Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

117۔ 1 حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے توحید و عبادت رب کی یہ دعوت عالم شیر خوارگی میں بھی دی، جیسا کہ سورة مریم میں ہے اور عمر جوانی و کہولت میں بھی۔ 117۔ 2 توفیتنی کا مطلب ہے جب تو نے مچھے دنیا سے اٹھالیا جیسا کہ اس کی تفصیل سورة آل عمران کی آیت 55 میں گزر چکی ہے اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ پیغمبروں کو اتنا ہی علم ہوتا ہے جتنا اللہ کی طرف سے انہیں عطا کیا جاتا ہے یا جن کا مشاہدہ وہ اپنی زندگی میں اپنی آنکھوں سے کرتے ہیں۔ ان کے علاوہ ان کو کسی بات کا علم نہیں ہوتا۔ جب کہ عالم الغیب وہ ہوتا ہے جسے بغیر کسی کے بتلائے ہر چیز کا علم ہوتا ہے اور اس کا علم ازل سے ابد تک پر محیط ہوتا ہے۔ یہ صفت علم اللہ کے سوا کسی اور کے اندر نہیں اس لئے عالم الغیب صرف ایک اللہ ہی کی ذات ہے اس کے علاوہ کوئی عالم الغیب نہیں حدیث میں آتا ہے کہ میدان محشر میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف آپ کے کچھ امتی آنے لگیں گے تو فرشتے ان کو پکڑ کر دوسری طرف لے جائیں گے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمائیں گے ان کو آنے دو یہ تو میرے امتی ہیں فرشتے آ کر بتلائیں گے انک لاتدری ما احدثوا بعدک اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ نہیں جانتے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد انہوں نے دین میں کیا کیا بدعتیں ایجاد کیں جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ سنیں گے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں بھی اس وقت یہی کہوں گا جو العبد الصالح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے کہا (وکنت علیھم شھیدا ما دمت فیھم فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیھم (صحیح بخاری، صحیح مسلم)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٦٨] انبیاء کو بھی غیب کا علم نہیں :۔ تو نے مجھے حکم دیا تھا کہ میں خود بھی تیری بندگی اور عبادت کروں اور لوگوں سے بھی تیری ہی بندگی اور عبادت کراؤں اور اسے میں بجا لاتا رہا اور جب تک میں ان لوگوں میں موجود رہا اس وقت تک تو میں نے تیرے حکم کا پوری طرح دھیان رکھا البتہ میرے بعد کے حالات کا مجھے کچھ علم نہیں۔ بعد کے حالات تو تو ہی جانتا ہے کہ ان لوگوں نے کب اور کس طرح یہ غلط روش اختیار کی تھی اور کیوں کی تھی ؟- قیامت کے دن انبیاء کی اپنی امت کے اعمال سے بیخبر ی :۔ سیدنا ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ آپ نے ایک خطبہ کے دوران فرمایا لوگو تم اللہ کے سامنے ننگے پاؤں، ننگے بدن، بےختنہ حشر (جمع) کیے جاؤ گے۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی (کَمَا بَدَانَا اَوَّلَ خَلْقٍ نُعِیْدُہُ وَعْدًا عَلَیْنَا اِنَّا کُنَّا فَاعِلِیْنَ ) تا آخر پھر فرمایا سن لو قیامت کے دن ساری خلقت میں سب سے پہلے سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کو کپڑے پہنائے جائیں گے اور میری امت کے کچھ لوگ حاضر کیے جائیں گے جنہیں فرشتے بائیں طرف (دوزخ کی طرف) لے چلیں گے۔ میں کہوں گا پروردگار یہ تو میرے صحابی (ساتھی) ہیں۔ جواب ملے گا : آپ نہیں جانتے۔ آپ کے بعد ان لوگوں نے کیا کیا نئی باتیں (بدعتیں) نکالیں۔ اس وقت میں وہی کچھ کہوں گا جو اللہ کے نیک بندے (عیسیٰ نے کہا (یعنی) جب تک میں ان لوگوں میں رہا ان کا حال دیکھتا رہا۔ پھر جب تو نے مجھے (دنیا سے) اٹھا لیا تو اس کے بعد تو ہی ان پر نگران تھا۔ جواب ملے گا جب سے تم ان سے جدا ہوئے اسی وقت سے یہ لوگ برابر ایڑیوں کے بل (اسلام سے) پھرتے رہے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر)- اس آیت اور اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء کو غیب کا علم نہیں ہوتا مگر اتنا ہی جتنا اللہ تعالیٰ بتادے۔ نیز یہ کہ انبیاء کے اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد انہیں اپنی امت کے اعمال کی خبر نہیں ہوتی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ ۔۔ : یعنی صرف اللہ ہی کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا سب کا رب ہے۔ - فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي : اس آیت سے قادیانی استدلال کرتے ہیں کہ عیسیٰ (علیہ السلام) فوت ہوچکے ہیں، یہ نہیں دیکھتے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) یہ بیان قیامت کے دن دیں گے جب وہ زمین پر آنے کے بعد اپنی عمر پوری کر کے فوت ہوچکے ہوں گے۔ اگر اصرار کیا جائے کہ ” تَوَفَّيْتَنِي “ سے مراد پہلا وقت ہے، جب انھیں آسمان پر اٹھایا گیا تھا تو معلوم ہونا چاہیے کہ لفظ وفات قرآن پاک میں تین معنی میں آیا ہے، ایک موت، جیسے : (اَللّٰهُ يَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا) [ الزمر : ٤٢ ] ” اللہ جانوں کو ان کی موت کے وقت قبض کرتا ہے۔ “ دوسرے نیند، جیسے : (وَهُوَ الَّذِيْ يَتَوَفّٰىكُمْ بالَّيْلِ ) [ الأنعام : ٦٠ ] ” اور وہی ہے جو تمہیں رات کو قبض کرلیتا ہے۔ “ تیسرے جسم سمیت اٹھا کرلے جانا، جیسے یہاں ہے اور سورة آل عمران (٥٥) اور سورة نساء (١٥٨) میں ہے۔ - كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ ۭ۔۔ : یعنی میں تو اس وقت تک کے ان کے ظاہری اعمال کی شہادت دے سکتا ہوں جب تک میں ان کے اندر موجود تھا، جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو پھر تو ہی ان پر نگران تھا اور تو ہر چیز پر شہید ہے، یعنی ان میں میری موجودگی کے وقت بھی تو ہی شہید تھا اور میرے الگ ہونے کے بعد بھی تو ہی شہید ہے۔ شہید اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ہے۔ شہادت دیکھنے، سننے اور جاننے کے معنی میں بھی ہوسکتی ہے اور کلام کے ساتھ شہادت دینے کے معنی میں بھی۔ (کبیر) مگر دوسروں کے حق میں مطلق شہید یا شاہد کا لفظ (جب کہ کوئی خاص قرینہ نہ ہو) تو کلام کے ساتھ شہادت کے معنی ہی میں استعمال ہوتا ہے۔ اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ ہر چیز اور ہر شخص کی ہر وقت خبر رکھنے والا ایک اللہ ہی ہے۔ عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” قیامت کے دن میری امت کے کچھ آدمیوں کو لایا جائے گا تو انھیں بائیں طرف کردیا جائے گا، میں کہوں گا : ” یہ تو میرے ساتھی ہیں۔ “ تو کہا جائے گا : ” تو نہیں جانتا کہ انھوں نے تیرے بعد کیا نیا کام شروع کردیا تھا۔ “ تب میں بھی اسی طرح کہوں گا جیسے اللہ کے نیک بندے ( عیسیٰ (علیہ السلام ) کہیں گے : (وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا مَّا دُمْتُ فِيْهِمْ ۚ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ ۭواَنْتَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدٌ) پھر کہا جائے گا کہ جب سے آپ ان سے جدا ہوئے یہ اپنی ایڑیوں پر پھرنے والے (مرتد) ہی رہے۔ “ [ بخاری، التفسیر، باب : ( وکنت - علیہم۔۔ ) : ٤٦٢٥ ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

مَا قُلْتُ لَہُمْ اِلَّا مَآ اَمَرْتَنِيْ بِہٖٓ اَنِ اعْبُدُوا اللہَ رَبِّيْ وَرَبَّكُمْ۝ ٠ۚ وَكُنْتُ عَلَيْہِمْ شَہِيْدًا مَّا دُمْتُ فِيْہِمْ۝ ٠ۚ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْہِمْ۝ ٠ۭ وَاَنْتَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ شَہِيْدٌ۝ ١١٧- أمر - الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود 123] - ( ا م ر ) الامر - ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔- وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے - عبادت - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] . والعِبَادَةُ ضربان :- عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود .- وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - عبادۃ دو قسم پر ہے - (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔ - رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] . وعلی هذا قوله تعالی: وَلا يَأْمُرَكُمْ أَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلائِكَةَ وَالنَّبِيِّينَ أَرْباباً [ آل عمران 80] أي : آلهة، وتزعمون أنهم الباري مسبّب الأسباب، والمتولّي لمصالح العباد، وبالإضافة يقال له ولغیره، نحو قوله : رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة 1] ، ورَبُّكُمْ وَرَبُّ آبائِكُمُ الْأَوَّلِينَ [ الصافات 126] ، ويقال : رَبُّ الدّار، ورَبُّ الفرس لصاحبهما، وعلی ذلک قول اللہ تعالی: اذْكُرْنِي عِنْدَ رَبِّكَ فَأَنْساهُ الشَّيْطانُ ذِكْرَ رَبِّهِ [يوسف 42] ، وقوله تعالی: ارْجِعْ إِلى رَبِّكَ [يوسف 50] ، وقوله : قالَ مَعاذَ اللَّهِ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوايَ [يوسف 23] ، قيل : عنی به اللہ تعالی، وقیل : عنی به الملک الذي ربّاه والأوّل أليق بقوله . والرَّبَّانِيُّ قيل : منسوب إلى الرّبّان، ولفظ فعلان من : فعل يبنی نحو :- عطشان وسکران، وقلّما يبنی من فعل، وقد جاء نعسان . وقیل : هو منسوب إلى الرّبّ الذي هو المصدر، وهو الذي يربّ العلم کالحکيم، وقیل : منسوب إليه، ومعناه، يربّ نفسه بالعلم، وکلاهما في التحقیق متلازمان، لأنّ من ربّ نفسه بالعلم فقد ربّ العلم، ومن ربّ العلم فقد ربّ نفسه به . وقیل : هو منسوب إلى الرّبّ ، أي : اللہ تعالی، فالرّبّانيّ کقولهم : إلهيّ ، وزیادة النون فيه كزيادته في قولهم : لحیانيّ ، وجسمانيّ قال عليّ رضي اللہ عنه : (أنا ربّانيّ هذه الأمّة) والجمع ربّانيّون . قال تعالی: لَوْلا يَنْهاهُمُ الرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبارُ [ المائدة 63] ، كُونُوا رَبَّانِيِّينَ [ آل عمران 79] ، وقیل : ربّانيّ لفظ في الأصل سریانيّ ، وأخلق بذلک فقلّما يوجد في کلامهم، وقوله تعالی: رِبِّيُّونَ كَثِيرٌ [ آل عمران 146] ، فالرِّبِّيُّ کالرّبّانيّ. والرّبوبيّة مصدر، يقال في اللہ عزّ وجلّ ، والرِّبَابَة تقال في غيره، وجمع الرّبّ أرْبابٌ ، قال تعالی: أَأَرْبابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْواحِدُ الْقَهَّارُ [يوسف 39] ، ولم يكن من حقّ الرّبّ أن يجمع إذ کان إطلاقه لا يتناول إلّا اللہ تعالی، لکن أتى بلفظ الجمع فيه علی حسب اعتقاداتهم، لا علی ما عليه ذات الشیء في نفسه، والرّبّ لا يقال في التّعارف إلّا في الله، وجمعه أربّة، وربوب، قال الشاعر - کانت أربّتهم بهز وغرّهم ... عقد الجوار وکانوا معشرا غدرا وقال آخر :- وكنت امرأ أفضت إليك ربابتي ... وقبلک ربّتني فضعت ربوب ويقال للعقد في موالاة الغیر : الرِّبَابَةُ ، ولما يجمع فيه القدح ربابة، واختصّ الرّابّ والرّابّة بأحد الزّوجین إذا تولّى تربية الولد من زوج کان قبله، والرّبيب والرّبيبة بذلک الولد، قال تعالی: وَرَبائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُمْ [ النساء 23] ، وربّبت الأديم بالسّمن، والدّواء بالعسل، وسقاء مربوب، قال الشاعر : فکوني له کالسّمن ربّت بالأدم والرَّبَابُ : السّحاب، سمّي بذلک لأنّه يربّ النبات، وبهذا النّظر سمّي المطر درّا، وشبّه السّحاب باللّقوح . وأَرَبَّتِ السّحابة : دامت، وحقیقته أنها صارت ذات تربية، وتصوّر فيه معنی الإقامة فقیل : أَرَبَّ فلانٌ بمکان کذا تشبيها بإقامة الرّباب، وَ «رُبَّ» لاستقلال الشیء، ولما يكون وقتا بعد وقت، نحو : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا - [ الحجر 2] .- ( ر ب ب ) الرب - ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کمال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ ورببہ تینوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گناہ بخشنے والا پروردگار ،۔ نیز فرمایا :۔ وَلا يَأْمُرَكُمْ أَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلائِكَةَ وَالنَّبِيِّينَ أَرْباباً [ آل عمران 80] اور وہ تم سے ( کبھی بھی ) یہ نہیں کہے گا کہ فرشتوں اور انبیاء کرام کو خدا مانو ( یعنی انہیں معبود بناؤ ) اور مسبب الاسباب اور مصالح عباد کو کفیل سمجھو ۔ اور اضافت کے ساتھ اللہ تعالیٰ پر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور دوسروں پر بھی ۔ چناچہ فرمایا :۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ [ الفاتحة 1] ہر طرح کی حمد خدا ہی کو ( سزا وار ) ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے ۔ ورَبُّكُمْ وَرَبُّ آبائِكُمُ الْأَوَّلِينَ [ الصافات 126] یعنی اللہ کو جو تمہارا ( بھی ) پروردگار ( ہے ) اور تمہارے پہلے آباؤ اجداد کا ( بھی ) رب الدار گھر کا مالک ۔ رب الفرس گھوڑے کا مالک اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا :۔ اذْكُرْنِي عِنْدَ رَبِّكَ فَأَنْساهُ الشَّيْطانُ ذِكْرَ رَبِّهِ [يوسف 42] اپنے آقا سے میرا بھی تذکرہ کرنا ۔ سو شیطان نے اس کو اپنے آقا سے تذکرہ کرنا بھلا دیا ۔ ارْجِعْ إِلى رَبِّكَ [يوسف 50] اپنے سردار کے پاس لوٹ جاؤ ۔ اور آیت :۔ قالَ مَعاذَ اللَّهِ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوايَ [يوسف 23] ( یوسف نے کہا ) معاذاللہ وہ تمہارا شوہر میرا آقا ہے اس نے مجھے اچھی طرح رکھا ہے ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ ربی سے مراد اللہ تعالیٰ ہے اور بعض نے عزیز مصر مراد لیا ہے ۔ لیکن پہلا قول انسب معلوم ہوتا ہے ۔ ربانی بقول بعض یہ ربان ( صیغہ صفت ) کی طرف منسوب ہے ۔ لیکن عام طور پر فعلان ( صفت ) فعل سے آتا ہے ۔ جیسے عطشان سکران اور فعل ۔ ( فتحہ عین سے بہت کم آتا ہے ) جیسے نعسان ( من نعس ) بعض نے کہا ہے کہ یہ رب ( مصدر ) کی طرف منسوب ہے اور ربانی وہ ہے جو علم کی پرورش کرے جیسے حکیم ( یعنی جو حکمت کو فروغ دے ۔ ) اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ رب مصدر کی طرف ہی منسوب ہے اور ربانی وہ ہے ۔ جو علم سے اپنی پرورش کرے ۔ درحقیقت یہ دونوں معنی باہم متلازم ہیں کیونکہ جس نے علم کی پرورش کی تو اس نے علم کے ذریعہ اپنی ذات کی بھی تربیت کی اور جو شخص اس کے ذریعہ اپنی ذات کی تربیت کریگا وہ علم کو بھی فروغ بخشے گا ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ رب بمعنی اللہ کی طرف منسوب ہے اور ربانی بمعنی الھی ہے ( یعنی اللہ والا ) اور اس میں الف نون زائدتان ہیں جیسا کہ جسم ولحی کی نسبت میں جسمانی ولحیانی کہا جاتا ہے ۔ حضرت علی کا قول ہے : انا ربانی ھذہ الامۃ میں اس امت کا عالم ربانی ہوں اس کی جمع ربانیون ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لَوْلا يَنْهاهُمُ الرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبارُ [ المائدة 63] انہیں ان کے ربی ( یعنی مشائخ ) کیوں منع نہیں کرتے ۔ كُونُوا رَبَّانِيِّينَ [ آل عمران 79]( بلکہ دوسروں سے کہیگا ) کہ تم خدا پرست ہو کر رہو ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ ربانی اصل میں سریانی لفظ ہے اور یہی قول انسب معلوم ہوتا ہے اس لیے کہ عربی زبان میں یہ لفظ بہت کم پایا جاتا ہے اور آیت :۔ رِبِّيُّونَ كَثِيرٌ [ آل عمران 146] بہت سے اللہ والوں نے ۔ میں ربی بمعنی ربانی ہے ۔ یہ دونوں مصدر ہیں ۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے لئے ربوبیۃ اور دوسروں کے لئے ربابیۃ کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ الرب ( صیغہ صفت ) جمع ارباب ۔ قرآن میں ہے : أَأَرْبابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْواحِدُ الْقَهَّارُ [يوسف 39] بھلا ( دیکھو تو سہی کہ ) جدا جدا معبود اچھے یا خدائے یگانہ اور زبردست ۔ اصل تو یہ تھا کہ رب کی جمع نہ آتی ۔ کیونکہ قرآن پاک میں یہ لفظ خاص کر ذات باری تعالیٰ کیلئے استعمال ہوا ہے لیکن عقیدہ کفار کے مطابق بصیغہ جمع استعمال ہوا ہے اور ارباب کے علاوہ اس کی جمع اربۃ وربوب بھی آتی ہے ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہے ۔ ( بسیط) کانت اربتھم بھز وغرھم عقد الجوار وکانوا معشرا غدرا ان کے ہم عہد بنی بہز تھے جنہیں عقد جوار نے مغرور کردیا اور درحقیقت وہ غدار لوگ ہیں ۔ دوسرے شاعر نے کہا ہے ( طویل ) ( 129) وکنت امرءا افضت الیک ربابتی وقبلک ربنی فضعت ربوب تم آدمی ہو جس تک میری سر پرستی پہنچتی ہے تم سے پہلے بہت سے میرے سرپرست بن چکے ہیں مگر میں ضائع ہوگیا ہوں ۔ ربابۃ : عہد و پیمان یا اس چیز کو کہتے ہیں جس میں قمار بازی کے تیر لپیٹ کر رکھے جاتے ہیں ۔ رابۃ وہ بیوی جو پہلے شوہر سے اپنی اولاد کی تربیت کررہی ہو ۔ اس کا مذکر راب ہے ۔ لیکن وہ اولاد جو پہلے شوہر سے ہو اور دوسرے شوہر کی زیر تربیت ہو یا پہلی بیوی سے ہو اور دوسری بیوی کی آغوش میں پرورش پا رہی ہو ۔ اسے ربیب یا ربیبۃ کہا جاتا ہے اس کی جمع ربائب آتی ہے قرآن میں ہے : وَرَبائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُمْ [ النساء 23] اور تمہاری بیویوں کی ( پچھلی ) اولاد جو تمہاری گودوں میں ( پرورش پاتی ) ہے ۔ ربیت الادیم بالسمن میں نے چمڑے کو گھی لگا کر نرم کیا ۔ ربیت الدواء بالعسل میں نے شہد سے دوا کی اصلاح کی سقاء مربوب پانی مشک جسے تیل لگا کر نرم کیا گیا ہو ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) ( 170) فکونی لہ کالسمن ربت لہ الادم اس کے لئے ایسی ہوجاؤ جیسے رب لگا ہوا چمڑا گھی کے لئے ہوتا ہے ۔ الرباب : بادل کو کہتے ہیں کیونکہ وہ نباتات کی پرورش کرتا اور اسے بڑھاتا ہے اسی معنی کے اعتبار سے مطر کو در ( دودھ ) اور بادل کو تشبیہا لقوح ( یعنی دودھیلی اونٹنی ) کہا جاتا ہے محاورہ ہے ۔ اربت السحابۃ بدلی متواتر برستی رہی اور اسکے اصل معنی ہیں بدلی صاحب تربیت ہوگئی اس کے بعد اس سے ٹھہرنے کا معنی لے کر یہ لفظ کسی جگہ پر مقیم ہونے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے ارب فلان بمکان کذا اس نے فلان جگہ پر اقامت اختیار کی ۔- رب تقلیل کے لئے آتا ہے اور کبھی تکثیر کے معنی بھی دیتا ہے ۔ جیسے فرمایا : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] کافر بہترے ہی ارمان کریں گے ( کہ ) اے کاش ( ہم بھی ) مسلمان ہوئے ہوتے ۔- شَّهِيدُ- وأمّا الشَّهِيدُ فقد يقال لِلشَّاهِدِ ، والْمُشَاهِدِ للشیء، وقوله : مَعَها سائِقٌ وَشَهِيدٌ [ ق 21] ، أي : من شهد له وعليه، وکذا قوله : فَكَيْفَ إِذا جِئْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنا بِكَ عَلى هؤُلاءِ شَهِيداً [ النساء 41] - شھید یہ کبھی بمعنی شاہد یعنی گواہ آتا ہے چناچہ آیت مَعَها سائِقٌ وَشَهِيدٌ [ ق 21] اسکے ساتھ ( ایک) چلانے والا اور ( ایک ، گواہ ہوگا ۔ میں شہید بمعنی گواہ ہی ہے جو اس کے لئے یا اس پر گواہی دیگا ۔ اسی طرح آیت کریمہ : فَكَيْفَ إِذا جِئْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنا بِكَ عَلى هؤُلاءِ شَهِيداً [ النساء 41] بھلا اس دن کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے احوال بتانے والے کو بلائیں گے اور تم کو لوگوں کا حال بتانے کو گواہ طلب کریں گے ۔ میں بھی شہید بمعنی شاہد ہی ہے - دوم - أصل الدّوام السکون، يقال : دام الماء، أي : سكن، «ونهي أن يبول الإنسان في الماء الدائم» ۔ وأَدَمْتُ القدر ودوّمتها : سكّنت غلیانها بالماء، ومنه : دَامَ الشیءُ : إذا امتدّ عليه الزمان، قال تعالی: وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيداً ما دُمْتُ فِيهِمْ [ المائدة 117]- ( د و م ) الدام - ۔ اصل میں دوام کے معنی سکون کے ہیں کہا جاتا ہے ۔ دام المآء ( پانی ٹھہر گیا ) اور ( حدیث میں یعنی کھڑے پانی میں پیشاب کرنے سے منع کیا گیا ہے تھوڑا سا پانی ڈالکر ہانڈی کو ٹھنڈا کردیا ۔ اسی سے دام الشئی کا محاورہ ہے یعنی وہ چیز جو عرصہ دراز تک رہے قرآن میں ہے : ۔ وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيداً ما دُمْتُ فِيهِمْ [ المائدة 117] اور جب تک میں ان میں رہا ان ( کے حالات ) کی خبر رکھتا رہا ۔ إِلَّا ما دُمْتَ عَلَيْهِ قائِماً [ آل عمران 75] جب تک اس کے سر پر ہر قت کھڑے نہ رہو ۔- وفی ( موت)- وتَوْفِيَةُ الشیءِ : بذله وَافِياً ، وقد عبّر عن الموت والنوم بالتَّوَفِّي، قال تعالی: اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها[ الزمر 42] ، وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] يا عِيسى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرافِعُكَ إِلَيَ [ آل عمران 55] ، وقدقیل : تَوَفِّيَ رفعةٍ واختصاص لا تَوَفِّيَ موتٍ. قال ابن عباس : تَوَفِّي موتٍ ، لأنّه أماته ثمّ أحياه - اور توفیتہ الشیئ کے معنی بلا کسی قسم کی کمی پورا پورادینے کے ہیں اور کبھی توفی کے معنی موت اور نیند کے بھی آتے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها[ الزمر 42] خدا لوگوں کی مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو رات کو ( سونے کی حالت میں ) تمہاری روح قبض کرلیتا ہے ۔ اور آیت : ۔ يا عِيسى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرافِعُكَ إِلَيَ [ آل عمران 55] عیسٰی (علیہ السلام) میں تمہاری دنیا میں رہنے کی مدت پوری کرکے تم کو اپنی طرف اٹھا لوں گا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ توفی بمعنی موت نہیں ہے ۔ بلکہ اس سے مدراج کو بلند کرنا مراد ہے ۔ مگر حضرت ابن عباس رضہ نے توفی کے معنی موت کئے ہیں چناچہ ان کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسٰی (علیہ السلام) کو فوت کر کے پھر زندہ کردیا تھا ۔- رَّقِيبُ :- الحافظ، وذلک إمّا لمراعاته رقبة المحفوظ، وإما لرفعه رقبته، قال تعالی: وَارْتَقِبُوا إِنِّي مَعَكُمْ رَقِيبٌ [هود 93] ، وقال تعالی: إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ [ ق 18] ، وقال : لا يَرْقُبُونَ فِي مُؤْمِنٍ إِلًّا وَلا ذِمَّةً [ التوبة 10] ، والْمَرْقَبُ : المکان العالي الذي يشرف عليه الرقیب، وقیل لحافظ أصحاب المیسر الذین يشربون بالقداح رَقِيبٌ ، وللقدح الثالث رَقِيبٌ ، وتَرَقَّبَ : احترز راقبا، نحو قوله : فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] ، والرَّقُوبُ : المرأة التي تَرْقُبُ موت ولدها، لکثرة من مات لها من الأولاد، والناقة التي ترقب أن يشرب صواحبها، ثمّ تشرب، وأَرْقَبْتُ فلانا هذه الدار هو : أن تعطيه إيّاها لينتفع بها مدّة حياته، فكأنه يرقب موته، وقیل لتلک الهبة : الرُّقْبَى والعمری.