Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

101۔ 1 یہ ممانعت نزول قرآن کے وقت تھی۔ خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی صحابہ (رض) کو زیادہ سوالات کرنے سے منع فرمایا کرتے تھے۔ ایک حدیث میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مسلمانوں میں وہ سب سے بڑا مجرم ہے جس کے سوال کرنے کی وجہ سے کوئی چیز حرام کردی گئی درآں حالیکہ اس سے قبل وہ حلال تھی۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٤٩] یعنی ایسے سوال رسول اللہ سے نہ کیا کرو جن میں نہ تمہارا کوئی دینی فائدہ ہو اور نہ دنیوی کیونکہ خواہ مخواہ سوال پوچھنے سے انسان کو نقصان ہی ہوتا ہے یا اس پر کوئی پابندی عائد ہوجاتی ہے جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے۔- ١۔ کثرت سوال کی ممانعت :۔ سیدنا ابو موسیٰ اشعری کہتے ہیں کہ ایک دفعہ لوگوں نے آپ سے ایسی باتیں پوچھیں کہ آپ کو برا معلوم ہوا۔ جب بہت سوال جواب ہوئے تو آپ کو غصہ آگیا۔ آپ نے فرمایا اب جو چاہو پوچھتے جاؤ۔ ایک شخص (عبداللہ بن حذافہ، جسے لوگ متہم کرتے تھے) نے کہا : میرا باپ کون ہے ؟ آپ نے فرمایا تیرا باپ حذافہ ہے۔ پھر دوسرا شخص (سعد بن سالم) کہنے لگا : یا رسول اللہ میرا باپ کون ہے ؟ فرمایا تیرا باپ سالم ہے شیبہ کا غلام۔ جب سیدنا عمر نے آپ کے چہرہ مبارک کے غصہ کو دیکھا تو کہنے لگے یا رسول اللہ ہم اللہ عزوجل کی بارگاہ میں توبہ کرتے ہیں تب یہ آیت نازل ہوئی۔ (بخاری۔ کتاب العلم۔ باب الغضب فی الموعظۃ والتعلیم اذا رای مایکرہ) - ٢۔ اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ ایک شخص نے پوچھا : میرا باپ کہاں ہے ؟ آپ نے فرمایا دوزخ میں (بخاری۔ کتاب الاعتصام۔ باب مایکرہ من کثرۃ السوال )- ٣۔ سعد بن ابی وقاص کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا بڑا قصور وار وہ مسلمان ہے جو ایک بات پوچھے جو حرام نہ ہو لیکن اس کے پوچھنے کی وجہ سے حرام ہوجائے (حوالہ ایضاً )- ٤۔ آپ نے منع فرمایا : بےفائدہ بک بک کرنے، زیادہ سوال کرنے، مال و دولت ضائع کرنے، ماؤں کو ستانے، لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے، دوسروں کا حق دبانے سے۔ (بحوالہ ایضاً )- ٥۔ ایک شخص (اقرع بن حابس) نے پوچھا : یا رسول اللہ کیا حج ہر سال فرض ہے ؟ آپ چپ رہے۔ سائل نے دوبارہ یہی سوال کیا تو آپ نے فرمایا نہیں۔ اگر میں ہاں کہہ دیتا تو تم پر ہر سال حج واجب ہوجاتا (اور تم نباہ نہ سکتے) اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (ترمذی۔ ابو اب التفسیر)- ٦۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی نے فرمایا کہ جو میں چھوڑوں یعنی اس کا ذکر نہ کروں تم بھی اس کا ذکر نہ کرو۔ کیونکہ تم سے پہلے لوگ زیادہ سوال کرنے اور اپنے انبیاء سے اختلاف کرنے کی بنا پر تباہ ہوگئے۔ (مسلم۔ کتاب الفضائل۔ باب توقیرہ و ترک اکثار سوالہ ممالا ضرورۃ الیہ۔۔ الخ)- ٧۔ سیدنا ابوہریرہ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جس کام سے میں تمہیں منع کروں اس سے باز رہو اور جس کام کا حکم دوں اسے جہاں تک ہو سکے بجا لاؤ کیونکہ تم سے پہلے لوگ زیادہ سوال کرنے اور اپنے پیغمبروں سے اختلاف کرنے کی وجہ سے تباہ ہوگئے (مسلم حوالہ ایضاً )- آپ نے فرمایا اللہ نے کچھ فرائض تم پر عائد کیے ہیں، انہیں ضائع نہ کرو (ٹھیک طرح سے بجا لاؤ) اور کچھ چیزیں حرام کی ہیں ان کے پاس نہ پھٹکو، کچھ حدود مقرر کی ہیں ان سے تجاوز نہ کرو اور کچھ چیزوں کے متعلق خاموشی اختیار کی ہے بغیر اس کے اس کو بھول لاحق ہو لہذا انکی کرید نہ کرو۔ (بیہقی بحوالہ الموافقات للشاطبی اردو ترجمہ ج ١ ص ٢٩١)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

لَا تَسْــــَٔـلُوْا عَنْ اَشْيَاۗءَ ۔۔ : یعنی اگر بلا ضرورت سوال کرو گے اور اس کا جواب تمہاری آسانی کے خلاف اتر آیا تو خواہ مخواہ مشکل میں پڑجاؤ گے اور پھر بجا نہ لانے کی صورت میں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نافرمان قرار پاؤ گے۔ اب جب کہ قرآن اتر رہا ہے، تمہارے سوالوں کا جواب بھی اتر سکتا ہے، تو تم بہت سی چیزوں کو اپنے اوپر فرض یا حرام قرار دلوا لو گے۔ اس بنا پر متعدد روایات میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زیادہ سوال کرنے سے منع فرمایا۔ سعد بن ابی وقاص (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” بیشک مسلمانوں کے حق میں مسلمانوں میں سے جرم کے لحاظ سے سب سے بڑا مجرم وہ شخص ہے جس نے کسی ایسی چیز کے متعلق سوال کیا جو حرام قرار نہیں دی گئی تھی، پھر اس کے سوال کی وجہ سے حرام قرار دے دی گئی۔ “ [ بخاری، الاعتصام، باب ما یکرہ من کثرۃ السؤال۔۔ : ٧٢٨٩۔ مسلم : ٢٣٥٨ ] مزید دیکھیے سورة بقرہ (١٠٨) ۔- عَفَا اللّٰهُ عَنْهَا ۭ: ایک مطلب تو یہ ہے کہ اس سے پہلے جو سوال تم کرچکے اللہ تعالیٰ نے وہ معاف فرما دیے ہیں اور دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور معافی ہے کہ اس نے ان چیزوں سے در گزر کیا ہے، بیان نہیں فرمایا اور تمہارے لیے ان کے کرنے اور نہ کرنے کی گنجائش باقی چھوڑ دی۔ (رازی، ابن کثیر)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اے ایمان والو ایسی (فضول) باتیں مت پوچھو (جن میں احتمال ہو کہ) اگر تم سے ظاہر کردی جاویں تو تمہاری ناگواری کا سبب ہو (یعنی یہ احتمال ہو کہ جواب تمہاری منشاء کے خلاف آیا تو تمہیں ناگوار ہوگا) اور (جن میں یہ احتمال ہو کہ) اگر تم زمانہ نزول قرآن (اور وحی) میں ان باتوں کو پوچھو تو تم سے ظاہر کردی جاویں (یعنی سوال کرنے میں تو یہ دوسرا احتمال ہو کہ جواب مل جائے اور جواب ملنے میں وہ پہلا احتمال ہو کہ ناگوار گذرے، اور یہ دونوں احتمال جو مجموعی طور پر علّت نہی سوال کی ہیں واقعی ہیں پس ایسا سوال ممنوع ہے، خیر) سوالات گذشتہ (جو اس وقت تک کرچکے ہو وہ تو) اللہ تعالیٰ نے معاف کردیئے، (مگر آئندہ مت کرنا) اور اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت والے ہیں (اس لئے گذشتہ سوالات معاف کردیئے اور) بڑے حلم والے ہی (اس لئے اگر آئندہ کے خلاف ورزی پر دنیا میں سزا نہ دے تو دھوکہ میں مت پڑجانا کہ آگے بھی کوئی عذاب و سزا نہ ہوگی) ایسی باتیں تم سے پہلے (زمانہ میں) اور (امتوں کے) لوگوں نے بھی (اپنے پیغمبروں سے) پوچھی تھیں پھر (ان کو جواب ملا تو) ان باتوں کا حق نہ بجالائے (یعنی ان جوابوں میں جو متعلق احکام کے تھے ان کے موافق عمل نہ کیا، اور جو متعلق واقعات کے تھے ان سے متاثر نہ ہوئے، پس کہیں تم کو بھی ایسی ہی نوبت نہ پیش آئے، اس لئے بہتری اسی میں ہے کہ ایسے سوالات چھوڑ دو ) اللہ تعالیٰ نے نہ بحیرہ کو مشروع کیا ہے اور نہ سائبہ کو اور نہ وصیلہ کو اور نہ حامی کو لیکن جو لوگ کافر ہیں وہ (ان رسوم کے باب میں) اللہ تعالیٰ پر جھوٹ لگاتے ہیں (کہ خدا تعالیٰ ان اعمال سے خوش ہیں) اور اکثر کافر (دین کی) عقل نہیں رکھتے اور (اس سے کام نہیں لیتے بلکہ محض اپنے بڑوں کی دیکھا دیکھی ایسی جہالتیں کرتے ہیں) ۔- معارف و مسائل - بے ضرورت سوال کرنے کی ممانعت - ان آیات میں اس بات پر تنبیہ کی گئی ہے کہ بعض لوگوں کو احکام الٓہیہ میں بلاضرورت تدقیق اور بال کی کھال نکالنے کا شوق ہوتا ہے، اور جو احکام نہیں دیئے گئے ان کے متعلق بغیر کسی داعیہ ضرورت کے سوالات کیا کرتے ہیں، اس آیت میں ان کو یہ ہدایت دی گئی کہ وہ ایسے سوالات نہ کریں جن کے نتیجہ میں ان پر کوئی مشقت پڑجائے یا ان کو خفیہ رازوں کے اظہار سے رسوائی ہو۔ - شان نزول - ان آیات کا شان نزول مسلم کی روایت کے مطابق یہ ہے کہ جب حج کی فرضیت نازل ہوئی تو اقرع بن حابس (رض) نے سوال کیا کہ کیا ہر سال ہمارے ذمہ حج فرض ہے ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے سوال کا جواب نہ دیا، تو مکرر سوال کیا، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر بھی سکوت فرمایا، انہوں نے تیسری مرتبہ پھر سوال کیا، تو اس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عتاب کے ساتھ تنبیہ فرمائی کہ اگر میں تمہارے جواب میں یہ کہہ دیتا کہ ہاں ہر سال حج فرض ہے تو ایسا ہی ہوجاتا اور پھر تم اس کو پورا نہ کرسکتے، اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ جن چیزوں کے متعلق میں تمہیں کوئی حکم نہ دوں ان کو اسی طرح رہنے دو ، ان میں کھود کرید کر کے سوالات نہ کرو، تم سے پہلے بعض امتیں اسی کثرت سوال کے ذریعہ ہلاک ہوچکی ہیں، کہ جو چیزیں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرض نہیں کی تھیں سوال کر کر کے ان کو فرض کرا لیا، اور پھر اس کی خلاف ورزی میں مبتلا ہوگئے، تمہارا وظیفہ یہ ہونا چاہئے کہ جس کام کا میں حکم دوں اس کو مقدور بھر پورا کرو اور جس چیز سے منع کردوں اس کو چھوڑ دو (مراد یہ ہے کہ جن چیزوں سے سکوت کیا جائے ان کے متعلق کھود کرید نہ کرو) ۔ - آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد نبوت اور سلسلہ وحی ختم ہے - اس آیت میں ایک ضمنی جملہ یہ بھی ارشاد فرمایا گیا کہ وَاِنْ تَسْــــَٔـلُوْا عَنْهَا حِيْنَ يُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُبْدَ لَكُمْ ۭعَفَا اللّٰهُ عَنْهَا ۭ، یعنی نزول قرآن کے زمانہ میں اگر تم ایسے سوالات کرو گے تو بذریعہ وحی ان کا جواب آجائے گا، اس میں نزول قرآن کے ساتھ مقیّد کرکے اس کی طرف اشارہ فرما دیا کہ نزول قرآن کی تکمیل کے بعد نبوت وحی کا سلسلہ بند کردیا جائے گا۔- ختم نبوت اور سلسلہ وحی کے انقطاع کے بعد ایسے سوالات کا اگرچہ یہ اثر نہ ہوگا کہ نئے احکام آجائیں جو چیزیں فرض نہیں ہیں وہ فرض ہوجائیں، یا بذریعہ وحی کسی کا خفیہ راز آشکارا ہوجائے، لیکن بےضرورت سوالات گھڑ گھڑ کر ان کی تحقیقات میں پڑنا یا بےضرورت چیزوں کے متعلق سوالات کرنا بعد انقطاع نبوت کے بھی مذموم اور ممنوع ہی رہے گا، کیونکہ اس میں اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کرنا ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے من حسن اسلام المرء ترکہ مالا یعنیہ، یعنی مسلمان ہونے کی ایک خوبی یہ ہے کہ آدمی فضول باتوں کو چھوڑ دیتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ بہت سے مسلمان جو بالکل فضول چیزوں کی تحقیق میں لگے رہتے ہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کا کیا نام تھا، اور نوح (علیہ السلام) کی کشتی کا طول و عرض کیا تھا جن کا کوئی اثر انسان کے عمل پر نہیں، ایسے سوالات کرنا مذموم ہے، خصوصاً جبکہ یہ بھی معلوم ہو کہ ایسے سوالات کرنے والے حضرات