Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

شکاری کتے اور شکار چونکہ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے نقصان پہنچانے والی خبیث چیزوں کی حرمت کا بیان فرمایا خواہ نقصان جسمانی ہو یا دینی یا دونوں ، پھر ضرورت کی حالت کے احکامات مخصوص کرائے گئے جیسے فرمان ہے آیت ( وَقَدْ فَصَّلَ لَكُمْ مَّا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ اِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ اِلَيْهِ ) 6 ۔ الانعام:119 ) یعنی تمام حرام جانوروں کا بیان تفصیل سے تمہارے سامنے آ چکا ہے یہ اور بات ہے کہ تم حالات کی بناء پر بےبس اور بےقرار ہو جاؤ ۔ تو اس کے بعد ارشاد ہو رہا ہے کہ حلال چیزوں کے دریافت کرنیوالوں سے کہدیجئے کہ تمام پاک چیزیں تم پر حلال ہیں ، سورہ اعراف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ صفت بیان فرمائی گئی ہے کہ آپ طیب چیزوں کو حلال کرتے ہیں اور خبیث چیزوں کو حرام کرتے ہیں ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ قبیلہ طلائی کے دو شخصوں حضرت عدی بن حاتم اور زید بن مہلہل نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ مردہ جانور تو حرام ہو چکا اب حلال کیا ہے؟ اس پر یہ آیت اتری ۔ حضرت سعید فرماتے ہیں یعنی ذبح کئے ہوئے جانور حلال طیب ہیں ۔ مقاتل فرماتے ہیں ہر حلال رزق طیبات میں داخل ہے ۔ امام زہری سے سوال کیا گیا کہ دوا کے طور پر پیشاب کا پینا کیسا ہے؟ جواب دیا کہ وہ طیبات میں داخل نہیں ۔ امام مالک سے پوچھا گیا کہ اس مٹی کا بیچنا کیسا ہے جسے لوگ کھاتے ہیں فرمایا و طیبات میں داخل نہیں اور تمہارے لئے شکاری جانوروں کے ذریعہ کھیلا ہوا شکار بھی حلال کیا جاتا ہے مثلاً سدھائے ہوئے کتے اور شِکرے وغیرہ کے ذریعے ۔ یہی مذہب ہے جمہور صحابہ تابعین ائمہ وغیرہ کا ۔ ابن عباس سے مروی ہے کہ شکاری سدھائے ہوئے کتے ، باز ، چیتے ، شکرے وغیرہ ہر وہ پرندہ جو شکار کرنے کی تعلیم دیا جا سکتا ہو اور بھی بہت سے بزرگوں سے یہی مروی ہے کہ پھاڑنے والے جانوروں اور ایسے ہی پرندوں میں سے جو بھی تعلیم حاصل کر لے ، ان کے ذریعہ شکار کھیلنا حلال ہے ، لیکن حضرت مجاہد سے مروی ہے کہ انہوں نے تمام شکاری پرندوں کا کیا ہوا شکار مکروہ کہا ہے اور دلیل میں آیت ( ۙوَمَا عَلَّمْتُمْ مِّنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِيْنَ تُعَلِّمُوْنَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللّٰهُ ۡ فَكُلُوْا مِمَّآ اَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلَيْهِ ۠ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ) 5 ۔ المائدہ:4 ) پڑھا ہے سعید بن جبیر سے بھی اسی طرح روایت کی گئی ہے ۔ ضحاک اور سدی کا بھی یہی قول ابن جریر میں مروی ہے ۔ حضرت ابن عمر فرماتے ہیں باز وغیرہ پرند جو شکار پکڑیں اگر وہ تمہیں زندہ مل جائے تو تم ذبح کر کے کھا لو ورنہ نہ کھاؤ ، لیکن جمہور علماء اسلام کا فتویٰ یہ ہے کہ شکاری پرندوں کے ذریعہ جو شکار ہو ، اس کا اور شکاری کتوں کے کئے ہوئے شکار کا ایک ہی حکم ہے ، ان میں تفریق کرنے کی کوئی چیز باقی نہیں رہتی ۔ چاروں اماموں وغیرہ کا مذہب بھی یہی ہے ، امام ابن جریر بھی اسی کو پسند کرتے ہیں اور اس کی دلیل میں اس حدیث کو لاتے ہیں کہ حضرت عدی بن حاتم نے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم سے باز کے کئے ہوئے شکار کا مسئلہ پوچھا تو آپ نے فرمایا جس جانور کو وہ تیرے لئے روک رکھے تو اسے کھا لے امام احمد نے سیاہ کتے کا کیا ہوا شکار بھی مستثنیٰ کر لیا ہے ، اس لئے کہ ان کے نزدیک اس کا قتل کرنا واجب ہے اور پالنا حرام ہے ، کیونکہ صحیح مسلم میں حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں نماز کو تین چیزیں توڑ دیتی ہیں ، گدھا ، عورت اور سیاہ کتا ۔ اس پر حضرت ابی نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیاہ کتے کی خصوصیت کی کیا وجہ ہے؟ تو آپ نے فرمایا شیطان ہے ۔ دوسری حدیث میں ہے کہ آپ نے کتوں کے مار ڈالنے کا حکم دیا پھر فرمایا انہیں کتوں سے کیا واسطہ؟ ان کتوں میں سے سخت سیاہ کتوں کو مار ڈالا کرو ۔ شکاری حیوانات کو جوارح اس لئے کہا گیا کہ جرح کہتے ہیں کسب اور کمائی کو ، جیسے عرب کہتے ہیں ( فلان جرح اہلہ خیرا ) یعنی فلاں شحص نے اپنی اہل کیلئے بھلائی حاصل کر لی اور عرب کہتے ہیں ( فلان لا جارح لہ فلاں ) شخص کا کوئی کماؤ نہیں ، قرآن میں بھی لفظ جرح کسب اور کمائی اور حاصل کرنے کے معنی میں آیا ہے فرمان ہے آیت ( وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّهَارِ ) 6 ۔ الانعام:60 ) یعنی دن کو جو بھلائی برائی تم حاصل کرتے ہو اور اسے بھی اللہ جانتا ہے ۔ اس آیت کریمہ کے اترنے کی وجہ ابن ابی حاتم میں یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کتوں کے قتل کرنے کا حکم دیا اور وہ قتل کئے جانے لگے تو لوگوں نے آکر آپ سے پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس امت کے قتل کا حکم آپ نے دیا ان سے ہمارے لئے کیا فائدہ حلال ہے؟ آپ خاموش رہے اس پر یہ آیت اتری ۔ پس آپ نے فرمایا جب کوئی شخص اپنے کتے کو شکار کے پیچھے چھوڑے اور بسم اللہ بھی کہے پھر وہ شکار پکڑ لے اور روک رکھے تو جب تک وہ نہ کھائے یہ کھا لے ۔ ابن جریر میں ہے جبرائیل نے حضور سے اندر آنے کی اجازت چاہی ، آپ نے اجازت دی لیکن وہ پھر بھی اندر نہ آئے تو آپ نے فرمایا اے قاصد رب ہم تو تمہیں اجازت دے چکے پھر کیوں نہیں آتے؟ اس پر فرشتے نے کہا ہم اس گھر میں نہیں جاتے ، جس میں کتا ہو ، اس پر آپ نے حضرت رافع کو حکم دیا کہ مدینے کے کل کتے مار ڈالے جائیں ، ابو رافع فرماتے ہیں ، میں گیا اور سب کتوں کو قتل کرنے لگا ، ایک بڑھیا کے پاس کتا تھا ، جو اس کے دامن میں لپٹنے لگا اور بطور فریاد اس کے سامنے بھونکنے لگا ، مجھے رحم آگیا اور میں نے اسے چھوڑ دیا اور آکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی آپ نے حکم دیا کہ اسے بھی باقی نہ چھوڑو ، میں پھر واپس گیا اور اسے بھی قتل کر دیا ، اب لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ جس امت کے قتل کا آپ نے حکم دیا ہے ، ان سے کوئی فائدہ ہمارے لئے حلال بھی ہے یا نہیں؟ اس پر آیت ( یسألونک ) الخ ، نازل ہوئی ۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ مدینے کے کتوں کو قتل کر کے پھر ابو رافع آس پاس کی بستیوں میں پہنچے اور مسئلہ دریافت کرنیوالوں کے نام بھی اس میں ہیں یعنی حضرت عاصم بن عذی حضرت سعید بن خیثمہ حضرت عمویمر بن ساعدرہ ۔ محمد بن کعب قرظی فرماتے ہیں کہ آیت کا شان نزول کتوں کا قتل ہے ( مکلبین ) کا لفظ ممکن ہے کہ ( علمتم ) کی ضمیر یعنی فاعل کا حال ہو اور ممکن ہے کہ جوارح یعنی مقتول کا حاصل ہو ۔ یعنی جن شکار حاصل کرنے والے جانوروں کو تم نے سدھایا ہو اور حالانکہ وہ شکار کو اپنے پنجوں اور ناخنوں سے شکار کرتے ہوں ، اس سے بھی یہ استدلال ہو سکتا ہے کہ شکاری جانور جب شکار کو اپنے صدمے سے ہی دبوچ کر مار ڈالے تو وہ حلال نہ ہوگا جیسے کہ امام شافعی کے دونوں قولوں میں سے ایک قول ہے اور علماء کی ایک جماعت کا خیال ہے ۔ اسی لئے فرمایا تم نے انہیں اس سے کچھ سکھا دیا ہو جو اللہ نے تمہیں لکھا رکھا ہے یعنی جب تم چھوڑو ، جائے ، جب تم روک لو رک جائے اور شکار پکڑ کر تمہارے لئے روک رکھے ۔ تاکہ تم جا کر اسے لے لو ، اس نے خود اپنے لئے اسے شکار نہ کیا ہو ، اس لئے اس کے بعد ہی فرمایا کہ جب شکاری جانور سدھایا ہوا ہو اور اس نے اپنے چھوڑنے والے کیلئے شکار کیا ہو اور اس نے بھی اس کے چھوڑنے کے وقت اللہ کا نام لیا ہو تو وہ شکار مسلمانوں کیلئے حلال ہے گو وہ شکار مر بھی گیا ہو ، اس پر اجماع ہے ۔ اس آیت کے مسئلہ کے مطابق ہی بخاری و مسلم کی یہ حدیث ہے کہ حضرت عبداللہ بن سلام نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اللہ کا نام لے کر اپنے سدھائے ہوئے کتے کو شکار پر چھوڑتا ہوں تو آپ نے فرمایا جس جانور کو وہ پکڑ رکھے تو اسے کھا لے اگرچہ کتے نے اسے مار بھی ڈالا ہو ، ہاں یہ ضرور ہے کہ اس کے ساتھ شکار کرنے میں دوسرا کتا نہ ملا ہو اس لئے کہ تو نے اپنے کتے کو اللہ کا نام لے کر چھوڑا ہے دوسرے کو بسم اللہ پڑھ کر نہیں چھوڑا میں نے کہا کہ میں نوکدار لکڑی سے شکار کھیلتا ہوں فرمایا اگر وہ اپنی تیزی کی طرف سے زخمی کرے تو کھا لے اور اگر اپنی چوڑائی کی طرف سے لگا ہو تو نہ کھا کیونکہ وہ لٹھ مارا ہوا ہے ، دوسری روایت میں یہ لفظ ہیں کہ جب تو اپنے کتے کو چھوڑے تو اللہ کا نام پڑھ لیا کر پھر وہ شکار کو تیرے لئے پکڑ رکھے اور تیرے پہنچ جانے پر شکار زندہ مل جائے تو تو اسے ذبح کر ڈال اور اگر کتے نے ہی اسے مار ڈالا ہو اور اس میں سے کھایا نہ ہو تو تو اسے بھی کھا سکتا ہے اس لئے کہ کتے کا اسے شکار کر لینا ہی اس کا ذبیحہ ہے اور روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ اگر اس نے کھا لیا ہو تو پھر اسے نہ کھا ، مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں اس نے اپنے کھانے کیلئے شکار نہ پکڑا ہو؟ یہی دلیل جمہور کی ہے اور حقیقتاً امام شافعی کا صحیح مذہب بھی یہی ہے کہ جب کتا شکار کو کھا لے تو وہ مطلق حرام ہو جاتا ہے اس میں کوئی گنجاش نہیں جیسا کہ حدیث میں ہے ۔ ہاں سلف کی ایک جماعت کا یہ قول بھی ہے کہ مطلقاً حلال ہے ۔ ان کے دلائل یہ ہیں ۔ سلمان فارسی فرماتے ہیں تو کھا سکتا ہے اگرچہ کتے نے تہائی حصہ کھا لیا ہو ، حضرت سعید بن ابی وقاص فرماتے ہیں کہ گو ایک ٹکڑا ہی باقی رہ گیا ہو پھر بھی کھا سکتے ہیں ۔ حضرت سعد بن ابی وقاض فرماتے ہیں گو دو تہائیاں کتا کھا گیا ہو پھر بھی تو کھا سکتا ہے ، حضرت ابو ہریرہ کا بھی یہی فرمان ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں جب بسم اللہ کہہ کر تو نے اپنے سدھائے ہوئے کتے کو شکار پر چھوڑا ہو تو جس جانور کو اس نے تیرے لئے پکڑ رکھا ہے تو اسے کھا لے کتے نے اس میں سے کھایا ہو یا نہ کھایا ہو ، یہی مروی ہے حضرت علی اور حضرت ابن عباس سے ۔ حضرت عطاء اور حضرت حسن بصری سے اس میں مختلف اقوال مروی ہیں ، زہری ربیعہ اور مالک سے بھی یہی روایت کی گئی ہے ، اسی کی طرف امام شافعی اپنے پہلے قول میں گئے ہیں اور نئے قول میں اسی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ حضرت سلمان فارسی سے ابن جریر کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کوئی شخص اپنے کتے کو شکار پر چھوڑے پھر شکار کو اس حالت میں پائے کہ کتے نے اسے کھا لیا ہو تو جو باقی ہو اسے وہ کھا سکتا ہے ۔ اس حدیث کی سند میں بقول ابن جریر نظر ہے اور سعید راوی کا حضرت سلمان سے سننا معلوم نہیں ہوا اور دوسرے ثقہ راوی اسے مرفوع نہیں کرتے بلکہ حضرت سلمان کا قول نقل کرتے ہیں یہ قول ہے تو صحیح لیکن اسی معنی کی اور مرفوع حدیثیں بھی مروی ہیں ، ابو داؤد میں ہے حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ سے وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ایک اعرابی ابو ثعلبہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس شکاری کتے سدھائے ہوئے ہیں ان کے شکار کی نسبت کیا فتویٰ ہے؟ آپ نے فرمایا جو جانور وہ تیرے لئے پکڑیں وہ تجھ پر حلال ہے ، اس نے کہا ذبح کر سکوں جب بھی اور ذبح نہ کر سکوں تو بھی؟ اور اگرچہ کتے نے کھا لیا ہو تو بھی؟ آپ نے فرمایا ہاں گو کھا بھی لیا ہو ، انہوں نے دوسرا سوال کیا کہ میں اپنے تیر کمان سے جو شکار کروں اس کا کیا فتویٰ ہے؟ فرمایا اسے بھی تو کھا سکتا ہے ، پوچھا اگر وہ زندہ ملے اور میں اسے ذبح کر سکوں تو بھی اور تیر لگتے ہی مر جائے تو بھی؟ فرمایا بلکہ گو وہ تجھے نظر نہ پڑے اور ڈھونڈنے سے مل جائے تو بھی ۔ بشرطیکہ اس میں کسی دوسرے شخص کے تیر کا نشان نہ ہو ، انہوں نے تیسرا سوال کیا کہ بوقت ضرورت مجوسیوں کے برتنوں کا استعمال کرنا ہمارے لئے کیسا ہے؟ فرمایا تم انہیں دھو ڈالو پھر ان میں کھا پی سکتے ہو ۔ یہ حدیث نسائی میں بھی ہے ابو داؤد کی دوسری حدیث میں ہے جب تو نے اپنے کتے کو اللہ کا نام لے کر چھوڑا ہو تو تو اس کے شکار کو کھا سکتا ہے گو اس نے اس میں سے کھا بھی لیا ہو اور تیرا ہاتھ جس شکار کو تیرے لئے لایا ہو اسے بھی تو کھا سکتا ہے ۔ ان دونوں احادیث کی سندیں بہت ہی اعلیٰ اور عمدہ ہیں اور حدیث میں ہے کہ تیرا سدھایا ہوا کتا جو شکار تیرے لئے کھیلے تو اسے کھا لے ، حضرت عدی نے پوچھا اگرچہ اس نے اس میں سے کھا لیا ہو فرمایا ہاں پھر بھی ، ان آثار اور احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ شکاری کتے نے شکار کو گو کھا لیا ہو تاہم بقیہ شکار شکاری کھا سکتا ہے ۔ کتے وغیرہ کے کھائے ہوئے شکار کو حرام نہ کہنے والوں کے یہ دلائل ہیں ۔ ایک اور جماعت ان دونوں جماعتوں کے درمیان ہے وہ کہتی ہے کہ اگر شکار پکڑتے ہی کھانے بیٹھ گیا تو بقیہ حرام اور اگر شکار پکڑ کر اپنے مالک کا انتظار کیا اور باوجود خاصی دیر گزر جانے کے اپنے مالک کو نہ پایا اور بھوک کی وجہ سے اسے کھا لیا تو بقیہ حلال ۔ پہلی بات پر محمول ہے حضرت عدی والی حدیث اور دوسری پر محمول ہے ابو ثعلبہ والی حدیث میں ۔ یہ فرق بھی بہت اچھا ہے اور اس سے دو صحیح حدیثیں بھی جمع ہو جاتی ہیں ۔ استاذ ابو المعالی جوینی نے اپنی کتاب نہایہ میں یہ تمنا ظاہر کی تھی کہ کاش کوئی اس بارہ میں یہ وضاحت کرے تو الحمد اللہ یہ وضاحت لوگوں نے کر لی ۔ اس مسئلہ میں ایک چوتھا قول بھی ہے وہ یہ کہ کتے کا کھایا ہوا شکار تو حرام ہے جیسا کہ حضرت عدی کی حدیث میں ہے ، اور شکرے وغیرہ کا کھایا ہوا شکار حرام نہیں اس لئے کہ وہ تو کھانے سے ہی تعلیم قبول کرتا ہے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ اگر پرند اپنے مالک کے پاس لوٹ آیا اور مار سے نہیں پھر وہ پر نوچے اور گوشت کھائے تو کھا لے ۔ ابراہیم نخعی ، شعبی ، حماد بن سلیمان یہی کہتے ہیں ان کی دلیل ابن ابی حاتم کی یہ روایت ہے کہ حضرت عدی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ہم لوگ کتوں اور باز سے شکار کھیلا کرتے ہیں تو ہمارے لئے کیا حلال ہے؟ آپ نے فرمایا جو شکاری جانور یا شکار حاصل کرنے والے خود شکار کرنے والے اور سدھائے ہوئے تمہارے لئے شکار روک رکھیں اور تم نے ان پر اللہ کا نام لے لیا ہو اسے تم کھا لو ۔ پھر فرمایا جسے کتے کو تو نے اللہ کا نام لے کر چھوڑا ہو وہ جس جانور کو روک رکھے تو اسے کھا لے میں نے کہا گو اسے مار ڈالا ہو فرمایا گو مار ڈالا ہو لیکن یہ شرط ہے کہ کھایا نہ ہو میں نے کہا اگر اس کتے کے ساتھ دوسرے کتے بھی مل گئے ہوں؟ تو؟ فرمایا پھر نہ کھا جب تک کہ تجھے اس بات کا پورا اطمینان نہ ہو کہ تیرے ہی کتے نے شکار کیا ہے ۔ میں نے کہا ہم لوگ تیر سے بھی شکار کیا کرتے ہیں اس میں سے کونسا حلال ہے؟ فرمایا جو تیر زخمی کرے اور تو نے اللہ کا نام لے کر چھوڑا ہو اسے کھا لے ، وجہ دلالت یہ ہے کہ کتے میں نہ کھانے کی شرط آپ نے بتائی اور باز میں نہیں بتائی ، پس ان دونوں میں فرق ثابت ہو گیا واللہ اعلم ۔ اللہ رب العزت فرماتا ہے کہ تم کھا لو جن حلال جانوروں کو تمہارے یہ شکاری جانور پکڑ لیں اور تم نے ان کے چھوڑنے کے وقت اللہ کا نام لے لیا ہو ۔ جیسے کہ حضرت عدی اور حضرت ابو ثعلبہ کی حدیث میں ہے اسی لئے حضرت امام احمد وغیرہ اماموں نے یہ شرط ضروری بتلائی ہے کہ شکار کیلئے جانور کو چھوڑتے وقت اور تیر چلاتے وقت بسم اللہ پڑھنا شرط ہے ۔ جمہوری کا مشہور مذہب بھی یہی ہے کہ اس آیت اور اس حدیث سے مراد جانور کے چھوڑنے کا وقت ہے ، ابن عباس سے مروی ہے کہ اپنے شکاری جانور کو بھیجتے وقت بسم اللہ کہہ لے ہاں اگر بھول جائے تو کوئی حرج نہیں ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ مراد کھانے کے وقت بسم اللہ پڑھنا ہے ۔ جیسے کہ بخاری و مسلم میں عمر بن ابو سلمہ کے ربیبہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا مروی ہے کہ اللہ کا نام لے اور اپنے داہنے ہاتھ سے اپنے سامنے سے کھا ۔ صحیح بخاری شریف میں حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا لوگ ہمارے پاس جو لوگ گوشت لاتے ہیں وہ نو مسلم ہیں ہمیں اس کا علم نہیں ہوتا کہ انہوں نے اللہ کا نام لیا بھی ہے یا نہیں؟ تو کیا ہم اسے کھا لیں آپ نے فرمایا تم خود اللہ کا نام لے لو اور کھا لو ۔ مسند میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم چھ صحابہ کے ساتھ کھانا تناول فرما رہے تھے کہ ایک اعرابی نے آ کر دو لقمے اس میں سے اٹھائے آپ نے فرمایا اگر یہ بسم اللہ کہہ لیتا تو یہ کھانا تم سب کو کافی ہو جاتا تم میں سے جب کوئی کھانے بیٹھے تو بسم اللہ پڑھ لیا کرے اگر اول میں بھول گیا تو جب یاد آ جائے کہدے دعا ( بسم اللہ اولہ و اخرہ ) یہی حدیث منقطع سند کے ساتھ ابن ماجہ میں بھی ہے ۔ دوسری سند سے یہ حدیث ابو داؤد ، ترمذی ، نسائی اور مسند احمد میں ہے اور امام ترمذی اسے حسن صحیح بتاتے ہیں ۔ جابربن صبیح فرماتے ہیں ۔ حضرت مثنی بن عبدالرحمن خزاعی کے ساتھ میں نے واسط کا سفر کیا ان کی عادت یہ تھی کہ کھانا شروع کرتے وقت بسم اللہ کہہ لیتے اور آخری لقمہ کے وقت دعا ( بسم اللہ اولہ اخرہ ) کہہ لیا کرتے اور مجھ سے انہوں نے فرمایا کہ خالد بن امیہ بن مخشی صحابی کا فرمان ہے کہ شیطان اس شخص کے ساتھ کھانا کھاتا رہتا ہے جس نے اللہ کا نام نہ لیا ہو جب کھانے والا اللہ کا نام یاد کرتا ہے تو اسے قے ہو جاتی ہے اور جتنا اس نے کھایا ہے سب نکل جاتا ہے ( مسند احمد وغیرہ ) اس کے راوی کو ابن معین اور نسائی تو ثقہ کہتے ہیں لیکن ابو الفتح ازوی فرماتے ہیں یہ دلیل لینے کے قابل راوی نہیں ۔ حضرت حذیفہ فرماتے ہیں ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے کہ ایک لڑکی گرتی پڑتی آئی ، جیسے کوئی اسے دھکے دے رہا ہو اور آتے ہی اس نے لقمہ اٹھانا چاہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ہاتھ تھام لیا اور ایک اعرابی بھی اسی طرح آیا اور پیالے میں ہاتھ ڈالا آپ نے اس کا ہاتھ بھی اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا اور فرمایا جب کسی کھانے پر بسم اللہ نہ کہی جائے تو شیطان اسے اپنے لئے حلال کر لیتا ہے وہ پہلے تو اس لڑکی کے ساتھ آیا تاکہ ہمارا کھانا کھائے تو میں نے اس کا ہاتھ تھام لیا پھر وہ اعرابی کے ساتھ میں نے اس کا بھی ہاتھ تھام لیا اس کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ شیطان کا ہاتھ ان دونوں کے ہاتھ کے ساتھ میرے ہاتھ میں ہے ( مسند ، مسلم ، ابو داؤد ، نسائی ) مسلم ، ابو داؤد ، نسائی اور ابن ماجہ میں ہے کہ جب انسان اپنے گھر میں جاتے ہوئے اور کھانا کھاتے ہوئے اللہ کا نام یاد کر لیا کرتا ہے تو شیطان کہتا ہے کہ اسے شیطانو نہ تو تمہارے لئے رات گزارنے کی جگہ ہے نہ اس کا کھانا اور جب وہ گھر میں جاتے ہوئے کھاتے ہوئے اللہ کا نام نہیں لیتا تو وہ پکار دیتا ہے کہ تم نے شب باشی کی اور کھانا کھانے کی جگہ پالی ۔ مسند ، ابو داؤد اور ابن ماجہ میں ہے کہ ایک شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں شکایت کی کہ ہم کھاتے ہیں اور ہمارا پیٹ نہیں بھرتا تو آپ نے فرمایا شاید تم الگ الگ کھاتے ہو گے کھانا سب مل کر کھاؤ اور بسم اللہ کہہ لیا کرو اس میں اللہ کی طرف سے برکت دی جائے گی ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

4۔ 1 اس سے وہ تمام چیزیں مراد ہیں جو حلال ہیں۔ ہر حلال طیب ہے اور ہر حرام خبیث۔ 4۔ 2 جوارح جارح کی جمع ہے جو کا سب کے معنی میں ہے۔ مراد شکاری کتا، باز، چیتا، شکرا اور دیگر شکاری پرندے اور درندے ہیں۔ مکلبین کا مطلب ہے شکار پر چھوڑنے سے پہلے ان کو شکار کے لیے سدھایا گیا ہو۔ سکھانے کا مطلب ہے جب اسے شکار پر چھوڑا جائے۔ تو دوڑتا ہوا جائے۔ جب روک دیا جائے تو رک جائے اور بلایا جائے تو واپس آجائے۔ 4۔ 3 ایسے سدھارے ہوئے جانوروں کا شکار کیا ہوا جانور دو شرطوں کے ساتھ حلال ہے۔ ایک یہ کہ اسے شکار کے لئے چھوڑتے وقت بسم اللہ پڑھ لی گئی ہو۔ دوسری یہ کہ شکاری جانور شکار کر کے اپنے مالک کے لئے رکھ چھوڑے اور اسی کا انتظار کرے، خود نہ کھائے۔ حتیٰ کے اگر اس نے مار بھی ڈالا ہو، تب بھی مقتول شکار شدہ جانور حلال ہوگا بشرطیکہ اس کے شکار میں سدھائے اور چھوڑے ہوئے جانور کے علاوہ کسی اور جانور کی شرکت نہ ہو (صحیح بخاری کتاب الذبائح والصید مسلم، کتاب الصید)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٢] ہر چیز کی اصل اباحت ہے :۔ اس آیت میں کھانے پینے کی اشیاء کی حلت و حرمت کے متعلق ایک عظیم الشان اصول دیا گیا ہے جسے فقہی زبان میں یوں ادا کیا جاتا ہے کہ ہر چیز کی اصل اباحت ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ کھانے پینے کی تمام اشیاء دو شرطوں کے ساتھ تمہارے لیے حلال ہیں ایک یہ کہ وہ چیز پاکیزہ اور صاف ستھری ہو گندی باسی۔ سڑی ہوئی اور بدبودار نہ ہو۔ دوسرے یہ کہ اس کے متعلق شریعت میں یہ صراحت نہ ہو کہ وہ حرام ہے اس طرح حرام اشیاء کا دائرہ بہت محدود ہوجاتا ہے اور حلال اشیاء کا دائرہ بہت وسیع ہوجاتا ہے۔ جبکہ اس آیت کے نزول سے پہلے عموماً یہی سمجھا جاتا تھا کہ حلال صرف وہ چیز ہوسکتی ہے جس کے متعلق شریعت میں واضح ثبوت موجود ہو۔ جیسا کہ اس آیت میں مسلمانوں کے یہی سوال کرنے سے بھی ظاہر ہوتا ہے اس آیت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے سابقہ نظریہ کو بدل کر اور حلال اشیاء کا دائرہ وسیع کر کے مسلمانوں پر احسان عظیم فرمایا ہے۔- [٢٣] شکار کے متعلق احکام :۔ شکاری جانوروں میں پرندے بھی شامل ہیں جیسے باز اور شکرا وغیرہ۔ یعنی کتا، چیتا، باز، شکرا جسے بھی یہ بات سکھائی گئی ہو کہ وہ شکار کو اپنے مالک کے لیے روک رکھے گا۔ خود اس میں سے کچھ نہ کھائے گا۔ اس آیت کی تشریح کے لیے درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے۔- ١۔ آپ نے فرمایا جب تم اپنے سدھائے ہوئے کتوں کو چھوڑو اور ان پر اللہ کا نام لو تو ان کا کیا ہوا شکار کھالو۔ (مسلم۔ کتاب الصید والذبائح۔ باب الصید۔ باب الصید بالکلاب المعلمۃ والرمی )- ٢۔ آپ نے فرمایا جب تم اپنا تیر چھوڑو تو بسم اللہ کہہ لو۔ (مسلم۔ ایضاً )- ٣۔ آپ نے فرمایا جب تم تیر چھوڑو اور شکار غائب ہوجائے تو جب ملے اسے کھا سکتے ہو بشرطیکہ سڑ نہ جائے۔ (مسلم۔ کتاب الصید والذبائح، باب اذاغاب عنہ الصید ثم وجدہ)- ٤۔ آپ نے فرمایا اگر تم شکار پر تیر چھوڑو۔ پھر اس شکار کو ایک یا دو دن کے بعد پاؤ۔ پھر دیکھو کہ اس پر تمہارے تیر کے علاوہ کوئی اور نشان نہیں تو اسے کھا سکتے ہو۔ اور اگر وہ شکار پانی میں گرپڑا ہو تو اسے مت کھاؤ۔ (بخاری۔ کتاب الذبائح والصید۔ باب الصید اذا غاب عنہ یومین اوثلاثہ)- ٥۔ سیدنا عبداللہ بن مغفل کہتے ہیں کہ آپ نے کنکری (پھینک کر شکار کرنے) سے منع فرمایا اور فرمایا کہ اس کے ذریعہ شکار نہ کیا جائے۔ (بخاری۔ کتاب الذبائح والصید۔ باب الخذف والبندقۃ۔ مسلم۔ کتاب الصید والذبائح۔ باب اباحۃ مایستعان بہ علی الاصطیاد)- ٦۔ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ہر چیز میں احسان کرنا فرض کردیا ہے لہذا جب تم کسی جاندار کو مارو یا ذبح کرو تو احسن طریقہ سے مارو (یعنی اپنی چھری وغیرہ کو خوب تیز کرلو۔ تاکہ اس مذبوحہ جانور کو کم سے کم تکلیف ہو) (مسلم۔ کتاب الصید والذبائح۔ باب الامر باحسان الذبح والقتل )

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

يَسْـــَٔلُوْنَكَ مَاذَآ اُحِلَّ لَهُمْ ۭ۔۔۔۔ چوپاؤں کا حکم تو فرما دیا، پھر لوگوں نے اور چیزوں کے متعلق پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے دین کا ایک عظیم الشان اصول بیان فرما دیا، جسے فقہی زبان میں یوں ادا کیا جاتا ہے : ” ہر چیز کی اصل اباحت ہے۔ “ یعنی کھانے پینے کی تمام طیبات یعنی ستھری چیزیں حلال ہیں، سو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو چیزیں حرام فرمائیں معلوم ہوا وہ ستھری نہیں، جیسے کچلی والے درندے اور پنجے سے شکار کرنے والے پرندے، یا جن کا نام لے کر حرام قرار دے دیا، باقی سب حلال ہیں۔ اس قاعدے سے حرام اشیاء کا دائرہ تنگ ہوگیا اور حلال اشیاء کا دائرہ وسیع ہوگیا۔ - وَمَا عَلَّمْتُمْ مِّنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِيْنَ ۔۔ : شکاری جانور سے ہر وہ درندہ اور پرندہ مراد ہے جسے شکار کے لیے رکھا اور سدھایا جاتا ہے، مثلاً کتا، چیتا، باز اور شکرا وغیرہ اور اس کے ” سدھائے ہوئے “ ہونے کی علامت یہ ہے کہ وہ شکار پر چھوڑا جائے تو اسے اپنے مالک کے لیے پکڑ کر رکھے، اگر وہ خود شکار پکڑ کر کھانے لگے تو وہ شکار کھانا درست نہیں اور یہی معنی (مِمَّآ اَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ ) کے ہیں۔ عدی بن حاتم (رض) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ مسئلہ پوچھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جب تم اپنے سدھائے ہوئے کتے کو چھوڑو اور اللہ کا نام لو تو جو شکار وہ تمہارے لیے پکڑے اسے کھالو۔ “ میں نے کہا : ” خواہ وہ اسے قتل کر دے ؟ “ فرمایا : ” خواہ وہ اسے قتل کر دے، بشرطیکہ قتل میں کوئی ایسا کتا شریک نہ ہو جو ان میں سے نہ ہو، کیونکہ تم نے اپنے کتے کو چھوڑتے وقت اللہ کا نام لیا ہے، کسی دوسرے پر نہیں لیا۔ “ [ بخاری، الذبائح والصید، باب صید المعراض : ٥٤٧٦ ]- عدی بن حاتم (رض) ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جب تم اپنا کتا چھوڑو اور وہ تمہارے لیے پکڑ کر رکھے اور اسے زندہ پالو تو اسے ذبح کرلو اور اگر تم اسے پاؤ کہ اس نے قتل کردیا ہے لیکن اسے خود نہیں کھایا تو پھر تم اسے کھالو، کیونکہ کتے کا اسے پکڑنا ہی ذبح کرنا ہے۔ “ [ بخاری، الذبائح والصید، باب التسمیۃ علی الصید : ٥٤٧٥ ]- وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ یعنی اگر حلال ہونے کی کوئی شرط کم ہے تو شکار کھانے کے شوق میں اللہ سے بےخوف ہو کر اسے مت کھاؤ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ربط آیات - پہلی آیات میں حلال و حرام جانوروں کا ذکر تھا۔ اس آیت میں اسی معاملہ کے متعلق ایک سوال کا جواب ہے۔ بعض صحابہ کرام نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شکاری کتے اور باز سے شکار کرنے کا حکم دریافت کیا تھا، اس آیت میں اس کا جواب مذکور ہے۔- خلاصہ تفسیر - لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ (کُتے اور باز کے شکار کئے ہوئے جانوروں میں سے) کیا کیا جانور ان کے لئے حلال کئے گئے ہیں (یعنی جتنے حلال شکار ذبح سے حلال ہوجاتے ہیں۔ کیا کتے اور باز کے شکار کرنے سے وہ سب حلال رہتے ہیں یا ان میں سے کچھ مخصوص جانور حلال ہوتے ہیں یا مطلقاً کوئی حلال نہیں ہوتا اور جو حلال ہوتے ہیں تو کیا اس کے لئے کچھ شرط بھی ہے) آپ (جواب میں) فرما دیجئے کہ تمہارے لئے کل حلال جانور (جو از قسم شکار پہلے سے حلال ہیں، وہ سب کتے اور باز کے ذریعہ شکار کرنے سے بھی) حلال رکھے گئے ہیں (یہ سوال کے پہلے جز کا جواب ہے، آگے دوسرے جز کا جواب یہ ہے کہ کتے اور باز کے شکار حلال ہونے کے لیے کچھ شرائط ہیں وہ کہ) جن شکاری جانوروں کو (مثلاً کُتا، باز وغیرہ) تم (خاص طور پر جس کا بیان آگے آتا ہے) تعلیم دو (یہ ایک شرط ہے) اور تم ان کو (شکار پر) چھوڑو بھی (یہ دوسری شرط ہے) اور ان کو (جو تعلیم دینا اوپر ذکر کیا گیا ہے) اس طریقہ سے تعلیم دو جو تم کو اللہ نے (شریعت میں) تعلیم دی ہے (وہ طریقہ یہ ہے کہ کتے کو تو یہ تعلیم دی جائے کہ شکار پکڑ کر کھاوے نہیں، اور باز کو یہ تعلیم دی جائے کہ جب اس کو بلاؤ اگرچہ وہ شکار کے پیچھے جا رہا ہو فوراً واپس آجائے یہ شرط اول کا بیان ہے) تو ایسے شکاری جانور جس شکار کو تمہارے لئے پکڑیں اس کو کھالو۔ (یہ تیسری شرط ہے جس کی علامت طریقہ تعلیم میں بیان ہوچکی ہے، سو اگر کتا اس شکار کو کھانے لگے یا باز بلانے سے واپس نہ آئے تو سمجھا جائے گا کہ جب یہ جانور اس کے کہنے میں نہیں تو انہوں نے شکار بھی اس کے لئے نہیں پکڑا بلکہ خود اپنے لئے پکڑا ہے) اور (جب شکار پر اس شکاری جانور کو چھوڑنے لگو تو) اس (جانور) پر (یعنی اس کے چھوڑنے کے وقت) اللہ کا نام بھی لیا کرو۔ (یعنی بسم اللہ پڑھ کر چھوڑو۔ یہ چوتھی شرط ہے) اور (تمام امور میں) اللہ سے ڈرتے رہا کرو (مثلاً شکار میں ایسے منہمک مت ہو کہ نماز وغیرہ سے غفلت ہوجاوے یا اتنی حرص مت کرو کہ شرائط حلت کے بغیر بھی اس جانور کو کھا جاؤ) بیشک اللہ تعالیٰ جلدی حساب لینے والے ہیں۔- معارف و مسائل - مذکور الصدر جواب وسوال میں شکاری کتے اور باز وغیرہ کے ذریعہ شکار حلال ہونے کے لئے چار شرطیں ذکر کی گئی ہیں :۔- اول یہ کہ کتا یا باز سکھایا اور سدھایا ہوا ہو اور سکھانے سدھانے کا یہ اصول قرار دیا ہے کہ جب تم کتے کو شکار پر چھوڑو تو وہ شکار پکڑ کر تمہارے پاس لے آئے۔ خود اس کو کھانے نہ لگے۔ اور باز کے لئے یہ اصول مقرر کیا کہ جب تم اس کو واپس بلاؤ تو وہ فوراً آجائے اگرچہ وہ شکار کے پیچھے جا رہا ہو۔ جب یہ شکاری جانور ایسے سدھ جائیں تو اس سے ثابت ہوگا کہ وہ جو شکار کرتے ہیں تمہارے لئے کرتے ہیں اپنے لئے نہیں، اب ان شکاری جانوروں کا شکار خود تمہارا شکار سمجھا جائے گا۔ اور اگر کسی وقت وہ اس تعلیم کے خلاف کریں مثلاً کتا خود شکار کو کھانے لگے یا باز تمہارے بلانے پر واپس نہ آئے تو یہ شکار تمہارا نہیں رہا۔ اس لئے اس کا کھانا جائز نہیں۔- دوسری شرط یہ ہے کہ تم فوراً اپنے ارادہ سے کتے کو یا باز کو شکار کے پیچھے چھوڑو۔ یہ نہ ہو کہ وہ خود بخود کسی شکار کے پیچھے دوڑ کر اس کو شکار کرلیں۔ آیت مذکورہ میں اس شرط کا بیان لفظ مکلبین سے کیا گیا ہے۔ یہ لفظ دراصل تکلیب سے مشتق ہے، جس کے اصلی معنی کتوں کو سکھلانے کے ہیں۔ پھر عام شکاری جانوروں کو سکھلانے اور شکار پر چھوڑنے کے معنی میں بھی استعمال ہونے لگا۔ صاحب جلالین اس جگہ مکلبین کی تفسیر ارسال سے کرتے ہیں جس کے معنی ہیں شکار پر چھوڑنا۔ اور تفسیر قرطبی میں بھی یہ قول نقل کیا گیا ہے۔ تیسری شرط یہ ہے کہ شکاری جانور شکار کو خود نہ کھانے لگیں بلکہ تمہارے پاس لے آئیں۔ اس شرط کا بیان (مما امسکن علیکم) سے ہوا ہے۔ - چوتھی شرط یہ ہے کہ جب شکاری کتے یا باز کو شکار پر چھوڑو تو بسم اللہ کہہ کر چھوڑو جب یہ چاروں شرطیں پوری ہوں تو اگر جانور تمہارے پاس آنے تک دم توڑ چکا ہو تو بھی حلال ہے ذبح کرنے کی ضرورت نہیں۔ ورنہ بغیر ذبح کے تمہارے لئے حلال نہ ہوگا۔ - امام اعظم ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ کے نزدیک ایک پانچویں شرط یہ بھی ہے کہ یہ شکاری جانور شکار کو زخمی بھی کر دے۔ اس شرط کی طرف لفظ جوارح میں اشارہ موجود ہے۔- مسئلہ، یہ حکم ان وحشی جانوروں کا ہے جو اپنے قبضہ میں نہ ہوں، اور اگر کسی وحشی جانور کو اپنے قابو میں کرلیا گیا ہے تو وہ بغیر قاعدہ ذبح کے حلال نہیں ہوگا۔ - آخر آیت میں یہ ہدایت بھی کردی گئی ہے کہ شکاری جانور کے ذریعہ اللہ تعالیٰ جل شانہ نے حلال تو کردیا ہے، مگر شکار کے پیچھے لگ کر نماز اور ضروری احکام شرعیہ سے غفلت برتنا جائز نہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يَسْـــَٔلُوْنَكَ مَاذَآ اُحِلَّ لَہُمْ۝ ٠ۭ قُلْ اُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبٰتُ۝ ٠ۙ وَمَا عَلَّمْتُمْ مِّنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِيْنَ تُعَلِّمُوْنَہُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللہُ۝ ٠ۡفَكُلُوْا مِمَّآ اَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللہِ عَلَيْہِ۝ ٠۠ وَاتَّقُوا اللہَ۝ ٠ۭ اِنَّ اللہَ سَرِيْعُ الْحِسَابِ۝ ٤- سأل - السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. - ( س ء ل ) السؤال - ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔- ( ماذا)- يستعمل علی وجهين :- أحدهما .- أن يكون ( ما) مع ( ذا) بمنزلة اسم واحد، والآخر : أن يكون ( ذا) بمنزلة ( الذي) ، فالأوّل نحو قولهم : عمّا ذا تسأل ؟ فلم تحذف الألف منه لمّا لم يكن ما بنفسه للاستفهام، بل کان مع ذا اسما واحدا، وعلی هذا قول الشاعر : دعي ماذا علمت سأتّقيه أي : دعي شيئا علمته . وقوله تعالی:- وَيَسْئَلُونَكَ ماذا يُنْفِقُونَ [ البقرة 219] ، فإنّ من قرأ : قُلِ الْعَفْوَ بالنّصب فإنّه جعل الاسمین بمنزلة اسم واحد، كأنّه قال : أيّ شيء ينفقون ؟ ومن قرأ : قُلِ الْعَفْوَ بالرّفع، فإنّ ( ذا) بمنزلة الذي، وما للاستفهام أي : ما الذي ينفقون ؟ وعلی هذا قوله تعالی: ماذا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ ؟ قالُوا : أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ النحل 24] ، و (أساطیر) بالرّفع والنصب - ( ماذا ) اور ماذا ، ، بھی دو طرح استعمال ہوتا ہے ۔ اول یہ کہ ، ، مازا کے ساتھ مل کر بمنزلہ ایک اسم کے ہو ۔ دوم یہ کہ ذا لذی کے ہو ( ما بمعنی اول یہ کہ ماذا ، ، کے ساتھ مل کر بمنزلہ ایک اسم کے ہو ۔ دوم یہ کہ ذا بمنزلہ الذی کے ہو ( ما بمعنی ای شئی کے ہو پہلی قسم کی مثال جیسے : عما ذا تسال کہ کسی چیز کے بارے میں سوال کرتے ہو اس صورت میں چونکہ ، ، ماذا اکیلا ، ، استفہام کے لئے نہیں ہے بلکہ ، ، ذا کے ساتھ مل کر ایک اسم بنتا ہے اس لئے ، ، ما ، ، کے الف کو حزف نہیں کیا گیا ۔ اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے یعنی جو چیز تجھے معلوم ہے اسے چھوڑ دے میں اس سے بچنے کی کوشش کرونگا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَيَسْئَلُونَكَ ماذا يُنْفِقُونَ [ البقرة 219] اور یہ بھی تم سے پوچھتے ہیں کہ کہ ( خدا کی راہ میں ) کونسا مال خرچ مال کریں ۔ میں جو لوگ کو منصوب پڑھتے ہیں ۔ وہ ماذا کو بمنزلہ ایک اسم کے مانتے ہیں کونسی چیز صرف کریں مگر جن کے نزدیک ہے اور ما استفہا میہ ہے یعنی وہ کونسی چیز ہے جسے خرچ کریں ۔ اس بنا پر آیت کریمہ : ۔ ماذا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ ؟ قالُوا : أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ النحل 24] کہ تمہارے پروردگار نے کیا اتارا ہی تو کہتے ہیں کہ ( وہ تو ) پہلے لوگوں کی حکایتیں ہیں ۔ میں اساطیر رفع اور نصب دونوں جائز ہیں ۔- حلَ- أصل الحَلّ : حلّ العقدة، ومنه قوله عزّ وجلّ : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي[ طه 27] ، وحَللْتُ : نزلت، أصله من حلّ الأحمال عند النزول، ثم جرّد استعماله للنزول، فقیل : حَلَّ حُلُولًا، وأَحَلَّهُ غيره، قال عزّ وجلّ : أَوْ تَحُلُّ قَرِيباً مِنْ دارِهِمْ [ الرعد 31] ،- ( ح ل ل ) الحل - اصل میں حل کے معنی گرہ کشائی کے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي[ طه 27] اور میری زبان کی گرہ کھول دے ۔ میں یہی معنی مراد ہیں اور حللت کے معنی کسی جگہ پر اترنا اور فردکش ہونا بھی آتے ہیں ۔ اصل میں یہ سے ہے جس کے معنی کسی جگہ اترنے کے لئے سامان کی رسیوں کی گر ہیں کھول دینا کے ہیں پھر محض اترنے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ لہذا کے معنی کسی جگہ پر اترنا ہیں اور احلۃ کے معنی اتارنے کے قرآن میں ہے : ۔ أَوْ تَحُلُّ قَرِيباً مِنْ دارِهِمْ [ الرعد 31] یا ان کے مکانات کے قریب نازل ہوتی رہے گی - حلَال - حَلَّ الشیء حلالًا، قال اللہ تعالی: وَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلالًا طَيِّباً [ المائدة 88] ، وقال تعالی: هذا حَلالٌ وَهذا حَرامٌ [ النحل 116] - ( ح ل ل ) الحل - اصل میں حل کے معنی گرہ کشائی کے ہیں ۔ حل ( ض ) اشئی حلا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز کے حلال ہونا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلالًا طَيِّباً [ المائدة 88] اور جو حلال طیب روزی خدا نے تم کو دی ہے اسے کھاؤ ۔ هذا حَلالٌ وَهذا حَرامٌ [ النحل 116] کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے - طيب - يقال : طَابَ الشیءُ يَطِيبُ طَيْباً ، فهو طَيِّبٌ. قال تعالی: فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء 3] ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء 4] ، وأصل الطَّيِّبِ : ما تستلذّه الحواسّ ، وما تستلذّه النّفس، والطّعامُ الطَّيِّبُ في الشّرع : ما کان متناولا من حيث ما يجوز، ومن المکان الّذي يجوز فإنّه متی کان کذلک کان طَيِّباً عاجلا وآجلا لا يستوخم، وإلّا فإنّه۔ وإن کان طَيِّباً عاجلا۔ لم يَطِبْ آجلا، وعلی ذلک قوله : كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة 172] - ( ط ی ب ) طاب ( ض )- الشئی یطیب طیبا فھم طیب ( کے معنی کسی چیز کے پاکیزہ اور حلال ہونے کے ہیں ) قرآن میں ہے : : فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء 3] تو ان کے سوا عورتیں تم کو پسند ہوں ان سے نکاح کرلو ۔ ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء 4] ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے تم کو چھوڑدیں ۔ اصل میں طیب اسے کہا جاتا ہے جس سے انسان کے حواس بھی لذت یاب ہوں اور نفس بھی اور شریعت کی رو سے الطعام الطیب اس کھانے کو کہا جائے گا جو جائز طریق سے حاصل کیا جائے اور جائز جگہ سے جائز انداز کے مطابق لیا جائے کیونکہ جو غذا اس طرح حاصل کی جائے وہ دنیا اور آخرت دونوں میں خوشگوار ثابت ہوگی ورنہ دنیا کی خوشگوار چیزیں آخرت میں نقصان وہ ثابت ہونگی اسی بنا پر قرآن طیب چیزوں کے کھانے کا حکم دیتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة 172] جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں عطا فرمائی ہیں اور ان کو کھاؤ ۔- علم ( تعلیم)- اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] - تعلیم - کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو - جرح - الجرح : أثر دام في الجلد، يقال : جَرَحَه جَرْحاً ، فهو جَرِيح ومجروح . قال تعالی: وَالْجُرُوحَ قِصاصٌ [ المائدة 45] ، وسمي القدح في الشاهد جرحا تشبيها به، وتسمی الصائدة من الکلاب والفهود والطیور جَارِحَة، وجمعها جَوَارِح، إمّا لأنها تجرح، وإمّا لأنها تکسب . قال عزّ وجلّ : وَما عَلَّمْتُمْ مِنَ الْجَوارِحِ مُكَلِّبِينَ [ المائدة 4] ، وسمیت الأعضاء الکاسبة جوارح تشبيها بها لأحد هذين، والاجتراح : اکتساب الإثم، وأصله من الجِرَاحة، كما أنّ الاقتراف من : قرف القرحة قال تعالی: أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ اجْتَرَحُوا السَّيِّئاتِ [ الجاثية 21] .- ( ج ر ح ) جرحہ ( جرجا زخمی کرنا صفت مفعول جریج ومجروح ( جرح ( آم ) ج جروح قرآن میں ہے : ۔ الْجُرُوحَ قِصاصٌ [ المائدة 45] اور سب زخموں کا اسی طرح بدلہ ہے اور زخم کے ساتھ تشبیہ دے کر گواہ پر بحث کرنے کو بھی جرح کہا جاتا ہے اور کتے چیتے اور پرند سے شکاری جانور کو جارحۃ کہا جاتا ہے اس کی جمع جوارح ہے اور شکاری جانوروں کو جوارح یا تو اس لئے کہا جاتا کہ وہ شکار کو زخمی کرتے ہیں اور یا اس لئے کہ وہ کما کر لاتے ہیں ان ہر دو وجوہ میں سے کسی ایک کی بنا پر اعضا کا سبہ یعنی ہاتھ پاؤں کو جوارح کہا جاتا ہے قرآن میں ہے ۔ وَما عَلَّمْتُمْ مِنَ الْجَوارِحِ مُكَلِّبِينَ [ المائدة 4] اور وہ شکار بھی حلال ہے ) جو تمہارے شکاری جانوروں نے پکڑا ہو جن کو تم نے سدھا رکھا ہے : ۔ الارجتراح ( جرائم کا ارتکاب کرنا ) اصل میں جراحۃ سے ہے جیسا کہ اقتراف کا لفظ قرن القرحۃ سے مشتق ہے جس کے معنی زخم کو چھیلنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ اجْتَرَحُوا السَّيِّئاتِ [ الجاثية 21] جو لوگ برے کام کرتے ہیں کیا وہ یہ خیال کرتے ہیں ۔- كلب - الكَلْبُ : الحیوان النّبّاح، والأنثی كَلْبَةٌ ، والجمع : أَكْلُبٌ وكِلَابٌ ، وقد يقال للجمع كَلِيبٌ. قال تعالی: كَمَثَلِ الْكَلْبِ [ الأعراف 176] قال : وَكَلْبُهُمْ باسِطٌ ذِراعَيْهِ بِالْوَصِيدِ [ الكهف 18] وعنه اشتقّ الکلب للحرص، ومنه يقال : هو أحرص من کلب»- ، ورجل كِلبٌ: شدید الحرص، وكَلْبٌ كَلِبٌ.- أي : مجنون يَكْلَبُ بلحوم الناس فيأخذه شبه جنون، ومن عقره كُلِبَ. أي : يأخذه داء، فيقال : رجل كَلِبٌ ، وقوم كَلْبَى. قال الشاعر : دماؤهم من الکلب الشّفاء - «2» وقد يصيب الكَلِبُ البعیرَ : ويقال : أَكْلَبَ الرّجلُ : أصاب إبله ذلك، وكَلِبَ الشّتاءُ : اشتدّ برده وحدّته تشبيها بِالْكَلْبِ الْكَلِبِ ، ودهر كَلِبٌ ، ويقال : أرض كَلِبَةٌ: إذا لم ترو فتیبس تشبيها بالرّجل الکلب، لأنه لا يشرب فييبس . والکَلَّابُ وَالمُكَلِّبُ : الذي يعلّم الکلب . قال تعالی: وَما عَلَّمْتُمْ مِنَ الْجَوارِحِ مُكَلِّبِينَ تُعَلِّمُونَهُنَ [ المائدة 4] . وأرض مَكْلَبَةٌ: كثيرة الکلاب، والْكَلْبُ : المسمار في قائم السّيف، والْكَلْبَةُ :- سير يدخل تحت السّير الذي تشدّ به المزادة فيخرز به، وذلک لتصوّره بصورة الکلب في الاصطیاد به، وقد كَلَبْتُ الأديم : خرزته، بذلک، قال الشاعر : سير صناع في أديم تَكْلُبُهُ- «3» والْكَلْبُ : نجم في السّماء مشبّه بالکلب لکونه تابعا لنجم يقال له : الرّاعي، والْكَلْبَتَانِ : آلة مع الحدّادین سمّيا بذلک تشبيها بکلبین في اصطیادهما، وثنّي اللّفظ لکونهما اثنین، والکَلُّوبُ : شيء يمسک به، وكَلَالِيبُ البازي : مخالبه . اشتقّ من الکلب لإمساکه ما يعلق عليه إمساک الکلب .- ( ک ل ب ) الکلب - ( کتا ) بھونکنے والاجانور ۔ اس کی مونث کلبتہ اور جمع کلب وکلاب آتی ہے ۔ کبھی اس کی جمع کلیب بھی آجاتی ہے ۔ كَمَثَلِ الْكَلْبِ [ الأعراف 176] تو اس کی مثال کتے کی کسی ہے ۔ وَكَلْبُهُمْ باسِطٌ ذِراعَيْهِ بِالْوَصِيدِ [ الكهف 18] اور ان کا کتا چو کھٹ پر دونوں ہاتھ پھیلائے ہوئے تھا ۔ اور اسی سے اکلب ( بفتح اللام ) مشتق جس کے معنی شدت حرص کے ہیں ۔ اسی سے کہا جاتا ہے : ھو احرص من کلب ۔ وہ کتے سے زیادہ حریص ہے اور رجل کلب کے معنی سخت حریص آدمی کے ہیں اور کلب کلب باء لا کتا جسے انسان کا گوشت کھانے کا چسکا لگ جاتا ہے ۔ اور جسے وہ کاٹ کھائے اسے بھی ہڑکائے کتے جیسا مرض لاحق ہوجاتا ہے مفرد کے لئے رجل کلب اور کے لئے قوم کلبٰی کہتے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ( الوافر ) ( 3 81 ) دماء ھم من الکلب الشفلا ان کے خون کلب کی مرض سے شفا بخشے ہیں ۔ اور کبھی یہ مرض اونٹ کو بھی لاحق ہوجاتا ہے چناچہ اکلب ا الرجل کے معنی باؤلے اونٹ کا مالک ہونے کے ہیں ۔ کلب الشتاء سردی سخت ہوگئی گویا وہ کتے کی طرح باؤلی ہوگئی ہے ۔ دھر کلب سخت زمانہ ۔ ارض کلبتہ ۔ اس زمین کو کہتے ہیں جو سیر لب نہ ہونے کی وجہ سے خشک ہوجائے جیسا کہ باؤلا ادمی پانی نہ پینے کی وجہ سے آخر کار سوکھ کر رہ جاتا ہے الکلاب والمکلب ۔ اس شخص کو کہتے ہیں جو کتوں کو شکار کے لئے سدھاتا اور انہیں تعلیم دیتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَما عَلَّمْتُمْ مِنَ الْجَوارِحِ مُكَلِّبِينَ تُعَلِّمُونَهُنَ [ المائدة 4] اور وہ شکار بھی حلال ہے جو تمہارے لئے ان شکاری جانوروں نے پکڑا ہو جن کو تم نے سدھا رکھا ہے ۔ ارض مکلبتہ ۔ بہت کتول والی سر زمین ۔ الکلاب والکلب ۔ میخ جو تلوار کے قبضہ میں لگی ہوتی ہے ۔ الکبتہ ۔ توشہ دان باندھنے کے تسمیہ سے نیچے کا تسمیہ جس سے اسے سیا جاتا ہے ۔ اس کا یہ نام شکاری کتے کی مناسبت سے رکھا گیا ہے ۔ پس کلبت الادیم کے معنی چمڑے کو سینے کے ہیں کسی شاعر نے کہا ہے ( الرحز ) ( 382 ) سیر صیناع فی ادیم تکلبتہ کاریگر عورت کے تسمیہ کیطرح ملائم اور چمکدار ہے جس سے وہ مشکیزہ سیرہی ہو ۔ الکلب ۔ تاروں کے ایک جھمکے کا نام ہے جسے کتے کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے ۔ کیونکہ وہ ایک دوسرے جھمکے کے تابع ہوتا ہے جسے الراعی ( چروہا ) کہا جاتا ہے ۔ الکلبتان ( سپناہ ) لوہار کے ایک اوزار کا نام ہے جس سے وہ گرم لوہا کو پکڑتا ہے کسی چیز کو پکڑنے کے لحاظ سے اسے شکار کتے کے ساتھ تشبیہ دیتے ہیں ۔ اور دوکنارے ہونے کی ۔ وجہ سے تنثیہ کا لفظ اختیار کیا گیا ہے ۔ الکلوب ۔ کنڈی ۔ کلالیب جمع کلالیب البازی ۔ باز کے نیچے یہ بھی کلکب سے مشتق ہے ۔ کیونکہ جو چیز اس کے پنجہ میں آجائے اسے کتے طرح پکڑ کر روک لیتا ہے ۔- أكل - الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد 35] - ( ا ک ل ) الاکل - کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے أُكُلُهَا دَائِمٌ ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔- مسك - إمساک الشیء : التعلّق به وحفظه . قال تعالی: فَإِمْساكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسانٍ [ البقرة 229] ، وقال : وَيُمْسِكُ السَّماءَ أَنْ تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ [ الحج 65] ، أي : يحفظها، - ( م س ک )- امسک الشئی کے منعی کسی چیز سے چمٹ جانا اور اس کی حفاطت کرنا کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَإِمْساكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسانٍ [ البقرة 229] پھر ( عورت کو ) یا تو بطریق شاہتہٌ نکاح میں رہنے دینا یا بھلائی کے ساتھ چھور دینا ہے ۔ وَيُمْسِكُ السَّماءَ أَنْ تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ [ الحج 65] اور وہ آسمان کو تھا مے رہتا ہے کہ زمین پر نہ گر پڑے - اسْمُ- والِاسْمُ : ما يعرف به ذات الشیء، وأصله سِمْوٌ ، بدلالة قولهم : أسماء وسُمَيٌّ ، وأصله من السُّمُوِّ وهو الذي به رفع ذکر الْمُسَمَّى فيعرف به، قال اللہ : بِسْمِ اللَّهِ [ الفاتحة 1] ، وقال : ارْكَبُوا فِيها بِسْمِ اللَّهِ مَجْراها [هود 41] ، بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ [ النمل 30] ، وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ [ البقرة 31] ، أي : لألفاظ والمعاني مفرداتها ومرکّباتها .- وبیان ذلک أنّ الاسم يستعمل علی ضربین :- أحدهما : بحسب الوضع الاصطلاحيّ ، وذلک هو في المخبر عنه نحو : رجل وفرس .- والثاني : بحسب الوضع الأوّليّ.- ويقال ذلک للأنواع الثلاثة المخبر عنه، والخبر عنه، والرّابط بينهما المسمّى بالحرف، وهذا هو المراد بالآية، لأنّ آدم عليه السلام کما علم الاسم علم الفعل، والحرف، ولا يعرف الإنسان الاسم فيكون عارفا لمسمّاه إذا عرض عليه المسمّى، إلا إذا عرف ذاته . ألا تری أنّا لو علمنا أَسَامِيَ أشياء بالهنديّة، أو بالرّوميّة، ولم نعرف صورة ما له تلک الأسماء لم نعرف الْمُسَمَّيَاتِ إذا شاهدناها بمعرفتنا الأسماء المجرّدة، بل کنّا عارفین بأصوات مجرّدة، فثبت أنّ معرفة الأسماء لا تحصل إلا بمعرفة المسمّى، و حصول صورته في الضّمير، فإذا المراد بقوله : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة 31] ، الأنواع الثلاثة من الکلام وصور المسمّيات في ذواتها، وقوله : ما تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْماءً سَمَّيْتُمُوها [يوسف 40] ، فمعناه أنّ الأسماء التي تذکرونها ليس لها مسمّيات، وإنما هي أسماء علی غير مسمّى إذ کان حقیقة ما يعتقدون في الأصنام بحسب تلک الأسماء غير موجود فيها، وقوله : وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ [ الرعد 33] ، فلیس المراد أن يذکروا أساميها نحو اللّات والعزّى، وإنما المعنی إظهار تحقیق ما تدعونه إلها، وأنه هل يوجد معاني تلک الأسماء فيها، ولهذا قال بعده : أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِما لا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَمْ بِظاهِرٍ مِنَ الْقَوْلِ [ الرعد 33] ، وقوله : تَبارَكَ اسْمُ رَبِّكَ [ الرحمن 78] ، أي : البرکة والنّعمة الفائضة في صفاته إذا اعتبرت، وذلک نحو : الكريم والعلیم والباري، والرّحمن الرّحيم، وقال : سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى [ الأعلی 1] ، وَلِلَّهِ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الأعراف 180] ، وقوله : اسْمُهُ يَحْيى لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا - [ مریم 7] ، لَيُسَمُّونَ الْمَلائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنْثى- [ النجم 27] ، أي : يقولون للملائكة بنات الله، وقوله : هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا - [ مریم 65] أي : نظیرا له يستحقّ اسمه، وموصوفا يستحقّ صفته علی التّحقیق، ولیس المعنی هل تجد من يتسمّى باسمه إذ کان کثير من أسمائه قد يطلق علی غيره، لکن ليس معناه إذا استعمل فيه كما کان معناه إذا استعمل في غيره .