- اسی سے نگران کو رقیب - کہا جاتا ہے یا تو اس لئے کہ وہ شخص کی گردن پر نظر رکھتا ہے جس کی نگرانی منظور ہوتی ہے اور یا اس لئے کہ وہ نگرانی کے لئے بار بار اپنی گردن اٹھا کر دیکھتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَارْتَقِبُوا إِنِّي مَعَكُمْ رَقِيبٌ [هود 93] تم بھی منتظر رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ منتظر ہوں ۔ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ [ ق 18] مگر ایک چوکیدار ( اس کے لکھنے کو ) تیار رہتا ہے ۔ المرقب ۔ بلند جگہ جہاں رقیب ( نگران ) بیٹھ کر چوکسی کرتا ہے اور قمار بازوں کے محافظ کو بھی رقیب کہا جاتا ہے ۔ جو قمار بازی کے بعد شراب نوشی کرتے ہیں ۔ اسی طرح قمار بازی کے تیسرے درجہ کے تیر کو بھی رقیب کہتے ہیں ۔ ترقب ( تفعل ) کے معنی ہیں انتظار کرتے ہوئے کسی چیز سے بچنا ۔ چناچہ قرآن میں ہے :۔ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] چناچہ موسیٰ ٰ (علیہ السلام) شہر سے نکل بھاگے اور دوڑتے جاتے تھے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ رقوب اس عورت کو کہتے ہیں جو کثرت اولاد کی وجہ سے اپنے بچوں کی موت کی منتظر ہو ۔ نیز وہ اونٹنی جو پانی پینے کے لئے باری کے انتظار میں ہو اسے بھی رقوب کہا جا تا ہے ارقب ( افعال ) کے معنی رقبی ٰکرنے کے ہیں یعنی کسی کو اس کی زندگی بھر کے لئے مکان وغیرہ ہبہ کردینا اور اس کی موت کے بعد اس عطا کو واپس لے لینا ۔ اور اسے رقبی اس لئے کہا جاتا ہے کہ ہبہ کے بعد گویا وہ اس کی موت کا انتظار کرتا ہے ۔ اور ایسے ہبہ کو عمریٰ بھی کہا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١١٧) میں نے جو کچھ اوامرو نہی ان کو کہے ہیں آپ اسے بخوبی جانتے ہیں اور جو کچھ ان لوگوں کے حق میں رسوائی اور توفیق ہے میں تو اس کو نہیں جانتا، میں نے ان سے دنیا میں صرف یہی کہا کہ اس ذات کی عبادت اور اطاعت کرو جو میرا بھی اللہ ہے اور تمہارا بھی اور جب تک ان میں موجود رہا تیرے احکام کے پہنچانے پر باخبر رہا اور جب ان کے درمیان سے آپ نے مجھے اٹھالیا تو آپ ہی ان کے احوال سے باخبر رہے، آپ تو میری باتوں اور ان کی باتوں سب ہی کو جاننے والے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١١٧ (مَا قُلْتُ لَہُمْ الاَّ مَآ اَمَرْتَنِیْ بِہٖٓ) (اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ رَبِّیْ وَرَبَّکُمْ ج ) (وَکُنْتُ عَلَیْہِمْ شَہِیْدًا مَّا دُمْتُ فِیْہِمْ ج) - ان کی دیکھ بھال کرتا رہا ‘ نگرانی کرتا رہا۔ یہاں لفظ شہید نگران کے معنوں میں آیا ہے۔- (فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْہِمْ ط) - واضح رہے کہ یہاں بھی تَوَفَّیْتَنِیْ موت کے معنوں میں نہیں ہے۔ اس سلسلے میں سورة آل عمران آیت ٥٥ (اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ ) کی تشریح مدنظر رہے۔- ( وَاَنْتَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ شَہِیْدٌ ) - تو ہرچیز پر نگران ہے ‘ ہرچیز سے باخبر ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani