Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

روز قیامت انبیاء سے سوال اس آیت میں بیان فرمایا گیا ہے کہ رسولوں سے قیامت کے دن سوال ہو گا کہ تمہاری امتوں نے تمہیں مانا یا نہیں؟ جیسے اور آیت میں ہے آیت ( فَلَنَسْــــَٔـلَنَّ الَّذِيْنَ اُرْسِلَ اِلَيْهِمْ وَلَنَسْــــَٔـلَنَّ الْمُرْسَلِيْنَ ) 7 ۔ الاعراف:6 ) یعنی رسولوں سے بھی اور ان کی امتوں سے بھی یہ ضرور دریافت فرمائیں گے اور جگہ ارشاد ہے آیت ( فَوَرَبِّكَ لَنَسْــَٔـلَنَّهُمْ اَجْمَعِيْنَ ) 15 ۔ الحجر:92 ) تیرے رب کی قسم ہم سب سے ان کے اعمال کا سوال ضرور ضرور کریں گے ، رسولوں کا یہ جواب کہ ہمیں مطلق علم نہیں اس دن کی ہول و دہشت کی وجہ سے ہو گا ، گھبراہٹ کی وجہ سے کچھ جواب بن نہ پڑے گا ، یہ وہ وقت ہو گا کہ عقل جاتی رہے گی پھر دوسری منزل میں ہر نبی اپنی اپنی امت پر گواہی دے گا ۔ ایک مطلب اس آیت کا یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ سوال کی غرض یہ ہے کہ تمہاری امتوں نے تمہارے بعد کیا کیا عمل کئے اور کیا کیا نئی باتیں نکا لیں؟ تو وہ ان سے اپنی لا علمی ظاہر کریں گے ، یہ معنی بھی درست ہو سکتے ہیں کہ ہمیں کوئی ایسا علم نہیں جو اے جناب باری تیرے علم میں نہ ہو ، حقیقتاً یہ قول بہت ہی درست ہے کہ اللہ کے علم کے مقابلے میں بندے محض بےعلم ہیں تقاضائے ادب اور طریقہ گفتگو یہی مناسب مقام ہے ، گو انبیاء جانتے تھے کہ کس کس نے ہماری نبوت کو ہمارے زمانے میں تسلیم کیا لیکن چونکہ وہ ظاہر کے دیکھنے والے تھے اور رب عالم باطن بین ہے اس لئے ان کا یہی جواب بالکل درست ہے کہ ہمیں حقیقی علم مطلقاً نہیں تیرے علم کی نسبت تو ہمارا علم محض لا علمی ہے حقیقی عالم تو صرف ایک تو ہی ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

109۔ 1 انبیاء (علیہم السلام) کے ساتھ ان کی قوموں نے اچھا یا برا جو بھی معاملہ کیا، اس کا علم یقینا انہیں ہوگا لیکن وہ اپنے علم کی نفی یا تو محشر کی کی ہولناکی اور اللہ جل جلالہ کی ہیبت و عظمت کی وجہ سے کریں گے یا اس کا تعلق ان کی وفات کے بعد کے حالات سے ہوگا۔ علاوہ ازیں باطنی امور کا علم تو صرف اللہ ہی کو ہے۔ اس لئے وہ کہیں گے علام الغیوب تو ہی ہے نہ کہ ہم۔ اس سے معلوم ہوا انبیاء و رسل عالم الغیب نہیں ہوتے، عالم الغیب صرف اللہ کی ذات ہے۔ انبیاء کو جتنا کچھ علم ہوتا ہے اولاً تو اس کا تعلق ان امور سے ہوتا ہے جو فرائض رسالت کی ادائیگی کے لئے ضروری ہوتے ہیں۔ ثانیا ان سے بھی ان کو بذریعہ وحی آگاہ کیا جاتا ہے۔ حالانکہ علام الغیب وہ ہوتا ہے۔ جس کو ہر چیز کا علم ذاتی طور پر ہو، نہ کہ کسی کے بتلانے پر اور جس کو بتلانے پر کسی چیز کا علم حاصل ہو اسے عالم الغیب نہیں کہا جاتا۔ نہ وہ عالم الغیب ہوتا ہی ہے۔ فافھم وتدبر ولا تکن من الغافلین