- الاسم - کسی چیز کی علامت جس سے اسے پہچانا جائے ۔ یہ اصل میں سمو ہے کیونکہ اس کی جمع اسماء اور تصغیر سمی آتی ہے ۔ اور اسم کو اسم اس لئے کہتے ہیں کہ اس سے مسمیٰ کا ذکر بلند ہوتا ہے اور اس کی معرفت حاصل ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ارْكَبُوا فِيها بِسْمِ اللَّهِ مَجْراها [هود 41] اور ( نوح (علیہ السلام) نے ) کہا کہ خدا کا نام لے کر ( کہ اس کے ہاتھ میں ) اس کا چلنا ( ہے ) سوار ہوجاؤ۔ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ [ النمل 30] وہ سلیمان کی طرف سے ہے اور مضمون یہ ہے ) کہ شروع خدا کا نام لے کر جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے ۔ اور آیت : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ [ البقرة 31] اور اس آدم کو سب ( چیزوں کے ) نام سکھائے ۔ میں اسماء سے یہاں الفاظ و معانی دونوں مراد ہیں ۔ خواہ مفردہوں خواہ مرکب اس اجمال کی تفصیل یہ ہے ۔ کہ لفظ اسم دو طرح استعمال ہوتا ہے ۔ ایک اصطلاحی معنی میں اور اس صورت میں ہمیشہ مخبر عنہ بنتا ہے ۔ جیسے رجل وفرس دوم وضع اول کے لحاظ سے اس اعتبار سے ( کلمہ کی ) انواع ثلاثہ یعنی مخبر عنہ ( اسم ) خبر اور رابطہ ( حرف ) تینوں پر اس معنی مراد ہیں ۔ کیونکہ آدم (علیہ السلام) نے جس طرح اسماء کی تعلیم حاصل کی تھی ۔ اسی طرح افعال وحروف کا علم بھی نہیں حاصل ہوگیا تھا اور یہ ظاہر ہے کہ جب تک کسی چیز کی ذات کا علم حاصل نہ ہو محض نام کے جاننے سے انسان اسے دیکھ کر پہچان نہیں سکتا ہے مثلا اگر ہم ہندی یا رومی زبان میں چند چیزوں کے نام حفظ کرلیں تو ان چیزوں کے اسماء کے جاننے سے ہم ان کے مسمیات کو نہیں پہچان سکیں گے ۔ بلکہ ہمار علم انہیں چند اصوات تک محدود رہے گا اس سے ثابت ہوا کہ اسماء کی معرفت مسمیات کی معرفت کو مستلزم نہیں ہے اور نہ ہی محض اسم سے مسمی ٰ کی صورت ذہن میں حاصل ہوسکتی ہے ۔ لہذا آیت : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة 31] میں اسماء سے کلام کی انواع ثلاثہ اور صورۃ مسمیات بمع ان کی ذوات کے مراد ہیں اور آیت ما تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْماءً سَمَّيْتُمُوها [يوسف 40] جن چیزوں کی تم خدا کے سوا پرستش کرتے ہو وہ صرف نام ہی نام ہیں جو تم نے رکھ لئے ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں ک جن اسماء کی تم پرستش کرتے ہو ان کے مسمیات نہیں ہیں ۔ کیونکہ و اصنام ان اوصاف سے عاری تھے ۔ جن کا کہ وہ ان اسماء کے اعتبار سے ان کے متعلق اعتقاد رکھتے تھے ۔ اور آیت : وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ [ الرعد 33] اور ان لوگوں نے خدا کے شریک مقرر کر رکھے ہیں ۔ ان سے کہو کہ ( ذرا ) انکے نام تولو ۔ میں سموھم سے یہ مراد نہیں ہے کہ لات ، عزی وغیرہ ان کے نام بیان کرو بلکہ آیت کے معنی پر ہیں کہ جن کو تم الاۃ ( معبود ) کہتے ہو ان کے متعلق تحقیق کرکے یہ تو بتاؤ کہ آیا ان میں ان اسماء کے معانی بھی پائے جاتے ہیں ۔ جن کے ساتھ تم انہیں موسوم کرتے ہو ( یعنی نہیں ) اسی لئے اس کے بعد فرمایا أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِما لا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَمْ بِظاهِرٍ مِنَ الْقَوْلِ [ الرعد 33] ( کہ ) کیا تم اسے ایسی چیزیں بتاتے ہو جس کو وہ زمین میں ( کہیں بھی ) معلوم نہیں کرتا یا ( محض ) ظاہری ( باطل اور جھوٹی ) بات کی ( تقلید کرتے ہو ۔ ) اور آیت : تَبارَكَ اسْمُ رَبِّكَ [ الرحمن 78] تمہارے پروردگار ۔۔ کا نام برا بابر کت ہے ۔ میں اسم رب کے بابرکت ہونے کے معنی یہ ہیں ک اس کی صفات ۔ الکریم ۔ العلیم ۔ الباری ۔ الرحمن الرحیم کے ذکر میں برکت اور نعمت پائی جاتی ہے جیسا ک دوسری جگہ فرمایا : سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى [ الأعلی 1] ( اے پیغمبر ) اپنے پروردگار جلیل الشان کے نام کی تسبیح کرو ۔ وَلِلَّهِ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الأعراف 180] اور خدا کے نام سب اچھے ہی اچھے ہیں ۔ اور آیت : اسْمُهُ يَحْيى لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا[ مریم 7] اسمہ یحیٰ لم نجعل لہ من قبل سمیا َ (719) جس کا نام یحیٰ ہے ۔ اس سے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی شخص پیدا نہیں کیا ۔ میں سمیا کے معنی ہم نام ، ، کے ہیں اور آیت :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم 65] بھلا تم اس کا کوئی ہم نام جانتے ہو ۔ میں سمیا کے معنی نظیر کے ہیں یعنی کیا اس کی کوئی نظیر ہے جو اس نام کی مستحق ہوا اور حقیقتا اللہ کی صفات کے ساتھ متصف ہو اور اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ کیا تم کسی بھی پاتے ہو جو اس کے نام سے موسوم ہوکیون کہ ایسے تو اللہ تعالیٰ کے بہت سے اسماء ہیں جن کا غیر اللہ پر بھی اطلاق ہوسکتا ہے یا ہوتا ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا ہے کہ ان سے معافی بھی وہی مراد ہوں جو اللہ تعالیٰ پر اطلاق کے وقت ہوتے ہیں ۔ اور آیت : لَيُسَمُّونَ الْمَلائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنْثى[ النجم 27] اور وہ فرشتوں کو ( خدا کی ) لڑکیوں کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۔ میں لڑکیوں کے نام سے موسوم کرنے کے معنی یہ ہیں ۔ کہ وہ فرشتوں کو بنات اللہ کہتے ہیں ۔- تقوي - والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔- سرع - السُّرْعَةُ : ضدّ البطء، ويستعمل في الأجسام، والأفعال، يقال : سَرُعَ ، فهو سَرِيعٌ ، وأَسْرَعَ فهو مُسْرِعٌ ، وأَسْرَعُوا : صارت إبلهم سِرَاعاً ، نحو :- أبلدوا، وسَارَعُوا، وتَسَارَعُوا . قال تعالی: وَسارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ [ آل عمران 133] ، وَيُسارِعُونَ فِي الْخَيْراتِ [ آل عمران 114] ، يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق 44] - ( س ر ع ) السرعۃ - اس کے معنی جلدی کرنے کے ہیں اور یہ بطا ( ورنگ گردن ) کی ضد ہے ۔ اجسام اور افعال دونوں کے ( ان کے اونٹ تیز رفتاری سے چلے گئے ) آتے ہں ۔ جیسا کہ اس کے بالمقابل ایلد وا کے معنی سست ہونا آتے ہیں ۔ سارعوا وتسارعو ایک دوسرے سے سبقت کرنا چناچہ قرآن میں ہے : وَسارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ [ آل عمران 133] اور اپنے پروردگار کی بخشش ( اور بہشت کی ) طرف لپکو ۔ وَيُسارِعُونَ فِي الْخَيْراتِ [ آل عمران 114] اور نیکیوں پر لپکتے ہیں ۔ يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق 44] اس روز زمین ان پر سے پھٹ جائے گی اور جھٹ جھٹ نکل کھڑے ہوں گے ۔ - حسب - الحساب : استعمال العدد، يقال : حَسَبْتُ «5» أَحْسُبُ حِسَاباً وحُسْبَاناً ، قال تعالی: لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس 5] ، وقال تعالی: وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام 96] ، وقیل : لا يعلم حسبانه إلا الله، - ( ح س ب ) الحساب - کے معنی گنتے اور شمار کرنے کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ حسبت ( ض ) قرآن میں ہے : ۔ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس 5] اور برسوں کا شمار اور حساب جان لو ۔ وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام 96] اور اسی نے رات کو ( موجب ) آرام ( ٹھہرایا ) اور سورج اور چانا ۔ کو ( ذرائع ) شمار بنایا ہے ۔ اور اسی نے رات کو ( موجب ) آرام ( ٹھہرایا ) اور سورج اور چانا ۔ کو ( ذرائع ) شمار بنایا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

شکاری جانوروں کے بارے میں حکم - قول باری ہے وماعلمتم من الجوار۔ اور جن شکاری جانوروں کو تم نے سدھایا ہو) ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیا ن کی، انہیں یعقوب بن غیلان عمانی نے، انہیں ہناد بن السری نے ، انہیں یحییٰ بن زکریا، انہیں ابراہیم بن عبید نے انہیں ابان بن صالح نے قعقاع بن حکیم سے انہوں نے سلمی سے انہوں نے حضرت ابورافع (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے کتوں کو ہلاک کرنے کا حکم دیا تھا۔ لوگوں نے عرض کیا کہ آپ نے کتوں کو ہلاک کرنے کا حکم دیا ہے ان میں سے کس قسم کے رکھنا ہمارے لئے حلال ہے ؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور ارشاد ہوا قل احل لکم الطیبات وما علمتم من الجوارح۔ ہمیں عبدالباقی نے روایت بیان کی انہیں عبداللہ بن احمد بن حنبل اور ابن عبدوس بن کامل نے ان دونوں کو عبید اللہ بن عمر الحشمی نے انہیں ابومعشرالنواء نے انہیں عمرو بن بشیر نے، انہیں عامر شعبی نے حضرت عدی بن حاتم (رض) سے کہ جب میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کتوں کے ذریعے شکار کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے جواب دینے میں توقف کیا حتی کہ آیت وماعلمتم من الجوارح مکلبین نازل ہوئی۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ظاہر حدیث اول اس بات کا مقتضی ہے کہ اباحت ان تمام شکاری جانوروں کو شامل تھی جنہیں ہم نے سدھایا ہو۔ یہ شکاری کتوں اور شکاری پرندوں سب کو شامل ہے۔ یہ چیز ان جانوروں اور پرندوں سے ہر قسم کے انتفاع کی موجب ہے اس میں کتوں کی خرید و فروخت نیز شکاری جانوروں کی خرید و فروخت اور ان سے ہر قسم کے انفاع کے جواز کی دلالت موجود ہے سوائے اس انتفاع کے جس کی تخصیص کسی دلیل نے کردی ہے۔ یعنی ان کے گوشت کا استعمال۔ بعض اہل علم نے سلسلہ کلام میں حذف کا قول کیا ہے اور اس کا مفہوم یوں بیان کیا ہے۔” قل احل لکم الطیبات من صید ماعلمتم من الجوارح، (کہہ دو تمہارے لئے ان شکاری جانوروں کے پاکیزہ شکار کو حلال کردیا گیا ہے جنہیں تم نے شکار کی تعلیم دی ہے) ۔ انہوں نے اس مفہوم کے لئے حضرت عدی بن حاتم (رض) کی روایت سے جس کا ہم ذکر کر آئے ہیں اور جس کے مطابق انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کتے کے کئے ہوئے شکار کے بارے میں دریافت کیا تھا اور اس پر آیت وماعلمتم من الجوارح مکلبین نازل ہوئی تھی استدلال کیا ہے۔ انہوں نے حضرت ابورافع کی روایت سے بھی استدلال کیا ہے جس کے مطابق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب کتوں کو قتل کرنے کا حکم دیا تو آپ سے پوچھا گیا کہ کس قسم کے کتے رکھنا حلال ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اس میں کوئی امتناع نہیں کہ آیت کتوں اور کتوں کے کئے ہوئے شکار دونوں سے فائدہ اٹھانے کے مفہوم پر مشتمل ہو۔ تاہم لفظ اپنے حقیقی معنی کے لحاظ سے خود کتوں سے انتفاع کا مقتضی ہے۔ اس لئے کہ قول باری وماعلمتم ان جانوروں کی اباحت کا موجب ہے جنہیں ہم نے شکار کی تعلیم دی ہے اس کلام میں شکار کے لفظ کی محذوف ماننے کے لئے دلالت کی ضرورت ہے۔ اور آیت کے مضمون میں ان کے کئے ہوئے شکار کی اباحت کی دلیل موجود ہے جیسا کہ ارشاد باری ہے فکلوامما امسکن علیکم، وہ جس جانور کو تمہارے لئے پکڑ رکھیں اس کو بھی تم کھا سکتے ہو ) آیت کو دو معنوں پر محمول کرنا اور اسے دو فائدوں کے لئے عمل میں لانا اسے صرف ایک معنی اور فائدے تک محدود کردینے سے بہتر ہے۔ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ شکاری جانوروں کے شکار کی اباحت کے لئے ان جانوروں کا شکار کے سلسلے میں سدھایا ہوا ہونا شرط ہے کیونکہ قول باری ہے وماعلمتم من الجوارح ) نیز فرمایا (تعلمونھن مما علمکم اللہ) جن کو خدا کے دیئے ہوئے علم کی بنا پر تم شکار کی تعلیم دیا کرتے ہو) ۔ جوارح یعنی شکاری جانوروں کے متعلق ایک قول ہے کہ یہ وہ جانور ہیں جو اپنے مالکوں کے لئے شکار حاصل کرتے ہیں یہ کتے اور چیز پھاڑ کرنے والے پرندے ہیں جو دوسرے پرندوں کا شکار کرتے ہیں جوارح کی واحد جارح ہے اسی سے ہاتھ کو جارحہ کا نام دیا گیا ہے کیونکہ اس کے ذریعے کمائی کی جاتی ہے۔ ارشاد باری ہے ماجرحتم بالنھار) یعنی جو تم کماتے ہو اسی سے یہ قول باری ہے ام حسب الذین اجترحوا السیئات، کیا ان لوگوں نے جو گناہوں کی کمائی کرتے ہیں یہ گمان کیا ہے…یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ ہر اس جانور کے ذریعے شکار کرنا جائز ہے جسے شکار کی تعلیم دی گئی ہو اس میں کچلی کے دانت والے تمام جانور اور جنگلوں والے تمام پرندے داخل ہیں۔ جوارح کے بارے میں ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد وہ جانور اور پرندے ہیں جو کچلی کے دانت اور چنگل کے ذریعے زخمی کردیتے ہیں امام محمد نے زیادات میں کہا ہے کہ اگر کتا شکار سے ٹکرا جائے اور اسے زخمی نہ کرے اور شکار اس ٹکر کی وجہ سے مرجائے تو اس کا گوشت نہیں کھایا جائے گا کیونکہ وہ شکار کچلی کے دانت یا چنگل کے ذریعے زخمی نہیں ہوا تھا۔ آپ قول باری وماعلمتم من الجوارح مکلبین) کو نہیں دیکھتے یہ آیت اس جانور کے شکار کو حلال قرار دیتی ہے جو کچلی کے دانت یا چنگل کے ذریعے شکار کو زخمی کردیتا ہے جب اسم کا اطلاق ان دونوں چیزوں پر ہوتا ہے تو لفظ سے یہ دونوں چیزیں مراد لینے میں کوئی امتناع نہیں ہے۔ کو اسب سے وہ جانور مراد ہوں گے جو شکار کرنے کے ذریعے اپنے مالکوں کے لئے کمائی کرتے ہیں۔ اس میں شکاری جانوروں کے تمام اصناف کتے ، چیتے، چیرپھاڑ کرنے والے پرندے اور دیگر جانور شامل ہوجائیں گے جو شکار کی تعلیم قبول کرلیتے ہیں اس سے یہ بھی حاصل ہوگا کہ ذکاۃ کی شرط یہ ہے کہ ہلاک شدہ شکار کو زخم لگے ہوں اور زخمی ہونا ہی اس کے شرعی ذبح یعنی ذکاۃ کی شرط ہے۔ یہ اس پر بھی دلالت کرتا ہے کہ بےپروں والے تیر کے بارے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث میں زخم مراد ہے آپ نے فرمایا تھا ” اگر معراض یعنی بےپر کا تیر اپنی دھار سے جسم میں پیوست ہوجائے تو اس کا گوشت کھالو اور اگر عرضاً لگے تو نہ کھائو “۔ ہمیں جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کوئی ایسا حکم ملے جو اس بات کے ہم معنی ہو جس کا وجود قرآن میں ہو تو اس صورت میں قرآن کی مراد کو اس حکم پر محمول کرنا واجب ہوگا اور یہ سمجھا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ کا منشا بھی یہی ہے۔- قول باری ہے مکلبین ، تم نے سدھایا ہو) اس کی تفسیر میں دو قول ہیں۔ اول یہ کہ مکلب کتے کا مالک ہے جو اسے شکار کی تعلیم دیتا ہے اور اسے اس کے طریقے سکھاتا ہے دوم یہ کہ اس کے معنی ہیں ” مضرین علی الصید “ یعنی شکار پر بھڑکاتے ہو جس طرح کتے بھڑکائے جاتے ہیں “۔ تکلیب کے معنی تضریہ یعنی بھڑکانے کے ہیں۔ کہا جاتا ہے ” کلب کلب “ یعنی کتے کو لوگوں پر بھڑکایا گیا۔ قول باری مکلبین میں کتوں کی تخصیص نہیں ہے۔ دوسرے شکاری جانور بھی اس میں داخل ہیں۔ اس لئے کہ تضریہ یعنی بھڑکانے کا عمل ان سب کے لئے عام ہے اس طرح اگر اس قول باری سے کتے کی تعلیم و تادیب مراد لی جائے تو یہ معنی بھی تمام شکاری جانوروں کے لئے عام ہوگا۔- شکرے اور باز کے شکار پر آرائے ائمہ - جس شکار کو کتوں کے علاوہ دوسرے شکاری جانور قتل کردیں اس کے متعلق اختلاف رائے ہے۔ مروان العمری نے نافع سے انہوں نے علی بن حسین (رض) سے روایت کی ہے کہ شکارا یعنی چرغ اور باز ان شکاری جانوروں میں سے ہیں جنہیں سدھایا جاتا ہے۔ معمر نے لیث سے روایت کی ہے کہ مجاہد سے باز اور چیتے اور شکاری درندوں کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ سب جوارح یعنی شکاری جانور ہیں۔ ابن جریح نے مجاہد سے قول باری من الجوارح مکلبین کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ اس سے مراد پرندے اور کتے ہیں، معمر نے طائوس کے بیٹے سے اور انہوں نے اپنے والد سے اس آیت کی تفسیر میں یہ نقل کیا ہے کہ جوارح سے مراد کتے ہیں نیز سدھائے ہوئے باز اور چیتے بھی مراد ہیں۔ اشعث نے حسن سے اس سلسلے میں نقل کیا ہے کہ جوارح سے شکار ا اور باز مراد ہیں اور چیتا بمنزلہ کتے کے ہے۔ صخربن جویریہ نے نافع سے روایت کی ہے ان کا کہنا ہے کہ میں نے حضرت علی (رض) کی ایک تحریر میں پڑھا ہے کہ باز کا مارا ہوا شکار کھانا درست نہیں ہے ابن جریج نے نافع سے روایت کی ہے کہ حضرت عبداللہ کا قول ہے کہ باز وغیرہ شکاری پرندے جو شکار پکڑیں اگر تم اسے ذبح کرلو تو اس کا گوشت کھا سکتے ہو اگر ذبح نہ کر پائو تو اسے نہ کھائو، سلمہ بن علقمہ نے نافع سے روایت کی ہے کہ حضرت علی (رض) شکرے کے مارے ہوئے شکار کو مکروہ سمجھتے تھے وہ یہ کہتے کہ قول باری مکلبین سے صرف کتے مراد ہیں۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ درج بالا اقوال کی روشنی میں ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ سلف میں سے بعض نے مکلبین کی تاویل و تفسیر صرف کتے کی ہے بعض نے کتے وغیرہ مراد لئے ہیں۔ یہ بات تو واضح ہے کہ قول باری وماعلمتم من الجوارح) کتوں اور شکاری پرندوں دونوں کو شامل ہے۔ پھر اس کے بعد قول باری مکلبین میں احتمال ہے کہ اس سے کتے مراد لئے جائیں اور یہ بھی احتمال ہے کہ اس سے وہ تمام شکاری جانور مراد لئے جائیں جن کا پہلے ذکر گزر چکا ہے ان میں شکاری کتے بھی شامل ہیں اس صورت میں مکلبین کے معنی ” مودبین “ یا ” مضرین “ (ادب سکھانے والے، بھڑکانے والے) ہوں گے۔ پھر اس میں کتوں کی تخصیص باقی نہیں رہے گی دوسرے شکاری جانور بھی شریک ہوں گے۔ اس وضاحت کی روشنی میں ہم یہ کہیں گے کہ آیت کو عموم پر محمول کرنا واجب ہے اور احتمال کی بنا پر اس کی تخصیص درست نہیں ہے ہمیں فقہاء امصار کے درمیان شکاری پرندے کے پکڑے ہوئے شکار کی اباحت کے متعلق کسی اختلاف کا علم نہیں ہے خواہ اس شکاری پرندے نے شکار کو ہلاک ہی کیوں نہ کردیا ہو۔ پرندے کا کیا ہوا شکار کتے کے کلئے ہوئے شکار کی طرح ہے۔ ہمارے اصحاب امام مالک، سفیان ثوری، اوزاعی، لیث اور امام شافعی کا قول ہے کہ چنگل والے سدھائے ہوئے شکاری پرندوں اور کچلیوں والے سدھائے ہوئے درندوں کا کیا ہوا شکار درست ہے۔ ظاہر آیت بھی اس قول کی تائید میں ہے اس لئے کہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے شکاری جانوروں یعنی جوارح کے کئے ہوئے شکار کی اباحت کردی ہے۔ یہ ان تمام جانوروں پر مشتمل ہے جو اپنی کچلیوں یا اپنے چنگلوں کے ذریعے شکار کو زخمی کردیتے ہوں اور اپنے مالکوں کے لئے شکار کرنے کے ذریعے کمائی کرتے ہوں آیت کے اندر اس سلسلے میں کتے اور دوسرے جانور کے درمیان فرق نہیں کیا گیا ہے۔ قول باری وماعلمتم من الجوارح) اس پر دلالت کرتا ہے کہ ان جانوروں کے پکڑے ہوئے شکار کی اباحت کی یہ شرط ہے کہ یہ جانور سدھائے ہوئے ہوں۔ اگر یہ سدھائے ہوئے نہیں ہوں گے اور شکار کو پکڑ کر ہلاک کردیں گے تو وہ مذ کی یعنی شرعی ذبیحہ نہیں ہوگا۔ اس لئے کہ آیت میں خطاب باری کا انداز بیان یہ ہے کہ شکار کی حلت کے متعلق سائلین کے سوال کے جواب میں اس کا ورود ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سدھائے ہوئے شکاری جانوروں کے کئے ہوئے شکار کی مطلقاً اباحت کردی اور یہ انداز بیان ان تمام صورتوں کو شامل ہے جو اس اباحت کے تحت آتی ہیں اور اطلاق جن پر مشتمل ہے اس لئے کہ سوال شکار کی تمام حلال صورتوں کے متعلق کیا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آیت میں شکاری جانوروں کے بیان کردہ اوصاف کے ذریعے جو اب کی تخصیص کردی۔ اس لئے اب شکار کی صرف اسی صورت کو مباح سمجھا جائے گا جو آیت میں مذکورہ وصف پر مشتمل ہوگی۔ پھر ارشاد ہوا تعلمونھن مما علمکم اللہ ) حضرت سلیمان (رض) اور حضرت سعد (رض) سے مروی ہے کہ اس تعلیم سے شکاری جانوروں کو شکار کے لئے بھڑکانا اور انہیں اس کا خوگر بنانا مراد ہے۔ شکاری جانور کو اپنے مالک سے اس قدر ہل جانے کا عادی بنادیا جائے کہ شکار پر چھوڑے جانے کے بعد وہ اس کی طرف واپس لوٹ جائے اور اس سے چھوٹ کر بھاگ نہ جائے۔ حضرت ابن عمر (رض) اور سعید ابن المسیب کا بھی یہی قول ہے انہوں نے یہ شرط نہیں لگائی ہے کہ شکاری جانور شکار کو پکڑے کے بعد اس میں سے کچھ نہ کھائے لیکن ان کے علاوہ دوسرے حضرات سے مروی ہے کہ ترک اکل یعنی کچھ نہ کھانا بھی کتے کے سدھانے میں داخل ہے اور پکڑے ہوئے شکار کی اباحت کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ کتا اس شکار میں سے کچھ نہ کھائے اگر کتے نے کھالیا تو وہ شکار حرام ہوجائے گا اور اس کا گوشت ناقابل استعمال ہوجائے گا۔ حضرت ابن عباس (رض) حضرت عدی بن حاتم (رض) اور حضرت ابوہریرہ (رض) کا یہی قول ہے ان سب حضرات نے یہ بھی کہا ہے کہ باز کا پکڑا ہوا شکار حلال ہے خواہ باز اس میں سے کچھ کھا بھی لے۔ باز کی تعلیم صرف یہی ہے کہ جب تم اسے آواز دو تو تمہاری آواز سن کر فوراً تمہارے پاس آجائے۔- اس بارے میں فقہاء کے مابین اختلاف آراء کا ذکر - امام ابوحنیفہ امام ابویوسف امام محمد اور زفر کا قول ہے کہ اگر کتا اپنے پکڑے ہوئے شکار میں سے کھالے تو اسے غیر معلم سمجھا جائے گا اور اس کا شکار درست نہیں ہوگا البتہ باز کے پکڑے ہوئے شکار کو کھالیا جائے گا خواہ اس نے اس میں سے کچھ کھالیا ہی کیوں نہ ہو۔ سفیان ثوری کا بھی یہی قول ہے۔ امام مالک، اوزاعی اور لیث کا قول ہے کہ خواہ کتا شکار میں سے کچھ کھا بھی لے شکار کے گوشت کا استعمال درست ہوگا۔ امام شافعی کا قول ہے کہ اگر کتا کھالے تو شکار کا گوشت قابل استعمال نہیں ہوگا۔ نیز قیاس کے لحاظ سے باز کا بھی یہی حکم ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں سلف میں سے جن حضرات نے چیر پھاڑ کرنے والے شکاری پرندوں کے پکڑے ہوئے شکار کو جائز قرار دیا ہے وہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ ان شکاری پرندوں کا پکڑا ہوا شکار حلال ہے اس کا گوشت قابل استعمال ہے خواہ شکاری پرندے نے اس میں سے کچھ کھا کیوں نہ لیا ہو۔ ان میں حضرت سعد، حضرت ابن عباس حضرت سلمان، حضرت ابن عمر حضرت ابوہریرہ (رض) اور سعید بن المسیب شامل ہیں۔ البتہ ان حضرات کے درمیا ن کتے کے شکار کے بارے میں اختلاف رائے ہے۔ حضرت علی (رض) ، حضرت ابن عباس (رض) حضرت عدی بن حاتم (رض) اور حضرت ابوہریرہ (رض) سعید بن جبیر اور ابراہیم نخعی کا قول ہے کہ اگر شکاری کتا اپنے شکار میں سے کچھ کھالے تو اس کا شکار نہیں کھاجائے گا۔ حضرت سلمان حضرت سعد اور حضرت ابن عمر (رض) کا قول ہے کہ یہ شکار کھایا جائے گا خواہ کتے نے صرف اس کا ایک تہائی کیوں نہ چھوڑا ہو حسن عبید بن عمیر، عطار، سلیمان بن یسار، اور ابن شہاب زہری کا یہی قول ہے ۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے بھی ایک روایت یہی ہے۔ ابوبکر حبصاص ان اقوال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کتے کے مزاج اور اس کی حالت سے یہ بات واضح ہے کہ اگر اسے پکڑے ہوئے شکار کو نہ کھانے کی تربیت دی جائے تو وہ اس تربیت کو قبول کرلیتا ہے اس لئے اسے شکار نہ کھانے کی تعلیم اور تربیت دینا ممکن ہے اور اس کا شکار کے گوشت میں سے کچھ نہ کھانا اس کی تعلیم کی علامت ہے اور اس کے معلم یعنی سدھائے ہوئے ہونے کی دلیل ہے۔ اس لئے اس کے پکڑے ہوئے شکار کی ذکاۃ کی صحت کے لئے اس میں سے کچھ نہ کھانا شرط قرار دیا جائے گا اور اگر اس نے کچھ کھالیا تو یہ اس شکار کی ذکاۃ کی صحت کے لئے مانع بن جائے گا۔ جہاں تک باز کا تعلق ہے تو اس کے متعلق یہ بات سب کو معلوم ہے کہ اسے ترک کل کی تعلیم نہیں دی جاسکتی کیونکہ اس کی تعلیم کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ اور یہ بات درست نہیں ہوسکتی کہ اللہ تعالیٰ اسے ایسی بات سکھانے کا مکلف بنا دے جسے وہ سیکھ نہیں سکتا اور جس کی تربیت کو وہ قبول نہیں کرسکتا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ترک اکل باز اور شکار ی پرندوں کی تعلیم کا جز نہیں ہے بلکہ یہ کتے کی تعلیم اور اس کی تربیت کا جز ہے کیونکہ وہ اسے قبول کرتا ہے اور اسے اس کی تربیت دینا ممکن بھی ہے۔ حضرت علی (رض) اور دوسرے حضرات سے اس بارے میں جو بات مروی ہے کہ باز کا ہلاک شدہ شکار ناقابل استعمال ہے وہ شاید اس لحاظ سے ہے کہ ان حضرات کے نزدیک ترک اکل تعلیم کی شرط ہے لیکن یہ بات پرندوں میں ممکن نہیں ہے اس لئے پرندے نہ تو سدھائے جاسکتے ہیں اور نہ ہی ان کا ہلاک کردہ شکار پاک ہوسکتا ہے۔ البتہ ان حضرات کی یہ بات اس پر منتج ہوتی ہے کہ شکاری پرندوں کے متعلق تعلیم کے ذکر کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ کیونکہ ان کا پکڑا ہوا شکار پاک اور حلال ہو نہیں سکتا اور اس لحاظ سے سدھایا ہوا اور نہ سدھایا ہوا پرندہ دونوں کی ایک حیثیت ہوتی ہے۔ آیت کی رو سے یہ بات درست نہیں ہوسکتی اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام شکاری جانوروں کے لئے حکم کی تعمیم کردی ہے اور انہیں سدھانے کی شرط لگا دی ہے اس لحاظ سے اس نے کتے اور پرندے میں کوئی فرق نہیں رکھا ہے۔ اس لئے ان جانوروں کے متعلق عموم لفظ کا استعمال واجب ہے اس لئے شکاری پرندوں میں سے بھی سدھائے ہوئے ہوں گے اور کتوں سے بھی اگرچہ پرندوں اور کتوں کی تعلیم اور شکار کے لئے ان کی تربیت کے طریقے مختلف ہوں گے کتوں اور ان جیسے دوسرے شکاری جانوروں کی تعلیم کے اندر یہ بات داخل ہوگی کہ وہ شکار کا کوئی حصہ خود نہ کھائیں۔ اسی طرح شکاری پرندوں کی تعلیم کے اندر یہ بات داخل ہوگی کہ جب مالک آواز دے تو فوراً آجائے۔ اس سے وہ مانوس ہو اور اس سے بدک کر نہ بھاگے اس طرح آیت میں جن شکاری جانوروں کا اجمالا ً ذکر ہے تعلیم ان سب کو عام ہوگی۔ کتے اور اس جیسے شکاری جانوروں کے پکڑے ہوئے شکار کی ذکاۃ کی صحت کی ایک شرط یہ ہے کہ وہ شکار میں سے کچھ نہ کھائیں۔ اس کی ایک دلیل یہ ہے کہ ارشاد باری ہے فکلوا مما امسکن علیکم جس شکار کو وہ تمہارے لئے پکڑ رکھیں ان میں سے کھالو) کتا اگر کسی شکار کو پکڑ رکھے گا تو یہ معلوم کرنے کے لئے کہ آیا یہ شکار اس نے اپنے واسطے پکڑا ہے یا اپنے مالک کے واسطے یہ دیکھا جائے گا کہ وہ اس سے کچھ کھاتا ہے یا نہیں۔ اگر پہلی صورت ہوگی تو یہ اس بات کی دلیل ہوگی کہ اس نے یہ شکار اپنے لئے پکڑا تھا دوسری صورت اس بات کی دلیل ہوگی کہ اس نے اسے مالک کے لئے پکڑا تھا گویا ان دونوں صورتوں میں ترک اکل ہی فرق کا باعث ہے۔ اگر ترک اکل کی شرط نہ ہوتی تو درج بالا آیت کا فائدہ زائل ہوجاتا۔ اب چونکہ ترک اکل اس بات کی علامت ہے کہ اس نے یہ شکار اپنے مالک کے لئے پکڑ رکھنے کی شرط صرف کتوں اور ان جیسے شکار ی جانوروں کے اندر ہے لیکن شکاری پرندوں کے لئے شکار کو اپنے مالک کی خاطر روک رکھنے کی شرط نہیں ہے جیسا کہ ہم اس کی وجہ بحث کے آغاز میں بیان کر آئے ہیں۔ کتے کے متعلق یہ حکم کہ مالک کے لئے اس کے شکار پکڑنے کی علامت یہ ہے کہ وہ اس میں سے کچھ نہ کھائے اور جب کھالے تو وہ اپنے لئے شکار پکڑنے والا سمجھا جائے گا۔ اس پر وہ روایت دلالت کرتی ہے جو حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ جب کتا اس میں سے کھالے تو تم نہ کھائو لیکن اس صورت میں اس نے اپنے لئے یہ شکار پکڑا تھا “۔ حضرت ابن عباس (رض) نے یہ بتادیا کہ کتے کے شکار کو منہ نہ لگانا اس بات کی علامت ہے کہ اس نے یہ شکار مالک کے لئے پکڑا تھا جب امساک کا اسم اس صورت کو شامل ہے جس کا حضرت ابن عباس (رض) نے ذکر کیا ہے اور اگر اسے شامل نہ ہوتا تو آپ آیت کی تاویل میں یہ بات نہ کہتے تو اب آیت کو اسی معنی پر اس طرح محمول کرنا واجب ہے کہ گویا امساک کا لفظ اب اسی مفہوم کے لئے اسم بن گیا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی اسی قسم کی روایت منقول ہے اس لئے دو وجوہ سے اس کی حجیت ثابت ہوگئی ایک تو یہ کہ یہ آیت کے معنی اور اس کی مراد کا بیان ہے اور دوسری یہ کہ سنت کی رو سے اس کی تحریم منصوص ہوگئی۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی نہیں بشرین موسیٰ نے انہیں الحمیدی نے انہیں سفیان نے انہیں مجالد نے شعبی سے انہوں نے حضرت عدی بن حاتم (رض) سے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سدھائے ہوئے کتے کے پکڑے ہوئے شکار کے بارے میں د ریافت کیا تو آپ نے فرمایا اذا ارسلت کلبک المعروذکرت اسم اللہ فکل مما امسک علیک فان اکل منہ فلاتاکل فانما امسک علی نفسہ جب تم اپنا سدھایا ہو اکتا شکار پر چھوڑو اور چھوڑتے وقت اللہ کا نام لے لو تو جو شکار وہ تمہارے لئے پکڑ رکھے اسے کھالو اور جس میں سے وہ بھی کھالے اسے نہ کھائو کیونکہ اس صورت میں اس نے یہ شکار اپنے لئے پکڑا تھا) ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی انہیں ابودئود نے انہیں محمد بن کثیر نے انہیں شبہ نے عبداللہ بنابی السفہ نے شعبی سے کہ عدی بن حاتم (رض) نے فرمایا میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے معراض بےپروں والے تیر کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا اگر شکار کو اس کی دھار لگ جانے تو کھالو اور عرضاً اسے لگے تو نہ کھائو اس لئے کہ یہ دقیذ یعنی چوٹ کھا کر مرنے والا جانور ہوگا) ۔- میں نے عرض کیا کہ میں اپنا سدھایا ہوا کتا شکار پر چھوڑتا ہوں اس کے بعد میں اس کے ساتھ ایک اور کتا بھی دیکھتا ہوں اس پر آپ نے فرمایا فلاتاکل لاک انما سمیتع علی کلبک پھر نہ کھائو کیونکہ تم نے تو صرف اپنا کتا چھوڑتے وقت بسم اللہ پڑھی تھی) اس حدیث سے قول باری فکلوا مما امسکن علیکم میں اللہ کی مراد ثابت ہوگئی اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نصاً اس شکار کے گوشت کی نہی کردی جس میں سے کتے نے بھی کھالیا ہو۔ اگر یہ کہا جائے کہ حبیب المعلم نے عمرو بن شعیب سے روایت کی ہے انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے عمرو کے دادا حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابو ثعلبہ (رض) الخشنی سے فرمایا تھا کتا تمہارے لئے جو شکار پکڑ رکھے اسے کھالو) ابو ثعلبہ (رض) نے پوچھا ” خواہ کتا اس شکار کا کچھ حصہ کھاجائے “ آپ نے جواب دیا وان اکل منہ، خواہ کتا اس میں سے کچھ کھاجائے) ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ابو ثعلبہ (رض) کی روایت میں یہ فقرہ غلط ہے وہ اس لئے کہ ابوثعلبہ سے اس حدیث کی ابوادریس خولانی اور ابواسماء وغیرہ ہما نے بھی روایت کی ہے اور ان دونوں نے اس روایت میں یہ فقرہ بیان نہیں کیا ہے علاوہ ازیں اگر حضرت ابو ثعلبہ (رض) سے یہ روایت درست بھی ہوجائے پھر بھی حضرت عدی بن حاتم (رض) کی روایت دو وجہ سے اولیٰ ہوگی۔ اول یہ کہ حضرت عدی (رض) کی روایت ظاہر آیت فکلوامما امسکن علیکم۔ سے مطابقت رکھتی ہے۔ دوم یہ کہ ابو ثعلبہ (رض) کی روایت میں اس شکار کے کھانے کی ممانعت نہیں ہے جس میں سے شکار کرنے والے کتے نے بھی کھچ کھالیا ہو۔ اور یہ اصول ہے کہ جب دو روایتیں ایسی وارد ہوں کہ ایک میں ایک چیز کی ممانعت ہو اور دوسری کے اندر اس کی اباحت تو ممانعت والی روایت عمل کے لحاظ سے اولیٰ ہوگی۔ اگر یہ کہا جائے کہ قول باری فکلوا مما امسکن علیکم کا مفہوم یہ ہے کہ شکاری کتا شکار کو ہلاک کرنے کے بعد مالک کے لئے اسے روکے رکھے بعینہ مالک کے لئے اس کے امساک یعنی پکڑے رکھنے کا مفہوم بھی یہی ہے اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات غلط ہے کیونکہ ہلاکت کے بعد شکار تو محبوس ہوگیا اب اس کے بعدکتے کے مالک کے لئے اسے روکے رکھنے کے کوئی معنی نہیں۔ - اگر یہ کہاجائے کہ کتے کا شکار کو قتل کردینا ہی مالک کے لئے روکے رکھنا ہے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بےمعنی بات ہے کیونکہ اس مفہوم کی بنا پر آیت کے معنی یہ ہوں گے۔ ” تم وہ شکار کھالو جسے شکاری جانوروں نے تمہارے لئے ہلاک کردیا ہو۔ “ یہ مفہوم آیت کے فائدے کو ساقط کردیتا ہے اس لئے کہ شکاری جانوروں کے ذریعے ہلاک ہونے والے شکار کی اباحث تو اس سے قبل کی آیت (وما علمتم من اجوارح) کے ضمن میں موجود ہے۔ اس آیت میں ان شکاری جانوروں کا کیا ہوا شکار مراد ہے جنہیں ہم نے اس مقصد کے لئے سدھایا ہو۔ یہ آیت اس شخص کے سوال کے جواب میں وارد ہوئی تھی جس نے مباح شکار کے متعلق پوچھا تھا۔ علاوہ ازیں امساک یعنی پکڑے رکھنا ہلاکت کے مفہوم سے عبارت نہیں ہے اس لئے کہ شکاری کبھی شکار کو ہمارے لئے زندہ حالت میں بھی روکے رکھتا ہے اور اسے ہلاک نہیں کرتا اس لئے امساک کا مفہوم اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ وہ شکار کو مالک کے آ جانے تک پکڑے رکھے۔ مالک کے لئے شکار کو پکڑے رکھنے کی صورت یا تو یہ ہوگی کہ وہ شکار کو ہلاک کئے بغیر روکے رکھے یا ہلاک کرنے کے بعد روکے رکھے گا یا اسے ہلاک کرنے کے بعد اس کا کوئی حصہ نہیں کھائے گا۔- یہ بات تو واضح ہے کہ آیت میں امساک سے یہ مراد نہیں ہے کہ وہ شکار کو ہلاک کئے بغیر زندہ حالت میں روکے رکھے کیونکہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ آیت میں یہ مفہوم مراد نہیں ہے۔ رہ گئی یہ صورت کہ وہ شکار کو زندہ حالت میں روکے رکھے و اس کا اس طرح روکے رکھنا شکار کی اباحت کے لئے شرط نہیں ہے کیونک ہ اگر بات اس طرح ہوتی تو پھر اس کے ہاتھوں ہلاک ہوجانے والے شکار کا کھانا حلال نہ ہوتا۔ یہ مراد لینا بھی جائز نہیں ہے کہ وہ شکار کو ہلاک کرنے کے بعد مالک کے لئے روکے رکھے خواہ اس میں سے کچھ کھالے کیونکہ یہ ایک بےمعنی بات ہوگی اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے اس کے امساک کو شکار کی اباحت قرار دیا ہے اور اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے ک ہ اگر کتا شکار کو ہلاک کر کے واپس ہوجائے اور اسے مالک کے لئے روکے نہ رکھے تو اس شکار کا کھانا جائز ہوتا ہے۔ اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ آیت میں یہ مفہوم مراد نہیں ہے، اس لئے یہ بات ثابت ہوگئی کہ آیت میں امساک سے مراد ترک اکل ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ قول باری (فکلوا مما امسکن علیکم) شکاری کتے کے منہ سے بچے ہوئے باقی ماندہ حصے کی اباحث کا مقتضی ہے کیونکہ کتے نے باقی ماندہ حصہ نہ کھا کر اسے ہمارے لئے روک رکھا ہے۔ البتہ جو حصہ اس نے کھالیا وہ گویا اس نے ہمارے لئے نہیں روکا۔ باقی ماندہ کو اس نے روک لیا اس لئے ظاہر آیت اس کے یعنی شکار کے باقی ماندہ حصے کی اباحت کا متقضی ہے کیونکہ اس پر آیت کا مفہوم صادق آتا ہے۔- اس کے جوا ب میں کہا جائے گا کہ یہ بات کئی وجوہ سے غلط ہے۔ اول یہ کہ امساک کے مفہوم کے متعلق سلف سے دو قول منقول ہیں، ایک تو یہ کہ شکاری جانور اس شکار میں سے کچھ نہ کھائے۔ حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے اور دوسرا یہ کہ شکاری جانور شکار کو ہلاک کرنے کے بعد مالک کے لئے اسے روکے رکھے۔ سلف میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ شکاری جانور کا شکار کے ایک حصے کو کھا جانے کے بعد باقی ماندہ حصہ کو نہ کھانا امساک ہے۔ اس لئے یہ قول باطل ہوگیا۔- دوم یہ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (اذا اکل منہ فلا تاکل فانما امسک علی نفسہ، اگر شکاری کتا شکار میں سے کچھ کھالے تو تم نہ کھائو کیونکہ اس صورت میں اس نے شکار کو اپنے لئے پکڑا تھا) آ نے شکار کے باقی ماندہ حصے کے متعلق یہ نہیں فرمایا ک ہشکاری جانور نے اسے ہمارے لئے پکڑ رکھا ہے۔- سوم یہ کہ اس صورت میں آیت کا مفہوم یہ ہوجائے گا جس شکار کو شکاری جانور نے ہلاک کردیا اس میں سے کھالو “ اور اس میں امساک کے ذکر کی گنجائش نہیں ہوگی کیونکہ یہ بات تو معلوم ہے کہ شکاری جانور نے شکار کا جو حصہ کھالیا ہے ممانعت کے دائرے میں اس کے آنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اس سے آیت میں (مما امسک علیکم) کا ذکر کا فائدہ ساقط ہوجائے گا نیز شکاری جانور جب شکار کا کچھ حصہ کھاجائے گا تو اس سے ہمیں بات معلوم ہوگی کہ اس نے اپنے لئے یہ شکار کیا تھا اور اپنے لئے اسے پکڑے رکھا تھا، ہمارے لئے اس نے پکڑ کر نہیں رکھا تھا۔ پھر اگر وہ اس کا کچھ حصہ کھالے تو باقی ماندہ حصے کو نہ کھانے کی وجہ سے اس پر یہ مفہوم صادق نہیں آئے گا کہ اس نے یہ حصہ ہمارے لئے روکا تھا اس لئے کہ دراصل وہ باقی ماندہ حصہ بھی نہ چھوڑتا اگر وہ سیر نہ ہوجاتا۔ پیٹ بھر جانے کی وجہ سے اس نے یہ حصہ چھوڑ دیا تھا اور اسے اس کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ ہمارے لئے روکے رکھنے کی اس میں کوئی با ت نہیں تھی۔ اس نے ابتدا ہی سے شکار کا ایک حصہ کھالیا تھا یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ شکار کرنے کے بعد اس نے شکار کو ہمارے لئے نہیں پکڑا تھا۔ اس صورت حال کے تحت اس کی تعلیم کی صحت کے بارے میں ہمارے لئے غور کرنا ضروری ہوجائے گا، اس کی تعلیم تو یہ ہون ی چاہیے تھی کہ وہ ہمارے لئے شکار کرے اور ہمارے لئے اسے پکڑے رکھے جب وہ شکار کا ایک حصہ کھاجائے گا تو اس سے یہ بات معلوم ہوگی کہ اسے سدھانے اور شکار یک تعلیم دینے کا کام ابھی تک نامکمل ہے۔- اگر یہ کہا جائے کہ کتا تو اپنےئے شکار کرتا ہے اور اسے اپنے لئے پکڑے رکھتا ہے۔ مالک کے لئے پکڑے نہیں رکھتا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر شکار پر چھوڑنے کے وقت وہ شکم سیر ہو تو شکار پکڑتا ہی نہیں، شکار پر وہ اسی صورت میں جھپٹے گا کہ اس کا ایک حصہ خود کھالے۔ اس لئے شکار کا ایک حصہ کھا جانے سے تعلیم کی نفی نہیں ہوتی اور اس بات کی بھی نفی نہیں ہوتی کہ اس نے شکار کو ہمارے لئے نہیں پکڑے رکھا۔ اگر آپ کی بات کا اعتبار کیا جائے تو ہمیں کتے کی نیت اور اس کی پوشیدہ خواہش کے اعتبار کی ضرورت پیش آئے گی۔ یہ ایسی بات ہے جسے نہ ہم معلوم کرسکتے ہیں اور نہ ہی اس کے متعلق ہمیں کوئی واقفیت ہوسکتی ہے بلکہ ہم تو اس بارے میں شک بھی نہیں کرسکتے کہ اس کی نیت اور اس کا ارادہ اپنی ذات کے لئے تھا۔- اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ مقرض کا یہ کہنا درست نہیں کہ کتا اپنی ذات کے لئے شکار کرتا اور شکار کو پکڑے رکھتا ہے۔ کیونکہ اگر بات اس طرح ہوتی تو اس کی پٹائی اس حد تک نہ ہوتی کہ کھانا چھوڑ جائے، اور ترک اکل کی تعلیم ملنے کے باوجود وہ یہ بات نہ سیکھتا۔ جب وہ ترک اکل کی تعلیم ملنے پر کھان اچھوڑ دینے کی بات سیکھ جاتا ہے اور شکار میں سے کچھ نہیں کھاتا تو اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جب وہ کھانا چھوڑ جائے گا تو شکار کو ہمارے لئے روکنے والا بن جائے گا اور اللہ کی مقرر کردہ شرط تعلیم کے مطابق وہ معلم یعنی سدھایا ہوا قرار پائے گا۔ اس صورت میں وہ اپنے مالک کے لئے شکار کرے گا اور اپنے مالک ہی کے لئے شکار کو پکڑے رکھے گا۔ معترض کا یہ کہنا کہ اگر کتا اپنے مالک کے لئے شکار کرتا تو شکم سیری کی حالت میں بھی وہ یہ کام کرتا تو اس میں بات دراصل یہ ہے کہ شکم سیری کی حالت میں جب مالک اسے شکار پر چھوڑتا ہے تو وہ مالک ہی کے لئے شکار کرتا اور مالک ہی کے لئے شکار کو پکڑے رکھتا ہے۔ اگر وہ سدھایا ہوا ہو تو شکار پر چھوڑے جانے کی صورت میں وہ شکار پکڑنے سے باز نہیں رہتا۔- معترض کا یہ کہنا کہ وہ شکار پر اس صورت میں جھپٹتا ہے کہ اس میں سے خود کچھ کھالے، تو یہاں بھی یہ بات ہوتی ہے کہ وہ شکار کا ایک حصہ کھاتا ضرور ہے مگر اس وقت جب کہ وہ شکار کو پہلے اپنے مالک کے لئے روک لیتا ہے۔ جہاں تک کتے کی پوشیدہ خواہش اور اس کی نیت کا تعلق ہے تو اسے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ شکار کی تعلیم ملنے اور اس کے سدھائے جانے کا کیا مقصد ہے، وہ اس مراد اور مقصد تک پہنچ جاتا اور اس سے آگاہ ہوجاتا ہے جس طرح گھوڑے کو یہ معلوم ہوتا ہے اسے ہنکانے اور اس پر چابک بلند کرنے کا کیا مقصد اور مراد ہے۔ کتے کو اس سلسلے میں جو تعلیم دی جاتی ہے وہ یہی ہوتی ہے کہ شکار کو نہ کھائے لیکن جب وہ شکار کو کھا لیتا ہے تو اس سے یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ اس نے اپنی ذات کے مقصد سے شکار پکڑا تھا، مالک کے مقصد سے شکار نہیں کیا تھا۔- اوپر ہم نے جو کچھ ذکر کیا ہے نیز یہ کہ کتے کی تعلیم کی تکمیل اس وقت ہوتی ہے جب وہ ترک اکل سیکھ جاتا ہے اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ کتا واضح طور پر ایک پالتو جانور ہے وحشی جانور نہیں ہے۔ اس لئے یہ کہنا درست نہ ہوگا ک ہا سے اس لئے سدھایا جاتا ہے کہ وہ پالتو جانور بن جائے اور وحشی نہ رہے اس لئے یہ ضروری ہوگیا کہ اس کی تعلیم کی تکمیل ترک اکل پر ہو۔ اس کے برعکس باز بنیادی طور پر چیر پھاڑ کرنے والا وحشی پرندہ ہے اس لئے اس کی تعلیم اس طرح نہیں ہوسکتی کہ اس یک پٹائی ہوتی رہے حتیٰ کہ وہ کھانا چھوڑ دے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ اسے اپنے مالک سے مانوس ہونے اور اس سے وحشت دور کرنے کی تعلیم دی جائے کہ جب اس کا مالک اسے آواز دے تو وہ اس کی آواز پر اس کے پاس پہنچ جائے۔ جب اس کے اندر یہ صفت پیدا ہوجائے گی تو یہ سمجھا جائے گا کہ اس نے اپنی پہلی فطرت ترک کردی ہے اور اس سے ہٹ گیا ہے۔- یہ بات اس کی تعلیم کی تکمیل کی علامت بن جائے گی۔ قول باری (فکلوا مما امسکن علیکم) میں ایک قول یہ ہے کہ اس میں حرف من تبعیض کا مفہوم ادا کر رہا ہے اور تبعیض کے معنی یہ ہوں گے کہ شکاری جانور ہمارے لئے جو شکار پکڑ رکھیں گے ان میں سے بعض ہمارے لئے مباح ہوں گے سب کے سب مباح نہیں ہوں گے جس شکار کو یہ شکاری جانور زخمی کر کے ہلاک کردیں وہ مباح ہوگا اور جسے ٹکر مار کر زخمی کئے بغیر ہلاک کردیں وہ مباح نہیں ہوگا۔ بعض کا قول ہے کہ یہاں حرف من زائد ہے اور تاکید کے معنی دے رہا ہے جس طرح یہ قول باری ہے (یکفر عنکم من سیئاتکم) ابتدائے غایت ہے یعنی ” اللہ تعالیٰ ہمارے ان اعمال سئیہ کو بخش دے گا جن پر پردہ پڑا رہنا تمہیں پسند ہے۔ “ ان کے قول کے مطابق اس کے یہ معنی لینا بھی جائز ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے سیئاً میں سے ان گناہوں کی بخشش کر دے گا جن کی تکیفیر کا اس کی حکمت میں جواز نہیں۔ یہ معنی لینے کی وجہ یہ ہے کہ اس میں تمام مکلفین کو خطاب ہے۔- امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ جب شکاری کتا اپنے پکڑے ہوئے شکار میں سے کچھ کھاجائے اور اس نے اس سے پہلے بہت سے شکار پکڑے ہوں اور ان کے کسی حصے کو اس نے نہ کھایا ہو تو اس صور ت میں اس کے پہلے کئے ہوئے تمام شکار حرام ہوجائیں گے اس لئے کہ جب اس نے شکار میں سے کھالیا تو یہ ظاہر ہوگیا کہ ابھی تک معلم نہیں بنا یعنی اس کے سدھانے اور سکھانے کا کام مکمل نہیں ہوا۔ ابتدا میں ترک اکل کی بنا پر سیکھ جانے کا جو حکم لگایا گیا تھا وہ اجتہاد اور ظن غالب کی بنا پر تھا۔ اب شکار میں سے کھا لینے کی وجہ سے نفی تعلیم کا جو حکم لگایا جا رہا تھا وہ یقین کی بنا پر ہے۔ یقین کے ہوتے ہوئے اجتہاد کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ بعض دفعہ شروع ہی سے کتا سدھائے بغیر شکار کو نہیں کھاتا۔ جس طرح دوسرے تمام درندے اپنے شکار کو ہلاک کردینے کے بعد فوری طور پر اسے نہیں کھاتے، جب کتا اکثر اوقات شکار کو ہاتھ نہیں لگاتا تو اس پر ظن غالب کی بنیاد پر سیکھ جانے کا حکم لگایا جاتا ہے لیکن جس اس کے بعد وہ کھا لیتا ہے تو اس بات کا یقین ہوجاتا ہے کہ اس نے ابھی سیکھا نہیں ہے اس لئے اس کے کئے ہوئے سابقہ تمام شکار حرم ہوجاتے ہیں۔- امام ابو یوسف اور امام محمد کا قول ہے کہ اگر کتا تین مرتبہ کھانا چھوڑ دے… تو وہ سدھایا ہوا شمار ہوگا۔ اگر اس کے بعد اس نے بیشمار شکار میں سے کھالیا تو اس کے سابقہ شکار حرام نہیں ہوں گے۔ کیونکہ یہ ناممکن ہے کہ وہ تعلیم بھلا چکا ہو اس لئے صرف احتمال کی بنیاد پر اس کے وہ سابقہ شکار حرام قرار نہیں دیئے جائیں گے جن پر اباحت کا حکم لگ چکا ہے۔ یہاں یہ مناسب ہے کہ امام ابوحنیفہ کے مسلک کو اس پر محمول کیا جائے کہ کتے نے اس مدت کے دوران شکار میں سے کھالیا تھا جس میں وہ اپنی تعلیم بھلا نہیں سکتا تھا۔ اگر شکار کو طویل مدت گزر چکی ہو اور اس کے بعد کتا شکار کر کے اس میں سے کھالے تو اس کے سابقہ شکاروں کو حرام قرار دینا نہیں چاہیے جب کہ مدت کی طوالت اتنی ہو کہ اس کے لئے اپنی تعلیم کو بھلا دینا ممکن نظر آتا ہو۔ اس وضاحت کے بعد امام ابوحنیفہ اور آپ کے دونوں شاگردوں امام ابو یوسف اور امام محمد کے درمیان صرف یہ اختلافی نکتہ باقی رہ جائے گا کہ دونوں حضرات تعلیم کی شرط میں تین مرتبہ ترک اکل کا اعتبار کرتے ہیں جبکہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک اس کی کوئی حد نہیں ہے۔ آپ تعلیم کے حصول میں صرف ظن غالب کا اعتبار کرتے ہیں۔ اگر ترک کل کی وجہ سے ظن غالب یہ ہوجائے کہ اس پر سدھانے کا عمل مکمل ہوچکا ہے اور وہ اب تعلیم پا چکا ہے پھر تھوڑے عرصے کے بعد اسے شکار پر چھوڑا گیا ہو اور اس نے اس میں سے کھالیا ہو تو اس پر ان شکاروں کے سلسلے میں غیرمعلم ہونے کا حکم لگایا جائے گا جن میں سے اس نے کھایا نہیں تھا۔ لیکن ترک اکل کے بعد ایک مدت دراز گزر جانے پر اگر اسے شکار پر چھوڑا گیا ہو اور اس نے اس میں سے کھالیا ہو تو ظن غالب یہی ہوگا کہ مدت کی طوالت کی وجہ سے وہ اپنی تعلیم بھلا چکا ہے۔ اس لئے اس کے کئے ہوئے سابقہ شکار حرام قرار نہیں دیئے جاسکتے۔- امام ابو یوسف اور امام محمد کا کہنا یہ ہے کہ جب اس نے تین مرتبہ شکار کر کے اس میں سے کچھ نہ کھایا ہو اس کے بعد شکار پکڑ کر اس میں سے کچھ کھالیا ہو تو چاہے مدت طویل ہو یا مختصر اس کے سابقہ شکاروں کو حرام قرار نہیں دیا جائے گا۔ یہ ہے وہ نکتہ جس پر امام ابوحنیفہ کا اپنے دونوں شاگردوں کے ساتھ اختلاف ہے۔ قول باری ہے (واذکروا اسم اللہ علیہ اس پر اللہ کا نام لو) حضرت ابن عباس (رض) حسن اور سدی کا قول ہے کہ اس سے شکاری جانوروں کو شکار پر چھوڑتے وقت اللہ کا نام لینا مراد ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ یہ قول باری امر کے صیغے کے ساتھ مذکور ہے اور یہ ایجاب کا مقتضی ہے۔ اس میں یہ احتمال ہے کہ یہ اس اکل کی طرف راجع ہے جس کا ذکر قول باری (فکلوا مما امسکن علیکم) میں کیا گیا ہے اور یہ احتمال ہے کہ یہ ارسال کی طرف راجع ہے اس لئے کہ قول باری (وما علمتم من الجوارح مکلبین تعلمونھن مما علمکم اللہ) شکار پر سدھائے ہوئے شکاری جانور چھوڑنے کے معنی کو متضمن ہے، اس لئے بسم اللہ پڑھنے کے حکم کا اس کی طرف راح ہونا جائز ہے۔ اگر اس میں یہ احتمال نہ ہوتا تو سلف اس کی یہ تاویل نہ کرتے۔- جب بات اس طرح ہے اور بسم اللہ پڑھنے کا حکم اس کے ایجاب کو متضمن ہے اور دوسری طرف سب کا اس پر اتفاق ہے کہ کھانے پر بسم اللہ پڑھنا واجب نہیں ہے اس لئے بسم اللہ پڑھنے کے حکم پر شکاری جانوروں کو شکار پر چھوڑتے وقت عمل کرنا واج بوہ گیا کیونکہ یہ مختلف فیہ ہے۔ اب جب ارسال کے وقت بسم اللہ پڑھنا واجب ہوگیا تو یہ ذکاۃ کی ایک شرط بن گیا جس طرح شکاری جانوروں کی تعلیم اس کی ایک شرط ہے، اور جس طرح یہ بھی ایک شرط ہے کہ چھوڑنے والا ایسا شخص ہو جس کی ذکاۃ شرعی لحاظ سے درست قرار دی گئی ہو اور جس طرح دھار دار آلے کے ذریعے شکار کو لگے ہوئے زخم سے خون بہا دینا بھی ایک شرط ہے۔ آیت اس امر کی مقتضی ہے کہ جان بوجھ کر ترک تسمیہ پر ذکاۃ کا فساد لازم ہوجاتا ہے۔ یعنی شرعی طریقہ سے ذبح نہیں ہوتی اس لئے کہ امر کا ایجاب ناسی یعنی بھول جانے والے انسان کو لاحق نہیں ہوتا کیونکہ اسے امر کے ساتھ مخاطب بنانا درست نہیں ہوتا۔ اسی بنا پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر بھول کر بسم اللہ پڑھنا چھوڑ گیا ہو تو ذکاۃ کی صحت میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں بنتی اس لئے کہ نسیان کی حالت میں وہ دراصل بسم اللہ پڑھنے کا مکلف ہی نہیں ہوتا۔ ہم ذبیحہ پر ایجاب تسمیہ کا قول باری (ولا تاکلوا مما لم یذکراسم اللہ علیہ) پر پہنچ کر تذکرہ کریں گے۔ انشاء اللہ۔