111۔ 1 حَوَارِیِّیْنَ سے مراد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پیروکار ہیں جو ان پر ایمان لائے ان کے ساتھی اور مددگار بنے۔ ان کی تعداد 21 بیان کی جاتی ہے۔ وحی سے مراد وہ وحی نہیں ہے جو بذریعہ فرشتہ انبیاء (علیہ السلام) پر نازل ہوتی تھیں بلکہ یہ وحی الہام ہے، جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بعض لوگوں کے دلوں میں کردی جاتی تھی، جیسے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ حضرت مریم (علیہ السلام) کو اسی قسم کا الہام ہوا جسے قرآن نے وحی سے ہی تعبیر کیا۔
[١٦٠] عیسائیوں کے مختلف نام۔۔ حواری کون تھے ؟ یہ حواری ہی دراصل سیدنا عیسیٰ کی امت تھے جنہوں نے اپنے آپ کو مسلمان کہا۔ عیسائی یا ناصری یا مسیحی نہیں کہا۔ یہ الفاظ بہت بعد کی پیداوار ہیں۔ اور ان کیلئے یہ نام ان کے دشمنوں یعنی یہود نے ان کیلئے تجویز کیے تھے۔ عیسیٰ (علیہ السلام) ناصرہ بستی میں پیدا ہوئے اور یہ بستی فلسطین کے ضلع گلیل میں واقع تھی۔ اس لحاظ سے یہود انہیں ناصری یا گلیلی بدعتی فرقہ کہتے تھے اور مسیحی بھی دشمنوں کا رکھا ہوا نام تھا جسے بعد میں عیسائیوں نے نہ صرف گوارا کرلیا بلکہ بعد میں اس نسبت پر فخر کرنے لگے اور آج تک مسیحی کہلاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو مسلمان یا انصار یا نصاریٰ کے ناموں سے ذکر کیا ہے۔
وَاِذْ اَوْحَيْتُ اِلَى الْحَوَارِيّٖنَ ۔۔ : یہ بھی اللہ تعالیٰ کا عیسیٰ (علیہ السلام) پر احسان تھا کہ حواریوں کو ان کا مخلص ساتھی اور مددگار بنادیا۔ حواری کے قریب قریب وہی معنی ہیں جو ہمارے ہاں انصار کے ہیں۔ یہاں ” اوحینا “ کا معنی انبیاء والی وحی نہیں بلکہ الہام ہے، جو غیر انبیاء کو بھی ہوتا ہے اور اس پر بھی وحی کا لفظ بول دیا جاتا ہے، جیسے فرمایا : (وَاَوْحَيْنَآ اِلٰٓى اُمِّ مُوْسٰٓى) [ القصص : ٧ ] ” اور ہم نے موسیٰ کی ماں کی طرف وحی کی۔ “ حالانکہ قرآن مجید میں صاف آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مردوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا (کوئی عورت نبی نہیں ہوئی) ۔ دیکھیے سورة انبیاء (٧) اسی طرح فرمایا : (وَاَوْحٰى رَبُّكَ اِلَى النَّحْلِ ) [ النحل : ٦٨ ] ” اور تیرے رب نے شہد کی مکھی کی طرف وحی فرمائی۔ “
خلاصہ تفسیر - اور جب کہ میں نے حواریین کو (انجیل میں تمہاری زبانی) حکم دیا کہ تم مجھ پر اور میرے رسول (عیسیٰ علیہ السلام) پر ایمان لاؤ انہوں نے (جواب میں تم سے) کہا کہ ہم (خدا اور رسول یعنی آپ پر) ایمان لائے اور آپ شاہد رہئے کہ ہم (خدا کے اور آپ کے) پورے فرمانبردار ہیں، وہ وقت یاد رکھنے کے قابل ہے جب کہ حواریین نے (حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے) عرض کیا کہ اے عیسیٰ ابن مریم (علیہم السلام) کیا آپ کے رب ایسا کرسکتے ہیں (یعنی کوئی امر مثل خلاف حکمت ہونے وغیرہ کے اس