جناب مسیح علیہ الصلوۃ والسلام پر جو احسانات تھے انکا اور آپکے معجزوں کا بیان ہو رہا ہے کہ بغیر باپ کے صرف ماں سے آپ کو پیدا کیا اور اپنی کمال قدرت کا نشان آپ کو بنایا ، پھر آپ کی والدہ پر احسان کیا کہ ان کی برأت اسی بچے کے منہ سے کرائی اور جس برائی کی نسبت انکی طرف بیہودہ لوگ کر رہے تھے اللہ نے آج کے پیدا شدہ بچے کی زبان سے ان کی پاک دامنی کی شہادت اپنی قدرت سے دلوائی ، جبرائیل علیہ السلام کو اپنے نبی کی تائید پر مقرر کر دیا ، بچپن میں اور بڑی عمر میں انہیں اپنی دعوت دینے والا بنایا گیا ، گہوارے میں ہی بولنے کی طاقت عطا فرمائی ، اپنی والدہ محترمہ کی برات ظاہر کر کے اللہ کی عبودیت کا اقرر کیا اور اپنی رسالت کی طرف لوگوں کو بلایا ، مراد کلام کرنے سے اللہ کی طرف بلانا ہے ورنہ بڑی عمر میں کلام کرنا کوئی خاص بات یا تعجب کی چیز نہیں ۔ لکھنا اور سمجھنا آپ کو سکھایا ۔ تورات جو کلیم اللہ پر اتری تھی اور انجیل جو آپ پر نازل ہوئی دونوں کا علم آپ کو سکھایا ۔ آپ مٹی سے پرند کی صورت بناتے پھر اس میں دم کر دیتے تو وہ اللہ کے حکم سے چڑیا بن کر اڑ جاتا ، اندھوں اور کوڑھیوں کے بھلا چنگا کرنے کی پوری تفسیر سورہ آل عمران میں گزر چکی ہے ، مردوں کو آپ بلاتے تو وہ بحکم الہی زندہ ہو کر اپنی قبروں سے اٹھ کر آ جاتے ، ابو ہذیل فرماتے ہیں جب حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کسی مردے کے زندہ کرنے کا ارادہ کرتے تو دو رکعت نماز ادا کرتے پہلی میں سورہ تبارک اور دوسری میں سورہ الم تنزیل السجدہ پڑھتے پھر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا پڑھتے اور اسکے سات نام اور لیتے یا حی یا قیوم ، یا اللہ ، یا رحمن ، ، یا رحیم ، یا ذوالجلال و الاکرام ، یا نور السموات والارض ثما بینھما ورب العرش العظیم ، یہ اثر بڑا زبردست اور عظمت والا ہے اور میرے اس احسان کو بھی یاد کرو کہ جب تم دلائل و براہیں لے کر اپنی امت کے پاس آئے اور ان میں سے جو کافر تھے انہوں نے اسے جادو بتایا اور درپے آزار ہوئے تو انکے شر سے میں نے تمہیں بچا لیا ، انہوں نے قتل کرنا چاہا ، سولی دینا چاہی ، لیکن میں ہمیشہ تیرا کفیل و حفیظ رہا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ احسان آپ کے آسمان پر چڑھا لینے کے بعد کے ہیں یا یہ کہ یہ خطاب آپ سے بروز قیامت ہو گا اور ماضی کے صیغہ سے اسکا بیان اس کے پختہ اور یقینی ہونے کے سبب ہے ۔ یہ غیبی اسرار میں سے ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی کو مطلع فرما دیا ، پھر اپنا ایک اور احسان بتایا کہ میں نے تیرے مددگار اور ساتھی بنا دیئے ، ہواریوں کے دل میں الہام اور القا کیا ۔ یہاں بھی لفظ وحی کا اطلاق ویسا ہی ہے جیسا ام موسیٰ کے بارے میں ہے اور شہد کی مکھی کے بارے میں ہے ۔ انہوں نے الہام رب پر عمل کیا ، یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ میں نے تیری زبانی ان تک اپنی وحی پہنچائی اور انہیں قبولیت کی توفیق دی ، تو انہوں نے مان لیا اور کہہ دیا کہ ہم تو مسلمین یعنی تابع فرمان اور فرماں بردار ہیں ۔
110۔ 1 اس سے مراد حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہیں جیسا کہ سورة بقرہ کی آیت نمبر 87 میں گزرا۔ 110۔ 2 گود میں اسوقت کلام کیا، جب حضرت مریم (علیہا السلام) اپنے اس نومولود (بچے) کو لے کر اپنی قوم میں آئیں اور انہوں نے اس بچے کو دیکھ کر تعجب کا اظہار کیا اور اس کی بابت استفسار کیا تو اللہ کے حکم سے حضرت عیسیٰ نے شیر خوارگی کے عالم میں کلام کیا اور بڑی عمر میں کلام سے مراد، نبوت سے سرفراز ہونے کے بعد دعوت تبلیغ ہے۔ 110۔ 3 اس کی وضاحت سورة آل عمران کی آیت نمبر 48 میں گزر چکی ہے۔ 110۔ 4 ان معجزات کا ذکر بھی مذکورہ سورت کی آیت نمبر 49 میں گزر چکا ہے۔ 110۔ 5 یہ اشارہ ہے اس سازش کی طرف جو یہودیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے قتل کرنے اور سولی دینے کے لئے تیار کی تھی۔ جس سے اللہ تعالیٰ نے بچا کر انہیں آسمان پر اٹھا لیا تھا۔ ملاحظہ ہو سورة ء آل عمران آیت 54۔ 110۔ 6 ہر نبی کے مخالفین، آیات الٰہی اور معجزات دیکھ کر انہیں جادو ہی قرار دیتے رہے ہیں، حالانکہ جادو تو شعبدہ بازی کا ایک فن ہے، جس سے انبیاء (علیہ السلام) کو کیا تعلق ہوسکتا ہے۔ علاوہ ازیں انبیاء کے ہاتھوں ظاہر ہونے والے معجزات قادر مطلق اللہ تبارک وتعالی کی قدرت و طاقت کا مظہر ہوتے تھے کیونکہ وہ اللہ ہی کے حکم سے اور اس کی مشیت وقدرت سے ہوتے تھے کسی نبی کے اختیار میں یہ نہیں تھا کہ وہ جب چاہتا اللہ کے حکم اور مشیت کے بغیر کوئی معجزہ صادر کر کے دکھا دیتا اسی لئے یہاں بھی دیکھ لیجئے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ہر معجزے کے ساتھ اللہ نے چار مرتبہ یہ فرمایا باذنی کہ ہر معجزہ میرے حکم سے ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مشرکین مکہ نے مختلف معجزات کے دکھانے کا مطالبہ کیا جس کی تفصیل سورة بنی اسرائیل آیت نمبر 91۔ 93 میں ذکر کی گئی ہے تو اس کے جواب میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہی فرمایا (سبحان ربی ھل کنت الا بشرا رسولا) میرا رب پاک ہے یعنی وہ تو اس کمزوری سے پاک ہے کہ وہ یہ چیزیں نہ دکھا سکے وہ تو دکھا سکتا ہے لیکن اس کی حکمت اس کی مقتضی ہے یا نہیں ؟ یا کب مقتضی ہوگی ؟ اس کا علم اسی کو ہے اور اسی کے مطابق وہ فیصلہ کرتا ہے لیکن میں تو صرف بشر اور رسول ہوں یعنی میرے اندر یہ معجزات دکھانے کی اپنے طور پر طاقت نہیں ہے بہرحال انبیاء کے معجزات کا جادو سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اگر ایسا ہوتا تو جادوگر اس کا توڑ مہیا کرلیتے لیکن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعے سے ثابت ہے کہ دنیا بھر کے جمع شدہ بڑے بڑے جادوگر بھی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزے کا توڑ نہ کرسکے اور جب ان کو معجزہ اور جادو کا فرق واضح طور پر معلوم ہوگیا تو وہ مسلمان ہوگئے۔
