احکام جرم و سزا حضرت ابن مسعود کی قرأت میں ( فاقطعوا ایمانھما ) ہے لیکن یہ قرأت شاذ ہے گو عمل اسی پر ہے لیکن وہ عمل اس قرأت کی وجہ سے نہیں بلکہ دوسرے دلائل کی بناء پر ہے ۔ چور کے ہاتھ کاٹنے کا طریقہ اسلام سے پہلے بھی تھا اسلام نے اسے تفصیل وار اور منظم کر دیا اسی طرح قسامت دیت فرائض کے مسائل بھی پہلے تھے لیکن غیر منظم اور ادھورے ۔ اسلام نے انہیں ٹھیک ٹھاک کر دیا ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ سب سے پہلے دو یک نامی ایک خزاعی شخص کے ہاتھ چوری کے الزام میں قریش نے کاٹے تھے اس نے کعبے کا غلام چرایا تھا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ چوروں نے اس کے پاس رکھ دیا تھا ۔ بعض فقہاء کا خیال ہے کہ چوری کی چیز کی کوئی حد نہیں تھوڑی ہو یا بہت محفوظ جگہ سے لی ہو یا غیر محفوظ جگہ سے بہر صورت ہاتھ کاٹا جائے گا ۔ ابن عباس سے مروی ہے کہ یہ آیت عام ہے تو ممکن ہے اس قول کا یہی مطلب ہو اور دوسرے مطالب بھی ممکن ہیں ۔ ایک دلیل ان حضرات کی یہ حدیث بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ چور پر لعنت کرے کہ انڈا چراتا ہے اور ہاتھ کٹواتا ہے رسی چرائی ہے اور ہاتھ کاٹا جاتا ہے ، جمہور علماء کا مذہب یہ ہے کہ چوری کے مال کی حد مقرر ہے ۔ گو اس کے تقرر میں اختلاف ہے ۔ امام مالک کہتے ہیں تین درہم سکے والے خالص یا ان کی قیمت یا زیادہ کی کوئی چیز چنانچہ صحیح بخاری مسلم میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ڈھال کی چوری پر ہاتھ کاٹنا مروی ہے اور اس کی قیمت اتنی ہی تھی ۔ حضرت عثمان نے اترنج کے چور کے ہاتھ کاٹے تھے جبکہ وہ تین درہم کی قیمت کا تھا ۔ حضرت عثمان کا فعل گویا صحابہ کا جماع سکوتی ہے اور اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ پھل کے چور کے ہاتھ بھی کاٹے جائیں گے ۔ حنفیہ اسے نہیں مانتے اور ان کے نزدیک چوری کے مال کا دس درہم کی قیمت کا ہونا ضروری ہے ۔ اس میں شافعیہ کا اختلاف ہے پاؤ یا دینار کے تقرر میں ۔ امام شافعی کا فرمان ہے کہ پاؤ دینار کی قیمت کی چیز ہو یا اس سے زیادہ ۔ ان کی دلیل بخاری و مسلم کی حدیث ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چور کا ہاتھ پاؤ دینار میں پھر جو اس سے اوپر ہو اس میں کاٹنا چاہئے مسلم کی ایک حدیث میں ہے چور کا ہاتھ نہ کاٹا جائے مگر پاؤ دینار پھر اس سے اوپر میں ۔ پس یہ حدیث اس مسئلے کا صاف فیصلہ کر دیتی ہے اور جس حدیث میں تین درہم میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ہاتھ کاٹنے کو فرمانا مروی ہے وہ اس کے خلاف نہیں اس لئے کہ اس وقت دینار بارہ درہم کا تھا ۔ پس اصل چوتھائی دینار ہے نہ کہ تین درہم ۔ حضرت عمر بن خطاب حضرت عثمان بن عفان حضرت علی بن ابی طالب بھی یہی فرماتے ہیں ۔ حضرت عمر بن عبد العزیز لیث بن سعد اوزاعی شافعی اسحاق بن راہویہ ابو ثور داؤد بن علی ظاہری کا بھی یہی قول ہے ۔ ایک روایت میں امام اسحق بن راہویہ اور امام احمد بن حنبل سے مروی ہے کہ خواہ ربع دینار ہو خواہ تین درہم دونوں ہی ہاتھ کاٹنے کا نصاب ہے ۔ مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے چوتھائی دینار کی چوری پر ہاتھ کاٹ دو اس سے کم میں نہیں ۔ اس وقت دینار بارہ درہم کا تھا تو چوتھائی دینار تین درہم کا ہوا ۔ نسائی میں ہے چور کا ہاتھ ڈھال کی قیمت سے کم میں نہ کاٹا جائے ۔ حضرت عائشہ سے پوچھا گیا ڈھال کی قیمت کیا ہے؟ فرمایا پاؤ دینار ۔ پس ان تمام احادیث سے صاف صاف ثابت ہو رہا ہے کہ دس درہم شرط لگانی کھلی غلطی ہے واللہ اعلم ۔ امام ابو حنیفہ اور ان کے ساتھیوں نے کہا ہے کہ جس ڈھال کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چور کا ہاتھ کاٹا گیا اس کی قیمت نو درہم تھی چنانچہ ابو بکر بن شیبہ میں یہ موجود ہے اور عبداللہ بن عمر سے ۔ عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن عمرو مخالفت کرتے رہے ہیں اور حدود کے بارے میں اختیار پر عمل کرنا چاہئے اور احتیاط زیادتی میں ہے اس لئے دس درہم نصاب ہم نے مقرر کیا ہے ۔ بعض سلف کہتے ہیں کہ دس درہم یا ایک دینار حد ہے علی ابن مسعود ابراہیم نخعی ابو جعفر باقر سے یہی مروی ہے ۔ سعید بن جیر فرماتے ہیں پانچوں نہ کاٹی جائیں مگر پانچ دینار پچاس درہم کی قیمت کے برابر کے مال کی چوری میں ۔ ظاہریہ کا مذہب ہے کہ ہر تھوڑی بہت چیز کی چوری پر ہاتھ کٹے گا انہیں جمہور نے یہ جواب دیا ہے کہ اولاً تو یہ اطلاق منسوخ ہے لیکن یہ جواب ٹھیک نہیں اس لئے تاریخ نسخ کا کوئی یقینی عمل نہیں ۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ انڈے سے مراد لوہے کا انڈا ہے اور رسی سے مراد کشتیوں کے قیمتی رسے ہیں ۔ تیسرا جواب یہ ہے کہ یہ فرمان باعتبار نتیجے کے ہے یعنی ان چھوٹی چھوٹی معمولی سی چیزوں سے چوری شروع کرتا ہے آخر قیمتی چیزیں چرانے لگتا ہے اور ہاتھ کاٹا جاتا ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بطور افسوس کے اوپر چور کو نادم کرنے کے فرما رہے ہیں کہ کیسا رذیل اور بےخوف انسان ہے کہ معمولی چیز کیلئے ہاتھ جیسی نعمت سے محروم ہو جاتا ہے ۔ مذکور ہے کہ ابو العلام معری جب بغداد میں آیا تو اس نے اس بارے میں بڑے اعتراض شروع کئے اور اس کے جی میں یہ خیال بیٹھ گیا کہ میرے اس اعتراض کا جواب کسی سے نہیں ہو سکتا تو اس نے ایک شعر کہا کہ اگر ہاتھ کاٹ ڈالا جائے تو دیت میں پانچ سو دلوائیں اور پھر اسی ہاتھ کو پاؤ دینار کی چوری پر کٹوا دیں یہ ایسا تناقض ہے کہ ہماری سمجھ میں تو آتا ہی نہیں خاموش ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا مولا ہمیں جہنم سے بچائے ۔ لیکن جب اس کی یہ بکواس مشہور ہوئی تو علماء کرام نے اسے جواب دینا چاہا تو یہ بھاگ گیا پھر جواب بھی مشہور کر دیئے گئے ۔ قاضی عبد الوہاب نے جواب دیا تھا کہ جب تک ہاتھ امین تھا تب تک ثمین یعنی قیمتی تھا اور جب یہ خائن ہو گیا اس نے چوری کر لی تو اس کی قیمت گھٹ گئی ۔ بعض بزرگوں نے اسے قدرے تفصیل سے جواب دیا تھا کہ اس سے شریعت کی کامل حکمت ظاہر ہوتی ہے اور دنیا کا امن و امان قائم ہوتا ہے ، جو کسی کا ہاتھ بےوجہ کاٹ دینے کا حکم دیا تاکہ چوری کا دروازہ اس خوف سے بند ہو جائے ۔ پس یہ تو عین حکمت ہے اگر چوری میں بھی اتنی رقم کی قید لگائی جاتی تو چوریوں کا انسداد نہ ہوتا ۔ یہ بدلہ ہے ان کے کرتوت کا ۔ مناسب مقام یہی ہے کہ جس عضو سے اس نے دوسرے کو نقصان پہنچایا ہے ، اسی عضو پر سزا ہو ۔ تاکہ انہیں کافی عبرت حاصل ہو اور دوسروں کو بھی تنبیہہ ہو جائے ۔ اللہ اپنے انتقام میں غالب ہے اور اپنے احکام میں حکیم ہے ۔ جو شخص اپنے گناہ کے بعد توبہ کر لے اور اللہ کی طرف جھک جائے ، اللہ اسے اپنا گناہ معاف فرما دیا کرتا ہے ۔ ہاں جو مال چوری میں کسی کا لے لیا ہے چونکہ وہ اس شخص کا حق ہے ، لہذا صرف توبہ کرنے سے وہ معاف نہیں ہوتا تاوقتیکہ وہ مال جس کا ہے اسے نہ پہنچائے یا اس کے بدلے پوری پوری قیمت ادا کرے ۔ جمہور ائمہ کا یہی قول ہے ، صرف امام ابو حنیفہ کہتے ہیں کہ جب چوری پر ہاتھ کٹ گیا اور مال تلف ہو چکا ہے تو اس کا بدلہ دینا اس پر ضروری نہیں ۔ دار قطنی وغیرہ کی ایک مرسل حدیث میں ہے کہ ایک چور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لایا گیا ، جس نے چادر چرائی تھی ، آپ نے اس سے فرمایا ، میرا خیال ہے کہ تم نے چوری نہیں کی ہو گی ، انہوں نے کہا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے چوری کی ہے تو آپ نے فرمایا اسے لے جاؤ اور اس کا ہاتھ کاٹ دو جب ہاتھ کٹ چکا اور آپ کے پاس آئے تو آپ نے فرمایا توبہ کرو ، انہوں نے توبہ کی ، آپ نے فرمایا اللہ نے تمہاری توبہ قبول فرما لی ( رضی اللہ عنہ ) ابن ماجہ میں ہے کہ حضرت عمر بن سمرہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کہتے ہیں کہ مجھ سے چوری ہو گئی ہے تو آپ مجھے پاک کیجئے ، فلاں قبیلے والوں کا اونٹ میں نے چرا لیا ہے ۔ آپ نے اس قبیلے والوں کے پاس آدمی بھیج کر دریافت فرمایا تو انہوں نے کہا کہ ہمارا اونٹ تو ضرور گم ہو گیا ہے ۔ آپ نے حکم دیا اور ان کا ہاتھ کاٹ ڈالا گیا وہ ہاتھ کٹنے پر کہنے لگے ، اللہ کا شکر ہے جس نے تجھے میرے جسم سے الگ کر دیا ، تو نے میرے سارے جسم کو جہنم میں لے جانا چاہا تھا ( رضی اللہ عنہ ) ابن جریر میں ہے کہ ایک عورت نے کچھ زیور چرا لئے ، ان لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اسے پیش کیا ، آپ نے اس کا داہنا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا ، جب کٹ چکا تو اس عورت نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا میری توبہ بھی ہے؟ آپ نے فرمایا تم تو ایسی پاک صاف ہو گئیں کہ گویا آج ہی پیدا ہوئی ۔ اس پر آیت ( فمن تاب ) نازل ہوئی ۔ مسند میں اتنا اور بھی ہے کہ اس وقت اس عورت والوں نے کہا ہم اس کا فدیہ دینے کو تیار ہے لیکن آپ نے اسے قبول نہ فرمایا اور ہاتھ کاٹنے کا حکم دے دیا ۔ یہ عورت مخزوم قبیلے کی تھی اور اس کا یہ واقعہ بخاری و مسلم میں بھی موجود ہے کہ چونکہ یہ بڑی گھرانے کی عورت تھی ، لوگوں میں بڑی تشویش پھیلی اور ارادہ کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں کچھ کہیں سنیں ، یہ واقعہ غزوہ فتح میں ہوا تھا ، بالاخر یہ طے ہوا کہ حضرت اسامہ بن زید جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت پیارے ہیں ، وہ ان کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سفارش کریں ، حضرت اسامہ نے جب اس کی سفارش کی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت ناگوار گزرا اور غصے سے فرمایا اسامہ تو اللہ کی حدود میں سے ایک حد کے بارے میں سفارش کر رہا ہے؟ اب تو حضرت اسامہ بہت گھبرائے اور کہنے لگے مجھ سے بڑی خطا ہوئی ، میرے لئے آپ استفغار کیجئے ۔ شام کے وقت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خطبہ سنایا جس میں اللہ تعالیٰ کی پوری حمد و ثنا کے بعد فرمایا کہ تم سے پہلے کے لوگ اسی خصلت پر تباہ و برباد ہو گئے کہ ان میں سے جب کوئی شریف شخص بڑا آدمی چوری کرتا تھا تو اسے چھوڑ دیتے تھے اور جب کوئی معمولی آدمی ہوتا تو اس پر حد جاری کرتے ۔ اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی چوری کریں تو میں ان کے بھی ہاتھ کاٹ دوں ۔ پھر حکم دیا اور اس عورت کا ہاتھ کاٹ دیا گیا ۔ حضرت صدیقہ فرماتی ہیں پھر اس بیوی صاحبہ نے توبہ کی اور پوری اور پختہ توبہ کی اور نکاح کر لیا ، پھر وہ میرے پاس اپنے کسی کام کاج کیلئے آتی تھیں اور میں اس کی حاجت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کر دیا کرتی تھی ۔ ( رضی اللہ عنہما ) مسلم میں ہے ایک عورت لوگوں سے اسباب ادھار لیتی تھی ، پھر انکار کر جایا کرتی تھی ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا اور روایت میں ہے یہ زیور ادھار لیتی تھی اور اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم حضرت بلال کو ہوا تھا ۔ کتاب الاحکام میں ایسی بہت سی حدیثیں وارد ہیں جو چوری سے تعلق رکھتی ہیں ۔ فالحمد للہ ۔ جمیع مملوک کا مالک ساری کائنات کا حقیقی بادشاہ ، سچا حاکم ، اللہ ہی ہے ۔ جس کے کسی حکم کو کوئی روک نہیں سکتا ۔ جس کے کسی ارادے کو کوئی بدل نہیں سکتا ، جسے چاہے بخشے جسے چاہے عذاب کرے ۔ ہر ہر چیز پر وہ قادر ہے اس کی قدرت کامل اور اس کا قبضہ سچا ہے ۔
38۔ 1 بعض فقہا ظاہری کے نزدیک سرقہ کا یہ حکم عام ہے چوری تھوڑی سی چیز کی ہو یا زیادہ کی۔ اسی طرح محفوظ جگہ میں رکھی ہو یا غیر محفوظ۔ ہر صورت میں چوری کی سزا دی جائے گی۔ جب کہ دوسرے فقہا اس کے لئے حرز اور نصاب کو ضروری قرار دیتے ہیں۔ پھر نصاب کے تعین میں ان کے مابین اختلاف ہے۔ محدثین کے نزدیک نصاب رابع دینار یا تین درہم (یا ان کے مساوی قیمت کی چیز) ہے اس سے کم چوری پر ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ اسی طرح ہاتھ رسغ (پہنچوں) سے کاٹے جائیں گے۔ کہنی یا کندھے سے نہیں۔ جیسا کہ بعض کا خیال ہے (تفصیل کے لئے دیکھئے کتب حدیث و فقہ اور تفاسیر کا مطالعہ کیا جائے) ۔
[٧٢] حرابہ یا ڈکیتی کی سزا بیان کرنے کے بعد اب چور کی سزا کا بیان شروع ہوتا ہے۔ چور کی سزا میں دونوں ہاتھ نہیں بلکہ ایک ہاتھ اور پہلی بار کی چوری پر دایاں ہاتھ کاٹا جائے گا اور یہ پہنچے تک کاٹا جائے گا۔ (اور یہ سب باتیں سنت سے ثابت ہیں) تاکہ وہ آئندہ کے لیے ایسی حرکت سے باز رہے اور دوسروں کو عبرت حاصل ہو۔ اور اگر اس سے مال مسروقہ برآمد ہوجائے تو وہ اصل مالک کو لوٹایا جائے گا اس سلسلہ میں درج ذیل احادیث کا مطالعہ مفید ہوگا۔- ١۔ سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں ایک مخزومی عورت (فاطمہ) نے چوری کی تو قریش کو (ہاتھ کٹ جانے پر) بہت فکر لاحق ہوئی۔ کہنے لگے کون ہوسکتا ہے جو اس سلسلہ میں رسول اللہ سے بات کرے اور اسامہ کے سوا اور کون ایسی جرأت کرسکتا ہے جو رسول اللہ کے محبوب ہیں ؟ (چنانچہ قریش کے کہنے پر) اسامہ نے آپ سے گفتگو کی تو آپ نے اسامہ سے فرمایا کیا تم اللہ کی حدود میں سے ایک حد کے بارے میں سفارش کرتے ہو ؟ پھر آپ خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا لوگو تم سے پہلے لوگ صرف اس وجہ سے گمراہ ہوگئے کہ اگر ان میں سے کوئی شریف آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور جب کوئی کمزور چوری کرتا تو اس پر حد لگاتے اور اللہ کی قسم اگر فاطمہ (رض) بنت محمد بھی چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا (اور ایک روایت میں ہے کہ) آپ نے اس عورت کے ہاتھ کاٹ دینے کا حکم دیا۔ اس کے بعد وہ میرے پاس آیا کرتی تو میں اس کی حاجت رسول اللہ تک پہنچا دیا کرتی۔ اس نے توبہ کی اور اس کی توبہ اچھی رہی (بخاری۔ کتاب الحدود۔ باب کراھیۃ الشفاعۃ فی الحد، نیز باب توبۃ السارق۔ مسلم۔ کتاب الحدود۔ باب قطع السارق الشریف)- ٢۔ سیدہ ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا اللہ چور پر لعنت کرے۔ ایک انڈے کی چوری کرتا ہے تو اس کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے اور ایک رسی کی چوری کرتا ہے تو اس کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے (بخاری۔ کتاب الحدود باب لعن السارق اذالم یسم )- ٣۔ سیدنا عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے ایک ڈھال چرانے پر ہاتھ کاٹا جس کی قیمت تین درہم تھی۔ (بخاری۔ کتاب الحدود۔ باب السارق والسارقۃ۔ مسلم۔ کتاب الحدود۔ باب حدالسرقہ و نصابہا) - ٤۔ سیدہ عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ آپ نے فرمایا چور کا ہاتھ چوتھائی دینار یا اس سے زائد پر کاٹ دیا جائے (بخاری۔ کتاب الحدود۔ باب السارق والسارقۃ )- ٥۔ سیدنا عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ لٹکے ہوئے پھل کی چوری کے بارے میں آپ سے سوال کیا گیا۔ آپ نے فرمایا اگر کوئی شخص بھوکا ہو اور کھالے مگر ساتھ نہ لے جائے تو اس پر کوئی حد نہیں اور جو شخص دامن بھر کر نکلے تو اس سے دوگنی قیمت وصول کی جائے اور سزا دی جائے۔ اور جو شخص پھلوں کو محفوظ مقام پر پہنچائے جانے کے بعد اس میں چوری کرے اور پھل کی قیمت ڈھال کی قیمت تک پہنچ جائے تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے اور اگر قیمت ڈھال سے کم ہو تو دوگنی قیمت لی جائے اور سزا دی جائے۔ (ابو داؤد۔ کتاب الحدود۔ باب مالایقطع فیہ )- ٦۔ آپ نے فرمایا خائن، لٹیرے اور اچکے پر ہاتھ کاٹنے کی سزا نہیں۔ (ترمذی۔ ابو اب الحدود۔ باب ماجاء فی الخائن والمختلس) - ٧۔ آپ نے فرمایا جنگ کے دوران (میدان جنگ میں) ہاتھ کاٹنے کی سزا نہ دی جائے۔ (ابو داؤد کتاب الحدود۔ باب السارق یسرق فی الغزو) اور اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ میدان جنگ میں سب لوگ مسلح ہوتے ہیں اگر سزا پانے والا طیش میں آ کر کوئی غلط حرکت کر بیٹھے تو یہ عین ممکن ہے۔ اس طرح اپنے ہی لشکر میں انتشار پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔ لہذا صرف چوری کی حد ہی نہیں۔ ہر قابل حد یا قابل تعزیر جرم کی سزا کو موخر کردیا گیا۔ نیز سیدنا عمر نے قحط کے ایام میں چوری کی سزا یعنی ہاتھ کاٹنے کی سزا موقوف کردی تھی اور ان کا استدلال اس واقعہ سے تھا کہ دور نبوی میں عباد بن شرجیل نے کسی کھیت سے غلہ لے لیا۔ کھیت کے مالک نے عباد بن شرجیل کو پکڑ لیا۔ اسے مارا اور اس کا کپڑا بھی چھین لیا۔ پھر اسے پکڑ کر رسول اللہ کے پاس لے آیا تو آپ نے مالک سے فرمایا۔ (اگر یہ نادان تھا تو تو نے اس کو تعلیم کیوں نہ دی اور اگر یہ بھوکا تھا تو تو نے اسے کھانے کو کیوں نہ دیا) چناچہ آپ نے اس بھوکے چور کو کوئی سزا نہیں دلوائی۔ الٹا مالک نے اسے کپڑا بھی واپس کیا اور مار کے بدلے بہت سا غلہ بھی دیا۔- ٨۔ چور کی چوری جب عدالت میں ثابت ہوجائے تو اس کا ہاتھ ضرور کاٹا جائے گا اور مقدمہ عدالت میں پہنچنے سے پیشتر اگر مالک چور کو معاف کر دے تو یہ جائز ہے مگر عدالت میں پہنچنے کے بعد معاف نہیں کرسکتا۔ چناچہ سیدنا صفوان بن امیہ ایک دفعہ مسجد میں اپنی چادر کا تکیہ بنا کر اپنے سر کے نیچے رکھ کر سوئے ہوئے تھے کہ ایک شخص آیا اور آہستہ سے اس نے وہ چادر آپ کے سر کے نیچے سے کھینچ لی۔ اتنے میں صفوان بن امیہ کو بھی جاگ آگئی تو وہ اسے پکڑ کر رسول اللہ کے پاس لے آیا۔ آپ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دے دیا۔ (اس پر صفوان کو اس آدمی پر ترس آگیا) اور کہنے لگا، یا رسول اللہ میں نے اس کا قصور معاف کردیا۔ آپ نے فرمایا اے ابو وہب (یہ صفوان بن امیہ کی کنیت ہے) تم نے اسے ہمارے ہاں لانے سے پہلے کیوں نہ معاف کردیا۔ پھر آپ نے اس کا ہاتھ کٹوا دیا۔ (نسائی۔ کتاب قطع السارق۔ باب الرجل یتجاوز للسارق۔۔ )- نیز سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا تم آپس میں ہی ایک دوسرے کو حدود معاف کردیا کرو۔ پھر جب مقدمہ مجھ تک پہنچ گیا تو حد واجب ہوجائے گی۔ (ابو داؤد۔ نسائی بحوالہ مشکوۃ کتاب الحدود۔ فصل ثانی)- ٩۔ سیدنا ابو سلمہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ چور جب (پہلی بار) چوری کرے، تو اس کا دایاں ہاتھ کاٹ دو ۔ پھر (دوسری بار) چوری کرے تو اس کا (بایاں) پاؤں کاٹ دو ۔ پھر (تیسری بار) چوری کرے تو اس کا (بایاں) ہاتھ کاٹ دو ۔ پھر (چوتھی بار) چوری کرے تو اسکا (دایاں) پاؤں کاٹ دو ۔ (شرح السنہ بحوالہ مشکوٰۃ۔ کتاب الحدود۔ قطع السرقتہ۔ دوسری فصل)- [٧٣] یہ ہاتھ کاٹنے کی سزا اس کو چوری کرنے کے بدلہ میں ملی ہے۔ رہا مال مسروقہ۔ تو اس کے متعلق مختلف اقوال ہیں۔ راجح قول یہی ہے کہ اگر مال مسروقہ چور سے برآمد ہوجائے یا وہ اتنی مالیت کی ادائیگی کرسکتا ہو تو اس سے مال بھی وصول کر کے اصل مالک کو دلوایا جائے گا۔- خ کیا اسلامی سزائیں غیر انسانی ہیں :۔ آج کل یورپ کی نام نہاد مہذب اقوام اسلامی سزاؤں کو غیر مہذب اور وحشیانہ سزائیں سمجھتی ہیں اور بدنی سزاؤں کو غیر انسانی سلوک اور ظلم کے مترادف سمجھتی ہیں۔ علامہ اقبال سے یورپ میں اس کے کسی دوست نے کہا کہ اسلام میں چوری کی سزا تو بڑی غیر مہذبانہ ہے تو علامہ اقبال نے اس کا یہ جواب دیا تھا کہ کیا تمہارے خیال میں چور مہذب ہوتا ہے ؟ ان لوگوں نے اپنے اسی نظریہ کے تحت اقوام متحدہ کے بنیادی حقوق کے چارٹر میں اس کو غیر انسانی سلوک قرار دے کر ایسی سزاؤں کو ترک کرنے کی ہدایت کی ہے۔ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ اس نظریہ کے دعویدار اپنی حکومتوں میں سیاسی ملزموں پر بند کمروں میں ایسے دردناک مظالم ڈھاتے اور بدنی سزائیں دیتے ہیں جن کے تصور سے روح کانپ اٹھتی ہے اور مشاہدہ یہ ہے کہ بند کمروں میں ایسی سزائیں دینا مجرموں کو اپنے کردار میں مزید پختہ بنا دیتا ہے۔ پھر یہ بھی عام مشاہدہ ہے کہ جہاں جہاں عدالتوں میں بدنی سزائیں موقوف ہوئیں وہاں جرائم میں اضافہ ہی ہوا ہے۔- ہم حیران ہیں کہ اگر انسانی جسم کو بچانے کے لیے پھوڑے کا آپریشن محض جائز ہی نہیں بلکہ اسے عین ہمدردی سمجھا جاتا ہے تو معاشرہ کو ظلم و فساد سے بچانے کے لیے بدمعاشوں کو بدنی سزا دینا کیسے غیر انسانی سلوک بن جاتا ہے ؟ اور چوروں اور بدمعاشوں پر رحم کر کے معاشرہ میں بدامنی کو کیوں گوارا کرلیا جاتا ہے۔ اور ایسے لوگوں کے لیے مہذب اقوام کی ہمدردیاں کیوں پیدا ہوجاتی ہیں ؟ کیا یہ معاشرہ کے ساتھ غیر انسانی اور ظالمانہ سلوک نہیں ؟ پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ غیر انسانی سلوک کے یہ علمبردار اپنے ممالک میں قیام امن میں کہاں تک کامیاب ہوئے ہیں۔ آج کل سعودی عرب میں شرعی سزائیں رائج ہیں تو وہاں جرائم کی تعداد حیرت انگیز حد تک کم ہوچکی ہے۔ اس کے مقابلہ میں امریکہ جیسے سب سے مہذب ملک میں جرائم کی تعداد اس سے سینکڑوں گنا زیادہ ہے۔- ہمارے خیال میں اس غنڈہ عنصر کی پشت پناہی کی وجہ محض یہ ہے کہ موجودہ جمہوری دور میں غیر انسانی سلوک کے یہ علمبردار خود غنڈہ عناصر کے رحم و کرم کے محتاج اور انہی کی وساطت سے برسراقتدار آتے ہیں تو ایسے لوگ اپنے مددگاروں کے حق میں برسر عام بدنی سزائیں کیسے گوارا کرسکتے ہیں ؟
وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْٓا اَيْدِيَهُمَا۔۔ : اوپر کی آیت میں محاربین ( جو لوٹ مار کرتے اور فساد پھیلاتے ہیں) کی سزا بیان ہوئی تھی، اب اس آیت میں چوری کی حد (قانونی سزا) بیان فرمائی کہ مرد ہو یا عورت ان کے ہاتھ کاٹ دیے جائیں۔ حدیث میں اس کی تفصیل ہے، عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” چور کا ہاتھ نہ کاٹا جائے مگر دینار کے ایک چوتھائی یا زیادہ میں۔ “ [ مسلم، الحدود، باب حد السرقۃ و نصابھا : ٢؍١٦٨٤ ] - چور کو حاکم کے پاس لے جانے سے پہلے معاف کیا جاسکتا ہے، بعد میں نہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک چور کو لایا گیا جس نے ایک چادر چرائی تھی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہاتھ کاٹنے کا حکم دے دیا۔ چادر کے مالک صفوان (رض) نے کہا : ” اے اللہ کے رسول میرا ارادہ یہ نہیں تھا (کہ اس کا ہاتھ کٹوا دوں) میری چادر اس پر صدقہ ہے۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تو نے اسے میرے پاس لانے سے پہلے کیوں (یہ صدقہ) نہ کیا ؟ “ [ ابن ماجہ، الحدود، باب من سرق من الحرز : ٢٥٩٥ قال الالبانی صحیح ] بعض لوگوں نے چوری کی حد باطل کرنے کے لیے بہت سے حیلے ایجاد کیے ہیں، ان میں سے دو حیلے ایسے ہیں جن کی موجودگی میں کسی چور کا ہاتھ کاٹا ہی نہیں جاسکتا۔ ایک یہ کہ عدالت میں جانے کے بعد مال مسروقہ کا مالک چور کو چرائی ہوئی چیز ہبہ کردے، یا اس کے ہاتھ بیچ دے تو ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا حالانکہ یہ صحیح حدیث کے صریح خلاف ہے۔ دوسرا یہ کہ چور پر شہادتوں کے ساتھ چوری کا جرم ثابت ہوجائے تو چور دعویٰ کر دے کہ مال مسروقہ میرا مال ہے، تو اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا، خواہ وہ اپنی ملکیت کی کوئی دلیل پیش نہ کرے۔ یہ حیلہ لکھنے والے نے اس پر لکھا ہے کہ مخالف کی طرف سے اس پر اعتراض ہوتا ہے کہ اس طرح تو کوئی چور بھی جھوٹا دعویٰ کرنے سے عاجز نہیں، ہر چور ہی مالک ہونے کا دعویٰ کر دے گا اور چوری کی حد سرے سے ختم ہوجائے گی۔ اس کا جواب اس نے یہ دیا ہے کہ یہ بات صرف علماء کو معلوم ہے، چوروں کو معلوم نہیں، اس لیے حد ختم ہونے کی کوئی فکر نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے حیلوں کی وجہ سے بھی مسلم حکومتوں میں حدود اللہ ختم ہوئیں جس کے نتیجے میں ظلم و ستم حد سے بڑھے، پھر اغیار مسلمانوں پر مسلط ہوگئے، اس کا علاج دوبارہ حدود اللہ کا صحیح نفاذ ہے۔ - جَزَاۗءًۢ بِمَا كَسَـبَا نَكَالًا مِّنَ اللّٰهِ : یہ اس کے گناہ کی سزا بھی ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے عبرت بھی کہ وہ تمام عمر لوگوں کے لیے چوری سے رکنے کا باعث اور یاددہانی بنا رہے گا کہ چور کے متعلق اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے۔ اگر اسے قتل بھی کردیا جاتا تو یہ عبرت حاصل نہیں ہوسکتی تھی۔
چوتھی آیت میں پھر جرائم کی سزاؤں کی طرف عود کیا گیا، اور چوری کی سزائے شرعی کا بیان فرمایا گیا، شرعی سزاؤں کی تین قسمیں جو پہلے بیان ہوچکی ہیں چوری کی سزا ان کی قسم حدود میں داخل ہے، کیونکہ قرآن کریم نے اس سزا کو خود متعین فرمایا، حکام کی صوابدید پر نہیں چھوڑا اور بطور حق اللہ کے متعین فرمایا ہے، اس لئے اس کو حد سرقہ کہا جاتا ہے، آیت میں ارشاد ہے : - وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْٓا اَيْدِيَهُمَا جَزَاۗءًۢ بِمَا كَسَـبَا نَكَالًا مِّنَ اللّٰهِ ۭ وَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ یعنی ” چوری کرنے والا مرد اور چوری کرنے والی عورت کے ہاتھ کاٹ دو ان کے کردار کے بدلہ میں، اور اللہ زبردست حکمت والا ہے “۔- یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ قرآنی احکام میں خطاب عام طور پر مردوں کو ہوتا ہے اور عورتیں بھی اس میں تبعا شامل ہوتی ہیں۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰة اور جملہ احکام میں قرآن و سنت کا یہی اصول ہے، لیکن چوری کی سزا اور زنا کی سزا میں صرف مردوں کے ذکر پر اکتفاء نہیں فرمایا، بلکہ دونوں صنفوں کو الگ الگ کرکے حکم دیا۔ - اس کی وجہ یہ ہے کہ معاملہ حدود کا ہے جن میں ذرا سا بھی شبہ پڑجائے تو ساقط ہوجاتی ہیں، اس لئے عورتوں کے لئے ضمنی خطاب پر کفایت نہیں فرمائی، بلکہ تصریح کے ساتھ ذکر فرمایا۔- دوسری بات اس جگہ قابل غور یہ ہے کہ لفظ سرقہ کا لغوی مفہوم اور شرعی تعریف کیا ہے ؟ قاموس میں ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے کا مال کسی محفوظ جگہ سے بغیر اس کی اجازت کے چھپ کرلے لے، اس کو سرقہ کہتے ہیں۔ یہی اس کی شرعی تعریف ہے۔ اور اس تعریف کی رو سے سرقہ ثابت ہونے کے لئے چند چیزیں ضروری ہوئیں :- اول یہ کہ وہ مال کسی فرد یا جماعت کی ذاتی ملکیت ہو، چُرانے والے کی اس میں نہ ملکیت ہو نہ ملکیت کا شبہ ہو۔ اور نہ ایسی چیزیں ہوں جس میں عوام کے حقوق مساوی ہیں، جیسے رفاہ عام کے ادارے اور ان کی اشیاء اس سے معلوم ہوا کہ اگر کسی شخص نے کوئی ایسی چیز لے لی جس میں اس کی ملکیت یا ملکیت کا شبہ ہے یا جس میں عوام کے حقوق مساوی ہیں تو حد سرقہ اس پر جاری نہ کی جائے گی۔ حاکم اپنی صوابدید کے موافق تعزیری سزا جاری کرسکتا ہے۔ - دوسری چیز تعریف سرقہ میں مال محفوظ ہوتا ہے، یعنی مقفل مکان کے ذریعہ یا کسی نگران چوکیدار کے ذریعہ محفوظ ہونا، جو مال کسی محفوظ جگہ میں نہ ہو اس کو کوئی شخص اٹھالے تو وہ بھی حد سرقہ کا مستوجب نہیں ہوگا اور مال کے محفوظ ہونے میں شبہ بھی ہوجائے تو بھی حد ساقط ہوجائے گی۔ گناہ اور تعزیری سزا کا معاملہ جدا ہے۔- تیسری شرط بلا اجازت ہونا ہے، جس مال کے لینے یا اٹھا کر استعمال کرنے کی کسی کو اجازت دے رکھی ہو، وہ اس کو بالکل لے جائے تو حد سرقہ عائد نہیں ہوگی، اور اجازت کا شبہ بھی پیدا ہوجائے تو حد ساقط ہوجائے گی۔ - چوتھی شرط چھپا کرلینا ہے کیونکہ دوسرے کا مال اعلانیہ لوٹا جائے تو وہ سرقہ نہیں بلکہ ڈاکہ ہے، جس کی سزا پہلے بیان ہوچکی ہے، غرض خفیہ نہ ہو تو حدّ سرقہ اس پر جاری نہ ہوگی۔ - ان تمام شرائظ کی تفصیل سننے سے آپ کو یہ معلوم ہوگیا کہ ہمارے عرف میں جس کو چوری کہا جاتا ہے وہ ایک عام اور وسیع مفہوم ہے، اس کے تمام افراد پر حدّسرقہ یعنی ہاتھ کاٹنے کی سزا شرعاً عائد نہیں ہے، بلکہ چوری کی صرف اس صورت پر یہ حد شرعی جاری ہوگی جس میں یہ تمام شرائط موجود ہوں۔ - اس کے ساتھ ہی یہ بھی آپ معلوم کرچکے ہیں کہ جن صورتوں میں چوری کی حد شرعی ساقط ہوجاتی ہے، تو یہ لازم نہیں ہے کہ کھلی چھٹی مل جائے، بلکہ حاکم وقت اپنی صوابدید کے مطابق اس کو تعزیری سزا دے سکتا ہے جو جسمانی، کوڑوں کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔ - اسی طرح یہ بھی نہ سمجھا جائے کہ جن صورتوں میں سرقہ کی کوئی شرط مفقود ہونے کی وجہ سے حد شرعی جاری نہ ہو تو وہ شرعاً جائز و حلال ہے، کیونکہ اوپر بتلایا جا چکا ہے کہ یہاں گناہ اور عذاب آخرت کا ذکر نہیں، دنیوی سزا اور وہ بھی خاص قسم کی سزا کا ذکر ہے۔ ویسے کسی شخص کا مال بغیر اس کی خوش دلی کے کسی طرح بھی لے لیا جائے تو وہ حرام اور عذاب آخرت کا موجب ہے، جیسا کہ آیت قرآن کریم (آیت) لاتاکلوا اموالکم بالباطل۔ میں اس کی تصریح موجود ہے۔ - یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ چوری میں جو الفاظ قرآن کریم کے آتے ہیں وہی زنا کی سزا میں ہیں، مگر چوری کے معاملہ میں مرد کا ذکر پہلے عورت کا بعد میں ہے۔ اور زنا میں اس کے برعکس عورت کا ذکر پہلے کیا گیا۔ چوری کی سزا میں ارشاد ہے : وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ اور زنا کی سزا میں فرمایا ہے : (آیت) الزانیة والزانی، اس عکس ترتیب کی حکمتیں حضرات مفسرین نے کئی لکھی ہیں، ان میں زیادہ دل کو لگنے والی بات یہ ہے کہ جرم مرد کے لئے بہ نسبت عورت کے زیادہ شدید ہے، کیونکہ اس کو اللہ تعالیٰ نے کسب معاش کی وہ قوت بخشی ہے جو عورت کو حاصل نہیں۔ اس پر کسب معاش کے اتنے دروازے کھلے ہونے کے باوجود چوری کے ذلیل جرم میں مبتلا ہو، یہ اس کے جرم کو بڑھا دیتا ہے، اور زنا کے معاملہ میں عورت کو حق تعالیٰ طبعی حیاء و شرم کے ساتھ ایسا ماحول بخشا ہے کہ ان سب چیزوں کے ہوتے ہوئے اس بےحیائی پر اترنا اس کے لئے نہایت شدید جرم ہے، اس لئے چوری میں مرد کا ذکر مقدم ہے اور زنا میں عورت کا۔ - آیت مذکورہ کے الفاظ میں چوری کی شرعی سزا بیان کرنے کے بعد دو جملے ارشاد فرمائے ہیں، ایک (آیت) جَزَاۗءًۢ بِمَا كَسَـبَا یعنی یہ سزا بدلہ ہے ان کی بدکرداری کا، دوسرا جملہ فرمایا نَكَالًا مِّنَ اللّٰهِ اس میں دو لفظ ہیں نکال اور من اللّٰہ، لفظ ” نکال “ کے معنے عربی لغت میں ایسی سزا کے ہیں جس کو دیکھ کر دوسروں کو بھی سبق ملے، اور اقدام جرم سے باز آجائیں، اس لئے ” نکال “ کا ترجمہ ہمارے محاورہ کے موافق عبرت خیز سزا کا ہوگیا۔ اس میں اشارہ ہے کہ ہاتھ کاٹنے کی سخت سزا خاص حکمت پر مبنی ہے، کہ ایک پر سزا جاری ہوجائے، تو سب کے سب کانپ اٹھیں، اور اس جرم قبیح کا انسداد ہوجائے۔ دوسرا لفظ ” من اللہ “ کا بڑھا کر ایک اہم مضمون کی طرف اشارہ فرمایا جو یہ ہے کہ چوری کے جرم کی دو حیثیتیں ہیں۔ ایک یہ کہ اس نے کسی دوسرے انسان کا مال بغیر حق کے لے لیا۔ جس سے اس پر ظلم ہوا۔ دوسری یہ کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کی، پہلی حیثیت سے یہ سزا مظلوم کا حق ہے۔ اور اس کا مقتضٰی یہ ہے کہ جس کا حق ہے اگر وہ سزا کو معاف کر دے تو معاف ہوجائے گی۔ جیسا قصاص کے تمام مسائل میں یہی معمول ہے۔ دوسری حیثیت سے یہ سزا حق اللہ کی خلاف ورزی کرنے کی ہے اس کا مقتضٰی یہ ہے کہ جس شخص کی چوری کی ہے، اگر وہ معاف بھی کر دے تو معاف نہ ہو۔ جب تک خود اللہ تعالیٰ معاف نہ فرما دیں۔ جس کو اصطلاح شرع میں حد یا حدود کہا جاتا ہے۔ لفظ من اللّٰہ سے اس دوسری حیثیت کو متعین کرکے اس طرف اشارہ فرما دیا کہ یہ سزا حد ہے قصاص نہیں ہے، یعنی سرکاری جرم کی حیثیت سے یہ سزا دی گئی ہے، اس لئے جس کی چوری کی ہے اس کے معاف کرنے سے بھی سزا ساقط نہیں ہوگی۔ - آخر آیت میں واللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ فرما کر اس شبہ کا جواب دے دیا جو آج کل عام طور پر زبان زد ہے کہ یہ سزا بڑی سخت ہے، اور بعض گستاخ یا ناواقف تو یوں کہنے سے بھی نہیں جھجکتے کہ یہ سزا وحشیانہ ہے، نعوذ باللہ منہ، اشارہ اس کی طرف فرمایا کہ اس سخت سزا کی تجویز محض اللہ تعالیٰ کے قوی اور زبردست ہونے کا نتیجہ نہیں، بلکہ ان کے حکیم ہونے پر بھی مبنی ہے، جن شرعی سزاؤں کو آج کل کے عقلاء یورپ سخت اور وحشیانہ کہتے ہیں ان کی حکمت اور ضرورت اور فوائد کی بحث انہی آیات کی تفسیر کے بعد مفصل آئے گی۔
وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْٓا اَيْدِيَہُمَا جَزَاۗءًۢ بِمَا كَسَـبَا نَكَالًا مِّنَ اللہِ ٠ۭ وَاللہُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ ٣٨- سرق - السَّرِقَةُ : أخذ ما ليس له أخذه في خفاء، وصار ذلک في الشّرع لتناول الشیء من موضع مخصوص، وقدر مخصوص، قال تعالی: وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ [ المائدة 38] ، وقال تعالی: قالُوا إِنْ يَسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ أَخٌ لَهُ مِنْ قَبْلُ [يوسف 77] ، وقال : أَيَّتُهَا الْعِيرُ إِنَّكُمْ لَسارِقُونَ [يوسف 70] ، إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف 81] ، - اسْتَرَقَ- السّمع : إذا تسمّع مستخفیا، قال تعالی: إِلَّا مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ [ الحجر 18] ، والسَّرَقُ والسَّرَقَةُ واحد، وهو الحریر .- ( س ر ق )- السرقتہ ( مصدر ض ) اس کے اصل معنی خفیہ طور پر اس چیز کے لے لینے کے ہیں جس کو لینے کا حق نہ ہوا اور اصطلاح شریعت میں کسی چیز کو محفوظ جگہ سے مخصوص مقدار میں لے لینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ [ المائدة 38] اور جو چوری کرے مرد ہو یا عورت ۔ - قالُوا إِنْ يَسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ أَخٌ لَهُ مِنْ قَبْلُ [يوسف 77] ( برداران یوسف نے ) کہا اگر اس نے چوری کی ہو تو ( کچھ عجب نہیں کہ ) اس کے ایک بھائی نے بھی پہلے چوری کی تھی ۔ أَيَّتُهَا الْعِيرُ إِنَّكُمْ لَسارِقُونَ [يوسف 70] کہ قافلہ والو تم تو چور اور - استرق السمع - کے معنی چوری چھپے سننے کی کوشش کرنا ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ إِلَّا مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ [ الحجر 18] ہاں اگر کوئی چوری سے سننا چاہئے ۔ السرق والسرقتہ سفید ریشم ۔- قطع - القَطْعُ : فصل الشیء مدرکا بالبصر کالأجسام، أو مدرکا بالبصیرة كالأشياء المعقولة، فمن ذلک قَطْعُ الأعضاء نحو قوله : لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف 124] ، - ( ق ط ع ) القطع - کے معنی کسی چیز کو علیحدہ کردینے کے ہیں خواہ اس کا تعلق حاسہ بصر سے ہو جیسے اجسام اسی سے اعضاء کا قطع کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف 124] میں پہلے تو ) تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسرے طرف کے پاؤں کٹوا دونگا - جزا - الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه 76] ، - ( ج ز ی ) الجزاء ( ض )- کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ - نكل - يقال : نَكَلَ عَنِ الشَّيْءِ : ضَعُفَ وعَجَزَ ونَكَلْتُهُ : قَيَّدْتُهُ ، والنِّكْلُ : قَيْدُ الدَّابَّةِ ، وحدیدةُ اللِّجَامِ ، لکونهما مانِعَيْنِ ، والجمْعُ : الأَنْكَالُ. قال تعالی: إِنَّ لَدَيْنا أَنْكالًا وَجَحِيماً [ المزمل 12] ونَكَّلْتُ به : إذا فَعَلْتُ به ما يُنَكَّلُ به غيرُه، واسم ذلک الفعل نَكَالٌ. قال تعالی: فَجَعَلْناها نَكالًا لِما بَيْنَ يَدَيْها وَما خَلْفَها[ البقرة 66] ، وقال : جَزاءً بِما كَسَبا نَكالًا مِنَ اللَّهِ [ المائدة 38] وفي الحدیث : «إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ النَّكَلَ عَلَى النَّكَلِ» أي : الرَّجُلَ القَوِيَّ عَلَى الفَرَسِ القَوِيِّ.- ( ن ک ل ) نکل عن الشئی ۔ کسی کام سے کمزور اور عاجز ہوجانا ۔ نکلتہ ۔ کسی کے پاوں میں بیڑیاں ڈال دینا ۔ اور نکل ۔ جانور کی بیڑی اور لگام کے لوہے کو کہتے ہیں ۔ کیوں کہ یہ بھی چلنے سے مانع ہوتے ہیں ۔ اس کی جمع انکال ہے ۔ قرآن پاک میں ہے :إِنَّ لَدَيْنا أَنْكالًا وَجَحِيماً [ المزمل 12] کچھ شک نہیں کہ ہمارے پاس بیڑیاں ہیں اور بھڑکتی آگ ہی ۔ نکلتہ ۔ کسی کو عبرت ناک سزا دینا ۔ اس سے اسم نکال سے ۔ جس کے معنی عبرت ناک سزا کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : فَجَعَلْناها نَكالًا لِما بَيْنَ يَدَيْها وَما خَلْفَها[ البقرة 66] اور اس قصے کو اس وقت کے لوگوں کے لئے اور جوان کے بعد آنے والے تھے ۔ عبرت بنادیا ۔ جَزاءً بِما كَسَبا نَكالًا مِنَ اللَّهِ [ المائدة 38] ان کے فعلوں کی سزا اور خدا کی طرف سے عبرت ہے ۔ اور حدیث میں ہے (133) ان اللہ یحب النکل علی النکل کہ قوی آدمی جو طاقت ور گھوڑے پر سوار ہو اللہ تعالیٰ کو پیارا لگتا ہے ۔- عزیز - ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] - ( ع ز ز ) العزیز - العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ ) - حكيم - فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس 1] ، وعلی ذلک قال : وَلَقَدْ جاءَهُمْ مِنَ الْأَنْباءِ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ حِكْمَةٌ بالِغَةٌ [ القمر 4- 5] ، وقیل : معنی الحکيم المحکم «3» ، نحو : أُحْكِمَتْ آياتُهُ [هود 1] ، وکلاهما صحیح، فإنه محکم ومفید للحکم، ففيه المعنیان جمیعا، والحکم أعمّ من الحکمة، فكلّ حكمة حكم، ولیس کل حکم حكمة، فإنّ الحکم أن يقضی بشیء علی شيء، فيقول : هو كذا أو ليس بکذا، قال صلّى اللہ عليه وسلم : «إنّ من الشّعر - لحكمة» أي : قضية صادقة- لہذا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟ اور قرآن پاک کو حکیم یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ حکمت کی باتوں پر مشتمل ہے جیسے فرمایا ۔ الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس 1] یہ بڑی دانائی کی کتان کی آیئیں ہیں ۔ نیز فرمایا : وَلَقَدْ جاءَهُمْ مِنَ الْأَنْباءِ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ حِكْمَةٌ بالِغَةٌ [ القمر 4- 5] اور ان کو ایسے حالات ( سابقین پہنچ چکے ہیں جن میں عبرت ہے اور کامل دانائی ) کی کتاب بھی ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قرآن پاک کے وصف میں حکیم بمعنی محکم ہوتا ہے جیسے فرمایا :، أُحْكِمَتْ آياتُهُ [هود 1] ا حکمت ایا تہ جس کی آیتہ ( جس کی آیتیں مستحکم ہیں ۔ اور یہ دونوں قول صحیح ہیں کیونکہ قرآن پاک کی آیات محکم بھی ہیں اور ان میں پراز حکمت احکام بھی ہیں لہذا ان ہر دو معافی کے لحاظ سے قرآن محکم سے ۔ حکم کا لفظ حکمۃ سے عام ہے ہر حکمت کو حکم کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن ہر حکم حکمت نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ حکم کے معنی کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کے ہوتے ہیں کہ وہ یوں ہے یا یوں نہیں ہے ۔ آنحضرت نے فرمایا کہ بعض اشعار مبنی برحکمت ہوتے ہیں جیسا کہ کبید نے کہا ہے ( ویل ) کہ خدائے تعالیٰ کا تقوی ہی بہترین توشہ ہے
چور کے لئے قطع ید کی سزا کا بیان - قول باری ہے (والسارق والسارقۃ فاقطعوا ایدیھما چوری کرنے والے مرد اور چوری کرنے والی عورت دونوں کے ہاتھ کاٹ دو )- سفیان نے جابر سے اور انہوں نے عامر سے روایت کی ہے کہ حضرت عبد اللہ یک قرأت فاقطعوا ایدیھما ہے اور ابن عوف نے ابراہیم سے روایت کی ہے کہ ان کی قرأت میں ” فاقطعوا ایمانھا “ ہے یعنی ان کے داہنے ہاتھ کاٹ دو ۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ امت کے اندر اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ پہلی دفعہ چوری کا ارتکاب کرنے پر چور کا دایاں ہاتھ کاٹ دیا جائے گا اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ قول باری (ایدیھما) سے اللہ کی مراد ان کے داہنے ہاتھ ہیں۔- ظاہر لفظ دو شخصوں کے لئے ید یعنی ہاتھ کے اسم جمع ’ ایدی ‘ پر مشتمل ہے اور اس پر دلالت کر رہا ہے کہ ان دونوں میں سے ہر ایک کا ایک ایک ہاتھ مراد ہے جس طرح یہ قول باری (ان تتوبا الی اللہ فقد صفت قلوبکما۔ اے دونوں بیویو اگر تم اللہ کی طرف توبہ کرلو تو تمہارے دل اس طرف مائل ہو رہے ہیں) جب ان دونوں میں سے ہر ایک کا صرف ایک دل تھا تو ان کی طرف جمع کے اسم کے ساتھ دلوں کی اضافت کردی۔- اسی طرح یہاں بھی جب چوری کرنے والے مرد اور چوری کرنے والی عورت کی طرف ہاتھوں کی اضافت جمع کے لفظ کے ساتھ ہوئی تو اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ ان دونوں میں سے ہر ایک کا صرف ایک ہاتھ مراد ہے اور یہ دایاں ہاتھ ہے۔- تیسری دفعہ چوری کرنے پر بایاں ہاتھ کاٹنے اور چوتھی دفعہ اس جرم کے ارتکاب پر دائیں ٹانگ کاٹنے کے متعلق فقہاء کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ ہم عنقریب اس پر روشنی ڈالیں گے (انشاء اللہ)- اس آیت کی تخصیص کے متعلق امت کے اندر کوئی اختلاف رائے نہیں ہے۔ اس لئے کہ سارق کے لفظ کا اطلاق نماز چور پر بھی ہوتا ہے۔ (حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (ان اسوأ الناس سرقۃ ھو الذی یسوق صلوٰتہ بدترین چور وہ ہے جو اپنی نماز چراتا ہے) عرض کیا گیا، وہ کیسے ؟- ارشاد ہوا (لایتم رکوعھا وسجودھا وہ اس طرح کہ ایسا شخص نماز کے اندر رکوع اور سجدہ پوری طرح ادا نہیں کرتا) اسی طرح اس لفظ کا اطلاق زیان چور پر بھی ہوتا ہے۔- لیث بن سعد نے روایت کی ہے، انہیں یزید بن ابی حبیب نے، ابو الخیر مرثد بن عبد اللہ سے، انہوں نے ابورہم سے، انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ آپ نے فرمایا (اسرق السارق الذی یسوق لسان الامیر سب سے بڑا چور وہ ہے جو امیر یعنی حاکم کی زبان چرا لیتا ہے) ۔- اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ آیت میں ہر چور مراد نہیں ہے۔ سرقہ ایک ایسا اسم ہے جس کے لغوی معنی اہل زبان کے ہاں لفظ کو سنتے ہی سمجھ میں آ جاتے ہیں اور مزید کسی بیان اور وضاحت کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ شریعت میں بھی اس کا یہی حکم ہے۔- قطع ید کا حکم اسی اسم کے ساتھ معلق کردیا گیا ہے جس طرح بیع، نکاح، اجارہ اور دوسرے تمام امور میں جن کے معانی ان پر دلالت کرنے والے الفاظ کو سن کر ہی سمجھ میں آ جاتے تھے، ان کے ساتھ وہ احکام معلق کردیئے گئے ہیں جن کے عموم کا ان الفاظ کے وجود کے ساتھ اعتبار کرنا واجب ہوتا ہے۔ ) الایہ کہ تخصیص کی کوئی دلیل قائم ہو جئاے۔- (اگر ہم ظاہر قول باری (والسارق و السارقۃ) کو تنہا رہنے دیتے تو صرف اس اسم کی بنا پر حکم یعنی حد سرقہ کا اجرا ہوجاتا، صرف وہی صورتیں جن کی تخصیص کی دلیل قائم ہوجاتی۔- تاہم ہمارے نزدیک یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے سرقہ کے حکم کا تعلق اس اسم کے علاوہ ایک اور مفہوم کے ساتھ ہوگیا ہے جس کا حکم کے ایجاب میں اعتبار کرنا ضروری ہے اور وہ مفہوم ہے حرزا اور مقدار یعنی چرائی ہوئی چیز کا محفوظ مقام میں ہونا اور ایک خاص مقدار یا اس سے زائد ہونا۔- کتنے مال سرقہ پر سزا ہوگی ؟- جہاں تک مقدار کا تعلق ہے تو یہ اسم اس لحاظ سے مجمل ہے اور اس مقدار کے اثبات کے لئے کسی اور ذریعے سے بیان کا محتاج ہے۔ اس لئے ہر مقدار کے اندر قطع ید کے ایجاب کے لئے اس اسم کے عموم کا اعتبار درست نہیں ہوگا۔- اس کے اجمال کی نیز اس کے عموم کے اعتبار کے امتناع کی دلیل وہ روایت ہے جو عبد الباقی بن قانع نے بیان کی، انہیں معاذ بن المثنی نے انہیں عبد الرحمٰن بن المبارک نے، انہیں وہب نے ابوماقد سے، انہیں عامر بن سعد نے اپنے والد حضرت سعد (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :- (لاتقطع ید السارق الافی ثمن المجن، چور کا ہاتھ صرف اس صورت میں کاٹا جائے گا جبکہ چرائی ہوئی چیز کی مالیت ڈھال کی قیمت کے مساوی ہو) ابن لہیعہ نے ابوالنصر سے روایت کی، انہوں نے عمرہ سے، انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :- (لا تقطع ید السارق الآفیما بلغ ثمن المجن فما فوقھا) چور کا ہاتھ صرف اس صورت میں کاٹا جائے گا جب چرائی ہوئی چیز کی مالیت ڈھال کی قیمت یا اس سے زائد رقم کو پہنچتی ہو) ۔- سفیان نے منصور سے، انہوں نے مجاہد سے، انہوں نے عطاء سے، انہوں نے ایمن الحبشی سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (ادنی ما یقع فیہ السارق ثمن الجن کم سے کم مقدار جس کی وجہ سے چور کا ہاتھ کاٹا جائے گا وہ ڈھال کی قیمت ہے)- ان روایات سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ایجاب قطع کے سلسلے میں آیت کا حکم ڈھال کی قیمت پر موقوف ہے۔ اس طرح ڈھال کی قیمت کی حیثیت یہ ہوگئی کہ گویا آیت کے ساتھ ہی اس کا ورود ہوا ہے اور یہ آیت کا ضمیمہ بن گئی ہے۔- اس طرح گویا آیت کے مفہوم کی ترتیب کچھ یوں ہوگئی ہے۔ چوری کرنے والے مرد اور چوری کرنے والی عورت دونوں کے ہاتھ کاٹ دو جب چرائی ہوئی چیز کی مالیت ڈھال کی قیمت کو پہنچ جائے “۔- لفظ سرقہ بیان کا محتاج ہے اور حکم کے اثبات کے لئے خود مکتفی نہیں ہے۔ جس لفظ کی یہ کیفیت ہو اس کے عموم سے استدلال کرنا درست نہیں ہوتا۔ ایک اور وجہ بھی ہے جو اس جہت سے اس کے اجمال پر دلالت کرتی ہے، یہ وجہ ڈھال کی قیمت کی تعیین کے سلسلے میں سلف سے منقول روایات کی صورت میں ہے۔- حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) ، حضرت عبد اللہ بن عمرو (رض) ، ایمن الحبشی، ابو جعفر، عطاء، ابراہیم اور دوسرے حضرات کے قول کے مطابق ڈھال کی قیمت دس درہم تھی۔ حضرت ابن عمر (رض) کے قول کے مطابق تین درہم، حضرت انس (رض) ، عروہ، زہری اور سلیمان بن یسار کے قول کے مطابق پانچ درہم تھی۔ حضرت عائشہ (رض) کا قول ہے کہ ڈھال کی قیمت ربع دینار ہے۔- یہ بات تو واضح ہے کہ ان حضرات نے تمام ڈھالوں کی قیمتیں نہیں لگائی ہیں۔ اس لئے کہ کپڑے اور دیگر سامان کی طرح ڈھال بھی مختلف اقسام کے ہوتے تھے اور اس لحاظ سے ان کی قیمتوں میں فرق پڑجاتا تھا۔ اس لئے دسدرہم کی مقدار کی تعیین لامحالہ اس ڈھال کی قیمت کے سلسلے میں ہوگی جس کی چوری پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چور کا ہاتھ کاٹ دیا تھا۔- اور یہ بات بھی واضح ہے کہ لوگوں کو اس ڈھال کی تقویم یعنی قیمت کی تعیین کی ضرورت اس وقت پیش نہیں آئی ہوگی جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چور کا ہاتھ کاٹا ہوگا۔ اس لئے کہ کسی متعین چیز کی چوری پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سزا کے طور پر چور کا ہاتھ کاٹ دینا اس سے کم درجے کی چیز چرانے کی صورت میں قطع کی نفی پر دلالت نہیں کرتا۔- جس طرح ڈھال چرانے پر چور کا ہاتھ کاٹ دینا اس پر دلالت نہیں کرتا کہ ہاتھ کاٹنے کا حکم صرف ڈھال چرانے تک محدود ہے۔ دوسری چیزیں چرانے پر یہ سزا نہیں دی جاسکتی اس لئے کہ جو صورت پیش آئی تھی وہ ان صورتوں میں سے ایک تھی جنہیں عموم کا لفظ شامل تھا اس سلسلے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اقدام پیش آنے والے واقعہ کے حسب حال تھا۔- اس لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ عمل گویا آپ کی طرف سے اس بات کی رہنمائی اور ہدایت تھی کہ اس سے کم کی مقدار میں قطع ید نہیں ہے۔ نیز آیت میں مقدار کے بارے میں جو اجمال تھا اس کی تفصیل بھی اس کے ذریعے ہوگئی جس طرح ہماری روایت کردہ احادیث لفظی طور پر ڈھال سے کم قیمت کی مالیت کی چیز چرانے پر قطع ید کی نفی پر دلالت کرتی ہیں۔- اس بنا پر مقدار کے اثبات میں آیت کے عموم کا اعتبار کرنا درست نہیں رہا اور جس ڈھال کے چرانے پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قطع ید کیا تھا اس کی قیمت کی معرفت تک رسائی واجب ہوگئی۔ مقدار کے بارے میں آیت کا اجمال حرز (محفوظ جگہ) کی تمام صورتوں نیز قطع ید واجب کردینے والی چیزوں کی جنس وغیرہ کے متعلق اجمال کا موجب نہیں ہے بلکہ یہ ممکن ہے کہ آیت ان باتوں کے لحاظ سے عموم ہو لیکن صرف مقدار کے بیان کے لحاظ سے مجمل ہو۔