سے مانع تو نہیں) کہ ہم پر آسمان سے کچھ کھانا (پکا پکایا) نازل فرمادیں آپ نے فرمایا کہ خدا سے ڈرو اگر تم ایمان دار ہو (مطلب یہ کہ تم تو ایمان دار ہو اس لئے خدا سے ڈرو اور معجزات کی فرمائش سے کہ بےضرورت ہونے کی وجہ سے خلاف ادب ہے بچو) وہ بولے کہ (ہمارا مقصود بےضرورت فرمائش کرنا نہیں ہے، بلکہ ایک مصلحت سے اس کی درخواست کرتے ہیں وہ یہ کہ) ہم (ایک تو) یہ چاہتے ہیں کہ (برکت حاصل کرنے کو) اس میں سے کھائیں اور (دوسرے یہ چاہتے ہیں کہ) ہمارے دلوں کو (ایمان پر) پورا اطمینان ہوجاوے اور (مطلب اطمینان کا یہ ہے کہ) ہمارا یقین اور بڑھ جاوے کہ آپ نے (دعویٰ رسالت میں) ہم سے سچ بولا ہے (کیونکہ جس قدر دلائل بڑھتے جاتے ہیں دعوے کا یقین بڑھتا جاتا ہے) اور (تیسرے یہ چاہتے ہیں کہ) ہم (ان لوگوں کے سامنے جنہوں نے یہ معجزہ نہیں دیکھا) گواہی دینے والوں میں سے ہوجاویں (کہ ہم نے ایسا معجزہ دیکھا ہے تاکہ ان کے سامنے اثبات رسالت کرسکیں، اور ان کی ہدایت کا یہ ذریعہ بن جاوے) عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) نے (جب دیکھا کہ اس درخواست میں ان کی غرض صحیح ہے تو حقیقتاً اللہ تعالیٰ سے) دعا کی کہ اے اللہ ہمارے پروردگار ہم پر آسمان سے کھانا نازل فرمائیے کہ وہ (مائدہ) ہمارے لئے یعنی ہم میں جو اوّل (یعنی موجودہ زمانہ میں) ہیں اور جو بعد (کے زمانہ میں آنے والے) ہیں، سب کے لئے ایک خوشی کی بات ہوجاوے (حاضرین کی خوشی تو کھانے سے اور درخواست قبول ہونے سے اور بعد والوں کی خوشی اپنے سلف پر انعام ہونے سے، اور یہ غایت تو خاص ہے مؤمنین کے ساتھ) اور (میری پیغمبری پر) آپ کی طرف سے ایک نشان ہوجائے، (کہ مؤمنین کا یقین بڑھ جاوے اور منکرین حاضرین یا غائبین پر حجت ہوجاوے اور یہ مقصد مؤمنین وغیرہ سب کے لئے عام ہے) اور آپ ہم کو (وہ مائدہ) عطا فرمائیے، اور آپ سب عطا کرنے والوں سے اچھے ہیں (کیونکہ سب کا دینا اپنے نفع کے لئے اور آپ کا دینا مخلوق کے نفع کے لئے ہے، اس لئے ہم اپنے منافع کو پیش کرکے آپ سے مائدہ کی درخواست کرتے ہیں) حق تعالیٰ نے (جواب میں) ارشاد فرمایا کہ (آپ لوگوں سے کہہ دیجئے کہ) میں وہ کھانا (آسمان سے) تم لوگوں پر نازل کرنے والا ہوں پھر جو شخص تم میں سے اس کے بعد (اس کی) ناحق شناسی کرے گا (یعنی اس کے حقوق واجبہ عقلاً و نقلاً ادا نہ کرے گا) تو میں اس کو ایسی سزا دوں گا کہ وہ سزا (اس وقت کے) جہان والوں میں سے کسی کو نہ دوں گا
وَاِذْ اَوْحَيْتُ اِلَى الْحَوَارِيِّيْنَ اَنْ ٰاٰمِنُوْا بِيْ وَبِرَسُوْلِيْ ٠ۚ قَالُـوْٓا اٰمَنَّا وَاشْهَدْ بِاَنَّنَا مُسْلِمُوْنَ ١١١- وحی - أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی،- ( و ح ی ) الوحی - کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔- اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے - حوَّارَى- والحَوَارِيُّونَ أنصار