اکثر ضروری اور اہم مسائل دین سے بیخبر ہوتے ہیں، فضول کاموں میں پڑنے کا نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ آدمی ضروری کاموں سے محروم ہوجاتا ہے، رہا یہ معاملہ کہ حضرات فقہاء نے خود ہی بہت سی مفروضہ صورتیں مسائل کی نکال کر اور سوالات قائم کرکے ان کے احکام بیان کردیئے ہیں سو یہ بےضرورت چیز نہ تھی، آنے والے واقعات نے بتلا دیا کہ آئندہ نسلوں کو ان کی ضرورت تھی، اس لئے وہ فضول اور لایعنی سوالات نہ تھے، اسلام کی تعلیمات میں یہ بھی ایک تعلیم ہے کہ علم ہو یا عمل کوئی کام ہو یا کلام جب تک اس میں کوئی دینی یا دنیوی فائدہ پیش نظر نہ ہو اس میں لگ کر وقت ضائع نہ کریں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْــــَٔـلُوْا عَنْ اَشْـيَاۗءَ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ۝ ٠ۚ وَاِنْ تَسْــــَٔـلُوْا عَنْہَا حِيْنَ يُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُبْدَ لَكُمْ۝ ٠ۭ عَفَا اللہُ عَنْہَا۝ ٠ۭ وَاللہُ غَفُوْرٌ حَلِيْمٌ۝ ١٠١- سأل - السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. - ( س ء ل ) السؤال - ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔- شيء - الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم .- ( ش ی ء ) الشئی - بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ،- بدا - بَدَا الشیء بُدُوّاً وبَدَاءً أي : ظهر ظهورا بيّنا، قال اللہ تعالی: وَبَدا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ ما لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ [ الزمر 47] - ( ب د و ) بدا - ( ن ) الشئ یدوا وبداء کے معنی نمایاں طور پر ظاہر ہوجانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ وَبَدا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ ما لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ [ الزمر 47] اور ان کیطرف سے وہ امر ظاہر ہوجائے گا جس کا ان کو خیال بھی نہ تھا ۔ - ويقال : سَاءَنِي كذا، وسُؤْتَنِي، وأَسَأْتَ إلى فلان، قال : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک 27] ، وقال : لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء 7] - ساء - اور ساءنی کذا وسؤتنی کہاجاتا ہے ۔ اور اسات الی ٰ فلان ( بصلہ الی ٰ ) بولتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک 27] تو کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء 7] تاکہ تمہارے چہروں کو بگاڑیں ۔ - حين - الحین : وقت بلوغ الشیء وحصوله، وهو مبهم المعنی ويتخصّص بالمضاف إليه، نحو قوله تعالی: وَلاتَ حِينَ مَناصٍ [ ص 3] - ( ح ی ن ) الحین - ۔ اس وقت کو کہتے ہیں جس میں کوئی چیز پہنچے اور حاصل ہو ۔ یہ ظرف مبہم ہے اور اس کی تعین ہمیشہ مضاف الیہ سے ہوتی ہے جیسے فرمایا : ۔ وَلاتَ حِينَ مَناصٍ [ ص 3] اور وہ رہائی کا وقت نہ تھا ۔ - نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - قرآن - والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] - ( ق ر ء) قرآن - القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ - عفو - فالعَفْوُ : هو التّجافي عن الذّنب . قال تعالی: فَمَنْ عَفا وَأَصْلَحَ [ الشوری 40] وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوى [ البقرة 237]- ( ع ف و ) عفوت عنہ کے معنی ہیں میں نے اس سے درگزر کرتے ہوئے اس کا گناہ متادینے کا قصد کیا ز لہذا یہاں اصل میں اس کا مفعول ترک کردیا گیا ہے اور عن کا متعلق مخذوف ہی یا قصدت ازالتہ ذنبہ سار فا عنہ پس عفو کے معنی گناہ سے درگزر کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ فَمَنْ عَفا وَأَصْلَحَ [ الشوری 40] مگر جو درگزر کرے اور معاملہ کو درست کرلے وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوى [ البقرة 237] اور اگر تم ہی اپنا حق چھوڑ دو تو یہ پرہیز گاری کی بات ہے ۔ - غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ - حلم - الحِلْم : ضبط النّفس والطبع عن هيجان الغضب، وجمعه أَحْلَام، قال اللہ تعالی: أَمْ تَأْمُرُهُمْ أَحْلامُهُمْ بِهذا [ الطور 32] ، قيل معناه : عقولهم ، ولیس الحلم في الحقیقة هو العقل، لکن فسّروه بذلک لکونه من مسبّبات العقل وقد حَلُمَ وحَلَّمَهُ العقل وتَحَلَّمَ ، وأَحْلَمَتِ المرأة : ولدت أولادا حلماء قال اللہ تعالی: إِنَّ إِبْراهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ [هود 75] ، - ( ح ل م ) الحلم کے معنی ہیں نفس وطبیعت پر ایسا ضبط رکھنا کہ غیظ وغضب کے موقع پر بھڑ کنہ اٹھے اس کی جمع احلام ہے اور آیت کریمہ : ۔ کیا عقلیں ان کو ۔۔۔ سکھاتی ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ احلام سے عقیں مراد ہیں اصل میں ھلم کے معنی متانت کے ہیں مگر چونکہ متانت بھی عقل کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اس لئے حلم کا لفظ بول کر عقل مراد لے لیتے ہیں جیسا کہ مسبب بول کر سبب مراد لے لیا جاتا ہے حلم بردبار ہونا ۔ عقل نے اسے برد بار رہنا دیا ۔ عورت کا حلیم بچے جننا ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ إِبْراهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ [هود 75] بیشک ابراہیم (علیہ السلام) بڑے تحمل والے نرم دل اور رجوع کرنے والے تھے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے (یایھا الذین امنوا لاتسئلوا عن اشیاء ان تبدلکم وتسوکم اے ایمان لانے والو ایسی باتیں نہ پوچھا کرو جو تم پر ظاہر کردی جائیں تو تمہیں ناگوار ہوں) قیس بن الربیع نے ابو حصین سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ ایک مرتبہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غصے کی حالت میں گھر سے برآمد ہوئے آپ کا چہرہ تمتا رہا تھا۔ پھر منبر پر تشریف فرما ہوگئے، کہا ” لوگو، تم مجھ سے جو بات بھی پوچھو گے میں اس کا جواب دوں گا۔ “ ایک شخص نے اٹھ کر پوچھا :” میں کہاں ہوں گا “ جواب ملا ” جہنم میں۔ “- ایک دوسرے شخص نے سوال : ” میرا باپ کون ہے ؟ “ جواب دیا گیا :” تیرا باپ حذافہ ہے “ اس پر حضرت عمر کھڑے ہوئے اور عرض کیا :” ہم نے اللہ کو اپنا رب، اسلام کو اپنا دین، قرآن کو اپنا امام اور اے اللہ کے رسول، محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنا نبی پسند کرلیا۔ ہم ابھی تازہ تازہ جاہلیت اور شرک کے زمانے سے نکلے ہیں اللہ ہی کو علم ہے کہ ہمارے ابائو و اجداد کون تھے۔ “ یہ سن کر آپ کا غصہ ٹھنڈا ہوا اور درج بالا آیت کا نزول ہوا۔ - ابراہیم الھجری نے ابو عیاض سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ آیت کا نزول اس موقع ہپر ہوا جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ پوچھا گیا تھا کہ آیا حج ہر سال فرض ہے ؟ حضرت ابو امامہ سے بھی اسی قسم کی روایت ہے عکرمہ نے روایت کی ہے یہ آیت اس شخص کے بارے میں نازل ہوئی تھی جس نے یہ پوچھا تھا کہ میرا باپ کون ہے ؟- سعید بن جبیر کے قول کے مطابق آیت ان لوگوں کے متعلق نازل ہوئی تھی جنہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بحیرہ اور سائبہ کے بارے میں دریافت کیا تھا (ان کا ذکر آگے آ رہا ہے) مقسم کا قول ہے کہ آیت کا نزول ان نشانیوں کے متعلق ہوا تھا جو پچھلی امتوں نے اپنے انبیاء سے طلب کیا تھا۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس میں کوئی امتناع نہیں آیت کے شان نزول کے طور پر ان تمام روایات کو درست تسلیم کرلیا جائے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب یہ فرمایا تھا کہ :” تم مجھ سے جو بات بھی پوچھو گے میں اس کا جواب دوں گا۔ “ تو حضرت عبداللہ بن حذافہ نے اپنے باپ کے بارے پوچھا تھا کہ وہ کون ہے۔ اس لئے کہ ان کے نسب کے متعلق لوگ اکثرچہ میگوئیاں کرتے رہتے تھے۔ آپ سے ان لوگوں نے بھی مختلف سوالات کئے تھے جن کا ذکر گزشتہ سطور میں ہوچکا ہے۔- اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (لا تسئلوا عن اشیاء) یعنی ان جیسی چیزوں کے بارے میں سوالات نہ کرو اس لئے کہ لوگوں کو ان کی ضرورت نہیں تھی۔ عبداللہ بن حذافہ کا نسب فراش یعنی ہمبستری کے حق کی بنا پر ثابت ہوچکا تھا۔ اس لئے انہیں اس حقیقت کے جاننے کی ضرورت ہی نہیں تھی کہ وہ کس کے نطفے سے ہیں، اس لئے انہیں ایسا کرنا ہی نہیں چاہیے تھا۔- نیز سوال سے پہلے اس بات کا امکان موجود تھا کہ وہ کسی اور کے نطفے سے ہوں اور سوال کی وجہ سے ان کا وہ راز کھل جائے جس پر اللہ نے پردہ ڈال رکھا تھا۔ اس کے نتیجے میں ان کی والدہ کی بےعزتی ہوتی اور خود ان کے دامن پر بھی بلاوجہ ایک دھبہ لگ جاتا ہے۔- انہیں اس کا کوئی فائدہ نہ پہنچتا اس لئے کسی اور کے نطفے سے ہونے کے باوجود ان کا نسب حذافہ سے ہی ثابت رہتا اس لئے کہ ان کی ماں کے ساتھ حذافہ کو ہمبستری کا حق حاصل تھا۔ اسی بن اپر ماں نے ان سے کہا تھا کہ تو نے یہ سوال کر کے میری نافرمانی کی ہے۔ اس پر انہوں نے ماں کو جواب دیا تھا کہ مجھے اس بارے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہی اطمینان حاصل ہوا ہے۔- درحقیقت ان کا یہ سوال ایسا تھا کہ اگر جواب ظاہری حالت کے خلاف ہوتا تو انہیں اس سے سخت نقصان پہنچتا اس لئے ایسے نامناسب سوال سے روکا گیا۔- آپ نہیں دیکھتے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا :” جو شخص اس قسم کے گندے کا م یعنی زنا کاری کا ارتکاب کرے اسے چاہیے کہ اللہ کی طرف سے پڑے ہوئے پردے میں چھپا رہے لیکن اگر اس نے ہمارے سامنے اپنا سینہ کھول دیا یعنی راز فاش کردیا تو ہم اس پر کتاب اللہ کا نفاذ کریں گے۔ “ یعنی حد جاری کریں گے۔- جب ماعز سے یہ فعل بدسر زد ہوگیا تو ہزال نامی شخص نے انہیں اپنے گناہ کا اعتراف کرلینے کا مشورہ دیا تھا اس موقعہ پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہزال سے فرمایا تھا :” اگر تم اس پر اپنے کپڑے کا پردہ ڈال دیتے تو تمہارے لئے یہ بہتر ہوتا۔ “- جس شخص نے آپ سے یہ پوچھا تھا کہ ” میں کہاں ہوں گا۔ “ اسے بھی اس سوال کے پوچھنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ دنیا میں اس پر پردہ پڑا ہوا تھا ۔ اس نے یہ سوال پوچھ گر گویا اپنی پردہ دری کرلی جبکہ انبیائے معجزات کا ظہور ہوچکا تھا۔- اس لئے اس قسم کے سوال سے روک دیا گیا اور کسی کے لئے بھی اس کی گنجائش باقی نہیں رکھی گئی اس لئے کہ انبیاء کے معجزات کا منکرین نبوت کی خواہشات و مطالبات کے تابع ہونا کسی طرح بھی درست نہیں ہوتا۔ اس لئے اس طرح کے سوالات ناپسندیدہ اور قبیح قرار دیئے گئے جس شخص نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ پوچھا تھا کہ آیا ہر سال حج فرض ہے اسے چاہیے تھا کہ آیت حج سن کر اس کے حکم کے موجب یعنی صرف ایک حج کے ایجاب پر اکتفا کرلیتا۔- اس بنا پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا (انھا حجۃ واحدۃ ولو قلت نعم لوجیت، صرف ایک حج فرض ہے اگر میں تمہارے سوال پر ہاں کہہ دیتا تو ہر سال فرض ہوجاتا) آپ نے یہ بتادیا کہ اگر آپ سائل کے سوال کا اثبات میں جواب دیتے تو آپ کے قول کی بن اپر، نہ کہ آیت کی بنا پر ہر سال حج فرض ہوجاتا۔ اس لئے سائل کو یہ سوال نہیں کرنا چاہیے تھا جبکہ آیت کے حکم کی بن اپر اس کے لئے اس سوال سے احتراز ممکن تھا۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ آیت کے شان نزول کے سلسلے میں یہ توجیہ سب سے زیادہ دو رازکار ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بحیرہ ، سائبہ اور فصلیہ کے متعلق پوچھا گیا تھا اور اس کی بنا پر آیت کا نزول ہوا تھا۔ اس لئے کہ سوال کے ذریعے یا تو بحیرہ کے معنی پوچھے گئے ہوں گے کہ وہ کیا ہے یا اس کے جواز کے متعلق سوال کیا گیا ہوگا۔- جبکہ بحیرہ اور اس کے ساتھ مذکورہ دیگر اسماء ایسی چیزوں کے نام تھے جو زمانہ جاہلیت میں لوگوں کے علم میں تھیں۔ اس لئے انہیں ان کے متعلق سوال کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ اسی طرح یہ بھی درست نہیں کہ سوال ان جانوروں کی اباحت اور جواز کے متعلق کیا گیا تھا۔ اس لئے کہ یہ کافرانہ طریقفہ تھا جس کے تحت مشرکین اپنے بتوں کا تقرب اور ان کی خوشنودی حاصل کرتے تھے۔ اس لئے جن لوگوں کا عقیدہ اسلام کا عقیدہ تھا وہ اس طریقے کے بطلان کا بخوبی علم رکھتے تھے۔ - اس آیت سے ان لوگوں نے استدلال کیا ہے جو پیش آمدہ امور کے احکام کے متعقل سوال کی ممانتع کے قائل ہیں انہوں نے اس حدیث سے بھی استدلال کیا ہے جو زہری نے عامر بن سعد سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (ان اعظم المسلمین فی المسلمین جرما من مسائل عن شئی لم یکن حراما فحرم من اجل مسئملتہ ، مسلمانوں کے حق میں سب سے بڑا مجرم وہ ہے جس نے کسی ایسی چیز کے بارے میں پوچھا جو حرام نہیں تھی لیکن صرف اس کے سوال کی وجہ سے وہ چیز حرام ہوگئی۔ )- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ آیت میں پیش آمدہ امور کے احکام کے متعلق سوال کی ممانعت پر کوئی دلالت نہیں ہے۔ اس لئے کہ آیت میں صرف ایسی چیزوں کے بارے میں سوال سے نہی مقصود ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے بندوں کی نظروں سے پوشیدہ رکھا ہے اور ان کا علم صرف اپنی ذات تک محدود کردیا ہے۔- درحقیقت بندوں کو ایسے امور کے علم کی ضرورت ہی ہے بلکہ اگر یہ امور ان پر ظاہر کردیئے جائیں تو اس سے انہیں نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ مثلاً انساب کے حقائق کا علم ، اس لئے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرما دیا تھا (الولد للفراش، بچہ اس کا ہے جسے عوت کے ساتھ ہمبستری کرنے کا حاصل ہے) جب عبداللہ بن حذافہ نے یہ حقیقت دریافت کی کہ ان کی تخلیق کس شخص کے نطفے سے ہوئی ہے اور اس فیصلے کو نظر انداز کردیا جو اللہ تعالیٰ نے نسب کے سلسلے میں ہمبستری کے حق کی نسبت سے دیا تھا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اس قسم کے سوال سے روک دیا۔- اسی طرح اس شخص کی بات تھی جس نے پوچھا تھا کہ میں کہاں ہوں گا۔ اسے اپنے اس عیب کو کھولنے کی ضرورت نہیں تھی کہ وہ اہل نار میں سے ہے۔ یا ابنیاء کی نشانیوں کے بارے میں سوال۔ آیت کے مضمون میں اس پر دلالت موجود ہے کہ ممانعت کا تعلق اس قسم کے سوالات سے ہے جو ابھی ہم نے بیان کردیئے ۔- قول باری ہے (قد سالھا قوم من قبلکم ثم اصیحوا بھاکافرین تم سے پہلے ایک گروہ نے اسی قسم کے سوالات کئے تھے پھ روہ لوگ ان ہی باتوں کی وجہ سے کفر میں مبتلا ہ وگئے) یعنی ان لوگوں نے ابنیاء سے نشانیاں طلب کی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ نشانیاں دکھلا دیں، مقسم نے گزشتہ آیت کی جو تفسیر کی تھی۔ اس آیت سے اس کی تصدیق ہوتی ہے ۔ غیر منصوص احکام کے متعلق سوال کرنے کا جہاں تک تعلق ہے وہ آیت میں وارد ممانعت کے اندر داخل نہیں ہے۔- اس کی دلیل یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ” احبہ بن جندب کو قربانی کے اونٹ دے کر مکہ مکرمہ میں ذبح کرنے کے لئے جب روانہ کیا تو انہوں نے آپ سے پوچھا کہ ان میں سے اگر کوئی اونٹ مرنے لگے تو اس کا کیا کروں گا ؟ آپ نے فرمایا :” اسے ذبح کر دو ، اس کے فعل کو اس کے خون سے رنگ دو اور اس کے پہلو پر بھی خون کی چھینٹیں ماردو اور پھر لوگوں کے لئے اسے چھوڑ جائو تم اور تمہارے رفقاء میں سے کوئی بھی اس کا گوشت نہ کھائے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے سوال پر ناپسندیدگی کا اظہار نہیں فرمایا۔- حضرت رافع بن خدیج کی روایت میں ہے کہ صحابہ کرام نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے استفسار کیا کہ ہم کل صبح دشمن کا سامنا کرنے والے ہیں اور ہمارے پاس چھرے نہیں ہیں۔ آپ نے اس استفسار کو ناپسند نہیں کیا۔ حضرت یعلی بن امیہ کی روایت میں ہے کہ ایک شخص نے سوال کیا کہ عمرہ میں وہ کون کون سے افعال سر انجام دے۔ آپ نے اس کے اس سوال پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار نہیں فرمایا۔- بہت سی روایات موجود ہیں جو شریعت کے مسائل کے ان احکام کے متعلق لوگوں کے سوالات پر مشتمل ہیں جو منصوص نہیں تھے کسی کو بھی اس قسم کے سوال سے روکا نہیں گیا تھا۔ شہر بن جو شب نے عبدالرحمٰن بن عنم سے اور انہوں نے حضرت معاذ بن جبل سے روایت کی ہے وہ فرماتے ہیں :” میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ میں آپ سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں لیکن آیت (لاتسئلوا عن شیاء) میرے لئے رکاوٹ بن جاتی ہے۔ “- یہ سن کر آپ نے پوچھا وہ کون سی بات ہے میں نے عرض کیا ” وہ عمل بتا دیجیے جو مجھے جنت میں لے جائے ۔ اس پر آپ نے فرمایا :” تم نے بہت بڑی بات پوچھی ہے لیکن یہ آسان بھی ہے، اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں، نماز قائم کرنا، زکوۃ ادا کرنا۔ رمضان کے روزے رکھنا اور بیت اللہ کا حج کرنا۔ “ آپ نے حضرت معاذ کو سوال کرنے سے نہیں روکا اور نہ ہی ان کے سوال پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا۔- محمد بن سیرین نے احنف سے اور انہوں نے حضرت عمر سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ” سردار بننے سے پہلے سمجھ پیدا کرو۔ “ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام مسجد نبوی میں اکٹھے ہو کر نئے پیدا شدہ مسائل کے احکام کے سلسلے میں ایک دوسرے کے ساتھ تبادلہ خیالات کرتے۔- تابعین کرام بھی اس نہج پر چلتے رہے اور ان کے بعد ہمارے زمانے تک فقہاء کا بھی یہی طریقہ رہا۔ اس طریق کار کا صرف ان لوگوں نے انکار کیا ہے جو علم سے بابللد اور سمجھ بوجھ سے عاری تھے، انہوں نے روایات و آثار کا بوجھ تو اٹھا رکھا تھا لیکن ان کے معانی اور احکام سے نابلد تھے اس لئے وہ ان پر گفتگو کرنے اور ان سے احکام استنباط کرنے سے عاجز رہے۔- جبکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (رب حامل فقہ غیر فقیہ و رب حامل فقہ الی من ھوا فقہ منہ، بعض دفعہ شرعی حکم کا حامل خود سمجھدار نہیں ہوتا اور بعض دفعہ شرعی حکم کا حامل اس حکم کو ایسے شخص تک پہنچا دیتا ہے جو اس سے زیادہ سمجھ دار ہوتا ہے۔ )- اس بنا پر اس منکر گروہ کی مثال وہ ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں کیا ہے (مثل الذین حملوا التوراۃ تم لم یحملوھا کمثل الحمار یحمل اسفاراً ) جن لوگوں کو تورات پر عمل کا حکم دیا گیا تھا پھر انہوں نے اس پر عمل نہیں کیا ان کی مثال اس گدھے جیسی ہے جس پر کتابیں لادی گئی ہوں۔ )- قول باری (ان تبدلکم ) کے معنی ہیں۔” اگر تم پر ظاہر کردی جائیں۔ “ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ اس سے مراد ایسے لوگ ہیں جنہوں نے عبداللہ بن حذافہ جیسا سوال پوچھا تھا یا ان کے سوال کے نوعیت اس طرح تھی جیسی اس شخص کی جس نے یہ پوچھا تھا کہ میں کہاں ہوں گا۔ - اس لئے کہ نئے پیدا شدہ مسائل کے احکام کو ظاہر کردینا سائلین کو کبھی برا نہیں لگتا کیونکہ ان کے سوال کا مقصد ہی یہی ہوتا ہے کہ ان امور کے متعلق انہیں اللہ تعالیٰ کے احکام کا علم ہوجائے۔- قول باری ہے (وان تسئلوا عنھا حین ینزل القوان تبدلکم ، لیکن تم اگر انہیں ایسے وقت پوچھو گے جب کہ قرآن نازل ہو رہا ہو تو وہ تم پر کھول دی جائیں گی۔ ) یعنی فرشتہ کے نزول اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قرآن کی آیات سنانے کی حالت میں یعنی زمانہ نزول قرآن میں اگر تم ایسے سوالات پوچھو گے تو اللہ تعالیٰ انہیں تم پر ظاہر کر دے گا۔ پھر اس سے تمہیں نقصان پہنچے گا اور تمہیں یہ برا لگے گا۔- قول باری ہے (عنا اللہ عنھا، اب تک جو کچھ تم نے کیا اسے اللہ نے معاف کردیا ) یعنی اس قسم کے سوالات، اللہ تعالیٰ نے ان کو کرید نے اور ان کے حقائق معلوم کرنے کے سلسلے میں تم سے کوئی باز پرس نہیں کی۔ اس مقام پر عفو کے معنی ان چیزوں کے متعلق ترک سوالات کی اباحت میں گنجائش اور آسانی مہیا کرنے کے ہیں۔- جس طرح یہ قول باری ہے (فتاب علیکم وعفا عنکم، اللہ نے تمہاری توبہ قبول کی اور تمہیں معاف کردیا) اس کے معنی یہ ہیں ” اللہ نے تمہارے لئے آسانی پیدا فرما دی۔ حضرت ابن عباس کا قول ہے :” حلال وہ اشیاء ہیں جنہیں اللہ نے حلال قرار دیا ہے اور حرم وہ چیزیں ہیں جنہیں اللہ نے حرام قرار دیا ہے ۔ جن چیزوں کے متعلق خاموشی اختیار کی گئی ہے۔ ان میں عفو یعنی آسانی اور وسعت رکھی گئی ہے۔ اس کی مثال حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد ہے (عفوت لکم عن صدقۃ الخیل والرقیق، میں نے گھوڑوں اور لونڈی غلاموں کی زکواۃ کے سلسلے میں تمہارے ساتھ درگذری سے کام لیا ہے۔ )

