رزق حلال کم ہو تو برکت حرام زیادہ بھی ہو تو بےبرکت اور کثرت سوالات مقصد یہ ہے کہ حلال گو تھوڑا ہو وہ بہتر ہے حرام سے گو بہت سارا ہو جیسے وارد ہے کہ جو کم ہو اور کفایت کرے وہ بہتر ہے اس سے جو زیادہ ہو اور غافل کر دے ، ابن حاطب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ یا رسول اللہ دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ مجھے مال عطا فرمائے آپ نے فرمایا کم مال جس کا شکریہ تو ادا کرے یہ بہتر ہے اس زیادہ سے جس کی تو طاقت نہ رکھے ، اے عقلمند لوگو اللہ سے ڈرو حرام سے بچو حلال پر اکتفا کرو قناعت کیا کرو تاکہ دین و دنیا میں کامیاب ہو جاؤ ، پھر اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو ادب سکھاتا ہے کہ بےفائدہ سوالات مت کیا کرو ، کرید میں نہ پرو ، ایسے نہ ہو کہ پھر ان کا جواب اور ان امور کا اظہار تم پر شاق گزرے ، صحیح حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے کوئی کسی کی برائی کی بات نہ پہنچائے ، میں چاہتا ہوں کہ تمہاری طرف اس حالت میں آؤں کہ میرے دل میں کسی کی طرف سے کوئی برائی نہ ہو ، صحیح بخاری شریف میں حصرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ سنایا ، ایسا بےمثل کہ ہم نے کبھی ایسا خطبہ نہ سنا تھا اسی میں فرمایا کہ اگر تم وہ جانتے جو میں جانتا ہوں تو تم بہت کم ہنستے اور بہت زیادہ روتے ، یہ سن کر اصحاب رسول منہ ڈھانپ کر رونے لگے اسی اثنا میں ایک شخص آپ سے پوچھ بیٹھا کہ میرا باپ کون ہے ؟ آپ نے فرمایا فلاں ، اس پر یہ آیت اتری بخاری مسلم کی اور حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ لوگوں نے حضور سے بہ کثرت سوالات شروع کر دیئے چنانچہ آپ منبر پر آ گئے اور فرمایا آؤ اب جس کسی کو جو کچھ پوچھنا ہو پوچھ لو جو پوچھو گے جواب پاؤ گے ، صحابہ کانپ اٹھے کہ ایسا نہ ہو اس کے پیچھے کوئی اہم امر ظاہر ہو جتنے بھی تھے سب اپنے اپنے چہرے کپڑوں سے ڈھانپ کر رونے لگے ، ایک شخص تھے جن سے مذاق کیا جاتا تھا اور جنہیں لوگ ان کے باپ کے سوا دو سرے کی طرف نسبت کر کے بلاتے تھے اس نے کہا حضور میرا باپ کون ہے؟ آپ نے فرمایا خزافہ ، پھر حضرت عمر کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ ہم اللہ کے رب ہونے پر اسلام کے دین ہونے پر اور آپ کے سوال ہونے پر راضی ہو گئے ہم تمام فتنوں سے اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں ، آپ نے فرمایا آج کی طرح میں نے بھلائی برائی کبھی نہیں دیکھی جنت دوزخ میرے سامنے اس دیوار کے پیچھے بطور نقشے کے پیش کر دی گئی تھی اور روایت میں ہے یہ سوال کرنے والے حضرت عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ تھے ۔ ان سے ان کی والدہ نے کہا تجھ سے بڑھ کر ماں باپ کا نافرمان میں نے نہیں دیکھا ۔ تجھے کیا خبر تھی جاہلیت میں کس چیز کا پرہیز تھا ۔ فرض کرو اگر میں بھی کسی معصیت میں اس وقت آلودہ ہو گئی ہوتی تو آج اللہ کے رسول کی زبانی میری رسوائی ہوتی اور سب کے سامنے بے آبروئی ہوتی ، آپ نے فرمایا سنو ماں اگر رسول اللہ کی زبانی مجھے معلوم ہوتا کہ فلاں حبشی غلام کا میں بیٹا ہوں تو واللہ میں اسی سے مل جاتا ، ابن جریر میں ہے کہ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سخت غصے کی حالت میں آئے منبر پر جڑھ گئے آپ کا چہرہ مبارک اس وقت سرخ ہو رہا تھا ایک شخص نے کھڑے ہو کر پوچھا میں کہاں جاؤں گا ؟ آپ نے فرمایا جہنم میں دوسرے نے پوچھا میرا باپ کون ہے؟ آپ نے فرمایا حذافہ ، حضرت عمر نے کھڑے ہو کر فرمایا ہم اللہ کے رب ہونے پر ، اسلام کے دین ہونے پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر ، قرآن کے امام ہونے پر راضی ہیں یا رسول اللہ جاہلیت اور شرک میں ہم ابھی ابھی آپ کی طرف آئے ہیں ، اللہ ہی جانتا ہے کہ میرے آباؤ اجداد کون ہیں؟ اس سے آپ کا غصہ کم ہوا اور یہ آیت اتری ، ایک مرسل حدیث میں ہے کہ اس دن حضور نے منبر پر بیٹھ کر فرمایا جو چاہو پوچھو ، جو پوچھو گے ، بتاؤں گا ، یہ شخص جس نے اپنے باپ کا نام پوچھا تھا یہ قریش کے قبیلے بنو سہم میں سے تھا ، اس روایت میں یہ بھی ہے کہ جناب عمر نے حضور کے قدم چوم کر یہ عرض کیا تھا اور یہ بھی فرمایا تھا کہ آپ ہم سے درگزر فرمائیے اللہ تعالیٰ آپ سے درگزر فرمائے ، اسی دن حضور نے یہ قاعدہ مقرر فرمایا تھا کہ اولاد اسے ملے گی جس کی بیوی یا لونڈی ہو اور زانی کو پتھر ملیں گے ، بخاری شریف میں ہے کہ بعض لوگ از روئے مذاق حضور سے اپنے باپ کا نام اور اپنی گم شدہ اونٹینیوں کی جگہ وغیرہ دریافت کرتے تھے جس پر یہ آیت اتری ، مسند احمد میں ہے کہ جب آیت ( وَلِلّٰهِ عَلَي النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْـتَـطَاعَ اِلَيْهِ سَبِيْلًا ) 3 ۔ آل عمران:97 ) نازل ہوئی یعنی صاحب مقدور لوگوں پر حج بیت اللہ فرض ہے تو لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ کیا ہر سال حج فرض ہے؟ آپ خاموش ہو رہے انہوں نے پھر دوبارہ یہی سوال کیا آپ نے پھر سکوت فرمایا انہوں نے تیسری دفعہ پھر یہی پوچھا آپ نے فرمایا ہر سال نہیں اور اگر میں ہاں کہ دیتا تو ہر سال واجب ہو جاتا اور تم ادا نہ کر سکتے ، پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری ، یہ حدیث ترمذی اور ابن ماجہ میں بھی ہے ، امام ترمذی فرماتے ہیں یہ روایت اس سند سے غریب ہے اور میں نے امام بخاری سے سنا ہے کہ اس کے راوی ابو الخجزی نے حضرت علی سے ملاقات نہیں کی ، ابن جریر کی اس روایت میں یہ بھی ہے کہ میری ہاں کے بعد اگر تم اسے چھوڑ دیتے تو یقینات کافر ہو جاتے ، ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ پوچھنے والے محصن اسدی تھے ، دوسری روایت میں ان کا نام عکاشہ بن محصن مروی ہے ، یہی زیادہ ٹھیک ہے اور روایت میں ہے کہ سائل ایک اعرابی تھے اس میں یہ بھی ہے کہ آپ نے فرمایا تم سے اگلے لوگ ائمہ حرج کے ایسے ہی سوالوں کی وجہ سے ہلاک ہوئے واللہ تمہاری حالت تو یہ ہے کہ اگر میں ساری زمین تمہارے لئے حلال کر دوں اور صرف ایک موزے کے برابر کی جگہ حرام کر دوں تو تم اسی حرمت والی زمین پر گرو گے ، اس کی سند بھی ضعیف ہے ، ظاہر آیت کے الفاظ کا مطلب تو صاف ہے یعنی ان باتوں کا پوچھنا منع ہے جن کا ظاہر ہونا برا ہو ، پس اولی یہ ہے کہ ایسے سوالات ترک کر دیئے جائیں اور ان سے اعراض کر لیا جائے ، مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ حضور نے اپنے صحابہ سے فرما دیا دیکھو مجھے کسی کی کوئی برائی نہ پہنچائے میں چاہتا ہوں کہ تمہارے پاس صاف سینہ لے کر آؤں ، پھر فرماتا ہے کہ جن چیزوں کے سوال سے تمہیں روکا جا رہا ہے اگر تم نے ان کی بابت پوچھ گچھ کی اور تم دیکھ رہے ہو کہ وحی نازل ہو رہی ہے تو تمہارے سوالات کا جواب آ جائے گا اور جس چیز کا ظاہر ہونا تمہیں برا معلوم ہوتا تھا وہ ظاہر ہو جائے گی ، اس سے پہلے کے ایسے سوالات سے تو اللہ تعالیٰ نے درگزر فرما لیا ۔ اللہ ہے ہی بخشش والا اور حلم و بردباری والا ۔ مطلب یہ ہے کہ سوالات ترک کردو ایسا نہ ہو کہ تمہارے سوال کی وجہ سے کوئی آسانی سختی میں بدل جائے ۔ حدیث شریف میں ہے مسلمانوں میں سب سے بڑا گنہگار وہ ہے جس نے کسی چیز کی نسبت دریافت کیا جو حرام نہ تھی پھر اس کے سوال کی وجہ سے وہ حرام ہو گئی ، یہ بات اور ہے کہ قرآن شریف میں کوئی حکم آئے اس میں اجمال ہو اس کی تفصیل دریافت کی جائے ، اللہ تعالیٰ نے جس چیز کا ذکر اپنی پاک کتاب میں نہیں کیا اس سے خود اس نے درگزر فرما لیا ہے ، پس تمہیں بھی اس سے خاموشی اختیار کرنی چاہیے جیسے کہ خود اللہ تعالیٰ نے کی ہے ، صحیح حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب تک میں تمہیں چھوڑے رکھوں تم بھی مجھے چھوڑ رکھو ، یاد رکھو کہ تم سے اگلے لوگوں کی حالت کی وجہ صرف کثرت سوال اور انبیاء پر اختلاف ہی ہوئی ہے اور حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ نے فرائض مقرر کر دیئے ہیں انہیں ضائع نہ کرو حدیں باندھ دی ہیں انہیں نہ توڑو ، جو چیزیں حرام کر دی ہیں ان کی حرمت کو سنبھالو جن چیزوں سے خاموشی کی ہے صرف تم پر رحم کھا کر نہ کہ بھول کر تم بھی اس کو پوچھ گچھ نہ کرو ، پھر فرماتا ہے ایسے ہی مسائل تم سے اگلے لوگوں نے بھی دریافت کئے انہیں بتائے گئے پھر وہ ان پر ایمان نہ لائے بلکہ ان کے باعث کافر بن گئے ان پر وہ باتیں بیان کی گئیں ان سے انہوں نے فائدہ نہ اٹھایا کیونکہ ان کے سوال ہی سرکشی پر تھے نہ کہ سمجھنے اور ماننے کیلئے ، ابن عباس سے اس آیت کی تفسیر میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں میں اعلان کیا پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر حج فرض کر دیا ہے ، بنو اسد قبیلے کا ایک شخص کھڑا ہوا اور کہا یا رسول اللہ کیا ہر سال ؟ آپ سخت غضبناک ہوئے اور فرمایا قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر میں ہاں کہدیتا تو ہر سال فرض ہو جاتا اور اگر ایسا ہوتا تو اس پر عمل تمہاری طاقت سے باہر تھا اور جب عمل نہ کرتے تو کافر ہو جاتے پس جب تک میں نہ کہوں تم بھی نہ پوچھو میں خود جب تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو اسے بجا لاؤ اور جب میں تمہیں کسی چیز سے روکوں تو رک جاؤ ، پاس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور صحابہ کو ممانعت کر دی کہ کہیں وہ بھی نصرانیوں کی طرح آسمانی دستر خوان طلب نہ کریں جس کے طلب کرنے کے بعد اور آنے کے بعد پھر وہ کافر ہو گئے پس منع کر دیا اور صاف فرما دیا کہ ایسی باتیں نہ پوچھو کہ اگر قرآن میں ان کی بابت سخت احکام نازل ہوں تو تمہیں برے لگیں بلکہ تم منتظر رہو قرآن اتر رہا ہے جو پوچھنا چاہتے ہو سب کا بیان اس میں پاؤ گے ۔ بہ روایت مجاہد حضرت ابن عباس سے اس آیت کی تفسیر میں یہ بھی مروی ہے کہ مراد اس سے وہ جانور ہیں جن کا ذکر اس آیت کے بعد ہی ہے ، عکرمہ فرماتے ہیں مراد معجزات کی طلبی ہے جیسے کہ قریشیوں نے کہا تھا کہ عرب میں نہریں جاری ہو جائیں اور صفا پہاڑ سونے کا ہو جائے وغیرہ اور جیسے یہود نے کہا تھا کہ خود ان پر آسمان سے کتاب اترے ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت ( وَمَا مَنَعَنَآ اَنْ نُّرْسِلَ بِالْاٰيٰتِ اِلَّآ اَنْ كَذَّبَ بِهَا الْاَوَّلُوْنَ ) 17 ۔ الاسراء:59 ) یعنی معجزوں کے ظاہر کرنے سے مانع تو کچھ بھی نہیں مگر یہ کہ اگلے لوگوں نے بھی اسے جھٹلایا ہم نے ثمود کو اونٹنی کا نشان دیا تھا جس پر انہوں نے ظلم کیا ہم تو نشانات صرف دھمکانے کیلئے بھیجتے ہیں اور آیت میں ہے آیت ( وَاَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ لَىِٕنْ جَاۗءَتْهُمْ اٰيَةٌ لَّيُؤْمِنُنَّ بِهَا ۭ قُلْ اِنَّمَا الْاٰيٰتُ عِنْدَ اللّٰهِ وَمَا يُشْعِرُكُمْ ۙ اَنَّهَآ اِذَا جَاۗءَتْ لَا يُؤْمِنُوْنَ ) 6 ۔ الانعام:109 ) بڑی زور دار قسمیں کھاتے ہیں کہ اگر کوئی معجزہ آ گیا تو ضرور ایمان لائیں گے تو جواب دے کہ یہ تو اللہ کے قبضے کی چیز ہے ہو سکتا ہے کہ معجزہ دیکھ کر بھی ایمان نہ لائیں ہم ان کے دلوں کو اور آنکھوں کو الٹ دیں گے جیسے کہ پہلی دفعہ قرآن پر ایمان نہیں لائے تھے اور ہم انہیں ان کی سرکشی کی حالت میں ہی پڑے رہنے دیں گے بھٹکتے پھریں اگر ہم ان پر آسمان سے فرشتے بھی اتارتے اور مردے بھی ان سے باتیں کرنے لگتے اور تمام چیزیں یہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے تب بھی تو اللہ کی چاہت کے بغیر انہیں ایمان نصیب نہ ہوتا ۔ ان میں سے اکثر ہیں ہی بےعلم ۔