[١٥٨] یعنی پہلے تمام انبیاء سے اجتماعی طور پر پوچھا جائے گا کہ ان کی قوم نے انہیں کیا جواب دیا تھا یا ان کی دعوت کو کس حد تک قبول کیا تھا پھر ہر نبی سے الگ الگ یہی سوال ہوگا اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے سوال و جواب کو بالخصوص اس لیے ذکر کیا گیا کہ آپ کی امت نے مستقلا " کئی خدا بنا لیے تھے۔- [١٥٩] سوال و جواب سے پیشتر اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) پر اپنے احسانات کا تذکرہ کیا ہے یہ احسانات قرآن کریم میں جا بجا مذکور ہیں۔ ان میں اکثر اس مقام پر یک جا کر کے ذکر کیے گئے ہیں۔ اور وہ حسب ذیل ہیں۔- (١) اللہ تعالیٰ کے عیسیٰ اور ان کی والد پر احسانات :۔ عیسیٰ (علیہ السلام) پر سب سے بڑا احسان اور ان کی سب سے بڑی فضیلت یہ تھی کہ آپ نفخہ جبریلیہ سے پیدا ہوئے تھے آپ کی پیدائش فطری طریق سے ہٹ کر خرق عادت اور معجزانہ طور پر واقع ہوئی تھی۔ اسی لیے آپ کو روح اللہ اور کلمۃ اللہ کہا جاتا ہے۔- (٢) آپ کی والدہ مریم پر اللہ کا یہ احسان تھا کہ آپ کو یہودیوں کی تہمت سے بری قرار دیا۔- (٣) عیسیٰ (علیہ السلام) بالکل چھوٹی عمر میں، جبکہ بچہ بولنا سیکھتا بھی نہیں، اس طرح کلام کرتے تھے جیسے ایک پختہ عقل والا آدمی گفتگو کرتا ہے۔- (٤) آپ بارہ سال کی عمر میں تورات کی عبارتیں زبانی یوں فر فر سنا دیا کرتے تھے کہ یہود کے بڑے بڑے علماء اور فریسی یہ صورت حال دیکھ کر دنگ رہ جاتے تھے۔ پھر تیس سال کی عمر میں آپ کو نبوت عطا ہوئی، اور آپ پر انجیل نازل ہوتی رہی۔- (٥) معجزات عیسیٰ :۔ شاید یہ نفخہ جبریلیہ ہی کا اثر تھا کہ آپ مٹی کا کوئی پرندہ بناتے پھر اس میں پھونک مارتے تو وہ پرندہ اللہ کے حکم سے سچ مچ کا جاندار پرندہ بن کر اڑنے لگتا تھا۔- (٦) نیز اسی نفخہ جبریلیہ کے اثر یا روح القدس کی تائید سے مادر زاد اندھے کی آنکھوں پر ہاتھ پھیرتے تو وہ اللہ کے حکم سے بینا بن جاتا تھا اور اس کی آنکھیں بالکل ٹھیک ہو کر دیکھنے لگتی تھیں۔- (٧) اگر آپ کسی برص والے یعنی کوڑھی کے بدن پر ہاتھ پھیرتے تو وہ اللہ کے حکم سے بالکل تندرست ہوجاتا تھا۔- (٨) آپ کسی قبر میں پڑے ہوئے مردے کو زندہ ہو کر اٹھ کھڑا ہونے کو کہتے تو وہ اللہ کے حکم سے قبر سے نکل کر کھڑا ہوجاتا تھا۔- (٩) اتنے ڈھیروں معجزات کے باوجود بنی اسرائیل نے آپ کو جھٹلا دیا اور کہنے لگے کہ تم جادوگر ہو اور تمہارے یہ کارنامے سب کچھ جادو ہی کا کرشمہ ہیں لہذا وہ تمہارے درپے آزار ہوگئے اور تمہیں صلیب پر چڑھانے کی کوشش کی مگر اللہ نے انہیں ان سے بچا کر اپنے پاس اٹھا لیا تھا۔- (١٠) جب بنی اسرائیل کے سب لوگ ان کے دشمن بن گئے اور کوئی ایمان نہ لایا تو حواریوں کو اللہ نے الہام کیا تھا کہ مجھ پر اور آپ پر ایمان لا کر آپ کی ہر طرح سے مدد اور تعاون پر کمر بستہ ہوجائیں۔- غرض اللہ تعالیٰ نے سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) پر جو احسانات کیے تھے وہ اس لیے جتلائے جا رہے ہیں کہ ان میں اشارتاً یہ بات پائی جاتی ہے کہ اگر وہ اللہ یا اللہ کے بیٹے ہوتے تو انہیں ان احسانات کی کیا حاجت تھی ؟ نیز سیدنا عیسیٰ کی ولادت سے لے کر ان کو اپنے ہاں اٹھانے تک کے تمام واقعات ایسے ہیں جو سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی عبدیت پر دلالت کرتے ہیں۔
چونکہ پیغمبروں سے سوال امتوں کے سرکش لوگوں کو ڈانٹنے اور ملامت کرنے کے لیے ہوگا اور سب سے زیادہ ملامت کے لائق نصاریٰ ہوں گے جنھوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو معبود بنا لیا تھا اور اللہ تعالیٰ کے لیے بیوی اور اولاد ثابت کی تھی ( جس سے اللہ تعالیٰ بہت بلند ہے) اس بنا پر تمام پیغمبروں کی موجودگی میں اللہ تعالیٰ عیسیٰ (علیہ السلام) پر اپنے انعامات ذکر فرمائیں گے اور پھر ان سے سوال ہوگا، اس سے مقصد نصرانیوں کی تردید ہے۔ (کبیر) - اِذْ اَيَّدْتُّكَ بِرُوْحِ الْقُدُسِ ۣ : یعنی جبریل (علیہ السلام) کو تمہاری مدد کے لیے مقرر کردیا تھا۔ پہلا احسان یہ ذکر فرمایا۔ - وَاِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّيْنِ : یہاں ” تَخْلُقُ “ کا لفظ صرف ظاہری شکل و صورت بنانے کے معنی میں استعمال ہوا ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تصویر بنانے والوں سے فرمائے گا : ( أَحْیُوْا مَا خَلَقْتُمْ ) ” جو تم نے خلق کیا ہے اسے زندہ کرو۔ “ [ بخاری، اللباس، باب عذاب المصورین یوم القیامۃ : ٥٩٥١ ] پیدا کرنے اور زندگی دینے کے معنی میں خالق صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ دیکھیے سورة آل عمران (٤٩) ۔ - كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ بِاِذْنِيْ : اس آیت میں ” بِاِذْنِيْ “ ( میرے حکم سے) کا لفظ چار مرتبہ آیا ہے، جس سے بتانا یہ مقصود ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا حکم نہ ہوتا تو عیسیٰ ( (علیہ السلام) ) یہ معجزات نہیں دکھا سکتے تھے اور یہی حال ہر نبی کے معجزات کا ہے، وہ نہ عالم الغیب ہوتے ہیں، نہ انھیں ہر کام کا اختیار ہوتا ہے، جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بتایا جائے یا جس کام کا اختیار دیا جائے صرف وہی ان کے علم اور اختیار میں ہوتا ہے۔ - وَاِذْ كَفَفْتُ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ ۔ : یہودیوں نے جس طرح عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے کی سازش کی اور پھر اللہ تعالیٰ نے انھیں ان کے شر سے محفوظ رکھا اور اپنی طرف اٹھا لیا۔ اس کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورة آل عمران (٥٥) اور سورة نساء (١٥٨) یہ بھی احسان فرمایا۔ - اِنْ هٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِيْنٌ: عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کے منکروں نے ان کے معجزات کو کھلا جادو قرار دیا۔ بدبخت اتنا نہ سمجھ سکے کہ مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو شفایاب اور مردے کو زندہ کرنا کسی جادوگر کے لیے ممکن نہیں، چاہے وہ جادو میں کتنا ہی کمال کیوں نہ رکھتا ہو اور یوں بھی جادو کرنا اور کرانا فاسق و بدکار قسم کے لوگوں کا کام ہے، حالانکہ وہ خود دیکھ رہے تھے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) انھیں ایک اللہ کی عبادت و اطاعت کا حکم دیتے تھے۔ یہود کی اس حرکت کی بنیاد حسد تھی اور سچ ہے کہ ” کُلُّ ذِیْ نِعْمَۃٍ مَحْسُوْدٌ“ ہر صاحب نعمت پر لوگ حسد کرتے ہیں۔
حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے خصوصی سوال و جواب - پہلی آیت میں تو عام انبیاء (علیہم السلام) کا حال اور ان سے سوال و جواب کا تذکرہ تھا، دوسری آیت میں اور اس کے بعد ختم سورت تک کی نو آیات میں خصوصیت سے بنی اسرائیل کے آخری پیغمبر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا تذکرہ اور ان پر اللہ تعالیٰ کے مخصوص انعامات کی کچھ تفصیل کا بیان ہے، اور محشر میں ان سے ایک خصوصی سوال اور اس کے جواب کا ذکر ہے جو اگلی آیتوں میں آرہا ہے۔- حاصل اس سوال و جواب کا بھی بنی اسرائیل اور تمام مخلوق کو یہ ہولناک منظر دکھلانا ہے کہ اس میدان میں جب روح اللہ اور کلمة اللہ سے سوال ہوتا ہے کہ آپ کی امت نے جو آپ کو خدا کا شریک بنایا، تو وہ ساری عزت و عظمت اور عصمت و نبوت کے باوجود کس قدر گھبرا کر اپنی براءت بارگاہ عزوجلال میں پیش فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نہیں بار بار مختلف عنوانات سے اس کی نفی کرتے ہیں کہ میں نے ان کو یہ تعلیم نہ دی تھی، اول عرض کیا : (آیت) سبحنک ما یکون لی ان اقول ما لیس لی بحق ” یعنی پاک ہیں آپ میری کیا مجال تھی کہ میں ایسی بات کہتا جس کا مجھے حق نہ تھا “۔- اپنی براءت کا دوسرا پہلو اس طرح اختیار فرماتے ہیں کہ خود حق تعالیٰ کو اپنا گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ اگر میں ایسا کہتا تو آپ کو ضرور اس کا علم ہوتا، کیونکہ آپ تو میرے دل کے بھید سے بھی واقف ہیں، قول و فعل کا تو کیا کہنا، آپ تو علاّم الغیوب ہیں۔- اس ساری تمہید کے بعد اصل سوال کا جواب دیتے ہیں :۔- حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا جواب بارگاہ ایزدی میں۔- یعنی یہ کہ میں نے ان کو وہی تعلیم دی تھی جس کا آپ نے مجھے حکم فرمایا تھا، (آیت) ان اعبدو اللّٰہ ربی وربکم، یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی، پھر اس تعلیم کے بعد جب تک میں ان لوگوں کے اندر رہا تو میں ان کے اقوال و افعال کا گواہ تھا (اس وقت تک ان میں کوئی ایسے نہ کہتا تھا) پھر جب آپ نے مجھے اٹھا لیا تو پھر یہ لوگ آپ ہی کی نگرانی میں تھے، آپ ہی ان کے اقوال و افعال سے پورے واقف ہیں۔- حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر چند مخصوص انعامات کا ذکر - ان آیات میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے جس سوال و جواب کا ذکر کیا گیا ہے، اس سے پہلے ان مخصوص انعامات کا بھی ذکر ہے جو خصوصی طور پر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر مبذول ہوئے، اور بشکل معجزات ان کو عطا فرمائے گئے۔ اس مجموعہ میں ایک طرف انعامات خاصہ کا اور دوسری طرف جواب طلبی کا منظر دکھلا کر بنی اسرائیل کی ان دونوں قوموں کو تنبیہ کی گئی ہے، جن میں سے ایک نے تو ان کی توہین کی اور طرح طرح کی تہمتیں لگائیں اور ستایا، اور دوسری قوم نے ان کو خدا یا خدا کا بیٹا بنادیا، انعامات کا ذکر کرکے پہلی قوم کو اور سوال و جواب کا ذکر کرکے دوسری قوم کو تنبیہ کی گئی، یہاں جن انعامات کا تفصیلی ذکر کئی آیتوں میں کیا گیا ان میں سے ایک جملہ زیادہ قابل غور ہے۔ جس میں ارشاد ہوا ہے : تُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا یعنی ایک خصوصی معجزہ جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو دیا گیا وہ یہ ہے کہ آپ لوگوں سے بچہ ہونے کی حالت میں بھی کلام کرتے ہیں، اور ادھیڑ عمر ہونے کی حالت میں بھی۔- اس میں پہلی بات کا معجزہ اور خصوصی انعام ہونا تو ظاہر ہے، ابتداء ولادت میں بچے کلام کرنے کے قابل نہیں ہوا کرتے، کوئی بچہ ماں کی گود یا گہوارہ میں بولنے لگے تو یہ اس کا خصوصی امتیاز ہوگا، ادھیڑ عمر میں بولنا یا کلام کرنا جو مذکور ہے وہ تو کوئی قابل ذکر چیز نہیں، ہر انسان اس عمر میں بولا ہی کرتا ہے، اور کلام کرتا ہے، لیکن حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ادھیڑ عمر کو پہنچنے کے بعد جب ہی ہوسکتا ہے جب وہ دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں، جیسا کہ مسلمانوں کا اجماعی عقیدہ ہے، اور قرآن و سنت کی تصریحات سے ثابت ہے اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا بچپن میں کلام کرنا معجزہ تھا اسی طرح ادھیڑ عمر میں کلام کرنا بھی، بوجہ اس دنیا میں دوبارہ آنے کے معجزہ ہی ہے
اِذْ قَالَ اللہُ يٰعِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ اذْكُرْ نِعْمَتِيْ عَلَيْكَ وَعَلٰي وَالِدَتِكَ ٠ۘ اِذْ اَيَّدْتُّكَ بِرُوْحِ الْقُدُسِ ٠ۣ تُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَہْدِ وَكَہْلًا ٠ۚ وَاِذْ عَلَّمْتُكَ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ وَالتَّوْرٰىۃَ وَالْاِنْجِيْلَ ٠ۚ وَاِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّيْنِ كَہَيْئَۃِ الطَّيْرِ بِـاِذْنِيْ فَتَنْفُخُ فِيْہَا فَتَكُوْنُ طَيْرًۢا بِـاِذْنِيْ وَتُبْرِئُ الْاَكْـمَہَ وَالْاَبْرَصَ بِـاِذْنِيْ ٠ۚ وَاِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتٰى بِـاِذْنِيْ ٠ۚ وَاِذْ كَفَفْتُ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ عَنْكَ اِذْ جِئْتَہُمْ بِالْبَيِّنٰتِ فَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْہُمْ اِنْ ہٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِيْنٌ ١١٠- عيسی - عِيسَى اسم علم، وإذا جعل عربيّا أمكن أن يكون من قولهم : بعیر أَعْيَسُ ، وناقة عَيْسَاءُ ، وجمعها عِيسٌ ، وهي إبل بيض يعتري بياضها ظلمة، أو من الْعَيْسِ وهو ماء الفحل يقال : عَاسَهَا يَعِيسُهَا - ( ع ی س ) یہ ایک پیغمبر کا نام اور اسم علم ہے اگر یہ لفظ عربی الاصل مان لیا جائے تو ہوسکتا ہے کہ یہ اس عیس سے ماخوذ ہو جو کہ اعیس کی جمع ہے اور اس کی مؤنث عیساء ہے اور عیس کے معنی ہیں سفید اونٹ جن کی سفیدی میں قدرے سیاہی کی آمیزش ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے عیس سے مشتق ہو جس کے معنی سانڈ کے مادہ منو یہ کے ہیں اور بعیر اعیس وناقۃ عیساء جمع عیس اور عاسھا یعسھا کے معنی ہیں نر کا مادہ سے جفتی کھانا ۔- مریم - مریم : اسم أعجميّ ، اسم أمّ عيسى عليه السلام» .- نعم - النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] - ( ن ع م ) النعمۃ - اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔- ايد ( قوة)- قال اللہ عزّ وجل : أَيَّدْتُكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ [ المائدة 110] فعّلت من الأيد، أي : القوة الشدیدة . وقال تعالی: وَاللَّهُ يُؤَيِّدُ بِنَصْرِهِ مَنْ يَشاءُ [ آل عمران 13] أي : يكثر تأييده، ويقال : إِدْتُهُ أَئِيدُهُ أَيْداً نحو : بعته أبيعه بيعا، وأيّدته علی التکثير . قال عزّ وجلّ : وَالسَّماءَ بَنَيْناها بِأَيْدٍ [ الذاریات 47] ، ويقال : له أيد، ومنه قيل للأمر العظیم مؤيد . وإِيَاد الشیء : ما يقيه، وقرئ : (أَأْيَدْتُكَ ) وهو أفعلت من ذلك . قال الزجاج رحمه اللہ : يجوز أن يكون فاعلت، نحو : عاونت، وقوله عزّ وجل : وَلا يَؤُدُهُ حِفْظُهُما[ البقرة 255] أي : لا يثقله، وأصله من الأود، آد يؤود أودا وإيادا : إذا أثقله، نحو : قال يقول قولا، وفي الحکاية عن نفسک : أدت مثل : قلت، فتحقیق آده : عوّجه من ثقله في ممرِّه .