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٠١۔ ١٠٢) یہ آیت حارث بن یزید کے بارے میں نازل ہوئی کیوں کہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں پر بیت اللہ کے حج کو فرض کردیا ہے تو انہوں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ کیا ہر ایک سال حج کرنا فرض ہے۔- اللہ تعالیٰ نے اس کی ممانعت فرما دی کہ ایسی باتیں مت دریافت کرو جن کو اللہ تعالیٰ نے از راہ شفقت معاف کردیا ہے کیوں کہ اگر ان باتوں کا تمہیں حکم دے دیا جائے تو تمہیں ناگوار گزرے اور جن باتوں کو تم سے معاف کردیا گیا ہے اگر تم زمانہ نزول وحی میں ان باتوں کو دریافت کرو تو تم پر فرض کردی جائیں اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کے لیے غفور اور فضول باتوں کے سوال پر حلیم ہیں۔- ایسی باتیں دیگر امتوں نے بھی اپنے انبیاء کرام سے پوچھی تھیں، جب ان کے انبیاء کرام نے ان باتوں کو ظاہر کردیا تو لوگ ان کا حق نہ بجا لاسکے۔- شان نزول : (آیت) ” یایھا الذین امنوالاتسئلوا عن اشیآء “۔ (الخ)- امام بخاری (رح) نے انس بن مالک (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبہ دیا تو ایک شخص نے دریافت کیا کہ میرا باپ کون ہے ؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ فلاں ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی یعنی اے ایمان والو ایسی باتیں مت پوچھو (الخ)- نیز ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ کچھ لوگ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیہودہ سوالات کیا کرتے تھے کوئی پوچھتا کہ میرا باپ کون ہے اور کسی کو اونٹنی گم ہوجاتی تو وہ دریافت کرتا کہ میری اونٹنی کہاں ہے، اس پر ان لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔- اور ابن جریر (رح) بھی ابوہریرہ (رض) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے اور امام احمد، ترمذی اور حاکم نے حضرت علی (رض) سے روایت نقل کیا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ لوگوں پر بیت اللہ کا حج کرنا فرض ہے تو صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا ہر ایک سال حج کرنا فرض ہے، آپ خاموش رہے، پھر عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر ایک سال ہے تو آپ نے ارشاد فرمایا نہیں اور اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر ایک سال حج کرنا فرض ہوجاتا ہے، اس پر اللہ تعالیٰ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تائید میں یہ آیت نازل فرمائی کہ اے ایمان والو ایسی باتیں مت دریافت کرو کہ اگر وہ ظاہر کردی جائیں تو اس پر فرمایا نہیں اور اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال حج کرنا فرض ہوجاتا، اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تائید میں یہ آیت نازل فرمائی کہ اے ایمان والوں ایسی باتیں مت دریافت کرو کہ اگر وہ ظاہر کردیں جائے تو ان کی تکمیل ناگوار گزرے اور ابن جریر (رح) نے ابوامامہ (رض) اور ابوہریرہ (رض) اور ابن عباس (رض) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے، حافظ بن حجر عسقلانی (رح) فرماتے ہیں کہ اس چیز میں کوئی اشکال نہیں کہ یہ آیت دونوں باتوں کے بارے میں نازل ہوئی ہو مگر حضرت ابن عباس (رض) کی حدیث سند کے اعتبار سے سب سے زیادہ صحیح ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٠١ (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَسْءَلُوْا عَنْ اَشْیَآءَ اِنْ تُبْدَلَکُمْ تَسُؤْکُمْ ج) ُیہ ایک خاص قسم کی مذہبی ذہنیت کا تذکرہ ہے۔ بعض لوگ بلا ضرورت ہر بات کو کھودنے ‘ کریدنے اور بال کی کھال اتارنے کے عادی ہوتے ہیں۔ اگر کسی چیز کے بارے میں اللہ ‘ تعالیٰ نے خود خاموشی اختیار فرمائی ہے تو اس بارے میں خواہ مخواہ سوال کرنا اپنی ذمہ داری کو بڑھانے والی بات ہے۔ چناچہ حج کے بارے میں جب سورة آل عمران (آیت ٩٧) میں حکم نازل ہوا تو ایک صاحب نے سوال کیا کہ حضور کیا ہر سال حج فرض ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سوال سن لیا لیکن رُخِ مبارک دوسری طرف کرلیا۔ اب وہ صاحب ادھر تشریف لے آئے اور پھر عرض کیا ‘ حضور کیا حج ہر سال فرض ہے ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر اعراض فرمایا۔ جب انہوں نے یہی سوال تیسری مرتبہ کیا تو پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ناراض ہوئے اور فرمایا کہ دیکھو اگر میں ہاں کہہ دوں تو تم لوگوں پر قیامت تک کے لیے ہر سال حج فرض ہوجائے گا۔ جس چیز میں اللہ تعالیٰ نے احتمال رکھا ہے اس میں تمہاری بہتری ہے۔ جو شخص ہر سال کرسکتا ہو وہ ہر سال کرلے ‘ لیکن فرضیت کے ساتھ ہر سال کی قید اللہ نے نہیں لگائی ہے۔ بےجا سوال کر کے تم اپنے لیے تنگی پیدا نہ کرو۔ جیسے گائے کے معاملے میں بنی اسرائیل نے کیا تھا کہ اس کا رنگ کیساہو ؟ اس کی عمر کیا ہو ؟ اور کیسی گائے ہو ؟ وغیرہ وغیرہ ‘ جتنے سوالات کرتے گئے اتنی ہی شرائط لاگو ہوتی گئیں۔ اس نوعیت کے سارے سوال اسی ضمن میں آتے ہیں۔- (وَاِنْ تَسْءَلُوْا عَنْہَا حِیْنَ یُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُبْدَلَکُمْ ط) - اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کے تحت کئی چیزوں کو پردے میں رکھا ہے ‘ کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ ان کو ظاہر کرنے میں تمہارے لیے تنگی ہوجائے گی ‘ بوجھ زیادہ ہوجائے گا ‘ یہ تم پر گراں گزریں گی۔ لیکن اگر سوال کرو گے تو پھر ان کو ظاہر کردیا جائے گا۔ - (عَفَا اللّٰہُ عَنْہَاط واللّٰہُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ ) - بعض چیزوں کے بارے میں جو اللہ نے تم پر نرمی کی ہے اور تمہیں تنگی سے بچایا ہے ‘ وہ اس لیے ہے کہ وہ غفور اور حلیم ہے۔ یہ کسی نسیان ‘ بھول یا غلطی کی وجہ سے نہیں ہوا (معاذ اللہ )