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٥٧] روز قیامت پیغمبروں سے سوال :۔ اب یہ تو ظاہر ہے کہ رسولوں کو ان کی امتوں نے جو جو جواب دیئے تھے ان کا انہیں کسی نہ کسی حد تک علم ضرور تھا مگر روز حساب میں ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب دہشت اتنی زیادہ ہوگی کہ ماسوائے محمد رسول اللہ کے انبیاء و رسل سمیت سب نفسی نفسی پکار رہے ہوں گے اور اپنی اپنی نجات کی فکر کے سوا کسی کو کوئی بات سوجھ ہی نہیں رہی ہوگی اسی بنا پر رسول ایسے وقت میں انتہائی مختصر اور جامع سا جواب دیں گے اور یہ جواب اس لحاظ سے مبنی بر حقیقت بھی ہے کہ اللہ کے علم کے مقابلہ میں دوسروں کا علم کچھ حقیقت نہیں رکھتا نیز لفظ (مَاذَا اَجَبْتُمْ ) کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جو دعوت تم نے لوگوں کو دی تھی اس کا رد عمل کیسا رہا اور لوگوں نے اس دعوت کو کہاں تک قبول کیا تھا اس کا جواب پیغمبر یہ دیں گے کہ اے اللہ یہ بات تو آپ ہی خوب جانتے ہیں اس کا علم ہمیں کیسے ہوسکتا ہے ؟

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

يَوْمَ يَجْمَعُ اللّٰهُ الرُّسُلَ ۔۔ : دین کے کچھ مسائل اور احکام بیان کرنے کے بعد اب قیامت کے بعض احوال ذکر فرما دیے، تاکہ نافرمانی کرنے والوں کو تنبیہ ہو۔ (کبیر) مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن پیغمبروں کو جمع کرکے ان سے سوال ہوگا کہ جو دعوت تم نے دی تھی تمہاری امتوں نے اسے کس حد تک قبول کیا۔ پیغمبروں سے یہ سوال درحقیقت امتوں کو ڈانٹ ڈپٹ اور ملامت کے لیے ہوگا۔ (ابن کثیر) جیسا کہ آیت : (وَاِذَا الْمَوْءٗدَةُ سُىِٕلَتْ )” جب زندہ دفن کی گئی لڑکی سے پوچھا جائے گا “ یہ سوال درحقیقت زندہ درگور کرنے والوں کو ذلیل کرنے کے لیے ہوگا۔ - قَالُوْا لَا عِلْمَ لَنَا ۭ۔۔ : وہ کہیں گے کہ ہمیں کچھ معلوم نہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ امتوں کے اپنے اپنے رسولوں کو جواب کا کچھ علم تو پیغمبروں کو تھا، کیونکہ ان کی عمر انھی میں گزری تھی، تو وہ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں کچھ علم نہیں۔ اس سوال کا جواب (اِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ ) میں موجود ہے، یعنی ہم تو صرف ان کے ظاہری جواب کی حد تک واقف ہیں، جو ہماری زندگی میں انھوں نے دیا اور پیغمبر شہادت بھی اسی کے متعلق دیں گے۔ (دیکھیے نساء : ٤١۔ بقرہ : ١٤٣) باقی رہا کہ انھوں نے فی الحقیقت ہماری دعوت کو دل سے قبول کیا یا نہیں اور ہمارے بعد ہماری امتیں اس دعوت پر کہاں تک ثابت قدم رہیں تو اس کا علم تیرے سوا کسی کو نہیں، کیونکہ چھپی ہوئی باتوں کو تو ہی خوب جاننے والا ہے، سو آیات میں بحمد اللہ کوئی تعارض نہیں۔ (کبیر) شاہ عبد القادر (رض) فرماتے ہیں کہ یہ ان کو سنایا جو پیغمبروں کی شفاعت پر مغرور ہیں، تاکہ معلوم کریں کہ اللہ تعالیٰ کے آگے کوئی کسی کے دل پر گواہی نہیں دیتا اور کوئی کسی کی سفارش نہیں کرتا۔ (موضح)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ربط آیات - اوپر احکام مختلفہ کا ذکر ہوا اور درمیان میں ان پر عمل کی ترغیب اور ان کی مخالفت پر ترغیب فرمائی گئی، اسی کی تاکید کے لئے اگلی آیت میں قیامت کے ہولناک واقعات یاد دلاتے ہیں، تاکہ اطاعت کا زیادہ باعث اور مخالفت سے زیادہ مانع ہو اور اکثر طرز قرآن مجید کا یہی ہے، پھر ختم سورت میں اہل کتاب کا مکالمہ ذکر فرمایا ہے، جو ماقبل متعدد آیات میں مذکور ہوچکا، جس سے مقصد اہل کتاب کو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق بعض مضامین سنانا ہے جن سے ان کی عبدیت کا اثبات اور الوہیت کی نفی ہے (اگرچہ اس مخاطبت کا وقوع قیامت میں ہوگا) ۔- خلاصہ تفسیر - (وہ دن بھی کیسا ہولناک ہوگا) جس روز اللہ تعالیٰ تمام پیغمبروں کو (مع ان کی امتوں کے) جمع کریں گے پھر (ان امتوں میں جو عاصی ہوں گے بغرض توبیخ ان کے سنانے کو ان پیغمبروں سے) ارشاد فرمائیں گے کہ تم کو (ان امتوں کی طرف سے) کیا جواب ملا تھا، وہ عرض کریں گے کہ (ظاہری جواب تو ہم کو معلوم ہے اور اس کو بیان بھی کردیں گے، لیکن ان کے دل میں جو کچھ ہو اس کی) ہم کو کچھ خبر نہیں (اس کو آپ ہی جانتے ہیں کیونکہ) آپ بیشک پوشیدہ باتوں کے پورے جاننے والے ہیں (مطلب یہ کہ ایک دن ایسا ہوگا اور اعمال و احوال کی تفتیش ہوگی، اس لئے تم کو مخالفت و معصیت سے ڈرتے رہنا چاہیئے، اور اسی روز عیسیٰ (علیہ السلام) سے ایک خاص گفتگو ہوگی) جبکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائیں گے کہ اے عیسیٰ بن مریم میرا انعام یاد کرو (تاکہ لذت تازہ ہو) جو تم پر اور تمہاری والدہ پر (مختلف اوقات میں مختلف صورتوں سے ہوا ہے مثلاً ) جب کہ میں تم کو روح القدس (یعنی جبرئیل علیہ السلام) سے امداد اور تائید دی (اور) تم آدمیوں سے (دونوں حالتوں میں یکساں) کلام کرتے تھے (ماں کی) گود میں بھی اور بڑی عمر میں بھی (دونوں کلاموں میں کچھ تفاوت نہ تھا) اور جب کہ میں نے تم کو (آسمانی) کتابیں اور سمجھ کی باتیں اور (بالخصوص) توریت و انجیل تعلیم کیں، اور جب کہ تم گارے سے ایک شکل بناتے تھے، جیسے پرندہ کی شکل ہوتی ہے میرے حکم سے پھر تم اس (مصنوعی ہیئت) کے اندر پھونک مار دیتے تھے جس سے وہ (سچ مچ کا جاندار) پرندہ بن جاتا تھا، میرے حکم سے اور تم اچھا کردیتے تھے مادرزاد اندھے کو اور برص (جذام) کے بیمار کو میرے حکم سے اور جب کہ تم مردوں کو (قبروں سے) نکال (اور جلا کر) کھڑا کرلیتے تھے میرے حکم سے اور جب کہ میں نے بنی اسرائیل (میں سے جو آپ کے مخالف تھے ان) کو تم سے (یعنی تمہارے قتل و اہلاک سے) سے باز رکھا جب ( انہوں نے تم کو ضرر پہنچانا چاہا جبکہ) تم ان کے پاس (اپنی نبوت کی) دلیلیں (معجزات) لے کر آئے تھے پھر ان میں جو کافر تھے انہوں نے کہا تھا کہ یہ (معجزات) بجز کھلے جادو کے اور کچھ بھی نہیں۔- معارف و مسائل - قیامت میں انبیاء علیہم الصلوٰة والسلام سے سب سے پہلے سوال ہوگا - (قولہٰ تعالیٰ ) يَوْمَ يَجْمَعُ اللّٰهُ الرُّسُلَ فَيَقُوْلُ مَاذَآ اُجِبْتُمْ ، قیامت میں اگرچہ اول سے آخر تک پیدا ہونے والے تمام انسان ایک کھلے میدان میں کھڑے ہوں گے، اور کسی خطہ، کسی ملک اور کسی زمانہ کا انسان ہو وہ اس میدان میں حاضر ہوگا۔ اور سب سے ان کے عمر بھر کے اعمال کا حساب لیا جائے گا، لیکن بیان میں خصوصیت کے ساتھ انبیاء (علیہم السلام) کا ذکر کیا گیا، يَوْمَ يَجْمَعُ اللّٰهُ الرُّسُلَ فَيَقُوْلُ مَاذَآ اُجِبْتُمْ ، یعنی اس دن کو یاد کرو، جس دن اللہ تعالیٰ سب رسولوں کو حساب کے لئے جمع فرمائیں گے، مراد یہ ہے کہ جمع تو سارے عالم کو کیا جائے گا، مگر سب سے پہلے سوال انبیاء (علیہم السلام) سے ہوگا، تاکہ پوری مخلوق دیکھ لے، کہ آج کے دن کوئی حساب اور سوال و جواب سے مستثنیٰ نہیں، پھر رسولوں سے جو سوال کیا جائے گا وہ یہ ہے کہ ماذآ اُجِبْتُمْ ، یعنی جب آپ لوگوں نے اپنی اپنی امتوں کو اللہ تعالیٰ اور اس کے دین حق کی طرف بلایا تو ان لوگوں نے آپ کو کیا جواب دیا تھا ؟ اور کیا انہوں نے آپ کے بتلائے ہوئے احکام پر عمل کیا ؟ یا انکار و مخالفت ؟- اس سوال کے مخاطب اگرچہ انبیاء (علیہم السلام) ہوں گے، لیکن در حقیقت سنانا ان کی امتوں کو مقصود ہوگا، کہ امتوں نے جو اعمال نیک یا بد کئے ہیں ان کی شہادت سب سے پہلے ان کے رسولوں سے لی جائے گی، امتوں کے لئے یہ وقت بڑا نازک ہوگا، کہ وہ تو اس ہوش ربا ہنگامہ میں انبیاء (علیہم السلام) کی شفاعت کے متوقع ہوں گے۔ ادھر انبیاء (علیہم السلام) ہی سے ان کے متعلق یہ سوال ہوجائے گا تو ظاہر ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کوئی غلط یا خلاف واقع بات تو کہہ نہیں سکتے، اس لئے مجرموں اور گنہگاروں کو اندیشہ یہ ہوگا کہ جب خود انبیاء (علیہم السلام) ہی ہمارے جرائم کے شاہد بنیں گے، تو اب کون ہے جو کوئی شفاعت یا مدد کرسکے۔- انبیاء (علیہم السلام) اس سوال کا جواب یہ دیں گے : قَالُوْا لَا عِلْمَ لَنَا، یعنی ہمیں ان کے ایمان و عمل کا کوئی علم نہیں، آپ خود ہی تمام غیب کی چیزوں سے پورے باخبر ہیں۔- ایک شبہ کا ازالہ - یہاں سوال یہ ہے کہ ہر رسول کی امت کے وہ لوگ جو ان کی وفات کے بعد پیدا ہوئے ان کے بارے میں تو انبیاء (علیہم السلام) کا یہ جواب صحیح اور صاف ہے، کہ ان کے ایمان و عمل سے وہ باخبر نہیں، کیونکہ غیب کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں، لیکن ایک بہت بڑی تعداد امت میں ان لوگوں کی بھی تو ہے جو خود انبیاء (علیہم السلام) کی انتھک کوششوں سے انہی کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے، اور پھر ان کے احکام کی پیروی ان کے سامنے کرتے رہے، اسی طرح وہ کافر جنہوں نے انبیاء کی بات نہ مانی اور مخالفت دشمنی سے پیش آئے، ان کے بارے میں یہ کہنا کیسے صحیح ہوگا کہ ہمیں ان کے ایمان و عمل کا علم نہیں، تفسیر بحر محیط میں ہے کہ امام ابو عبداللہ رازی رحمة اللہ علیہ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ یہاں دو چیزیں الگ الگ ہیں، ایک علم جس کے معنی یقین کامل کے ہیں، اور دوسرے ظن یعنی غلبہ گمان، اور ظاہر ہے کہ ایک انسان کسی دوسرے انسان کے سامنے ہونے کے باوجود اس کے ایمان و عمل کی گواہی اگر دے سکتا ہے تو محض ظن، یعنی غلبہ گمان کے اعتبار سے دے سکتا ہے، ورنہ دلوں کا راز