عيسى صلّى اللہ عليه وسلم، قيل :- کانوا قصّارین «1» ، وقیل : کانوا صيّادین، وقال بعض العلماء : إنّما سمّوا حواريّين لأنهم کانوا يطهّرون نفوس النّاس بإفادتهم الدّين والعلم المشار إليه بقوله تعالی: إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً [ الأحزاب 33] ، قال : وإنّما قيل : کانوا قصّارین علی التّمثیل والتشبيه، وتصوّر منه من لم يتخصّص بمعرفته الحقائق المهنة المتداولة بين العامّة، قال : وإنّما کانوا صيّادین لاصطیادهم نفوس النّاس من الحیرة، وقودهم إلى الحقّ ، قال صلّى اللہ عليه وسلم : «الزّبير ابن عمّتي وحواريّ» وقوله صلّى اللہ عليه وسلم : «لكلّ نبيّ حَوَارِيٌّ وحواريّ الزّبير» فتشبيه بهم في النّصرة حيث قال : مَنْ أَنْصارِي إِلَى اللَّهِ قالَ الْحَوارِيُّونَ : نَحْنُ أَنْصارُ اللَّهِ [ الصف 14] .- عیسیٰ (علیہ السلام) کے انصار واصحاب کو حواریین کہاجاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ وہ قصار یعنی دھوبی تھے ۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ ان کو حواری اسلئے کہاجاتا ہے کہ وہ لوگوں کو علمی اور دینی فائدہ پہنچا کر گناہوں کی میل سے اپنے آپ کو پا کرتے تھے ۔ جس پاکیزگی کی طرف کہ آیت :۔ إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً [ الأحزاب 33] میں اشارہ پایا جاتا ہے ۔ اس بنا پر انہیں تمثیل اور تشبیہ کے طور پر قصار کہہ دیا گیا ہے ورنہ اصل میں وہ ہوبی پن کا کام نہیں کرتے تھے اور اس سے شخص مراد لیا جاتا ہے جو معرفت حقائق کی بنا پر عوام میں متداول پیشوں میں سے کوئی پیشہ اختیار نہ کرے اسی طرح ان کو صیاد اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ لوگوں کو حیرت سے نکال کر حق کیطرف لاکر گویا ان کا شتکار کرتے تھے ۔ آنحضرت نے حضرت زبیر کے متعلق فرمایا (102) الزبیر ابن عمتی وحوادی ۔ کہ زبیر میرا پھوپھی زاد بھائی اور حواری ہے نیز فرمایا (103) لکل بنی حواری الزبیر ۔ کہ ہر نبی کا کوئی نہ کوئی حواری رہا ہے اور میرا حواری زبیر ہے ۔ اس روایت میں حضرت زبیر کا حواری کہنا محض نصرت اور مدد کے لحاظ سے ہے ۔ جیسا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے کہا تھا ۔ مَنْ أَنْصارِي إِلَى اللَّهِ قالَ الْحَوارِيُّونَ : نَحْنُ أَنْصارُ اللَّهِ [ الصف 14] بھلاکون ہیں جو خدا کی طرف ( بلانے میں ) میرے مددگار ہوں ۔ حواریوں نے کہا ہم خدا کے مددگا ہیں ۔- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - سلم - والْإِسْلَامُ : الدّخول في السّلم، وهو أن يسلم کلّ واحد منهما أن يناله من ألم صاحبه، ومصدر أسلمت الشیء إلى فلان : إذا أخرجته إليه، ومنه : السَّلَمُ في البیع . - والْإِسْلَامُ في الشّرع علی ضربین :- أحدهما : دون الإيمان،- وهو الاعتراف باللسان، وبه يحقن الدّم، حصل معه الاعتقاد أو لم يحصل، وإيّاه قصد بقوله : قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات 14] .