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :116 نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بعض لوگ عجیب عجیب قسم کے فضول سوالات کیا کرتے تھے جن کی نہ دین کے کسی معاملہ میں ضرورت ہوتی تھی اور نہ دنیا ہی کے کسی معاملہ میں ۔ مثلاً ایک موقع پر ایک صاحب بھرے مجمع میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ بیٹھے کہ”میرا اصلی باپ کون ہے؟“ اسی طرح بعض لوگ احکام شرع میں غیر ضروری پوچھ گچھ کیا کرتے تھے ، اور خواہ مخواہ پوچھ پوچھ کر ایسی چیزوں کا تعین کرانا چاہتے تھے جنہیں شارع نے مصلحتاً غیر معین رکھا ہے ۔ مثلاً قرآن میں مجملاً یہ حکم دیا گیا تھا کہ حج تم پر فرض کیا گیا ہے ۔ ایک صاحب نے حکم سنتے ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا” کیا ہر سال فرض کیا گیا ہے؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ جواب نہ دیا ۔ انہوں نے پھر پوچھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر خاموش ہوگئے ۔ تیسری مرتبہ پوچھنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”تم پر افسوس ہے ۔ اگر میری زبان سے ہاں نکل جائے تو حج ہر سال فرض قرار پائے ۔ پھر تم ہی لوگ اس کی پیروی نہ کر سکو گے اور نافرمانی کرنے لگو گے“ ۔ ایسے ہی لا یعنی اور غیر ضروری سوالات سے اس آیت میں منع کیا گیا ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی لوگوں کو کثرت سوال سے اور خواہ مخواہ ہر بات کی کھوج لگانے سے منع فرماتے رہے تھے ۔ چنانچہ حدیث میں ہے ان اعظم المسلمین فی المسلمین جرما من سأل عن شیٔ لم یحرم علی الناس فحرم من اجل مسألتہ ۔ ” مسلمانوں کے حق میں سب سے بڑا مجرم وہ شخص ہے جس نے کسی ایسی چیز کے متعلق سوال چھیڑا جو لوگوں پر حرام نہ کی گئی تھی اور پھر محض اس کے سوال چھیڑنے کی بدولت وہ چیز حرام ٹھیرائی گئی“ ۔ ایک دوسری حدیث میں ہے ان اللہ فرض فرائض فلا تضیعوھا و حرم حرمات فلا تنتھکو ھا وحَدّ حُدُوْداً فلا تعتدُوْھَا وسَکتَ عَنْ اشیَا من غیر نسیان فلا تبحثو ا عنھا ۔ ” اللہ نے کچھ فرائض تم پر عائد کیے ہیں ، انہیں ضائع نہ کرو ۔ کچھ چیزوں کو حرام کیا ہے ان کے پاس نہ پھٹکو ۔ کچھ حدود مقرر کی ہیں ، ان سے تجاوز نہ کرو ۔ اور کچھ چیزوں کے متعلق خاموشی اختیار کی ہے بغیر اس کے کہ اسے بھول لاحق ہوئی ہو ، لہٰذا ان کی کھوج نہ لگاؤ“ ۔ ان دونوں حدیثوں میں ایک اہم حقیقت پر متنبہ کیا گیا ہے ۔ جن امور کو شارع نے مجملاً بیان کیا ہے اور ان کی تفصیل نہیں بتائی ، یا جو احکام برسبیل اجمال دیے ہیں اور مقدار یا تعداد یا دوسرے تعینات کا ذکر نہیں کیا ہے ، ان میں اجمال اور عدم تفصیل کی وجہ یہ نہیں ہے کہ شارع سے بھول ہو گئی ، تفصیلات بتانی چاہیے تھیں مگر نہ بتائیں ، بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ شارع ان امور کی تفصیلات کو محدود نہیں کرنا چاہتا اور احکام میں لوگوں کے لیے وسعت رکھنا چاہتا ہے ۔ اب جو شخص خواہ مخواہ سوال پر سوال نکال کر تفصیلات اور تعینات اور تقیدات بڑھانے کی کوشش کرتا ہے ، اور اگر شارع کے کلام سے یہ چیزیں کسی طرح نہیں نکلتیں تو قیاس سے ، استنباط سے کسی نہ کسی طرح مجمل کو مفصل ، مطلق کو مقَیَّد ، غیر معین کو معین بنا کر ہی چھوڑتا ہے ، وہ درحقیقت مسلمانوں کو بڑے خطرے میں ڈالتا ہے ۔ اس لیے کہ ما بعد الطبیعی امور میں جتنی تفصیلات زیادہ ہوں گی ، ایمان لانے والے کے لیے اتنے ہی زیادہ الجھن کے مواقع بڑھیں گے ، اور احکام میں جتنی قیود زیادہ ہوں گی پیروی کرنے والے کے لیے خلاف ورزی حکم کے امکانات بھی اسی قدر زیادہ ہوں گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

69: آیت کا مطلب یہ ہے کہ اول تو جن باتوں کی کوئی خاص ضرورت نہ ہو ان کی کھوج میں پڑنا فضول ہے۔ دوسرے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے بعض اوقات کوئی حکم مجمل طریقے سے آتا ہے۔ اگر اس حکم پر اسی اجمال کے ساتھ عمل کرلیا جائے توکافی ہے۔ اگر اﷲ تعالیٰ کو اس میں مزید تفصیل کرنی ہوتی تو وہ خود قرآنِ کریم یا نبی کریمﷺ کی سنت کے ذریعے کردیتا، اب اس میں بال کی کھال نکالنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ اگر نزول قرآن کے زمانے میں اس کا کوئی سخت جواب آجائے تو خود تمہارے لئے مشکلات کھڑی ہوسکتی ہیں، چنانچہ اس آیت کے شان نزول میں ایک واقعہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ جب حج کا حکم آیا اور آنحضرتﷺ نے لوگوں کو بتایا تو ایک صحابی نے آپ سے پوچھا کہ یا رسول اللہ کیا حج عمر بھر میں صرف ایک مرتبہ فرض ہے، یا ہر سال کرنا فرض ہے؟۔ آنحضرتﷺ نے اس سوال پر ناگواری کا اظہار فرمایا۔ وجہ یہ تھی کہ حکم کے بارے میں اصل یہ ہے کہ جب تک اﷲ تعالیٰ کی طرف سے خود یہ صراحت نہ کی جائے کہ اس پر با ربار عمل کرنا ہوگا (جیسے نماز روزے اور زکوٰۃ میں یہ صراحت موجود ہے) اس وقت تک اس پر صرف ایک بار عمل کرنے سے حکم کی تعمیل ہوجاتی ہے، اس لئے اس سوال کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ آپﷺ نے صحابی سے فرمایا کہ اگر میں تمہارے جواب میں یہ کہہ دیتا کہ ہاں ہر سال فرض ہے تو واقعی پوری امت پر وہ ہر سال فرض ہوجاتا۔