اور حقیقی ایمان جس کا تعلق دل سے ہے وہ تو کسی کو یقینی طور پر بغیر وحی الٓہی کے معلوم نہیں ہوسکتا، ہر امت میں منافقین کے گروہ رہے ہیں، جو ظاہر میں ایمان بھی لاتے تھے اور احکام کی پیروی بھی کرتے تھے، مگر ان کے دلوں میں ایمان نہ تھا، اور نہ پیروی کا کوئی جذبہ، وہاں جو کچھ تھا سب ریاکاری تھی، ہاں دنیا کے تمام احکام ظاہر افعال پر دائر ہوتے تھے، جو شخص اپنے آپ کو مسلمان کہے اور احکام خداوندی کا اتباع کرے، اور خلاف اسلام و ایمان اس سے کوئی قول و فعل ثابت نہ ہو، انبیاء (علیہم السلام) اور ان کی امتیں اس کو مومن صالح کہنے پر مجبور تھے، خواہ وہ دل میں مومن مخلص ہو یا منافق اسی لئے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :- نحن نحکم بالظواہم واللّٰہ متولی السرائر - ” یعنی ہم تو ظاہر اعمال پر حکم جاری کرتے ہیں، دلوں کے مخفی رازوں کا متولی خود اللہ جل شانہ ہے “۔- اسی ضابطہ کے تحت دنیا میں انبیاء (علیہم السلام) اور ان کے نائب خلفاء و علماء ظاہری اعمال پر حسن ظن کے مطابق کسی کے مومن صالح ہونے کی شہادت دے سکتے تھے لیکن آج وہ عالم دنیا جس کا سارا مدار ظن و گمان پر تھا ختم ہوچکا، یہ محشر کا میدان ہے جہاں بال کی کھال نکالی جائے گی، حقائق کو آشکار کیا جائے گا، مجرموں کے مقابلہ میں پہلے دوسرے لوگوں سے شہادتیں لی جائیں گی، ان سے اگر مجرم مطمئن نہ ہوا اور اپنے جرم کا اعتراف نہ کیا تو خاص قسم کے سرکاری گواہ برؤے کار لائے جائیں گے، ان کے منہ اور زبان پر تو مہر سکوت لگا دی جائے گی، اور مجرم کے ہاتھوں پاؤں اور کھال سے گواہی لی جائے گی، وہ ہر فعل کی پوری حقیقت بیان کردیں گے، (آیت) الیوم نختم علیٰ ۔ اس وقت انسانوں کو معلوم ہوگا کہ میرے تمام اعضاء رب العالمین کی خفیہ پولیس تھے، ان کے بیان کے بعد انکار کی کوئی صورت باقی نہ رہے گی۔- خلاصہ یہ کہ اس عالم کا کوئی حکم محض ظن وتخمین پر نہیں چلے گا، بلکہ علم و یقین پر ہر چیز کا مدار ہوگا، اور یہ ابھی معلوم ہوچکا کہ کسی شخص کے ایمان و عمل کا حقیقی اور یقینی علم سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا، اس لئے انبیاء (علیہم السلام) سے جب محشر میں یہ سوال ہوگا کہ ماذآ اُجِبْتُمْ ؟ تو وہ اس سوال کی حقیقت کو پہچان لیں گے کہ یہ سوال عالم دنیا میں نہیں ہو رہا جس کا جواب ظن کی بنیاد پر دیا جاسکے، بلکہ یہ سوال محشر میں ہو رہا ہے، جہاں یقین کے سوا کوئی بات چلنے والی نہیں، اس لئے ان کا یہ جواب کہ ہمیں ان کے متعلق کوئی علم نہیں، یعنی علم یقینی نہیں بالکل بجا اور درست ہے۔- ایک سوال اور اس کا جواب، انبیاء (علیہم السلام) کی انتہائی شفقت کا ظہور - یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ امتوں کے قبول و عدم قبول، اطاعت یا نافرمانی کے جو واقعات ان کے سامنے پیش آئے ان سے جس طرح کا علم بظن غالب ان کو حاصل ہوا، اس سوال کے جواب میں وہ تو بیان کردینا چاہئے تھا، صرف اس علم کے درجہ یقین کا حوالہ اللہ تعالیٰ پر کیا جاسکتا ہے، مگر یہاں انبیاء (علیہم السلام) نے اپنی معلومات اور پیش آمدہ واقعات کا کوئی ذکر ہی نہیں کیا، علم الٓہی کے حوالے کر کے خاموش ہوگئے۔