- والثاني : فوق الإيمان،- وهو أن يكون مع الاعتراف اعتقاد بالقلب، ووفاء بالفعل، واستسلام لله في جمیع ما قضی وقدّر، كما ذکر عن إبراهيم عليه السلام في قوله : إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة 131] ،- ( س ل م ) السلم والسلامۃ - الاسلام اس کے اصل معنی سلم ) صلح) میں داخل ہونے کے ہیں اور صلح کے معنی یہ ہیں کہ فریقین باہم ایک دوسرے کی طرف سے تکلیف پہنچنے سے بےخوف ہوجائیں ۔ اور یہ اسلمت الشئی الی ٰفلان ( باب افعال) کا مصدر ہے اور اسی سے بیع سلم ہے ۔ - شرعا اسلام کی دوقسمیں ہیں - کوئی انسان محض زبان سے اسلام کا اقرار کرے دل سے معتقد ہو یا نہ ہو اس سے انسان کا جان ومال اور عزت محفوظ ہوجاتی ہے مگر اس کا درجہ ایمان سے کم ہے اور آیت : ۔ قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات 14] دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے کہدو کہ تم ایمان نہیں لائے ( بلکہ یوں ) کہو اسلام لائے ہیں ۔ میں اسلمنا سے یہی معنی مراد ہیں ۔ دوسرا درجہ اسلام کا وہ ہے جو ایمان سے بھی بڑھ کر ہے اور وہ یہ ہے کہ زبان کے اعتراف کے ساتھ ساتھ ولی اعتقاد بھی ہو اور عملا اس کے تقاضوں کو پورا کرے ۔ مزید پر آں کو ہر طرح سے قضا وقدر الہیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کردے ۔ جیسا کہ آیت : ۔ إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة 131] جب ان سے ان کے پروردگار نے فرمایا ۔ کہ اسلام لے آؤ تو انہوں نے عرض کی کہ میں رب العالمین کے آگے سرا طاعت خم کرتا ہوں ۔
(١١١) اور جس وقت میں نے حواریین کو جن کو تعداد بارہ تھی، ایمان لانے کا حکم دیا کہ ہم پر اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آؤ اور آپ اے عیسیٰ (علیہ السلام) اس پر گواہ رہیے اور ان میں سے بھی ایک نے ایک پر شہادت دی کہ ہم کامل مومن اور فرما نبردار ہیں۔
آیت ١١١ (وَاِذْ اَوْحَیْتُ اِلَی الْحَوَارِیّٖنَ ) (اَنْ اٰمِنُوْا بِیْ وَبِرَسُوْلِیْ ج ) - ان کے دل میں ڈال دیا ‘ الہام کردیا ‘ ان کی طرف وحی کردی۔ یہ وحئ خفی ہے۔ ظاہر ہے حواریوں کی طرف وحی جلی تو نہیں آسکتی تھی جو خاصۂ نبوت ہے۔ لیکن جیسا کہ شہد کی مکھی کے لیے وحی کا لفظ آیا ہے (النحل : ٦٨) یا جیسے اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کو وحی کی (فصلت : ١٢) یہ وحئ خفی کی مثالیں ہیں۔
سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :127 یعنی حواریوں کا تجھ پر ایمان لانا بھی ہمارے فضل اور توفیق کا نتیجہ تھا ، ورنہ تجھ میں تو اتنی طاقت بھی نہ تھی کہ اس جھٹلانے والی آبادی میں ایک ہی تصدیق کرنے والا اپنے بل بوتے پر پیدا کر لیتا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ضمناً یہاں یہ بھی بتا دیا کہ حواریوں کا اصل دین اسلام تھا نہ کہ عیسا ئیت ۔