100۔ 1 خَبِیْثُ (ناپاک) سے مراد حرام، یا کافر یا گناہ گار یا ردی۔ طیب (پاک) سے مراد حلال، یا مومن یا فرماں بردار اور عمدہ چیز ہے یا یہ سارے ہی مراد ہوسکتے ہیں۔ مطلب یہ ہے جس چیز میں خبث (ناپاکی) ہوگی وہ کفر ہو، فسق و فجور ہو، اشیا و اقوال ہوں، کثرت کے باوجود وہ ان چیزوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے جن میں پاکیزگی ہو۔ یہ دونوں کسی صورت میں برابر نہیں ہوسکتے۔ اس لئے پلیدی کی وجہ سے اس چیز کی قیمت اور برکت ختم ہوجاتی ہے جب کہ جس چیز میں پاکیزگی ہوگی اس سے اس کی منفعت اور برکت میں اضافہ ہوگا۔
[١٤٨۔ الف ] خبیث اور طیب کے مختلف معانی :۔ اس آیت کے کئی مطلب ہوسکتے ہیں مثلاً (١) غلاظت کے ڈھیر سے عطر کا ایک قطرہ زیادہ قدر و قیمت رکھتا ہے یا ایک گندے پانی کے نالہ سے صاف ستھرے پانی کا ایک گلاس زیادہ قدر و قیمت رکھتا ہے۔- (٢) حرام طریقہ سے کمائی ہوئی دولت اگر ایک سو روپیہ ہو تو حلال طریقے سے کمائے ہوئے پانچ روپے اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں زیادہ قدر و قیمت رکھتے ہیں اگرچہ تمہیں وہ سو روپے کی حرام کمائی کتنی ہی اچھی نظر آتی ہو۔ - (٣) بدکار اور نافرمان آدمیوں کے ایک لشکر کے مقابلہ میں اللہ کے نزدیک گنتی کے چند فرمانبردار اور متقی لوگ زیادہ محبوب ہیں اور جو لوگ صاحب عقل و شعور ہیں وہ ان متضاد اشیاء کو کبھی یکساں قرار نہیں دے سکتے لہذا تم اللہ سے ڈرتے ہوئے وہی بات کہو جسے اہل عقل و دانش بھی درست سمجھتے ہوں۔ اسی صورت میں کامیابی کا امکان ہے۔
قُلْ لَّا يَسْتَوِي الْخَبِيْثُ وَالطَّيِّبُ ۔۔ : یعنی حرام اور حلال یا کافر اور مومن برابر نہیں ہوسکتے۔ حرام رزق کی فراوانی اور اس پر عیش و عشرت گو بظاہر کتنی ہی خوش کن کیوں نہ ہو، انسان پر لازم ہے کہ وہ رزق حلال پر قناعت کرے، خواہ وہ ظاہر میں کتنا ہی حقیر ہو۔ اسی طرح کافر کتنا بھی اچھا نظر آئے مومن کے برابر نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ رزق حلال اور مومن طیب ہیں اور رزق حرام اور کافر خبیث ہیں، خبث نے ان کی اچھائی کو ختم کردیا ہے۔
چوتھی آیت میں ارشاد فرمایا : قُلْ لَّا يَسْتَوِي الْخَبِيْثُ وَالطَّيِّبُ ، عربی زبان میں طیّب اور خبیث دو متقابل لفظ ہیں، طیّب ہر چیز کے عمدہ اور جیّد کو اور خبیث ہر چیز کے ردی اور خراب کو کہا جاتا ہے، اس آیت میں اکثر مفسرین کے نزدیک خبیث سے مراد حرام یا ناپاک ہے، اور طیّب سے مراد حلال اور پاک، معنی آیت کے یہ ہوگئے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بلکہ ہر عقل سلیم کے نزدیک پاک و ناپاک یا حلال و حرام برابر نہیں ہوسکتے۔- اس جگہ لفظ خبیث اور طیّب اپنے عموم کے اعتبار سے حرام و حلال مال و دولت کو بھی شامل ہے، اور اچھے برے انسانوں کو بھی، اور بھلے برے اعمال و اخلاق کو بھی، مطلب آیت کا واضح ہے کہ کسی عقل سلیم کے نزدیک نیک و بد اور بھلا برا برابر نہیں ہوتا اسی فطری قانون کے مطابق اللہ تعالیٰ کے نزدیک حلال و حرام یا پاک و ناپاک چیزیں برابر نہیں اسی طرح اچھے اور برے اعمال و اخلاق برابر نہیں، اسی طرح نیک و بد انسان برابر نہیں۔- آگے ارشاد فرمایا وَلَوْ اَعْجَبَكَ كَثْرَةُ الْخَبِيْثِ ، یعنی اگرچہ دیکھنے والوں کو بعض اوقات خراب اور خبیث چیزوں کی کثرت مرعوب کردیتی ہے، اور گردوپیش میں خبیث و خراب چیزوں کے پھیل جانے اور غالب آجانے کے سبب انہی کو اچھا سمجھنے لگتے ہیں، مگر یہ انسانی علم و شعور کی بیماری اور احساس کا قصور ہوتا ہے۔- آیت کا شان نزول - آیت کے شان نزول کے متعلق بعض روایات میں ہے کہ جب اسلام میں شراب کو حرام اور اس کی خریدو فروخت کو بھی ممنوع قرار دے دیا گیا تو ایک شخص نے جس کا کاروبار شراب فروشی کا تھا، اور اس ذریعہ سے اس نے کچھ مال جمع کر رکھا تھا، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا، کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ مال جو شراب کی تجارت سے میرے پاس جمع ہوا ہے اگر میں اس کو کسی نیک کام میں خرچ کروں تو کیا وہ میرے لئے مفید ہوگا ؟ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اگر تم اس کو حج یا جہاد وغیرہ میں خرچ کروگے تو وہ اللہ کے نزدیک مچھر کے ایک پر کے برابر بھی قیمت نہ رکھے گا، اللہ تعالیٰ پاک اور حلال چیز کے سوا کسی چیز کو قبول نہیں فرماتے۔- حرام مال کی یہ بےتوقیری تو آخرت کے اعتبار سے ہوئی اور اگر گہری نظر سے معائنہ کیا جائے اور سب کاموں کے آخری انجام کو سامنے رکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ دنیا کے کاروبار میں بھی حلال و حرام مال برابر نہیں ہوتے، حلال سے جتنے فوائد اور اچھے نتائج اور حقیقی آرام و راحت نصیب ہوتی ہے وہ کبھی حرام سے نہیں ہوتی۔- تفسیر درمنثور میں بحوالہ ابن ابی حاتم نقل کیا ہے کہ زمانہ تابعین کے خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبد العزیز رحمة اللہ علیہ نے جب سابق امراء کے زمانہ کے عائد کئے ہوئے ناجائز ٹیکس بند کئے، اور جن لوگوں سے ناجائز طور پر اموال لئے گئے وہ واپس کئے اور سرکاری بیت المال خالی ہوگیا اور آمدنی بہت محدود ہوگئی، تو ایک صوبہ کے گورنر نے ان کی خدمت میں خط لکھا کہ بیت المال کی آمدنی بہت گھٹ گئی ہے، فکر ہے کہ حکومت کے کاروبار کس طرح چلیں گے، حضرت عمر بن عبد العزیز رحمة اللہ علیہ نے جواب میں یہی آیت تحریر فرما دی، لَّا يَسْتَوِي الْخَبِيْثُ وَالطَّيِّبُ وَلَوْ اَعْجَبَكَ كَثْرَةُ الْخَبِيْثِ اور لکھا کہ تم سے پہلے لوگوں نے ظلم و جور کے ذریعہ جتنا خزانہ بھرا تھا تم اس کے بالمقابل عدل و انصاف قائم کرکے اپنے خزانہ کو کم کرلو اور کوئی پرواہ نہ کرو ہماری حکومت کے کام اسی کم مقدار سے پورے ہوں گے۔- یہ آیت اگرچہ ایک خاص واقعہ میں نازل ہوئی ہے کہ اعداد و شمار کی کمی زیادتی کوئی چیز نہیں، کثرت و قلت سے کسی چیز کی اچھائی یا برائی کو نہیں جانچا جاسکتا، انسانوں کے سر پر ہاتھ شمار کرکے اکیاون (51) ہاتھوں کو اننچاس (49) کے مقابلہ میں حق و صداقت کا معیار نہیں کہا جاسکتا۔- بلکہ اگر دنیا کے ہر طبقہ کے حالات پر ذرا بھی نظر ڈالی جائے تو سارے عالم میں بھلائی کی مقدار اور تعداد کم اور برائی کی تعداد میں کثرت نظر آئے گی، ایمان کے مقابلہ میں کفر، تقویٰ و طہارت اور دیانت و امانت کے مقابلہ میں فسق و فجور، عدل و انصاف کے مقابلہ میں ظلم و جور، علم کے مقابلہ میں جہل، عقل کے مقابلہ میں بےعقلی کی کثرت کا مشاہدہ ہوگا، جس سے اس کا یقین لازمی ہوجاتا ہے کہ کسی چیز یا کسی جماعت کی تعدادی کثرت اس کے اچھے یا حق پر ہونے کی قطعاً دلیل نہیں ہوسکتی، بلکہ کسی چیز کی اچھائی اور بہتری اس چیز اور اس جماعت کے ذاتی حالات و کیفیات پر دائر ہوتی ہے، حالات و کیفیات اچھی ہیں تو وہ اچھی اور بری ہیں تو بری ہیں، قرآن کریم نے اسی حقیقت کو وَلَوْ اَعْجَبَكَ كَثْرَةُ الْخَبِيْثِ کے الفاظ میں واضح فرما دیا ہے۔- ہاں عدد کی کثرت کو اسلام نے بھی بعض مواقع میں فیصلہ کن قرار دیا ہے وہ اس جگہ جہاں قوت دلیل اور ذاتی خوبیوں کے موازنہ کا فیصلہ کرنے والا کوئی صاحب اقتدار حاکم نہ ہو، ایسے موقع پر عوام کا جھگڑا چکانے کے لئے عددی کثرت کو ترجیح دے دیجاتی ہے، جیسے نصب امام کا مسئلہ ہے، وہاں کوئی امام و امیر فیصلہ کرنے والا موجود نہیں، اس لئے کثرت رائے کو بعض دفعہ قطع نزاع کے لئے ترجیح دے دیگئی، یہ ہرگز نہیں کہ جس چیز کو زیادہ تعداد کے لوگوں نے اختیار کرلیا وہی چیز حلال اور جائز اور حق ہے۔- آخر آیت میں ارشاد فرمایا فاتَّقُوا اللّٰهَ يٰٓاُولِي الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ، یعنی اے عقل والو اللہ سے ڈرو، جس میں اشارہ فرما دیا کہ کسی چیز کی تعدادی کثرت کا مرغوب ہونا یا کثرت کو بمقابلہ قلت کے حق و صحیح کا معیار قرار دینا عقلاء کا کام نہیں، اسی لئے عقلاء کو خطاب کرکے ان کو اس غلط رویہ سے روکنے کے لئے فاتقوا اللّٰہ کا حکم دیا گیا۔
قُلْ لَّا يَسْتَوِي الْخَبِيْثُ وَالطَّيِّبُ وَلَوْ اَعْجَبَكَ كَثْرَۃُ الْخَبِيْثِ ٠ۚ فَاتَّقُوا اللہَ يٰٓاُولِي الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ١٠٠ۧ- استوا - أن يقال لاعتدال الشیء في ذاته، نحو : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم 6]- ( س و ی ) المسا واۃ - کسی چیز کے اپنی ذات کے اعتبار سے حالت اعتدال پر ہونے کے لئے بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم 6] یعنی جبرائیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے - خبث - الخُبْثُ والخَبِيثُ : ما يكره رداءة وخساسة، محسوسا کان أو معقولا، وأصله الرّديء الدّخلة الجاري مجری خَبَثِ الحدید، وذلک يتناول الباطل في الاعتقاد، والکذب في المقال، والقبیح في الفعال، قال عزّ وجلّ : وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبائِثَ [ الأعراف 157] ، أي : ما لا يوافق النّفس من المحظورات، وقوله تعالی: وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةٍ [إبراهيم 26] ، فإشارة إلى كلّ كلمة قبیحة من کفر وکذب ونمیمة وغیر ذلك، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «المؤمن أطيب من عمله، والکافر أخبث من عمله» «1» ويقال : خبیث مُخْبِث، أي : فاعل الخبث .- ( خ ب ث )- المخبث والخبیث ۔ ہر وہ چیز جو دری اور خسیں ہونے کی وجہ سے بری معلوم ہو خواہ وہ چیز محسوسات سے ہو یا معقولات ( یعنی عقائد و خیالات ) سے تعلق رکھتی ہو اصل میں خبیث روی اور ناکارہ چیز کو کہتے ہیں جو بمنزلہ لو ہے کی میل کے ہو ۔ اس اعتبار سے یہ اعتقاد باطل کذب اور فعل - قبیح سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبائِثَ [ الأعراف 157] اور ناپاک چیزوں کو ان پر حرام ٹھہراتے ہیں ۔ یعنی محظورات جو طبیعت کے ناموافق ہیں ۔ آیت :۔ وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةٍ [إبراهيم 26] اور ناپاک بات کی مثال ناپاک درخت کی سی ہے ۔ میں کفر ، جھوٹ ، چغلی ہر قسم کی قبیح باتیں داخل ہیں حدیث میں ہے :۔ المومن اطیب من عملہ والکافر اخبث من عملہ ۔ کہ مومن اپنے عمل سے پاک اور کافر اپنے عمل سے ناپاک ہے ۔ اور خبیث ومخبث خبث کے مرتکب کو بھی کہا جاتا ہے ۔- طيب - يقال : طَابَ الشیءُ يَطِيبُ طَيْباً ، فهو طَيِّبٌ. قال تعالی: فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء 3] ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء 4] ، وأصل الطَّيِّبِ : ما تستلذّه الحواسّ ، وما تستلذّه النّفس، والطّعامُ الطَّيِّبُ في الشّرع : ما کان متناولا من حيث ما يجوز، ومن المکان الّذي يجوز فإنّه متی کان کذلک کان طَيِّباً عاجلا وآجلا لا يستوخم، وإلّا فإنّه۔ وإن کان طَيِّباً عاجلا۔ لم يَطِبْ آجلا، وعلی ذلک قوله : كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة 172] - ( ط ی ب ) طاب ( ض )- الشئی یطیب طیبا فھم طیب ( کے معنی کسی چیز کے پاکیزہ اور حلال ہونے کے ہیں ) قرآن میں ہے : : فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء 3] تو ان کے سوا عورتیں تم کو پسند ہوں ان سے نکاح کرلو ۔ ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء 4] ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے تم کو چھوڑدیں ۔ اصل میں طیب اسے کہا جاتا ہے جس سے انسان کے حواس بھی لذت یاب ہوں اور نفس بھی اور شریعت کی رو سے الطعام الطیب اس کھانے کو کہا جائے گا جو جائز طریق سے حاصل کیا جائے اور جائز جگہ سے جائز انداز کے مطابق لیا جائے کیونکہ جو غذا اس طرح حاصل کی جائے وہ دنیا اور آخرت دونوں میں خوشگوار ثابت ہوگی ورنہ دنیا کی خوشگوار چیزیں آخرت میں نقصان وہ ثابت ہونگی اسی بنا پر قرآن طیب چیزوں کے کھانے کا حکم دیتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة 172] جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں عطا فرمائی ہیں اور ان کو کھاؤ ۔- عجب - العَجَبُ والتَّعَجُّبُ : حالةٌ تعرض للإنسان عند الجهل بسبب الشیء، ولهذا قال بعض الحکماء : العَجَبُ ما لا يُعرف سببه، ولهذا قيل : لا يصحّ علی اللہ التَّعَجُّبُ ، إذ هو علّام الغیوب لا تخفی عليه خافية . يقال : عَجِبْتُ عَجَباً ، ويقال للشیء الذي يُتَعَجَّبُ منه : عَجَبٌ ، ولما لم يعهد مثله عَجِيبٌ. قال تعالی: أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً أَنْ أَوْحَيْنا - [يونس 2] ، تنبيها أنهم قد عهدوا مثل ذلک قبله، وقوله : بَلْ عَجِبُوا أَنْ جاءَهُمْ- [ ق 2] ، وَإِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ [ الرعد 5] ،- ( ع ج ب ) العجب اور التعجب - اس حیرت کو کہتے ہیں جو کسی چیز کا سبب معلوم نہ ہونے کی وجہ سے انسان کو لاحق ہوجاتی ہے اسی بنا پر حکماء نے کہا ہے کہ عجب اس حیرت کو کہتے ہیں جس کا سبب معلوم نہ ہو اس لئے اللہ تعالیٰ پر تعجب کا اطلاق جائز نہیں ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ تو علام الغیوب ہے اس بنا پر کوئی چیز بھی مخفی نہیں ہے عجبت عجبا ( س ) میں نے تعجب کیا عجب ہر وہ بات جس سے تعجب پیدا ہوا اور جس جیسی چیز عام طور نہ دیکھی جاتی ہوا ہے عجیب کہا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً أَنْ أَوْحَيْنا[يونس 2] کیا لوگوں کو اس بات پر حیرت ہے کہ ہم نے وحی بھیجی ۔ میں تنبیہ کی ہے کہ آنحضرت کی طرف وحی بھیجنا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کیونکہ یہ لوگ پہلے سے سلسلہ وحی کو جانتے ہیں نیز فرمایا : ۔ بَلْ عَجِبُوا أَنْ جاءَهُمْ [ ق 2] بلکہ ان لوگوں نے تعجب کیا ہے کہ انہی میں سے ایک ہدایت کرنے والا ان کے پاس آیا ۔ وَإِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ [ الرعد 5] اور اگر تم عجیب بات سننی چاہو تو کافروں کا یہ کہنا عجیب ہے ۔ - تقوي - والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔- لب - اللُّبُّ : العقل الخالص من الشّوائب، وسمّي بذلک لکونه خالص ما في الإنسان من معانيه، كَاللُّبَابِ واللُّبِّ من الشیء، وقیل : هو ما زكى من العقل، فكلّ لبّ عقل ولیس کلّ عقل لبّا .- ولهذا علّق اللہ تعالیٰ الأحكام التي لا يدركها إلّا العقول الزّكيّة بأولي الْأَلْبَابِ نحو قوله : وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْراً إلى قوله : أُولُوا الْأَلْبابِ [ البقرة 269]- ( ل ب ب ) اللب - کے معنی عقل خالص کے ہیں جو آمیزش ( یعنی ظن دوہم اور جذبات ) سے پاک ہو اور عقل کو لب اس لئے کہتے ہیں کہ وہ انسان کے معنوی قوی کا خلاصہ ہوتی ہے جیسا کہ کسی چیز کے خالص حصے کو اس کا لب اور لباب کہہ دیتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ لب کے معنی پاکیزہ اور ستھری عقل کے ہیں چناچہ ہر لب کو عقل کہہ سکتے ہیں لیکن ۔ ہر عقل لب ، ، نہیں ہوسکتی یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان تمام احکام کو جن کا ادراک عقول زکیہ ہی کرسکتی ہیں اولو الباب کے ساتھ مختض کیا ہے جیسے فرمایا : وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْراً إلى قوله : أُولُوا الْأَلْبابِ [ البقرة 269] اور جس کو دانائی ملی بیشک اس کو بڑی نعمت ملی اور نصیحت تو وہی لو گ قبول کرتے ہیں جو عقلمند ہیں ۔ اور اس نوع کی اور بھی بہت سی آیات ہیں ؛ - فلح - والفَلَاحُ : الظَّفَرُ وإدراک بغية، وذلک ضربان :- دنیويّ وأخرويّ ، فالدّنيويّ : الظّفر بالسّعادات التي تطیب بها حياة الدّنيا، وهو البقاء والغنی والعزّ ، وإيّاه قصد الشاعر بقوله : أَفْلِحْ بما شئت فقد يدرک بال ... ضعف وقد يخدّع الأريب - وفَلَاحٌ أخرويّ ، وذلک أربعة أشياء : بقاء بلا فناء، وغنی بلا فقر، وعزّ بلا ذلّ ، وعلم بلا جهل . ولذلک قيل : «لا عيش إلّا عيش الآخرة» وقال تعالی: وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] - ( ف ل ح ) الفلاح - فلاح کے معنی کامیابی اور مطلب وری کے ہیں - اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔ فلاح دنیوی ان سعادتوں کو حاصل کرلینے کا نام ہے جن سے دنیوی زندگی خوشگوار بنتی ہو یعنی بقاء لمال اور عزت و دولت ۔ چناچہ شاعر نے اسی معنی کے مدنظر کہا ہے ( نحلع البسیط) (344) افلح بماشئت فقد یدرک بالضد عف وقد یخدع الاریب جس طریقہ سے چاہو خوش عیشی کرو کبھی کمزور کامیاب ہوجاتا ہے اور چالاک دہو کا کھانا جاتا ہے ۔ اور فلاح اخروی چار چیزوں کے حاصل ہوجانے کا نام ہے بقابلا فناء غنا بلا فقر، عزت بلا ذلت ، علم بلا جہلاسی لئے کہا گیا ہے (75) لاعیش الاعیش الاخرۃ کہ آخرت کی زندگی ہی حقیقی زندگی ہے اور اسی فلاح کے متعلق فرمایا : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] اور زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے ۔
آیت ١٠٠ (قُلْ لاَّ یَسْتَوِی الْخَبِیْثُ وَالطَّیِّبُ وَلَوْ اَعْجَبَکَ کَثْرَۃُ الْخَبِیْثِ ج) - انسان تو چاہتا ہے کہ اس کے پاس ہر شے کی بہتات ہو ‘ لیکن ناجائز اور حرام طریقے سے کمایا ہوا مال اگرچہ کثرت سے جمع ہوگیا ہو مگر ہے تو خبیث اور ناپاک ہی۔ بیشک اس کی چکاچوند تمہاری آنکھوں کو خیرہ کر رہی ہو مگر اس میں تمہارے لیے کوئی بھلائی نہیں ہے۔ بقول علّامہ اقبالؔ : - نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی - یہ صنّاعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :115 یہ آیت قدر و قیمت کا ایک دوسرا ہی معیار پیش کرتی ہے جو ظاہر میں انسان کے معیار سے بالکل مختلف ہے ۔ ظاہر بیں نظر میں سو ( ۱۰۰ ) روپے بمقابلہ پانچ ( ۵ ) روپے کے لازماً زیادہ قیمتی ہیں کیونکہ وہ سو ہیں اور یہ پانچ ۔ لیکن یہ آیت کہتی ہے کہ سو ( ۱۰۰ ) روپے اگر خدا کی نافرمانی کر کے حاصل کیے گئے ہوں تو وہ ناپاک ہیں ، اور پانچ روپے اگر خدا کی فرماں برداری کرتے ہوئے کمائے گئے ہوں تو وہ پاک ہیں ، اور ناپاک خواہ مقدار میں کتنا ہی زیادہ ہو ، بہرحال وہ پاک کے برابر کسی طرح نہیں ہو سکتا ۔ غلاظت کے ایک ڈھیر سے عطر کا ایک قطرہ زیادہ قدر رکھتا ہے اور پیشاب کی ایک لبریز ناند کے مقابلہ میں پاک پانی کا ایک چلو زیادہ وزنی ہے ۔ لہٰذا ایک سچے دانش مند انسان کو لازماً حلال ہی پر قناعت کرنی چاہیے خواہ وہ ظاہر میں کتنا ہی حقیر و قلیل ہو ، اور حرام کی طرف کسی حال میں بھی ہاتھ نہ بڑھانا چاہیے خواہ وہ بظاہر کتنا ہی کثیر و شاندار ہو ۔
68: اس آیت نے بتادیا ہے کہ دنیا میں بہت مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ کسی ناپاک یا حرام چیز کا رواج اتنا بڑھ جاتا ہے کہ وہ وقت کا فیشن قرار پاجاتا ہے، اور فیشن پرست لوگ اسے اچھا سمجھنے لگتے ہیں، مسلمانوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ صرف کسی چیز کے عام رواج کی وجہ سے اسے اختیار نہ کریں ؛ بلکہ یہ دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی ہدایات کی روشنی میں وہ جائز یا پاک ہے یا نہیں۔