- کتے کو شکار پر چھوڑتے وقت بسم اللہ پڑھنے کے متعلق روایت ہمیں محمد بن بکر نے بیان کی، انہیں ابودائود نے، انہیں محمد بن کثیر نے، انہیں شعبہ نے عبداللہ بن ابی السفر سے، انہوں نے شعبی سے کہ حضرت عدی بن حاتم (رض) نے فرمایا، ” میں نے شکار پر کتے کو چھوڑنے کے متعلق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، (اذا سمیت فکل والافلا تاکل و ان اکل مئتہ فلا تاکل فانما امسک علی نفسہ) جب تم بسم اللہ پڑھ لو تو کھالو، ورنہ نہ کھائو، اور اگر کتا اس شکار میں سے کھالے تو بھی نہ کھائو کیونکہ اس نے اپنی ذات کے لئے شکار پکڑا۔ حضرت عدی نے عرض کیا : ” میں اپنا کتا چھوڑتا ہوں اس کے ساتھ ایک اور کتا مل جاتا ہے “۔ آپ نے فرمایا (لا تاکل لانک انما سمیت علی کلبک پھر نہ کھائو کیونکہ تم نے صرف اپنے کتے پر بسم اللہ پڑھی تھی) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عدی (رض) کو اس شکار کے کھانے سے منع کردیا جس پر کتا چھوڑتے وقت بسم اللہ نہیں پڑھی تھی اور اس سے بھی جس کے شکار میں اپنے کتے کے ساتھ دوسرا کتا بھی شریک ہوگیا ہو جس پر بسم اللہ نہ پڑھی گئی ہو۔- یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ شکار کی ذکاۃ کی صحت کی ایک شرط یہ ہے کہ اس پر شکاری جانور چھوڑتے وقت بسم اللہ پڑھی جائے۔ یہ بات اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ بسم اللہ پڑھنے کے وجوب کے لحاظ سے شکار پر شکاری جانور چھوڑنے کی حالت، جانور ذبح کرنے کی حالت کی طرح ہے۔ شکار کے سلسلے میں بہت سی باتوں کے اندر فقاء کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ اول مجوسی کے کتے کے ذریعے شکار کرنا جس کے متعلق ہمارے اصحاب، امام مالک، اوزاعی اور امام شافعی کا قول ہے کہ مجوسی کا کتا اگر سدھایا ہوا ہو تو اس کے ذریعے شکار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اگرچہ اسے سدھانے والا مجوسی ہو لیکن اسے شکار پر چھوڑنے والا مسلمان ہو۔ سفیان ثوری کا قول ہے مجوسی کے کتے کے ذریے شکار کرنے کو میں مکروہ سمجھتا ہوں الا یہ کہ شکاری کتا اپنا شکار اس تعلیم کی بنا پر پکڑتا ہو جو اس نے مسلمان کے ہاتھوں حاصل کی ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ظاہر قول باری (فلکوا مما امسکن علیکم) مجوسی کے کتے کے کئے ہوئے شکار کے جواز اور اس کے کھا لینے کی اباحت کا مقتضی ہے۔ آیت میں اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں کیا گیا کہ اس کا مالک مسلمان ہو یا مجوسی۔ نیز شکاری کتا تو ایک آلے کی طرح ہوتا ہے جس طرح ذبح کرنے کی چھری یا تیر چلانے کی کمان ہوتی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ کتے کا حکم بھی اس لحاظ سے مختلف نہ ہو کہ اس کا مالک کون ہے۔ جس طرح ان تمام آلات کا حکم ہے جن کے ذریے شکار کیا جاتا ہے۔ نیز شکار کے سلسلے میں کتے کا اعتبار نہیں کیا جاتا بلکہ شکار پر کتا چھوڑنے والے کا اعتبار کیا جاتا ہے۔- آپ نہیں دیکھتے کہ اگر کوئی مجوسی کسی مسلمان کے کتے کے ذریعے شکار کرے تو اس کا کھانا جائز نہیں ہوتا۔ اسی طرح اگر کوئی مسلمان کسی مجوسی کے کتے کے ذریعے شکار کرے تو اس کا کھانا جائز ہونا چاہیے۔ اگر یہ کہا جائے کہ قول باری ہے (یسئلونک ماذا احل لھم قل احل لکم الطیبات وما علمتم من الجوارح مکلبین تعلمونھن مما علمکم اللہ) یہ بات ظاہر ہے کہ اس میں اہل ایمان سے طخاب ہے اس سلے یہ واجب ہوگا کہ شکار کی اباحت میں مسلمان کی تعلیم شرط قرار دی جائے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ مجوسی کی دی ہوئی تعلیم یا تو مسلمان کی دی ہوئی تعلیم کی طرح ہوگی جس کی ذکاۃ کی اباحت میں شرط ہے یا مجوسی کی دی ہوئی تعلیم مسلمان کی دی ہوئی تعلیم سے کم ہوگی۔ اگر پہلی صورت ہوگی تو اس میں تعلیم پانے والے کا اعتبار نہیں ہوگا بلکہ حصول تعلیم کا اعتبار ہوگا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر کتا ایک مسلمان کی ملکیت میں آ جائے اور اسے اسی طرح سدھایا گیا ہو جس طرح ایک مسلمان سدھاتا اور تعلیم دیتا ہے تو اس کا کیا ہوا شکار حلال ہوگا۔ اس طرح گویا ملکیت کا اعتبار نہیں ہوگا بلکہ تعلیم کا اعتبار یکا جائے گا۔ اگر مجوسی کی دی ہوئی تعلیم مسلمان کی دی ہوئی تعلیم سے کم ہوگی جس کی وجہ سے شکار کرتے وقت ذکاۃ کی بعض شرائط میں خلل واقع ہوجائے تو اس صورت میں یہ کتا سدھایا ہوا کتا نہیں کہلائے گا اور پھر اس کے کئے ہوئے شکار کی حلت کی ممانعت میں مجوسی اور مسلمان کی ملکیت کے حکم کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔- رہ گیا قول باری (تعلمونھن مما علمکم اللہ) تو اس میں مسلمانوں کو خطاب ہے لیکن حصول تعلیم سے مقصد ہے کہ کتے کو درست طریقے سے سدھایا گیا ہو۔ اگر مجوسی کتے کو مسلمان کی دی ہوئی تعلیم کی طرح تعلیم دے دیتا ہے تو وہ بات حاصل ہوجاتی ہے جس کی آیت میں شرط لگائی گئی ہے۔ اس کے بعد مجوسی کی ملکیت کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا۔ اگر شکار زندہ ہاتھ آ جائے تو اس کے بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف اور امام محمد کا قول ہے کہ اگر کتے کا کیا ہوا شکار یا تیر کے ذریعے حاصل ہونے والا شکار شکاری کے زندہ ہاتھ آ جاتا ہے اور پھر مرجاتا ہے تو اس کا گوشت نہیں کھایا جائے گا اگرچہ اسے ذبح کرلینے کی اس کو قدرت نہ بھی حاصل ہو سکے حتیٰ کہ اس کی موت واقع ہوجائے۔- امام مالک اور امام شافعی کا قول ہے کہ اگر اسے ذبح کرلینے کی اس کو قدرت حاصل نہ ہو سکے حتیٰکہ اس کی موت واقع ہوجائے تو وہ شکار حلال ہوگا خواہ اس کی موت شکار یکے ہاتھوں میں کیوں نہ واقع ہوگئی ہو۔ اگر اسے ذبح کرلینے کی قدرت حاصل ہو اور پھر وہ اسے ذبح نہ کرے تو اس کا گوشت نہیں کھایا جائے گا خواہ اس کے ہاتھوں میں نہ بھی پہنچا ہو۔ سفیان ثوری کا قول ہے کہ اگر شکاری کو اتنی قدرت ہو کہ شکار کو کتے سے لے کر ذبح کرلے اور پھر ذبح نہ کرے تو اس کا گوشت حلال نہیں ہوگا۔ اوزاعی کا قول ہے کہ جب اسے ذبح کرنا ممکن ہوا اور وہ ذبح نہ کرے تو اس کا گوشت نہیں کھایا جائے گا اور اگر اس کے ہاتھ آ جانے کے بعد اسے ذبح کرنا ممکن نہ ہو حتیٰ کہ اس کی موت واقع ہوجائے تو اس صورت میں وہ شکار حلال ہوگا۔- لیث بن سعد کا قول ہے کہ اگر شکاری شکار کو کتے کے منہ میں پا کر اسے ذبح کرنے کے لئے اپنے موزے یا کمر بند سے چھری نکالنے لگے اور اسی دوران شکار ہلاک ہوجائے تو اسے کھایا جائے گا۔ اگر اپنے خوجین سے یا تھیلے سے چھری لینے چلا جائے اور ذبح کرنے سے قبل ہی شکار مرجائے تو اسے نہیں کھایا جائے گا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ شکار جب زندہ اس کے ہاتھوں میں پہنچ جائے تو اس صورت میں ذبح اس کی ذکاۃ کی شرط ہوگی، ذبح کے امکان یا عدم امکان کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کتے کا پکڑا ہوا شکار صرف اس بنا پر حلال ہوتا ہے کہ اس تک رسائی متعذر ہوتی ہے اور وہ ناممکن الحصول ہوتا ہے صرف کتے کے ذریعے وہ قابو میں آسکتا ہے لیکن جب وہ شکاری کے ہاتھوں میں زندہ پہنچ جاتا ہے تو اس سے وہ سبب دور ہوتا ہے جس کی بنا پر کتے کے کئے ہوئے شکار کی اباحت ہوئی تھی اور اس کی حیثیت چوپایوں جیسی ہوجاتی ہے جنہیں موت کا خطرہ رہتا ہے۔- اس لئے ذبح کے ذریعے ہی اس کی ذکاۃ ہو سکے گی چاہے اس کی موت میں اتنا وقفہ ہو کہ اسے ذبح کرنے کی قدرت حاصل نہ ہو سکے یا قدرت حاصل ہوجائے۔ اصل بات یہ ہوتی ہے کہ شکار اس کے ہاتھوں میں زندہ موجود ہوتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ تمام چوپایوں کی ذکاۃ ذبح کے ذریعے صرف اس لئے ہوتی ہے کہ انہیں ذبح کرنا انسان کے بس میں ہوتا ہے۔ اگر چوپایہ اپنی طبعی موت مرجائے تو یہ ذکاۃ نہیں کہلائے گی۔ اگر شکار زندہ ہاتھ نہ آتا تو کتے یا تیر کے ذریعے لگا ہوا زخم اس کے لئے ذکاۃ قرار پاتا۔ اس لئے اگر وہ زندہ اس کے ہاتھ آ جائے لیکن وہ اتنی دیر تک زندہ نہ رہے کہ اسے ذبح کرلیا جائے تو اس صورت میں وہ ذبیحہ یعنی مذکیٰ شمار ہوگا۔ کتے یا تیر کے ذریعے لگا ہوا زخم اس کی ذکاۃ کے لئے کافی ہوگا اور اس کی حیثیت اس شکار جیسی ہوجائے گی جو موت کے بعد ہاتھ آیا ہو۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس کی دو صورتیں ہیں، اول یہ کہ کتے نے اسے اس قدر زخمی کردیا ہو کہ اس کی زندگی کی بس اتنی رمق باقی ہو جتنی ذبح شدہ جانور کے اندر ذبح کے فوراً بعد ہوتی ہے۔- اس کی صورت یہ ہوگی کہ مثلاً کتے نے اس کی گردن کی رگیں، حلقوم اور نرخرہ کا ٹدیئے ہوں یا اس کا پیٹ پھاڑ دیا ہو جس سے اس کی آنتیں وغیرہ باہر نکل آئی ہوں۔ اگر شکار کی یہ حالت ہو تو کتے کا لگایا ہوا یہ زخم اس کے لئے ذکاۃ قرار دیا جائے گا خواہ اس کے بعد اس کی ذبح ممکن ہو یا ممکن نہ ہو۔ یہ وہ صورت وہ گی جس میں کتے کا لگایا ہوا زخم اس شکار کی شرعی ذبح یعنی ذکاۃ کا کام دے جائے گا خواہ اس کے بعد اس کی ذبح ممکن ہو یا ممکن نہ ہو۔ اس صورت میں کتے کا لگایا ہوا زخم شکار کے لئے ذکاۃ بن جائے گا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کتے یا تیر کے ذریعے لگایا ہوا زخم اس شکار کی شرعی ذبح یعنی ذکاۃ کا کام دے جائے گا خواہ اس کے بعد اس کی ذبح ممکن ہو یا ممکن نہ ہو۔ اس صورت میں کتے کا لگایا ہوا زخم شکار کے لئے ذکاۃ بن جائے گا۔ دوسری صوری یہ ہے کہ کتے یا تیر ک یذریے لگایا ہوا زخم مہلک نہ ہو اور اس جیسے زخم کے ساتھ ندہ رہنا ممکن ہو لیکن شکاری کے ہاتھ آنے کے بعد اس کی موت واقع ہوگئی ہو اور اس نے اتنا وقت نہ لیا ہو کہ اسے ذبح کرنے کی قدرت حاصل ہوسکتی تو اس صورت میں وہ شکار مکی نہیں ہوگا یعنی اسے شرعی ذبیحہ قرار نہیں دیا جائے گا۔- اس لئے کہ کتے یا تیر سے لگے ہوئے اس زخم کی رعایت اور لحاظ اس وقت کیا جاتا جب شکاری کے ہاتھ میں آنے سے پہلے شکار کی موت واقع ہوجاتی اور اس کے لئے اسے ذبح کرنا ممکن نہ ہوتا لیکن جب شکار زندہ اس کے ہاتھ میں آ جائے تو زخم کا اعتبار باطل ہوجائے گا اور اس کی حیثیت ان تمام چوپایوں کی طرح ہوجائے گی جنہیں زخم آتے ہیں۔ لیکن یہ زخم ان کے لئے ذکاۃ کا سبب نہیں بنتے۔ مثلاً اوپر سے لڑھک کر نیچے گر جانے والا جانور یا ٹکر کھا کر مرجانے والا چوپایہ وغیرہ۔ اس لئے اس صورت میں ذبح کے ذریعے ہی اس کی ذکاۃ ہوگی۔ اس شکار کے بارے میں بھی فقاء کے درمیان اختلاف رائے ہے جو شکاری کی نظروں سے بھگ کر اوجھل وہ جائے۔ امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف اور امام محمد اور زفر کا قول ہے کہ جب شکار اور شکاری کتا دونوں شکاری کی نظروں سے اوجھل و جائیں اور وہ ان دونوں یکتلاش میں ان کے پیچھے رہے پھر اسے یہ دونوں اس حالت میں مل جائیں کہ شکار کتے کے ہاتھوں قتل ہوچکا ہو تو اس شکار کا گوشت حلال ہوگا۔ لیکن اگر شکاری نے ان کی تلاش ختم کر کے اپنے کوئی اور کام شروع کردیا ہو اور پھر انہیں اس حالت میں تلاش کرلیا ہو کہ شکار ہلاک ہوچکا اور کتا اس کے پاس موجود ہو تو ایسے شکار کا گوشت ہمارے نزدیک مکروہ ہوگا۔ تیر سے کئے ہوئے شکار کے متعلق بھی ہمارے اصحاب کی یہی رائے ہے جب تیر لگنے کے بعد شکار نظروں سے غائب ہوجائے۔- امام مالک کا قول ہے کہ اگر شکار نظروں سے غائب ہوجانے کے بعد اسی دن مل جائے تو کتے اور تیر دونوں صورتوں میں کئے گئے ایسے شکار کو کھایا جاسکے گا۔ اگرچہ شکار مردہ حالت میں کیوں نہ ملے بشرطیکہ اس کے جسم پر زخم کے نشانات موجود ہوں لیکن اگر ایک رات گزر جائے اور پھر وہ شکار ہاتھ آئے تو اس صورت میں وہ حلال نہیں ہوگا۔ سفیان ثوری کا قول ہے کہ جب شکار پر تیر چلایا ہو اور اس کے بعد ایک دن یا ایک رات وہ اس کی نظروں سے غائب رہا ہو تو ان کے نزدیک اس کا گوشت مکروہ ہوجائے گا۔ اوزاعی کا قول ہے کہ اگر شکار اسے اگلے دن مردہ صورت میں مل جائے اور اس کے جسم پر اپنا تیر بھی پیوست نظر آئے یا اس کے جسم پر تیر لگنے کا نشان موجود ہو تو وہ اس کا گوشت کھا سکتا ہے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ شکار اگر نظروں سے غائب ہوجائے تو قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ اس کا گوشت نہ کھایا جائے۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) سے ان کا یہ قول مروی ہے۔ ” جو شکار تمہیں فوراً مل جائے اس کا گوشت کھالو اور جو نظروں سے غائب ہوجائے اسے چھوڑ دو “۔- ایک روایت میں حضرت ابن عباس (رض) کے الفاظ یہ ہیں : جچو شکار ایک رات غائب رہنے کے بعد ملے اسے نہ کھائو۔ “ حضرت ابن عباس (رض) کی روایت میں دو لفظوں اصماء اور انماء کا ذکر ہوا ہے۔ پہلے کا مفہوم یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو اسی وقت فوری طور پر مل جائے اور دوسرے کا مفہوم یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو نظروں سے غائب ہوجائے۔ سفیان ثوری نے موسیٰ بن ابی عائشہ، انہوں نے عبداللہ بن ابی رزین سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے نظروں سے غائب ہو کر مرجانے والے شکار کا ذکر کرتے ہوئے اس کے گوشت کو ناپسند فرمایا اور اس سلسلے میں حشرات الارض کا بھی ذکر کیا۔ یاد رہے کہ روایت میں مذکور ابورزین صحابی نہیں ہیں بلکہ یہ ابو وائل کے آزاد کردہ غلام ہیں۔ اگر شکار زخمی ہونے کے بعد نظروں سے غائب ہوجانے اور شکاری اس کی تلاش میں تاخیر کر دے تو اس کا گوشت کھایا نہیں جائے گا۔ اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ سا پر سب کا اتفاق ہے کہ زخمی ہونے کے بعد شکار نظروں سے غائب نہ ہو اور شکاری کے لئے اسے ذبح کرنا ممکن ہو لیکن وہ اسے ذبح نہ کرے حتیٰ کہ اس کی موت واقع ہوجائے تو اس صورت میں اس کا گوشت نہیں کھایا جائے گا۔- اگر شکاری اس کی جستجو ترک نہیں کرتا اور پھر اسے مردہ حالت میں پا لیتا ہے تو ہم یہ بات سمجھ لیتے ہیں کہ گویا شکاری کو اتنا موقع ہی نہیں ملا کہ اسے ذبح کرسکے۔ اس لئے کتے یا تیر کا اسے ہلاک کردینا اس کے حق میں ذکاۃ یعنی شرعی ذبح کے مترادف ہوجائے گا لیکن اگر اس کی تلاش میں تاخیر اور سستی کرتا ہے تو اس صورت میں اس بات کی گنجائش ہوتی ہے کہ اگر اسے فی الفور تلاش کرتا تو شاید اسے ذبح کرلیتا۔ اب جبکہ اس نے ایسا نہیں کیا حتیٰ کہ اس کی موت واقع ہوگئی تو اس کا گوشت نہیں کھایا جائے گا۔ جب اس یک تلاشی ترک نہ کرے اور اسے زندہ حالت میں پالے تو یہ بات یقینی ہوجائے کہ کتے کا اس ہلاک کردینا اس کی ذکاۃ نہیں ہے۔ اس لئے اس کا کھانا جائز نہیں ہوگا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عدی بن حاتم سے فرمایا (فان شار کہ کلب اخوفلا تاکل فلعلہ ان یکون الثانی قتلہ اگر اس کیس اتھ کوئی دوسرا کتا بھی شامل ہو جئاے تو پھر اسے نہ کھائو۔ ہوسکتا ہے کہ اس دوسرے کتے نے اسے قتل کردیا ہو، شارع (علیہ السلام) نے اس کے کھانے کی ایسی صورت میں ممانعت کردی جبکہ دوسرے کتے کے ہاتھوں اس شکار کی ہلاکت کا جواز اور اس کی گنجائش پیدا ہوجائے۔ اسی طرح اگر شکار کے غائب ہونے کی صورس میں اس یک گنجائش تھی کہ اگر شکاری اس کی تلاش جاری رکھتا تو اس یک شرعی ذبح ہوجاتی لیکن چونکہ اس نے ایسا نہیں کیا اس لئے یہ ضروری ہوگیا کہ اس کا گوشت نہ کھایا ائے کیونکہ درج بالا حدیث میں بیان کردہ سبب کا اس صورت میں بھی جواز اور گنجائش موجود ہے۔- اگر یہ کہا جائے کہ معاویہ بن صالح نے عبدالرحمن بن جبیر بن نفیر حضرمی سے روایت کی ہے، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت ثعلبہ سے، انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ اگر ایک شخص تین دنوں کے بع بھی گمشدہ شکار کو تلاش کرے تو اسے کھالے گا۔ الا یہ کہ اس میں بدبو پیدا ہوچکی ہو۔ بعض طرق میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے یہ الفاظ منقول ہیں (اذٓا ادرکت بعد ثلاث و سھمک فیہ فکلہ مالوینتس۔ جب تین دنوں کے بعد تمہارا شکار تمہیں مل جائے اور اس کے جسم میں تمہارا چھوڑا ہوا تیر پیوست ہو تو جب تک اس میں بدبو پیدا نہ وہ جائے اسے کھا سکتے ہو) اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس روایت کو مسترد کر دینیپ ر سب کا اتفاق ہے اس کے کئی وجوہ ہیں۔ اول یہ کہ کسی بھی فقیہہ کا یہ قول نہیں ہے کہ جب شکاری کو اپنا شکار تین دنوں کے بعد مل جائے تو وہ اسے کھا سکتا ہے۔ دوم یہ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدبو نہ مارنے تک اس کے کھا لینے کی اباحت کردی ہے جبکہ بو بدل جانے کا کسی کے ہاں بھی اعتبار نہیں ہے۔- سوم یہ کہ تمام اشیاء میں بو بدل جانے کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا بلکہ حکم کا تعلق صرف ذکاۃ کے وجود اور عدم وجود کے ساتھ ہوتا ہے۔ اگر مدت کی تاخیر کے باوجود شکار کو شرعی طریقے پر ذبح کردیا گیا ہو تو وہ پاک اور حلال ہوگا اور بدبو بدلنے کا کوئی عتبار نہیں ہوگا اگر اس کی شرعی ذبح نہ ہوسکتی ہو تو چاہے بو بدل جائے یا نہ بدلے اس کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا۔ محمد بن ابراہیمی التیمی نے عیسیٰ بن طلحہ سے روایت کی، انہوں نے عمیر بن سلمہ سے، انہوں نے قبیلہ نہد کے ایک شخص سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مقام روحاء سے گزر ہوا۔ وہاں ایک جنگلی گدھا مرا پڑا تھا جس کے جسم یمں تیر پیوست تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ (رض) سے فرمایا کہ اسے یہیں پڑا رہنے دو اس کا شکاری آ کر اسے لے جائے گا۔ اس پر قبیلہ نہد کے ایک شخص نے جو اس روایت کا راوی ہے، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ یہ جنگی گدھا میرے تیر کا نشانہ بنا ہے، آپ نے پھر اسے کھالو “ ساتھ ہی آپ نے حضرت ابوبکر (رض) کو حکم دیا کہ اسے ساتھیوں میں تقسیم کردیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تمام لوگ حالت احرام میں تھے۔- بعض لوگوں نے اس واقعہ سے یہ استدلال کیا ہے کہ اگر شکاری اپنے شکار کی تلاش میں تاخیر اور سستی کرلے اور بعد میں اسے اس کا شکار مل جائے تو وہ اس شکار کو کھا سکتا ہے۔ اس لئے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے اس کے متعلق نہیں پوچھا تھا۔ اگر اس کی بنا پر حکم میں فرق پڑ سکتا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ضرور اس نہدی سے اس بارے میں سوال کرتے۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس واقعہ میں استدلال کے اندر مذکورہ بات کی کوئی دلیل نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ عین ممکن ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس گدھے کی ایسی حالت کا مشاہدہ کیا ہو جس سے یہ معلوم ہوگیا ہو کہ اس کے زخمی ہونے کی مدت طویل نہں ہے۔ مثلاً آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے جسم سے تازہ خون بہتے ہوئے دیکھا ہو اور ساتھ تیرانداز یعنی شکاری بھی آگیا ہو۔ جس سے آپ کو یہ بات معلوم ہوگئی ہو کہ اس نے اس کی تلاش میں کوئی وقفہ نہیں ڈالا ہے اس لئے آپ نے اس سے اس کے متعلق کچھ نہیں پوچھا۔ اگر یہ کہا جائے کہ ہشیم نے ابوہشیم سے روایت کی ہے، انہوں نے ابوبثہ سے، انہوں نے سعید بن جبیر سے اور انہوں نے حضرت عدی بن حاتم (رض) سے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کی، کہ ہم شکاری لوگ ہیں ہم میں کوئی اپنے شکار پر تیر چلاتا ہے اور وہ شکار ایک یا دو راتوں تک غائب رہتا ہے۔ پھر صبح ہونے پر شکاری اس کا پیچھا کرتا ہے اور اسے تیر کے ساتھ شکار مل جاتا ہے، کیا یہ شکار اس کے لئے حلال ہوتا ہے ؟ “ آپ نے جواب فرمایا (اذا وجدت سھمک فی ولم تجدبہ اثر سبع و علمت ان سہمک قتلہ فکلہ۔ جب تمہیں اپنا تیر شکار کے جسم یمں پیوست مل جائے اور شکار کے جسم پر درندے وغیرہ کا کوئی نشان نہ ہو، نیز تمہیں یہ معلوم ہوجائے کہ تمہارے تیر سے ہی یہ ہلاک ہوا ہے تو پھر اسے کھالو) اس کے جواب میں کا جائے گا کہ یہ چیز اس بات کی موجب ہے کہ اگر کئی راتیں گزر جانے کے بعد شکاری کو اپنا شکار مع تیر مل جائے اور اسے یہ علم ہوجائے کہ شکار اس کے تیر سے ہی ہلاک ہوا ہے تو وہ اسے کھالے، جبکہ ہمیں نہیں معلوم کہ کسی اہل علم کا یہ قول ہو۔ اس لئے کہ اس میں صرف اس بات کا اعتبار کیا گیا ہے کہ شکار شکاری کے تیر سے ہی ہلاک ہوا ہے۔ نیز جب شکاری شکار یک تلاش میں تاخیر کر دے گا تو اس کے بعد اسے پتہ نہیں چل سکے گا کہ شکار اس کے تیر سے ہی ہلاک ہوا ہے حالانکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس میں یہ شرط عائد کی ہے کہ اسے اس بات کا علم حاصل ہوجائے۔ اس لئے جب اسے اس بات کا علم حاصل نہیں ہو سکے گا تو اس کے لئے اس کا نہ کھانا ضروری ہوگا۔- جب شکاری شکار کی تلاش میں تاخیر کر دے گا اور کافی عرصہ گزر جائے گا تو اسے یہ معلوم ہی نہ ہو سکے گا کہ شکار اس کے تیر سے ہلاک ہوا ہے۔ ہمارے اصحاب کے قول کی صحت پر وہ روایت دلالت کرتی ہے جو ہمیں عبدالباقی بن قانع نے بیان کی ہے، انہیں عبداللہ بن احمد بن حنبل نے، انہیں محمد بن عباد نے، انہیں محم بن سلیمان نے مشمول سے، انہوں نے عمرو بن تیم سے، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے عمرو کے دادا سے کہ انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ ہم صحرا نشین لوگ ہیں اور سدھائے ہوئے کتوں اور تیروں کے ذریعے شکار کرتے ہیں۔ ان یمں سے کون سے شکار ہمارے لئے حلال اور کون سے حرام ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب تم اپنا سدھایا ہوا کتا شکار پر چھوڑو اور چھوڑتے وقت بسم اللہ پڑھ لو، تو تمہارا کتا جس شکار کو تمہارے لئے پکڑے رکھے اسے کھالو، خواہ کتے نے اس میں سے کھایا ہو یا نہ کھایا ہو اور خواہ اس نے اسے ہلاک کردیا ہو یا ہلاک نہ کیا ہو اور جب تم شکار پر تیر چلائو تو اس کے بعد فوری طور پر اگر اسے پکڑ لو تو کھالو اور اگر وہ غائب ہوجائے تو نہ کھائو “۔- آپ نے اس شکار کے گوشت کی ممانعت کردی جو غائب ہوگیا ہو۔ یہ اس شکار پر محمول ہوگا۔ جو شکاری کی نظروں سے غائب وہ گیا اور شکاری نے اس یک تلاش میں تاخیر کردی ہو۔ اس لئے کہ اگر شکایر اس کی تلاش میں رہے اور پھر وہ مل جائے تو اس کے کھا لینے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ اس رویات میں اس شکار کی اباحت ہے جس میں سے شکار کرنے والے کتے نے بھی کچھ کھالیا ہو۔ یہ بات آپ کے مسلک کے خلاف جاتی ہے تو اس کے جو با میں کہا جائے گا کہ حضرت عدی بنذ حاتم (رض) کی روایت اس روایت کی معارض ہے۔ اس بارے میں گفتگو پہلے گزر چکی ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زید بن مہلل طائی اور عدی بن حاتم طائی یہ دونوں شکاری تھے، شکار کے بارے میں آپ سے دریافت کرتے ہیں، آپ فرما دیجیے کہ کل حلال جانور ذبح شدہ اور جن شکاری جانوروں کی تم اس طرح سکھلائی کرو جیسا کہ تمہیں اللہ تعالیٰ نے تعلیم دی ہے کہ جب کتا شکار کو پکڑے تو اس کو نہ کھائے۔- تو ایسے سکھلائے ہوئے کتے جو تمہارے لیے شکار پکڑ لائیں تو ان کو کھالو اور شکار کے ذبح کرنے یا کتے کے چھوڑنے پر اللہ کا نام بھی لیا کرو اور مردار کے کھانے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو، کیوں کہ وہ سخت عذاب دینے والے ہیں، یا یہ کہ جس وقت وہ حساب لیتے ہیں تو پھر بہت جلدی کرلیتے ہیں۔- شان نزول : (آیت) ” یسئلونک ماذا احل لہم “۔ (الخ)- طبرانی (رح) ، حاکم (رح) اور بیہقی (رح) نے ابورافع سے روایت کیا ہے کہ جبریل امین (علیہ السلام) رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تشریف لائے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آنے کی اجازت طلب کی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اجازت دے دی مگر انہوں نے آنے میں کچھ تاخیر کی، اس کے بعد جبرائیل امین (علیہ السلام) نے آپ کی چادر مبارک پکڑی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باہر تشریف لائے، جبریل (علیہ السلام) دروازے پر کھڑے ہوئے تھے، آپ نے فرمایا ہم نے تو تمہیں اجازت دے دی تھی، انہوں نے فرمایا ٹھیک ہے، مگر ہم ایسے مکان میں داخل نہیں ہوتے، جس میں تصویر یا کتا ہو، آپ نے نظر دوڑائی تو حجرہ کے کونے میں کتے کا پلا تھا، آپ نے ابورافع کو حکم دیا کہ مدینہ منورہ میں کوئی کتا نہ چھوڑو، سب کو مار ڈالو۔- تو کچھ لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس امت میں سے جس کے مارڈالنے کا آپ نے حکم دیا ہے کون سے کتے رکھنا ہمارے لیے حلال ہیں، اس پر آیت نازل ہوئی کہ لوگ آپ سے دریافت کرتے ہیں کہ کون سے جانور ان کے لیے حلال ہیں۔- اور ابن جریر (رح) نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا ہے، کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابو رافع کو کتوں کے مار ڈالنے کے لیے بھیجا، وہ مارتے مارتے مدینہ کے نواح میں پہنچے تو آپ کے پاس عاصم بن عدی اور سعد بن حشمہ اور عویمر بن ساعدہ آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان جانوروں میں سے کون سے ہمارے لیے حلال ہیں، اس پر یہ آیت نازل ہوئی ،- نیز محمد بن کعب قرظی سے روایت کیا ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کتوں کے مار ڈالنے کا حکم دیا تو صحابہ کرام (رض) نے دریافت کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس امت میں سے کون سی قسم کے جانور ہمارے لیے حلال ہیں، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔- نیز شعبی کے طریق سے عدی بن حاتم سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شکاری کتوں کا حکم دریافت کرنے کے لیے حاضر ہوا، ؤُ نے اس کو کچھ جواب نہ دیا، یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی۔- اور ابن ابی حاتم (رح) نے سعید بن جیہ سے روایت کیا ہے کہ عدی ابن حاتم طائی (رح) اور زید بن مہلل طائی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم کتوں اور باز کے ذریعے سے شکار کرتے ہیں اور آل ذریح کے کتے، نیل گائے، جنگلی گدھے اور ہر نیوں کا شکار کرلیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے مردار کو حرام کردیا ہے، اب ہمارے لیے ان میں سے کون سی چیزیں حلال ہیں، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(اِنَّ اللّٰہَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ )- اسے حساب لینے میں دیر نہیں لگتی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :18 اس جواب میں ایک لطیف نکتہ پوشیدہ ہے ۔ مذہبی طرز خیال کے لوگ اکثر اس ذہنیت کے شکار ہو تے رہے ہیں کہ دنیا کی ہر چیز کو حرام سمجھتے ہیں جب تک کہ صراحت کے ساتھ کسی چیز کو حلال نہ قرار دیا جائے ۔ اس ذہنیت کی وجہ سے لوگوں پر وہمی پن اور قانونیت کا تسلط ہو جاتا ہے ۔ وہ زندگی کے ہر شعبہ میں حلال اشیاء اور جائز کاموں کی فہرست مانگتے ہیں اور ہر کام اور ہر چیز کو اس شبہ کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں کہ کہیں وہ ممنوع تو نہیں ۔ یہاں قرآن اسی ذہنیت کی اصلاح کرتا ہے ۔ پوچھنے والوں کا مقصد یہ تھا کہ انہیں تمام حلال چیزوں کی تفصیل بتائی جائے تاکہ ان کے سوا ہر چیز کو وہ حرام سمجھیں ۔ جواب میں قرآن نے حرام چیزوں کی تفصیل بتائی اور اس کے بعد یہ عام ہدایت دے کر چھوڑ دیا کہ ساری پاک چیزیں حلال ہیں ۔ اس طرح قدیم مذہبی نظریہ بالکل الٹ گیا ۔ قدیم نظریہ یہ تھا کہ سب کچھ حرام ہےبجز اس کے جسے حلال ٹھیرایا جائے ۔ قرآن نے اس کے برعکس یہ اصول مقرر کیا کہ سب کچھ حلال ہے بجز اس کے جس کی حرمت کی تصریح کر دی جائے ۔ یہ ایک بہت بڑی اصلاح تھی جس نے انسانی زندگی کو بندشوں سے آزاد کر کے دنیا کی وسعتوں کا دروازہ اس کے لیے کھول دیا ۔ پہلے حلت کے ایک چھوٹے سے دائرے کے سوا ساری دنیا اس کے لیے حرام تھی ۔ اب حرمت کے ایک مختصر سے دائرے کو مستثنیٰ کر کے ساری دنیا اس کے لیے حلال ہو گئی ۔ حلال کے لیے ”پاک“ کی قید اس لیے لگائی کہ ناپاک چیزوں کو اس اباحت کی دلیل سے حلال ٹھیرانے کی کوشش نہ کی جائے ۔ اب رہا یہ سوال کہ اشیاء کے ”پاک“ ہونے کا تعین کس طرح ہو گا ، تو اس کا جواب یہ ہے کہ جو چیزیں اصول شرع میں سے کسی اصل کے ماتحت ناپاک قرار پائیں ، یا جن چیزوں سے ذوق سلیم کراہت کرے ، یا جنہیں مہذب انسان نے بالعموم اپنے فطری احساس نظافت کے خلاف پایا ہو ، ان کے ماسوا سب کچھ پاک ہے ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :19 شکاری جانوروں سے مراد کتے ، چیتے ، باز ، شکرے اور تمام وہ درندے اور پرندے ہیں جن سے انسان شکار کی خدمت لیتا ہے ۔ سدھائے ہوئے جانور کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ جس کا شکار کرتا ہے اسے عام درندوں کی طرح پھاڑ نہیں کھاتا بلکہ اپنے مالک کے لیے پکڑ رکھتا ہے ۔ اسی وجہ سے عام درندوں کا پھاڑا ہوا جانور حرام ہے اور سدھائے ہوئے درندوں کا شکار حلال ۔ اس مسئلہ میں فقہاء کے درمیان کچھ اختلاف ہے ۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ اگر شکاری جانور نے ، خواہ وہ درندہ ہو یا پرندہ شکار میں سے کچھ کھا لیا تو وہ حرام ہو گا کیونکہ اس کا کھا لینا یہ معنی رکھتا ہے کہ اس نے شکار کو مالک کے لیے نہیں بلکہ اپنے لیے پکڑا ۔ یہی مسلک امام شافعی کا ہے ۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ اگر اس نے شکار میں سے کچھ کھالیا ہو تب بھی وہ حرام نہیں ہوتا ، حتٰی کہ اگر ایک تہائی حصہ بھی وہ کھا لے تو بقیہ دوتہائی حلال ہے ، اور اس معاملے میں درندے اور پرندے کے درمیان کچھ فرق نہیں ۔ یہ مسلک امام مالک کا ہے ۔ تیسرا گروہ کہتا ہے کہ شکاری درندے نے اگر شکار میں سے کھا لیا ہو تو وہ حرام ہو گا ، لیکن اگر شکاری پرندے نے کھایا ہو تو حرام نہ ہوگا ۔ کیونکہ شکاری درندے کو ایسی تعلیم دی جا سکتی ہے کہ وہ شکار کو مالک کے لیے پکڑ رکھے اور اس میں سے کچھ نہ کھائے ، لیکن تجربہ سے ثابت ہے کہ شکاری پرندہ ایسی تعلیم قبول نہیں کرتا ۔ یہ مسلک امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کا ہے ۔ اس کے برعکس حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ شکاری پرندے کا شکار سرے سے جائز ہی نہیں ہے ، کیونکہ اسے تعلیم سے یہ بات سکھائی نہیں جا سکتی کہ شکار کو خود نہ کھائے بلکہ مالک کے لیے پکڑ رکھے ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :20 یعنی شکاری جانور کو شکار پر چھوڑتے وقت بسم اللہ کہو ۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عَدِی بن حاتم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ آیا میں کتے کے ذریعہ سے شکار کر سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ”اگر اس کو چھوڑتے ہوئے تم نے اللہ کا نام لیا ہو تو کھاؤ ورنہ نہیں ۔ اور اگر اس نے شکار میں سے کچھ کھا لیا ہو تو نہ کھاؤ کیونکہ اس نے شکار کو دراصل اپنے لیے پکڑا“ ۔ پھر انہوں نے پوچھا کہ اگر میں شکار پر اپنا کتا چھوڑوں اور بعد میں دیکھوں کہ کوئی اور کتا وہاں موجود ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا”اس شکار کو نہ کھاؤ ۔ اس لیے کہ تم نے خدا کا نام اپنے کتے پر لیا تھا نہ کہ دوسرے کتے پر“ ۔ اس آیت سے یہ مسئلہ معلوم ہوا کہ شکاری جانور کو شکار پر چھوڑتے ہوئے خدا کا نام لینا ضروری ہے ۔ اس کے بعد اگر شکار زندہ ملے تو پھر خدا کا نام لے کر اسے ذبح کرلینا چاہیے اور اگر زندہ نہ ملے تو اس کے بغیر ہی وہ حلال ہوگا ، کیونکہ ابتداءً شکار جانور کو اس پر چھوڑتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا نام لیا جا چکا تھا ۔ یہی حکم تیر کا بھی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

8: شکاری جانوروں مثلاً شکاری کتوں اور باز وغیرہ کے ذریعے حلال جانوروں کا شکار کرکے انہیں کھانا جن شرائط کے ساتھ جائز ہے ان کا بیان ہورہا ہے، پہلی شرط یہ ہے کہ شکاری جانور کو سدھالیا گیا ہو جس کی علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ جس جانور کا شکار کرے خود نہ کھائے بلکہ اپنے مالک کے لئے روک رکھے، دوسری شرط یہ ہے کہ شکار کرنے والا شکاری کتے کو کسی جانور پر چھوڑتے وقت اللہ کا نام لے یعنی بسم اللہ پڑھے۔