- حکمت اس میں یہ تھی کہ انبیاء (علیہم السلام) اپنی امتوں اور عام خلق اللہ پر بےانتہا شفیق ہوتے ہیں، ان کے متعلق ایسی کوئی بات اپنی زبان سے کہنا پڑتا، یہاں علم یقین نہ ہونے کا عذر موجود تھا، اس عذر سے کام لے کر اپنی زبانوں سے اپنی امتوں کے خلاف کچھ کہنے سے بچ سکتے تھے اس طرح اس سے بچ گئے۔- محشر میں پانچ چیزوں کا سوال - خلاصہ یہ کہ اس آیت میں قیامت کے ہولناک منظر کی ایک جھلک سامنے کردی گئی ہے کہ موقف حساب میں اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ برگزیدہ و مقبول رسول کھڑے ہیں، اور لرز رہے ہیں تو دوسروں کا کیا حال ہوگا، اس لئے اس روز کی فکر آج سے چاہئے، اور فرصت عمر کو اس حساب کی تیاری کے لئے غنیمت سمجھنا چاہئے۔- ترمذی شریف کی ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :- لا تزول قدما ابن ادم۔ الخ۔- ” یعنی کسی آدمی کے قدم محشر میں اس وقت تک آگے نہ سرک سکیں گے جب تک اس سے پانچ سوالوں کا جواب نہ لے لیا جائے، ایک یہ کہ اس نے اپنی عمر کے طویل و کثیر لیل و نہار کس کام میں خرچ کئے، دوسرے یہ کہ خصوصیت سے جوانی کا زمانہ جو قوت عمل کا زمانہ تھا، اس کو کن کاموں میں خرچ کیا، تیسری یہ کہ ساری عمر میں جو مال اس کو حاصل ہوا وہ کہاں اور کن حلال یا حرام طریقوں سے کمایا، چوتھے یہ کہ مال کو کن جائز یا ناجائز کاموں میں خرچ کیا، پانچویں یہ کہ اپنے علم پر کیا عمل کیا ؟ “- اللہ تعالیٰ نے غایت رحمت و شفقت سے اس امتحان کا پرچہ سوالات بھی پہلے ہی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعہ امت کو بتلا دیا، اب ان کا کام صرف اتنا رہ گیا کہ ان سوالات کا حل سیکھے، اور محفوظ رکھے، امتحان سے پہلے ہی سوالات بتلا دینے کے بعد بھی کوئی ان میں فیل ہوجائے تو اس سے زیادہ کون محروم ہوسکتا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يَوْمَ يَجْمَعُ اللہُ الرُّسُلَ فَيَقُوْلُ مَاذَآ اُجِبْتُمْ۝ ٠ۭ قَالُوْا لَا عِلْمَ لَنَا۝ ٠ۭ اِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ۝ ١٠٩- جمع - الجَمْع : ضمّ الشیء بتقریب بعضه من بعض، يقال : جَمَعْتُهُ فَاجْتَمَعَ ، وقال عزّ وجل : وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة 9] ، وَجَمَعَ فَأَوْعى [ المعارج 18] ، جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة 2] ،- ( ج م ع ) الجمع ( ف )- کے معنی ہیں متفرق چیزوں کو ایک دوسرے کے قریب لاکر ملا دینا ۔ محاورہ ہے : ۔ چناچہ وہ اکٹھا ہوگیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة 9] اور سورج اور چاند جمع کردیئے جائیں گے ۔ ( مال ) جمع کیا اور بند رکھا ۔ جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة 2] مال جمع کرتا ہے اور اس کو گن گن کر رکھتا ہے - ( ماذا)- يستعمل علی وجهين :- أحدهما .