- جس طرح یہ قول باری ہے (خذ من اموالھم صدقۃ) یہ ان اموال کے لحاظ سے ہے جن میں زکوٰۃ واجب ہوتی ہے لیکن صدقہ یعنی زکوٰۃ کی واجب مقدار کے لحاظ سے مجمل ہے۔- ہمارے شیخ ابو الحسن کہا کرتے تھے کہ آیت زیربحث اس لحاظ سے مجمل ہے کہ اس میں حکم کو ایسے معانی کے ساتھ معلق کردیا گیا ہے جن کا یہ لفظ لغت کے لحاظ سے مقتضی نہیں ہے۔ یہ معانی ہیں اور مقدار، دوسری طرف قطع ید کے ایجاب میں جن معانی کا اعتبار کیا جاتا ہے اگر ان میں سے کوئی جز موجود نہ ہو تو اسم سرقہ کی موجودگی کے باوجود قطع ید واجب نہیں ہوگی۔ اس لئے کہ لغت کے لحاظ سے سرقہ کا اسم پوشیدہ طور پر کسی چیز کو لے لینے کے معنی پر دلالت کے لئے وضع کیا گیا ہے۔- اور اسی سے ’ طارق اللسان ‘ اور ’ سارق الصلوٰۃ ‘ کے الفاظ بنائے گئے ہیں اس میں پوشیدہ طور پر کوئی چیز لے لینے کے عمل کے ساتھ تشبیہ ہے۔ تاہم ان دونوں الفاظ کے اصل مفہوم پر ہم گزشتہ سطور میں روشنی ڈال آئے ہیں۔- جن معانی یعنی حرز اور مقدار کا ہم نے قطع ید کے ایجاب میں اعتبار کیا ہے ان پر دلالت کے لئے لغوی طور پر اسم سرقہ وضع نہیں ہوا تھا، ان معانی کا ثبوت تو شرعی طور پر ہوا ہے، اس لئے سرقہ کا اسم اب ایک اسم شرعی بن گیا اور اب اس کے لغوی معنی کے عموم سے استدلال کرنا درست نہیں رہا۔ صرف ان صورتوں میں اس کے عموم سے استدلال درست ہوسکتا ہے جن کے لئے دلالت قائم ہوجائے۔- اس مقدار اور مالیت کے متعلق بھی اختلاف رائے ہے جس کی بنا پر چور کا قطع ید واجب ہوتا ہے۔ امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف، امام محمد، زفر اور ثوری کا قول ہے کہ دس درہم یا اس سے زائد چرانے پر یا دس درہم کے برابر مالیت کی کوئی چیز چوری کرنے پر ہاتھ کاٹا جائے گا۔- امام ابو یوسف اور امام محمد سے مروی ہے جب تک چرائی ہوئی چیز کی قیمت دس ڈھلے ہوئے درہم کی مالیت کو نہ پہنچ جائے اس وقت تک قطع ید نہیں ہوگی۔ حسن بن زیاد نے امام ابوحنیفہ سے نقل کیا ہے کہ جب کوئی شخص لوگوں کے درمیان رائج دراہم میں سے دس درہم کی مالیت کے مساوی کوئی چیز چرا لے تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔- امام مالک، امام شافعی، لیث اور اوزاعی کا قول ہے کہ چوتھائی دینار یا اس سے زائد مالیت کی چیز چرانے پر ہی قطع ید ہوگی۔ امام شافعی کا یہ بھی قول ہے کہ جب درہم کی مالیت بڑھ جائے یہاں تک کہ دو درہم ایک دینار کے برابر ہوجائیں تو بھی ربع دینار کی مالیت کی چیز چرانے پر قطع ید ہوگا۔ خواہ یہ نصف درہم کے مساوی کیوں نہ ہو۔- اگر درہم کی مالیت کم ہوجائے یہاں تک کہ سو درہم ایک دینار کے مساوی ہوجائیں تو بھی ربع دینار مالیت کی چیز چرانے پر قطع ید ہوگا۔ اس صورت میں ربع دینار پچیس درہم کے مساوی ہوگا حسن بصری سے مروی ہے کہ ایک درہم مالیت کی چیز چرانے پر بھی قطع ید ہوگا۔- لیکن یہ ایک شاذ قول ہے جس کے خلاف تمام فقہاء کا اتفاق ہے۔ حضرت انس (رض) بن مالک عروہ بن الزبیر، زہری اور سلیمان بن یسار کا قول ہے کہ پانچ درہم مالیت کے سرقہ پر قطع ید ہوگا۔ حضرت عمر (رض) اور حضرت علی (رض) سے اسی قسم کی روایت منقول ہے۔ ان دونوں حضرات کا قول ہے کہ پانچ درہم میں ہی قطع ید ہوگا۔ حضرت ابن مسعود (رض) ، حضرت ابن عباس (رض) ، حضرت ابن عمر (رض) ، ایمن الحبشی، ابو جعفر، عطاء اور ابراہیم کا قول ہے کہ دس درہم کی صورت میں ہی قطع ید ہوگا۔- حضرت عبد اللہ بن عمر (رض) کا قول ہے تین درہم میں قطع ید ہوگا۔ حضرت عائشہ (رض) سے مروی ہے کہ چوتھائی دینار میں قطع ید ہوگا۔ حضرت ابو سعید خدری (رض) اور حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ چار درہم مالیت کی چیز چرانے پر ہی قطع ید ہوگا۔- اس بارے میں جو بنیادی بات ہے وہ یہ کہ فقہائے سلف اور ان کے بعد آنے والوں سے جب بالاتفاق یہ بات ثابت ہوگئی کہ قطع ید صرف ایک مقدار مالیت کی چیز چرانے پر واجب ہوتی ہے۔ اگر مالیت اس مقدار سے کم ہو تو یہ سزا واجب نہیں ہوتی۔- اس قسم کی مقاویر کے اثبات کا ایک ہی ذریعہ ہے وہ ہے توقیف یعنی شریعت کی طرف سے رہنمائی اور اطلاع یا پھر اتفاق امت۔ دس درہم سے کم مقدار کے متعلق توقیف ثابت نہیں اور دس پر اتفاق کا ثبوت ہوگیا ہے اس لئے ہم نے یہ مقدار ثابت کردی، دس سے کم مقدار کے متعلق نہ تو توقیف کا ثبوت ہے اور نہ ہی اتفاق امت کا۔- قول باری (والسارق والسارقۃ فاقطعوا ایدھما) کے عموم سے استدلال درست نہیں ہے اس لئے کہ ہم نے یہ بیان کردیا ہے کہ اس کے ساتھ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے اس بارے میں ڈھال کی قیمت کے اعتبار کی توقیف اور اس پر امت کے اتفاق کے یک جا ہوجانے کی بنا پر یہ قول باری مجمل ہوگیا ہے۔ اس لئے اس کے عموم سے استدلال ساقط ہوگیا۔- اور دس درہم میں قطع کے اتفاق پر نیز اس سے کم قمدار میں قطع کی نفی پر آ کر ٹھہر جانا واجب ہوگیا۔ جیسا کہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں۔ ایسی روایات بھی منقول ہیں جو قطع ید میں دس درہم کے اعتبار کی موجب ہیں۔- ان میں سے ایک روایت ہمیں عبد الباقی بن قانع نے بیان کی، انہیں عبد اللہ بن احمد بن حنبل نے، انہیں ان کے والد نے، انہیں نصر بن ثابت نے حجاج سے، انہوں نے عمرو بن شعیب سے، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے عمرو کے دادا سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :- (لاقطع فیما دون عشرۃ دراھم، دس درہم سے کم میں قطع ید نہیں ہے۔ ہم نے سنن ابن قانع میں ایک حدیثدیکھی ہے جسے عبد الباقی بن قانع نے اپنی سند کے ساتھ زحر بن ربیعہ سے روایت کی ہے، انہوں نے حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :۔- (لا تقطع الید الافی دینار او عشرۃ دراہم ایک دینار یا دس درہم کی صورت میں ہی ہاتھ کاٹا جائے گا) عمرو بن شعیب کہتے ہیں کہ میں نے سعید بن المسیب سے کہا کہ عرو، زہری اور سلیمان بن یسار کا قول ہے کہ پانچ درہم میں ہی ہاتھ کاٹا جائے گا، “- اس پر سعید بن المسیب نے جواب دیا کہ ” اس بارے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت دس درہم کی ہے۔ ابن عباس (رض) ، ایمن الحبشی اور عبد اللہ بن عمر (رض) نے یہی بات کہی ہے، انہوں نے مزید یہ بھی کہا ہے ڈھال کی قیمت دس درہم تھی “۔- اگر ہمارے مخالفین حضرت ابن عمر (رض) اور حضرت انس (رض) کی روایت سے استدلال کریں جس میں ذکر ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک ڈھال کے چرانے پر چور کا ہاتھ کاٹ دیا تھا اس ڈھال کی قیمت تین درہم تھی۔ حضرت عائشہ (رض) کی روایت سے جس کے مطابق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :- (تقطع ید السارق فی ربع دینار، چوتھائی دینار میں چور کا ہاتھ کاٹا جائے گا) تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حضرت ابن عمر (رض) اور حضرت انس (رض) کی روایت میں اختلافی نکتے پر کوئی دلالت نہیں ہے۔ اس لئے کہ ان دونوں حضرات نے اس ڈھال کی قیمت کا اندازہ تین درہم لگایا تھا جبکہ دور سے حضرات نے دس درہم لگایا تھا۔ اس لئے زائد رقم کو مقدم رکھنا اولیٰ ہوگا۔- رہ گئی حضرت عائشہ (رض) کی روایت تو اس کے مرفوع ہونے کے متعلق اختلاف رائے ہے۔ ایک قول ہے کہ اس بارے میں درست بات یہی ہے کہ روایت حضرت عائشہ (رض) پر جا کر ٹھہر گئی ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک اس کی نسبت نہیں پہنچی ہے۔- حدیث کی اصطلاح میں دراصل یہ حدیث موقوف ہے مرفوع نہیں ہے۔ اس لئے کہ ثقہ قسم کے راویوں نے اس حدیث کی موقوف صورت میں روایت کی ہے۔ یونس نے زہری سے، انہوں نے عروہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے وہ فرماتی ہیں کہ آپ کا ارشاد ہے : (لا تقطع ید السارق الا فی ثمن المجن ثلث دینار او نصف دینار فصا عدا چور کا ہاتھ صرف ڈھال کی قیمت یعنی دینار کی تہائی یا نصف دینار اور اس سے زائد مالیت کی چیز چرانے پر کاٹا جائے گا):- ہشام بن عروہ نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ ” حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں چور کا ہاتھ ڈھال کی قیمت سے کم مالیت والی چیز چرانے پر کاٹا نہیں جاتا تھا۔ اس زمانے میں ڈھال کی بھی قیمت ہوتی تھی۔ معمولی چیز چرا لینے پر ہاتھ کاٹا نہیں جاتا تھا “۔- یہ روایت اس پر دلالت کرتی ہے کہ اس بارے میں حضرت عائشہ (رض) کے نزدیک جو بات تھی وہ یہ تھی کہ ڈھال کی قیمت کی مالیت والی چیز کا سرقہ قطع ید کا موجب ہے، اس بارے میں حضرت عائشہ (رض) کے پاس اس بات کے سوا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی اور روایت نہیں تھی۔- اس لئے کہ اگر ان کے پاس اس سلسلے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سونا اور چاندی کی متعین مقدار کی کوئی بات ہوتی تو انہیں ڈھال کی قیمت کے ذکر کی ضرورت نہ ہوتی کیونکہ اس بات کا ادراک اجتہاد کی جہت سے ہوتا جبکہ نص کی موجودگی میں اجتہاد کو کوئی دخل نہیں ہوتا۔- یہ امر اس پر بھی دلالت کرتا ہے کہ حضرت عائشہ (رض) سے جو روایت مرفوعاً نقل ہوئی ہے اگر اس کارفع ثابت ہو بھی جائے تو ڈھال کی قیمت کے سلسلے یہ حضرت عائشہ (رض) کا اپنا اجتہاد ہوگا جس کے ذریعے انہوں نے قیمت کا اندازہ لگایا ہوگا۔- حماد بن یزید نے ایوب سے روایت کی ہے، انہوں نے عبد الرحمٰن بن قاسم سے، انہوں نے عمرہ سے، انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے کہ چور کا ہاتھ ربع دینار یا اس سے زائد میں کاٹا جائے گا۔ ایوب کہتے ہیں کہ یہی روایت یحییٰ نے عمرہ سے بیان کی اور انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے، لیکن یحییٰ نے اسے مرفوعاً بیان کیا، اس پر عبد الرحمٰن بن القاسم نے ان سے کہا کہ حضرت عائشہ (رض) تو اسے مرفوعاً بیان نہیں کرتی تھیں، اس پر یحییٰ نے اس روایت کو مرفوعاً بیان کرنا چھوڑ دیا۔- یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ جن لوگوں نے اس روایت کو مرفوعاً بیان کیا ہے انہوں نے اسے صرف یحییٰ سے مرفوع کی صورت میں سنا تھا اور وہ بھی اس زمانے میں جب یحییٰ نے ابھی اسے مرفوعاً روایت کرنا ترک نہیں کیا تھا۔ پھر یہ بات بھی موجود ہے کہ اگر یہ حدیث ثابت بھی ہوجائے تو یہ ان روایات کی معارض ہوگی جنہیں ہم نے مختلف سندوں کے ساتھ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا ہے اور جو دس درہم سے کم مالیت کی چیز چرانے پر قطع ید کی نفی کرتی ہیں۔- اس صورت میں ہماری بیان کردہ روایت اولیٰ ہوگی اس لئے کہ اس کے مطابق دس درہم سے کم میں قطع کی ممانعت ہے جبکہ ہمارے مخالفین کی بیان کردہ روایت کے مطابق اس مقدار سے کم میں قطع کی اباحت ہے اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ ممانعت کی روایت اباحت کی روایت سے اولیٰ ہوتی ہے۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا (لعن اللہ السارق یسرق الحبل فیقطع فیہ ویسرق البیضۃ فیقطع فیھا چور پر خدا کی لعنت ہو وہ ایک رسی چرا لیتا ہے اس پر اس کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے، ایک بیضہ چرا لیتا ہے اور اس پر اس کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے)- اس حدیث سے بعض ناسمجھ لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ یہ اس پر دلالت کرتی ہے کہ دس درہم سے کم مالیت کی چیز پر ہاتھ کاٹ دیا جائے گا کیونکہ اس روایت میں بیضہ اور رسی کا ذکر ہے اور یہ دونوں چیزیں عادۃً دس درہم سے کم قیمت کی ہوتی ہیں۔- حالانکہ بات اس طرح نہیں جس طرح ان ناسمجھ لوگوں نے سمجھا ہے۔ اس لئے کہ یہاں بیضہ سے مراد انڈا نہیں ہے بلکہ لوہے کی خود ہے۔ حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوہے کی خود چرانے پر جس کی قیمت اکیس درہم تھی چور کا ہاتھ کاٹ دیا تھا۔- دوسری وجہ یہ ہے کہ فقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ مرغی کے انڈے چرانے والے کا ہاتھ کاٹا نہیں جائے گا۔ جہاں تک رسی کا تعلق ہے تو وہ بعض دفعہ دس درہم کی بھی ہوتی ہے اور بعض دفعہ بیس کی اور بعض دفعہ اس سے بھی زائد کی ہوسکتی ہے۔- فصل - جہاں تک چرائی ہوئی چیز کا محفوظ جگہ میں ہونے کا تعلق ہے تو اس کی بنیاد وہ روایت ہے جس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (لا قطع علی خائن خیانت کرنے والے کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا حضرت ابن عباس (رض) اور حضرت جابر (رض) نے اس حدیث کی روایت کی ہے۔- یہ حدیث ان تمام چیزوں میں قطع کی نفی پر مشتمل ہے جن کے متعلق کسی انسان پر بھروسہ اور اعتماد کرلیا جاتا ہے اور اسے امین سمجھ لیا جاتا ہے۔ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ ایک شخص جب کسی کو اپنے گھر میں آنے جانے کی اجازت دے دے اور اس پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنا مال اس کی نظروں سے کسی محفوظ جگہ میں نہ رکھے تو اس مال کے چرانے پر اس شخص کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ اس لئے کہ حدیث کے لفظ میں عموم ہے۔- اس صورت میں اس شخص کی حیثیت مودع (جس کے پاس ودیعت یا امانت رکھی جائے) اور مضارب کی سی ہوجائے گی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (لاقطع علی اخائن) ارشاد فرما کر ودیعت او مضاربت سے مکر جانے والے پر قطع ید کے وجوب کی نفی کردی۔- امانتوں کی دوسری تمام صورتوں کا بھی یہی حکم ہے یہ حدیث عاریۃً کوئی چیز لے کر اس سے مکر جانے والے پر بھی قطع ید کے وجوب کی نفی پر دلالت کرتی ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک روایت منقول ہے کہ آپ نے ایک عورت کا ہاتھ کاٹ دیا تھا جو لوگوں سے چیزیں لے کر مکر جایا کرتی تھی۔- لیکن اس روایت میں عاریۃً چیز لینے والے شخص پر مکر جانے کی صورت میں قطع کے وجوب کی کوئی دلالت نہیں ہے اس لئے کہ حدیث میں یہ ذکر نہیں ہے کہ آپ نے اس بنا پر اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا تھا کہ وہ عاریت میں لی ہوئی چیز سے مکر گئی تھی بلکہ اصل بات یہ ہے کہ عاریۃً چیزیں لے کر مکر جانے کی بات کا ذکر اس عورت کے تعارف کے طور پر کیا گیا ہے۔- چونکہ یہ اس کی عادت تھی اسی بنا پر یہی امر اس کی پہچان اور تعارف کا نشان بن گیا تھا اس روایت کی مثال اس حدیث جیسی ہے جس میں ذکر ہے کہ آپ نے رمضان میں ایک ایسے شخص کو دیکھا کہ سینگی کے ذریعے دوسرے شخص کا خون چوس رہا ہے تو آپ نے دونوں کے متعلق فرمایا :- (افطر الحاجم ولامحجوم سینگی لگانے والا اور جسے لگائی گئی دونوں کا روزہ ٹوٹ گیا) آپ نے ان دونوں کے تعارف اور شناخت کے طور پر حجامت یعنی سینگی لگانے کا ذکر کیا، افطار یعنی روزہ ٹوٹ جانا کسی اور وجہ کی بنا پر وقوع پذیر ہوا تھا۔- صحیح روایات میں مذکور ہے کہ قریش کو بنو محروم کی ایک عورت کے معاملے میں بڑی تشویش لاحق ہوگئی تھی جس نے چوری کا جرم کیا تھا۔ یہ وہی عورت ہے جس کا زیربحث روایت میں اس عنوان سے ذکر آیا ہے کہ وہ لوگوں سے عاریۃً چیزیں لے لیتی اور پھر مکر جاتی۔ ان روایات میں یہ بیان ہوا ہے کہ آپ نے چوری کرنے کی بنا پر اس کا ہاتھ کٹوا دیا تھا۔- حرز کے اعتبار پر وہ روایت بھی دلالت کرتی ہے جس کے راوی عمرو بن شعیب ہیں۔ انہوں نے اپنے والد سے اور والد نے عمر کے دادا سے کہ آپ سے پہاڑ میں رہنے والی بکری کی چوری کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ ” اس میں اسی جیسی بکری کا تاوان آئے گا اور سزا کے طور پر چور کو کوڑے لگائے جائیں گے لیکن اگر بکریاں رات گزارنے والے ٹھکانے پر پہنچ جائیں اور پھر کوئی وہاں س ے جانور چرا لے اور اس کی قیمت ڈھال کی قیمت کے برابر ہو تو چور کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا “۔- آپ نے درخت پر لٹکے ہوئے پھلوں کے متعلق فرمایا کہ جب تک یہ کھلیان میں نہ پہنچ جائیں اس وقت تک ان کی چوری کی سزا میں قطع ید نہیں ہوگی۔ جب پھل کھلیان میں پہنچ جائیں تو پھر چوری کی قطع ید ہوگی بشرطیکہ وہ ڈھال کی قیمت کو پہنچ جائے “۔- حرز کے اعتبار کے وجوب پر اس روایت کی دلالت پہلی روایت کی بہ نسبت زیادہ واضح ہے اگرچہ ان میں سے ہر روایت حرز کے اعتبار کے وجوب پر دلالت کرنے میں خود کفیل ہے۔- فقہائے امصار کے درمیان قطع ید کے لئے حرز کی شرط کے بارے میں کوئی اختلاف رائے نہیں ہے اور یہ چیز سنت سے ثابت ہوئی ہے۔ جیسا کہ ہماری دی ہوئی تفصیل سے ظاہر ہے۔- چوری کس مقامسے کی جائے تو سزا ہوگی - ہمارے اصحاب کے نزدیک حرز سے مراد وہ جگہ یا مکان ہے جو رہائش نیز مال اور ساز و سامان وغیرہ کی حفاظت کیلئے تعمیر کیا گیا ہو۔ سوتی اور اونی خیموں نیز ڈیروں کا بھی یہی حکم ہے جن میں لوگ رہتے ہیں نیز جہاں اپنے مال و متاع کو محفوظ کرلیتے ہیں۔- ایسے تمام مقامات اور عمارات حرز کہلائیں گی اگرچہ وہاں آس پاس یا ان کے اندر کوئی محافظ یا نگران نہ بھی موجود ہو۔ خواہ چور نے وہاں سے اس صورت میں چوری کی ہو کہ دروازہ کھلا رہ گیا تھا یا سرے سے اس کا دروازہ ہی نہیں تھا لیکن اینٹیں یا پتھر وغیرہ رکھ کر یا کچھ تعمیر کر کے رکاوٹ کھڑی کردی گئی تھی۔- البتہ جو چیزیں کسی عمارت یا خیمے یا ڈیرے میں نہ رکھی گئی ہوں بلکہ کھلی جگہ میں ہوں تو وہ جگہ اس وقت تک حرز نہیں کہلائے گی جب تک اس کے پاس کوئی چوکیدار نہ ہو یا کم از کم اس سے اس قدر قریب ہو کہ وہاں سے اس کی نگرانی کرسکتا ہو پھر خواہ چوکیدار وہاں جاگ رہا ہو یا سو رہا ہو چوری کے حکم میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔- محافظ اور چوکیدار کی موجودگی اس جگہ کے لئے حرز بننے کی سبب ہے، خواہ وہ جگہ مسجد ہو یا صحرا، اس کی دلیل حضرت صفوان (رض) کی روایت ہے جس میں مذکور ہے کہ وہ مسجد میں سو رہے تھے اور ان کی چادر ان کے سر کے نیچے تھی، ایک شخص نے یہ چادر چرا لی اور پکڑا گیا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی قطع ید کا حکم دے دیا۔- اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ مسجد محفوظ جگہ یعنی حرز نہیں ہوتی لیکن اس واقعہ میں اسے حرز اس بنا پر قرار دیا گیا کہ صفوان (رض) چادر کے پاس موجود تھے۔- اسی لئے ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ محافظ خواہ جاگ رہا ہو یا نیند میں ہو، چوری کے حکم میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا اس لئے کہ درج بالا واقعہ میں حضرت صفوان سو رہے تھے، ہمارے اصحاب کے نزدیک اس معاملے میں مسجد کا مسئلہ حمام یعنی عوامی غسل خانوں کی طرح نہیں ہے۔- اس لئے جو شخص حمام سے کوئی چیز چرا لے گا اس کا ہاتھ کاٹا نہیں جائے گا۔ سرانے نیز ایسی دکانوں کا بھی یہی حکم ہے جہاں لوگوں کو جانے کی عام اجازت ہو خواہ وہاں محافظ اور چوکیدار موجود کیوں نہ ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حمام کے مالک اور سرائے والے نیز دکاندار کی طرف سے چونکہ آنے جانے کا اذن عام ہوتا ہے اس لئے وہاں رکھی ہوئی چیزیں محفوظ قرار نہیں دی جا سکتیں اور انہیں وہاں آنے جانے والوں کی دسترس سے باہر نہیں سمجھا جاسکتا۔- آپ نہیں دیکھتے کہ جو شخص اپنے گھر میں کسی کو داخل ہونے کی اجازت دے دیتا ہے تو اس سے اس کا گھر حرز یعنی محفوظ جگہ کے حکم سے فی نفسہ خارج نہیں ہوتا لیکن اس کے باوجود اگر آنے والا شخص وہاں سے کوئی چیز چرا لیتا ہے تو اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جاتا اس کی وجہ یہ ہے کہ جب مالک مکان کی طرف سے اسے اس گھر میں داخل ہونے کی اجازت مل جاتی ہے تو گویا اس کی طرف سے اس پر اعتماد کا اظہار ہوجاتا ہے اور وہ اس آنے والے شخص سے اپنا مال و متاع محفوظ نہیں کرتا۔- ٹھیک اسی طرح ہر وہ جگہ جہاں مالک کی اجازت سے داخل ہونا مباح اور جائز ہوتا ہے۔ وہ آنے والے شخص سے حرز یعنی محفوظ قرار نہیں دی جاسکتی۔ لیکن جہاں تک مسجد کا معاملہ ہے اس میں داخل ہونے کے لئے کسی انسان کی اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی اس لئے اسے صحرا اور بیابان کی طرح قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس بنا پر محافظ کی موجودگی میں کوئی شخص اگر مسجد سے کوئی چیز چرائے گا تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔- امام مالک سے منقول ہے کہ اگر حمام میں محافظ کی موجودگی کے اندر کوئی چوری کرے گا تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔- ابوبکر جصاص امام مالک کے اس قول پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر اس صورت میں چور کا ہاتھ کاٹنا واجب ہے تو پھر اس دکان سے چوری کرنے والے کا ہاتھ بھی کاٹنا واجب ہونا چاہیے جس میں لوگوں کو داخل ہونے کی عام اجازت ہوتی ہے اس لئے کہ دکان کا مالک اس کی حفاظت اور نگرانی کرتا ہے۔- جبکہ یہ بات واضح ہے کہ مالک کی طرف سے داخلے کی عام اجازت کی بنا پر وہاں رکھا ہوا مال محفوظ جگہ میں رکھا ہوا مال قرار نہیں دیا جاسکتا اس لئے اس میں داخل ہونے والے ہر شخص کو قابل اعتماد اور امانت دار قرار دیا جائے گا اس لحاظ سے ایسے حمام اور دکان میں کوئی فرق نہیں ہوگا جہاں داخل ہونے کی عام اجازت ہو۔- اگر کوئی یہ کہے کہ ایسے سرائے اور دوکان سے چوری کرنے والے کا ہاتھ کاٹا جائے گا جس میں داخل ہونے کی عام اجازت ہو تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ایسے چور کی حیثیت اس شخص کی طرح ہوتی ہے جو ودیعت کے طور پر رکھی ہوئی چیزوں، عاریۃً کی ہوئی اشیاء اور مال مضاربت میں خیانت کرلیتا ہے۔- اس لئے کہ درج بالا سطور میں جن صورتوں کا ہم نے ذکر کیا ہے ان میں اور ان صورتوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب سرائے یا دکان کے مالک نے آنے والے شخص پر اپنے مال کو اس سے محفوظ نہ کر کے اعتماد کرلیا اور اسے امین سمجھ لیا تو اس کی حیثیت اس شخص کی طرح ہوگئی جس کے پاس کسی نے ودیعت رکھ کر اس پر اعتماد کرلیا۔- اس لئے ان دونوں میں کوئی فرق نہیں رہا۔ عثمان البتی کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص حمام سے کوئی چیز چرائے تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔- کفن چور کا قطع ید - کفن چور کے قطع ید کے مسئلے میں اختلاف رائے ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) ، ثوری، امام محمد اور اوزاعی کا قول ہے کہ کفن چور کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ حضرت ابن عباس (رض) اور مکحول کا بھی یہی قول ہے زہری کا قول ہے کہ جس زمانے میں مروان مدینہ منورہ کے حاکم تھے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تمام صحابہ کرام اس پر متفق تھے کہ کفن چور کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔- البتہ سے تعزیر کے طور پر سزا دی جائے گی۔ اس زمانے میں صحابہ کرام کی کثیر تعداد موجود تھی۔ امام ابو یوسف، ابن ابی لیلیٰ ، ابو الزناد اور ربیعہ کا قول ہے کہ کفن چور کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ حضرت عبد اللہ بن الزبیر (رض) ، حضرت عمر بن عبد العزیز (رض) ، شعبی، زہری، مسروق، حسن بصری، ابراہیم نخعی اور عطاء سے بھی اسی قسم کا قول منقول ہے۔ امام شافعی کا بھی یہی مسلک ہے۔- پہلے قول کی صحت کی دلیل یہ ہے کہ قبر حرز یعنی محفوظ جگہ نہیں ہوتی۔ اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر قبر میں دراہم وغیرہ مدفون ہوں اور انہیں کوئی چرا لے تو چور کے ہاتھ نہ کاٹنے پر سب کا اتفاق ہے کیونکہ وہ حرز یعنی محفوظ جگہ نہیں ہے۔ اس بنا پر کفن کی بھی یہی صورت ہونی چاہیے۔- اگر یہ کہا جائے کہ محفوظ جگہوں کی مختلف صورتیں ہوتی ہیں۔ سبزی فروش کی دکان پر بانس کی تیلیوں سے بنا ہوا پردہ یا چلمن دکان میں رکھی ہوئی چیزوں کے لئے حرز ہوتا ہے، اسی طرح اصطبل میں بندھے ہوئے جانوروں کے لئے اور مکان مال و متاع کے لئے حرز ہوتا ہے۔ جو چیزیں کسی کی حفاظت اور نگرانی میں ہوتی ہیں وہ شخص ان کے لئے حرز ہوتا ہے۔- اسی طرح ہر وہ چیز جس کے ذریعے عادۃً اشیاء کی حفاظت کی جاتی ہے وہ ان اشیاء کے لئے حرز ہوتی ہے۔ دوسری چیزوں کے لئے حرز نہیں ہوتی اس لئے اگر کوئی شخص اصطبل سے نقدی چرائے گا تو اس کا ہاتھ کاٹا نہیں جائے گا لیکن اگر مویشی چرائے گا تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا اس بنا پر قبر میت کے کفن کے لئے حرز ہوتی ہے اگرچہ وہ وہاں مدفون نقدی کے لئے حرز نہیں ہوگی۔- اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ دو وجوہ سے یہ بات غلط ہے اول تو اس لئے کہ حرز کی صورتیں اگرچہ کی نفسہ مختلف ہوتی ہیں لیکن وہاں رکھی ہوئی چیزوں کے لئے حرز ہونے کے لحاظ سے ان میں کوئی اختلاف نہیں ہوتا۔- اس لئے اگر اصطبل وہاں بندھے ہوئے مویشیوں کے لئے حرز ہے تو وہ وہاں رکھے ہوئے کپڑوں اور نقدی کے لئے بھی حرز ہے جس کی بنا پر وہاں سے کوئی بھی چیز چرانے والے کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا اسی طرح سبزی فروش کی دکان وہاں رکھی ہوئی تمام چیزوں یعنی سبزیوں، کپڑوں اور نقدی کے لئے حرز ہے۔- اس لئے یہ کہنا غلط ہے کہ اصطبل سے مویشی چرانے پر تو ہاتھ کاٹا جائے گا کیونکہ وہ ان کے لئے حرز ہے اور نقدی چرانے والے کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر معترض کا اٹھایا ہوا نکتہ درست ہوتا تو یہ کفن چور کے قطع ید کے ایجاب کو مانع ہوجاتا اس لئے کہ قبر اس مقصد کے لئے نہیں کھودی جاتی کہ وہ کفن کے لئے حرز بن جائے اور کفن وہاں محفوظ کردیا جائے۔ قبر تو میت کی تدفین اور اسے لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ کردینے کے لئے کھودی جاتی ہے۔- جہاں تک کفن کا تعلق ہے تو وہ بالآخر بوسیدہ ہو کر مٹی میں مل جاتا ہے۔ اس کی ایک اور دلیل بھی ہے وہ یہ کہ کفن کا کوئی مالک نہیں ہوتا، اس بات کی دلیل یہ ہے کہ کفن میت کے پورے مال سے تیار کیا جاتا ہے اس لئے نہ تو وہ کسی کی ملکیت ہوتا ہے اور نہ ہی کسی پر وقف۔ - جب کفن کا میت کے پورے مال سے تیار کیا جانا درست ہوتا ہے تو پھر اس سے یہ امر واجب ہوجاتا ہے کہ ورثاء اس کے مالک قرار نہ پائیں جس طرح انہیں میت کے رض میں ادا کی ہوئی ان رقوم کا مالک تصور نہیں کیا جاتا جن کی ادائیگی میت کے پورے مال سے ہوتی ہے۔- اس پر بات بھی دلالت کرتی ہے کہ میت کے قرض کی ادائیگی سے پہلے اس کا کفن تیار کرلیا جاتا ہے۔ جب اس کے ورثاء قرض میں ادا کی ہوئی رقم کے مالک نہیں ہوتے تو کفن کا ان کی ملکیت میں نہ ہونا بطریق اولیٰ ہوگا۔- جب ورثاء کفن کے مالک نہیں ہوتے اور میت کی ملکیت میں ہونا بھی محال ہے تو اس سے یہ بات ضروری ہوگئی کہ کفن چور کا ہاتھ نہ کاٹا جائے جس طرح بیت المال سے چوری کرنے والے نیز ایسی اشیاء کو چرانے والے کا ہاتھ نہیں کاٹا جاتا جن کے استعمال کی عام اجازت ہوتی ہے اور جن کا کوئی مالک نہیں ہوتا۔- اگر کوئی یہ کہے کہ کفن کے مطالبہ کے لئے وارث کے خلاف مقدمہ قائم کرنے کا جواز اس بات کی دلیل ہے کہ وارث اس کا مالک ہوتا ہے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ بیت المال سے چرائی ہوئی اشیاء کا امام المسلمین سے مطالبہ کرنا جائز ہوتا ہے لیکن امام المسلمین ان اشیاء کا مالک نہیں ہوتا۔- اس کا ایک اور پہلو بھی ہے وہ یہ کہ قبر کے اندر کفن بوسیدہ ہو کر تلف ہوجانے کے لئے رکھا جاتا ہے، ذخیرہ کرنے اور باقی رکھنے کے لئے نہیں رکھا جاتا۔ اس لئے اس کی حیثیت گوشت، روٹی اور پانی جیسی ہوگئی جو اشیائے صرف ہیں، نہ کہ ذخیرہ کی جانے والی چیزیں۔- آیا قبر کفن کے لئے حرز ہے ؟- اگر کوئی یہ کہے کہ قبر کفن کے لئے حرز ہے اس کی دلیل وہ روایت ہے جس کے راوی حضرت عبادہ بن الصامت (رض) ہیں۔ انہوں نے حضرت ابوذر (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (کیف انت اذا اصاب الناس موت یکون البیت فیہ بالوصیف، ابوذر (رض) تمہاری اس وقت کیا کیفیت ہوگی جب لوگوں کو موت اس طرح آ گھیرے گی کہ اس کے نتیجے میں قبر دہلیز پر ہی بن جائے گی) انہوں نے عرض کیا : ” اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں :“ اس پر ارشاد ہوا (علیک بالعلم اس وقت صبر کرنا تم پر لازم ہوگا)- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبر کو بیت کے نام سے موسوم کیا، نیر حماد بن ابی سلیمان کا قول ہے کہ کفن چور کا ہاتھ کاٹا جائے گا اس لئے کہ وہ میت کے گھر میں داخل ہوا، علاوہ ازیں امام مالک نے ابوالرحال سے روایت کی ہے، انہوں نے اپنی والدہ عمرہ (رض) سے نقل کیا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مختقی اور مختفیہ یعنی کفن چور مرد اور کفن چور عورت پر لعنت بھیجی ہے۔- نیز حضرت عائشہ (رض) نے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (من اختفی میتا فکانما قتلہ جس شخص نے میت کا کفن اتار لیا اس نے گویا اسے قتل کردیا) اہل لغت کا قول ہے کہ کفن چور کو مختفی کہا جاتا ہے۔- اس اعتراض کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجازاً قبر کو بیت یعنی مکان کے نام سے موسوم کیا ہے۔ اس لئے کہ اہل عرب کی لغت میں بیت کا اسم اس مکان کے لئے موضوع ہے جو ظاہراً زمین پر تعمیر کیا گیا ہو۔ اب قبر کو بیت کے نام سے موسوم کرنا تعمیر شدہ مکان کے ساتھ تشبیہ کے طور پر ہے۔- علاوہ ازیں چور کی قطع ید کا حکم اس امر کے ساتھ متعلق نہیں ہے کہ اس نے کسی گھر سے چوری کی ہے الایہ کہ وہ گھر اس میں رکھی ہوئی چیزوں اور سامان کے لئے حرز کے طور پر تعمیر کیا گیا ہو۔ ہم یہ بات بیان کر آئے ہیں کہ قبر حرز نہیں ہوتی۔ آپ نہیں دیکھتے کہ مسجد کو بیت کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔- ارشاد باری ہے (فی بیوت اذن اللہ ان ترفع ویذکر فیھا اسمہ) وہ ایسے گھروں میں ہیں جن کے لئے اللہ نے حکم دیا ہے کہ ان کا ادب کیا جائے اور ان میں اس کا نام لیا جائے) جب کوئی شخص مسجد میں کوئی چیز چرا لے جبکہ اس چیز کا محافظ وہاں موجود نہ ہو تو اس کا ہاتھ کاٹا نہیں جائے گا۔- نیز اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں کہ قبر میں دفن شدہ نقدی چرانے پر چور کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا اگرچہ قبر بیت کے نام سے موسوم ہے۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ چوری میں ہاتھ کاٹنے کی سزا کا تعلق اس امر سے نہیں ہے کہ اس نے کسی گھر سے چوری کی ہے۔- معترض نے دو حدیثوں کا حوالہ دیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ پہلی حدیث کے مطابق کفن چور پر لعنت کی گئی ہے اور لعنت کا سزاوار ہونا اس بات کی دلیل نہیں بن سکتا کہ اس کا ہاتھ کاٹنا بھی واجب ہے۔ اس لئے کہ غاصب، کاذب اور ظالم یہ سب کے سب لعنت کے سزاوار ہوتے ہیں لیکن ان کے ہاتھ کاٹ دینا واجب نہیں ہوات۔- اسی طرح دوسری حدیث (من اختفی میتا فکانما قتلہ) بھی قطع ید کی موجب نہیں ہے، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کفن چور کو قاتل کی طرح قرار دیا ہے۔ اگر اس حدیث کے مفہوم کو اس کے الفاظ کے حقیقی معنوں پر محمول کیا گیا تو پھر کفن چور کو قتل کردینا واجب ہوگا جبکہ اس بارے میں کوئی اختلاف رائے نہیں ہے اور قطع ید کے ساتھ اس کا کوئی تعلق بھی نہیں ہے۔- چور کا ہاتھ کس جگہ سے کاٹا جائے - قول باری ہے (والسارق والسارقۃ فاقطعوا ایدیھما) ید کے اسم کا اطلاق بازو پر کندھے تک ہوتا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت عمار (رض) نے قول باری (فامسحوا بوجوھکم و ایدیکم منہ) کی بنا پر کندھوں تک مسح کیا تھا۔ لغت کے لحاظ سے حضرت عمار نے کوئی غلط بات نہیں کی تھی، چونکہ اس بات کے خلاف سنت کا ورود ہوگیا تھا اس لئے یہ بات برقرار نہ رہ سکی۔- اس اسم کا اطلاق کف یعنی ہتھیلی کے جوڑ تک کے حصے پر بھی ہوتا ہے۔ قول باری ہے (اذا اخرج یدہ لم یکدا ھا۔ جب وہ اپنا ہاتھ نکالتا ہے تو قریب نہیں کہ اسے دیکھ لے) اس سے کہنی سے نیچے کا حصہ سمجھ میں آتا ہے۔- اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا (ادخل یدک فی حبیبک تخرج بیضاء من غیرہ سوء) اپنا ہاتھ گریبان میں داخل کرو وہ بلاکسی عیب کے روشن ہو کر نکلے گا) ید بات تو ممتنع ہے کہ آپ نے اپنا ہاتھ کہنیوں تک گریبان میں ڈالا ہوگا۔- اس پر قول باری (وایدیکم الی الموافق) بھی دلالت کرتا ہے۔ اگر ید کے اسم کا اطلاق کہنیوں سے نچلے حصے پر نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ بازوئوں کے سلسلے میں کہنیوں تک کے حصے کا ذکر نہ کرتا۔- اس میں یہ بھی دلیل ہے کہ ید کے اسم کا اطلاق کوع، یعنی انگوٹھے کی جانب بندوبست کے کنارے تک ہوتا ہے۔ جب ید کا اسم اس عضو یعنی بازو کو ہتھیلی کے جوڑ تک، کہنی تک نیز کندھے تک شامل ہوتا ہے تو لفظ کا عموم کندھے سے قطع ید کا مقتضی ہے۔ الایہ کہ کوئی دلیل قائم ہوجائے جو یہ بتاسکے کہ یہاں کندھے سے نیچے کا حصہ مراد ہے۔- یہاں یہ کہنا درست ہے کہ ید کا اسم جب کو ع یعنی انگوٹھے کی جانب بند کنارے تک کو شامل ہے اور یہ کہنا درست نہیں ہے کہ یہ ہاتھ کا ایک حصہ ہے بلکہ اس پر کسی قید کے بغیر ید کے اسم کا اطلاق ہوتا ہے اگرچہ اس اسم کا اطلاق کبھی اس کے اوپر کے حصے پر کہنی تک بھی ہوتا ہے اور کبھی کندھے تک۔- پھر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا (فاقطعوا ایدیھما) اصل کے اعتبار سے ہاتھ کاٹنے کی ممانعت تھی اس لئے جب ہم اسے ہتھیلی کے جوڑ سے کاٹ دیں گے تو آیت میں دیئے گئے حکم سے عہدہ برآ ہوجائیں گے۔ اور پھر کسی دلالت کے بغیر اس سے اوپر کے حصے کو کاٹ دینا ہمارے لئے جائز نہیں ہوگا۔- جس طرح کوئی شخص کسی سے کہے ” اعط ھذا رجالا “ (یہ چیز کچھ آدمیوں کو دے دو ) وہ شخص وہ چیز تین آدمیوں کو دے دے تو حکم پر عملدرآمد مکمل ہوجائے کیونکہ رجال کا اسم تین آدمیوں کو شامل تھا اگرچہ یہ تین سے زائد کو بھی شامل ہے۔- اگر کوئی یہ کہے کہ تیمم کے اندر بھی آپ پر یہ بات لازم آتی ہے کیونکہ ارشاد باری ہے (فامسحوا بوجوھکم و ایدیکم منہ) آپ نے تیمم کے مسئلے پر بحث کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب ید کا اسم بازو کو کہنی تک شامل ہے تو عموم اس کا مقتضیٰ ہوگا اور دلیل کے بغیر اس سے کم مراد نہیں لیا جائے گا۔- اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ دو مختلف باتیں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب اصل کے اعتبار سے ہاتھ کاٹنے کی ممانعت تھی پھر ید کے اسم کا اطلاق اس عضو پر ہتھیلی کے جوڑ تک نیز کہنی تک ہوتا تھا اس لئے شک کی بنا پر زائد حصے کا کاٹنا ہمارے لئے جائز نہیں ہوا۔- دوسری طرف چونکہ اصل کے اعتبار سے حدث ہوتا ہے طہارت نہیں ہوتی اور نماز کی اباحت کے لئے اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لئے حدث صرف اسی صورت میں زائل ہوگا جبکہ بازو کے اتنے حصے پر تیمم کیا جائے جس پر یقینی طور سے ید کے اسم کا اطلاق ہوتا ہے اور وہ صرف کہنی تک کا تیمم ہے۔- صدر اول سے سلف کے درمیان نیز فقہائے امصار کے مابین ہتھیلی کے جوڑ سے قطع ید کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ صرف خوارج نے اس سے اختلاف کیا تھا اور وہ کندھے سے قطع ید کرتے تھے اس لئے کہ ید کے اسم کا اطلاق کندھے تک ہوتا ہے۔ لیکن خوارج کا یہ اختلاف شاذ ہے اور کسی شمار و قطار میں نہیں ہے۔- محمد بن عبد الرحمٰن بن ثوبان نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک چور کا ہاتھ کو ع یعنی انگوٹھے کی جانب بنددست (گٹے) کے کنارے سے قطع کیا تھا۔- حضرت عمر (رض) اور حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ ان دونوں حضرات نے ہتھیلی کے جوڑ سے قطع ید کیا تھا۔ کلائی سے نیچے کے حصے پر ید کا اسم علی الاطلاق واقع نہیں ہوتا اس کی دلیل یہ قول باری ہے (فامسحوا بوجوھکم وایدیکم منہ) کوئی بھی اس کا قائل نہیں ہے کہ تیمم کرنے والا ہتھیلی کے جوڑ سے نچلے حصے تک کے تیمم پر اختصار کرے۔ البتہ اس سے اوپر کے حصے کے تیمم میں اختلاف ہے۔- چور کا پائوں کس جگہ سے کاٹا جائے - پائوں کس جگہ سے کاٹا جائے اس میں اختلاف رائے ہے۔ حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ انہوں نے ایک چور کا پائوں تلوے کے اس گہرے حصے سے کاٹ دیا تھا جو زمین سے نہیں لگتا ہے جسے ’ خصر القدم ‘ کہتے ہیں۔- صالح السمان نے کہا ہے کہ میں نے اس شخص کو دیکھا تھا جسے حضرت علی (رض) نے پائوں کاٹنے کی سزا دی تھی اس کے پائوں کی انگلیاں جڑ سے کٹی ہوئی تھیں، میں نے اس سے پوچھا ” یہ کس نے قطع کیا “ تو اس نے جواب میں کہا : ” سب سے اچھے انسان نے “ یعنی حضرت علی (رض) نے۔- ابو رزین کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس (رض) کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے۔ ” جو شخص ان لوگوں کو دیکھ چکا ہے کیا وہ پائوں اس طرح کاٹنے سے عاجز ہے جس طرح اس اعرابی نما انسان (حضرت علی (رض)) نے کاٹا ہے۔ اس نے پائوں کاٹا ہے اور کوئی غلطی نہیں کی، وہ پائوں کاٹتا ہے اور ایڑی کو چھوڑ دیتا ہے “۔- عطاء اور ابوجعفر سے بھی اسی طرح کا قول منقول ہے۔ حضرت عمر (رض) اور دوسرے حضرات سے منقول ہے کہ پائوں کو مفصل یعنی جوڑ سے کاٹ دیا جائے گا۔ فقہائے امصار کا بھی یہی قول ہے۔- قیاس اور نظر سے بھی اسی قول پر دلالت ہوتی ہے۔ وہ یہ کہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ قطع میں ہاتھ کو ہتھیلی کے ظاہری جوڑ سے کاٹا جائے گا یہ وہ حصہ ہے جو زند یعنی ہاتھ کے گٹے سے متصل ہوتا ہے۔ اسی طرح پائوں کاٹنے میں بھی یہ ضروری ہے کہ ظاہری جوڑ سے قطع کردیا جائے وہ حصہ ہے جو ٹخنے سے متصل ہوتا ہے۔- نیز جب سب کا اس پر اتفاق ہے کہ چور کے ہاتھ کا اتنا حصہ نہیں چھوڑا جائے گا جس کے ذریعے وہ کوئی چیز پکڑنے کے قابل ہوگا اسی لئے ہاتھ کی انگلیاں جڑ سے نہیں کاٹی گئیں کہ ہتھیلی کٹ جائے، اور وہ کوئی چیز پکڑنے کے قابل ہوجائے۔- اس لئے پائوں کاٹنے کے سلسلے میں اس کی ایڑی رہنے نہ دی جائے کہ پھر وہ چلنے پھرنے کے قابل نہ رہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہاتھ کاٹنے کی سزا اس لئے دی تاکہ اس کے لئے کسی چیز کو قابو اور پکڑنے یک گنجائش باقی نہ رہے پھر پائوں کاٹنے کا حکم اس لئے دیا کہ اسے چلنے سے روک دیا جائے اس بنا پر ایڑی کو باقی رکھنا جائز نہیں ہوگا جس کے سہارے وہ چل پھر سکے۔- جو لوگ پائوں کو اس جوڑ سے کاٹنے کے قائل ہیں جو قدم کی پشت پر ہے ان کا ذہن اس بارے میں اس طرف گیا ہے کہ پائوں کے اس جوڑ کی وہی حیثیت ہے جو ہاتھ کے اندر گٹے سے متصل جوڑ کی ہے۔- اس لئے کہ قدم کی پشت پر اس جوڑ اور پائوں کی انگلیوں کے جوڑ سے درمیان اس کے سوا اور کوئی جوڑ نہیں ہے جس طرح ہاتھ میں گٹے کے متصل جوڑ اور ہاتھ کی انگلیوں کے جوڑ کے درمیان اس کے سوا اور کوئی جوڑ نہیں ہے۔ جب قطع ید میں انگلیوں کے جوڑ سے قریب ترین جوڑ کو کاٹنا واجب ہے تو اس طرح پائوں کاٹنے میں انگلیوں کے جوڑ سے قریب ترین جوڑ سے کاٹنا واجب ہوگا۔- پہلا قول زیادہ واضح ہے۔ اس لئے کہ قدم کی پشت کا جوڑا اتنا واضح نہیں ہے جس قدر ٹخنے کا جوڑ واضح ہے یا جس طرح ہاتھ کے گٹے کا جوڑ واضح ہوتا ہے۔ جب ہاتھ کا وہ جوڑ کاٹنا واجب ہو پایا جو واضح ہوتا ہے تو پھر پائوں کے قطع کے لئے بھی ایسا ہی ہونا ضروری ہے۔- نیز جب قطع ید میں پورے ہاتھ کا احاطہ کرلیا جاتا ہے تو پھر پائوں کا احاطہ بھی ضروری ہے پھر ٹخنے کے جوڑ تک پائوں کی حیثیت وہی ہوتی ہے جو گٹے کے جوڑ تک ہتھیلی کی ہے۔ اس لئے قطع کے حکم کے لحاظ سے دونوں میں یکسانیت ہونی چاہیے۔- پائوں کاٹتے میں انگلیوں کو جڑوں سے کاٹ دینے پر اکتفا کرلینا، اس کے متعلق حضرت علی (رض) سے صحیح روایات کی صورت میں کسی بات کا ثبوت نہیں ہے۔ اس لئے کہ یہ ایک شاذ قول ہے اور اتفاق امت کے دائرے سے خارج ہے۔ نیز قیاس اور نظر کے بھی خلاف ہے۔- بایاں ہاتھ اور دائیں ٹانگ قطع کرنے کے مسئلے میں اختلاف رائے ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) ، حضرت علی (رض) اور حضرت عمر (رض) نیز حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ جب کوئی شخص پہلی دفعہ چوری کرے گا تو اس کا دایاں ہاتھ کاٹ دیا جائے گا اور اگر دو بارہ چوری کرے گا تو اس کی بائیں ٹانگ کاٹ دی جائے گی۔- حضرت عمر (رض) نے اس معاملہ میں حضرت علی (رض) سے مشورہ لینے کے بعد اپنے قول سے رجوع کر کے حضرت علی (رض) کا قول اختیار کرلیا تھا۔ اگر چور تیسری مرتبہ چوری کرے تو اسے قید میں ڈال دیا جائے گا۔ مزید کوئی عضو کاٹا نہیں جائے گا۔- امام ابو حنیفہ، امام ایو یوسف، امام محمد اور زفر کا یہی قول ہے۔ حضرت عمر (رض) سے ایک روایت یہ ہے کہ دایاں ہاتھ کاٹنے کے بعد بایاں ہاتھ کاٹا جائے گا اور اگر پھر چوری کرے گا تو دائیں ٹانگ کاٹ دی جائے گی، اگر اس کے بعد بھی اس جرم کا ارتکاب کرے گا تو اسے قید میں ڈال دیا جائے گا حتیٰ کہ توبہ کا اظہار کرے۔- حضرت ابوبکر (رض) سے بھی اسی قسم کی روایت منقول ہے۔ تاہم حضرت عمر (رض) سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے اس مسئلے میں حضرت علی (رض) کے قول کی طرف رجوع کرلیا تھا۔ امام مالک اور امام شافعی کا قول ہے کہ بائیں ٹانگ کے بعد بایاں ہاتھ کاٹا جائے گا اور اس کے بعد دائیں ٹانگ کاٹی جائے گی اور اگر اس کے بعد بھی وہ اس جرم کا ارتکاب کرے گا تو اس کی گردن ماری نہیں جائے گی۔- حضرت عثمان بن عفان، حضرت عبد اللہ بن عمر (رض) اور حضرت عمر بن عبد العزیز سے منقول ہے کہ ان حضرات نے چور کے دونوں ہاتھ اور دونوں پائوں کاٹنے کے بعد اس جرم کے اعادے پر اسے قتل کردیا تھا۔ سفیان نے عبد الرحمٰن بن القاسم سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) نے چوری کے بار بار ارتکاب پر ایک چور کا ہاتھ اور ٹانگ کاٹنے کے بعد دوسری ٹانگ کاٹنے کا ارادہ کیا اس پر حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ ” قطع میں سنت قطع ید ہے “۔- عبدالرحمٰن بن یزید نے جابر (رض) سے اور انہوں نے مکحول سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا تھا کہ ” ہاتھ اور پائوں کاٹنے کے بعد چور کا دوسرا ہاتھ نہ کاٹو۔ لیکن اسے مسلمانوں کی ایذا دہی سے باز رکھنے کے لئے قید خانے میں ڈال دو “۔ زہری کا قول ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) نے قطع ید کے سلسلے میں ہاتھ اور پائوں قطع کرنے کے بعد ارتکاب جرم کے اعادے کی صورت میں مزید کوئی عضو قطع نہیں کیا تھا۔- ابو خالد الاحمر نے حجاج سے، انہوں نے سماک سے اور انہوں نے اپنے بعض اصحاب سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے چور کی سزا کے متعلق صحابہ کرام سے مشورہ کیا تھا، سب کا اس پر اتفاق تھا کہ اس کا دایاں ہاتھ کاٹا جائے گا۔ اگر دوبارہ جرم کرے تو بائیں ٹانگ کاٹ دی جائے۔ اور اس کے بعد مزید کوئی عضو نہ کاٹا جائے۔- یہ روایت اس بات کی مقتضی ہے کہ صحابہ کرام کا اس پر اجماع ہوگیا ہے اور اس کے خلاف جانے کی گنجائش نہیں ہے۔ اس لئے کہ حضرت عمر (رض) نے جن حضرات سے مشورہ لیا تھا وہ حضرات اس حیثیت کے مالک تھے کہ ان کے ذریعے اجماع کا انعقاد ہوجاتا ہے۔- سفیان نے عبد الرحمٰن بن القاسم سے، انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) نے ہاتھ اور پائوں کاٹنے کے بعد دوسرا ہاتھ کاٹ دیا تھا، اس سزا کا تعلق اس حبشی سے ہے جو حضرت ابوبکر (رض) کے ہاں مہمان کے طور پر ٹھہرا ہوا تھا اس نے حضرت اسما (رض) کے زیورات چرا لئے تھے۔ - یہ مرسل روایت ہے، یہ دراصل ابن شہاب زہری کی روایت ہے جو انہوں نے عروہ سے کی ہے اور عروہ نے حضرت عائشہ (رض) سے کہ ایک شخص حضرت ابوبکر (رض) کی خدمت کرتا رہا۔ آپ نے اسے زکوٰۃ کی وصولی کے لئے جانے والے ایک شخص کے ساتھ کردیا اور انہیں اس شخص کے ساتھ اچھا برتائو کرنے کی نصیحت بھی کی۔- یہ شخص ایک ماہ باہر رہنے کے بعد حضرت ابوبکر (رض) کے پاس واپس آیا تو اس کا ہاتھ کٹا ہوا تھا، زکوٰۃ کی وصولی کے لئے جانے والے شخص نے اس کا ہاتھ کاٹ دیا تھا، حضرت ابوبکر (رض) کے استفسار پر اس نے بتایا کہ مصدق نے مجھے ایک فریضہ (زکوٰۃ کی رقم) میں خیانت کا مرتکب پا کر میرے ہاتھ کو کاٹ دیا۔- یہ سن کر حضرت ابوبکر (رض) کو بڑا غصہ آیا اور آپ نے فرمایا کہ میرے خیال میں وہ خود تیس سے زائد فرائض یعنی زکوٰۃ کی رقموں میں خیانت کا مرتکب ہوگا، بخدا اگر تو سچ کہہ رہا ہے تو میں ضرور اس سے تیرا قصاص لوں گا “ ، اس کے بعد اس شخص نے اسماء بنت عمیس کے زیورات چرا لئے اور حضرت ابوبکر (رض) نے اس پر قطع کی سزا جاری کردی۔- حضرت عائشہ (رض) نے اس روایت میں یہ بتایا ہے کہ مصدق نے جب اس شخص کے ہاتھ کاٹ دیئے تو حضرت ابوبکر (رض) نے دوسری مرتبہ چوری کرنے پر اسے قطع کی سزا دی، یہ بائیں ٹانگ کاٹنے کے سوا اور کوئی صورت نہیں ہوسکتی ہے۔ یہ صحیح روایت ہے اور قاسم کی روایت کی معارض نہیں ہے۔ اگر دونوں روایتوں میں تعارض فرض کرلیا جائے تو دونوں روایتیں ساقط ہوجائیں گی اور اس روایت کے ذریعے حضرت ابوبکر (رض) سے کوئی چیز ثابت نہیں ہوگی۔- اس طرح وہ روایتیں باقی رہ جائیں گی جنہیں ہم نے حضرت ابوبکر (رض) سے نقل کیا ہے اور اس صورت میں بائیں ٹانگ کاٹنے تک یہ سزا محدود رہے گی۔- اگر یہ کہا جائے کہ خاللد الخداء نے محمد بن حاطب سے روایت کی ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) نے ایک ہاتھ اور ٹانگ کاٹنے کے بعد دوسرا ہاتھ بھی کاٹ دیا تھا تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات چوری کی سزا کے سلسلے میں نہیں کہی گئی ہے ہوسکتا ہے کہ یہ واقعہ کسی قصاص سے تعلق رکھتا ہو۔- حضرت عمر (رض) سے بھی اسی طرح کی روایت ہے اس روایت کی بھی وہی توجیہ ہے جس کا ابھی ذکر کیا ہے۔ سلف کے اتفاق کی صورت میں جو چیز ہمارے سامنے آئی ہے وہ حد سرقہ میں ایک ہاتھ اور ایک پائوں کاٹنے تک سزا کو محدود رکھنے کی بات ہے۔- ان حضرات سلف سے اس کے خلاف جو روایتیں ہیں انہیں دو صورتوں پر محمول کیا جائے گا یا تو ان کے ذریعے ٹانگ کاٹنے کے بعد چوری کے اعادے پر ہاتھ کاٹنے کا واقعہ نقل ہوا ہے یا دونوں ہاتھ اور دونوں پائوں کاٹنے کی بات بیان ہوئی ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بیان نہیں ہوا کہ کسی کو یہ سزا چوری کی بنا پر دی گئی تھی۔ اس طرح ان روایتوں میں چوری کی سزا کے طور پر ہاتھ پائوں کاٹ دیئے جانے پر کوئی دلالت موجود نہیں ہے۔- دوسری صورت یہ ہے کہ جو حضرات سلف اس مسلک کے قائل تھے انہوں نے اس سے رجوع کرلیا تھا جس طرح حضرت عمر (رض) سے پہلے یہی قول منقول ہوا تھا اور پھر اس قول سے آپ کا رجوع بھی مروی ہوگیا۔- حضرت عثمان (رض) سے یہ منقول ہے کہ آپ نے ایک شخص کے دونوں ہاتھ اور دونوں پائوں کاٹنے کے بعد اس کی گردن بھی اڑا دی تھی لیکن اس روایت میں ہمارے مخالف کے قول پر کوئی دلالت موجود نہیں ہے اس لئے کہ اس روایت میں یہ ذکر نہیں ہے کہ حضرت عثمان (رض) نے حد سرقہ میں اسے یہ سزا دی تھی۔- عین ممکن ہے کہ آپ نے قصاص کے طور پر اسے یہ سزا دی ہو۔ ہمارے اصحاب کے قول کی صحت پر قول باری (فاقطعوا ایدیھما) دلالت کرتا ہے۔ ہم نے پہلے بیان کردیا ہے کہ ہاتھوں سے دائیں ہاتھ مراد ہیں۔- حضرت ابن مسعود (رض) ، حضرت ابن عباس (رض) ، حسن اور ابراہیم نخعی کی قرأت میں یہی الفاظ ہیں۔ جب آیت سارق اور سارقہ کے صرف ایک ایک ہاتھ کو شامل ہے تو اس پر اضافہ صرف توقیف یا اتفاق امت کے ذریعے جائز ہوسکتا ہے توقیف یعنی شریعت کی طرف سے اس کے متعلق کوئی رہنمائی موجود نہیں ہے۔ اور بائیں ٹانگ کاٹنے پر سب کا اتفاق ثابت ہوچکا ہے۔- لیکن تیسری مرتبہ چوری کرنے پر بایاں ہاتھ کاٹنے پر اختلاف پیدا ہوگیا ہے اس لئے اتفاق اور توقیف کی عدم موجودگی میں بایاں ہاتھ کاٹنا جائز نہیں ہوگا۔ اس لئے کہ حدود کا اثبات صرف ان ہی دو باتوں میں سے ایک کے ذریعے جائز ہوتا ہے۔ اس کی ایک اور دلیل بھی ہے وہ یہ کہ ایک ہاتھ کاٹنے کے بعد دوبارہ چوری کے ارتکاب پر بایاں پائوں کاٹ دینے پر امت کا اتفاق ہے۔- اس میں یہ دلیل موجود ہے کہ بایاں ہاتھ سرے سے قطع کے حکم کے تحت آتا ہی نہیں۔ اس لئے کہ دایاں ہاتھ کاٹنے کے بعد بائیں ہاتھ کو چھوڑ کر ٹانگ کاٹنے کی علت اور وجہ یہ ہے کہ دونوں ہاتھوں کی منفت سرے سے ختم نہ ہوجائے۔ اب اگر بائیں ٹانگ کاٹنے کے بعد تیسری مرتبہ چوری کرنے پر بایاں ہاتھ کاٹ دیا جائے تو اسی علت کی موجودگی کی بنا پر ایسا کرنا درست نہیں ہوگا اس لئے بایاں ہاتھ کاٹنا درست نہیں۔- ایک اور جہت سے اس پر غور کیجئے۔ وہ یہ کہ بایاں پائوں کاٹنے کے بعد دایاں پائوں اس لئے نہیں قطع کیا گیا کہ اس کی وجہ سے ایک شخص چلنے پھرنے کی منفعت سے یکسر محروم ہوجاتا ہے۔ اسی طرح دایاں ہاتھ کاٹنے کے بعد بایاں ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا اس لئے کہ اس کی وجہ سے ایک شخص چیزوں کو پکڑنے کی منفعت سے بالکلیہ محروم ہوجائے گا۔ پکڑنے کی منفعت کی وہی حیثیت ہے جو چلنے پھرنے کی منفعت کی ہے۔- ایک اور دلیل کی رو سے بھی ہمارے اصحاب کا قول درست ہے وہ یہ کہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ محارب کو خواہ مال لوٹنے کے سلسلے میں اس کا جرم کتنا بڑا کیوں نہ ہو، صرف ایک ہاتھ اور ایک پائوں کاٹنے کی سزا ملے گی اور اس سے زائد سزا اسے نہیں دی جائے گی تاکہ ہاتھ پائوں سے فائدہ اٹھانے کی سہولت سے وہ یکسر محروم نہ ہوجائے، اس لئے چور کو بھی ایک ہاتھ اور ایک پائوں کاٹنے کی سزا سے زائد سزا نہیں ملنی چاہیے خواہ بار بار چوری کے ارتکاب کی بنا پر اس کا جرم کتنا عظیم کیوں نہ ہوگیا ہو۔- اگر کوئی یہ کہے کہ قول باری (فاقطعوا ایدیھما) دونوں ہاتھ کاٹ دیئے جانے کا مقتضیٰ ہے۔ اور اگر اتفاق امت نہ ہوتا تو ہم دوسری مرتبہ چوری کرنے پر بائیں ہاتھ کو چھوڑ کر بائیں ٹانگ کاٹنے کے قائل نہ ہوتے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ معترض کا یہ کہنا درست نہیں ہے کہ آیت بایاں ہاتھ کاٹ دینے کی مقتضیٰ ہے۔- ہم اسے تسلیم نہیں کرتے اس لئے کہ آیت صرف ایک ہاتھ کاٹنے کی مقتضیٰ ہے۔ یہ بات اس طرح ثابت ہے کہ آیت میں جمع کے صیغے کی صورت میں ہاتھ کی اضافت دونوں مجرموں یعنی سارق اور سارقہ کی طرف کی گئی ہے۔ تثنیہ کی صورت میں اضافت نہیں ہوئی ہے۔ الفاظ کی یہ ترکیب چوری کرنے والے مرد اور چوری کرنے والی عورت میں سے ہر ایک کا ایک ایک ہاتھ کاٹنے کی مقتضیٰ ہے۔ پھر سب کا اس پر اتفاق ہے کہ ہاتھ سے دایاں ہاتھ مراد ہے۔- اس طرح گویا قول باری یہ ہوگیا ” فاقطعوا ایمانھا (ان دونوں کا دایاں ہاتھ کاٹ دو ) اس سے یہ بات غلط ہوگئی کہ آیت کے الفاظ میں بایاں ہاتھ بھی مراد ہے اور اس طرح بایاں ہاتھ قطع کرنے کے ایجاب پر آیت سے استدلال ساقط ہوجائے گا۔- علاوہ ازیں اگر آیت کے الفاظ میں اس مفہوم کا احتمال ہوتا جو معترض نے بیان کیا ہے تو اس صورت میں بھی امت کے اس اتفاق کی بنا پر کہ دایاں ہاتھ کاٹنے کے بعد دوسری مرتبہ چوری کے ارتکاب کی صورت میں بایاں پائوں کاٹا جائے گا، یہ دلالت موجود ہوتی کہ بایاں ہاتھ مراد ہی نہیں ہے اس لئے کہ یہ کسی طرح جائز نہیں کہ منصوص امر کو چھوڑ کر کسی اور امر کی طرف رجوع کرلیا جائے۔- جو لوگ دونوں ہاتھ اور دونوں پائوں یعنی اطراف کی قطع کے قائل ہیں ان کا استدلال اس روایت سے ہے جس کے راوی عبد اللہ بن رافع ہیں، انہیں حماد بن ابی حمید نے محمد بن المنکدر سے اس کی روایت کی ہے اور انہوں نے حضرت جابر (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک چور کو پکڑ کر لایا گیا آپ نے اس کا ہاتھ کاٹ دینے کا حکم دیا۔- پھر وہی شخص چوری کے الزام میں دوبارہ لایا گیا تو آپ نے اس کی ٹانگ کاٹنے کا حکم دیا۔ پھر وہی شخص تیسری مرتبہ اسی الزام میں لایا گیا آپ نے اس کا دوسرا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔ چوتھی دفعہ جب وہ لایا گیا تو آپ نے اس کی دوسری ٹانگ کٹوا دی اس طرح اس کے اطراف قطع کردیئے گئے۔- اس روایت کا ایک راوی حماد بن ابی حمید محدثین کے نزدیک ضعیف شمار ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں اس روایت میں اختصار ہے۔- اصل روایت وہ ہے جو ہمیں محمد بن بکر نے بیان کی، انہیں ابو دائود نے، انہیں محمد بن عبد اللہ بن عبید بن عقیل ہلالی نے، انہیں ان کے دادا نے مصعب بن ثابت بن عبد اللہ بن الزبیر سے، انہوں نے محمد بن المکندر سے، انہوں نے حضرت جابر بن عبد اللہ (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک چور کو پکڑ کر لایا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے قتل کردینے کا حکم دیا۔ لوگوں نے عرض کیا کہ اس نے صرف چوری کی ہے یہ قتل کیسے ہوسکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا : ” اچھا پھر اس کا ہاتھ کاٹ دو “۔- چنانچہ ہاتھ کاٹ دیا گیا، پھر وہی شخص دوسری مرتبہ اسی الزام میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس لایا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے قتل کرنے کا حکم دیا، لوگوں نے پھر عرض کیا کہ اس نے صرف چوری کی ہے، اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قطع کا حکم دیا۔ پھر وہی شخص تیسری مرتبہ لایا گیا تو آپ نے پھر اسے قتل کرنے کا حکم دیا، لیکن جب لوگوں نے اپنی بات پھر دہرائی تو آپ نے قطع کا حکم دیا۔ پھر وہ شخص چوتھی مرتبہ لایا گیا۔ آپ نے پھر اسے قتل کردینے کا حکم دیا لیکن لوگوں کی بات سن کر آپ نے قطع کا حکم دے دیا۔- جب سوء اتفاق سے پانچویں مرتبہ وہ شخص پکڑا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر اسے قتل کرنے کا حکم دیا۔ حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ ہم اس شخص کو لے گئے اور لے جا کر اسے قتل کردیا ۔ ابو معشر نے مصعب بن ثابت سے اس جیسے اسناد کے ساتھ یہ روایت کی ہے اور اس میں یہ اضافہ بھی ہے کہ ہم اسے لے کر مویشوں کے باڑے میں آ گئے اور اس پر مویشی کھول دیئے لیکن جب اس نے مویشوں کے سامنے اپنے کٹے ہوئے ہاتھ پیر ہلائے تو مویشی ڈر کر بھاگ نکلے اس پر ہم نے اس پر پتھروں کی بارش کردی یہاں تک کہ وہ مرگیا ۔ یزید بن سنان نے بھی اس واقعہ کی روایت کی ہے ، انہیں ہشام بن عروہ نے محمد بن المکندر سے اور انہوں نے حضرت جابر (رض) سے روایت کی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک چورکو پکڑکر لایا گیا ۔ آپ نے اس کا ہاتھ کٹوا دیا ، پھر دوبارہ اسی الزام میں وہ پکڑا گیا ۔ آپ نے اس مرتبہ اس کی ٹانگ کٹوا دی ، پھر تیسری مرتبہ وہ اسی الزام میں مآخوذ ہوا تو آپ نے اسے قتل کرنے کا حکم دے دیا۔- حماد بن سلمہ یوسف بن سعد سے ، انہوں نے حارث بن الحاطب سے اس کی روایت کی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں ایک شخص نے چوری کی ، آپ نے اسے قتل کردینے کا حکم دیا ، لوگوں نے عرض کی کہ اس نے صرف چوری کی ہے ، اس پر آپ نے اس کے قطع کا حکم صادر فرمایا چناچہ اس حکم پر عمل درآمد ہوگیا ۔ پھر اس شخص نے حضرت ابوبکر (رض) کے عہد خلافت میں چوری کی اور وہ پکڑا گیا آپ نے اس کے قطع کا حکم دیا ، پھر اس نے تیسری مرتبہ چوری کی اور قطع کی سزا پائی ، پھر اس نے چوتھی مرتبہ چوری کی اور سزا کے طور پر وہ اپنے ہاتھ پائوں سے محروم ہوگیا ۔ اس بدبخت نے پھر پانچویں مرتبہ چوری کی اور پکڑا گیا اس موقع پر حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا :” اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کے متعلق زیادہ علم تھا اسی لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے قتل کردینے کا حکم دیا تھا “ ۔ پھر آپ نے اسے قتل کرنے کا حکم دیا چناچہ اس کی گردن اڑا دی گئی ۔- ہم نے مصعب بن ثابت کی جس روایت کا ذکر کیا ہے وہ حماد بن ابی حمید کی روایت کی اصل ہے ، اس میں یہ ذکر ہے کہ آپ نے پہلی مرتبہ چوری کرنے پر ہی اس شخص کو قتل کردینے کا حکم دیا تھا جبکہ یہ بات واضح ہے کہ چوری کے ارتکاب پر کوئی شخص قتل کا سزا وار نہیں ہوتا ۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اس کے دونوں ہاتھ اور دونوں پائوں کی قطع اس سزا کے طورپر نہیں تھی ، جو حد سرقہ میں واجب ہوتی ہے بلکہ یہ سزا تشدید اور مثلہ کے طور پر تھی جس طرحق بیلہ عرینہ کے افراد کے متعلق مروی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان لوگوں کے ہاتھ پائوں کاٹنے اور ان کی آنکھوں میں سلائیاں پھیر کر انہیں پھوڑ دینے کا حکم دیا تھا حالانکہ ڈاکوئوں اور راہزنوں کی آنکھوں میں سلائیاں پھیرنا اس کے جرم کی سزا کا جز نہیں ہے۔ جب مثلہ یعنی ہاتھ پائوں اور ناک کان کاٹنے کا طریقہ منسو خ کردیا گیا تو اس کے ساتھ اس قسم کی سزا بھی منسوخ ہوگئی اور صرف ایک ہاتھ اور ایک ٹانگ کاٹنے تک سزا کو محدود کردینا واجب ہوگیا ۔ چاروں اعضاء کی قطع مثلہ کے طورپر تھی ، حد کے طور پر نہیں تھی اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ حضرت جابر (رض) کی روایت میں یہ مذکور ہے کہ لوگوں نے پہلے اس مجرم پر مویشی کھول دیے اور پھر پتھر برسا کر اس کا خاتمہ کردیا حالانکہ حد سرقہ میں سزا کی یہ صورت کبھی نہیں ہوتی ۔ مویشی کھول دیے اور پھر پتھر برسا کر اس کا خاتمہ کر دیاحالان کہ حد سرقہ میں سزا کی یہ صورت کبھی نہیں ہوتی۔- ان چیزوں کا بیان جن کے چرانے پر قطع ید نہیں ہوتا - ابو بکر جصاص کہتے ہیں کہ قول باری والسارق والسارقۃ فاقطعوا ایدیھما کا عموم ان تمام لوگوں کی تمام اشیاء کی چوری کے سلسلے میں قطع ید کو شامل ہے جن پر اسم سارق یا سارقہ کا اطلاق ہوسکتا ہو اس لیے کہ آیت اگرچہ چرائی ہوئی چیز کی مقدار کے لحاظ سے مجمل ہے لیکن اس پہلو سے یہ عموم ہے۔ البتہ سنت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، اقوال سلف اور فقہائے امصار کے اتفاق کی صورت میں یہ دلالت قائم ہوچکی ہے کہ یہ عموم مراد نہیں اور بہت سی اشیاء ہیں جنہیں چرانے والے پر سارق یا سارقہ کے اسم کا اطلاق ہوتا ہے لیکن ان کے چرانے پر قطع ید کی سزا نہیں ملتی تا ہم ان میں سے بہت سی چیزوں کے بارے میں فقہا کے مابین اختلاف رائے ہے۔- ان چیزوں کے متعلق اختلاف رائے کا ذکر - امام ابوحنیفہ اور امام محمد کا قول ہے کہ ہر ایسی چیز جو بہت جلد خراب ہوجانے والی ہو اس کے چرانے پر قطع ید نہیں ہوگی مثلاً کھجور ، انگور ، مختلف رس دار تر پھل ، گوشت ایسی خوردنی شے جو باقی نہ رہ سکے ، درختوں پر لگے ہوئے پھل اور گندم کی بالیوں میں موجود دانے خواہ ان کا کوئی محافظ موجود ہو یا نہ ہو۔ لکڑی چرانے پر کوئی قطع ید نہیں ، البتہ ساج یعنی ساکھو نیز بانس کی چوری پر قطع ید ہوگی ۔ مٹی چونے کا پتھر، چونا یا گج اور ہڑتال وغیرہ چرانے میں کوئی قطع ید نہیں ہے۔ اسی طرح پرندہ چرانے کا بھی یہی حکم ہے البتہ یاقوت اور زمرد کی چوری پر ہاتھ کاٹا جائے گا ۔ شراب اور آلات ملا ہی یعنی موسیقی اور اس قسم کے آلات کی چوری پر بھی کوئی قطع ید نہیں ۔ امام ابو یوسف کا قول ہے کہ ہر اس چیز کی چوری برقطع ہوگی جو حرز یعنی محفوظ جگہ میں رکھی ہوئی ہو مگر مٹی ، گیلی مٹی اور گوبر وغیرہ چرانے پر کوئی قطع ید نہیں ہوگی ۔ امام مالک کا قول ہے کہ پہاڑ میں رہنے والی بکری اور درختوں میں لگے ہوئے پھلوں میں کوئی قطع نہیں نہیں۔- البتہ جب یہی پھل کھلیان میں پہنچ جائیں اور انہیں کوئی چرالے تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا ۔ اسی طرح اگر کوئی شخص باہر پڑی ہوئی لکڑی چرا لے جس کی مالیت قطع ید کی حد کو پہنچی ہو تو اس صورت میں چور کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا ۔ امام شافعی کا قول ہے کہ درختوں سے لگے ہوئے پھلوں اور کھجور کے درخت کے گوندیا اندر کے سفید گودے کی چوری پر قطع ید نہیں ہوگی اس لیے کہ یہ محفوظ نہیں ہوتے لیکن اگر انہیں محفوظ مقام پر رکھ دیا گیا ہو تو پھر چور کا ہاتھ کاٹا جائے گا خواہ یہ کھجور تر حالت میں ہوں یا خشک ہوچکے ہوں ۔ عثمان البتی کا قول ہے کہ کسی شخص نے اگر درخت میں لگے ہوئے پھلوں کی چوری کی تو وہ چور ہوگا اور اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا ۔ اس پر ابوبکر جصاص تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ امام مالک ، سفیان ثوری اور حماد بن سلمہ نے یحییٰ بن سعید سے روایت کی ہے، انہوں نے محمد بن یحییٰ بن حبان سے کہ مروان نے ایک غلام کی قطع ید کا ارادہ کیا جس نے کھجور کے کچھ چھوٹے پودے چرا لیے تھے۔ اس پر حضرت رافع بن خدیج نے اس سے فرمایا کہ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے یہ سنا ہے کہ لا قطع فی ثمرو لا کثر پھل اور شگوفوں کی چوری پر کوئی قطع ید نہیں ہے۔ سفیان بن عینیہ نے یحییٰ بن سعید سے ، انہوں نے محمد بن حبان سے اور انہوں نے اپنے چچا واسع بن حبان سے اسی واقعے کی روایت کی ہے۔ اس روایت کی سند میں ابن عینیہ نے محمد بن حبان اور حضرت رافع کے درمیان واسع بن حبان کو داخل کر دای ہے۔ لیث بن سعد نے یحییٰ بن سعید سے اور انہوں نے محمد بن حبان سے اور انہوں نے اپنی پھوپھی سے اس واقعے کی روایت کی ہے۔- لیث نے اپنی روایت میں سند کے اندر محمد بن حبان اور حضرت رافع (رض) کے درمیان محمد بن حبان کی ایک پھوپھی کو داخل کردیا ہے جو مجہول الحال سے ہے۔ درا ور دی نے یحییٰ بن سعید سے ، انہوں نے محمد بن یحییٰ بن حبان سے ، انہوں نے ابو میمونہ سے اور انہوں نے حضرت رافع بن خدیج سے اور آپ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس جیسی روایت کی ہے ۔ در او دی نے محمد بن یحییٰ اور حضرت رافع (رض) کے درمیان ابو میمونہ کو داخل کردیا ۔ اگر واسع بن حبان کی کنیت ابو میمونہ ہو تو پھر یہ ابن عینیہ کی روایت کی سند کے مطابق ہوجائے گا اگر یہ واسع بن حبان کے علاوہ کئی اور صاحب ہوں تو پھر مجہول الحال ہوں گے ۔ تا ہم فقہاء نے اس روایت کو قبول کر کے اس پر عمل کیا ہے۔- اس لیے ان کے عمل پیرا ہونے کی بنا پر اس روایت کی حجیت ثابت ہوگئی جس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد ہے لا وصیۃ لوارث اس ارشاد کو نیز خریدار اور فروخت کنندہ کے اختلاف کے متعلق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد کو جب اہل علم نے قبول کرلیا تو ان کی حجیت ثابت ہوگئی اور ان پر عمل پیرا ہونا لازم ہوگیا ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد الا قطع فی ثمرد ولا کثر کے معنوں میں اہل علم کے درمیان اختلاف رائے سے ۔ اما م ابوحنیفہ اور امام محمد کا قول ہے کہ اس سے مراد ہے وہ پھل ہے جو جلد خراب ہوجاتا ہے۔ لفظ کا عموم ان تمام پھلوں کو شامل ہے جو باقی رہ جاتے ہوں یا جو باقی نہ رہ سکتے ہوں اور درخت سے گرجاتے ہوں ۔ ہم سب کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر پھل میں پختگی آ گئی ہو اور اب وہ جلد خراب ہونے والے نہ ہوں تو ایسے پھلوں کا چور قطع ید کا سزا وار ہوگا ۔ اس طرح حدیث کے عموم سے مذکورہ بالا پھلوں کی تخصیص ہوگئی۔- یہ حدیث ان پھلوں کو چرانے پر قطع ید کی نفی کی بنیاد بن گئی جو جلد خراب ہوجانے والے ہوں ۔ حسن نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا لا قطع فی طعام کھانے کی چیز چرانے سے قطع ید نہیں ہوگی یہ حدیث ہر قسم کے طعام کی چوری کی صورت میں ق طع ید کی نفی کرتی ہے تا ہم اس کے عموم سے ایسے طعام کی تخصیص کردی گئی ہے جو جلد خراب نہ ہوجاتا ہو ۔ یہ تخصیص دلیل کی بنا پر کی گئی ہے۔ امام ابو یوسف اور دوسرے حضرات جن کا ہم نے پہلے ذکر کیا ہے فرماتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قول لا قطع فی ثمود ولا کثر قطع ید کی نفی پر اس لیے دلالت کرتا ہے کہ وہاں حرز یعنی محفوظ جگہ نہیں ہوتی۔ لیکن اگر ان پھلوں کو محفوظ جگہ میں رکھ دیا جائے اور پھر انہیں کوئی چرا لے تو اس صورت میں چور کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا ، اور پھر ان پھلوں اور دوسری محفوظ چیزوں کا حکم یکساں ہوگا ۔