[١٤٨] یعنی رسول کی ذمہ داری صرف اللہ کے احکام پہنچا دینے تک ہے آگے ان احکام کی فرمانبرداری کی ذمہ داری تم پر ہے۔ اگر تم نافرمانی کرو گے تو رسول تمہاری اس نافرمانی سے بری الذمہ ہے اور اللہ تمہارے ظاہری اعمال و اقوال کے علاوہ باطنی خیالات تک سے واقف ہے کہ تم میں اس کی اطاعت کا جذبہ کیسا ہے ؟
مَا عَلَي الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ ۭ: یعنی جب انھوں نے یہ حکم پہنچا دیا تو اپنا فریضہ ادا کردیا اور تم پر حجت قائم ہوگئی، اب کسی شخص کا کوئی عذر قابل قبول نہیں ہوگا۔ (ابن کثیر)
تیسری آیت میں ارشاد فرمایا : مَا عَلَي الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ ، یعنی ” ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذمہ تو اتنا ہی کام ہے کہ ہمارے احکام مخلوق کو پہنچادیں، پھر وہ مانیں نہ مانیں اس کا نفع و ضرر انہی کو پہنچتا ہے، ان کی نافرمانی سے ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کچھ نقصان نہیں، اور یہ بھی سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ کو کوئی فریب نہیں دیا جاسکتا، وہ تمہارے ظاہر و باطن اور کھلے اور چھپے ہر کام سے واقف ہیں۔
مَا عَلَي الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ ٠ۭ وَاللہُ يَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَمَا تَكْتُمُوْنَ ٩٩- رسل - أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144]- ( ر س ل ) الرسل - الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس - بَلَاغ : التبلیغ،- نحو قوله عزّ وجلّ : هذا بَلاغٌ لِلنَّاسِ [إبراهيم 52] ، وقوله عزّ وجلّ :- بَلاغٌ فَهَلْ يُهْلَكُ إِلَّا الْقَوْمُ الْفاسِقُونَ [ الأحقاف 35] ، وَما عَلَيْنا إِلَّا الْبَلاغُ الْمُبِينُ [يس 17] ، فَإِنَّما عَلَيْكَ الْبَلاغُ وَعَلَيْنَا الْحِسابُ [ الرعد 40] . والبَلَاغ : الکفاية، نحو قوله عزّ وجلّ : إِنَّ فِي هذا لَبَلاغاً لِقَوْمٍ عابِدِينَ [ الأنبیاء 106] - البلاغ ۔ کے معنی تبلیغ یعنی پہنچا دینے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : هذا بَلاغٌ لِلنَّاسِ [إبراهيم 52] یہ ( قرآن ) لوگوں کے نام ( خدا ) پیغام ہے ۔ بَلاغٌ فَهَلْ يُهْلَكُ إِلَّا الْقَوْمُ الْفاسِقُونَ [ الأحقاف 35]( یہ قرآن ) پیغام ہے سود اب وہی ہلاک ہوں گے جو نافرمان تھے ۔ وَما عَلَيْنا إِلَّا الْبَلاغُ الْمُبِينُ [يس 17] اور ہمارے ذمے تو صاف صاف پہنچا دینا ہے ۔ فَإِنَّما عَلَيْكَ الْبَلاغُ وَعَلَيْنَا الْحِسابُ [ الرعد 40] تمہارا کام ہمارے احکام کا ) پہنچا دینا ہے اور ہمارا کام حساب لینا ہے ۔ اور بلاغ کے معنی کافی ہونا بھی آتے ہیں جیسے : إِنَّ فِي هذا لَبَلاغاً لِقَوْمٍ عابِدِينَ [ الأنبیاء 106] عبادت کرنے والے لوگوں کے لئے اس میں ( خدا کے حکموں کی ) پوری پوری تبلیغ ہے - بدا - بَدَا الشیء بُدُوّاً وبَدَاءً أي : ظهر ظهورا بيّنا، قال اللہ تعالی: وَبَدا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ ما لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ [ الزمر 47] - ( ب د و ) بدا - ( ن ) الشئ یدوا وبداء کے معنی نمایاں طور پر ظاہر ہوجانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ وَبَدا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ ما لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ [ الزمر 47] اور ان کیطرف سے وہ امر ظاہر ہوجائے گا جس کا ان کو خیال بھی نہ تھا ۔ - كتم - الْكِتْمَانُ : ستر الحدیث، يقال : كَتَمْتُهُ كَتْماً وكِتْمَاناً. قال تعالی: وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهادَةً عِنْدَهُ مِنَ اللَّهِ [ البقرة 140] ، - ( ک ت م ) کتمہ ( ن ) کتما وکتما نا کے معنی کوئی بات چھپانا کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهادَةً عِنْدَهُ مِنَ اللَّهِ [ البقرة 140] اور اس سے بڑھ کر ظالم کون جو خدا کی شہادت کو جو اس کے پاس کتاب اللہ میں موجود ہے چھپائے
(٩٩۔ ١٠٠) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان لوگوں سے فرما دیجیے، جنھوں نے شریح کے مال پر جو کہ وہ لے کر آئے تھے، دست درازی کی تھی کہ شریح کا مال حرام اور وہ حلال مال جو وہ لے کر آئے تھے برابر نہیں ہوسکتے، لہٰذا عقل والو حرام مال لینے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو تاکہ اس کے غصہ اور عذاب سے بچ سکو۔- شان نزول : (آیت) ” قل لا یستوی الخبیث “۔ (الخ)- واحدی (رح) اور اصبہانی (رح) نے ترغیب میں جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شراب کی حرمت بیان کی تو یہ سن کر ایک اعرابی کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ میری یہی تجارت تھی اور میں نے اس کام میں کافی مال حاصل کیا ہے اگر میں اس مال کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں خرچ کروں تو کیا وہ مال مجھ کو فائدہ دے گا ؟- رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ پاکیزہ چیز کے علاوہ اور کسی چیز کو قبول نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصدیق کے لیے یہ آیت نازل فرما دی کہ آپ فرما دیجیے کہ ناپاک اور پاک برابر نہیں۔
آیت ٩٩ (مَا عَلَی الرَّسُوْلِ الاَّ الْبَلٰغُ ط) ( وَاللّٰہُ یَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَمَا تَکْتُمُوْنَ ) - جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پیغام پہنچا دیا تو باقی ساری ذمہ داری اب تمہاری ہے۔