- ( ای د ) الاید ( اسم ) سخت قوت اس سے اید ( تفعیل ) ہے جس کے معنی تقویت دنیا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ أَيَّدْتُكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ [ المائدة 110] ہم نے تمہیں روح قدس سے تقویت دی وَاللَّهُ يُؤَيِّدُ بِنَصْرِهِ مَنْ يَشاءُ [ آل عمران 13] یعنی جسے چاہتا ہے اپنی نصرت سے بہت زیادہ تقویت بخشتا ہے ادتہ ( ض) ائیدہ ایدا جیسے بعتہ ابیعہ بیعا ( تقویت دینا) اور اس سے ایدتہ ( تفعیل) تکثیر کے لئے آتا ہے قرآن میں ہے وَالسَّماءَ بَنَيْناها بِأَيْدٍ [ الذاریات 47] اور ہم نے آسمان کو بڑی قوت سے بنایا اور اید میں ایک لغت آد بھی ہے اور ۔ اسی سے امر عظیم کو مؤید کہا جاتا ہے اور جو چیز دوسری کو سہارا دے اور بچائے اسے ایاد الشئی کہا جاتا ہے ایک قرات میں ایدتک ہے جو افعلت ( افعال ) سے ہے اور ایاد الشئ کے محاورہ سے ماخوذ ہے زجاج (رح) فرماتے ہیں کہ یہ فاعلت ( صفاعلہ ) مثل عادنت سے بھی ہوسکتا ہے ۔- روح ( فرشته)- وسمّي أشراف الملائكة أَرْوَاحاً ، نحو : يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلائِكَةُ صَفًّا[ النبأ 38] ، تَعْرُجُ الْمَلائِكَةُ وَالرُّوحُ [ المعارج 4] ، نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] ، سمّي به جبریل، وسمّاه بِرُوحِ القدس في قوله : قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ [ النحل 102] ، وَأَيَّدْناهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ [ البقرة 253] ، وسمّي عيسى عليه السلام روحاً في قوله : وَرُوحٌ مِنْهُ [ النساء 171] ، وذلک لما کان له من إحياء الأموات، وسمّي القرآن روحاً في قوله : وَكَذلِكَ أَوْحَيْنا إِلَيْكَ رُوحاً مِنْ أَمْرِنا [ الشوری 52] ، وذلک لکون القرآن سببا للحیاة الأخرويّة الموصوفة في قوله : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] ، والرَّوْحُ التّنفّس، وقد أَرَاحَ الإنسان إذا تنفّس . وقوله : فَرَوْحٌ وَرَيْحانٌ [ الواقعة 89]- روح - اور قرآن نے ذو شرف ملائکہ کو بھی ارواح سے موسوم کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلائِكَةُ صَفًّا[ النبأ 38] جس روز کہ روح فرشتہ اور دیگر ملائکہ صفیں باندھ کھڑے ہوں گے ۔ تَعْرُجُ الْمَلائِكَةُ وَالرُّوحُ [ المعارج 4] فرشتے اور جبریل اس کی طرف چڑھتے ہیں ۔ اور اٰت کریمہ : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اسے روح امین لے کر اترا ۔ میں روح امین سے مراد جبریل (علیہ السلام) ہیں ۔ اور دوسری آیت میں جبریل (علیہ السلام) کو روح القدس بھی کہا ہے ۔ جیسے فرمایا : قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ [ النحل 102] اس قرآن کو روح القدس لے کر آتے ہیں ۔ قرآن نے حضرت عیٰسی (علیہ السلام) کو روح کہہ کر پکارا ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَرُوحٌ مِنْهُ [ النساء 171] اور وہ ایک روح تھی جو خدا کی طرف سے آئی اور عیٰسی کو روح اس لئے کہا ہے کہ وہ دو مردوں کو زندہ کرتے تھے ۔ اور قرآن کو بھی روح کہا گیا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَكَذلِكَ أَوْحَيْنا إِلَيْكَ رُوحاً مِنْ أَمْرِنا [ الشوری 52] اس طرح ہم نے اپنے حکم سے ( دین کی ) جان ( یعنی یہ کتاب) تمہاری طرف وحی کے ذریعہ بھیجی ۔ اس لئے قرآن سے حیات اخردی حاصل ہوتی ہے جس کے متعلق فرمایا : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] اور دار آخرت کی زندگی ہی اصل زندگی ہے ۔ اور روح ( بفتح الراء ) کے معنی سانس کے ہیں اور اراح الانسان کے معنی تنفس یعنی سانس لینے کے اور آیت : فَرَوْحٌ وَرَيْحانٌ [ الواقعة 89] توراحت اور مذاق ہے ۔ میں ریحان سے خوشبودار چیزیں مراد ہیں اور بعض نے رزق مراد لیا ہے - الروح : کے متعلق مختلف اقوال ہیں۔- (1) اس سے مراد ہے ارواح بنی آدم۔- (2) بنی آدم فی انفسہم۔- (3) خد ا کی مخلوق میں سے بنی آدم کی شکل کی ایک مخلوق جو نہ فرشتے ہیں نہ بشر۔ - (4) حضرت جبرئیل علیہ السلام۔- (5) القران - (6) جمیع مخلوق کے بقدر ایک عظیم فرشتہ وغیرہ۔ ( اضواء البیان)- ا۔ ابن جریر نے ان جملہ اقوال میں سے کسی ایک کو ترجیح دینے سے توقف کیا ہے ۔- ب۔ مودودی، پیر کرم شاہ، صاحب تفسیر مدارک، جمہور کے نزدیک حضرت جبریل (علیہ السلام) ہیں۔- ج۔ مولانا اشرف علی تھانوی (رح) کے نزدیک تمام ذی ارواح۔ - مولانا عبد الماجد دریا بادی (رح) کے نزدیک اس سیاق میں روح سے مراد ذی روح مخلوق لی گئی ہے۔ - کلام - الكلْمُ : التأثير المدرک بإحدی الحاسّتين، فَالْكَلَامُ : مدرک بحاسّة السّمع،- فَالْكَلَامُ يقع علی الألفاظ المنظومة، وعلی المعاني التي تحتها مجموعة، وعند النحويين يقع علی الجزء منه، اسما کان، أو فعلا، أو أداة . وعند کثير من المتکلّمين لا يقع إلّا علی الجملة المرکّبة المفیدة، وهو أخصّ من القول، فإن القول يقع عندهم علی المفردات، والکَلمةُ تقع عندهم علی كلّ واحد من الأنواع الثّلاثة، وقد قيل بخلاف ذلک «4» . قال تعالی: كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْواهِهِمْ [ الكهف 5]- ( ک ل م ) الکلم ۔- یہ اصل میں اس تاثیر کو کہتے ہیں جس کا ادراک دو حاسوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہوسکے چناچہ کلام کا ادراک قوت سامعہ کیساتھ ہوتا ہے ۔ اور کلم ( زخم ) کا ادراک قوت بصر کے ساتھ ۔ محاورہ ہے ۔ کلام کا اطلاق منظم ومرتب الفاظ اور ان کے معانی دونوں کے مجموعہ پر ہوتا ہے ۔ اور اہل نحو کے نزدیک کلام کے ہر جز پر اس کا اطلاق ہوسکتا ہے ۔ خواہ وہ اسم ہو یا فعل ہو یا حرف مگر اکثر متکلمین کے نزدیک صرف جملہ مرکبہ ومفیدہ کو کلام کہاجاتا ہے ۔ اور یہ قول سے اخص ہے کیونکہ قول لفظ ان کے نزدیک صرف مفرد الفاظ پر بولاجاتا ہے اور کلمۃ کا اطلاق انواع ثلاثہ یعنی اسم فعل اور حرف تینوں میں سے ہر ایک پر ہوتا ہے ۔ اور بعض نے اس کے برعکس کہا ہے ۔ قرآن میں ہے : كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْواهِهِمْ [ الكهف 5] یہ بڑی سخت بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے ۔ - نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - مهد - المَهْدُ : ما يُهَيَّأُ للصَّبيِّ. قال تعالی: كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا [ مریم 29] والمَهْد والمِهَاد : المکان المُمَهَّد الموطَّأ . قال تعالی: الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْداً [ طه 53] ، ومِهاداً [ النبأ 6] - م ھ د ) المھد - ۔ گہوارہ جو بچے کے لئے تیار کیا جائے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا [ مریم 29] کہ ہم اس سے کہ گود کا بچہ ہے ۔ کیونکہ بات کریں ۔ اور ۔ اور المھد والمھاد ہموار اور درست کی ہوئی زمین کو بھی کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْداً [ طه 53] وہ ( وہی تو ہے ) جس نے تم لوگوں کے لئے زمین کو فرش بنایا ۔ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْداً [ طه 53] کہ ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا : - كهل - الْكَهْلُ : من وَخَطَهُ الشَّيْبُ ، قال : وَيُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا وَمِنَ الصَّالِحِينَ- [ آل عمران 46] واكْتَهَلَ النّباتُ : إذا شارف الیبوسة مشارفة الْكَهْلِ الشّيبَ ، قال :- مؤزّر بهشيم النّبت مُكْتَهِلٌ ( ک ہ ل ) الکھل ۔ اوھیڑ عمر آدمی جس کے بال سفید ہوگئے ہوں ۔ قرآن میں ہے : وَيُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا وَمِنَ الصَّالِحِينَ [ آل اور ماں کی گود میں اور بڑی عمر کا ہوکر لوگوں سے گفتگو کرے گا اور نیکو کاروں میں ہوگا ۔ اکتھل النبات پودے کا حد پیوست یعنی بڑھنے کی آخری حد کو پہنچ جانا ۔ جیسا کہ ادھیڑ عمر آدمی بڑھاپے کی حد کو پہنچ جاتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( بسیط) (386) موزر یھشم النبت مکتھل اس کی گھاس آخری حدتک بڑھی ہوئی ہے اور اس نے اپنے گردا گر د دوسرے پودوں کی چادر پہن رکھی ہے ۔- علم ( تعلیم)- اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] - تعلیم - کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو - كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - حکمت ( نبوۃ)- قال اللہ تعالی: وَآتَيْناهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا [ مریم 12] ، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «الصمت حکم وقلیل فاعله» أي : حكمة، وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ آل عمران 164] ، وقال تعالی: وَاذْكُرْنَ ما يُتْلى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب 34] ، قيل : تفسیر القرآن، ويعني ما نبّه عليه القرآن من ذلک : إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ ما يُرِيدُ [ المائدة 1] ، أي : ما يريده يجعله حكمة، وذلک حثّ للعباد علی الرضی بما يقضيه . قال ابن عباس رضي اللہ عنه في قوله : مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب 34] ، هي علم القرآن، ناسخه، مُحْكَمه ومتشابهه .- قرآن میں ہے : ۔ وَآتَيْناهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا [ مریم 12] اور ہم نے ان کو لڑکپن میں ہی دانائی عطا فرمائی تھی ۔ اور آنحضرت نے فرمایا کہ خاموشی بھی حکمت ہے ۔ لیکن بہت تھوڑے لوگ اسے اختیار کر ٹے ہیں ۔ یہاں ( آیت اور حدیث میں ) حکم کے معنی حکمت کہ میں قرآن میں ہے : ۔ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ آل عمران 164] اور ان ( لوگوں ) کو کتاب اور دانائی سکھایا کرے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرْنَ ما يُتْلى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب 34] اور تمہارے گھروں میں جو خدا کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور حکمت کی باتیں سنائی جاتی ہیں ان کو یاد رکھو ۔ میں حکمت سے مراد تفسیر قرآن ہے یعنی جس پر کہ قرآن نے آیت إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ ما يُرِيدُ [ المائدة 1] میں تنبیہ کی ہے کہ اللہ جس چیز کو چاہتا ہے حکمت بنادیتا ہے تو اس میں ترغیب ہے کہ لوگوں کو اللہ کے فیصلے پر راضی رہنا چاہیئے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں ۔ مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب 34] میں حکمت سے ناسخ منسوخ محکم اور متشابہات کا علم مراد ہے ۔- توراة- التوراة التاء فيه مقلوب، وأصله من الوری، وبناؤها عند الکوفيين : ووراة، تفعلة «4» ، وقال بعضهم : هي تفعلة نحو تنفلة ولیس في کلامهم تفعلة اسما . وعند البصريين وورية، هي فوعلة نحو حوصلة . قال تعالی: إِنَّا أَنْزَلْنَا التَّوْراةَ فِيها هُدىً وَنُورٌ [ المائدة 44] ، ذلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْراةِ ، وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ [ الفتح 29] .- ( ت و ر ) التوراۃ آسمانی کتاب جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل کی گئی یہ وری سے مشتق ہے اور تاؤ واو سے مبدل سے علماء کوفہ کے نزدیک یہ وؤراۃ بروزن نفعلۃ ہے اور بعض کے نزدیک تفعل کے وزن پر ہے جیسے تنفل لیکن کلام عرب میں تفعل کے وزن پر اسم کا صیغہ نہیں آتا ۔ علماء بصرہ کے نزدیک یہ وؤری بروزن فوعل ہے جیسے قل قرآن میں ہے ؛۔ إِنَّا أَنْزَلْنَا التَّوْراةَ فِيها هُدىً وَنُورٌ [ المائدة 44] بیشک ہم نے تو رات نازل فرمائی جس میں ہدایت اور روشنی ہے ۔ ذلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْراةِ ، وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ [ الفتح 29] . ان کے اوصاف تو رات میں ( مرقوم ) ہیں اور یہی اوصاف انجیل میں ہیں ۔- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - طين - الطِّينُ : التّراب والماء المختلط، وقد يسمّى بذلک وإن زال عنه قوّة الماء قال تعالی: مِنْ طِينٍ لازِبٍ [ الصافات 11] ، يقال : طِنْتُ كذا، وطَيَّنْتُهُ. قال تعالی: خَلَقْتَنِي مِنْ نارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ [ ص 76] ، وقوله تعالی: فَأَوْقِدْ لِي يا هامانُ عَلَى الطِّينِ [ القصص 38] .- ( ط ی ن ) الطین - ۔ پانی میں ملی ہوئی مٹی کو کہتے ہیں گو اس سے پانی کا اثر زائل ہی کیوں نہ ہوجائے اور طنت کذا وطینتہ کے معنی دیوار وغیرہ کو گارے سے لینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ مِنْ طِينٍ لازِبٍ [ الصافات 11] چپکنے والی مٹی سے ۔ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ [ ص 76] اور اسے مٹی سے بنایا ۔ فَأَوْقِدْ لِي يا هامانُ عَلَى الطِّينِ [ القصص 38] ہامان امیر لئے گارے کو آگ لگو اکر اینٹیں تیار کرواؤ - هيأ - الْهَيْئَةُ : الحالة التي يكون عليها الشیء، محسوسة کانت أو معقولة، لکن في المحسوس أكثر . قال تعالی: أَنِّي أَخْلُقُ لَكُمْ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ [ آل عمران 49] ، وَالمُهايأَةُ :- ما يَتَهَيَّأُ القوم له فيتراضون عليه علی وجه التّخمین، قال تعالی: وَهَيِّئْ لَنا مِنْ أَمْرِنا رَشَداً- [ الكهف 10] ، وَيُهَيِّئْ لَكُمْ مِنْ أَمْرِكُمْ مِرفَقاً [ الكهف 16] وقیل : هَيَّاكَ أن تفعل کذا . بمعنی: إيّاك، قال الشاعر : هيّاك هيّاک وحنواء العنق - ( ھ ی ء ) الھیئتہ - اصل میں کسی چیز کی حالت کو کہتے ہیں عام اس سے کہ وہ حالت محسوسہ ہو یا معقولہ لیکن عموما یہ لفظ حالت محسوسہ یعنی شکل و صورت پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ أَنِّي أَخْلُقُ لَكُمْ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ [ آل عمران 49] کہ تمہارے سامنے مٹی کی مورت بہ شکل پر ندبناتا ہوں ۔ لمھایاۃ ( مہموز ) جس کے لئے لوگ تیار ہوں ۔ اور اس پر موافقت کا اظہار کریں ۔ ھیاء کے معنی کسی معاملہ کیلئے اسباب مہیا کرنے کے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَهَيِّئْ لَنا مِنْ أَمْرِنا رَشَداً [ الكهف 10] اور ہمارے کام میں درستی ( کے سامان ) مہیا کر ۔ وَيُهَيِّئْ لَكُمْ مِنْ أَمْرِكُمْ مِرفَقاً [ الكهف 16] اور تمہارے کاموں میں آسانی ( کے سامان ) مہیا کرے گا ۔ اور ایاک ان تفعل کذا میں لغت ھیاک ان تفعل کزا بھی ہے ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہے ( ( 4 5 8 ) ھیاک ھیاک وحنواء العنق گردن مروڑنے یعنی تکبر سے دور رہو ۔- طير - الطَّائِرُ : كلُّ ذي جناحٍ يسبح في الهواء، يقال : طَارَ يَطِيرُ طَيَرَاناً ، وجمعُ الطَّائِرِ : طَيْرٌ «3» ، كرَاكِبٍ ورَكْبٍ. قال تعالی: وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ [ الأنعام 38] ، وَالطَّيْرَ مَحْشُورَةً- [ ص 19] ، وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ [ النور 41] وَحُشِرَ لِسُلَيْمانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّيْرِ- [ النمل 17] ، وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ [ النمل 20] - ( ط ی ر ) الطائر - ہر پر دار جانور جو فضا میں حرکت کرتا ہے طار یطیر طیرا نا پرند کا اڑنا ۔ الطیر ۔ یہ طائر کی جمع ہے جیسے راکب کی جمع رکب آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ [ الأنعام 38] یا پرند جو اپنے پر دل سے اڑتا ہے ۔ وَالطَّيْرَ مَحْشُورَةً [ ص 19] اور پرندوں کو بھی جو کہ جمع رہتے تھے ۔ وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ [ النور 41] اور پر پھیلائے ہوئے جانور بھی ۔ وَحُشِرَ لِسُلَيْمانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّيْرِ [ النمل 17] اور سلیمان کے لئے جنون اور انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کئے گئے ۔ وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ [ النمل 20] انہوں نے جانوروں کا جائزہ لیا ۔ - نفخ - النَّفْخُ : نَفْخُ الرِّيحِ في الشیءِّ. قال تعالی: يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ طه 102] ، وَنُفِخَ فِي الصُّورِ [ الكهف 99] ، ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرى[ الزمر 68] ، وذلک نحو قوله : فَإِذا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ [ المدثر 8] ومنه نَفْخُ الرُّوح في النَّشْأَة الأُولی، قال : وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي - [ الحجر 29]- ( ن ف خ ) النفخ - کے معنی کسی چیز میں پھونکنے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ طه 102] ، اور جس دن صور پھونکا جائیگا ۔ وَنُفِخَ فِي الصُّورِ [ الكهف 99] اور جس وقت ) صؤر پھونکا جائے گا ۔ ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرى[ الزمر 68] پھر دوسری دفعہ پھونکا جائے گا ۔ اور یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ فَإِذا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ [ المدثر 8] جب صور پھونکا جائے گا ۔ اور اسی سے نفخ الروح ہے جس کے معنی اس دنیا میں کسی کے اندر روح پھونکنے کے ہیں چناچہ آدم (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي[ الحجر 29] اور اس میں اپنی بےبہا چیز یعنی روح پھونک دوں ۔- برأ - أصل البُرْءِ والبَرَاءِ والتَبَرِّي : التقصّي مما يكره مجاورته، ولذلک قيل : بَرَأْتُ من المرض وبَرِئْتُ من فلان وتَبَرَّأْتُ وأَبْرَأْتُهُ من کذا، وبَرَّأْتُهُ ، ورجل بَرِيءٌ ، وقوم بُرَآء وبَرِيئُون . قال عزّ وجلّ : بَراءَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ التوبة 1] - ( ب ر ء ) البرء والبراء والتبری - کے اصل معنی کسی مکردہ امر سے نجات حاصل کرتا کے ہیں ۔ اس لئے کہا جاتا ہے ۔ برءت من المریض میں تندرست ہوا ۔ برءت من فلان وتبرءت میں فلاں سے بیزار ہوں ۔ ابررتہ من کذا وبرء تہ میں نے اس کو تہمت یا مرض سے بری کردیا ۔ رجل بریء پاک اور بےگناہ آدمی ج برآء بریئوں قرآن میں ہے ؛۔ بَرَاءَةٌ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ ( سورة التوبة 1) اور اس کے رسول کی طرف سے بیزاری کا اعلان ہے ۔ - كمه - الْأَكْمَهُ : هو الذي يولد مطموس العین، وقد يقال لمن تذهب عينه، قال :- كَمِهَتْ عيناه حتی ابیضّتا - ( ک م ہ ) الاکمتہ کے معنی پیدائشی اندھا کے ہیں مگر کبھی اس شخص کے لئے آتا ہے جس کی بعد میں بصارت کھوگئی ہو شاعر نے کہا ہے کہ ( الرمل ) ( 385 ) کمھت علیناہ حتی ابیضتا اس کی آنکھیں بےنور ہوکر سفید ہوگئیں ۔- برص - البَرَصُ معروف، وقیل للقمر : أَبْرَص، للنکتة التي عليه، وسام أَبْرَص «3» ، سمّي بذلک تشبيها بالبرص، والبَرِيصُ : الذي يلمع لمعان الأبرص، ويقارب البصیص «4» ، بصّ يبصّ : إذا برق . ( ب ر ص ) البرص پھلبہری مشہورمرض کا نام ہے اور چاند کو اس سیاہ دھبہ کی وجہ سے جو اس میں نظر آتا ہے ابرص کہا گیا ہے ۔ اور سام ابرص کے معنی چھپکلی کے ہیں کیونکہ اس کی جلد پر بھی برص جیسے دھبے ہوتے ہیں ۔ البریص وہ ہے جو ابرص کی طرح چمکدار ہو ۔ یہی معنی تقریبا بصیص کے ہیں جو بص یبص بمعنی برق سے مشتق ہے ۔- موت - أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة :- فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات - . نحو قوله تعالی:- يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] .- الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا - [ مریم 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] .- الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة .- نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] .- الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة،- وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ- بِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] .- الخامس : المنامُ ،- فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] - ( م و ت ) الموت - یہ حیات کی ضد ہے - لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں - ۔ اول قوت نامیہ - ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔- دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں - ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ - سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے - چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔- چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے - چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔- پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے - اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے - كف - الْكَفُّ : كَفُّ الإنسان، وهي ما بها يقبض ويبسط، وكَفَفْتُهُ : أصبت كَفَّهُ ، وكَفَفْتُهُ : أصبته بالکفّ ودفعته بها . وتعورف الکفّ بالدّفع علی أيّ وجه کان، بالکفّ کان أو غيرها حتی قيل : رجل مَكْفُوفٌ لمن قبض بصره، وقوله تعالی: وَما أَرْسَلْناكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ [ سبأ 28] أي : كافّا لهم عن المعاصي، والهاء فيه للمبالغة کقولهم : راوية، وعلّامة، ونسّابة، وقوله :- وَقاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَما يُقاتِلُونَكُمْ كَافَّةً [ التوبة 36] قيل : معناه : كَافِّينَ لهم كما يقاتلونکم کافّين «2» ، وقیل : معناه جماعة كما يقاتلونکم جماعة، وذلک أن الجماعة يقال لهم الکافّة، كما يقال لهم الوازعة لقوّتهم باجتماعهم، وعلی هذا قوله : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً [ البقرة 208] ، وقوله : فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ عَلى ما أَنْفَقَ فِيها[ الكهف 42] فإشارة إلى حال النادم وما يتعاطاه في حال ندمه . وتَكَفَّفَ الرّجل : إذا مدّ يده سائلا، واسْتَكَفَّ : إذا مدّ كفّه سائلا أو دافعا، واسْتَكَفَّ الشمس : دفعها بكفّه، وهو أن يضع کفّه علی حاجبه مستظلّا من الشمس ليرى ما يطلبه، وكِفَّةُ المیزان تشبيه بالکفّ في كفّها ما يوزن بها، وکذا كِفَّةُ الحبالة، وكَفَّفْتُ الثوب : إذا خطت نواحيه بعد الخیاطة الأولی.- ( ک ف ف ) الکف - کے معنی ہاتھ کی ہتھیلی کے ہیں جس کے ساتھ انسان چیزوں کو اکٹھا کرتا اور پھیلا تا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ عَلى ما أَنْفَقَ فِيها[ الكهف 42] تو جو مالی اس نے اس پر خرچ کیا تھا اس پر حسرت سے ہاتھ ملنے لگا ۔ الکف کے معنی ہاتھ کی ہتھلی کے ہیں جس کے ساتھ انسان چیزوں کو اکٹھا کرتا اور پھیلا تا ہے ۔ کففتہ کے اصل معنی کسی کی ہتھیلیپر مارنے یا کسی کو ہتھلی کے ساتھ مار کر دو ر ہٹا نے اور روکنے کے ہیں پھر عرف میں دور ہٹانے اور روکنے کے معنی میں استعمال ہونے لگانے خواہ ہتھلی سے ہو یا کسی اور چیز سے رجل مکفو ف البصر جس کی مینائی جاتی رہی ہو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَما أَرْسَلْناكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ [ سبأ 28] اور ( اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) ہم نے تم کو گناہوں سے روکنے والا بنا کر بھیجا ہے ۔ میں کافۃ کے معنی لوگوں کو گناہوں سے روکنے والا کے ہیں ۔ اس میں ہا مبالغہ کے لئے ہے ۔ جیسا کہ روایۃ وعلامۃ اور نشابۃ میں ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَقاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَما يُقاتِلُونَكُمْ كَافَّةً [ التوبة 36] اور تم سب کے سب مشرکون سے لڑو جیسے وہسب کے سب تم سے لڑتے ہیں میں بعض نے دونوں جگہوں میں کا فۃ کے معنیکا فین یعنی روکنے والے کیے ہیں ۔ اور بعض نے یہ معنی کیا ہے ۔ کہ جماعۃ یعنی اجتماعی قوت کی وجہ سے اسے کافۃ بھی کہا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً [ البقرة 208] مومنوں اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ میں بھی کافۃ بمعنی جماعت ہی ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ عَلى ما أَنْفَقَ فِيها[ الكهف 42] تو جو مالی اس نے اس پر خرچ کیا تھا اس پر حسرت سے ہاتھ ملنے لگا ۔ پشمان ہونے والے کی حالت کی طرف اشارہ ہے ۔ کیونکہ انسان پشمانی کی حالت میں ہاتھ ملتا ہے ۔ تکفف الرجل سوال کے لئے ہاتھ پھیلانا استکف سوال یا مدافعت کیلئے ہاتھ پھیلانا استکف الشمس ہتھلی کے ذریعہ دھوپ کو دفع کرتا اور وہ اس طرح کہ دھوپ کی شعا عوں کو روکنے کے لئے ابرؤں پر بطور سایہ ہاتھ رکھ لے تاکہ جس چیز کو دیکھنا مطلوب ہو آسانی سے دیکھی جا سکے ۔ کفۃ المیزان ترازو کا پلڑا ۔ کیونکہ وہ بھی موزوں چیز کو روک لینے میں ہتھیلی کے مشابہ ہوتا ہے ۔ ایسے ہی کفۃ الحبالۃ ہے جس کے معنی شکاری کے پھندا کے ہیں ۔ کففت التوب ۔ کچی سلائی کے بعد کپڑے کے اطراف کو سینا ۔- اِسْرَاۗءِيْلَ- ( بني) ، جمع ابن، والألف في ابن عوض من لام الکلمة المحذوفة فأصلها بنو .(إسرائيل) ، علم أعجمي، وقد يلفظ بتخفیف الهمزة إسراييل، وقد تبقی الهمزة وتحذف الیاء أي إسرائل، وقد تحذف الهمزة والیاء معا أي : إسرال .- بينات - يقال : بَانَ واسْتَبَانَ وتَبَيَّنَ نحو عجل واستعجل وتعجّل وقد بَيَّنْتُهُ. قال اللہ سبحانه : وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت 38] فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران 97] ، وقال : شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة 185] . ويقال : آية مُبَيَّنَة اعتبارا بمن بيّنها، وآية مُبَيِّنَة اعتبارا بنفسها، وآیات مبيّنات ومبيّنات .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی ظاہر اور واضح ہوجانے کے ہیں اور بینہ کے معنی کسی چیز کو ظاہر اور واضح کردینے کے قرآن میں ہے ۔ وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنا بِهِمْ [إبراهيم 45] اور تم پر ظاہر ہوچکا تھا کہ ہم نے ان لوگوں کے ساتھ کس طرح ( کاملہ ) کیا تھا ۔ وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت 38] چناچہ ان کے ( ویران ) گھر تمہاری آنکھوں کے سامنے ہیں ۔ ۔ فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران 97] اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں ۔ شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة 185] ( روزوں کا مہنہ ) رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن ( وال وال ) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے ۔ - سحر - والسِّحْرُ يقال علی معان :- الأوّل : الخداع وتخييلات لا حقیقة لها، نحو ما يفعله المشعبذ بصرف الأبصار عمّا يفعله لخفّة يد، وما يفعله النمّام بقول مزخرف عائق للأسماع، وعلی ذلک قوله تعالی:- سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف 116] - والثاني :- استجلاب معاونة الشّيطان بضرب من التّقرّب إليه، کقوله تعالی:- هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء 221- 222] ، - والثالث :- ما يذهب إليه الأغتام «1» ، وهو اسم لفعل يزعمون أنه من قوّته يغيّر الصّور والطّبائع، فيجعل الإنسان حمارا، ولا حقیقة لذلک عند المحصّلين . وقد تصوّر من السّحر تارة حسنه، فقیل : «إنّ من البیان لسحرا» «2» ، وتارة دقّة فعله حتی قالت الأطباء : الطّبيعية ساحرة، وسمّوا الغذاء سِحْراً من حيث إنه يدقّ ويلطف تأثيره، قال تعالی: بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر 15] ، - ( س ح ر) السحر - اور سحر کا لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے اول دھوکا اور بےحقیقت تخیلات پر بولاجاتا ہے - جیسا کہ شعبدہ باز اپنے ہاتھ کی صفائی سے نظرون کو حقیقت سے پھیر دیتا ہے یانمام ملمع سازی کی باتین کرکے کانو کو صحیح بات سننے سے روک دیتا ہے چناچہ آیات :۔ سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف 116] تو انہوں نے جادو کے زور سے لوگوں کی نظر بندی کردی اور ان سب کو دہشت میں ڈال دیا ۔ - دوم شیطان سے کسی طرح کا تقرب حاصل کرکے اس سے مدد چاہنا - جیسا کہ قرآن میں ہے : هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء 221- 222] ( کہ ) کیا تمہیں بتاؤں گس پر شیطان اترا کرتے ہیں ( ہاں تو وہ اترا کرتے ہیں ہر جھوٹے بدکردار پر ۔- اور اس کے تیسرے معنی وہ ہیں جو عوام مراد لیتے ہیں - یعنی سحر وہ علم ہے جس کی قوت سے صور اور طبائع کو بدلا جاسکتا ہے ( مثلا ) انسان کو گدھا بنا دیا جاتا ہے ۔ لیکن حقیقت شناس علماء کے نزدیک ایسے علم کی کچھ حقیقت نہیں ہے ۔ پھر کسی چیز کو سحر کہنے سے کبھی اس شے کی تعریف مقصود ہوتی ہے جیسے کہا گیا ہے (174)- ان من البیان لسحرا ( کہ بعض بیان جادو اثر ہوتا ہے ) اور کبھی اس کے عمل کی لطافت مراد ہوتی ہے چناچہ اطباء طبیعت کو ، ، ساحرۃ کہتے ہیں اور غذا کو سحر سے موسوم کرتے ہیں کیونکہ اس کی تاثیر نہایت ہی لطیف ادرباریک ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر 15]( یا ) یہ تو نہیں کہ ہم پر کسی نے جادو کردیا ہے ۔ یعنی سحر کے ذریعہ ہمیں اس کی معرفت سے پھیر دیا گیا ہے ۔
(١١٠) اور اسی روز اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے فرمائے گا کہ میرا انعام جو نبوت اسلام اور عبادت کی صورت میں ہوا، اس کو یاد کرو اور جب کہ جبریل مطہر کے ساتھ تمہیں تائید دی اور لوگوں سے کلام کرنے میں تقویت ملی کہ آپ پنگھوڑے میں کہہ رہے تھے، کہ میں اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوں اور تیس سال کے بعد تمہیں تقویت دی کہ تم نے اپنے رسول ہونے کا اعلان کیا اور جب کہ آپ کو تمام آسمانی کتب یا یہ کہ بولنا اور حکماء کی حکمت یا حلال و حرام کی تعلیم دی اور توریت کی جب کہ آپ اپنی ماں کے پیٹ میں تھے اور انجیل کی وہاں سے نکلنے کے بعد تعلیم دی اور جب کہ تم مٹی کے پرندہ جیسی تصویر بناتے تھے اور پھر میرے حکم سے اس میں پھونک مار دیتے تھے تو وہ آسمان اور زمین کے درمیان پرندہ بن کر میرے حکم اور ارادہ سے اڑنا شروع کردیتا تھا اور میرے حکم و ارادہ اور میری قدرت سے تم مادر زاد اندھے کو اچھا کردیتے تھے۔- اور جب کہ تم بنی اسرائیل کے پاس اوامرو نواہی لے کر آئے اور انھیں معجزات دکھائے اور انہوں نے تمہارے قتل کا ارادہ کیا تو میں نے ان کو تمہارے قتل سے باز رکھا اور بنی اسرائیل ان معجزات کے دیکھنے پر کہنے لگے کہ یہ تو واضح جادو ہے یا یہ کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) جادوگر ہیں۔
آیت ١١٠ (اِذْ قَال اللّٰہُ یٰعِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ ) - اب روز قیامت حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کی خاص پیشی کا منظر ہے۔ دنیا میں ان کی پرستش کی گئی ‘ ان کو اللہ کا بیٹا بنایا گیا ‘ ثالث ثلاثۃ قرار دیا گیا۔ لہٰذا اب آنجناب ( علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کے سامنے جو شرمندگی اٹھانا پڑے گی ‘ اس کا نقشہ کھینچا جا رہا ہے جب اللہ ان کو مخاطب کر کے فرمائے گا کہ اے عیسیٰ ( علیہ السلام) ابن مریم :- (اذْکُرْ نِعْمَتِیْ عَلَیْکَ وَعَلٰی وَالِدَتِکَ ٧) (اِذْ اَیَّدْتُّکَ بِرُوْحِ الْقُدُسِ ) - جبرائیل ( علیہ السلام) کے ذریعے سے تمہاری تائید کی - ( تُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْْمَہْدِ وَکَہْلاً ج) ۔- تم شیر خوارگی کی عمر میں بھی لوگوں سے گفتگو کرتے تھے اور ادھیڑ عمر کو پہنچ کر بھی۔ آگے وہی سورة آل عمران (آیت ٤٨) والے الفاظ دہرائے جا رہے ہیں۔- (وَاِذْ عَلَّمْتُکَ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَالتَّوْرٰٹۃَ وَالْاِنْجِیْلَ ج) - درمیان کا واؤتفسیریہ ہے ‘ لہٰذا یعنی کے مفہوم میں آئے گا۔- (وَاِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّیْنِ کَہَیْءَۃِ الطَّیْرِ بِاِذْنِیْ ) (فَتَنْفُخُ فِیْہَا فَتَکُوْنُ طَیْرًام بِاِذْنِیْ ) (وَتُبْرِئُ الْاَکْمَہَ وَالْاَبْرَصَ بِاِذْنِیْ ج) - ان کے ہاتھ تم تک نہیں پہنچنے دیے اور تمہیں ان کے شر سے محفوظ رکھا۔ یہ اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) گرفتار نہیں ہوئے ‘ اور عین اس وقت جب پولیس والے آپ ( علیہ السلام) کو گرفتار کرنے کے لیے باغ میں داخل ہوئے تو چار فرشتے اترے ‘ جو آپ ( علیہ السلام) کو لے کر آسمان پر چلے گئے۔
سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :125 ابتدائی سوال تمام رسولوں سے بحیثیت مجموعی ہوگا ۔ پھر ایک ایک رسول سے الگ الگ شہادت لی جائے گی جیسا کہ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بتصریح ارشاد ہوا ہے ۔ اس سلسلہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے جو سوال کیا جائے گا وہ یہاں بطور خاص نقل کیا جارہا ہے ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :126 یعنی حالت موت سے نکال کر زندگی کی حالت میں لاتا تھا ۔
76: تشریح کے لیے دیکھئے سورۃ بقرہ (87:2)