- ابو بکر جصاص کہتے ہیں کہ یہ تخصیص بلا دلیل ہے اس بارے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قول ہے ولا کثر بھی ان پھلوں کو چرانے پر قطع ید کی نفی کی بنیاد پر ہے۔ اس لیے کہ لفظ کثر کے دو معنی بیان کیے گئے ہیں ۔ ایک تو جمالہ یعنی کھجور کے درخت پر لگے ہوئے چربی کی طرح سفید گوند یا کھجور کے اندر کا گودا اور دوسرے معنی میں کھجور کے چھوٹے چھوٹے پودے ۔ یہ لفظ ان دونوں معنوں پر محمول ہے۔ اگر اس سے پہلے معنی مراد ہوں یعنی جمار تو اس کے چرانے پر قطع ید کی نفی پر دلالت ہوگئی اس لیے کہ یہ جلد خراب ہوجاتا ہے ، پھر ان تمام پھلوں کے چرانے کے حکم کی بنیاد بن جائے گا جو اس کی طرح ہوں ۔ اگر اس سے دوسرے معنی مراد ہوں تو یہ لکڑی چرانے پر قطع ید کی نفی پر دلالت کرے گا اس طرح ہم اس لفظ کے دونوں معنوں پر عمل پیرا ہوجائیں گے۔- امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ ساکھو اور بانس کے سوا کسی اور لکڑی کے چرانے پر قطع ید نہیں ہے۔ آبنوس کی لکڑی کے متعلق امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ اس کے چور کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ساکھو۔ بانس اور آبنوس ( ایک قسم کی سخت اور کالے رنگ کی لکڑی ہے) دارالاسلام میں مال کی حیثیت رکھتے ہیں اس لیے یہ دوسرے اموال کی طرح ہوں گے۔ دارالاسلام میں پائے جانے والے ساکھو، بانس اور آبنوس کی مال قرار دینے کی وجہ یہ ہے کہ صحیح ملکیتیں وہ ہوتی ہیں جودارالاسلام میں پائی جائیں ۔ درالحراب میں پائی جانے والی ملکیت درست نہیں ہوتی اس لیے کہ دارالحراب دار الاباحت ہوتا ہے اور وہاں کے باشندوں کی ملکیتیں مباح ہوتی ہیں ۔ اس لیے دارالحراب میں کوئی چیز کسی کی ملکیت میں ہو یا مباح ہو اس کے حکم میں اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ اس لیے ان چیزوں کے دارالحراب میں مباح ہونے کا اعتبار ساقط ہوگیا اور اس بنا پر دارالسلام میں اس کے وجود کے حکم کا اعتبار کرلیا گیا ۔ جب دارالاسلام میں لکڑی کی یہ قسمیں دوسرے اموال کی طرح مال کی صورت میں پائی گئیں جو اصل کے اعتبار سے مسلمانوں کے اموال ہونے کی بنا پر مباح نہیں ہوتے تو پھر ان کی حیثیت بھی مسلمانوں کے مال کی طرح ہوگی اور ان کا چور قطع ید کا سزا وار ہوگا ۔- اگر یہ کہا جائے کہ کھجور کے درخت بھی اصل کے اعتبار سے غیر مباح ہوتے ہیں تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ بہت سی جگہوں میں کھجور کے درخت بھی اصل کے اعتبار سے مباح ہوتے ہیں جس طرح اور بہت سی جنسیں اصل کے لحاظ سے مباح ہوتی ہیں ۔ اگرچہ ان میں سے بعض قبضے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ متصل کردیے جانے کی بنا پر ملکیت میں آ جاتی ہیں ۔ عمرو بن شعیب نے اپنے والد سے اور انہوں نے عبد اللہ بن عمرو سے روایت کی ہے کہ قبیلہ مزنیہ کا ایک شخص حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور عرض کیا ۔ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ پہاڑ پر رہنے والی چور کے متعلق کیا فرماتے ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا :- ” یہ بکری اس چور کے ذمہ ہوگی اور اسے اس جیسی بکری بھرنا پڑے گی ، نیز اسزا بھگتنی ہوگی ۔ صرف ایسے مویشوں کی چوری پر قطع ید ہوگی جو اپنے باڑھے میں ہوں گے، جب وہ اپنے باڑھے میں ہوں گے اور کوئی شخص ان کی چوری کرلے اور ان کی مالیت ڈھال کی قیمت کو پہنچ جائے تو اس میں قطع ید ہوگی ۔ اور جس کی مالیت ڈھال کی قیمت کو نہیں پہنچے گی اسے چرانے کی صورت میں چور کو اس جیسا جانور تاوان میں دینا پڑے گا اور اسے سزا کے طور پر کوڑے بھی لگیں گے۔ - اس شخص نے عرض کیا : اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) درختوں پر معلق پھلوں کے چور کے متعلق آپ کیا فرماتے ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا :” چور کے ذمے یہ پھل ہوں گے اور اتنے ہی پھل اسے بھرنے ہوں گے اور اس کے ساتھ اسے سزا بھی دی جائے گی ۔ درختوں پر معلق پھلوں کی چوری میں کوئی قطع ید نہیں ہوگی البتہ ان پھلوں میں ق طع ید ہوگی جو کھلیان میں پہنچ ہوں گے۔ اگر کسی نے کھلیان سے ڈھال کی قیمت کے مساوی مالیت کے پھل چرائے ہوں گے تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا لیکن اگر پھل اتنی مالیت کے نہ ہوں گے تو اس صورت میں چور کو اتنے پھل تاوان میں بھرنے پڑیں گے اور سزا کے طور پر کوڑے بھی لگیں گے۔ حضرت رافع بن خدیج کی روایت کردہ حدیث میں پھلوں کی چوری کی صورت میں قطع ید کی یکسر نفی ہے اور حضرت عبد اللہ بن عمرو (رض) کی روایت کردہ حدیث میں صر ف ان پھلوں کو چرانے کی صورت میں قطع ید کا حکم ہے جو کھلیان میں پہنچ چکے ہوں ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد حتی یا ویہ الجرین جب تک وہ کھلیان میں پہنچ نہ جائیں کے اندر دو معنوں کا احتمال ہے ۔ ایک یہ کہ حزر یعنی محفو ظ جگہ میں پہنچ چکے ہوں ۔ دوسرے یہ کہ ان الفاظ کے ذریعے پھلوں کی پختگی کی حالت اور جلد خراب نہ ہونے کی کیفیت کا اظہار ہے۔ اس لیے کہ اکثر حالات میں پھل جب تک پختہ نہ ہوجائیں انہیں توڑ کر کھلیان میں نہیں لے جایا جاتا ، آپ کے الفاظ اس قول باری کی طرح ہیں واتوا حقہ یوم حصادہ اور فصل کی کٹائی کے دن اس کا حق ادا کرو۔- اللہ تعالیٰ نے اس سے کٹائی کا دن مراد نہیں لیا ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ فصل کی کٹائی کا وقت آ جائے۔ اسی طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے لا یقیل اللہ صلوۃ حائض الامجار اللہ اللہ تعالیٰ کسی حیض والی یعنی بالغ عورت کی نماز دوپٹہ کے بغیر قبول نہیں کرتا آپ نے یہ مراد نہیں لی ہے کہ حیض کا وجود ہو، بلکہ آپ نے بالغ ہوجانے کے بعد عورت کا حکم بیان فرمایا ہے۔ اسی طرح آپ کا ارشاد ہے اذا زنی الشیخ والشیخہ فار جموھما البتتۃ جب بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت زنا کا ارتکاب کریں تو انہیں ضرور رجم کر دو یہاں آپ نے عمر اور سن مراد نہیں لیا بلکہ احصان مراد لیا ہے۔ اسی طرح آپ کا ارشاد ہے فی خمس و عشرین بنت مخاض پچیس اونٹوں پر ایک بنت مخاص زکوٰۃ میں دی جائی گی یہاں آپ نے یہ مراد لی ہے کہ زکوٰۃ میں دیا جانے والا اونٹ کا مادہ بچہ ایک سال پورا کر کے دوسرے سال میں داخل ہوگیا ہو ۔ خواہ اس کی ماں دوسرا بچہ جننے کے لیے مخاض یعنی دروازہ میں مبتلا نہ بھی ہو ۔- آپ کے اس ارشاد کی وجہ سے کہ اکثر احوال میں اس کی ماں دوسرا بچہ جنم دینے کے قریب پہنچ چکی ہوتی ہے ۔ ٹھیک اسی طرح آپ کا ارشاد حتی یا ویہ البحرین بھی ہے۔ اس میں احتمال ہے کہ آپ نے اس سے پھلوں کی پختگی اور پکنے کے قریب پہنچ جانا مراد لیا ہو۔ اس بنا پر حضرت رافع بن خدیج (رض) کی روایت کردہ حدیث لا قطع فی ثمرو لا کثر کی تخصیص جائز نہیں ہوگی ۔ چونے کے پتھر وغیرہ چرانے پر ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا تو اس کی وجہ حضرت عائشہ (رض) کی یہ روایت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں تافہ یعنی معمولی چیز چرانے پر چورکا ہاتھ نہیں کاٹا جاتا تھا۔ اس بنا پر ہر وہ چیز جو معمولی ہوگی وہ اصل کے اعتبار سے مباح ہوگی اور اس کی چوری پر ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا ۔ ہڑتال ، گچ یعنی چونا اور چونے کا پتھر وغیرہ معمولی چیزیں ہیں جو اصل کے اعتبار سے مباح ہیں اس لیے اکثر لوگ ان چیزوں کو اپنی جگہ پڑا رہنے دیتے ہیں حالانکہ انہیں ان چیزوں کو اٹھا لے جانے کی قدرت ہوتی ہے۔ اس کے برعکس یاقوت اور جواہر معمولی چیزوں میں شمار نہیں ہوتے اگرچہ یہ بھی اصل کے لحاظ سے مباح ہوتے ہیں بلکہ یہ بہت قیمتی اور غیر معمولی ہوتے ہیں ، انہیں اپنی جگہ پڑا رہنے نہیں دیا جاتا بلکہ امکان کی صورت میں انہیں اٹھا لیا جاتا ہے اس لیے ان کی چوری پر قطع ید ہوگی ۔ اگرچہ اصل کے اعتبار سے مباح ہوتے ہیں جس طرح دوسرے تمام اموال کی چوری پر قطع ید ہوتی ہے۔ اس لیے قطع ید کی شرط دو اسباب کی بنا ختم ہوتی ہے ۔ ایک سبب تو یہ ہے کہ چرانی ہوئی چیز معمولی ہو اور دوسرے یہ کہ اصل کے اعتبار سے مباح ہو یعنی ہر کسی کے لیے اسے لے لینا جائز ہو ۔ نیز چونا اور چونے کا پتھر ایسی چیزیں ہیں جنہیں ذخیرہ کرلینا مقصود نہیں ہوتا بلکہ انہیں استعمال میں لا کر ختم کردینا مقصود ہوتا ہے۔ اس لیے ان چیزوں کی حیثیت روٹی اور گوشت وغیرہ جیسی ہوگئی جبکہ یاقوت اور اس جیسی چیزیں مال ہوتی ہیں ، انہیں ذخیرہ کرنا اور سنبھال کر رکھنا مقصو د ہوتا ہے جیسے سونا اور چاندی سنبھال کر رکھے جاتے ہیں۔- پرندوں کی چوری پر سزا - پرندے چرانے پر ہاتھ نہیں کاٹا جاتا اس کی وجہ وہ روایت ہے جو حضرت علی (رض) اور حضرت عثمان (رض) سے مروی ہے کہ پرندوں کی چوری میں ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا ۔ ان دونوں حضرات کے اس قول کی کسی صحابی نے مخالفت نہیں کی ۔ نیز پرندے اصل کے لحاظ سے مباح ہیں اس بنا پر یہ خشک گھاس اور لکڑی کی طرح ہیں۔- (آیت ہذا کی بقیہ تفسیر اگلی آیت کے ذیل میں)
(٣٨) چور مرد اور چور عورت کا دایاں ہاتھ کاٹا جائے یہ ان کی چوری کی سزا ہے اور یہ ان کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے گرفت ہے وہ چور کو سزا دینے میں غالب اور ہاتھ کاٹنے کا فیصلہ کرنے میں حکمت والا ہے۔- شان نزول : (آیت) ” والسارق والسارقۃ “۔ (الخ)- امام احمد وغیرہ نے عبدال بن عمر (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد مبارک میں ایک عورت نے چوری کی تو اس کا دایاں ہاتھ کاٹ دیا گیا، اس نے عرض کیا یا رسول اللہ میری توبہ کی گنجائش ہے، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، یعنی پھر جو شخص توبہ کرے اپنی زیادتی کے بعد “ (الخ) ۔
آیت ٣٨ (وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْٓا اَیْدِیَہُمَا) - یعنی چور کا ایک ہاتھ کاٹ دو ۔- (جَزَآءًً م بِمَا کَسَبَا) (نَکَالاً مِّنَ اللّٰہِ ط) - دیکھئے قرآن خود اپنی حفاظت کس طرح کرتا ہے اور کیوں چیلنج کرتا ہے کہ اس کلام پر باطل حملہ آور نہیں ہوسکتا کسی بھی جانب سے (حٰآ السجدہ : ٤٢) ۔ ذرا ملاحظہ کیجیے اس آیت کے ضمن میں غلام احمد پرویز صاحب کہتے ہیں کہ یہاں چور کا ہاتھ کاٹنے کا مطلب ہے کہ ایسا نظام وضع کیا جائے جس میں کسی کو چوری کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ یہ تو ہم بھی چاہتے ہیں کہ ایسا نظام ہو ‘ ریاست کی طرف سے کفالت عامہ کی سہولت موجود ہو تاکہ کوئی شخص مجبوراً چوری نہ کرے ‘ لیکن فاقْطَعُوْٓا اَیْدِیَہُمَا کے الفاظ سے جو مطلب پرویز صاحب نے نکالا ہے وہ بالکل غلط ہے۔ اور اگر فرض کرلیں کہ ایسا ہی ہے تو پھر (جَزَآءًًم بِمَا کَسَبَا) (یہ بدلہ ہے ان کی اپنی کمائی کا ) کی کیا تاویل ہوگی ؟ یعنی جو کمائی انہوں نے کی ہے اس کا بدلہ یہ ہے کہ ایک اچھا نظام قائم کردیا جائے ؟ اس کے بعد پھر (نَکَالاً مِّنَ اللّٰہِ ) کے الفاظ مزید آئے ہیں۔ نکال کہتے ہیں عبرتناک سزا کو۔ تو کیا ایسے نظام کا قائم کرنا اللہ کی طرف سے عبرتناک سزا ہوگی ؟ آپ نے دیکھا قرآن کے معانی و مفہوم کی حفاظت کے لیے بھی الفاظ کے کیسے کیسے پہرے بٹھائے گئے ہیں - دراصل حدودو تعزیرات کے فلسفے کو سمجھنا بہت ضروری ہے اور اس کے لیے لفظ نکال بہت اہم ہے۔ قرآن میں تعزیرات اور حدود کے سلسلے میں یہ لفظ اکثر استعمال ہوا ہے۔ یعنی اگر سزا ہوگی تو عبرت ناک ہوگی۔ اسلام میں شہادت کا قانون بہت سخت رکھا گیا ہے۔ ذرا سا شبہ ہو تو اس کا فائدہ ملزم کو دیا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے سزا کا نفاذ آسان نہیں۔ لیکن اگر تمام مراحل طے کر کے جرم پوری طرح ثابت ہوجائے تو پھر سزا ایسی دی جائے کہ ایک کو سزا ملے اور لاکھوں کی آنکھیں کھل جائیں تاکہ آئندہ کسی کو جرم کرنے کی ہمت نہ ہو۔ یہ فلسفہ ہے اسلامی سزاؤں کا۔ یہ درحقیقت ایک تسدید ( ) ہے جس کے سبب معاشرے سے برائی کا استیصال کرنا ممکن ہے۔ آج امریکہ جیسے (نام نہاد) مہذبّ معاشرے میں بھی آئے دن انتہائی گھناؤنے جرائم ہو رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ احتساب اور سزا کا نظام درست نہیں۔ لوگ جرم کرتے ہیں ‘ سزا ہوتی ہے ‘ جیل جاتے ہیں ‘ کچھ دن وہاں گزارنے کے بعد واپس آتے ہیں ‘ پھر جرم کرتے ہیں ‘ پھر جیل چلے جاتے ہیں۔ جیل کیا ہے ؟ سرکاری مہمان داری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے معاشروں میں جرائم روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں۔
سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :60 دونوں ہاتھ نہیں بلکہ ایک ہاتھ ۔ اور امت کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ پہلی چوری پر سیدھا ہاتھ کاٹا جائے گا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہدایت بھی فرمائی ہے کہ لا قطع علیٰ خَائنٍ ۔ اس سے معلوم ہوا کہ سرقہ کا اطلاق خیانت وغیرہ پر نہیں ہوتا بلکہ صرف اس فعل پر ہوتا ہے کہ آدمی کسی کے مال کو اس کی حفاظت سے نکال کر اپنے قبضہ میں کر لے ۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہدایت بھی فرمائی ہے کہ ایک ڈھال کی قیمت سے کم کی چوری میں ہاتھ نہ کاٹا جائے ۔ ایک ڈھال کی قیمت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بروایت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ دس درہم ، بروایت ابن عمر رضی اللہ عنہ تین درہم ، بروایت انس بن مالک رضی اللہ عنہ پانچ درہم اور بروایت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ایک چوتھائی دینار ہوتی تھی ۔ اسی اختلاف کی بنا پر فقہا کے درمیان کم سے کم نصاب سرقہ میں اختلاف ہوا ہے ۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک سرقہ کا نصاب دس درہم ہے اور امام مالک رحمہ اللہ امام شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ کے نزدیک چوتھائی دینار ۔ ( اس زمانہ کے درہم میں تین ماشہ ۱- ۱ ۵ رتی چاندی ہوتی تھی ۔ اور ایک چوتھا ئی دینار ۳ درہم کے برابر تھا ) ۔ ( پھر بہت سی چیزیں ایسی ہیں کہ جن کی چوری میں ہاتھ کاٹنے کی سزا نہ دی جائے گی ۔ مثلاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت ہے کہ لا قطع فی ثمرۃ ولا کثر ( پھل اور ترکاری کی چوری میں ہاتھ نہ کاٹا جائے ) ۔ لاقطع فی طعام ( کھانے کی چوری میں قطع ید نہیں ہے ۔ ) ۔ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے کہ لم یکن قطع السارق علی عھد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی الشئ التافہ ( حقیر چیزوں کی چوری میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہاتھ نہیں کاٹا جاتا تھا ) ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا فیصلہ ہے اور صحابہ کرام میں سے کسی نے اس سے اختلاف نہیں کیا کہ لا قطع فی الطیر ( پرندے کی چوری میں ہاتھ کاٹنے کی سزا نہیں ہے ) ۔ نیز سیدنا عمر و علی رضی اللہ عنہما نے بیت المال سے چوری کرنے والے کا ہاتھ بھی نہیں کاٹا اور اس معاملہ میں بھی صحابہ کرام میں سے کسی کا اختلاف منقول نہیں ہے ۔ ان مآخذ کی بنیاد پر مختلف ائمہ فقہ نے مختلف چیزوں کو قطع ید کے حکم سے مستثنٰی قرار دیا ہے ۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک ترکاریاں ، پھل ، گوشت ، پکا ہوا کھانا ، غلہ جس کا ابھی کھلیان نہ کیا گیا ہے ، کھیل اور گانے بجانے کے آلات وہ چیزیں ہیں جن کی چوری میں قطع ید کی سزا نہیں ہے ۔ نیز جنگل میں چرتے ہوئے جانوروں کی چوری اور بیت المال کی چوری میں بھی وہ قطع ید کے قائل نہیں ہیں ۔ اسی طرح دوسرے ائمہ نے بھی بعض چیزوں کو اس حکم سے مستثنٰی قرار دیا ہے ۔ لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ان چوریوں پر سرے سے کوئی سزا ہی نہ دی جائے گی ۔ مطلب یہ ہے کہ ان جرائم میں ہاتھ نہ کاٹا جائے گا ۔