- أن يكون ( ما) مع ( ذا) بمنزلة اسم واحد، والآخر : أن يكون ( ذا) بمنزلة ( الذي) ، فالأوّل نحو قولهم : عمّا ذا تسأل ؟ فلم تحذف الألف منه لمّا لم يكن ما بنفسه للاستفهام، بل کان مع ذا اسما واحدا، وعلی هذا قول الشاعر : دعي ماذا علمت سأتّقيه أي : دعي شيئا علمته . وقوله تعالی:- وَيَسْئَلُونَكَ ماذا يُنْفِقُونَ [ البقرة 219] ، فإنّ من قرأ : قُلِ الْعَفْوَ بالنّصب فإنّه جعل الاسمین بمنزلة اسم واحد، كأنّه قال : أيّ شيء ينفقون ؟ ومن قرأ : قُلِ الْعَفْوَ بالرّفع، فإنّ ( ذا) بمنزلة الذي، وما للاستفهام أي : ما الذي ينفقون ؟ وعلی هذا قوله تعالی: ماذا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ ؟ قالُوا : أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ النحل 24] ، و (أساطیر) بالرّفع والنصب - ( ماذا ) اور ماذا ، ، بھی دو طرح استعمال ہوتا ہے ۔ اول یہ کہ ، ، مازا کے ساتھ مل کر بمنزلہ ایک اسم کے ہو ۔ دوم یہ کہ ذا لذی کے ہو ( ما بمعنی اول یہ کہ ماذا ، ، کے ساتھ مل کر بمنزلہ ایک اسم کے ہو ۔ دوم یہ کہ ذا بمنزلہ الذی کے ہو ( ما بمعنی ای شئی کے ہو پہلی قسم کی مثال جیسے : عما ذا تسال کہ کسی چیز کے بارے میں سوال کرتے ہو اس صورت میں چونکہ ، ، ماذا اکیلا ، ، استفہام کے لئے نہیں ہے بلکہ ، ، ذا کے ساتھ مل کر ایک اسم بنتا ہے اس لئے ، ، ما ، ، کے الف کو حزف نہیں کیا گیا ۔ اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے یعنی جو چیز تجھے معلوم ہے اسے چھوڑ دے میں اس سے بچنے کی کوشش کرونگا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَيَسْئَلُونَكَ ماذا يُنْفِقُونَ [ البقرة 219] اور یہ بھی تم سے پوچھتے ہیں کہ کہ ( خدا کی راہ میں ) کونسا مال خرچ مال کریں ۔ میں جو لوگ کو منصوب پڑھتے ہیں ۔ وہ ماذا کو بمنزلہ ایک اسم کے مانتے ہیں کونسی چیز صرف کریں مگر جن کے نزدیک ہے اور ما استفہا میہ ہے یعنی وہ کونسی چیز ہے جسے خرچ کریں ۔ اس بنا پر آیت کریمہ : ۔ ماذا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ ؟ قالُوا : أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ النحل 24] کہ تمہارے پروردگار نے کیا اتارا ہی تو کہتے ہیں کہ ( وہ تو ) پہلے لوگوں کی حکایتیں ہیں ۔ میں اساطیر رفع اور نصب دونوں جائز ہیں ۔- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا - غيب - الغَيْبُ : مصدر غَابَتِ الشّمسُ وغیرها : إذا استترت عن العین، يقال : غَابَ عنّي كذا . قال تعالی: أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل 20]- ( غ ی ب ) الغیب ( ض )- غابت الشمس وغیر ھا کا مصدر ہے جس کے معنی کسی چیز کے نگاہوں سے اوجھل ہوجانے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ غاب عنی کذا فلاں چیز میری نگاہ سے اوجھل ہوئی ۔ قرآن میں ہے : أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل 20] کیا کہیں غائب ہوگیا ہے ۔ اور ہر وہ چیز جو انسان کے علم اور جو اس سے پودشیدہ ہو اس پر غیب کا لفظ بولا جاتا ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٠٩) قیامت کے دن اللہ تعالیٰ دہشت کے بعض مواقع پر دریافت کرے گا کہ تمہاری قوم نے تمہیں کیا جواب دیا تو اس وقت اس پریشانی کی بنا پر کوئی جواب نہ دیں گے، پھر بعد میں جواب دیں گے اور احوال امم پر شہادت دیں گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٩ (یَوْمَ یَجْمَعُ اللّٰہُ الرُّسُلَ فَیَقُوْلُ مَاذَآ اُجِبْتُمْ ط) - آپ لوگوں کی دعوت کے جواب میں آپ کی قوموں نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ کیا تھا ؟- (قَالُوْا لاَ عِلْمَ لَنَاط اِنَّکَ اَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوْبِ )- وہ اللہ تعالیٰ کے جناب میں زبان کھولنے سے گریز کریں گے اور کہیں گے کہ تو تمام پوشیدہ باتوں کو جاننے والا ہے ‘ ہر حقیقت تجھ پر منکشف ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :122 مراد ہے قیامت کا دن ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :123 یعنی اسلام کی طرف جو دعوت تم نے دنیا کو دی تھی اس کا کیا جواب دنیا نے تمہیں دیا ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :124 یعنی ہم تو صرف اس محدود ظاہری جواب کو جانتے ہیں جو ہمیں اپنی زندگی میں ملتا ہوا محسوس ہوا ۔ باقی رہا یہ کہ فی الحقیقت ہماری دعوت کا رد عمل کہاں کس صورت میں کتنا ہوا ، تو اس کا صحیح علم آپ کے سوا کسی کو نہیں ہوسکتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

75: قرآنِ کریم کا یہ خاص طریقہ ہے کہ جب وہ اپنے احکام بیان فرماتا ہے تو اس کے ساتھ آخرت کا کوئی ذکر یا پچھلی امتوں کی فرماں برداری یا نافرمانی کا بھی ذکر فرماتا ہے، تاکہ ان احکام پر عمل کرنے کے لئے آخرت کی فکر پیدا ہو، چنانچہ وصیت کے مذکورہ بالا احکام کے بعد اب آخرت کے کچھ مناظر بیان فرمائے گئے ہیں، اور چونکہ کچھ پہلے عیسائیوں کے غلط عقائد کا تذکرہ تھا، اس لئے خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے آخرت میں جو مکالمہ ہوگا اس کا خاص طور پر ذکر فرمایا گیا ہے۔ اور شروع کی اس آیت میں تمام پیغمبروں سے اس سوال کا ذکر ہے کہ ان کی امتوں نے ان کی دعوت کا کیا جواب دیا تھا؟ اس کے جواب میں انہوں نے اپنی لا علمی کا جو اظہار کیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم دُنیا میں تو لوگوں کے ظاہری بیانات پر ہی فیصلہ کرنے کے مجاز تھے، لہٰذا جس کسی نے ایمان کا دعویٰ کیا ہم نے اسے معتبر سمجھ لیا، لیکن یہ معلوم کرنے کا ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں تھا کہ اس کے دل میں کیا ہے؟ آج جبکہ فیصلہ دلوں کے حال کے مطابق ہونے والا ہے، ہم یقین کے ساتھ کسی کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے، کیونکہ دلوں کا پوشیدہ حال تو صرف آپ ہی جانتے ہیں۔ البتہ جب لوگوں کے ظاہری رد عمل ہی کے بارے میں انبیائے کرام سے گواہی لی جائے گی تو وہ ان کے ظاہری اعمال کی گواہی دیں گے، جس کا ذکر سورۂ نساء (41:4) اور سور نحل (16:89) وغیرہ میں آیا ہے۔