڑ دو ۔ “ [ مسلم، الحج، باب فرض الحج مرۃ فی العمر : ١٣٣٧ ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَدْ سَاَلَہَا قَوْمٌ مِّنْ قَبْلِكُمْ ثُمَّ اَصْبَحُوْا بِہَا كٰفِرِيْنَ۝ ١٠٢- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - صبح - الصُّبْحُ والصَّبَاحُ ، أوّل النهار، وهو وقت ما احمرّ الأفق بحاجب الشمس . قال تعالی: أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ [هود 81] ، وقال : فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات 177] ، والتَّصَبُّحُ : النّوم بالغداة، والصَّبُوحُ : شرب الصّباح، يقال : صَبَحْتُهُ : سقیته صبوحا، والصَّبْحَانُ : الْمُصْطَبَحُ ، والْمِصْبَاحُ : ما يسقی منه، ومن الإبل ما يبرک فلا ينهض حتی يُصْبَحَ ، وما يجعل فيه الْمِصْبَاحُ ، قال : مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكاةٍ فِيها مِصْباحٌ الْمِصْباحُ فِي زُجاجَةٍ [ النور 35] ، ويقال للسّراج : مِصْبَاحٌ ، والْمِصْبَاحُ : مقرّ السّراج، والْمَصَابِيحُ : أعلام الکواكب . قال تعالی: وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّماءَ الدُّنْيا بِمَصابِيحَ [ الملک 5] ، وصَبِحْتُهُمْ ماء کذا : أتيتهم به صَبَاحاً ، والصُّبْحُ : شدّة حمرة في الشّعر، تشبيها بالصّبح والصّباح، وقیل : صَبُحَ فلان أي : وَضُؤَ - ( ص ب ح) الصبح والصباح دن کا ابتدائی حصہ جبکہ افق طلوع آفتاب کی وجہ سے سرخ ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ [هود 81] کیا صبح کچھ دور ہے ۔ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات 177] تو جن کو ڈرسنا یا گیا ہے ۔ ان کے لئے برادن ہوگا ۔ التصبح صبح کے وقت سونا ۔ الصبوح صبح کی شراب کو کہتے ہیں اور صبحتہ کے معنی صبح کی شراب پلانے کے ہیں ۔ الصبحان صبح کے وقت شراب پینے والا ( مونث صبحیٰ ) المصباح (1) پیالہ جس میں صبوحی پی جائے (2) وہ اونٹ جو صبح تک بیٹھا رہے (3) قندیل جس میں چراغ رکھا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكاةٍ فِيها مِصْباحٌ الْمِصْباحُ فِي زُجاجَةٍ [ النور 35] اس کے نور کی مثال ایسی ہے گویا ایک طاق ہے جس میں چراغ اور چراغ ایک قندیل میں ہے ۔ اور چراغ کو بھی مصباح کہاجاتا ہے اور صباح کے معنی بتی کی لو کے ہیں ۔ المصا بیح چمکدار ستارے جیسے فرمایا : وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّماءَ الدُّنْيا بِمَصابِيحَ [ الملک 5] اور ہم نے قریب کے آسمان کو تاروں کے چراغوں سے زینت دی ۔ صبحتم ماء کذا میں صبح کے وقت انکے پاس فلاں پانی پر جاپہنچا اور کبھی صبیح یا صباح کی مناسبت سے بالوں کی سخت سرخی کو بھی صبح کہا جاتا ہے ۔ صبح فلان خوبصورت اور حسین ہونا ۔- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے (قدسا لھا قوم من قبلکم ثم اصبحوا بھا کافرین ، تم سے پہلے ایک گروہ نے اس قسم کے سوالات کئے تھے پھر وہ لوگ ان ہی باتوں کی وجہ سے کفر میں مبتلا ہوگئے ) حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ اس سے مراد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی قوم ہے، انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے مائدہ یعنی کھانوں سے بھرے ہوئے دستر خوان کا معجزہ طلب کیا تھا پھر اس کے ظہور کے بعد اس کا انکار کر بیٹھے تھے۔- دوسرے حضرات کو قول ہے کہ اس سے حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم مراد ہے۔ انہوں نے اونٹنی کا معجزہ طلب کیا تھ اپھر جب اونٹنی ظاہر ہوگئی تو اسے ہلاک کردیا اور اس معجزے کا انکار کر بیٹھے۔ سدی کا قول ہے کہ یہ بات اس وقت پیش آئی جب لوگوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ عرض کیا تھا کہ کوہ صفا سونا بنادیا جائے۔ ایک قول کے مطابق اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے بنی سے ان جیسی چیزوں کے متعقل سوال کیا تھا جن کے بارے میں عبداللہ بن حذافہ اور اس دوسرے شخص کے سوالات تھے جس نے یہ پوچھا تھا کہ میں کہاں ہوں گا۔ ان لوگوں کو جب ان کے نبی نے وہ باتیں بتلا دیں تو انہیں بہت برا لگا اور وہ لوگ اس نبی کی تکذیب پر اتر آئے اور انہیں نبی ماننے سے انکار کردیا۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٢ (قَدْ سَاَلَہَا قَوْمٌ مِّنْ قَبْلِکُمْ ثُمَّ اَصْبَحُوْا بِہَا کٰفِرِیْنَ )- اب یہاں ان چار چیزوں کا ذکر آ رہا ہے جو ان کے ہاں خواہ مخواہ بہت زیادہ مقدس ہوگئی تھیں۔ یہ گویا اللہ تعالیٰ کے ان چار شعائر کے مقابلے کی چار چیزیں ہیں جن کا ذکر پیچھے آیت ٩٧ میں ہوا ہے : (جَعَلَ اللّٰہُ الْکَعْبَۃَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ قِیٰمًا لِّلنَّاسِ وَالشَّہْرَ الْحَرَامَ وَالْہَدْیَ وَالْقَلَآءِدَ ط) وہاں ان چار چیزوں کی توثیق کی گئی تھی کہ وہ واقعتاً اللہ کی شریعت کے اجزاء ہیں ‘ ان کا احترام اور ان کی حرمت کو ملحوظ رکھنا اہل ایمان پر لازم ہے۔ لیکن یہاں توجہ دلائی جا رہی ہے کہ کچھ چیزیں تمہارے ہاں ایسی رائج ہیں جو دور جاہلیت کے مشرکانہ اوہام کی یادگاریں ہیں۔ چناچہ فرمایا :

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :117 یعنی پہلے انہوں نے خود ہی عقائد اور احکام میں موشگافیاں کیں اور ایک ایک چیز کے متعلق سوال کر کر کے تفصیلات اور قیود کا ایک جال اپنے لیے تیار کرایا ، پھر خود ہی اس میں الجھ کر اعتقادی گمراہیوں اور عملی نافرمانیوں میں مبتلا ہو گئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس گروہ سے مراد یہودی ہیں جن کے نقش قدم پر چلنے میں ، قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تنبیہات کے باوجود ، مسلمانوں نے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

70: اس سے غالباً یہودیوں کی طرف اشارہ ہے جو شریعت کے احکام میں اسی قسم کی بال کی کھال نکالتے تھے، اور جب ان کے اس عمل کے نتیجے میں ان پر پابندیاں بڑھتی تھیں تو انہیں پورا کرنے سے عاجز ہوجاتے، اور بعض اوقات ان کی تعمیل سے صاف انکار بھی کر بیٹھتے تھے۔